شاید دوسال گزر گئے اس واقعے کو……. جب ایک سرد صبح یوسف کمال صاحب میرے غریب خانے پر تشریف لائے۔ ان کے ساتھ چار پیاری پیاری نظمیں تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ میں ان نظموں کو خوشخط لکھ دوں۔ مجھے حیرت ہوئی اب تک تو یہ ہوتا تھا کمال صاحب کوئی نظم تخلیق کرتے تو اسے سنانے چلے آتے …..کبھی کسی افسانے کا انگریزی ترجمہ کیا تو مجھے اسکا سب سے پہلا سامع ہونے کا افتخار حاصل ہوتا…..اسی کلیہ کے تحت انھیں پہلے تو نظمیں سنانی چاہئے تھیں … میں استفہامیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ میری آنکھوں میں تھرکتے سوالوں کو غالباً انھوں نے پڑھ لیا اور کہا … ’’یہ نظمیں میری نہیں ‘‘ ’’پھر ‘‘…. میں نے مزید حیرت میں ڈوب کر پوچھا…..
’’یہ کمار صاحب کی نظمیں ہیں‘‘……
کمار صاحب …….؟ کون کمار صاحب….؟ میں نے سمندر میں غوطے لگائے ! ’’ارے بھئی کمار صاحب ……..؟ شیو کے کمار ‘‘ اوہ …. مرے ذہن میں ایک جھماکہ ہوا۔ شیو کے کمار، انگریزی ادب کے پروفیسر ….عثمانیہ یونیورسٹی بلکہ حیدر آباد یونیورسٹی کے بھی ایک مایہ ناز ہستی ……وہ استاد جو اپنے شاگردوں میں برسوں تک انگریزی ادب کے رنگین قمقمے بانٹتا رہا۔ روشنی پھیلاتا رہا….. کمار صاحب ادب کے نقاد بھی ہیں اور تخلیق کار بھی …ناول، ڈرامے، شاعری ….سب کچھ ہے ان کے پاس ….! اس یونیورسٹی میں آنے سے قبل میں جس کمپنی میں ملازم تھا، وہاں میرے ایک دوست تھے مسٹر سی این وٹھل راؤ … یہ پروفیسر کمار کے شاگرد رہ چکے تھے اور بیشتر اوقات جب ادب اور شاعری پر بات چلتی تو پروفیسر کمار کا ذکر ضرور آتا…..وٹھل راؤ بڑی عقیدت سے ان کا تذکرہ کرتے تھے اور اسطرح مجھ پر بھی پروفیسر کمار کا رعب چھا گیا تھا….!
پھر کچھ یوں ہوا کہ بعد از خرابیِ بسیار میں نے ۱۹۸۰ء میں یونیورسٹی آف حیدر آباد کے شعبۂ اردو میں داخلہ لیا۔ ایک دن گولڈن تھریشولڈ کی سیڑھیوں سے میں ایک بہت ہی با وقار شخصیت کو اتر تے دیکھا۔ کسی نے بتایا کہ یہ پروفیسر شیو۱ کے کمار ہیں …. میں تو بس انہیں دیکھتا ہی رہ گیا….. ایک عجیب سا رعب طاری ہوا…. ہمت ہی نہ پڑی کہ آگے بڑھ کر ان سے ملتا …. طبیعت کی جولانی جیسے غائب ہو گئی تھی اور میں اپنے آپ کو ایک تنکے کی طرح محسوس کر رہا تھا….. کمار صاحب نے اپنے ساتھی اساتذہ سے ہاتھ ملایا …. کار میں بیٹھے اور چلے گئے ….جیسے ایک ہوا کا جھونکا…..اور مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ انھیں سلام ہی کر لیتا …. پھر ان کے بارے میں ان کی شاعری کے بارے میں مختلف لوگوں سے تبصرے سنتا رہا۔ غالباً اس وقت تک کمار صاحب ریٹائرڈ ہو چکے تھے لیکن کبھی کبھی شعبہ انگریزی میں تشریف لایا کرتے تھے۔ اور پھر بعد میں جب کبھی وٹھل راؤ سے میری ملاقات ہوتی تو کمار صاحب کا ذکر شدومد سے ہوتا۔ اور اب مجھے بھی یہ افتخار حاصل تھا کہ جس یونیورسٹی میں کمار صاحب تھے وہاں کا میں بھی طالب علم تھا اور اس طرح میں بھی ان کا بالواسطہ شاگرد تھا…. اسی لئے جب کمار صاحب کا ذکر ہوتا تو ایک عجیب سی اپنائیت کا احساس مجھ میں ابھرتا تھا۔ دس سال بعد جب یوسف کمال نے کمار صاحب کا نام لیا تو ساری باتیں ذہن میں لوٹ آئیں …. میں نے نظمیں ہاتھ میں لیں اور انھیں دیکھنے لگا ……یہ نظمیں یوسف کمال نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی تھیں۔ احساس ہوا کہ یہ تو بہت اعلیٰ سطح کا شعری اظہار ہے ….لیکن یہ بھی خیال آیا کہ یہ تو محض ترجمہ ہے …. کیوں نہ اسے انگریزی میں دیکھا جائے۔ میں نے انگریزی نظم کا مطالبہ کیا اور کمال صاحب نے جب نظمیں دیں تو میں ان میں کھوسا گیا ….میرے احباب کا خیال ہے کہ میری انگریزی اچھی ہے …..لیکن ایاز خود بشناسد کے مصداق میں جانتا ہوں کہ پہلی نظر میں انگریزی نظم کے مفاہیم اور اس کے اندر پوشیدہ استعاراتی نظام تک رسائی ایک مشکل امر ہے۔ کمال صاحب نے میری رہنمائی کی …..ہم دونوں نے بیٹھ کر ان نظموں کا تفصیلی مطالعہ کیا….ترجمے پر بحث ہوئی …. کہیں اختلاف ہوا تو ڈکشنریاں نکال لی گئیں …. ہم نے ایک ایک لفظ پر بڑی وحشیانہ بحثیں کیں ….. (Wild discussion)کے لئے میرے پاس کوئی لفظ فی الحال نہیں ہے۔ ایک ایک نظم پر اتنا جھگڑا کیا کہ خدا کی پناہ …. کمال صاحب چاہتے تھے کہ میں نظموں کو خوشخط لکھ دوں لیکن میں تو ان کے ترجمے کے عمل میں دخیل ہو گیا تھا …! وہ تو خیر گزری کہ کمال صاحب نے برا نہیں مانا بلکہ الٹے خوش ہوئے ……میں یہ تونہیں جانتا کہ ترجمے کی سطح میں کچھ اضافہ ہوا یا نہیں لیکن مجھے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ میری انگریزی نظموں کی تفہیم کی سطح قدرے بلند ہو گئیں۔ اور میں نے شیو کے کمار کی نظموں میں پوشیدہ لطیف احساس کو کچھ حد تک سمجھنے کی صلاحیت پیدا کر لی۔
ایک، دو، تین، چار ……یہاں تک کہ جملہ سینتالیس نظمیں دیکھی گئیں …… لفظ بدلتے رہے …..کاغذ چاک کئے جاتے رہے اور تقریباً چھ ماہ کے عرصے میں ان کے ترجمے کو آخری شکل دی گئی۔ پھر مسودہ ساہیتہ اکیڈیمی بھیج دیا گیا…. بات آئی گئی ہو گئی…… ایک دن میں کسی کام سے عثمانیہ یونیورسٹی گیا تو یوسف کمال سے بھی ملا۔ انھوں نے بتایا کہ کمار صاحب کچھ عرصہ دہلی میں گزار نے کے بعد اب پھر حیدر آباد میں ہیں۔ خواہش پیدا ہوئی کہ ان سے ملوں …. لیکن میرے کہنے سے قبل ہی کمال صاحب نے کہا ’’چلو گے ……‘‘ ’کیوں نہیں ‘ میں نے بلا کسی تامل کے جواب دیا…… اور ہم دونوں کمار صاحب کی رہائش گاہ پہنچے۔ اور جس انداز میں کمار صاحب مجھ سے ملے وہ میرے ذہن پر ہمیشہ نقش رہیگا….. انھیں میرے بارے میں پوری طرح علم تھا…. وہ جانتے تھے کہ میں یونیورسٹی آف حیدر آباد کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوں۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ ترجمے کے عمل میں میں بھی شامل رہا ہوں۔ اور پھر بہت سی باتیں ہوئیں ….غالب پر، اقبال پراور فیض پر …..تب مجھے پتہ چلا کہ فیض ان کا محبوب شاعر ہے۔ اور یہ کہ انھوں نے فیض کو براہ ترجمہ نہیں پڑھا …. میرا مطلب ہے انھوں نے فیض کو انگریزی میں نہیں بلکہ اردو میں پڑھا تھا۔ وہ اردو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور پھر انھوں نے فیض کا مجموعہ کلام نکالا اور اس کی مشہور نظم ’’تنہائی ‘‘ سنائی اور میں بس عقیدت سے انھیں تکتا رہا…..
کچھ مہینے اور گزر گئے۔ جب کتاب بے حد خوبصورت چھپ کر آئی تو کمال صاحب اسے لے کر سیدھے میرے پاس تشریف لائے۔ کتاب بے حد خوبصورت چھپی تھی۔ اس وقت میں نے کمال صاحب سے کہا تھا کہ بھئی اس پر مجھے حق ہے لکھنے کا ….. اور میں لکھوں گا….. تو آیئے آسمان کی ان کمیں گا ہوں کی سیر کریں جہاں سے کمار صاحب اس سارے کرہ ارض کو دیکھ رہے ہیں ….. کبھی اپنے وطن میں رہ کر، کبھی اپنے وطن سے باہر …. انگریزی کتابTraofalls in the skyمیکملن نے چھاپی ہے۔ قیمت پینتیس روپیہ ہے۔ گٹ اپ کچھ نہیں …. پیپر بیک پر چھپی ہے۔ اوراس کا ترجمہ ’’آسمان میں کمیں گاہیں ‘‘ ساہیتہ اکیڈیمی نے شائع کیا ہے۔ قیمت چالیس روپیہ ہے مجلد، ڈسٹ کور کے ساتھ ….اور بے حد خوبصورت ٹائٹل….. انگریزی کتاب کو ساہیتہ اکیڈیمی نے انعام سے نوازا تھا پھر اس کے ترجمے کو شائع کیا۔ کتاب تین حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا حصہ ہے ’’اپنی دھرتی پر‘‘ جس میں وہ نظمیں ہیں جن کا موضوع ہندوستان کے کچھ مقامات کچھ واقعات اور کچھ حادثات کے علاوہ خود کمار صاحب کی اپنی شخصیت ہے …. یا پھر وہ شخصیتیں ہیں جن کا تعلق کمار صاحب سے ہے۔ ان مقامات، واقعات اور شخصیتوں کو کمار صاحب نے اپنے فن کی آنکھ سے دیکھا ہے۔ ایک کیمرہ وہ ہوتا ہے جو جوں کا تو توں تصویر کھینچ دیتا ہے۔ لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ کیمرہ کسی فن کار کے ہاتھ میں آتا ہے تو تصویر میں بے پناہ حسن پیدا ہو جاتا ہے ….. اسی طرح ایک کیمرہ ادیب اور شاعر کا بھی ہوتا ہے جو نظر آنے والے منظر کے اندر سے کچھ ایسی چیزیں ، کچھ ایسی باتیں کھوج نکالتا ہے جو کبھی روح کو بالیدگی بخشتی ہیں تو کبھی احساس کی پرتوں کو تہہ و بالا کر دیتی ہیں.. …
