اب سر حساب برابر ہو گیا ہے۔ ویسے تو میرا احسان بڑا تھا آپ ساتھ میں لنچ بھی کروا سکتے پر چلو کوٸ بات نہیں۔
اور آپکو پتا ہے سر سوٸیزرلینڈ والی ٹیم ہمارے کام سے بہت بہت خوش ہوٸ ہے اور انہوں نے مجھے انواٸیٹ کیا ہے۔ اب آپ نے مجھے ساتھ لے کر جانا ہے۔
اوہ رٸیلی کیا آپکو سچ میں لگتا ہے کہ میں آپکو ساتھ لے کر جاٶں گا۔ میں آفس میں آپ سے اتنا عاجز آجاتا ہوں۔ اور وہاں لے جاٶں میں آپکو یہ تو وہی بات ہوٸ پھر آ بیل مجھے مار۔
سر میں لڑکی ہوں تو میں بیل نہیں ہو سکتی۔ اور گاۓ مجھے اچھی نہیں لگتی سست اور کند ذہن ہوتی ہے۔
مس عاٸشہ پلیز فار گاڈ سیک جاٸیں اور اپنا کام کریں۔ اور کافی بجھواٸیں میرے لیے اور پلیز خود بنانے سے گریز کیجیے گا۔
اوکے سر۔ معصوم سی صورت بنا کر وہ باہر آ گٸ۔
اوۓ۔۔۔۔ اوۓ۔
مس عاٸشہ یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا؟؟؟؟
ابھی تو میں نے صرف بلایا ہے بات کی ہی نہیں۔ عارف سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
جی فرماٸیں یہاں آنے کی تکلیف کیوں کی میڈم؟؟؟
اب آپ نے مجھے بلا دیا ہے جب یاد آۓ گا تب بتا دوں گی۔
وہ کہہ کر مزے سے چلی گٸ۔
آج اس نے ڈیزاٸنرز سے مل کر ڈیزاٸنز فاٸنل کر کے ظہیر کو دینے تھے دو گھنٹے وہاں مصروف رہ کر وہ واپس آٸ تھی۔
اس کا ارادہ چاۓ پینے کا تھا۔ کال کرنے کے لیے کریڈل اٹھایا اور۔۔۔۔۔۔
یا میرے اللہ جی میں کیسے بھول گٸ فوراً بھاگتی ہوٸ گٸ اور جلدی جلدی کافی بنا کر لے آٸ۔
ام رٸیلی ویری سوری سر میں بالکل بھول گٸ تھی۔
ایک دم سے وہ اندر داخل ہوٸ تھی۔
اور ظہیر کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسکو رکھ کر دو تھپڑ لگاۓ۔
اتنا اسے بتایا تھا ناک کر لیا کرے وہ میٹنگ میں مصروف تھا۔
عاٸشہ نے کافی ٹیبل پر رکھی اور سامنے بیٹھے انسان پہ اس کی نظر پڑی۔
ایک لمحے کو وہ سانس لینا بھول گٸ۔
ارتضیٰ خان سامنے ہی بیٹھے تھے۔ وہ اسے دیکھ کر حیران ہوۓ تھے مگر پھر انہوں نے نظریں پھیر دی تھیں۔
وہ معذرت کرتی جانے لگی تبھی ارتضیٰ خان بولے۔
مسٹر ظہیر خان اپنے سٹاف کو تھوڑے سے مینرز سکھا دیں۔
جہاں ظہیر خان شرمندہ ہوا تھا وہی عاٸشہ نے کرب سے آنکھیں میچ لی تھیں۔
اس کا دل مر جانے کو چاہا تھا۔
اور پھر وہ جب تک آفس میں رہی اپنے آنکھیں جھپکا کر آنسو روکتی رہی۔
ظہیر خان کا ارادہ اسکی کلاس لینے کا تھا مگر سارا دن مصروف رہنے کی وجہ سے اسکا عاٸشہ سے سامنا نہیں ہو پایا۔
