آزر درانی نے سرخ کور والی فائل پر دوبارہ تفصیلی نظر ڈالی اور طویل سانس لیتے ہوئے اپنے سامنے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھے حسن مجتبٰی کو دیکھا ۔جو عادتاً دو انگلیوں کے درمیان پین گھماتا کھڑکی سے نظر آنے والے لان کو دیکھ رہا تھا ۔اسکے چہرے پر بے پروا سا تاثر تھا۔
“ہوں! دیکھ لی ہے میں نے فائل!” انہوں نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ۔تو اسنے اپنی گردن موڑ کر انہیں دیکھا۔اسکی بھوری آنکھوں میں وہی تیکھا پن تھا جو مقابل کو مرعوب کر دیا کرتا تھا ۔
“اچھا انٹیرئیر ہے آپکے آفس کا!” اسنے ستائشی انداز میں اپنے اطراف دیکھتے ہوئے کہا تو وہ ایک گہری سانس لے کر رہ گئے ۔اپنے سامنے بیٹھے اس اکھڑ رپورٹر کو سمجھنا انکے بس کی بات نہیں تھی۔آج سے پہلے انہوں نے اسے کئی فون کال کی، اس سے ذاتی طور پر ملنے کی کوشش کی مگر وہ ہر دفعہ انکار کر دیتا تھا ۔اور وہ خود انکے پاس چل کر این سی پی پارٹی کی ساری کرپشن ڈٹیلز لے کر آیا تھا تو انہیں حیران تو ہونا ہی تھا ۔
“ان سب سے کیا مقصد ہے تمہارا؟” انہوں نے پوچھا ۔انکا اشارہ فائل کی جانب تھا۔
“سمپل سی بات ہے ۔میں اس دفعہ کے الیکشن میں این سی پی پارٹی کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا ۔”
“مگر اس میں پارٹی کی بدعنوانیوں اور اسکے اپنے عہدے کے غلط فائدہ اٹھانے کی محض رپورٹ ہے۔ان میں ثبوت کہاں ہے؟ ای ڈی تو ثبوت مانگتی ہے۔” “انہوں نے اپنے سوال کو مختلف انداز میں دہرایا تو حسن نے اپنا دایاں ابرو اٹھا کر انہیں دیکھا ۔
“سیریسلی! آپ مجھے بیوقوف سمجھتے ہیں یا خود کو؟ مجھ سے زیادہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس طرح کی خبروں کا کیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ظاہر ہے آپ پریس کانفرنس کرینگے اور بر سرِ اقتدار پارٹی کی ان ساری کمیوں کو سامنے لائینگے۔اور اسکے بعد اس anti incumbency کا کیا حاصل کیا جا سکتا ہے یہ آپ کے اپبے گٹس پر منحصر ہے ۔”میز پر دونوں ہاتھ رکھے اسنے قدرے جھک کر کہا۔
آزر درانی کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری اور انہوں نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔
” میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہو؟ ”
” سیاستدانوں کی دوستیاں ان کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے ۔”اسکے تیکھے جواب پر انکی مسکراہٹ سمٹی۔
” حسن مجتبٰی! میری پارٹی جوائن کروگے؟ میں تمہیں تمہاری مرضی کی سیٹ سے ٹکٹ دونگا۔”
“فی الحال میں جو کر رہا ہوں اس سے خوش ہوں ۔”
” تو یہ فائل لے کر میرے پاس کیوں آئے ہو؟ ابھی الیکشن کا ہنگامہ برپا ہے ۔تم اس کے ذریعے اپنے شو کی ٹی آر پی بڑھا سکتے ہو۔” انہوں نے کہا ۔وہ واقعی اس سے اپنے پاس آنے کا مقصد جاننا چاہتے تھے ۔
” میرا خیال ہے کہ آپ کو اپنی اپوزیشن کی کرسی سے بہت محبت ہو گئی ہے ۔اسلئے آپ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے ۔”وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا اور فائل کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا۔” اوکے میں یہ فائل کسی تیسری پارٹی کو دے دونگا۔”
“تم بے فکر رہو ۔اگلی حکومت ہماری بنیگی۔” انہوں نے فائل کی جانب اسکا ہاتھ پہنچنے سے پہلے فائل اپنی جانب کھینچ لی۔
– – – – – – – – –
