آسمان سر پہ ٹوٹتا کیسے ہے؟؟؟؟
زمین پیروں تلے سے نکلتی کیسی ہے؟؟؟
کیسے روح یک لخت کانپ اٹھتی ہے؟؟؟
نیہا سفیر کو آج ادراک ہوا تھا ….اسے یوں لگ رہا تھا کہ اسے کسی نے اونچائی سے اٹھا کے نیچے پٹخا ہے ….نہ جانے کتنے پل وہ بولنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھی تھی
ہالار جاذب کا رشتہ آیا تھا
مہرماہ کیلئے نہیں…..نیہا سفیر کیلئے آیا تھا
میر ہالار کو محبت ہوئی
مہرماہ سے نہیں….نیہا سفیر سے
شاید اسے ہی نصیب کہتے ہیں
وہ بیوقوف سارا وقت ان دونوں کو ملانے میں لگی رہی اور تقدیر ان دونوں کو
کیا مذاق تھا یہ….!!!!!!
نیہا کو لگا کہ یہ بات کرکے ہالار نے نیہا کو ہمیشہ کیلئے مہرماہ کی نظروں میں گرا دیا ہے
بھلا وہ اور ہالار کیسے ہوسکتے ہیں….!!!
وہ تو گواہ تھی نا…..
مہرماہ کی دیوانگی کی
اسکی محبت کی
اسکی چاہت کی
پھر بھلا وہ کیسے اسکے حق پہ ڈاکا ڈال سکتی تھی
” یہ نہیں ہوسکتا…..کبھی نہیں….پاگل ہوگیا ہے یہ میر ہالار….اور یہ اماں پاپا کو کیا ہوا؟؟؟یہ دونوں انکا منہ کیوں نہیں بند کرتے….اس سے پہلے کہ بابا کچھ کہیں میں جا کے صاف انکار کردیتی ہوں” نیہا نے جلد ہی اپنی کیفیت پہ قابو پا لیا تھا
” اماں….!!!!” نیہا نے اندر آتے ہوئے عالیہ کو پکارا
عالیہ نے اسکے تیور دیکھے ….نیہا کے تیور بالکل اچھے نہ تھے وہ یقینا یہاں کوئی تماشہ لگانے آئی تھی
عالیہ اسے جانتی تھیں انہوں نے سفیر صاحب کو اشارہ کیا تو سفر صاحب نیہا سے بولے
” نیہا….یہاں آؤ ….یہ میر ہالار کی فیملی ہے….اپنی باتیں ہم بعد میں کرتے ہیں پہلے مہمانوں سے ملیں ….!!!!” سفیر صاحب نے نیہا کو بغور دیکھتے ہوئے کہا تھا
انکی باتوں اور انکے انداز میں چھپا پیغام نیہا کو صاف محسوس ہوا تھا
مطلب اسے انتظار کرنا تھا
نیہا کچھ دیر بیٹھ کے اٹھ گئی تھی
مہرماہ کی لٹھے کی مانند سفید رنگت اسے اتنے فاصلے سے بھی محسوس ہوئی تھی
نیہا مجرم نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مجرم سمجھ رہی تھی
اور جس نے یہ سارا کارنامہ کیا تھا وہ انتہائی اطمینان سے سفیر صاحب سے محو گفتگو تھا
_____________________________________
لوگ اتنے ظالم بھی ہوتے ہیں کہ پل میں اپکو ساری دنیا دان کر آپ کو ملکہ بنا دیں اور دوسرے ہی پل آپ کا وجود کوڑیوں کے مول کرکے پاتال کی گہرائیوں میں اتار دیں
ابھی یہ وہی لوگ تھے نا جو مہرماہ کو سر پہ بٹھا رہے تھے اور اب انہی لوگوں نے انجانے میں ہی سہی اس چھوٹی لڑکی ساری کائنات زلزلے کی نظر کردی تھی
مہرماہ کو لگا کہ آج اسکے جسم سے جان ہی نکلی تھی
اذیت کے مارے اسکی آنکھوں میں لہو کی سرخی ٹھر گئی تھی
اس نے اٹھنا چاہا کہ کوئی گوشہ عافیت ہی مل جائے جہاں وہ اس قیامت کاسامنا کرسکے
اپنی بربادی کا ماتم کرسکے
کیا نصیب تھا اسکا میر ہالار اسکے سامنے تھا مگر اسکے ہاتھ میں نہیں
وہ اسکا نہیں نیہا کا طالب تھا
وہ نیہا جس نے مہرماہ کی سترہ سالہ محبت کو تعبیر کا رخ دینے کی کوشش کی تھی
اسکی آنکھوں میں بہت چاہت سے میر ہالار کی ہم سفری کے خواب سجائے تھے
اسکی عقیدت بھری محبت کو چاہ کی راہ سمجھائی تھی
اور اب اسی نیہا کی وجہ سے مہرماہ کے سارے خواب ٹوٹ گئے تھے
بکھر گئے تھے
اور مہرماہ کی لہو کرچی کرچی ہوگئی تھی
اسکا وجود زخم زخم تھا
پور پور لہولہان تھا
مہرماہ نے اسے شخص کو آنکھ اٹھا کے دیکھا
جو اسکے ہاتھوں میں تو تھا
مگر لکیروں میں نہیں
” ہم نیہا کو بہت خوش رکھیں گے….ہالار کو آپ پہلے سے ہی جانتے ہیں….بس اب اقرار دیجئے ”
میر برفت نے کہا تھا
” یقینا….بس ہمیں کچھ وقت دیجئے….مجھے یقین ہے کچھ اچھا ہی ہوگا ”
سفیر صاحب کے انداز مثبت تھا
ایک اور انی مہرماہ کے وجود میں گڑی تھی ….!!!!
اسکی جان کنی کی کیفیت کسی کو بھی نظر نہیں آئی تھی
میر ہالار جاذب کو بھی نہیں…..!!!!!
فرط درد سے میں نے انگلیوں کی پوروں پر
آنسو جب سمیٹے تھے آپ بھی تو بیٹھے تھے
_____________________________________
” واہ….واہ…کیا کہنے ہیں تمہارے میر ہالار جاذب کے ……کتنا گھنا نکلا یہ شخص نظریں کسی اور پہ اور دل کسی اور پہ …..ایسا بھی کوئی کرتا ہے کیا ؟؟؟؟”
نیہا بھڑک کے بولی تھی
” وہ میرا نہیں نیہا…..”
مہرماہ کے لہجے میں ٹوٹے کانچ کی چبھن تھی
"میرا دل کررہا ہے جاؤں اور جا کے اسکا منہ توڑ کے ہاتھ میں دے دوں جس منہ سے اسنے میرا رشتہ مانگا….” نیہا نے اپنی مٹھیاں بھینچیں تھیں
” تو کیا ہوا….محبت کرتے ہیں وہ تم سے ….پہلی خواہش ہو تم انکی…” مہرماہ نے رشک سے کہا تھا
دل میں اٹھتی ٹیسوں کا کیا پوچھنا تھا بھلا….!!!!
