سلطان جمیل نسیم(کینڈا)
(مشفق خواجہ کی وفات پر لکھا گیا)
ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔مجھے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی۔ میں نے یہ سوچ کر کوئی توجہ نہیں دی کہ ان کے ہی کسی عزیز کا فون ہوگا۔۔ ایک دو منٹ تک باتیں کرنے کے بعد وہ میرے کمرے میں آئیں اور آہستہ سے کہا۔ مشفق خواجہ صاحب کا فون ہے۔ میں نے رسیورکان سے لگایااورخواجہ صاحب کے انداز میں کہا۔۔ فرمائیے۔تو ہنسی کے ساتھ آواز آئی۔
’’حضرت کسی کتاب سے اپنی بیگم کا صدقہ اتاریئے وہ مسلسل آپ کی اتنی تعریف کئے جارہی تھیں جتنی کسی ناقد نے آپکے افسانوں کی نہیں کی ہوگی۔‘‘ اتنا کہہ کر ذرا سا توقف کیا اور اِس سے پہلے کہ میں کچھ کہوں، بولے’’ غالباَ انہوں نے آپ کے افسانے نہیں پڑھے ہیں۔‘‘
’’ جناب میرے افسانے پڑھنے کے بعد ہی تعریف ہورہی تھی ‘‘
’’میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ جس طرح آپکے مجموعے کے دیباچہ نویس اور فلیپ نگار حضرات نے بغیر افسانے پڑھے تعریف کی ہے آپ کی بیگم بھی اُن ہی کی صف میں ہیں‘‘
۱۹۸۵میں میرے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’کھویا ہوا آدمی‘‘ شائع ہوا تھا۔ جس کا دیباچہ مشفق خواجہ ہی نے لکھا تھا۔
۱۹۵۸میں اختر انصاری اکبرآبادی سے ملنے کے لئے کراچی سے ایک لڑکا آیا۔ تعارف ہوا، نام مشفق خواجہ ہے۔ کام ا نجمن ترقی اردو سے وابستہ ہیں۔۔ مجھے یاد آیا دو چار برس پہلے ایک رسالہ’’تخلیق‘‘ کے نام سے نکالتے تھے جس کے لئے میں نے افسانہ بھیجا تھا مشفق خواجہ کو یاد تھا۔مسکراکے کہا ’’جناب جس شمارے میں آپ کا افسانہ تھا وہ پریس جا ہی نہیں سکا۔۔‘‘
ہم لوگ اختر صاحب کے پاس عام طور سے شام کے وقت جاتے تھے، اُ س دن گئے تو مشفق خواجہ سے ملا قات ہوئی، نواب شاہ سے محمد مطاہر فرشوری بھی آئے ہوئے تھے اور اُن ہی کے ساتھ مشفق خواجہ کو کہیں جانا تھا ۔اِس لئے ملاقات نہایت سرسری سی ہوئی،اس کے بعد کئی بار یہ معلوم ہوا کہ مشفق خواجہ کسی ضروری کام سے آئے تھے وہ کام نمٹا یا اور واپس چلے گئے۔
اور یہ ۱۹۵۹کی بات ہے۔ جب بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اختر انصاری اکبرآبادی، مدیر ماہ نامہ ’’ نئی قدریں‘‘حیدرآباد سندھ کی دعوت پر اردو کالج کے لئے مالی اعانت حاصل کے سلسلے میں ،حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص اور نواب شاہ کے دورے پرآنے کی حامی بھر لی تھی۔۔۔۔ افوہ․․․․․کس قدر بیچینی سے ہم نے بابائے اردو کے آنے کا انتظار کیا تھا او ر ان کے استقبال کی تیاریوں میں کس انہماک کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ اللہ اللہ کرکے وہ دن آیا، کراچی ایکسپریس کے آنے سے بہت پہلے بابائے اردو کے خیر مقدم کے لئے سندھی اور اردو کے سارے ہی اہل قلم ہارپھول لئے حیدرآباد کے اسٹیشن پر موجود تھے ،گاڑی جب پلیٹ فارم پر پہنچی تو’’ اُدھر ہیںِ‘‘کہتے ہوئے اختر انصاری صاحب ایک طرف دوڑ پڑے۔ سب لوگ اُنکے پیچھے چل دیئے ،جب کمپارٹمنٹ کے قریب پہنچے ۔ تو سب سے پہلے جس کی صورت نظر آئی ۔ وہی پچیس چھبیس سال کا جواں سال شاعر مشفق خواجہ تھا۔۔از سرِ نو تعارف ہوا تو پتا چلا نجمن ترقی اردو کے رسالے ’’قومی زبان‘‘ کے ایڈیٹر ہوگئے ہیں اور انجمن سے ابنِ انشاء کی طرح پوریے طور سے وابستہ بھی ہیں․․․․لیکن ایک عجیب بات میں نے دیکھی کہ شاعر ہونے کے باوجود کسی شعری نشست میں شرکت نہیں کی․․․․․معلوم ہوا کہ انجمن ترقی اردو میں ابنِ انشا کی جگہ آئے ہیں تو ابن انشا ہی کی طرح کسی مشاعرے میں شریک نہیں ہوتے․․․․اور بات چیت میں بھی وہی شوخی ، لطافت ا و رظرافت کی چاشنی ہے جو ابن انشاکی خصوصیت ہے۔۔۔
ایک مرتبہ جگت استاد اختر انصاری اکبرآبادی حیدرآباد اور میر پور خاص میں دیگر اکابرِادب کے ساتھ ابنِ انشاء کو بھی لے آئے تھے۔۔جہاں انھوں نے ایک مشاعرے میں اپنی غزل اتنی بے دلی کے ساتھ سنائی تھی جیسے کسی دوسرے کا کلام سنا رہے ہوں۔۔۔۔اب اتفاق دیکھیئے کہ میر پور خاص ہی کے ایک مشاعرے میں استاد کے حکم پر مشفق خواجہ نے بھی اپنی غزل سنائی ، جس کا ایک شعر مجھے آج بھی یاد ہے
کوئی پیغامِ سکوں تیری نظر نے نہ دیا زندگی چھین لی اِس طرح کہ مرنے نہ دیا
اِ س شعر کے دوسرے مصرعے کو میرے دوست سید ارتضا عزمی بہت پسند کرتے تھے اور اسی طرح میں انھوں خود بھی ایک غزل کہی تھی ، غزل کہنے کے بعد یہ بھی کہاتھاکہ خواجہ جیسا ایک مصرع بھی نہیں ہو سکا، حالانکہ عزمی صاحب حیدرآباد کے دوچار اچھے غزلگو شعراء میں شمار ہوتے تھے۔