شام ڈھل کر جگمگاتی رات میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ویک اینڈ ہونے کی وجہ سے فٹبال اسٹیڈیم میں ہو رہے چیرٹی میچ کا لطف اٹھانے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے ۔سیڑھی نما نشستوں پر وہ دونوں اوپر کی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے ۔گو گرین لکھی سفید ٹی شرٹ اور کیپ لگائے وہ دونوں میچ دیکھنے آئے تھے۔فٹبال ان دونوں کی کمزوری تھی اور یہ اسٹیڈیم ان دونوں کی پختہ دوستی کا گواہ تھا۔تب ہی گول کیپر نے ایک شاندار گول کا دفاع کیا تھا۔افہام نے فضا میں ہاتھ بلند کر کے داد دی اور پھر حسن کی جانب دیکھا جسکی ٹیم ہار رہی تھی ۔
“دیکھ لینا اس دفعہ پھر میری ٹیم کی جیت ہوگی۔” اسنے چڑانے والے انداز میں کہا تو وہ سر جھٹک کر رہ گیا ۔افہام کو ہنسی آ گئی ۔اپنی ہنسی روکتے ہوئے اسنے اپنا اسمارٹ فون آن کر کے اسکی اسکرین اسے دکھائی ۔جہاں داور کی فوٹیج آرہی تھی۔
“یہ کب کی فوٹیج ہے؟” حسن کے تاثرات فوراً بدلے اور وہ اسکرین کی طرف متوجہ ہو گیا۔اسکرین پر داور کی ہر حرکت سے اضطراب ظاہر ہو رہا تھا اور وہ غصے میں اپنے سامنے موجود چیزوں کی توڑ پھوڑ کر رہا تھا ۔
“انابہ نے سیکیورٹی ٹیم میں سے جس بندے کی کمزوری نکال کر دی تھی وہ کافی کام کا لڑکا نکلا ہے ۔اسکی مدد سے میں ڈیٹا بیس تک پہنچ سکتا ہوں ۔یہ فوٹیج بھی اسی کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے ۔” افہام کے بتانے پر اسنے اپنا سر ہلایا۔
“ایک دفعہ داور کے راستے سے ہٹ جائے اسکے بعد ہی تم ڈیٹا بیس تک جانے کی سوچنا۔میں تمہیں اسکے ہاتھوں کوئی نقصان پہنچتے نہیں دیکھنا چاہتا ہوں ۔جلد بازی میں کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔”اسنے تاکید کی ۔
” تم پریشان مت ہو۔داور اپنے جرم کا راز فاش ہونے کے خوف سے کوئی نا کوئی غلطی ضرور کریگا اور ہمیں بس اسی لمحے کا انتظار کرنا ہے۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمیں زیادہ صبر نہیں کرنا پڑیگا۔”
” ہمیں اور کتنا صبر کرنا ہوگا افہام! سچ بتاؤں تو اب میں تھکنے لگا ہوں اس انتظار سے۔اٹھارہ سالوں سے میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب کریم یزدانی میرے سامنے ہوگا اور میں اس سے ہر جرم کا حساب لونگا۔”
افہام نے اسے دیکھا اور اپنا دایاں ہاتھ بڑھا کر اسکی پشت پر رکھا۔
” وکی! تم نے ان سالوں میں بہت انتظار کیا ہے ۔بہت مشکلوں سے گزرے ہو۔ان سخت دنوں کا تم نے جس ہمت و حوصلہ سے سامنا کیا ہے ایسا کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا ۔تو کیا تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے ساتھ کبھی انصاف نہیں ہوگا؟ کیا غلط لوگوں کو انکے کئے کی سزائیں نہیں ملتیں؟ تم انتظار کرو… صبر کرو.. سب کچھ اچھا ہوگا ۔”اسنے اسکی پشت کو نرمی سے تھپکتے ہوئے کہا ۔اسکے الفاظ نے جیسے حسن کے جلتے ہوئے زخموں پر مرہم کا کام کیا تھا ۔اسکے چہرے پر سکون پھیلتا گیا۔
تب ہی اسٹیڈیم میں زور کا شور گونجا۔وہ دونوں چونک کر گراؤنڈ کی طرف متوجہ ہوئے ۔جس ٹیم کو حسن سپورٹ کر رہا تھا اسنے بھی ایک گول کر کے اسکور برابر کر لیا تھا۔افہام کے چہرے پر مایوسی آ گئی اور اسنے ناراضگی سے حسن کی جانب دیکھا جو دونوں ہاتھ اوپر ہاتھ اوپر کر کے تالیاں بجاتا ہوا اپنی ٹیم کو چئیر کر رہا تھا ۔اسکے چہرے پر خوشی دیکھ کر بے اختیار ہی افہام کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی ۔
– – – – – – – – –
