سیدعاشور کاظمی اردو کے سچّے عاشق اور جاں نثار ہیں۔ دنیا کے شاید یہ ایسے مجاہدِ اردو ہیں جنہوں نے اردو کی خدمت کے لیے ایئر لائنس کا کاروبار ترک کر دیا اور فروغ اردو کے لیے اپنی زندگی اور دولت وقف کر دی۔ عاشور کاظمی اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں، ایک فرد نہیں ایک ادارہ ہیں۔ مختلف اصناف میں انھوں نے تابندہ نقوش مرتسم کیے ہیں۔ ان کی شعری تخلیقات میں ’’حرف حرف جنوں ‘‘ ان کا شعری مجموعہ ہے جس میں غزلیں ہیں، ’’چراغ منزل‘‘ اور ’’صراطِ منزل‘‘ حمد، نعت، منقبت اور سلام کے مجموعے ہیں۔ ، نثری تخلیقات میں ’’راہوں کے خُم‘‘ افسانوں کا مجموعہ ہے جبکہ ’’سخن گسترانہ‘‘ اور ’’چھیڑخوباں سے‘‘ طنز و مزاح، انشائیے، خاکے اور مضامین کے مجموعے ہیں۔ ’’فسانہ کہیں جسے‘‘ افسانے پر تنقیدی و تحقیقی نوعیت کی کتاب ہے جس میں دو ہزار قبل مسیح سے حال تک یوروپ، جنوبی امریکہ اور روس کے عہد ساز افسانہ نگاروں کی تخلیقات کے حوالے سے افسانے کے عروج و زوال پر بحث اردو افسانے کی دونوں روایتوں کے تناظر میں مغرب میں مقیم انتالیس افسانہ نگاروں کا تنقیدی تعارف ایک ایک افسانے کی روشنی میں کرایا گیا ہے۔ ’’ترقی پسند ادب کا پچاس سالہ سفر‘‘مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جس میں پچھلے پچاس سالوں میں تخلیق ہونے والے ترقی پسند ادب کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔’’بیسویں صدی کے اردو نثر نگار مغربی دنیا میں ‘‘۔مغربی دنیا کے تمام فکشن نگار،مزاح نگار،محقق، ناقد، تاریخ گو، رپورتاژ نگار،صحافت نگار وغیرہ کے تخلیقی تنوعات اور تنقیدی تجلیات کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ ’’بیسویں صدی کے اردو اخبارات و رسائل مغربی دنیا میں ’’مغربی دنیا کے تمام رسائل،جرائد اور اخبارات کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ’’اس گھر کو آگ لگ گئی ‘‘ جدوجہد آزادی کے تناظر میں غداروں کے خطوط پر مشتمل دستاویز ہے۔ ’’راگ رنگ ‘‘میں انہوں نے موسیقی کی تاریخ اور فنی تجزیات، لغتِ موسیقی اور اوزان موسیقی پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ ان کے علاوہ ’’نکاتِ فن‘‘ اور انگریزی تالیف commitment” ‘‘ میں لندن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پیش کیے گئے انگریزی زبان میں مقالے اور کچھ اہم اردو مقالوں کا انگریزی میں ترجمے شامل ہیں۔ ہندستان کے ادبی حلقے میں ان کی تمام کتابیں بے حد مقبول و مشہور ہوئی ہیں۔
متذکرہ تمام کتابوں کے علاوہ سید عاشور کاظمی کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ مرثیے کے فن پر بصیرت افروز تحقیق و تنقید اور ان کی مرتب کردہ تاریخِ مراثی ہے۔ شاعری کی تمام اصناف میں مرثیہ ایک ایسی صنف ہے جس میں طبع آزمائی کی جرات کم ہی شاعروں نے کی ہے جبکہ شاہد ہی کوئی ایسا مرثیہ گو شاعر ہو جس نے غزلیں اور مروجہ شعری اصناف میں بھی قا درا لکلامی کا ثبوت نہ پیش کیا ہو۔
مرثیے کی تخلیق جس طرح ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہے اسی طرح اس موضوع پر تخلیق اور تنقید بھی ہر محقق اور ناقد کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس موضوع پر کام کرنے والے زیادہ تر محققین اور ناقدین نے اس صنف کے صحتِ متن سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پیدا کی ہیں اور دوسری یہ کہ مرثیے کا ایک ایک مصرع متعدد شاعرانہ خوبیوں اور صنعتوں سے آراستہ ہو تا ہے۔ مثال کے طور پر ’’تجزیہ یادگارِ انیس‘‘ میں انیس کے مرثیہ ’’جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے‘‘ کے بندوں میں ۲۸۵۶ محاسن کی نشاندہی ڈاکٹر تقی عابدی نے کی ہے۔میر انیس کے متذکرہ مرثیہ میں ڈاکٹر عابدی نے محاسن کی جو تعداد بتائی ہے اس سے اختلاف کرنے کی گنجائش ہے۔پھر بھی یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ ایسی اصناف پر تحقیق یا تنقید کے لیے قلم اٹھانا ہر شخص کے مقدور سے باہر ہے۔لیکن عاشور کاظمی نے اس موضوع پر دو کتابیں تحریر کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ عام ناقدین اور محققین سے الگ ہیں اور ان کا علم کئی جہات کو محیط ہے۔ اس موضوع پران کی پہلی کتاب ’’مرثیہ نظم کی اصناف میں ‘‘ جدید مرثیے کی تاریخ پر تحقیقی اور تنقیدی کتاب ہے جو مرثیہ کے محققین کے لیے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مرثیے پر لکھے جانے والے مضامین میں اس کتاب کا حوالہ میری بات کی تائید کے لیے کافی ہے۔