” مہرماہ….تم انسان ہو….کوئی ماورائی مخلوق نہیں ….تمہیں درد نہیں ہوتا یہاں ”
نیہا نے دل کی طرف اشارہ کیا تھا
"کیا شور مچا رکھا ہے نیہا…..” عالیہ اندر آتے ہوئے بولیں تھیں
"اماں….میں آپ سے صاف کہہ رہی ہوں آپ ان لوگوں کو منع کردیں مجھے کوئی شادی نہیں کرنی ….میر ہالار جاذب سے تو قطعا نہیں”
نیہا نے صاف کہا تھا
” تم مجھے دوسری انس نہ بنو….وہ تو چلولڑکا ہے….اسے کچھ نہیں فرق پڑتا ….مگر تم جسے ڈھنگ سے چلنا نہیں آتا نہ بولنا….اسکے لئے اگر میر ہالار جیسے لڑکے کا رشتہ غنیمت ہے…..” عالیہ بیگم نیم رضامند تھیں
ویسے بھی میر جاذب نے تو انکے حق میں ہمیشہ اچھا کیا تھا …..!!!!!!
” اماں…..”
نیہا کو صدمہ ہوا تھا
” آپ بھول گئیں انہوں نے سمعیہ پھوپھو کے ساتھ کیا کیا تھا…..؟؟؟؟” نیہا نے یاد دلایا
” وہ میر جاذب نے نہیں…..کیا تھا …وہ تو سمعیہ کیلئے ہمیشہ رحمت کا فرشتہ ثابت ہوا تھا …..اور انہی کی وجہ سے مہرماہ ہمیں ملی تھی ”
عالیہ نے اسکا اعتراض چٹکیوں میں میں اڑایا تھا
” جو بھی ہو…. مجھے صاف انکار ہے….” نیہا پیر پٹختے ہوئے چلی گئی تھی
” مسئلہ کیا ہے….!!!!”
عالیہ نے مہرماہ کو دیکھا
اب مہرماہ کیا بتاتی کہ مسئلہ کیا تھا ؟؟؟؟
نہ جی پائیں نہ سہہ پائیں
قیامت ہی قیامت ہے ….!!!!
_____________________________________
” مہرماہ….تمہیں سفیر بلا رہے ہیں….”
مہرماہ کو عالیہ نے پکارا جو جھولے پہ ساکت سی بیٹھی تھی آج جھولا بھی اسکے وجود کی مانند ساکت تھا
وہ فی الحال یہیں تھیں…..میر برفت تو ساتھ لے جانا چاہتے تھے مگر سب نے کہا تھا کہ مہر ماہ کو کچھ وقت دیں …..اسکے لئے یہ جھٹکا بہت بڑا ہے
اور جھٹکا تو واقعی بہت بڑا تھا
"جی ماموں….” مہرماہ نے انکے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
” مہری….میں نے تمہیں کبھی ان لوگوں کے بارے میں نہیں بتایا ….اس لئے یہ سب بہت اچانک ہے پر وہ وقت کی ضرورت تھی بچے”
سفیر صاحب اسکا چہرہ دیکھ کے سمجھے تھے کہ اسے کوئی شکایت ہے ان سے
” نہیں ماموں ….آپ نے جو کیا درست کیا….”
مہرماہ دلگرفتی سے بولی
” ہالار کو تم پہلے سے ہی جانتیں تھیں نا….”
” ہاں ایک انہی کو تو میں جانتی تھی”
مہرماہ کے دل نے دہائی دی
"مجھے ہالار پسند ہے ….بیٹی….پر نیہا انکار کررہی ہے….بچے یہ رشتہ نصیب والوں کو ملتا ہے….تم اسے سمجھاؤ اسے راضی کرو…..تم یہ کرسکتی ہو مہرماہ….پلیز….”
سفیر صاحب نہیں جانتے تھے کہ انکے یہ الفاظ مہرماہ کو بے جان کرچکے ہیں
” ماموں….. ” مہرماہ کا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا
"کیا ہوا….”
” وہ..وہ…..” مہرماہ نے کچھ بولنا چاہا
"کہو نا بیٹا…..”
"نہیں میں کچھ نہیں کہہ سکتی….. ان لوگوں کو کیسے انکار کروں جو میرے محسن ہیں….”
مہرماہ آج بھی غلط تھی
بھلا…..انتہا پہ جا کے انسان کیسے خوش رہ سکتا ہے
چاہے وہ انتہا اچھائی کی کیوں نہ ہو…..!!!!
” میں کرلوں گی….”
مہرماہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو قبر میں اتارا تھا
_____________________________________
” میں جب صبح گئی تھی سو سب صحیح تھا….مگر شام میں تو جیسے سب سڑا ہوا کریلا بنے ہوئے ہیں ” ماوی آتے ساتھ ہی نان اسٹاپ شروع ہوئی تھی
” مجھ سے کچھ نہ پوچھو….میرا بہت موڈ خراب ہے…..” نیہا منہ پھلا کے بولی تھی
” چلو سڑی رہو……انس آپ کو پتہ ہے کچھ” ماوی نے اس سے پوچھا جو اسکے پیچھے پیچھے گھر میں آیا تھا
” انس بھائی اپنے کان اپنے ساتھ لے کے جاتیں ہیں”
نیہا نے کہا
” کیا….یہ کیا بے تکی بات ہے” انس الجھا
” آج سب ہی بے تکا ہے….انس بھائی اور تم میری بات رہنے ہی دو آج کی تازہ خبر سنو….ہماری مہرماہ کے ددھیال والے تشریف لائے تھے ” نیہا نے کہا
” کیا….مہر جی کے ددھیال والے….اتنے عرصے بعد….” ماوی حیران ہوئی تھی
” منحوس ہیں نا ہم سب کی زندگی میں زہر گھولنے کیلئے ہر پندرہ بیس سال بعد منہ اٹھا کے آجاتے ہیں….” نیہا کا لہجہ زہر بھرا تھا
” یہ تو خوشی کی بات ہے….تم کیوں کریلے چبا رہی ہو…..” ماوی نے اس سے پوچھا
” ارے جہنم میں گئی ….ایسی خوشی….اوپر سے انہوں نے میرا رشتہ مانگ لیا اپنے پوتے کیلئے…..”