نیلی کار معلوم کی رفتار سے چکنی سڑک پر پھسلتی جا رہی تھی ۔ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے حسن مجتبٰی کی نظریں ونڈشیلڈ پر مرکوز تھیں ۔تب ہی وائبریٹ ہوتے اسکے موبائل نے اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ۔افہام کی کال آ رہی تھی ۔اسنے ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ سنبھالے دوسرے ہاتھ سے کان میں لگا بلو ٹوتھ آن کیا۔
“ہیلو وکی!” دوسری جانب سے افہام کی گھبرائی ہوئی آواز آئی ۔
” ہاں بولو افہام ۔کیا بات ہے؟ “اسنے پریشان ہو کر کہا۔اسنے کار کی رفتار کم کر دی تھی۔
” یار! ہم سے بڑی غلطی ہو گئی ہے ۔ہم نے بالکل اچھا نہیں کیا۔یہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔”وہ بے ربطی سے بولا۔
اسکی بات سن کر وہ بھی پریشان ہو گیا تھا ۔وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اس وقت افہام کس ذہنی کیفیت میں ہے۔
“افہام ایک دفعہ خود کو پر سکون کرو اور اسکے بعد مجھے بتاؤ کہ کیا بات ہے؟ ”
دوسری جانب چند لمحے خاموشی رہی تھی جیسے وہ خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
“وکی! انابہ کو داور کے لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں ۔” افہام نے اسے اطلاع دی تھی یا اسکے سر پر کوئی طاقتور بم پھوڑا تھا۔اسکا پیر بے اختیار بریک پر پڑا۔
” کک… کیا کہہ رہے ہو؟ یہ تمہیں کس نے بتایا؟” اسنے کپکپاتی آواز میں پوچھا اور اپنی کانپتی ہوئی انگلیاں اسٹیرنگ پر جمائیں ۔
” نیوکلیس مال کی پارکنگ کی سی سی ٹی وی یہ ریکارڈ ہوا ہے ۔میرا ایک دوست وہاں کام کرتا ہے ۔اسی نے بتایا ۔ہم کیا کریں وکی؟ اگر… اگر انابہ کو کچھ ہو گیا تو…. ”
” انابہ کو کچھ نہیں ہوگا۔” حسن نے بے اختیار اسکی بات کاٹی۔”انابہ کو کچھ نہیں ہو سکتا افہام!” اسنے اس سے زیادہ خود کو تسلی دی ۔
” وکی پلیز اسے ڈھونڈو ورنہ ہم خود کو کبھی معاف نہیں کر پائینگے ۔ہمارے خطرناک کھیل نے اسے اس مشکل میں ڈالا ہے۔”
” ہم ڈھونڈ لینگے اسے۔ ایسے کس طرح ہم اسے مشکل میں چھوڑ سکتے ہیں ۔تم… تم بالکل فکر مت کرو۔”اسنے لرزتی ہوئی انگلیوں سے بلوٹوتھ آف کر کے اپنا سر اسٹیرنگ پر گرا لیا۔آنکھوں کے سامنے گھنا اور سیاہ اندھیرا چھا گیا تھا ۔کوئی چیخ چیخ کر اسے احساس دلا رہا تھا کہ ان سب کا ذمہ دار صرف وہی ہے ۔وہ کیوں اپنے انتقام کے لئے اتنا اندھا ہو گیا تھا کہ اسے سامنے کی بات بھی نہیں نظر آ سکی۔یا پھر اسنے جانتے بوجھتے انابہ کو اس خطرناک صورتحال میں دھکیلا تھا۔وہ جانتا تھا کہ داور کے لئے یہ معلوم کرنا کوئی مشکل نہیں تھا کہ ای میل کون کر رہا ہے ۔مگر پھر بھی وہ انابہ کا استعمال کرتا رہا۔اسنے ایسا کیوں کیا؟ اسنے شدت ضبط سے اپنی سرخ آنکھیں بند کیں۔مگر اسنے تو یہی سوچا تھا کہ اپنے جرم کو چھپانے کے لئے وہ کوئی غلطی کریگا اور وہ لوگ آسانی سے اسے اپنی گرفت میں لے سکینگے۔مگر سارے پلانز دھرے رہ گئے تھے ۔ساری بازی الٹی جا چکی تھی ۔زرا سی مہلت دئیے بغیر وہ انابہ کو اپنے ساتھ لے جا چکا تھا اور وہ کچھ نہیں کر پایا ۔اسنے بے بسی سے اسٹیرنگ پر ہاتھ مارا۔اگر… اگر اسے معمولی سی بھی گزند پہنچی تو کیا وہ کبھی خود کو معاف کر پائیگا؟ انابہ کو آنے والی چھوٹی سی خراش بھی اسے ساری عمر اس سے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑیگی۔کاش وقت تھوڑا سا پیچھے چلا جائے ۔