اس مجموعہ کی سب سے پہلی نظم ’’مدرٹریسا‘‘ ہے ……. کیا کہنا چاہتے ہیں کمار صاحب اس نظم میں۔ ……؟ کیا صرف اس شخصیت کی توصیف مقصود ہے یا اس عمل کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے جس سے مدرٹریسا کی شخصیت لافانی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اداس کھوپڑیاں جو نحیف گردنوں پر ٹکی ہوئی ہیں …….وہ بڑھے جو جہد کا حوصلہ کھو چکے ہیں …..وہ دیکھ رہے ہیں ایک دبیز شعاع مہر کو جوان مردی جسموں کو زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کر رہی ہے …. یہ دبیز شعاع مہر کو ئی اور نہیں مدر ٹریسا ہے …… جس کا مخملیں لمس برگ نخیل کے سایوں سے گھرے نخلستان کی طرح ہے۔ یہ منظرنامہ سڑک کی ایک جانب کا ہے اور دوسری طرف ایک مندر ہے جس میں منتروں کا جاپ ہو رہا ہے ، گھنٹیاں بج رہی ہیں اور جہاں پتھر میں تراشا ہوا ایک دیوی کا بت ہے ….. جس کی آنکھیں خوں رنگ ہیں اور جو اپنا داہنا ہاتھ اٹھائے ایک کہنہ رسم کی ادائیگی کے لئے آمادہ ہے۔ شاید یہ تقابل ہے مذہبی رسومات کا اور خدمت خلق کا …. اور کونسی شئے عظیم ہے ….خدمت خلق….یا عبادتیں اور قربانیاں …..؟ کیا وہ دیوی عظیم ہے۔ جس نے مردہ جسموں کو جینے کی توفیق دی یا وی دیوی عظیم ہے جس کے درپرقربانی دی جا رہی ہے اور جو قربانیاں قبول کرتی رہتی ہے …..؟ ایک طرف وہ دیوی ہے جس کا خوش کرنے کے لئے منتروں کے جاپ اور گھنٹیوں کی آوازیں گونج رہی ہیں اور دوسری طرف وہ دیوی ہے جو ایسے لوگوں کو مسرت بخش رہی ہے جو زندہ رہنے کی لگن کھو چکے ہیں …. یہ وہ دیوی ہے جو نیم فانی ہے جیسے کنول…. کمار صاحب مذہب بیزار نہیں ہیں …… وہ دہریے بھی نہیں ہیں …. وہ مذاہب کا احترام کرنا جانتے ہیں لیکن مذہب کو اپنے آپ پر اس طرح لادنا نہیں چاہتے کہ وہ نفرت اور تعصب کو ہوا دینے لگے … ان کے ہاں محبت اور خدمت کی اہمیت ہے …. اور شاید یہی جھلک ہم کو اس نظم میں نظر آتی ہے۔ دوسری نظم ’’لمحۂ سپردگی‘‘ ایک ماں کی نصیحت ہے اپنی بیٹی کے لئے۔ ایک خوش گوار زندگی گزارنے کے لئے ہر ماں اپنی بیٹی کو نصیحتیں کرتی ہے۔ لیکن یہ نصیحت کچھ عجیب و غریب ہے۔ جس میں کچھ خاص لمحات کو اسیر کر لینے کی ہدایت ہے …. اس میں بحث سے بچنے کی نصیحت ہے۔ خود کو محسوس کرنے کا درس ہے اور شوہر کو اپنے گیسوؤں کے جال میں اسیر کرنے کے فن کے نفسیاتی نکات ہیں۔ کمار صاحب یہ بات جانتے ہیں کہ عورت کے لئے سب سے قیمتی لمحہ کونسا ہوتا ہے اور مرد کا سب سے کمزور لمحہ کونسا ہے۔
’’پہلے اسے گرم ریت پر تپانا
کچھ دیر کے لئے
کہ یہی وقت
کچھ پانے کا بھی ہے
محض دینے کا نہیں……!‘‘
اور کمار صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام تر بے راہ روی کے باوجود، دور تاریکیوں میں مچھلیوں کے شکار کے باوجود، مرد کی آخری پناہ گاہ اس کا گھر ہی ہوتی ہے …… شرط یہی ہے کہ اس کو پہلے لمحۂ سپردگی میں ہی یہ احساس دلا دیا جائے کہ سیر جو جانے کے بعد چٹان کی طرح بے حس ہو جانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قصہ تمام ہوا۔ اور اسی لئے کمار صاحب تجربہ کار ماں کی زبانی بیٹی پر یہ راز حیات افشا کر رہے ہیں کہ مرد کو حاصل کرنے کا لمحہ وہی ہے جب پہلی بار خود کو کھو دینا پڑے……!