نیہا نے اصل وجہ بتائی
” تم سچ میں پاگل ہو…..نیہا….اس میں خار کھانے والی کیا بات ہے…..” ماوی نے اسے ڈپٹا
” تم چپ رہو….ماوی…..جاؤ یہاں سے نیہا یہاں بیٹھو اور ساری بات بتاؤ” انس نے ماوی کو جانے کا اشارہ کیا
ماوی کیلئے انس کی ایک گھوری ہی کافی ہوتی تھی ویسے بھی اس دن کے بعد سے وہ بہت محتاط ہوگئی تھی
” بھائی کچھ…..کرو ماہ تو پرائی ہوگئی میں بھی چلی جاؤں گی….مجھے نہیں کرنی شادی…”
نیہا نے کہا
” پرائی تو وہ کب سے ہوگئی ہے نیہا…..مہرماہ تو میرے ہاتھ کی لکیروں کبھی تھی ہی نہیں…. ”
انس نے سوچا
” میں دیکھتا ہوں…..” انس اسے تسلی دیتا اٹھ گیا تھا
_____________________________________
میرے ساتھ ایسا ہی کیوں ہوتا ہے…..کہ ہر خواب میری آنکھ میں ٹوٹا ہوا تارا بن جاتا ہے ….مجھے نہ رشتے راس ہیں اور نہ محبتیں
مہرماہ بالکونی کے ٹھنڈے فرش پہ بیٹھی ہوئی تھی
پیلا ڈوبتا آخری تاریخوں کا چاند بھی مہر ماہ کے وجود کی طرح گھٹ رہا تھا کاسنی پھولوں والی بیل بھی چپ اپنے پھولوں کیلئے سر نیہواڑے جھکی ہوئی تھی
” میں نے آپ سے بہت محبت کی …..ہالار جاذب….اتنی کہ پھر میں میں نے نہیں رہی آپ ہوگئی…. میری باتیں میری روح….میری محبت سب آپکے نام ہیں….مہرماہ نے تب بھی آپ سے بہت محبت کی تھی جب آپ کو دیکھا نہیں تھا آپ میری نو عمری کا وہ خواب ہیں جس کی میں نے کبھی تعبیر نہیں چاہی تھی….لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسی محبت ہے یہ مہر ماہ کی محبت ہے اور مہر ماہ یہ محبت آخری سانس تک نبھائی گی”
مہرماہ کے چاندی جیسے چہرے پہ سیاہ ہیروں کی طرح چمکتی آنکھوں سے موتی جیسے آنسو پھیل رہے تھے
” اس گھر کا مجھ پہ بہت قرض ہے….جو مجھے اتارنا ہے”
مہرماہ سوچ چکی تھی
پر دل کا کیا کرتی
سترہ سال کی محبت تھی اسکی…..!!!!!!
اذیت سے وہ پتھر کی ہورہی تھی!!!!!!!
ک
خواب ٹوٹ جائیں تو یونہی چبھ چبھ کے پتھر کردیتے ہیں
وہ پھولوں جیسی لڑکی
اس رات شیشوں جیسا ٹوٹی تھی
اس چھوٹی لڑکی سے اسکی کل کائنات چھن چکی تھی
_____________________________________
” کیا سوچا ہے نیہا تم نے…..ماموں ہاں کررہے ہیں”
مہرماہ نے ضبط سے کہا تھا
” تم پاگل ہو کیا وہ تمہارا ہے …..تم نے محبت کی ہے اس سے….ایسے کیسے کہہ سکتی ہو تم….” نیہا چٹخی
” مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ تم سے محبت کرتے ہیں…مجھ سے نہیں…” مہرماہ نے تلخی سے کہا
” میں ابھی آتی ہوں پاپا سے بات کر کے” نیہا جلدی سے نیچے بھاگی تھی
” بابا….مجھے اس رشتے سے انکار ہے….” اس نے دھڑلے سے کہا تھا
سفیر صاحب نے اپنا چشمہ اتار کے اسے بغور دیکھا تھا
” کوئی ایک سولڈ رزن دو نیہا…..انکار کی ”
اور یہیں آکے نیہا کی زبان کو تالے لگ جاتے تھے
وہ کیا کہتی کہ انکار کی وجہ کیا ہے ….کہ مہرماہ کی نوعمری کی چاہت ہے میر ہالار ”
” بس مجھے پسند نہیں….”
” تو تمہیں کیوں لگا کہ میں تمہاری پسند کا انتظار کروں گا….نیہا شادی تمہاری ہماری پسند سے ہوگی …..کچھ اور کہنا ہے تو کہو نہیں تو جاسکتی ہوں….انس کو بھی رشتہ پسند ہے اور سب سے بڑھ کے میر جاذب کا ہم پہ بہت احسان ہے…..”
"تو اس احسان کے بدلے آپ اپنی بیٹی اسکی مرضی کے خلاف دے دیں…..”
” نیہا…..زبان بند کرو اور جاؤ یہاں سے ….” سفیر صاحب ناگواری سے بولے
نیہا پیر پٹختے ہوئے باہر آئی تھی
” نیہا …..پلیز شادی کرلو ہالار سے” مہرماہ کی بات پہ نیہا کو ایک اور کرنٹ لگا تھا
” تم انسان ہو اوتار نہیں…….” نیہا نے یاد دلایا.
” جانتی ہوں….”
” پھر کیوں کررہی ہو ایسا…..مرجاؤ گی…”
” کوئی نہیں مرتا نیہا…..جب ان سترہ برسوں میں نہیں مری تو اب کیسے مروں گی……تم فکر نہ کرو…” مہرماہ نے آنسو صاف کیے
” اتنا بڑا ظلم میں نہیں کرسکتی…..”
” یہ ظلم نہیں ہے….نیہا ”
” ہرگز نہیں ماہ….”
” میرے لئے بھی نہیں…..”
” قطعا نہیں….تمہارے لئے ہی تو نہیں کررہی تم مرجاؤگی….جو ابھی سانس نہیں لے پارہی اس تصور سے کہ میر ہالار نے میری ہم سفری کی خواہش کی ہے…..وہ جب اسے میرے ساتھ دیکھے گی تو مرہی جائے گی نہیں ماہ….میں خود غرض نہیں ہوں…”
نیہا جذباتی ہوئی تھی
پوری دنیا کو چھوڑ کے ہالار کو ملی بھی تو کون نیہا بی بی…!!!! حد ہی ہوگئی تھی
” مر تو میں ویسے بھی جاؤں گی….”
مہرماہ کا لہجہ بہت عجیب تھا
” کیا مطلب…” نیہا الجھی
” اگر تم نے اس رشتے سے انکار کیا تو میں خودکشی کرلوں گی”
مہرماہ نے آج پہلی بار ثابت کیا تھا کہ وہ میر سیال کی اولاد ہے….