بس تھوڑا سا.. اور وہ انابہ کو ای میل کرنے سے روک دے اور اسے کہہ دے کہ اسے اسکی مدد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔وہ اپنے انتقام کی آگ کی آنچ اس تک نہیں آنے دینا چاہتا۔کاش وہ اس سے ایک دفعہ کہہ پاتا کہ حسن مجتبی انابہ سلمان کی معمولی سی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتا ۔کیونکہ اسے اس سے محبت ہے ۔ہاں یہ محبت ہی تھی جس نے اسکے مقاصد کو پیچھے دھکیل دیا تھا اور ابھی کچھ اہم تھا تو وہ انابہ کا تحفظ تھا ۔سر اٹھاتے ہوئے اپنی مٹھیاں بھینچ کر اپنے شل ہوتے اعصاب پر قابو پانے کی کوشش کی اور اپنے موبائل پر انابہ کا نمبر ٹریس کرنے لگا۔تھوڑی دیر کی کوشش کے بعد نیویگیشن میپ پر چمکتا ایک ننھا نقطہ اسے انابہ کا اشارہ دینے لگا۔پاگلوں کی طرح اسٹیرنگ گھماتے ہوئے اسنے کار اوور برج کی طرف موڑ دی ۔ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید ماتھے پر کٹے بالوں والی لڑکی وہاں اسکا انتظار کر رہی تھی۔ایک مدھم آس تھی جو اسے وہاں کھینچ کر لے جا رہی تھی ۔اس وقت بس اسے یہ احساس تھا کہ وہاں انابہ تھی، اسکے علاوہ کوئی دوسرا خیال نہیں تھا کہ اسے انابہ کے پاس ہونا تھا۔سارے انتقام، مقصد پس پشت چلے گئے تھے ۔مقصد بس یہی رہ گیا تھا کہ اسے انابہ کی حفاظت کرنی ہے ۔وہ تیز رفتاری سے کار بھگاتا اوور برج تک پہنچا تھا۔نقطہ اب بھی چمک رہا تھا ۔
کار سے اتر کر وہ موبائل ہاتھ میں تھامے بد حواسی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔آتی جاتی تیز کاروں اور چمکیلی دھوپ کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے انابہ کا سراغ ملتا۔پل کی ریلنگ کے پاس اسے ایک موبائل پڑا نظر آ گیا تھا۔وہ انابہ کا ہی موبائل تھا جسکی اسکرین ٹوٹ چکی تھی ۔کسی بیش قیمتی متاع کی طرح موبائل جیب میں ڈالتا وہ وہیں تپتی دھوپ میں سڑک پر بیٹھ گیا ۔گردن نیچی کئے وہ لب بھینچے ساری امید کھو چکا تھا ۔مایوسی کے گھنے اندھیرے نے اسے نگل لیا تھا۔ذہن بالکل ماؤف ہو کر رہ گیا تھا ۔دائیں ہاتھ کی مٹھیوں کو بے بسی سے زمین پر مارتا وہ خود کو سزا دینے لگا۔تب ہی اسکا موبائل وائبریٹ ہوا۔اسنے شکستگی سے موبائل کان سے لگایا۔
“افہام! آئی ایم سوری یار! میری وجہ سے انابہ…” اسنے گہری سانس لے کر اپنے آنسو اندر اتارے۔کیونکہ وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتا تھا ۔مگر وہ اس بات سے لا علم تھا کہ آنسو بہانے والے کمزور نہیں ہوتے بلکہ حوصلہ کھونے والے کمزور ہوتے ہیں ۔اور اس وقت حسن مجتبٰی کمزور پڑ گیا تھا ۔
” وکی! وکی وخد کو سنبھال یار! “پہلے کے مقابلے میں اس وقت وہ مضبوط لگ رہا تھا ۔
“میں ہوں نا! تم پریشان مت ہو۔میں نے اس کار کو ٹریس کرایا ہے ۔جی ٹی روڈ کے آگے اسکا سراغ نہیں ملتا ۔مجھے یقین ہے کہ وہ وہیں ہوگی۔” وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولا۔
“جی ٹی روڈ تو ایک بڑا علاقہ ہے ۔تم جانتے ہو کہ ہمیں اسکی صحیح لوکیشن ڈھونڈنے میں کافی وقت لگ جائیگا۔ہم کیا کریں افہام؟ “آج سے پہلے جو اسے ہر مسئلے کا حل دیتا آیا تھا آج وہی اس سے مدد مانگ رہا تھا ۔
” میں جانتا ہوں کہ انابہ کا پتہ کون بتا سکتا ہے؟ تم جی ٹی روڈ پہنچو۔مگر خدا کے لئے کوئی پیشگی قدم مت اٹھانا۔بلکہ وہیں رک کر میرا انتظار کرنا۔”افہام نے تاکیدی انداز میں کہتے ہوئے کال کاٹ دی ۔وہ بوجھل قدموں سے کار کی طرف بڑھ گیا تھا ۔
– – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...