عاشور کاظمی کی تازہ ترین کتاب پہلی نظر میں مرثیے کی مکمل تاریخ معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس کتاب کے مندرجات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ مرثیے کی مکمل تاریخ سے آگے کی چیز ہے اور اس کا نام ’’اردو مرثیے کا سفر(سولہویں صدی سے بیسویں صدی تک) اور بیسویں صدی کے اردو مرثیہ نگار‘‘ کے بجائے Encyclopedia of Marsiaہونا چاہئے۔اس کتاب کو مرثیے کی مکمل تاریخ بھی مان لیا جائے تب بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہو سکتی کیو ں کہ مرثیے کی تاریخ پر اب تک کوئی دوسری ایسی وقیع اور مستند کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کی دوسری اہم خصوصیت مرثیہ گو شاعرات، غیر مسلم مرثیہ نگار اور مغرب میں آباد اردو مرثیہ گو شعراء کی شمولیت ہے۔ آج سے پہلے مرثیہ گو شاعرات اور مغرب میں موجود مرثیہ گو شاعروں پر اس قدر جامعیت اور منطقی ترتیب کے ساتھ نہیں لکھا گیا۔ گنے چنے غیر مسلم مرثیہ نگاروں کا ذکر تو کہیں کہیں مل جا تا ہے لیکن غیر مسلم مرثیہ گو شاعروں کا مکمل تجزیہ و تعارف پہلی بار اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک اعلیٰ درجے کی تاریخِ مراثی اردو ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب تحقیق و تنقید کے عروج کی مثال بھی ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں سولہویں صدی سے بیسویں صدی تک کے کل ٤١٤ مرثیہ گو شعراء و شاعرات کا ذکر مختلف موضوعات کے تحت کیا ہے جس میں شاعرات کی تعداد ۲۴، غیر مسلم مرثیہ نگاروں کی تعداد ۱۷ اور مغرب میں آباد شعرا و شاعرات کی تعداد ٨ ہے۔ ان تمام مرثیہ گو شعرا و شاعرات کے سوانحی کوائف کی تفصیل معلوم کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔اس کے علاوہ ان کے مرثیوں کو جمع کرنا اور ان کے متون کی صحت کو درست کرنے کے بعد نمونے کے طور پر قاری کے سامنے پیش کرنا کسی ایرے غیرے محقق کے بس کا روگ نہیں ہے۔ مصنف نے اس تحقیقی نوعیت کے کام کو جس حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا ہے اس سے ان حضرات کی شکایت دور ہو جاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ دور حاضر میں اردو زبان و ادب میں تحقیق اور تنقید زوال پذیر ہے۔ مرثیے کے موضوع پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں شبلی، محی الدین زور، مصحفی، شاد عظیم آبادی ثابت لکھنوی، ڈاکٹر صفدر حسین، علی جواد زیدی، ڈاکٹر ابو للیث صدیقی، ڈاکٹر اکبر حیدری، ڈاکٹر عظیم امروہوی، ڈاکٹر احسن فاروقی، پروفیسر مسعود حسن رضوی، پروفیسر رضا کاظمی، مسیح الزماں، ڈاکٹر ہلال نقوی، ڈاکٹر نیر مسعود، پروفیسر سید عقیل رضوی، پروفیسر زماں آزردہ، ضمیر اختر نقوی، ڈاکٹر تقی عابدی اور ڈاکٹر ارشاد احمد خان نیازی وغیرہ قابل ذکر ہیں جن کی کتابوں سے مرثیے پر کام کرنے والوں نے کسی نہ کسی حد تک استفادہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ مصنف نے اپنی کتاب کی ترتیب دینے سے پہلے اس موضوع پر لکھی گئی کئی بیشتر کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور ان کتابوں کی خوبیوں اور خامیوں کو ذہن میں رکھ کر زیر بحث کتاب کی ترتیب دی ہے اور ان میں پائی جانے والی خامیوں اور کمیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور کئی کتابوں کو غیر معیاری اور ناقص بھی قرار دیا ہے۔ ان کتابوں پر تنقید اور زیر بحث کتاب کی تخلیق کا مقصد اپنی علمیت کا مظاہرہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس صنف کے تئیں قاری میں ترغیب و تشویق پیدا کرنا ہے۔ اس مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے عاشور کاظمی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’ہمیں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا ہے کہ آج کے میکانکی اور مصروف دور کا عام قاری تحقیقی نکات میں کم ہی دلچسپی رکھتا ہے لہٰذا یہ سوچا گیا کہ مرثیہ گو شعراء کے مختصر کوائف اور ضروری معلومات پر مشتمل ایک ایسی کتاب پیش کی جائے جو مرثیے کے عام قاری کو بوجھل تحقیق سے بچائے اور مرثیہ گو شعراء کا مختصراً و مستند تعارف کرا سکے‘‘۔(ص- ٤٣)