تیسری نظم کا عنوان ’’سورج گہن کے سائے لہو میں ‘‘ ہے جو بجائے خود بے حد شاعرانہ ہے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ وہ اصلی عنوان سے بہت آگے نکل گیا ہے انگریزی عنوان ہے۔“To a friend who dies of cancer bequeathing his body for research” لیکن اردو عنوان انگریزی نظم ہی کے ایک مصرعے کا ترجمہ ہے جو یوں ہے۔
Needles in your bones, shadows of a solar eclipse in
your blood
اس نظم میں کمار صاحب نے اپنے ایک دوست کی وصیت پر اپنے احساسات کو پیش کیا ہے …. اس دوست کی موت کینسر سے ہوئی تھیں اوراس نے وصیت کی تھی کہ اس کی لاش کو جلانے کی بجائے تحقیقی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے …. اس نظم کا آخری حصہ دیکھئے جس میں ایک بھرپور تاثر موجود ہے۔
’’اور کھنگال ڈالو
بھول بھلیاں مری جوڑ جوڑ ہڈیوں کی
تاکہ تم پر کھل جائے
اصل مرے درد کی
میرے جوئے خوں میں کہیں نہ کہیں
اس مردہ مچھلی نے کوئی سراغ تو چھوڑا ہو گا ضرور!‘‘
اور پھر یہ نظم ہے جس کا عنوان کے ’’تلاش‘‘ …….انگریزی عنوان ہے۔“A Tibetan refugee woman on a Delhi pavement” یہ نظم دہلی کے فٹ پاتھ پر پناہ گزیں عورت کو دیکھ کر لکھی گئی ہے۔
کمار صاحب کہتے ہیں
’’بدن تمہارا
سیاہ پتھر میں
ڈھل گیا ہے‘‘
تبتی سیاہ فام نہیں ہوتے بلکہ کچھ زردہ مائل سیاہ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں کمار صاحب نے Black stoneلکھا ہے ….. اور یہ قصداً ہے۔ دہلی کی جھلس دینے والی تیز دھوپ اس تبتی عورت کے جسم کو سیاہی مائل کر گئی تھی….. اس تبتی عورت کے بال بکھرے بکھرے ہیں جن میں جوئیں رینگ رہی ہیں …. میلے کچیلے کپڑے … لیکن اس کے ہاں ایک بہت قیمتی شئے ہے۔ اس کی آنکھ میں اداس موتی ہیں ….. جن کی قیمت کا تعین مشکل ہے ….. اس کے بازو پر بندھا ہوا سنگ سلیمان کا تعویذ(Onyx amulet) بظاہر ایک معمولی سی چیز لیکن اس کے پیچھے عقیدے کی علامت ہے یہ تعویذ کس کی حفاظت کے لئے ہے ….؟ اداس موتیوں کی حفاظت کے لئے ….؟ کیا یہ تعویذ اس تبتی عورت کی عصمت کی حفاظت کے لئے ہے ….؟ کیا یہ تعویذ تبتی تہذیب کی حفاظت کی علامت بن رہا ہے …..؟ سوالات اٹھتے چلے جاتے ہیں … جواب آپ دیجئے ….غور کیجئے …. اور پھر جہاں بھی آپ کی فکر عمیق آپ کو لے جائے …!! اور یہی شاعری کا حسن ہے ….. بس ایک بات قطعی طور پر کہہ دی گئی ہے کہ مقدس لاما کی منت بھری التجائیں بھی، زرد آدمی کو تمہاری قبر میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتیں۔
Not even the lama’s supplication
can turn the yellow man
away from your grave
اس کے بعد وہ نظم ہے جس کا عنوان ہے ’’عنفوان شباب‘‘ …….. “Adolescence” اور یہ احساس ہے ایک باپ کا ….. جو اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا ہے …..یا نصیحت کرنا چاہتا ہے اور اس کائنات کا تہہ و بالا کر دینے والے جذبے کو محسوس کرتا ہے ….
کمار صاحب کہتے ہیں
اب تم محسوس کرنے لگے ہو
دانہ سنگ کی قوت نمو
لبوں سے اوپر بڑھتا ہوا رواں
اور زانوؤں میں مچلتا ایک نیا خطرہ
کمار صاحب نظم کا آغاز اس قبل اس طرح سے کرتے ہیں کہ
میں خود کہاں کا بے گناہ
کہ تمہارا احتساب بھی کر سکوں
کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شاید یہ نصیحت بے اثر ثابت ہو اور اگر ایسا ہوا تو لڑکے کی انگلیاں گٹار کے تاروں پر پھسلنے کی بجائے
اتر جائیں سانپ کی دم سے زیادہ گہری گہرائیوں میں تو چرچر بھونے کباب کی مانند جل جائیں گی……
وہ اپنے باپ کا حوالہ دیتے ہیں جنھوں نے کچھ اسی طرح کی نصیحت کی تھی کہ
اگر ابھرتی قوت کے اس عفریت کو رام کر لو
تو اہرام کے سارے اسرار
تم پر کھل جائیں گے
اور چاند کے آتش فشانی دہانوں سے
امرت دھارائیں پھوٹ پڑیں گی…….
اور پھر وہ بڑی حسرت سے خود اپنا محاسبہ کرتے ہیں
’’لیکن کون سنتا ہے‘‘
اور اس محاسبہ میں یہ آرزو پوشیدہ ہے کہ میں نے تو اس عفریت کو رام نہیں کیا لیکن میرے بیٹے میری خواہش ہے کہ تم اس کو رام کر لو….. اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ خواہش بے سود ہے ….لیکن بہرحال کہنا تو چاہئے …… اس ایک آخری سطر میں نوجوانی کا تجزیہ بھی ہے اور تجربہ کار باپ کی نصیحت بھی جو خود اپنے باپ کی نصیحت پر عمل کر کے زندگی کی امرت دھارا تک پہنچ نہ سکا اور اگر بیٹا بھی ’’کون سنتا ہے ‘‘ یاWho caresکہہ کر صرف نظر کر دے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا ……لیکن کاش وہ رک جائے …….کاش اس کا خوش آئند خواب کا بوس میں نہ بدلے…….