” ماہ پاگل ہوئی ہو….تم ایسا کیسے کرسکتی ہو”
” ہاں پاگل ہوگئی ہوں….یاد رکھنا میر ہالار میری طرح ناشاد نہیں رہے گا اسے اس کا پیار ملے گا….نہیں تو میں ہر حد پار کرجاوں گی’
نیہا کو وہ باؤلی لگی تھی ….وہ اسے دیکھتی رہی
پیلے چاند کی روشنی میں وہ محبت کی صلیب پہ چڑھی کوئی قیدی ہی لگ رہی تھی
"تو ٹھیک ہے مہرماہ…..تمہارا حوصلہ آزماتے ہیں….تیار ہوں میں اس شادی کیلئے بتادو بابا کو”
نیہا کے دماغ میں جھانکنا مشکل تھا
_____________________________________
” نیہا……آپ اور یہاں ‘”
ہالار حیران ہوا تھا
ابھی کل ہی تو وہ ان سے مل کے آیا تھا
” آپ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں…..کیوں”
نیہا کا لہجہ سپاٹ تھا
” نیہا آئی وانٹ یو بی مائی لائف اینڈ بی مائی وائف…..” ہالار ایک جذب سے بولا تھا
” تو ٹھیک ہے ہالار صاحب…..کچھ میری پسند کا بھی تو ہو”
” یقینا کہئے……”
” حق مہر…..حق مہر میری مرضی کا ہوگا…جو میں مانگوں گی آپ دیں گے”
نیہا نے کہا
” اوکے…کیا ڈیمانڈ ہے آپکی…”
” آج نہیں عقد کے دن میر ہالار …..وعدہ کریں” نیہا نے اس سے اقرار مانگا
” اوکے…..جو آپ مانگیں گی وہ آپکو ملے گا….یہ ایک میر کا آپ سے وعدہ ہے…..میر ہالار جاذب کا”
ہالار نے اسے اقرار کی نوید دی تھی
” چلتی ہوں اب میں…..” نیہا اٹھ کھڑی ہوئی تھی
بابا یا انس کو پتہ چل جاتا کہ وہ یوں منہ اٹھا کہ ہالار کے گھر گئی ہے تو یقینا وہ اسے شوٹ کردیتے
” آپ ایسے یوں اکیلی….یہ خاصا نامناسب ہے نیہا” ہالار نے دبے لفظوں میں کہا
” میں ایسی ہی ہوں ہالار صاحب…..پابند رہنا مجھے پسند نہیں….” نیہا تڑ سے بولی
” ہوں…انہیں بھی تو پتہ چلے کیا انجام ہوتا ہے یوں اندھوں کی طرح فیصلے کرنے کا”
” آپ ایڈجسٹ کرجائیں گی ڈونٹ وری…..” ہالار نے اطمینان سے کہا
نیہا ہنہ کرکے رہ گئی تھی
” کیا سوچ کے آپ مجھے اپنا رہے ہیں….مجھے تو ڈھنگ سے انڈہ ابالنا بھی نہیں آتا… مجھ سے تو اچھی مہرماہ ہے…ہر شے میں پرفیکٹ ”
نیہا نے یوں ہی کچھ کھوجنا چاہا تھا
” مجھے اپنے لئے بیوی چاہئیے میڈ نہیں….اور جو بات آپ میں ہے وہ کسی میں نہیں” ہالار کچھ چڑ کے بولا تھا
"_یہ کزن تو جان کو ہی آگئی تھی ….”
نیہا مزید کچھ بولے بنا پلٹ گئی تھی میر ہالار جاذب لفظوں کا ساحر تھا اس میں کوئی شک نہیں تھا
_____________________________________
میر ہاؤس میں آج بن موسم طوفان آیا تھا اور مونا کی گھن گرج بنا بادل کے جاری تھی انہوں نے میر جاذب کو بے بہاؤ کی سنائی تھیں
” غضب خدا کا اکیلے اکیلے لڑکی پسند کی اور پھر اسکا رشتہ بھی لے کے پہنچ گئے اور لڑکی بھی کون اس سمعیہ چڑیل کی جو نہ اپنا گھر بسا سکی اور نہ میرے بسنے دے سکی…..اوپر سے آپ لوگوں نے اسکی بیٹی بھی دریافت کرلی…..واہ اتنی پھرتیاں….میر جاذب کمال کے انسان واقع ہوئے ہیں آپ”
"بہو…..اپنی حد میں رہو تم اچھی طرح جانتی ہو کہ رشتے مرد طے کیا کرتے ہیں اور رہ گئی مہرماہ تو وہ ہمارا خون ہے ہماری پوتی …..وہ اب یہیں رہے گی ہمارے ساتھ”
میر برفت نے بہو کی کلاس لی تھی
” میں ماں ہوں ہالار کی…..میری مرضی جانے بغیر آپ کیسے اس کا رشتہ کرسکتے ہیں….اور بہت جلدی یاد آگئی آپکو اپنی پوتی….ہنہ..”
مونا طنز سے بولیں تھیں
” تمہارا بیٹا تم سے اچھی طرح واقف ہے مونا بیگم….تم رشتے بگاڑنے والی عورت ہو سنوارنے والی نہیں…..اور اگر اب وہ اتنے برس بعد شادی کیلئے رضامند ہوا ہے تو تم اپنی چونچ بند رکھو”
میر جاذب بمشکل ضبط کرتے ہوئے بولے تھے
” اس ہالار کی تو میں خبر لیتی ہوں…..اس نے اچھا نہیں کیا ”
مونا قہر بھری نگاہوں سے انہیں گھورتے ہوئے چلی گئیں تھیں
” اگلے ہفتے نکاح کا ارادہ ہے بابا…..تب تک ٹھیک ہوجائے گا سب”
میر جاذب نے بابا کو تسلی دی تھی
” ہوں….مہرماہ کیلئے بھی کوئی بر دیکھتے ہیں ….ویسے ہم نے ہالار کا سوچا تھا”
” بابا اسکی پسند نیہا ہے….اور پھر ثمر اور عدیل ہیں نا…..سب بہتر ہوگا ”
میر جاذب کی بات پہ میر برفت کچھ سوچنے لگے تھے
____________________________________
شام کو رات کے تاریک سائے نگل رہے تھے جیسے مہر ماہ کو محبت کا فراق دھیرے دھیرے نگل رہا تھا
دو دن میں کھلتے گلاب جیسی رنگت کیسری رنگت میں بدل گئی تھی سیاہ آنکھوں میں جیسے نمی ٹھر گئی تھی …..یہ محبت میں کیسی آزمائش تھی کیسا وقت آن پڑا تھا
محبت طبعا مشکل پسند ہوتی ہے…….مہرماہ کو یاد تھا یہ بھی ہالار جاذب نے کہا تھا
اور ہالار جاذب کی کہی ہوئی ساری باتیں سچ ہوتیں تھیں
محبت دھیرے دھیرے مہرماہ کو نگل رہی تھی وہ ساکت سی سر جھکائے کب سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی تھی
” مہرماہ…..” عالیہ نے اسے پکارا
” جی جی…..مامی”
مہرماہ نے سر اٹھا کے انہیں دیکھا
” اتنا وقت ہوگیا ہے یہ نیہا اب تک نہیں لوٹی ”
عالیہ نے پریشانی سے کہا
” آجائے گی …..یونی میں کوئی پروجیکٹ ہوگا”
مہرماہ نے انہیں تسلی دی
” نمبر بھی بند کرکے بیٹھی ہے….”