عاٸشہ ٹاٸم سے پہلے ہی اٹھ کر جا چکی تھی۔ اس وقت وہ اتنی اذیت میں تھی کہ اس نے اجازت لینا بھی گوارا نہ کیا۔
وہ گاڑی راستے میں روک کر خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
ظہیر خان جب سارے کاموں سے فارغ ہوا تو اس نے انٹر کام اٹھا کر عاٸشہ کو بلانے کا کہا۔
مگر سر وہ تو جا چکی ہیں۔
جا چکی ہیں مگر کب؟؟؟؟
سر قریباً آدھا گھنٹہ پہلے۔ انکی طبیعت شاید ٹھیک نہیں تھی اسلٸیے وہ چلی گٸیں۔
اوکے ۔ اس نے فون رکھ دیا اب عاٸشہ کا نمبر ملا رہا تھا۔
عاٸشہ کا فون گاڑی میں تھا اور وہ خود گاڑی کے بونٹ پہ بیٹھ کر تالاب میں مرغابی دیکھ رہی تھی۔
ڈوبتے سورج کا عکس اور پانی میں تیرتے مرغابی۔ وہ اتنا مکمل منظر تھا کہ عاٸشہ بالکل فریش ہو گٸ۔
اندھیرا پھیلا تو وہ گھر کے لیے نکل گٸ مگر گھر آنے کے بجاۓ وہ سکندر کی طرف چلی گٸ۔
مام میں چاچو کے گھر جا رہی ہوں مجھے دیر ہو جاۓ گی۔
سکندر کے کھر پہنچی تو وہ گھر پر نہیں تھا۔ چچی جانی سکندر لالہ کب تک آٸیں گے؟؟؟
وہ سخت بور ہو رہی تھی۔
بس بیٹا آتا ہی ہو گا تم بتاٶ کیا کھاٶ گی ہمم۔۔۔
بس ایک کپ چاۓ پلا دیں کھانا مجھے لالہ باہر سے کھلاٸیں گے۔
اوکے تم بیٹھو میں لے کر آتی ہوں۔
وہ چاۓ پی رہی تھی تبھی سکندر بھی آ گیا۔
اوہ تھینکس اللہ پاک۔۔۔۔ لالہ شکر ہے آپ آ گۓ میں کب سے ویٹ کر رہی تھی۔
ویسے گڑیا جب لڑکیاں جھوٹ بولتی ہیں تو مسافروں کی ٹرینیں چھوٹ جاتی ہیں سو پلیز سچ بولو۔
لالہ میں آدھے گھنٹے سے بیٹھی ہوٸ ہوں۔
تو گڑیا آدھا گھنٹہ ہی تو ہوا ہے۔
ہاں تو آدھے گھنٹے میں تیس منٹ ہوتے ہیں۔
اچھا بابا سوری چلو آ جاٶ چلیں۔
سکندر ابھی تو تھکے ہوۓ آۓ ہو تھوڑا ریسٹ کر کے چلے جاتے۔
کوٸ بات نہیں مام میری گڑیا کے لیے میں کبھی نہیں تھکتا آ جاٶ چلیں۔
لالہ یو آر گریٹ۔
اللہ حافظ چچی جانی۔
اللہ حافظ دھیان سے جانا اور اپنا بہت سارا خیال رکھنا۔
اوکے جی جو حکم ۔۔۔ وہ چاٸنیز کی طرح تین بار جھکتے ہوۓ بولی۔
بدمعاش۔۔۔
چلو ورنہ نہیں لے کر جاٶں گا۔
اوکے اوکے آ رہی ہوں۔
سکندر کے ساتھ گھومتے وہ دن کی ساری اذیت بھلا چکی تھی۔
***********************************
مس عاٸشہ۔۔۔۔۔
سر آپ اتنی صبح صبح کیوں کال کر لیتے ہیں۔
اگر آپکی آنکھیں کھل گٸ ہوں تو میں بتا دوں کہ گیارہ بج چکے ہیں آفس تشریف لے آٸیے۔ اور ایک اور بات صبح صبح آپکو اٹھانا میری ڈیوٹی نہیں ہے۔