مصنف نے کتاب آسان سے آسان اور عام فہم بنانے کے لیے سائنسٹفک طریقے سے مختلف موضوعات کے تحت ترتیب دی ہے۔ روایتی دستور کے بر خلاف شاعروں کا تذکرہ بہ اعتبار حروفِ تہجی کیا گیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں مرثیہ گو شعراء و شاعرات کے یوم پیدائش، یوم وفات اور جائے پیدائش لکھنے سے پہلے اس کی کافی چھان پھٹک کی ہے۔بعض مقامات پر بڑے بڑے محققوں اور ادبی مورخوں سے اختلاف بھی کیا ہے اور ان اختلافات کا جواز بھی پیش کیا ہے۔مثلاً ’’تاریخ ادب اردو‘‘ کے مصنف پروفیسر حامد حسن قادری کی کتاب ’’تاریخ مرثیہ گوئی‘‘ میں درج ہاشم علی کے آبائی وطن گجرات کو رد کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ :
’’ہاشم علی کے عہد کے بارے میں محققین میں کچھ اختلاف بھی ہے حتیٰ کہ مولانا حامد حسن قادری نے ’’تاریخ مرثیہ گوئی‘‘ میں انہیں ہاشم علی گجراتی لکھا ہے اور اس پر استدلال کرتے ہوئے ہاشم علی کا ایک شعر نقل کیا ہے۔
گجرات میں پڑھے جب یہ مرثیہ گو یاراں
من کر چلے ہیں رونے دکنی دکن کو اپنے
مولانا قادری نے گجرات میں مرثیہ پڑھ کر دکن کو چلنے سے ہاشم علی کو گجرات کا شاعر ثابت کیا ہے۔یہ استدلال بے معنی سا لگتا ہے۔دکن کا شاعر گجرات میں پڑھنے کے بعد دکن کو جاتا ہے تو اس سے وہ گجرات کا شاعر کیسے ثابت ہو سکتا ہے۔ ‘‘(ص- ١٥)
اسی طرح ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ میں شبلی نے جن اشعار کی کی بدولت دبیر کو انیس سے کم تر درجے کا مرثیہ گو ثابت کیا ہے اسے رد کرتے ہوئے مصنف نے بتایا ہے کہ یہ اشعار دبیر کے ہیں ہی نہیں۔ اپنے دعوے کو مدلل کرنے کے لیے ڈاکٹر تقی عابدی کی تحقیق سے بھی استفادہ کیا ہے۔ مولانا شبلی نے جن اشعار کو مرزا دبیرسے منسوب کیا تھا ان میں سے دو اشعار کے مصرعِ اول یہ ہیں : ’’زیرِ قدمِ والدہ، فردوسِ بریں ہے‘‘ اور ’’فرمایا میں حسین علیہ السلام ہوں۔ ‘‘ عاشور کاظمی نے ان اشعار کے تعلق سے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’گویا لکھنو کے با کمال شاعر مرزا دبیر کو یہ بھی سلیقہ نہیں تھا کہ امام خود کو اپنی زبان سے’’علیہ السلام‘‘کہہ سکتے تھے۔شبلی کے پہلے الزام کا جواب یہ ہے کہ مرزا دبیر کے پورے کلام میں زیرِ قدمِ والدہ فردوسِ بریں ہے‘‘ مصرع نہیں ملتا۔بلکہ یہ مصرع حکیم قدیر الدولہ کے دیوان میں ملتا ہے۔لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ مصرع مرزا دبیر کا نہیں ہے۔اب آپ چاہیں تو شبلی کی نیت کا محاسبہ کریں اور چاہیں تو ان کے سلیقہ علم کا تجزیہ کریں۔ اسی طرح ’’فرمایا میں حسین علیہ السلام ہوں ‘‘ بھی مرزا دبیر کے کلام میں نہیں ملتا۔ڈاکٹر تقی عابدی نے فروری ۲۰۰۴ میں برطانیہ میں منعقد ’’جشن اردو‘‘ میں اس بات کی لفظ بہ لفظ تائید و تصدیق کی کہ یہ مصرعے دبیر کے نہیں ہیں ‘‘۔(ص -۸۵)
عاشور کاظمی نے ان اشعار کے تعلق سے یہ کہ کر کہ ’’اب آپ چاہیں تو شبلی کی نیت کا محاسبہ کریں اور چاہیں تو ان کے سلیقہ علم کا تجزیہ کریں ‘‘ شبلی کی نیت اور تحقیقی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور ان کے حامیوں کو بھی لا جواب کر دیا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی تحقیقی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ ان کی بے باک اور جرات مند تنقیدی رویے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اپنی تحقیق کو مزید مستحکم بنانے کے لیے ڈاکٹر عابدی کے خط کا ایک اقتباس بھی پیش کیا ہے:
’’شبلی نے یہ مصرع ’’زیرِ قدمِ والدہ فردوس بریں ہے‘‘ مرزا دبیر سے منسوب کیا ہے۔دفترِ ماتم کی بیس جلدوں میں یہ مصرع نہیں ملے گا۔یہ مصرع حکیم قدیر الدولہ کے اس مرثیہ کا مطلع ہے ’’ارشاد مجھے آج ہے یہ لوح و قلم سے‘‘۔(ص ٦٨)
واضح ہو کہ خط کا یہ عبارت ’’ردّالموازنہ‘‘ سے ماخوذ ہے۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ عاشور کاظمی نے تقی عابدی کا حوالہ دے کر ادبی دیانت داری کا ثبوت پیش کیا ہے جبکہ بعض نام نہاد محققوں نے تو بغیر کسی کا حوالہ دیئے اسے اپنی ہی تحقیق بتایا ہے۔موازنہ انیس و دبیر کے جواب میں جو کتابیں لکھی گئیں ہیں ان میں اس کی وضاحت تفصیل سے ملتی ہے کہ یہ اشعار دبیر کے نہیں ہیں۔
عاشور کاظمی نے مرثیہ اور مرثیہ نگاروں پر تحقیق کرتے ہوئے بعض نئے انکشافات بھی کیے ہیں اور بعض قدیم مسلمات کو مسترد بھی کیا ہے۔اور بعض بزرگ محققین سے اختلاف کرتے ہوئے جرات مندانہ اور اکتشافی طریق کار اختیار کیا ہے مثلاً خاتون مرثیہ گو ’’دیوی روپ کماری‘‘ کے تعلق سے ان کی تحقیق بالکل مختلف ہے۔حیرت ہے کہ روپ کماری کو محققوں نے خیالی کردار بتایا اور ان کے مرثیوں کو استاد شاعروں سے منسوب کر دیا۔ ان محققوں میں پہلا نام حضرت نسیم امروہوی کا ہے جنہوں نے دیوی روپ کماری کے وجود سے ا نکار کرتے ہوئے تخیلاتی بتایا اور ان کے مرثیوں کو فضل رسول پہر سری سے منسوب کیا۔ایسے محققوں میں دوسرا نام ڈاکٹر صفدر حسین صاحب کا ہے جنہوں نے حضرت نسیم امروہوی کی طرح روپ کماری کو پہلے تو فرضی کردار بتایا لیکن بعد میں فضل رسول کے ایک خط کی بنیاد پر بتا یا کہ یہ نام فرضی نہیں ہے۔عاشور کاظمی نے ان تمام محققین کی رائے کوٹ کرتے ہوئے ان سے مدلل اختلاف کیا ہے اور مرثیے کے ایک استاد شاعر اور بزرگ نجم آفندی کے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے بتا یا کہ دیوی روپ کماری ان سے اپنی شاعری پر اصلاح لیا کرتی تھیں۔ عاشور کاظمی نے روپ کماری کے حقیقی وجود کا انکشاف کر کے تحقیق کا حق ادا کر دیا اور ایک با کمال مرثیہ گو شاعرہ کو گمنامی سے باہر نکال کر مرثیہ نگاروں کی فہرست میں شامل کر دیا۔ یہ آج کے علمی زوال کے دور میں بہت بڑی کاوش ہے اوراس تحقیق کی تحسین وستائش بجا طور پر ہونی چاہئے۔
مصنف نے مرثیہ نگاروں کے مرثیوں اور بندوں پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے مرثیے کے اجزائے ترکیبی کے بعض باریک پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔مثلاً قصیدے کے گریز کی طرح ’’ساقی نامہ‘‘ بھی مرثیے کا ایک اہم جز ہے جس کے اشعار دو مجاہدوں کی رزم کے بیان کے درمیان کہے جاتے ہیں تاکہ قاری کو ایک مجاہد کی رزم سے دوسرے مجاہد کی رزم تک پہنچنے میں جھٹکا نہ لگے۔عاشور کاظمی نے ساقی نامہ کی اہمیت اور ضرورت پر گفتگو کرتے ہوئے بنیاد تیموری کے مرثیوں کے بندوں اور’’ساقی نامہ‘‘ پر اس طرح اظہار خیال کیا ہے:
’’بنیاد تیموری کے مراثی میں بھی ساقی نامہ ایک اہم جز ہے لیکن ان کے مرثیوں میں جہاں قاری کسی ایک مجاہد کی جنگ میں محصور ہو جاتے ہیں تو بنیاد تیموری دوسرے مجاہد کی رزم تک لے جانے کے لیے درمیان میں ساقی نامہ کے کچھ کے کچھ اشعار ڈالتے تھے تاکہ ایک کیفیت میں جاتے وقت مرثیے کے قاری کو جھٹکا نہ لگے۔‘‘(ص ۳۵۵)
عاشور کاظمی نے بنیاد تیموری کے مرثیوں اور ساقی ناموں کے اشعار کے متعلق جو رائے دی ہے اس سے دو باتوں کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ پہلا یہ کہ بنیاد تیموری کے رزمیہ اشعار میں ایسی جادوئی کیفیت پائی جاتی ہے جو قاری کو اپنے اندر مسحور کر لے تی ہے اوردوسری یہ کہ مسحور کن فضا پیدا ہونے سے ذہن میدانِ کربلا میں شہید ہونے والے مجاہدوں کی عظمت، بہادری اور جانبازی کے کارناموں کی طرف جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عاشور کاظمی کی تنقید میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ میدان کربلا میں ایسے مجاہدین تھے جن کے کارناموں کو بیان کرتے وقت اشعار میں مسحور کرنے والی کیفیت پیدا ہو جانا لازمی ہے اگر چہ شاعر قادر الکلام ہو۔ نیز اس کیفیت سے نکلنے کے لیے ’’ساقی نامہ‘‘ کے اشعار کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے اس بات کا بھی احساس مصنف نے دلایا ہے۔بنیاد تیمور ی کے مرثیوں کے اشعار اور شہدائے کربلا کی اس سے بہتر تعریف ممکن نہیں تھی۔
