(Last Updated On: )
اب صبا کو خاک یا وحشت بیانی چاہیئے
مٹنے والے کی اسے کوئی نشانی چاہیئے
بڑھ کے خود سیلاب لے لے گا اسے گرداب میں
کب زمیں کا اس کو اقرار زبانی چاہیئے
سکھ میں آنکھیں نم نہ ہوں اور ہونٹ بھی سوکھے نہ ہوں
اس قدر سنجیدگی اب ہم میں آنی چاہیئے
کتنے ہنستے گھر جلے روشن کتابوں کی طرح
اب ہمیں بھی آگ کی کچھ مہربانی چاہیئے
اک نئی پُر خار وادی، اک نئی فردوسِ خواب
اس لیے اسے دل خوشی ہر ایک فانی چاہیئے
گُل رخوں کی بزم میں رقصاں رہے فِتنہ گری
دولتِ دل اس طرح اسلمؔ لٹانی چاہئیے
٭٭٭