” آپ فکر نہ کریں…..آجائے گی ” مہرماہ نے کہا
” تمہارے ماموں نے ہاں کردی ہے وہ لوگ نکاح کا کہہ رہے ہیں….اتنے کام ہیں اور اس لڑکی کا کچھ پتا نہیں” عالیہ بیگم نے کہا
” آپ فکر نہ کریں سب ہوجائے گا میں ہوں نا” مہرماہ نے گردن موڑتے ہوئے کہا کہ مبادا اسکے آنسو کوئی نہ دیکھ لے
یہ وقت بھی آنا تھا اس پہ…..!!!!!
شدت ضبط سے اسکی آواز بھاری ہوگئی تھی
” ہاں تم ہو تو فکر کیسی…..اچھا مغرب ہونے والی ہے اندر آجاؤ” عالیہ خود بھی اٹھتے ہوئے بولیں تھیں
مہرماہ سر ہلا کے رہ گئی تھی وہ اندر نہیں جانا چاہتی تھی دوبارہ سے لان کی گھاس پہ بیٹھ گئی تھی مغرب کی نماز بھی وہیں ایک کونے میں ادا کرکے فارغ ہوئی تھی جب نیہا کی آمد ہوئی تھی
” کہاں تھیں تم…..” ماہ نے پوچھا
” کہیں نہیں…..” نیہا نے تھکے تھکے لہجے میں کہا
” نیہا…..کہاں سے آرہی ہو تم….”
ماہ نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا
"جہنم سے آرہی ہوں……چلنا ہے تم نے ” نیہا چڑی تھی
” کیا ہوگیا ہے نیہا…..کیوں ری ایکٹ کررہی ہو ایسے”
ماہ نے اچنبھے سے کہا
” تم ماہ تم….کیسے لوگ ہیں ہمارے ماں باپ اولاد کو ہر طرح کا فیصلہ کرنے کی آزادی دیں گے مگر جب بات شادی کی ہو تو ان سے زیادہ کٹھور اور سنگ دل کوئی نہیں…..کیوں ان لوگوں کو تمہاری نم آنکھیں اور زرد رنگت نظر نہیں آتی ….بولو ….کیسے بے حس لوگ ہیں یہ….شرم آتی ہے مجھے اپنے آپ سے …نفرت ہوتی ہے اپنے اس چہرے سے جس سے ہالار جاذب نے محبت کی ہے” نیہا پھٹ پڑی تھی
” نیہا…..پلیز انہیں کچھ نہیں پتا….اور پتا چلنا بھی نہیں چاہئیے انہیں لگتا ہے کہ میں اس وجہ سے پریشان ہوں کہ ان سے دور چلی جاؤں گی”
ماہ نے اسے ہاتھ سے پکڑ کے نیچے بٹھایا تھا
” اپنے آپ کو تسلیاں دینا بند کرو…..ماہ یہ تمہاری دنیا نہیں تمہارے لوگ نہیں….تم ان خود غرض لوگوں کو ڈیزرو نہیں کرتیں ….”
نیہا نے اسکے کندھے پہ سر رکھا تھا
” نیہا….مت کرو ایسے…تم مجھے کل بھی عزیز تھیں اور آج بھی ….اور میر ہالار کے حوالے سے تو اور بھی ”
مہرماہ نے ہمیشہ اسکے لئے اپنا دل مارا تھا آج بھی اسے بہلایا تھا خود اپنا دل توڑ کے
” تمہیں تو مجھ سے نفرت کرنی چاہئیے تھی نا ماہ….میں نے تم سے تمہاری سترہ سال کی محبت چھین لی”
نیہا سسکی
” چھوڑو نیہا ….تم بھی کس کا غم کرتی ہو….جو کبھی میرا تھا ہی نہیں وہ چھن کیسے سکتا ہے”
مہرماہ نے اپنے آپ کو جیسے یہ بات یاد کروائی تھی
_____________________________________
ذرا ٹھرو !!!
مجھے محسوس کرنے دو
تمہارے بعد کا منظر
دل برباد کا منظر
جہاں پر آرزؤں کے جوان لاشوں پہ
کوئی رو رہا ہوگا
جہاں قسمت محبت کی کہانی میں
جدائی لکھ رہی ہوگی
مجھے ان سرد لمحوں میں سسکتے
درد کی گہرائی کو محسوس کرنے دو
رات آدھی سے زیادہ ڈھل چکی تھی مہرماہ سے تو نیند یوں روٹھی تھی کہ آکے ہی نہ دیتی تھی بالکونی میں جھولے پہ بیٹھے بیٹھے نہ جانے کتنا سمے بیت جاتا تھا اور سویرا نکل آتا تھا
نیہا نہ جانے آج کل کن چکروں میں تھی یونی سے آنے کے بعد وہ ماوی کی امی کے ساتھ بازار کو نکل جاتی تھی مہرماہ خالہ کے آنے کے بعد خود ہی سائیڈ پہ ہوگئی تھی ماوی اسے زبردستی گھسیٹتی تو اسکی ماں کے آنکھوں کا سرد سا تاثر مہرماہ کو الگ ہونے پہ مجبور کردیتا تھا
وہ نفرت اور سرد مزاجی سہہ ہی نہیں پاتی تھی مہرماہ کا خمیر ایسی مٹی سے اٹھا ہی نہ تھا
مونا دو دن پہلے انکے گھر آئیں تھیں تھیکے تیور اور تنے ہوئے ابرو وہ کسی کو بھی پسند نہیں آئیں تھیں دو گھنٹے کی اس ملاقات میں انکی ایکسرا کرتیں نگاہیں مہرماہ پہ ہی مرکوز تھیں
میر برفت کی وجہ سے وہ دبی ہوئیں تھیں مہرماہ کو انکی شفقت سے عجیب سی گھٹن محسوس ہوئی تھی
” چلو بیٹی ہمارے ساتھ….”