انجمن کی ملازمت،بابائے اردو کی قربت،انجمن میں مشہور و معروف ادیبوں سے صحبت، نادرو نایاب کتابوں کی رفاقت نے خواجہ صاحب کو ادبی تحقیق کی طرف مائل کیا۔۔اب وہ صرف ماہنامہ ’’قومی زبان ‘‘کے مدیر نہ تھے بلکہ سہ ماہی ’’اردو‘‘ کو بھی ایڈٹ کرتے جس کے نگرانِ اعلیٰ خودبابائے اردو تھے اور جوخالص علمی اور تحقیقی رسالہ تھا۔
جب انجمن سے وابستگی ختم کی اور یہ بات سن ستر (۷۰) کے ابتدائی دوتین برسوں کی بات ہے، اُس وقت تک ادب کے اعلیٰ اور سنجیدہ حلقے میں یہ اعتبار قائم ہو چکا تھاکہ مشفق خواجہ محققین کی صف میں جگہ بنا چکے ہیں․․․․اور ایک عشرے کے بعد وہ جگہ اورمستحکم ہو گئی۔
میری ملازمت کے زمانے کی بات ہے۔۔اسٹیشنری ڈپارٹمنٹ میں ایک معمولی افسر ہوتے تھے۔۔اُسی محکمے سے ریٹائر ہوئے․․لیکن ایک آعلیٰ افسر کی حیثیت سے․․․․ہم لوگ حیرت کرتے تھے کہ ایک کرسی پر بیٹھے بیٹھے کتنی ترقی کرلی․․․․تقریباَ یہی صورتِ حال مشفق خواجہ کی تھی۔۔اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے وہ ہر ادیب سے رابطہ قائم رکھے ہوئے تھے۔خواہ وہ ادیب کسی شہر یا کسی ملک کا ہو۔خواجہ صاحب ادب اور ادیبوں کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتے تھے۔
اِ س بات سے سب ہی آگاہ ہیں کہ تخلیقی اہلِ قلم کے مقابلے میں محققین کی عمومی شہرت کم ہوتی ہے، اِس کا ازالہ مشفق خواجہ نے یوں کیا کہ جب کراچی سے جماعتِ اسلامی کے ترجمان اخبار ،روز نامہ’’جسارت‘‘ کا اجراء ہوا تو اُس میں ’’خامہ بگوش‘‘ کے عنوان سے ہر ہفتے ایک کالم لکھنا شروع کردیا۔ کالم وہ پہلے بھی لکھتے رہے تھے لیکن ان کے قلمی نام کو شہرت ’’ جسارت‘‘ کے کالموں سے ملی ۔جب مولانا صلاح الدین نے جسارت سے علیحد گی اختیار کرکے اپنا ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ نکالنا شروع کیا تو اُس کے لئے لکھنے لگے۔ ادب سے ایسی وابستگی تھی کہ ہر صنفِ ادب کی تاریخ سے اصول وقوائد،اسرارو رموز سے واقف تھے ، چناچہ اپنے شگفتہ انداز میں اِس طرح ادبی تخلیقات اور شخصیات پر لکھتے تھے کہ ہر جملہ طنز و ظرافت کا اعلیٰ نمونہ بن جاتا تھا۔ بعض شاعر اور ادیب ناراض بھی ہو جا تے تھے اور یہی حال ان کا گفتگو میں تھا۔ایک واقعہ یاد آگیا۔
اگست ۱۹۸۵میں اختر انصاری اکبرآبادی کا انتقال ہوا۔ مجھے اور دیگر دوستوں کو اطلاع دی۔ اخبارات کو خبریں بھجوائیں۔۔۔پھر طے کیا ہم کچھ لوگ اُن کی تدفین میں حیدرآبادجاکر شریک ہوں․․․․․․وہاں پہنچے․․․․صابر وسیم حیدرآباد کے نوجوان شاعر اختر انصاری اکبرآبادی کی میت لینے بھاولپور گئے تھے جہاں ایک ہوٹل میں اُن کا انتقال ہوا تھا اور صابر وسیم نے ہی تجہیز و تکفین کی تمام تر ذمہ داری اُٹھائی تھی ،ہم لوگ قبرستان سے واپس صابر وسیم کے یہاں آکر بیٹھے ہی تھے کہ مشہورمزاح نگار عطاالحق قاسمی کے بڑے بھائی ضیاالحق قاسی جو اُس وقت حیدرآباد میں ہی کوئی کام کرتے تھے اورصابر وسیم کے پڑوس میں ہی رہتے تھے، اپنی مرتب کی ہوئی ایک کتاب ، سب لوگوں کو دینے کے لئے لے آئے، اس کتاب میں صدر پاکستان جنرل ضیاالحق کی تعریف میں مختلف شعراء کی نظمیں یکجا کی گئیں تھیں، اپنے اور ضیاء الحق کے نام کی رعایت سے کتاب کا نام ’’ضیائے حق ‘‘رکھاتھا، سب سے پہلے یہ کتاب مشفق خواجہ کو پیش کی گئی۔ ۔۔۔ خواجہ صاحب نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا ۔
’’ معاف کیجئے۔ہم سے ایک دن میں دو جنازے نہیں اُٹھائے جائیں گے‘‘
اس بات کے تقریباَ دو برس کے بعد جب میں لاہور گیا اور ’’مجلس ترقیء ادب‘‘کے دفتر میں محترم احمد ندیم قاسی کے نیاز حاصل کرنے کے لئے حاضر ہوا تو وہاں عطا اور امجد اسلام امجد بھی آگئے ۔ اِن سب کی موجودگی میں مشفق خواجہ کا فقرہ دہرایا۔سب نے لطف لیا۔
ایک بات اور یاد آگئی۔۔ باہر سے کوئی بھی اہلِ قلم آئے وہ مشفق خواجہ کے ہاں حاضری دینا لازمی خیال کرتا ۔ ایک مرتبہ ہندوستان سے اردو کے چار پانچ ادیبو ں کا ایک وفد سرکاری طور پر آیا، یہ شاید ۱۹۷۴ء کی بات ہے۔ سب کے ٹہرنے کا بندو بست شہر کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں کیاگیا تھا اوروہ لوگ صرف دو دن کے ہی ویزے پر آئے تھے اور اپنی آمد کی اطلاع خواجہ صاحب کو پہلے ہی دے چکے تھے،چنانچہ جس روز وہ لوگ پہنچے، رات میں مشفق خواجہ نے مجھے ساتھ لیا اورہوٹل پہنچ کر معلوم کیا کون کس کمرے میں قیام پذیر ہے۔ سب سے پہلے جگن ناتھ آزاد کے کمرے میں گئے کہ اُس وفد میں سب سے بزرگ وہی تھے۔ انھوں نے مشفق خواجہ سے معانقہ کیا مجھ سے رسمی انداز میں صرف ہاتھ ملایا۔جب خواجہ صاحب نے میرا تعارف کرایا تو انھوں نے یہ کہ کر مجھے گلے لگا لیا۔