سس سر میں ابھی آتی ہوں۔
اور آج تو معجزہ ہوا تھا مس عاٸشہ خان آدھے گھنٹے میں آفس تھی۔
آٸندہ اگر آپ لیٹ ہوٸیں تو میں کانٹریکٹ بھول جاٶں گا اور اسی ٹاٸم آپکو فاٸر کر دوں گا۔
سر ویسے آپکو پتا ہے کہ میں اچھا کام کرتی ہوں اسی لیے آپ مجھے فاٸر نہیں کر رہے۔
کیا خاک اچھا کام کر رہی ہیں آپ تمیز آپکو ذرا سی بھی نہیں ہے۔
ٹاٸم پہ آپ کا کوٸ کام نہیں ہوتا ہے تنگ آپ مجھے الگ کرتی ہیں۔
اوکے سر جب آپ نے مجھے اتنی باتیں سنا لی ہیں تو میں نے بھی آفس نہیں آنا اب بس۔۔۔
اوکے فاٸن مجھے بھی آپکی ضرورت نہیں ہے۔
میں آپکی جگہ آپ سے بہتر اور ایکسپیریسنڈ دس لوگ ہاٸر کر سکتا ہوں۔
اوکے باۓ میں نے بھی آفس نہیں آنا۔
وہ زور سے دروازہ بند کرتی چلی گٸ۔
اِل مینرڈ۔۔۔۔۔۔
********************************
دو دن ہو چکے تھے عاٸشہ کو جاب چھوڑے۔
وہ آفس ٹاٸم کو مِس کر رہی تھی۔ خود کو پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں۔
مجھے بھی انکی باتیں سننے کا کوٸ شوق نہیں۔
مگر کوٸ تو تھا جو بے چین تھا اور وہ اس دل کی بے چینی دور کرنے سے قاصر تھی۔
آخر تنگ آکر اس نے شاپنگ کا سوچا۔
فل والیوم کر کے وہ میوزک چلا رہی تھی۔ ڈھیروں شاپنگ کرنے کے بعد وہ نکل رہی تھی کہ کسی سے ٹکرا گٸ۔
آپ یہاں۔
کیوں صرف تم ہی یہاں ہو سکتی ہو۔ ظہیر خان گاگلز اتارتے ہوۓ بولا۔
اس کی گاڑی خراب ہو گٸ تھی سو وہ وقت گزاری کے لیے مال میں آگیا تھا۔
اور اب عاٸشہ سے ٹکرا کر اس کا سارا سامان گرا چکا تھا۔
ہونہہ یہ نہیں کہ اپنی غلطی مان کر سامان اٹھا دیں مگر نہیں لاڈ صاحب کی عزت گھٹ جاۓ گی۔
مس عاٸشہ کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہیں کہ میں یہ سارا سامان اٹھاوں گا اور آپ سے معذرت کروں گا۔
وہ مسکراتے ہوۓ بولا۔
جی نہیں میرا ایسا کوٸ ارادہ نہیں ہے میں خود کر لوں گی۔
وہ سامان اٹھا کر چل دی کہ اچانک سے اس کے ہاتھ سے ظہیر نے شاپنگ بیگز اچک لیے۔
فکر مت کریں میں پہلے ہی آپکا شکریہ ادا کر رہا ہوں اسلیۓ اٹھا لیے۔
شکریہ مگر کس لیے۔
آپ مجھے ڈراپ کریں گی۔
میں آپکی سیکرٹری نہیں ہوں اور میں نے آپ سے ہیلپ بھی نہیں مانگی۔
مگر میں نے تو کر دی نہ سو کم فاسٹ۔
وہ تیز تیز چل دیا زندگی میں پہلی دفعہ عاٸشہ خان کو چڑانے کا موقع ملا تھا وہ کیسے مِس کر سکتا تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...