انہوں نے پیار سے کہا تھا
” ابھی نہیں….. کچھ دن بعد یہاں کام ہے ….” مہرماہ نے انکار کیا تھا
وہ سب ہالار کے گھر پہ تھے اور مہرماہ اس شخص کا سامنا کرتے ہوئے ڈرتی تھی
” ہاں بھائی اسے عادت کہاں ہوگی یوں فارغ بیٹھنے کی …..نیہا ہمیں اپنا ناپ دے دو….”
مونا نے تحکم سے کہا تھا
وہ خود بھی نہیں چاہتی تھیں کہ مہرماہ انکے ساتھ چلے انکی راجدھانی میں شراکت ہو ساس کی موت کے بعد ہر سیاہ اور سفید کی مالک وہیں تھیں ہمدان کی بیوی بھی ان سے خاصا دبتی تھیں
مہرماہ کو انکا وہ عجیب سا تحقیر بھرا انداز تکلیف دے رہا تھا
” یا اللّه ایک محبت کرنے پہ اتنی اذیت
……” شدت غم سے وہ رو پڑی تھی ویسے بھی اس اندھیرے میں کون اسکے آنسو دیکھتا
” روتی کیوں ہو…..اچھی لڑکی….”
مگر وہ یہ بھول گئی تھی کہ اسکے آنسو ایک شخص نہیں دیکھ سکتا تھا
وہ تھا انس سفیر…..!!!!!
” انس …..آپ اور اس وقت….” مہرماہ نے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا
” تم بھی تو ہو یہاں تو میں کیوں نہیں…..یہ اور بات کہ ہم مل نہیں سکتے مگر ساتھ بیٹھ اور چل تو سکتے ہیں نا” انس اسکے ساتھ جھولے پہ ہی بیٹھ گیا تھا
” انس….ایسا مت کہیں کیوں اپنے آپ کو اذیت دیتے ہیں….مجھے تکلیف ہوتی ہے…”
ماہ تڑپ کے بولی تھی
اس کا دل بھی تو انس کی طرح ٹوٹا تھا
” نہیں ماہ…..تم کیوں روتی ہو….میں تمہیں کبھی بے چین نہیں دیکھ سکتا….بتاؤ کیا بات ہے….” انس نے پوچھا
” بس وہ نیہا کی جدائی کے خیال سے…..” مہرماہ سر جھکا کے بولی
” ماہ مجھ سے تو مت چھپاؤ…..”
” نہیں انس یہی بات ہے” ماہ نے سر جھکا کے کہا
” مہرماہ…..مجھے کیوں لگتا ہے تمہارا دل ٹوٹا ہے….جس کی کرچیاں تمہاری آنکھوں میں نظر آتیں ہیں”
انس کی بات پہ مہرماہ ساکت رہ گئی تھی وہ اسے آج سے نہیں بچپن سے جانتا تھا اس سے محبت کرتا تھا …..تو کیسے وہ جان نہیں پاتا
ایک وہی تو تھا جو بن کہے اسکی سن لیتا تھا
” انس…..بس یہ سب بہت عجیب سا لگ رہا ہے کچھ انوکھا سا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ”
مہرماہ روپڑی تھی
” ماہ رونا نہیں…..سب ٹھیک ہوجائے گا….”
"” کچھ ٹھیک نہیں ہوگا انس…..کچھ نہیں مہرماہ یوں ہی ساری زندگی ناشاد رہے گی” مہرماہ نے دکھ سے سوچا تھا
” انس…..” اس نے پکارا
” ہاں….کہو”
” انس بہت تکلیف ہوتی نا جب خواب ٹوٹیں…..”
” ہاں ماہ بہت درد ہوتا ہے…..”
انس گم صم سا بولا
” انس ہوسکے تو مجھے معاف کردیجئیے گا…..میں نے آپکا دل دکھایا ….” ماہ بولی تھی
” نہیں ماہ تمہیں حق تھا…..”
” انس…..آپ کسی اچھی سی لڑکی سے شادی کرلیں جو آپ کے سارے دکھ بانٹ لیں”
ماہ نے التجا کی تھی
” میری اچھی لڑکی تو تم تھیں نا….مہرماہ….اب دوسری تو کوئی ہو نہیں سکتی”
انس دھیرے سے ہنسا
” ہوسکتی ہے…..انس…..میں نے آپ لوگوں سے بہت محبت کی ہے ….میں آپ کو یوں نہیں دیکھ سکتی….آپ پلیز کسی اچھی لڑکی کو اپنا لیں….میرے جانے کے بعد مامی تنہا ہو جائیں گی نیہا بھی نہیں ہوگی….”
” تم چلی جاؤگی …..ماہ”
انس نے حیرانگی سے کہا
” میرا جانا تو ازل سے طے تھا انس….مجھے سیراب سمجھ کے بھول جائیں”
اور مہرماہ اسے نصیحت کرتے ہوئے بھول گئی تھی کہ کیا وہ سترہ برس سے سیراب کے پیچھے نہیں بھاگ رہی تھی ؟؟؟؟؟
_____________________________________
” اماں جان بس کردیں غصہ تھوک بھی دیں…..”
ہالار نے لاڈ سے کہا
” نہیں میر ہالار تم نے جو کیا ہے نا میں اتنی آسانی سے نہیں بھولوں گی…..میں ماں ہوں تمہاری دشمن نہیں….”
” آئی نو….مگر اماں مجھے لگا کہ آپ نہیں مانیں گی….” ہالار نے اپنا خدشہ بیان کیا
ساری زندگی تو ان لوگوں کی برائی ہی سنی تھی ہالار نے مونا کے منہ سے
” یہاں تک تو تم نے اپنی مرضی کرلی مگر آگے تمہاری بیوی کو کیسے ٹریٹ کرنا ہے اسکا فیصلہ میں کروں گی…..” مونا نے تنفر سے کہا تھا
” سوری ماما….. مگر میں ایک اور سمعیہ نہیں بنانا چاہوں گا ….اور نہ ہی یہ چاہوں گا کہ آپ مجھے سیال چچا بنائیں…..”
ہالار ہمیشہ دوٹوک بات کرتا تھا چاہے وہ کسی کو پسند آئے یا نہیں
” ہالار…. ” مونا نے کچھ کہنا چاہا
جب میر ثمر کی آمد ہوئی تھی
” اوئے ہوئے فائنلی….میروں کے ہاں بھی شادیانے بجیں گے….مبارک ہو تائی جان”
"خیر مبارک…..”
” اور میر ہالار بڑے فارم ہو جھٹ لڑکی پسند کی اور پٹ شادی کی تیاری….نیویارک کا تو اثر نہیں آگیا” میر ثمر اسکے پاس بیٹھتے ہوئے بولا
” محاورے کی دھجیاں بکھیر دیں میر ثمر حد ہے ویسے…..”