’’ ارے بھائی میں ہی نہیں میرے والد بھی آپ کے ابا حضور کی شاعری کے گرویدہ تھے، اب کے تو اِن لوگوں نے دو دن میں ایک لمحہ فرصت کا نہیں رکھا ہے لیکن انشاء اللہ آئندہ جب بھی آیاصبا صاحب سے ملے بغیر نہیں جاؤں گا۔اور․․․․․․․ـ‘‘ ابھی اُن کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ ٹیلیفوں کی گھنٹی بجی ۔ ’’ایک منٹ․‘‘کہکر انھوں نے ٹیلی فون اُٹھالیا۔ہم لوگ کرسیوں پر بیٹھ گئے اور آزاد صاحب پلنگ پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، اُ ن کے کسی پرانے واقف کار کا فون تھا۔۔دس منٹ گزرے․․بیس منٹ ہوئے، ان کی باتیں ختم ہونے میں نہیں آتی تھیں۔ جب وہاں بیٹھے بیٹھے آدھا گھنٹہ بیت گیا تو مشفق خواجہ اپنی جگہ سے اُٹھے․․آزاد صاحب بھی کھڑے ہوگئے اور ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔۔ ۔کہاں؟۔۔مشفق خواجہ نے کہا ۔ ۔ ’’ آپ کو ٹیلیفون کرنے جارہے ہیں۔۔‘‘ یہ سُن کر آزاد صاحب نے جن سے باتیں کر رہے تھے اُن سے معذرت چاہی،اور فون رکھ کر ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے۔
خواجہ صاحب کو جو بات کہنا ہوتی بغیر کسی مصلحت کے ادا کر دیا کرتے ۔۔پیدائش لاہور کی تھی ․․لاہور میں ایک اخبار کے لئے انٹرویو لینے والے دوست نے پوچھا۔۔پنجابی زبان کی ترقی کے لئے آپ کوئی تجویز دیں۔۔مشفق خواجہ نے جواب دیا۔۔’’اردو کو ترقی دیجئے ،ہر علاقائی زبان ترقی کریگی۔۔‘‘
جہاں تک زبان کا تعلق ہے مشفق خواجہ سے اچھی زبان لکھنے والے آج کل تو دور دور دکھائی نہیں دیتے․․․․․․․جب تک میرا قیام ناظم آباد میں رہا۔ وہ مجھے اکثر شام کو فو ن کر تےــ’’آپ کیا کر رہے ہیں۔میں گھر سے نکل رہا ہوں چورنگی تک آجائیے۔۔‘‘ وہ ناظم آباد نمبر تین میں رہتے تھے اور میری رہائش چورنگی کے قریب ایک نمبر میں تھی۔۔عام طور سے وہ شام کو خاصی دُور تک چہل قدمی کیا کرتے انھوں اپنے معمولات کو کچھ اصولوں سے اور اصولوں کوگھڑی سے وابستہ کر رکھا تھا۔
میرا کہنا تھا ٹائم ٹیبل کے حساب سے نوکری کی جاسکتی ہے ادبی کام نہیں کئے جاسکتے․․ہنس کر کہا کمال ہے آپ اپنے والد کا کہنا نہیں مانتے․․․․اتنا کہکر مجھے صبا صاحب کا شعر سنایا۔
ظلمت و نور نے بتا یا ہے رات اپنی ہے دن پرایا ہے
رات میں وہ دوتین گھنٹے ہی سوتے تھے۔رات ڈھائی تین بجے سے دس بجے دن تک کام کرتے۔۔اسی دوران میں خط لکھنا اور آئے ہوئے خطوط کے جوابات دینابھی شامل تھا․․اس کے بعدجو خاص میل ملاقاتی آجائیں ااُن کے ساتھ وقت گزارنا۔۔ٹیلیفون سننا البتہ دوپہر کو دوتین گھنٹے ضرور آرام کرتے․․․․اردو کے تمام ہی اہلِ قلم کے مکمل کوائف ایک خاص ترتیب سے موجود رہتے۔جس میں متعلقہ ادیب کے خطوط اور اُن خطوں کے جواب کی کاپی بھی رکھی جاتی تھی۔
زبان کے بارے میں کوئی کیسا ہی سوال پوچھے۔ فوراَ جواب حاضر․․اور حاضر جوابی کا تو میں نے ذکر کر ہی دیا ہے۔
عام ملاقاتیوں کے لئے انھوں نے اتوار کا دن وقف کر رکھا تھا،یہ بات کئی لوگوں نے تحریر کی ہے کہ ٹیلیفون اٹھا کر ’’فرمائیے‘‘ کہنا اُن پر ختم ہے۔
مشفق خواجہ ادبی جلسوں میں بہت ہی کم شریک ہوتے۔۔۔۔میرے اصرار پر وہ نہ صرف حضرت صبا اکبرآبادی کے اولین مجموعہء غزل ’’اوراقِ گل‘‘ کی تقریب (۱۹۷۱) میں شریک ہوئے بلکہ اس کتاب پر تو ـ’’ قومی زبان‘‘ میں کئی مضامین بھی شائع کئے ۔مرثیوں کے مجموعے ’’سربکف‘‘(۱۹۸۰) اور دوسرے مجموعے ’’شہادت‘‘ کی تقریب میں بھی شرکت کی۔۔۔عام قسم کے ادبی جلسوں سے دور ہی رہتے۔۔لیکن اگر کوئی باہر سے مہمان آتا تو اپنے گھر پر خاص احباب کو بلاکر گفتگو کی محفل سجا لیتے۔ظ۔انصاری، ڈاکٹر خلیق انجم، علی سردار جعفری،علی جواد زیدی، ڈاکٹر تنویر علوی ، ڈاکٹر گیان چند کے ساتھ گھر کی خاص محفلوں میں جو لوگ شریک ہوئے، ان میں ایک میں بھی تھا․․․․․․․اسی طرح بعض اکابر کے لئے وہ مجھ سے بھی کہتے۔۔۔۔جب مقتدرہ قومی زبان کا صدر دفتر کراچی میں تھا اور ڈاکٹر وحید قریشی اسکے صدر نشین ہوکرآئے تو مشفق خواجہ نے مجھ سے کہا ،ان کے لئے ایک نشست کرو۔۔۔ ناظم آبادکے گھر میں ڈاکٹر وحید قریشی ،ر ضا ہمدانی،علی جواد زیدی،انتظار حسین اور ڈاکٹر نثار احمد فاروقی کے ساتھ جو خاص محفلیں ہوئیں ان کے محرک خواجہ صاحب ہی بنے۔۔۔ ۔۔اسی طرح جب مولانا صباح الدین عبدالرحمن پاکستان تشریف لائے تو ریڈیو پاکستان کے ایک افسر صبیح محسن کے گھر پر ہونے و ا لی نشست میں مجھے بھی لے گئے۔۔۔بعد میں مولانا کو اپنے گھر پر بھی مدعو کیا۔۔۔مشفق خواجہ کو علم کا پرستاراور ادب کا عاشق کہا جاسکتا ہے۔