اسی طرح صبا اکبر آبادی کی مرثیہ نگاری پر اپنی رائے دیتے ہوئے دوسرے ناقدین کی تنقید کا بھرپور تجزیہ و تحلیل کیا ہے اور مرثیے کے فن پر اعلیٰ درجے کے تنقیدی شعور کا ثبوت دیا ہے۔ صبا اکبر آبادی کی مرثیہ نگاری پر علّامہ طالب جوہری نے اظہار خیال کرتے ہوئے ان کے مراثی کے چہروں میں جدیدیت کی آمیزش کی نشان دہی کی تھی اور اس سے مراد ارتقائے فکر اور ترقی پسند رجحانات لیا تھا لیکن عاشور کاظمی نے اسے مسترد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مراثی صبا کے چہروں میں زندگی کی مختلف جہات کی جو بازگشت سنائی دیتی ہے اس کا تعلق ارتقائے فکر اور ترقی پسند رجحانات سے نہیں ہے بلکہ یہ تو جدید مرثیہ ہے اور یہی ارتقائے فکر و بصیرت ہے۔ عاشور کاظمی نے پہلے اس بند کو نقل کیا ہے:
مامور تھے ہر شہر پہ بیدرد ستم گار
اظہارِ حقیقت کا عوض تھا رسن و دار
لب ہلنے کا انجام ہوا کرتی تھی تلوار
قانون تھا حاکم کے اشاروں میں گرفتار
انسان کا معیار جگر کوٹ رہا تھا
اس عہد میں اسلام کا دل ٹوٹ رہا تھا
صبا اکبر آبادی کے اس بند کی روشنی میں سید عاشور کاظمی کی یہ تنقیدی رائے ملاحظہ کیجئے:
’’علامہ طالب جوہری علمی ادبی اقدار کی رواں دواں صورت حال سے بہت با خبر رہتے ہیں اس لیے امکان یہ ہے کہ صبا اکبرآبادی کے مراثی کے چہروں میں ’’جدیدیت‘‘ کی آمیزش سے علّامہ موصوف کی مراد ’’ارتقائے فکر اور ترقی پسند رجحانات ‘‘سے ہو گی ’’سابق تحریک جدیدیت‘‘ نہیں۔ اس امکان کو یقین بنانے میں صبا صاحب کے مرثیوں کے چہرے گواہ ہیں کہ صبا اکبر آبادی کے کلام میں جدیدیت والا ابہام نہیں بلکہ ارتقائے فکری ہے اور تسلسل ہے۔صبا اکبر آبادی مراثی میں بھی زندگی کی مختلف جہات پر بات کرتے نظر آتے ہیں، یہی جدید مرثیہ ہے اور یہی ارتقائے فکر و بصیرت ہے۔‘‘ (ص- ۶٥٥)
مصنف نے جس طرح علامہ طالب جوہری کی رائے پر تیکھی تنقید کی ہے اور مندرجہ بالا بند کے مصرعوں کے ذریعے شاعر کے ارتقائے فکر و بصیرت کی پہچان کی ہے اور مرثیے کو آج کی زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے بلکہ صبا جیسے شاعروں کے ہاتھوں میں اس فن کے روشن امکانات کو بھی ظاہر کیا ہے جس سے نہ صرف صبا اکبرآبادی کی عظمت کا احساس ہوتا ہے بلکہ مصنف کی اپنی وسیع تر تنقیدی بصیرت اور آگہی کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
ایک انٹر ویو میں جدید مرثیہ گوئی کے متعلق اپنے نقطہ نگاہ کی وضاحت کرتے ہوئے صبا صاحب نے بتایا تھا کہ:
’’میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ مرثیہ ابلاغ کا اور اتحاد کا بہترین ذریعہ ہے، پھر اس میں شاعری بھی ہے۔ مرثیہ کے ذریعہ میں انسانیت کے اعلیٰ ترین اقدار کو اپنے معاشرے میں اور اپنے عہد میں پھیلانا چاہتا ہوں۔ مرثیہ کو اتحاد بین المسلمین کا ذریعہ بنانا چاہتا ہوں ‘‘( صبا اکبر آبادی، جہانِ حمد و نعت نمبر۔ص ۳٤٤)
صبا صاحب کے انٹرویو کے مندرجہ بالا اقتباس سے عاشور کاظمی کی رائے کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے۔
عاشور کاظمی نے بعض مرثیہ نگاروں کے مرثیوں میں نئے نئے نکات اور نئے نئے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور اپنی بات کی تائید میں دیگر ناقدوں کی رائے بھی نقل کی ہے۔مثلاً عام طور پر مرثیہ نگاروں نے اپنے اشعار میں خیر کی تشریح کی ہے لیکن علّامہ جمیل مظہری نے اپنے مرثیوں کے اشعار میں خیر کے بجائے شر کی تشریح کی ہے۔سید عاشور کاظمی نے اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات کی تائید میں پروفیسر رضا کاظمی کی رائے کہ ’’پیمانِ وفا‘‘ غالباً پہلا مرثیہ ہے جس میں کسی خیر کے بجائے شر کی تشریح کی گئی ہے‘‘ کو کوٹ کیا ہے اور اس پر اپنا رد عمل یوں ظاہر کیا ہے:
’’کچھ لکھ کر قلم توڑ دینا ‘‘ والی کہاوت اس مختصر جملے پر صادق آتی ہے۔حقیقت یہی ہے کہ اس مرثیے میں جمیل مظہری نے جبر کی تاریخ پیش کی ہے۔اور سیاق و سباق اس کا یہ ہے کہ ۱۹۳۵ میں جارج پنجم کی جوبلی کے موقع پر انگریز حاکموں نے ماہ عزا کی پرواہ کیے بغیر امام باڑوں میں چراغاں کا حکم دے دیا تھا۔جب اس حکم کی تعمیل بے چوں و چرا ہو گئی تو اس تساہل کو بہت سے شعراء نے ہدف بنا یا۔ حضرت مسلم بن عقیل سے غداری کرنے والوں کے احوال سے گریز کرتے ہوئے بیک جنبش قلم جمیل مظہری جوبلی پر امام باڑوں میں چراغاں کے دکھ پر آ گئے۔دیکھئے کیسے؟ابن زیاد گورنر کوفہ کے حکم پر کثیر ابن شہاب، حامیان حسین کو ڈراتا دھمکاتا ہے۔جمیل مظہری ان دو موقعوں کو کیسے یکجا کرتے ہیں۔ کوفہ کی حالت‘‘:(٤٤۱)
کہیں زنجیروں کی دھمکی تھی کہیں بارشِ زر
کام کرنے لگا ہر سمت حکومت کا اثر
سن کے یہ غُل کہ چلا آتا ہے شاہی لشکر
عورتیں لے گئیں مردوں کو قستم دے دے کر
یوں ہی ایماں کی طرف خوف مکیں ہوتا ہے
دل میں راسخ ہو غلامی تو یوں نہیں ہوتا
متذکرہ بیان میں جس طرح مصنف نے جمیل مظہری کے مندرجہ اشعار میں شر کی تشریح کی وضاحت کی ہے اور جس طرح پروفیسر رضا کاظمی کی رائے پر اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تنقیدی نظر کتنی گہری اور ہمہ گیر ہے کہ وہ مرثیوں کے باریک پہلوؤں کی تہہ تک بہ آسانی رثائی حاصل کر لیتے ہیں اور جس طرح اس پس منظر کو پیش کرتے ہیں جس کے زیر اثر یہ اشعار وجود میں آئے اس سے ان کی وسعت علمی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
مرثیے پر اب تک جتنی کتابیں اور مضامین لکھے گئے ہیں ان میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب یا مضمون ہو جس میں کم و بیش میر انیس اور مرزا دبیر کا ذکر کسی نہ کسی بہانے نہ آیا ہو اور ان کی شعری ممیزات پر کچھ نہ کچھ نہ کہا گیا ہو۔ عاشور کاظمی نے بھی انیس و دبیر کی شاعرانہ خوبیوں پر اختصار و اجمال کے ساتھ جس طرح اظہار خیال کیا ہے اسے کسی طویل مضمون میں بھی اس طرح کی بصیرت نہیں ملتی۔ایک جگہ میر انیس کی شاعری پر رقم طراز ہیں :
’’انیس کی مرثیہ گوئی اور ان کی قادرالکلامی کے لیے بلا خوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ چاہتے تو قطرہ کو سمندر پر محیط کر دیتے تھے،نقطے کو مضامین کی وسعت دے دیتے تھے۔انہوں نے غلط نہیں کہا تھا کہ اک رنگ کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں اور جب اختصار پر آتے تھے تو ایک شعر تفسیروں کا نچوڑ ہوتا تھا۔‘‘ (ص ١٨)
شبلی نے اپنی مشہور تخلیق ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ میں فصاحت اور بلاغت کو دو الگ الگ شاعرانہ صفات قرار دیا ہے اور بلاغت پر فصاحت کو ترجیح دی ہے کیوں کہ شبلی کے مطابق فصاحت میں جو تاثیر ہے وہ بلاغت میں نہیں ہے۔ فصاحت اور بلاغت کے اسی فرق کو بنیاد بنا کر مراثی انیس و دبیر کا موازنہ کرتے ہوئے شبلی نے بتا یا کہ انیس کے مرثیوں میں بلا کی فصاحت اور دبیر کے مرثیوں میں اعلیٰ درجے کی بلاغت ہے لیکن چونکہ تاثیر، دبیر کے مقابلے میں انیس کے یہاں زیادہ ہے لہٰذا انیس دبیر سے بہتر مرثیہ گو شاعر ہیں۔ ’’موازنہ انیس و دبیر ‘‘ کے بعد اس موضوع پر لکھی جانے والی بیشتر کتابوں میں انیس و دبیر اور فصاحت و بلاغت کے متعلق شبلی کے ہی راگ کو الاپا گیا۔شاہد ہی کسی ناقد یا ماہر علم بیان و بدیع نے شبلی کے نظریے کے خلاف اپنی جدا گانہ رائے دینے کی جرات کی ہو کیوں کہ ایک زمانے تک حالی اور شبلی ناقدوں کے ذہن میں تنقید کی دنیا کی ایک دیو قامت طلسمی بت کی مانند چھائے رہے۔ عاشور کاظمی نے نہ صرف اس طلسمی بت کو توڑا بلکہ فصاحت اور بلاغت کی نئی تعریف بیان کرتے ہوئے بتا یا کہ علمِ بیان و بدیع کی روشنی میں یہ دونوں صفات ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں بلکہ بلاغت کی شعاعیں فصاحت سے ہی نکلتی ہیں۔ جیسا کہ پچھلے صفحات پر ذکر کیا جا چکا ہے کہ عاشور کاظمی نے شبلی کے ذریعے کوٹ کیے گئے دبیر سے وابستہ اشعار کو خارج کرتے ہوئے بتا یا کہ یہ اشعار دبیر کے ہیں ہی نہیں جن کی بنیاد پر انیس و دبیر کے شاعرانہ مرتبے میں فرق کیا گیا۔ عاشور کاظمی کی تنقیدی بصیر ت کی وسعت اس اقتباس میں ملاحظہ کیجئے:
’’میر انیس اور مرزا دبیر کی عظمت کے نادان دشمن وہ ہیں جنہوں نے شعوری طور پر ان دو ہم عصر اساتذہ فن شعرا کے درمیان گروہ بندی اور عصبیت کی فضا پیدا کی اور دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ایسے لوگوں میں سرِ فہرست وہ ہیں جنہوں نے موازنہ انیس و دبیر لکھ کر انیس کے مقابلے میں دبیر کو کمتر درجے کا شاعر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہ کوشش اگر شعوری ہے تو نہ صرف میر انیس اور مرزا دبیر کی عظمت کے منافی ہے بلکہ مرثیے کی ہمہ گیری اور یک جہتی کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کہی جا سکتی ہے اور اگر غیر شعوری ہے تو شبلی کی دانشورانہ صلاحیتوں کی نفی کرتی ہے۔شبلی نے فصاحت و بلاغت کو دو الگ الگ اصناف قرار دے کر فصاحت کو میر انیس کے نام لکھ دیا اور بلاغت کو ادق الفاظ کی میراث کہ کر اسے مرزا دبیر کے کھاتے میں ڈال دیا جبکہ حقیقت یہ کہ بلاغت فصاحت سے علیحدہ کوئی صنف نہیں ہے بلکہ فصاحت کے باب میں ہی آتی ہے۔‘‘(ص ۸۵)
مصنف نے اپنی رائے میں جہاں فصاحت اور بلاغت کو ایک ہی شاعرانہ خوبی سے نکلنے والی دو صفات قرار دیا ہے وہیں مرثیہ گو شاعروں کو دو مختلف گروہوں میں تقسیم کیے جانے کی کوشش کو غیر مناسب ٹھہرایا ہے کیوں کہ ایسی کوشش سے مرثیے کی یک جہتی اور ہمہ گیریت مجروح ہو سکتی ہے۔ مصنف کے اس بیان سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ مرثیہ میں آفاقی صنف ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔
جیسا کہ جگ ظاہر ہے مرثیہ وہ صنف سخن ہے جسے شہدائے کربلا کی یاد میں لکھا جاتا رہا ہے لہٰذا اردو کے بیشتر ناقدین نے صنف مرثیہ کو صرف مذہبی جذبات کے اظہار کا وسیلہ سمجھا اور اسے مسلمانوں کے ایک فرقے سے وابستہ کر دیا جس کی وجہ سے اس صنف کو وہ ہمہ گیر شہرت اور مقبولیت نہیں ملی جو غزل اور دوسری شعری اصناف کو ملی جبکہ مرثیے میں صنعتوں اور صفات شاعری کی ایک دنیا آباد ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں اس میں مظلوموں کی آہ و پکار، ظلم و ستم کے خلاف آواز کی تھرتھراہٹیں موجود ہیں نیز یہ صنف ظالموں اوراستعماری اور استکباری طاقتوں کے خلاف متحد ہونے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ یہ صنف موجودہ دور کے تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کی قدرت رکھتی ہے اور اس کا دائرہ محدود نہیں بلکہ بے کراں ہے۔ عاشور کاظمی نے ان تمام پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس صنف میں پائے جانے والے بے شمار روشن امکانات کو بروئے کار لانے پر زور دیا ہے۔مصنف نے مرثیے کی صنف پر اظہار خیال کرتے ہوئے عزاداری کی تعریف، اس کی اہمیت اور ضرورت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ ان ناقدین کو اپنی تیکھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے عزاداری حسین کو کسی خاص فرقے سے منسوب کر کے اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔مصنف نے اس بات پر زور دیا کہ عزاداری حسین کسی ایک فرقے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سنیوں اور غیر مسلموں کے یہاں بھی عزاداری کی روشن روایت رہی ہے جو قومی اتحاد کی مثال ہے۔اپنی بات کی تائید میں مصنف نے ان صوفیائے کرام کا خصوصی ذکر کیا ہے جنہوں نے مرثیے لکھے اور عزاداری حسین کو فروغ دیا۔شہادت حسین کو عالم انسانیت کا المیہ اور ورثہ قرار دے کر مرثیے کو آفاقی بنا دیا ہے۔واضح رہے کہ اس نقطہ نظر سے مرثیے کا مطالعہ نہیں کیا گیا تھا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
’’مرثیہ شیعہ ہے نہ سنّی بلکہ ایک اہم صنف ادب ہے اور عزاداری حسین یا غم حسین، مسلمانوں کا ورثہ ہے۔شہادتِ حسین عالمِ انسانیت کا سرمایہ ہے جو اسلام کے توسط سے عالمِ انسانیت کے سامنے آیا۔‘‘ (ص ٩٤)
عزاداری حسین کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے مصنف نے ذکر رسول اور خدا کی حاکمیت کو عزاداری کا جوہر قرار دیا ہے اور یہ بھی تلقین کی ہے کہ ہمیں اپنے ورثے کا تحفظ کرنا چاہئے۔اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’جو قومیں اپنے ورثے کو یاد رکھتی ہیں اپنے اجداد کی تاریخ کو دہراتی ہیں، ان قوموں کی تاریخ بھی تابندہ رہتی ہیں اور ان کی نئی نسلوں کو نیا جوش اور نیا ولولہ بھی ملتا ہے۔جو قومیں اپنی تاریخ کو نہیں دوہراتیں وہ اپنے Rootsکو بھول جاتی ہیں، اپنی قومی یا خاندانی افتخار کو فراموش کر دیتی ہیں۔ ‘‘(ص ٨٤)