اس کے بعد کمار صاحب قحبہ خانے کی سیر کراتے ہیں لیکن اپنے مخصوص انداز میں …. قحبہ خانے کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح روپیہ کمایا جائے ….یہ نہیں کہ زندگی کے حسین سفر کا لطف لیا جائے۔ بس چابی لگی اور کام تمام ہوا …لیکن راز و نیاز ا اور اجنبی راگ سے لئے ملانے کا عمل … یہ سب ممکن ہی نہیں …..کیونکہ بہرحال چند لمحوں کا سودا ہے اور اس نے صرف چابی نگلنے کا معاہدہ کیا ہے …..لالہ دہن سے شیرینی چکھا نے کا وعدہ تو ہر گز نہ تھا …خود احتسابی کی کیفیت میں یہ یاد آتا ہے کہ ہاں ! یہ سودا تو ہوا ہی نہیں تھا … اور پھر ذہن کے تمام فاسد خیالات دور ہو جاتے ہیں ……ذہن میں معصومیت بھر جاتی ہے …. ایک ایسے بچے کی معصومیت جو انکو بیٹر میں ہانپ رہا ہو…. ! اس کا سفر ناتمام اس اعتبار سے ہے کہ جسمانی اعتبار سے تو وہ اس حد تک درست ہے کہ ہانپ رہا ہے ….. لیکن اس میں کمی ہے ….. کمی ہے اس فطری گرمی کی ….اس محبت کی …..جو صرف اسی وقت نشو و نما پا سکتی تھی جب اجنبی راگ سے لئے ملانے کا عمل ہوا ہوتا ……یہ بچہ روتا نہیں کیونکہ روتا تو زندگی کی علامت ہے …… یہ صرف ہانپ رہا ہے ….. کیونکہ اسے عدم تکمیل کا احساس ہے … اس نظم کے ایک ایک لفظ کے اندار مفاہیم کی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ اور اس اعتبار سے یہ ایک بے حد کامیاب نظم ہے….. !
اور پھر طلاق….. Divorce…… علیٰحدگی کا ایک ایسا لمحہ جب سفید ننھے پرندے کی طرح خوشی سے گنگناتا گاتا آزاد انسان اپنے تمام بوجھ کو سر سے جھٹک کر نئی زندگی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ہے….
اس نظم میں کچھ سوالات جاگتے ہیں…..
بے بسی میں پکڑے ہوئے
آسماں کا سر
رات دروازہ سے
کراہتی رہی……
The night moaned in labour
pain, clutching at the sky’s bed head.
یہ آسمان کون ہے .. رات کونسی شخصیت ہے .. ہم سوچ سکتے ہیں اور شائد ان کی اصلیت تک پہنچ بھی جائیں …لیکن کیوں سوچیں …جس استعارے کو استعمال کیا گیا ہے وہ خود اتنا طاقتور ہے کہ اس کے پیچھے شخصیتوں کی تلاش عبث ہے …… ہم ذاتیات میں کیوں الجھیں ، مونچھوں والی چمگاڈر ہو یا کوئی اور …. جب ہم نے ریت میں ایک لکیر کھینچ کر اپنی اپنی راہیں الگ کر لیں تو پھر کسی اور چیز کی فکر نہیں ہونی چاہئے…..!
اگلی نظم دوپہر کے وقفہ میں اپنے بچے کو دودھ پلاتی مزدور عورت پر لکھی گئی ہے …… انگریزی میں اس کا عنوان ہے۔
۔۔“A woman labourer, breast feeding her child, during lunch break”.
اس کا ترجمہ دیکھئے کس قدر شاعرانہ ہے ’’بدن کے دو موسم‘‘
کیونکہ یوسف کمال نے نظم کا عنوان تجویز کرتے ہوئے اس بات کو ملحوظ رکھا کہ اس میں نظم کی روح سمٹ آئے …..! سچ تو یہ ہے کہ یہ عنوان خود ایک مکمل نظم ہے …….! اس نظم میں ایک عجیب سے کیفیت کو، ایک بے حد مقدس قسم کے لمحے کو اسیر کر لیا گیا ہے۔ ایک ماں، محنت و مشقت کے سخت لمحات کے بعد جب وقفہ پاتی ہے تو سیدھے اپنے بچے کے پاس جا کر اس کے منھ میں اپنی چھاتی دے کر ایک بے حد سرور آگیں سکون محسوس کرتی ہے۔ چاروں طرف سے نور کی بارش ہونے لگی ہے ….. اور چر چر دودھ پیتے ہوئے بچے کے دل کی دھڑکنیں محسوس کرنے کے لئے
’’شجر و حجر اور شیشے کو
بے تکان کرنے والے وقت نے بھی
اپنے کان کھڑے کر دیئے ہیں‘‘
اب ایک اور اہم نظم پر گفتگو کرنا چا ہوں گا۔ یہ نظم ہے ’’آگ کا بپتسمہ‘‘ یاBaptism of Fire
Baptism یا بپتسمہ ایک عیسائی رسم ہے ….. جس کی ادائگی کے بعد بچہ مکمل عیسائی بن جاتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی رسم برہمنوں میں بھی ہوتی ہے جسے دھاگے کی رسم، یا جنیؤں کی رسم یاThread Marriageکہتے ہیں ….. اس رسم میں برہمن بچہ کو زنا ر یا جنیؤ پہنایا جاتا ہے اور گرہیں لگائی جاتی ہیں ….. کمار صاحب نے گرہ دینے کے انہی لمحات کو اپنی نظم میں جامد کر دیا ہے ……انھوں نے ایک ایک گرہ کو ایک نیا مفہوم دیا ہے …. وہ خاندانی رسم کی ادائیگی کے لئے مجبور ہیں …..لبوں پر منتروں کا جاپ ہے لیکن دل شیلا کے جوبنوں میں کھویا ہوا ہے …. ان تینوں گرہوں کا مطلب ہے ضبط نفس، تیاگ اور ہمدردی …… لیکن دیکھئے شاعر ان تین گرہوں کو کس طرح محسوس کر رہا ہے …. پہلی گرہ ضبط نفس کی ہے۔ لیکن شاعر کہتا ہے۔
یہ رہی زنار کی پہلی گرہ (یہاں کاتب نے غلطی سے سالگرہ لکھ دیا)
جوئے خوں میں رواں
شیروں کو لگام دے کر
یہ تمہیں لے جائے گی
بحر آفاق کے کناروں تک
پھر دوسری گرہ کی نوبت آتی ہے جو تیاگ کی ہے اور شاعر سوچتا ہے
مگر اب میرے پاس رہا ہی کیا ہے
پیش کرنے کو
میں خود عشق پیچاں کی طرح
لپٹ گیا ہوں اپنی نال سے آپ…..
