اکولہ
اب کہاں وہ پہلے جیسی پاس داری ہائے ہائے
میرے ہی سالے نے لی میری سپاری ہائے ہائے
کیا کہوں کیسے کہوں، سکتہ ہے طاری ہائے ہائے
اس برس بھی پاؤں سمدھن کا ہے بھاری ہائے ہائے
ایسی ماری گل بدن نے دل کے ٹکڑے ہو گئے
کس قدر تھی تیز نینوں کی کٹاری ہائے ہائے
بن سنور کر شہر میں جس وقت ہم داخل ہوئے
کوئے جاناں میں ہوئی چلّہ پکاری ہائے ہائے
برف باری میں پھنسا ہوں میں یہاں کشمیر کی
چھوڑ کر ظالم گئی کنیا کماری ہائے ہائے
عشق کا جو بھوت تھا یک لخت غائب ہو گیا
اپنی جوتی اس نے میرے سر پہ ماری ہائے ہائے
تھے کنوارے تو مزہ تھا، عقد ہو جانے کے بعد
آ گئی میک اپ کی ہم پہ ذمہ داری ہائے ہائے
ایسے ویسے بھی بہت اترا رہے ہیں آج کل
ہم کو بھاری جا رہی ہے انکساری ہائے ہائے
چلمنیں اب پہلے جیسی ہیں کہاں ساحر میاں
ختم ہوتی جا رہی ہے پردہ داری ہائے ہائے
ہزل
بینڈ باجا تیرا بجا دیوں کیا
نوکری والی ہے جمادیوں کیا
دور ہو جائے گا یہ دبلا پن
شہد کی مکّھیاں بھڑا دیوں کیا
اس مداری کے ہاتھ کی ہڈّی
کھوپڑی پر تری گھما دیوں کیا
تم جو آئے اجالا پھیل گیا
زیرو لائٹ کو اب بجھا دیوں کیا
جب بھی ٹکلا کوئی نظر آئے
یوں مچل جائے دل، بجا دیوں کیا
میں نے جوتا نیا خریدا ہے
پیٹھ ساحر تری کھجا دیوں کیا