” لو انکو محاوروں کی پڑی ہے…..یہاں جناب کی آزادی ختم ہونے والی ہے….مجھے تو لگتا تھا جناب سدا بہار کنوارے رہیں گے”
میر ثمر شوخی سے بولا تھا
” تم سے میں نے کہا تھا نا میر ثمر….جس دن مجھے اپنے معیار کی لڑکی ملی میں دو دن نہیں لگاؤں گا اسے اپنانے میں…..اور میر ہالار جو کہتا ہے وہ کرتا بھی ہے”
میر ہالار نے اسے یاد دلایا
مونا کو غصہ آگیا تھا اس بات پہ ….میر ہالار آنے دو زرا بہو بیگم کو پھر دیکھوں گی تمہارے تیور
اور یہ تو ازل سے طے تھا کہ مونا جیسے کینہ پرور لوگ کبھی خوش نہیں رہ سکتے
_________________,,,,__________________
” ساری تیاری ہوگئی…” میر برفت نے پوچھا
” جی بابا جان کارڈز بھی تقسیم ہوگئے ہیں….وہ آپ سے پوچھنا تھا میڈیا کو انوالو کرنا ہے یا نہیں ”
میر جاذب نے پوچھا تھا
” پلیز بابا قطعا نہیں…..” ہالار نے صاف انکار کیا تھا
” نہیں ہالار…جاذب میڈیا والوں کو تو بلانا ہی پڑے گا…..آخر ہمارا ایک نام ہے ….پہچان ہے ہماری….”
میر برفت نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا تھا
” سفیر بھائی سے بات ہوئی تھی ….انہوں نے پوچھا ہے کہ کل ہم کب تک پہنچیں گے….”
میر جاذب نے پوچھا
” نکاح کا وقت ہے….جتنی جلدی پہنچیں وہ بہتر رہے گا….بہو کی ساری چیزیں پہنچادیں تھیں”
میر برفت نے خیال آنے پہ پوچھا تھا
” جی ….آپ فکر نہ کریں…”
مونا نے مستعدی سے کہا تھا
_____________________________________
” مہرماہ کہاں ہے ماوی….اسے بلاؤ….” نیہا نے فل اسپیڈ سے گانے گاتی ماوی سے کہا
” مہرماہ جی…..” ماوی نے اسے پکارا جو سفید نیٹ کے فراک پہ سات رنگوں کی دھنک کا دوپٹہ پہنے سیاہ بال جوڑے میں لپیٹے اور ہونٹوں پہ حزن بھری مسکان لئے تیار تھی
” ہاں کیا ہوا”
” آپکو….نیہا بلا رہی ہے جلدی آئیں….” ماوی جس تیزی سے آئی تھی
اسی تیزی سے بھاگی تھی اور اسی بھاگ دوڑ میں وہ بڑے زور سے انس سے ٹکرائی تھی
” اف…..” ماوی نے سر پکڑ لیا
” دیکھ کے نہیں چل سکتیں….” انس نے اسے گھورا
کرنجی آنکھیں شعلے برسا رہیں تھیں
"تو آپ کونسا دیکھ کے چل رہے ہیں….” ماوی جل کے بولی
” واٹ…..میں دیکھ کے چل رہا تھا احمق لڑکی تم ہی ہوا کے گھوڑے سر پہ سوار تھیں” انس نے چڑ کے کہا
” اور آپ…..آپ جیسے ایف سولہ میں سوار ہو کے اڑ رہے تھے…..مسٹر انس سفیر آپکو بتاتے چلیں….کہ یہ گھر ہے ائیر بیس نہیں جہاں آپ تھنڈر طیارے اڑاتے پھریں….”
ماوی نے پچھلا حساب سارا بے باق کیا تھا
” تم….انتہا سے زیادہ بدتمیز لڑکی ہو” انس نے مٹھیاں بھینچیں
” ہوں خود کیا ہیں….ائیر فورس میں ہیں اس لئے زمین پہ رہنے کے بجائے ہر وقت دماغ اور خود بھی ہواؤں میں رہتے ہیں….برائے مہربانی واپس تشریف لے آئیں لینڈنگ کا وقت ہوگیا ہے…..” ماوی نے کسی فضائی میزبان کی طرح کہا تھا
” ماوی…..تم کیا سمجھتی ہو اپنے آپ کو …”
انس کو شدید غصہ آیا تھا …..ورنہ وہ بہت ٹھنڈے مزاج کا بندہ تھا
” آپ سمجھنے کی کوشش کریں آجاؤں گی سمجھ…..پر نہ جی ہر وقت تو شعلے کے ٹھاکر بنے رہتے ہیں”
ماوی نے فرمائش کی تھی
” مجھے قطعا بھی کوئی شوق نہیں تم سے مغزماری کرنے کا…..سر کا درد ہوا تم اور بس”
انس نے جل کے کہا تھا
” یہاں آپکو کریکشن کی ضرورت ہے انس صاحب……میں ٹوٹے دلوں کا سکون بھی ہوں…..آپ کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ….زندگی بہت طویل ہے اور ہر موڑ پہ ایک نیا ہم سفر ….اپنے خول سے باہر آجائیں….زندگی آپکو ویلکم کہنے کو تیار ہے….” ماوی نے دھیرے سے نگاہءں جھکا کے کہا تھا اور فورا کھسک لی تھی
انس کا کچھ بھروسا نہ تھا اسے ہی اٹھا کے گھر سے باہر پھینک دیتا
انس ماوی کی بات پہ حیران رہ گیا تھا….ماوی نے کتنی گہری بات کی تھی
جس کی اس کم عقل لڑکی سے توقع بھی نہ تھی اسے
_____________________________________
آج ہالار اور نیہا کی مہندی کے ساتھ نکاح کا فنکشن بھی تھا
یہ تجویز میر جاذب کی تھی تاکہ بارات کا دن سکون سے گزرے نکاح ہونے سے آدھا بوجھ کم ہوجائے گا
رخصتی کیلئے ہوٹل کی بکنگ تھی مگر مہندی کا ارینجمنٹ کالونی میں بنے پارک میں ہی کیا گیا تھا جہاں سب فنکشن ہوتے تھے کالونی کے
” تم نے بلایا نیہا….” مہرماہ بولی
” ہاں ….وہ میں کہہ رہی تھی ہالار کے گھر والے آگئے ”
نیہا نے پوچھا
” پتہ نہیں میں انس سے پوچھتی ہوں ”
مہرماہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا جو مہندی کے پیلے جوڑے میں کچھ الجھی الجھی تھی
” رہنے دو میں ہالار کو کال کر کے پوچھ لیتی ہوں تم جاؤ اپنا کام کرو….اور زرا ڈھنگ سے تیار ہو….مرگ نہیں ہے کسی کی” نیہا نے اسے ڈپٹا تھا
مہر ماہ نے اسے رشک سے دیکھا تھا جتنا اعتماد نیہا میں تھا اگر دس فیصد بھی اس میں ہوتا تو آج وہ نیہا کی جگہ ہوتی
مگر مہرماہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ نہیں نیہا اسکی جگہ پہ آئی تھی…….