مشفق خواجہ باہر سے آنے والے کسی مہمان کو اگر کسی بھی وجہ سے اپنے گھر پر نہیں بلا سکتے تو ہوٹل میں کھانے پر ضرور لے جاتے۔۔شروع میں انکو کار چلانی نہیں آتی تھی تو ایسے ادیب یا شاعر کو بھی مدعو کر لیتے جس کے پاس گاڑی ہوتی․․․․․․․․․
ایک طرف تو یہ عادت بلکہ اصول کہ ادبی جلسوں میں جانے سے گریز ۔۔۔ دوسری طرف یہ حال کہ کسی اہلِ قلم کی بیماری کی خبر مل جائے تو عیادت کے نہ صرف خود جاتے بلکہ اپنے تمام واقف کاروں سے بھی کہتے ۔ کسی ادیب شاعر یا واقف کار کے انتقال کی خبر مل جانے پر لازمی شریک ہوتے ، میرے والد کی رحلت پر آئے ، میرے چھوٹے بھائی تاجدار عادل کے آنسوں نہیں تھمتے تھے میرے اور اُس کے گلے میں بانہیں ڈال کے ایک طرف لے گئے اور صبر کی تلقین کرتے کرتے خود بھی آب دیدہ ہو کر بولے،سمجھ میں نہیں آتا آپ دونوں کو کیسے تسلی دوں آج تو مجھے بھی یہ احساس ہورہا ہے جیسے میں ایک بار پھر یتیم ہوگیا ہوں، اتنا کہہ کر وہیں بیٹھ گئے اور ہچکیوں کے ساتھ رونے لگے۔ پہلی بار میں نے اُن کو سلیم احمد کی موت پر روتے دیکھا تھا۔
بہت سے اہل ادب کی طرف سے شخصی دعوتوں کو قبول کرلیتے، میرے بچوں کی شادیوں میں بھی شریک ہوئے۔۔ ۔۔۱۹۹۸میں میری بڑی بیٹی کی شادی میں بھابی کے ساتھ آئے، نکاح کے بعد مجھے قریب بلایا اور بہت سنجیدگی کے ساتھ کہا۔۔’’آپ ناول لکھیں․․․․ابھی آپ لکھ سکتے ہیں․
جب بچوں کی طرف سے ذمہ داریاں اور بڑھ جائیں گی تو وقت نہیں ملے گا۔۔‘ ‘ ایک بار فون کیا اور پوچھا۔۔۔آپ نے شیر افضل جعفری کا نام سنا ہے۔؟ میں ہنس دیا․․․․کہنے لگے ۔وہ صبا صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ میں کیمرہ لیکر آرہا ہوں۔
روزنامہ جنگ کے مدیر محمود شام صاحب کے ساتھ اردو ادب کے ایک صاحب طرز اور ملنگ شاعر حضرت شیر افضل جعفری تشریف لائے․․․․اگرچہ جعفری صاحب اور صبا صاحب کی یہ پہلی ملاقات تھی لیکن دونوں ایسے باہمی خلوص کے ساتھ ملے جیسے برسوں کے بچھڑے ہوئے ہوں․․․․ذرا دیر بعد مشفق خواجہ اپنے دو عدد کیمرے لیکر آگئے اور بلا مبالغہ انہوں نے اس وقت تیس چالیس تصویریں اتاریں۔۔۔ایک کیمرہ رنگین تصویروں کے لئے اور دوسرا بلیک اینڈ وائٹ کے لئے۔۔یہی صورتِ حال علی جواد زیدی صاحب کی آمد کے وقت تھی۔ظاہر ہے اپنے گھر پر تو وہ مہمانِ خاص کی زیادہ ہی تصاویراتارتے۔۔۔ جب ہندوستان گئے تو وہاں حضرت میکش اکبرآبادی، جناب مالک رام، محترمہ قرۃ العین حیدر اور اُن تمام علمی و ادبی شخصیات جن سے ملاقات کی اُ ن سب سے لیکر تاج محل تک کی بے شمار تصاویراتاری تھیں۔۔ ․․اُن میں تاج محل کی ایک تصویر تو کمال کی تھی۔۔۔بھابی آمنہ مشفق کو انہوں نے تاج محل کے سامنے ایسے بٹھایا کہ معلوم ہوتا تھا بھابی تاج محل کو چٹکی سے اُٹھائے ہوئے ہیں۔فوٹو گرافی بھی مشفق خواجہ کا ایک شوق تھا۔اُ ن کے ذخیرۂ تصاویر میں بہت سے ادیبوں کی نادر و نایاب تصویریں موجود تھیں۔
جب ہندوستان گئے تو وہاں ان کی موجودگی کے دوران ہی ڈاکٹر خلیق انجم نے’’مشفق خواجہ۔ایک مطالعہ ‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کرادی تھی۔پاکستان آنے کے بعدخواجہ صاحب نے یہ کتاب مجھے بھی عنایت کی۔۔
ہندوستان سے انہوں نے پندہ پندرہ بیس بیس کتابوں کے چار چھے بنڈل بذریعہ ڈاک میرے پتے سے بھیجے اور اسی طرح اپنے گھر اور قریبی عزیزوں اور دوستوں کے پتے پر کتابیں ارسال کیں․․․․․مشفق خواجہ کے پاس نادر و نایاب کتب کا ایک ذخیرہ ہے۔۔۔ بی بی سی ریڈیو والوں نے اپنے ایک پروگرام کو کتب خانوں سے منسوب کیا تھاتو پاکستان میں مشفق خواجہ کے کتب خانے کا خصوصی تذکرہ کیا گیا۔۔۔جو لوگ تحقیقی کام کے سلسلے میں رجوع کرتے تھے خواجہ صاحب اُن کے ساتھ پوری طرح تعاون کرتے۔ پاکستان اور ہندوستان میں جو بھی اہم کتاب شائع ہوتی وہ مشفق خواجہ کے پاس ضرور ہوتی۔کراچی کے کتب فروشوں کے پاس یہ ہدایت موجود تھی کہ جو نئی کتاب آئے اُن کو ضروراطلاع دی جائے۔ تقریباَ ہر کتب فروش کے پاس کھاتہ کھلا ہوا تھا۔ باہر سے آنے والے مہمان اگر پاکستانی کتابیں خریدنے کے خواہش مند ہوتے تو مشفق خواجہ انہیں کسی بھی کتب فروش کے پاس بھیج دیتے۔ جہاں سے وہ اپنی پسندیدہ کتابیں چن کر جب قیمت پوچھتے تو کتب فروش کا جواب ہوتا ’’قیمت خواجہ صاحب نے ادا کردی ہے۔۔‘‘