اور پھر تیسری گرہ ہمدردی کی ہے ….. جس کے لئے شاعر کہتا ہے
اور آگ سدھا نے والے
کاش کہ تو میری حسرتوں کو سمجھتا
میں نے کبھی چاہا تھا
افق تا افق قوس و قزح پر جھول جاؤں
لب ساحل نہنگوں کے ساتھ دھوپ سینکوں
یا کشمیر کی بلند وسعتوں کے پار اسپانِ تازی کا تعاقب کروں
اور حسرت بھرے لہجے میں شاعر کے یہ الفاظ سننے والوں کے ذہن میں ہمدردی کی ایک لہر بیدار کر دیتے ہیں ……. لیکن شاعر کو صرف رسم کے ختم ہونے کا انتظار ہے اور جب رسم ختم ہوتی ہے تو……..
اور دوڑ پڑتا ہوں
اسی چاند سے چہرے کی جانب
آم کے پیڑ کے تلے
تاکہ کھول دوں ساری گرہیں زنار کی
اور یہاں نظم اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اور ایک عجیب سا سناٹا چھوڑ جاتی ہے …. ایک بولتا ہوا سناٹا جو شاعر کی بقیہ ان کہی باتوں کو دہرا رہا ہے کہ۔ پہلی گرہ ضبط نفس کی کھولوں اور شیلا کے جوبنوں میں کھو جاؤں ، تیاگ کی دوسری گرہ کھولوں اور اس نوجوان تنفس کی گرمی حاصل کر لوں اور تیسری گرہ ہمدردی کی کھول کر شیلا کے ساتھ قوس قزح پر جھولوں …..! یہ سب کمار صاحب نے نہیں کہا لیکن کچھ اس طرح یہ نظم ختم ہوتی ہے کہ ایک ایک لفظ قاری کے ذہن پر نازل ہونے لگتا ہے۔ ایک ایک گرہ کھلنے لگتی ہے اور قاری کمار صاحب کے ہمراہ مفہوم کے اسپان تازی کے تعاقب میں نکل پڑتا ہے……
اگر اس مجموعہ کی تمام نظموں کا احاطہ کیا جائے تو بجائے خود ایک کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ کہنا ناگزیر ہے کہ کمار صاحب کے موضوعات بندھے ٹکے نہیں ہیں۔ اردو شاعری ہے محبوب و رقیب، گل و بلبل، برق و آشیاں کے فرسودہ موضوعات ان کے ہاں نہیں۔ وہ زندگی کی ہمہ جہتی کیفیات کو، رنگینیوں کو تلخیوں کو اور کرب کو محسوس بھی کرتے ہیں اور انہیں لفظوں کے روپ میں دینے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ بچپن کی معصوم وادیوں سے نوجوانی کی سنگلاخ چٹانوں کے سفر کے دوران کئی اہم واقعات ہر شخص کی زندگی میں آتے ہیں لیکن کتنے ہمیں جو ان تجربات کو شعری سانچے میں اس ندرت کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں ……! شاعر کے لئے ہر نظر آنے والی چیز ایک موضوع کس طرح بن سکتی ہے اس کا ایک نمونہ ہمیں کمار صاحب کی شاعری میں نظر آتا ہے تاج محل دیکھ کر تو ہر ایک کا جی چاہے گا کہ وہ نظم کہے لیکن قحبہ خانے کے تلخ تجربے پر یا مرد و عورت کو دوپہر کے وقفہ میں اپنے بچے کو دودھ پلاتے دیکھ کر یا سڑک پر نظر آنے والے ہجڑے یا بھٹکتی ہوئی گائے یا عدالت یا گنگا کے گھاٹ پر نظم کہنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ کمار صاحب زندگی کے ہر اہم موڑ کو نظم کا روپ دیتے ہیں … ان کے ہاں بظاہر غیر اہم چیز بھی اہم بن کر نظم کا موضوع بن جاتی ہے۔ کمار صاحب کی نظمیں پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار اسی لئے عظیم ہوتا ہے کہ اس کی سوچ کا تعاقب کرنا ممکن نہیں …. اور جب قاری تخلیق کار کے تعاقب میں نکلتا ہے تو راہ میں اس کے چھوڑے ہوئے نشان نظم یا شعری صورت میں راستہ روک لیتے ہیں ….. کما ر صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ زنار بندی کی رسم میں شیلا کے جوبنوں کا تصور کر سکتے ہیں اور قحبہ خانے میں انھیں انکوبیٹر میں ہانپتے ہوئے بچے کی یاد آ جاتی ہے … بظاہر یہ ایک تضاد محسوس ہوتا ہے لیکن شعور کی رو پر کون پہرے لگا سکتا ہے ؟
اس کتاب کا دوسرا حصہ ’’اجنبی آسمانوں تلے ‘‘ ہمیں کمار صاحب کی آنکھوں سے کرہ ارض کے اس حصہ کی سیر کراتا ہے جو متمدن کہلاتا ہے …. ایک دوڑتی ہوئی امریکی لڑکی کو دیکھ کر کمار صاحب کی رگ شعری پھڑک اٹھتی ہے …. کبھی وہ ٹریفل گر اسکوائر کے کبوتروں کو گٹھیا میں مبتلا پاتے ہیں …. وہ کبھی ہتھ رو ایر پورٹ پر ہونے والے احتساب کو لفظوں کا پیراہن دیتے ہیں تو کبھی ایک یاد کی شکل میں انہیں وہ دن گھیر لیتے ہیں جب وہ کیمبرج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد لندن کی سڑکوں پر اشتہار اس تعفن سے نجات نہیں دے سکتے جو اپنے سایوں سے بھاگتے انسانوں کے پسینے سے پیدا ہو رہا ہے …. زنار بندی کی رسم میں یاد آنے والی شیلا انہیں کسی اور روپ میں پھر سے یاد آتی ہے ….. اوکلا ہاما یونیورسٹی میں ہونے والے شیکسپیر کے فن پر بات ہو رہی ہے …. وہاں شاعر کسی اور خیال میں گم ہے اور پھر شاعری کی نظریں ایک گوشہ میں جا پڑتی ہیں جہاں لکۂ ابر کے سایہ کا انتظار کئے بغیر لذت آغوش کے لمحے چرائے جا رہے ہیں ….. ایک اور اہم بات ….