ہالار لوگ پہنچ چکے تھے انس اور ہالار باتوں میں مصرو ف تھے جب ہالار کا سیل بجا
وہ ایکسکیوز کرتا ہوا سائیڈ پہ ٰآیا تھا
” نیہا کالنگ….”
ہالار نے کال ریسیو کی
” نیہا خیریت….آپ نے کال کی اس وقت…”
” آپ بھول گئے …..میں نے کہا تھا نکاح پہ حق مہر میری مرضی کا ہوگا”
نیہا نے یاد دلایا تھا
” اف کورس ….فرمایے …” ہالار خوش دلی سے بولا
” آپ گھر پہ آئیے….” نیہا نے کہا .
” نیہا…اٹس امپاسبل آپ انس کو بتادیجئے….”
ہالار نے کہا
” نو وے…..جس نے حق مہر دینا ہے وہی سنے بھی ”
نیہا ہٹ دھرمی سے بولی تھی
” یہ بہت اووڈ لگے گا نیہا….”
” کوئی اووڈ نہیں….بھائی اور بابا بھی یہاں ہونگے انکے سامنے ہی بتاؤں گی ”
نیہا نے کہا
” اوکے….میں انس کے ساتھ آتا ہوں” ہالار نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا
” پر اتنا سسپنس کیوں پھیلا رہی ہو نیہا۰۰۰۰۰۰ایسا بھی کیا چاہئیے تمہیں”
” آپ آئیں تو سہی…..اور بے فکر رہئیے آپ دے سکتے ہیں”
نیہا نے کہہ کے رابطہ ختم کردیا تھا
” ہالار…..بابا بلا رہے ہیں گھر چلنا ہے”
” ہاں شیور…..”
نیہا انہیں ڈرائنگ روم میں ہی مل گئی تھی …..گھر میں موجود مہمان یا تو تیار ہورہے تھے یا وینیو پہنچ چکے تھے اس لئے نیہا نے یہ وقت منتخب کیا تھا
” نیہا اب بتا بھی چکو…..کیا ڈیمانڈ ہے تمہاری….” سفیر صاحب بولے
جو باری باری سب کو دیکھ رہی تھی
” مجھ سے محبت کا کتنا دعوا ہے اپکو….” نیہا نے ہالار سے پوچھا
” یہ کیسا سوال ہے نیہا…..” ہالار کو یہ لڑکی پریشان کررہی تھی اب
” مجھے آپ سے محبت ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ میں آپ سے نکاح کررہا ہوں”
"ٹھیک ہے میں حق مہر کی ڈیمانڈ کرسکتی ہوں پھر…..”
” کرو….”
” اگر میر ہالار جاذب کو مجھ سے محبت ہے…..اور نکاح کی خواہش ہے تو انہیں مہرماہ سے نکاح کرنا ہوگا”
نیہا نے بلی تھیلے سے نکال ہی دی تھی
” پاگل ہوگئی ہو نیہا یہ کیا بکواس ہے…..” سفیر صاحب غصے سے بولے
” پاپا….پلیز ….یہی میری ڈیمانڈ ہے….اور میر ہالار آپ وعدہ کرچکے ہیں…” نیہا نے یاد دلایا
” نیہا…..آپ مجھ سے چاند کی فرمائش کرسکتیں ہیں میں یہ سوچ سکتا تھا….پر اس قسم کی بات نو وے…..آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے….یہ پاسبل نہیں ہے….”
ہالار کا دماغ گھوما تھا
” کیوں ممکن نہیں چار شادیوں کی اجازت ہے مرد کو…. اور ویسے بھی آپ تو کرسکتے ہیں….”
” میں آپکی یہ بات نہیں مان سکتا ”
” تو ٹھیک ہے میں بھی اس شادی سے انکار کرتی ہوں….”
” نیہا….تمہاری اتنی جرات کیسے ہوئی….اتنی بڑی بات….کرنے کی جانتی ہو کہ کتنی بدنامی ہوگی….سارا اسٹاف اور خاندان جمع ہے میرا” سفیر صاحب پیشانی پسینے سے تر ہوگئی تھی سوچ سوچ کے
” بدنامی تو تب بھی ہوگی پاپا….جب لوگ یہ سنیں گے کہ دلہن نے نکاح کے وقت خودکشی کرلی ہے….اور پھر مہرماہ کو بھی کوئی نہیں پوچھے گا….ہالار صاحب نے آپ نے وعدہ کیا تھا…..کونسے میر ہیں آپ کیا میر جعفر کی طرح آپکو بھی غداری کی عادت ہے عین وقت پہ”
نیہا نے ان سب کو ٹھیک الجھایا تھا
” انف از انف…..نیہا…..آپ بہت بول چکیں اس طرح آپ ہمارا تماشہ نہیں لگا سکتی…..” ہالار غصے سے بولا تھا
” تماشہ تو لگے گا….اور آپکا تو اور زیادہ لگے گا کیونکہ باہر میڈیا بھی ہوگا ….سوچیں میر ہالار کیا ہوگا جب میڈیا کو پتہ چلے گا کہ آپ کی ہونے والی دلہن نکاح سے پہلے خودکشی کرچکی ہے…..”
نیہا اسے مسلسل اکسا رہی تھی اور مرد کو جب غصہ دلایا جائے تو پھر وہ ہر شے سے ماورا ہوجاتا ہے
” چہ چہ….میر ہالار محبت کے میدان میں اتنا بودا نکلا….ایک آزمائش بھی نہ سہہ پایا”
نیہا نے طنز سے کہا
” اوکے….نیہا….اسٹاپ اٹ یہی ڈیمانڈ ہے نا تمہاری….تو ٹھیک ہے میں مہرماہ سیال کو اپنانے کو تیار ہوں”
ہالار کاضبط جواب دے چکا تھا وہ مسلسل اسکی محبت کو نشانہ بنائے ہوئے تھی
” نیہا….کیا کررہی ہو یہ….” انس نے اسے جھنجھوڑا
” بھائی….تم چپ رہو… فی الحال …میری بات مانو ”
نیہا نے اسکا ہاتھ ہٹایا تھا
” تو ٹھیک ہے ابھی آپکا اور مہرماہ کا نکاح ہوگا آج ہی….” نیہا نے کہا تھا
اور اندر آتی مہرماہ کے ہاتھ سے مہندی کا تھال چھوٹا تھا
یہ کیا کہہ رہی تھی نیہا……!!!!!!!
مہرماہ سن ہوگئی تھی
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...