کتابوں کے علاوہ بھی اُن کے پاس نادر نایاب چیزیں موجود تھیں، مثلاَ مجھے انھوں نے ایک بریف کیس دکھایا اور بتایا کہ اِ س کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ جب مولانا محمد علی جوہر پر مقدمہ چلا تھا تو وہ کراچی کے خالق دینا ہال میں اِسی بریف کیس میں کچھ کاغذات لیکر آئے تھے۔
دنیا بھر سے وہ نایاب کتابوں کی مائکرو فلمیں بنواکر رکھی ہوئی تھیں۔میرے والد کے پاس میر حسن کی مثنوی کا ایک مصور اور قلمی نسخہ تھا۔مشفق خواجہ نے مجھ سے کہا کہ وہ اُسے دیکھنا چاہتے ہیں، میں نے جواباَ عرض کیا میں لیکر آجاؤں گا۔ کہنے لگے ،نہیں میں صبا صاحب سے اجازت لے کر خود دیکھنے کے لئے آؤں گا․․انھوں نے ایسا ہی کیا۔ متواتر پندرہ بیس دن تک آتے رہے۔اُس مثنوی میں جتنی ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویریں تھیں، ایک ایک تصویرکی پیمائش لی۔ اور اُس مخطوطہ کا تذکرہ اپنی کتاب ’’جائزہ مخطوطاتِ اردو‘‘ میں بھی کیا۔
اُنھوں نے حضرت صبا اکبرآبادی کے مراثی بھی مرتب کئے ہیں اِس کی روداد یہ ہے کہ صبا صاحب کے مرثیوں کا پہلا مجموعہ ’’سربکف ‘‘ لاہور اور کراچی کے ایک ناشر’’ شیخ غلام علی اینڈ سنز‘‘ نے شائع کیا تھا۔دوسرا مجموعہ ہم خود شائع کرنا چاہتے تھے۔مشورہ کے لئے مشفق خواجہ کے پاس گئے، تو کہنے لگے سب مرثیئے مجھے لا دو۔۔ میں نے ایسا ہی کیا۔۔ انھوں نے پانچ ، پانچ مرثیوں کے بارہ پیکٹ بنا ئے اور ہر پیکٹ پر ترتیب وار نمبر اور مرثیہ کا پہلا مصرعہ لکھ کر رکھ لئے اور کہا ۔
’’ یہ اسی ترتیب سے شائع ہوں گے۔ سب ایک ساتھ شائع ہونگے تو کتاب بہت ضخیم ہو جائے گی ۔ ‘‘میں نے کہا ،پھر، بسم اللہ کیجئے۔پہلی کتاب کا دیباچہ لکھیئے۔۔چناچہ ’’شہادت‘‘ مشفق خواجہ نے مرتب کی۔۔ اسکے بعد ’’خونناب‘‘ اور ’’قرطاسِ الم‘‘ بھی ان ہی کی مرتب کی ہوئی ہیں۔صبا صاحب کا کام اور کلام بیحد پسند کرتے۔۔ نہ صرف تمام مرثیئے ان کے پاس رہے بلکہ جب ’’تخلیقی ادب‘‘ شائع کرنا شروع کیا توغزلوں کے ساتھ، خصوصی طور پر آکے ’’ یگانہ‘‘اور’’ فانی ‘‘پر مضمون لکھنے کی فرمائش کی اور وہ شائع کئے۔۔ جوش صاحب پر مضمون لکھوایا اور غالب لایبریری کے مجلے سہ ماہی’’غالب‘‘ میں شائع کیا۔ سوانح اور سوانح کے ساتھ جو شخصی مضامین تھے ان سب کی فوٹوکاپی اپنے پاس رکھ لی۔ کئی شخصی مضامین مختلف رسالوں کو خود ارسال کئے۔۔کسی نے اُن سے’’ مشورہ‘‘ کا تذکرہ کیا تو مجھ سے پو چھا․․․․میں نے بتایا کہ جولائی ۱۹۳۶میں صبا صاحب نے آگرہ سے رسالہ’’ مشورہ‘‘ کا آگرہ نمبر شائع کیا تھا جس میں آگرہ (اکبرآباد) کی تاریخی، تجارتی، ثقافتی، اور ادبی تاریخ کو تقریباَ چھ سو صفحات میں محفوظ کیا گیا ہے۔اب مصرہوئے کہ میں وہ نمبر مہیا کروں۔ میں نے بتایا کہ میں خود اس کی تلاش میں ہوں․․․․․جب میں اس بات کو بھول چکا تھا کہ ایک روز انہوں نے ٹیلیفون کرکے اطلاع دی کہ ’’مشورہ‘‘ کا وہ خاص نمبر انہوں نے حاصل کر لیا ہے اور میرلئے ایک فوٹو کاپی بھی کرالی ہے۔ دراصل خواجہ صاحب کو سوانح اور شخصی مضامین سے خصوصی دلچسپی تھی ۔ ایسی کتابیں وہ فرمائش کرکے لکھواتے اور اُن کی اشاعت میں پوری دلچسپی لیتے تھے۔
میں نے اُن کی زندگی میں ہی ایک مضمون لکھا تھا۔اتفاق سے باتوں ہی باتوں میں خواجہ صاحب کے ہم زلف پروفیسر ذوالفقار مصطفی صاحب سے ذکر کر دیا۔تیسرے چوتھے روز میرے پاس فون آیا،دنیا جہان کی باتیں کرنے کے بعد انھوں نے کہا ، بھئی میرے بارے میں کیا لکھ دیا ہے،میں جب اِس طرح کے شخصی مضامین لکھتا ہوں تو میرے ذہن میں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ اِس طرح میں اُس شخصیت کے تعلق سے اپنی یادوں کومحفوظ کردوں،یہی سبب ہے کہ میں ایک راوی یا تماشائی کے طور سے واقعات کو بیان نہیں کر تا بلکہ اُس شخصیت کے وہی پہلو میرے پیشِ نظر رہتے ہیں جن سے میں ذاتی طور سے واقف ہوتا ہوں،چنانچہ اُن کے اصرار پر میں وہ مضمون اُن کے پاس لے گیا۔پہلے تو کہا سنائیے، پھر بولے ، لائیے میں خود پڑھتا ہوں۔وہ بیس پچیس صفحے کا مضمون تھا۔بہت توجہ کے ساتھ پڑھتے رہے، صرف ایک مرتبہ چائے بنانے کے لئے باورچی خانے میں گئے اور میرے لکھے ہوئے صفحات بھی اپنے ساتھ لیتے گئے، میں نے اونچی آواز میں کہا۔کیا میرے مضمون سے چاء بنا رہے ہیں۔؟وہیں سے بولے۔یادیں چائے سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔۔پھر میرے لئے ایک پیالی اور اپنی چائے کا خاص مگ بھر کے لائے۔