انگریزی کے مشہور شاعر کیٹس کے ہاں فینی یا اردو کے رومانیت پسند شاعر اختر شیرانی کے ہاں سلمیٰ، عذرا اور ریحانہ کے کردار نظر آتے ہیں اور ان شعرا نے ان کرداروں کو اپنا محور بنا کر اظہار کو قوت بخشی تھی…… کمار صاحب کے یہاں بھی ایک کردار ہے …..سیلا کا کردار…. یہ کردار اپنی مثال آپ ہے اس کردار کے پردے میں کمار صاحب نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے اور یوں ان کا اظہار بے حد طاقتور بن جاتا ہے۔
’’آسمان میں کمیں گاہیں ‘‘ کا سب سے اہم حصہ آفرینش صرف چھ نظموں سے مزین ہے اور یہ چھ اس آفاقی موضوع پر کہی گئی ہیں جس پر ہر بڑے شاعر نے طبع آزمائی کی ہے …. دانتے کی ڈیوائین کامیڈی ہو یا اقبال کا جاوید نامہ، شاعر نے عبد اور رب کے تعلق کو ہمیشہ سے سمجھنے کی کوشش کی ہے …. کمار صاحب نے ان نظموں میں ایک بہت دلچسپ پیرایہ اختیار کیا ہے …. میلاد آدم اور میلاد حوا میں خدا کی خود کلامی ہے۔ تیسری نظم میں سانپ کی شکل میں شیطان حوا سے مخاطب ہے۔ چوتھی نظم میں آدم حوا سے مخاطب ہو کر آگہی کی طرف بڑھتے ہوئے فنا ہو جانے کی تمنا کرتا ہے۔ پانچویں نظم میں حوا آدم کو جواب دے رہی ہے اور پھر چھٹی نظم خدا کی خود کلامی کی شکل میں ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب آدم اور حوا کو زمیں پر پھینک دیا گیا ہے۔
مندرجہ بالا سطور میں صرف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ مناسب نہیں کہ یہاں کمار صاحب کے فن پر بہت زیادہ تفصیل سے بات کی جائے۔ شاید انگریزی نظموں کا تجزیہ کرتے ہوئے ہی ان نظموں کے محاسن پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ یہ نظمیں ڈاکٹر یوسف کمال نے اردو کے قالب میں ڈھالی ہیں اس لئے صرف ترجمہ شدہ متن پر ہی بات کی گئی ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے مترجم کو سخت مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب وہ نظم کا ترجمہ کر رہا ہو۔ کیونکہ نظم کا معاملہ کسی سائنسی مضمون یا دوسرے علوم پر مبنی مقالے کی طرح کا نہیں ہوتا کہ اس میں دو اور دوچار کی طرح کی بات ہو …. نظم میں تو شاعر علامتوں، استعاروں، تلمیحوں اور تشبیہوں سے اپنے ایوان سجاتا ہے اور ان کے ذریعہ موضوع پر اپنی گرفت کو مضبوط کرتا ہوا قاری کے ذہن تک رسائی حاصل کرتا ہے …. تخلیق کا ر جب کسی زبان میں اپنے خیالات کو پیش کرتا ہے تو وہ اس زبان کی وسعت کا سبب بنتا ہے۔ وہ اپنی تخلیق کو پیش کرنے کے لئے جن لفظوں کا سہارا لیتا ہے وہ اپنے لغوی مفہوم سے ہٹ کر بہت کچھ کہتے ہیں …. اور لفظوں کی اس گنگناہٹ کو صرف اسی زبان میں سننا ممکن ہے جس زبان میں تخلیق کی گئی ہو ….. اگر تخلیق کو دوسری زبان میں منتقل کیا جائے تو بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ تشبیہات، محاورے ، علامتیں اور استعارے بجنسہ پیش نہیں کئے جا سکتے کیونکہ یہ عناصر زبان کے تہذیبی سرمایہ سے مربوط ہوتے ہیں اور ہر زبان کا تہذیبی سرمایہ مختلف ہوتا ہے۔ اسی لئے کسی شہ پارہ کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ہو تو اسے گوں ناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ترجمہ ایک مقدس گناہ ہے جو عوامی مفاد کے مد نظر کیا جاتا ہے۔ مقدس اس لئے کہ اس کے ذریعے انسانی جذبات، تجربات اور افکار کی بڑے پیمانے پر تفہیم تحسین و تبلیغ کی جا سکتی ہے اور گناہ اس لئے کہ کوئی ترجمہ خواہ کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ہو اصل مفہوم کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔ اس خیال سے کچھ حد تک اختلاف کرنے کی گنجائش یوں پیدا ہو جاتی ہے کہ ہمارے سامنے ’’آسمان میں کمیں گاہیں ‘‘ موجود ہے جہاں مترجم نے اس بات کی بھرپور کوشش کی ہے کہ اصل متن کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ دراصل تخلیق سے ترجمہ تک سفر میں کئی منزلیں آتی ہیں۔ پہلے تو اصل متن کی زبان پر اور ترجمہ کی جانے والی زبان پر عبور بے حد ضروری ہے۔ پھر اصل متن کی تفہیم بھرپور انداز سے اور مختلف جہتوں سے ہونی چاہئے اور وہ بھی اس طرح کہ شاعر کے ما فی الضمیر تک رسائی ہو سکے۔ پھر شاعر کے اسلوب کا ادراک بھی ضروری ہے اور تب عمل شروع ہوتا ہے ترجمہ کا …… اور پھر کئی بار نظر ثانی کرنے اور دوسرے ماہرین سے تبادلۂ خیال کے بعد ہی ترجمہ اس قابل ہو سکتا ہے کہ اسے پیش کیا جا سکے۔ یوسف کمال اس سارے عمل(Process) سے گزرے ہیں۔ انھیں اردو پر تو عبور ہے ہی وہ انگریزی زبان پر بھی ماہرانہ قدرت رکھتے ہیں ….. اور اسی لئے جب انھوں نے Trap falls in the sky کا ترجمہ ’’آسمان میں کمیں گاہیں ‘‘ کے نام سے کیا تو تفہیم کے اہم مرحلے کو انھوں نے روا روی میں طے نہیں کیا۔ انہوں نے ایک ایک لفظ پر محنت کی اور تب ترجمہ کی ایک شکل بنی۔
ترجمہ کے ساتھ ایک اور مشکل ہوتی ہے۔ مصنف کی حیثیت کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ وہ مبتدی ہو سکتا ہے ….. اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ نرا جاہل ہو…. لیکن مترجم جاہل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی مبتدی ….. اسے تو تمام جہتوں کو نظر میں رکھنا ضروری ہوتا ہے اس لئے جہالت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہاں بصیرت کی بے پناہ ضرورت ہوتی ہے۔ کمال صاحب کے لئے یہ بات بھی ایک مسئلہ تھی کہ مصنف خود ایک مستند عالم ہے …. لفظ کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہے …. اس کے ہاں لفظ کی روایتی سطحیں بھی ہیں اور اس کی اپنی تراشیدہ جہتیں بھی موجود ہیں اور اسی لئے یوسف کمال کے لئے کچھ زیادہ ہی مشکل درپیش تھی اور کسی نے کہا ہے۔
جن کے رتبے ہیں سوا، ان کو سوا مشکل ہے
لیکن یوسف کمال نے اس مشکل کو جس خوبی سے حل کیا ہے اس کا اندازہ تو ’’آسمان میں کمیں گاہیں ‘‘ کا مطالعہ کر کے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ مترجم کا فرض ہے کہ وہ مصنف یا شاعر کے عندیے کا احترام کر کے اور اسے ضائع نہ ہونے دے۔ یوسف کمال نے اس بات کو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے کہ نہ صرف کمار کے شعری رویہ کو محفوظ رکھا جائے بلکہ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے انگریزی زبان کی شعریت کو اردو کی مترنم شعریت میں اس طرح منتقل کیا ہے کہ یہ نظمیں ترجمہ کی بجائے خود تخلیق کا درجہ حاصل کر گئی ہیں۔ اس کا کریڈٹ خود کمار صاحب کو بھی جاتا ہے ……. اس لئے وہ اردو شاعری سے بہت قریب ہیں۔ فیض اور غالب کے مداح اور مترجم ہونے کی وجہ سے اردو شعری روایات سے کماحقہ واقف ہیں اور ان کی انگریزی شاعری میں بھی کہیں کہیں اردو مزاج سر نکال کر جھانکتا ہوا نظر آتا ہے۔ یوسف کمال نے ان سارے مقامات کو اپنی گرفت میں لیا اور کمار صاحب کے ذہن کو نہایت کامیابی کے ساتھ اردو کے قالب میں منتقل کر دیا۔ چونکہ کمار صاحب نے بھی اس ترجمہ کو خود دیکھا ہے اس لئے ما فی الضمیر سے انحراف کی گنجائش کم ہی ہے۔
آخر میں ’’آسمان میں کمیں گاہیں ‘‘ کے بارے میں صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ جو انگریزی میں Trap falls in the sky نہیں پڑھ سکتا، یا جسے یہ احساس ہو کہ وہ انگریزی شاعری کی بخوبی تفہیم و تحسین سے قاصر ہے یا جسے انگریزی کتاب ملی ہی نہ ہو وہ اگر ’’آسمان میں کمیں گاہیں ‘‘ پڑھ لے تو یقیناً اس لطف و انبساط کو محسوس کر سکتا ہے جو اسے انگریزی نظموں کو پڑھتے ہوئے حاصل ہوا ہوتا…. ! انگریزی مجموعہ کے لئے تو کمار صاحب کو ساہتیہ اکیڈیمی نے انعام سے نوازا اور اس کی قدر کی….. کاش اردو ترجمہ کو بھی اس کا مستحقہ مقام مل جائے……!!!
————————-٭٭————————-