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ اردو شاعری میں قنوطیت تنقید کے نشانے پر رہی ہے۔اسی لیے میر کی شاعری میں رجائیت کے عناصر کی تلاش کی ضرورت پڑی۔ اسی رویے کی وجہ سے مرثیے میں ’’بین‘‘ کو ناقدوں نے ’’بین و بکا‘‘ استعمال کیاجس سے اس کی پاکیزگی اور مذہبی اہمیت مجروح ہوئی۔عاشور کاظمی نے زیر بحث کتاب میں شروع سے آخر تک لفظ ’’بین‘‘ کے ساتھ ’’بکا‘‘ کا اضافہ نہیں کر کے اس لفظ کی اصل معنویت،پاکیزگی اور اہمیت کا احساس اپنے قاری کو دلایا نیز یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ کس صورت حال اور سماجی اور تہذیبی پس منظر میں اس کی ضرورت ہمارے لیے بڑھ جاتی ہے۔
مصنف نے صنف مراثی کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد اس پر قلم اٹھایا ہے اور ہر پہلو کو اپنے بحث کے دائرے میں لا کر اس کی وضاحت کی ہے مثلاً مرثیے اور شہادت نامے میں بنیادی فرق کیا ہے؟عزا داری کا اصل جوہر کیا ہے؟وغیرہ وغیرہ۔ ’’نوسرہار‘‘ مرثیہ ہے یا شہادت نامہ؟ اس پر مختلف ناقدین کی رائے سے بحث کرتے ہوئے اسے شہادت نامہ قرار دیا ہے۔
عام طور پر تنقید کی زبان کھردری اور اصطلاحات ثقیل اور بوجھل ہوتی ہیں جو عام قاری کی فہم پر گراں گزرتی ہیں اور قاری تنقید کو ایک بھاری چٹان یا پتھر سمجھ کر چوم کر چھوڑ دینے ہی میں عافیت سمجھ تے ہیں۔ مگر عاشور کاظمی کی تنقید کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ ان کی تنقیدی زبان سے نہ تو اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی بوریت بلکہ ایک دلچسپی کا سلسلہ قائم رہتا ہے اور قاری عاشور کاظمی کے ساتھ آخری وقت تک سفر کرتا ہے اور قاری کسی بھی مرحلے میں خود کو عاشور کاظمی سے الگ محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی اسے کسی قسم کی اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔ مصنف نے مرثیے کی تحقیق و تنقید میں جس زبان کا استعمال کیا ہے وہ مرثیے کے اشعار کی طرح دلوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔اپنی نثر میں مزید دلکشی پیدا کرنے کے لیے اور اپنی تنقید کی نشتر تند و تیز کرنے کے لیے بعض جگہوں پر غزل کے اشعار کی طرح اشاروں اور کنایوں میں بھی اپنی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔
عاشور کاظمی کی یہ کتاب تاریخی اہمیت کی حامل ہے اورساتھ ہی اعلیٰ تحقیق و تنقید کا بہترین نمونہ بھی۔ مضمون کے ابتدائی حصے میں مصنف کی دوسری کتابوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو ہندستان اور پاکستان میں بے حد مشہور ہو چکی ہیں۔ مجھے خوش گوار حیرت ہے کہ مصنف نے یہ کتابیں برطانیہ میں رہ کر لکھی جہاں اردو کی لائبریریوں کی کمی ہے جہاں مواد کی فراہمی نہایت دشوار ہے۔
ایسے بحرانی حالات میں عاشور کاظمی جیسے صاحب جنوں تحقیق کار اور مجذوب نا قد کی وجہ سے برطانیہ میں اردو کی شمع نہ صرف روشن ہے بلکہ اس شمع سے پوری ادبی کائنات بھی ضیا بار ہو رہی ہے اور آج کے اس اردو کش ماحول میں یہ ضیا باری بھی بہت بڑی بات ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں برطانیہ کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ اب جب کہ برطانیہ کا سورج غروب ہو گیا ہے تو میں یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہوں کہ جب تک برطانیہ میں اردو کے جان نثار اور عاشور کاظمی جیسے دیوانے موجود ہیں اردو کا سورج کبھی غروب نہیں ہو گا۔ جو بات دنیا پہلے برطانیہ کے بارے میں کہتی تھی اب وہی بات اردو کے تعلق سے کہتے ہوئے مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ برطانیہ کے ادبی افق پر اردو کا سورج انڈیا سے زیادہ روشن اور تابناک نظر آ رہا ہے اور عاشور کاظمی کی شخصیت ایک نیر تابناک کی طرح نظر آ رہی ہے۔