مضمون ختم کرنے کے بعد کہا۔بہت سی باتیں درست ہونے کے باوجود لکھنے کے لئے نہیں ہوتیں۔جب میں نے اندازہ لگایاکہ وہ کچھ آزردہ ہو گئے ہیں تومیں نے وہیں اُس مضمون کو چاک کردیا․․․․کہنے لگے، یہ آپ نے کیا کیا․․دو ایک باتیں نکال دیتے،باقی ٹھیک تھا۔پھر جو باتیں انھیں مناسب نہیں لگی تھیں،اُن کا ذکر کیا․․․․اس کے بعد کہا،آپ نے صبا صاحب سے شعر کہنا سیکھا اور نہ مضمون لکھنا․․دیکھئے وہ اپنے مضامین میں شخصیت کی خوبیاں ہی نہیں بلکہ خامیاں بھی لکھتے ہیں لیکن تحریر کی ادبی خوبی کہیں بھی مجروح نہیں ہوتی۔۔۔
مجھے اُس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ مشفق خواجہ کے بارے میں ایک بار پھر مجھے اپنی یادوں کو آواز دینا ہو گی۔
مشتاق احمد یوسفی ہمارے زمانے کے مشہور مزاح نگار ہیں۔میں نے چھتیس(۶۳) سال یو نائیٹڈ بنک میں ملازمت کی ہے۔ اس بنک کے بانی ، مینیجنگ ڈاریکٹراور صدر آغا حسن عابدی تھے۔ جب۱۹۷۴میں بنکوں کو قومی تحویل میں لیا گیا تو یوبی ایل کا شمار ملک کے دوتین بڑے بنکوں میں ہوتا تھا۔پہلے سویلین مارشل لا ایڈ منسٹریٹر اور پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو، آغا حسن عابدی صاحب سے خوش نہیں تھے، آغا صاحب بہت دوراندیش بھی تھے چنانچہ انھوں نے پانچ سات برس پہلے ہی ایک بین الاقوامی بنک، بی سی سی آئی، قائم کرلیا تھا۔جب بھٹو صاحب نے آغا صاحب کا پاسپورٹ تک ضبط کرلیااور اُن کی جگہ آسٹریلیشیا بنک کے جنرل منیجر مشتاق احمد یوسفی صاحب کومقرر کیااُس وقت تک مشفق خواجہ کا یوسفی صاحب سے تعارف نہیں تھا․․․․جب تین چار سال کے بعدیوسفی صاحب کو یوبی ایل سے ہٹایا گیا تو انھیں آغاصاحب کے انٹر نیشنل بنک کے لندن آفس میں رکھ لیا گیا۔وہیں الطاف گوہرصاحب کو’’تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن‘‘ کا انچارج بنا لیا گیا تھا،اور اسی تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن(Third World Foundation) کے تحت لندن میں ’’اردو مرکز‘‘ کے نام سے ایک ذیلی ادارہ بنا تھا جس کے روحِ رواں پاکستان ٹیلیوژن کے سابق پروڈیوسر، اور پی ٹی وی کے پروگرام ’’کسوٹی ‘‘سے شہرت پانے والے معروف شاعر جناب افتخار عارف تھے۔مشفق خواجہ کے دیرینہ مراسم ساقی فاروقی سے بھی تھے ،جو عرصۂ دراز سے لندن میں مقیم تھے، پھر افتخار عارف صاحب تھے۔میرا اندازہ یہ ہے کہ مشفق خواجہ سے یوسفی صاحب کے تعارف کا وسیلہ تو خامہ بگوش کے کالم ہی بنے ہونگے مگر ذاتی ملاقات کا ذریعہ ساقی فاروقی یا افتخار عارف ہی رہے ہوں گے۔یہ ساری تمہید اس لئے باندھی کہ ایک دن شام کو جب میں مشفق خواجہ کے گھر پہنچا تو انھوں نے دروازہ کھولتے ہی کہا ،آج آپ کی ملاقات مشتاق احمد یوسفی صاحب سے کرائیں․․․․کمرۂ ملاقات میں جانے سے پہلے میں نے خواجہ صاحب سے کہا، میرے تعارف میں یہ نہ بتائیے گا کہ میں یو نائیٹد بنک میں ہوں․․․․غرض میرا تعارف یوسفی صاحب سے کرایا گیا․․․․میں خاموش بیٹھا دونوں کی باتیں سنتا رہا۔ذرا دیر کے بعد مغرب کی اذان ہوئی۔یوسفی صاحب نے مصلےٰ مانگا۔جاء نماز بچھا کے سجدے کی جگہ یوسفی صاحب نے ایک کرسی رکھی،اور کرسی کی نشست پر اپنا رومال ڈالا۔یہ سب دیکھ کر مشفق خواجہ نے کہا،اب تک آپ کرسی کو سجدہ کرتے ہیں۔یوسفی صاحب نے مسکراکے بات سنی پھر فرض ادا کرکے بہت سنجیدگی سے کہا کہ وہ السر کے مریض ہیں، رکوع و سجود کے بعد اُن کے معدہ میں اتنی تکلیف ہو جاتی ہے کہ کئی دن تک وہ کھانے پینے کے قابل نہیں رہتے، پھر،یہ بھی بتایا کہ لندن میں جمعہ کی نماز ادا کرنے ایک مسجد میں گئے، ظاہر ہے بیٹھ کر پڑھنا چاہتے تھے کہ تکبیر کے فوراَ بعد اُن کے پیچھے کھڑے ہوئے نمازی نے بغلوں میں ہاتھ ڈال کر اُٹھادیا۔ دو رکعت ادا کرنے کے بعد دو ہفتے تک شدید تکلیف میں مبتلا رہے۔
یہ تفصیل سن کر مشفق خواجہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ ان باتوں کا علم نہیں تھا، وہ اپنا جملہ واپس لیتے ہیں ۔ پھر ’’سلسلہ‘‘ قائم ہوا۔جس میں ادب سے وابستہ بیوروکریٹ اورسابق بیوروکریٹ شامل ہوگئے۔اِس ’سلسلہ‘ کی ایک کڑی مشفق خواجہ بھی بن گئے۔ہر ممبر کو اپنے ساتھ ماہانہ نشست میں ایک مہمان کو لانے کی اجازت تھی،خواجہ صاحب نے مجھ سے کئی بار کہا لیکن میں نے مناسب نہیں سمجھا۔
مشفق خواجہ حتی الامکان تعلقات نبھانے اور اُنھیں قائم رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب وہ فرسٹ ایر کے طالبِ علم تھے ،اسی زمانے سے اُن کے مراسم استاد اختر انصاری اکبر آبادی سے تھے۔استاد ۱۹۵۵میں حیدرآباد منتقل ہوگئے تھے لیکن اُن سے ملنے کے لئے ہر دو ایک مہینے بعد مشفق خواجہ حیدرآباد آتے۔ اور جب کبھی استاد کراچی آتے تو خواجہ صاحب سے ملے بغیر نہیں جاتے تھے۔ جب مشفق خواجہ نے اپنا مجموعہ کلام ’’ابیات‘‘ شائع کیا تو استاد نے ’’نئی قدریں ‘‘ میں کئی مضامین لکھواکر شائع کئے جن میں سب سے وقیع مضمون ڈاکٹر الیاس عشقی کا تھا۔
اب ایک بات اور یاد آگئی۔۱۹۵۷ سے میں نے حضرت صبا اکبرآبادی کے اِس شعر پر
چونک اُٹھا سن کے عکس کی آواز آئینہ دیکھتا تھا آئینہ ساز
برِ صغیر کے تمام نامور صاحبانِ علم و ادب کی آرا حاصل کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا․․․اسی حوالے سے ایک خط بابائے اردو کو بھی لکھا تھا۔ جس کا کوئی جواب نہیں ملا۔جب ۱۹۵۹میں مشفق خواجہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اپنی علالت کے باعث مولوی صاحب خط کا جواب نہیں دے سکے تھے۔ میں نے کہا․․․․اب جواب لکھواکے بھجوا دیجئے گا۔میری بات سن کر ہنسے اور کہا۔ابھی لکھ کے مولوی صاحب سے دستخط کرائے دیتا ہوں․بلکہ دستخط بھی مولوی صاحب کے کئے دیتا ہوں ․․․ ․مجھے ان کے لہجے میں اپنے لئے کچھ تمسخر سا محسوس ہوا․․اسلئے بات کو ٹال گیا۔۔لیکن کراچی پہنچ کر انھوں نے مجھے مولوی صاحب کا خط بھجوادیا․․․․․میں اس شعر کے بارے میں آئے ہوئے تمام خطوط ادبی جرائد میں شائع کرا دیتا تھا جن میں ماہ نامہ ’’نئی قدریں‘‘حیدرآبادسندھ(مدیر۔اختر انصاری اکبرآبادی)ماہ نامہ ’’مہرِ نیمروز‘‘ کراچی( مدیر۔مولانا سیدحسن مثنے ندوی اور پروفیسر سید ابوالخیر کشفی) ماہنامہ ’’ادبِ لطیف‘‘لاہور (مدیر۔میرزا ادیب) اور ماہنامہ ’’زاویئے ‘‘ حیدرآباد(مدیر۔سید حسن ظہیرجعفری )شامل تھے، بابائے اردو کا خط ’’نئی قدریں ‘‘ میں شائع ہواتھا ۔۔۔۔۱۹۸۱میں مجھے خیال آیا کہ مولوی عبدالحق، مولانا عبدلماجد دریا بادی، علامہ نیاز فتح پوری ، حضرت جوش ملیح آبادی ،جناب فراق گورکھپوری جناب فیض احمد فیض ،اور ڈاکٹروزیرآغاسے لے کر جناب شان الحق حقی تک تقریباَ چالیس پچاس اہم ادیبوں اور شاعروں کی آراء شائع ہو چکی ہیں۔۔اس بیس بائیس سال کے عرصے میں اور بہت سے صاحبان ،علم و ادب کے قافلے میں شامل ہو کے شہرت و اعتبار کی منزل تک پہنچ چکے ہیں ، اُن کی رائے سے کیوں محروم رہا جائے․․․․․میں نے مشفق خواجہ سے اِس بارے میں بات کی تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ میری بات کی تائید کی بلکہ بہت سے مقتدر اہل قلم کے نام لکھوائے۔اس موضوع سے ان کی دلچسپی کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ انجمن سے وابستگی کے زمانے میں پروفیسر شجاع احمد زیبااورڈاکٹر شوکت سبزواری کی آراء حیدرآباد بھجوائی تھیں۔ اسی طرح ڈاکٹر وحید قریشی ۔ علی جواد زیدی۔مظفر علی سیداور ظ۔انصاری کی رائے بھی انہیں کے ذریعے حاصل ہوئی۔
ہندوستان سے ڈاکٹر تنویرعلوی دوسری یا تیسری مرتبہ پاکستان تشریف لائے تو مجھے اُن کی قیام گاہ کا ٹیلی فون نمبر لکھوا کر کہا کہ ان سے شعر کی تفہیم تحریر کرنے کی بات کرلی ہے وہ لکھ دیں گے ، میں ان سے رابطہ کرلوں اور جب وہ بلائیں جاکررائے لے آؤں․․․․․․کراچی کے دو ایک حضرات کے بارے میں جب شکایتاَ میں نے کہا کہ کئی بار ان کو لکھ چکاہوں جواب ہی نہیں دیتے اب آپ اُن سے کہئے۔۔ تو مجھ سے کہا، چھوڑئیے اِن سے بڑے اور اہم لوگوں کی رائے آپ کے پاس موجود ہے․․․․مشفق خواجہ کے ساتھ جناب حمایت علی شاعر کا بھی اصرار رہا کہ میں وہ تمام خطوط کتابی صورت میں محفوظ کردوں ․․․․
صبا صاحب کی رحلت کے بعد میں نے اور میرے چھوٹے بھائی تاجدار نے طے کیا کہ بے شمار مضامین صبا صاحب کی زندگی میں اور اُن کی رحلت کے بعد مختلف رسائل میں شائع ہوئے ہیں کیوں نہ ایک کتاب کی صورت میں یکجا کردیئے جائیں، مشورہ کیلئے مشفق خواجہ کے پاس پہنچے۔منع کردیا۔کہا، صبا صاحب کا اتنا کام ہے پہلے وہ شائع کرائیے۔
کتاب سے بہت زیادہ عشق تھا اور سگریٹ پینے کا بہت زیادہ شوق۔۔ملک کے باہر سے آنے والے بے تکلف احباب سے کسی کتاب لانے کی فرمائش کرتے یا پھر سگریٹ کی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ بے شمار ضرورت مندوں کی بہت چپ چپاتے مددکرتے ۔ ادبیات یا دوسرے رفاہی اداروں کے ذریعے مدد کرانے میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔
مجھے یہ بات معلوم نہیں کہ خامہ بگوش کے نام سے اُن کو کالم لکھنے کا معاوضہ ملتا تھا یا نہیں۔۔ لیکن اپنے نام سے انہوں نے ریڈیو پاکستان کراچی کے لئے بے شمار پروگرام تحریر کئے۔ کئی سیریز کئی برس تک’’ مسلمان سیاح‘‘ کے نام سے لکھیں جو عالمی سروس سے نشر ہوئیں۔
’’تخلیقی ادب‘‘ کی اشاعت سے پہلے ایک اشاعتی ادرہ ’’ مکتبہء اسلوب ‘‘ کے نام سے قائم کیا تھا ۔ اِ س ادارہ کی جانب سے بہت سی کتابیں شائع کیں۔۔ لکھنے والوں کو معاوضہ بھی ادا کیا۔۔مگر یہ گھاٹے کا سودا کب تک کرتے۔۔ادب کے فروغ کی جتنی خواہش تھی ،اسکے مقابلے میں تاجرانہ ذہنیت نہ ہونے کے برابر تھی۔۔۔ چناچہ بہت سے مسودے اشاعتی اداروں کو دیدیئے جنہوں نے سلیم احمد، علی جوازیدی،ممتازشیریں سے لیکر جگن ناتھ آزاد اور انور سدید تک کی کتابیں شائع کیں۔ جو کتا بیں خود مشفق خواجہ نے شائع کی تھیں وہ بھی اونے پونے دام پر کتب فروشوں کو دیدیں۔
اکتوبر ۲۰۰۳ کے آخرمیں پاکستان گیا تو معلوم ہوا شدید علیل ہیں اور ناظم آباد سے کلفٹن کے فلیٹ میں منتقل ہو گئے ہیں۔ میں نے اُن کے عزیز جناب ذوالفقار مصطفی سے کہا، انھوں نے بھی بتایا کہ ابھی ڈاکٹروں نے میل ملاقات پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن آپ کے لئے انھوں نے کہا ہے کہ موبائل فون نمبر دیدیا جائے ، میں نے ایک بار فون کیا تو بتایا گیا سو رہے ہیں، دوسری مرتبہ بھی یہی جواب ملا کہ آرام کر رہے ہیں۔ طبیعت معلوم کرنے پر کہا گیا۔ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹروں نے آرام بتایا ہے ۔ میری والدہ بھی علیل تھیں ، اُن ہی کی وجہ سے میں پاکستان گیا تھا۔ دسمبر۲۰۰۳ کی سولہویں تاریخ کووالدہ کی دعاؤں کی چھاؤں سے نکل کر دنیا کی دھوپ میں کھڑے رہ گئے۔ مشفق خواجہ کو اخباروں کے ذریعہ ہم پر گزر نے والے سانحہ کی اطلاع جب پہنچی تو مجھے تعزیتی ٹیلیفون کیا ، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہمارے مراسم ایسے نہیں ہیں کہ اہم باتوں سے بیخبر رکھا جائے مجھے یہ اطلاع اخبار سے نہیں آپ کے خانوادے کی طرف سے ملنا چاہئے تھی۔ میں نے کہا تم خود ایسے بیمار تھے کہ ٹیلیفون پر بات نہیں ہو سکتی تھی۔
ایک روز ٹیلیفون آیا کہ وہ اپنے ناظم آباد والے گھر آگئے ہیں اب ملاقات ہونا چاہئے․․․․میں ایک شام کو پہنچ گیا۔ بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔لیکن صورت سے اضمحلال ظاہر ہو رہا تھا․ان کی بیماری کے علاوہ مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔غالب لائبریری کی جانب سے شائع ہونے والی کتابوں پر وہ ٹیلی وژن پر تبصرہ کرانا چاہتے تھے، میں نے کہا وہ خود اگر تاجدار کو ٹیلیفون کر دیتے تو اب تک تبصرہ ہو بھی چکا ہوتا۔
میرے پاکستان میں قیام کے دوران تین چار ملاقاتیں ہوئیں۔سہ ماہی ’’سیپ‘‘ میں شائع ہونے والے میرے لکھے ہوئے مضامین اُن کی نظر سے گزرے تھے۔اخترانصاری اکبرآبادی اور کرار نوری والے مضمون کی خصوصی طور پر تعریف کی۔کنیڈا آنے کے بعد بھی ٹیلیفون پر رابطہ رہا۔
جنوری۲۰۰۵کے دوسرے ہفتے کی کسی تاریخ کو میں نے ٹیلیفون کیا اورباتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ خامہ بگوش کی دو کتابوں پر میں نے ڈان میں تبصرہ دیکھا ہے، ایک صاحب کینیڈا آنے والے ہیں یہ کتابیں اپنے دستخطوں کے ساتھ میرے گھر بھجوا دیجئے۔۔ ۔ انھوں نے ان دونو ں کتابوں کے ساتھ ادارۂ یادگارِغالب کی طرف سے شائع ہونے والی ایک کتاب میرے کراچی کے غریب خانے پرپہنچوادی۔۔۔
محرم کی گیارویں ۱۴۲۶ھ مطابق ۲۱؍ فروری ۲۰۰۵ء کو ٹیلیفون کی گھنٹی بجی․․․․میری بیوی نے سنا ۔
امریکا سے میرے دوست قمر علی عباسی کافون تھا ۔ انھوں نے یہ خبر سنائی کہ ۱۹دسمبر ۱۹۳۵کو لاھور میں پیدا ہونے والے خواجہ عبدالحئی اِ س دنیا سے گذر گئے۔میں سنا ٹے میں آ گیا۔
جب حواس ٹھکانے آئے تو میں نے سوچا،یہ دل برداشتگی اور ملال کیسا․․․․
تقریباَ بارہ کتابوں کے مصنف،مؤلف اور محقق مشفق خواجہ تو اُس وقت تک موجود رہیں گے جب تک اُ ن کی کتابیں پڑھی جاتی رہیں گی۔ دل کو سمجھانے کے باوجود․․․․یہ حقیقت نظر انداز نہیں ہوتی ہے․․․․کہ
زیست کی چال سے کونین کا دل ہلتا ہے
موت کے پاؤں کی آواز نہیں ہوتی ہے (صبا اکبرآبادی)