“”””” رضا بھائی آپ کدھر ہو ؟….نوال نے روہنسی آواز میں کہا ………..کیوں کے مہمان سارے جا چکے تھے ہال خالی ہو چکا تھا رات بھی کافی ہو چکی تھی اسے پاس کوئی جاننے والا نظر نہیں آ رہا تھا اس کے تھوڑی دور دو لڑکے اسے گھور رہے تھے خوف سی اسکا برا حال تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“”””””””””میں تو سعد اور ہادی کے ساتھ پارکنگ میں ھوں سب ٹھیک ہے نا تم مجھے پرشان لگ رہی ہو ؟ کیا ہوا رضا نے فکر مندی سے پوچھا ………..
بھائی سب چلے گے میں اکیلی ہال کے سامنے کھڑی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ نوال نے روتے ہوئے با مشکل کہا……………..
تم ادھر روکو میں آ رہا ھوں رضا کال بند کرتا ہال کی طرف بھاگ گیا
سعد ,ہادی فکر مندی سے اسے جاتے ہوے دیکھتے رہے……
دو منٹ میں ہی وہ نوال کے پاس آ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لڑکے اسے آتا دیکھ کے دوسری طرف چلے گے۔۔۔۔۔۔
نوال میں آ گیا ہو ں ۔۔۔۔ میں ھوں نا تمہارے پاس۔۔۔۔۔ رضا نے اسے ساتھ لگاتے ہوے کہا جو خوف سے کانپ رہی تھی رضا اسے چپ کرواتا ہوا گاڑی کے پاس لے آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کیا ہوا ۔۔۔۔سعد نے اشارے سے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رضا نے اسے چپ رہنے کا اشارا کیا ۔۔۔۔اور نوال کو گاڑی میں بیٹھا کر خود بھی بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
نوال کیا ہوا تمہے چپ ہو جاؤ……. تم تو بہت بہادر ہو …
گھبرا کیوں رہی ہو میرے خیال سے تو تم چاروں حسن کے ساتھ جانے والی تھی تم کیسے ره گئی ہادی نے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
نوال نے روتے ہوے پوری بات بتائی. …
کیسے حسن نے اسے گاڑی میں بیٹھنے سے روکا کیسے وہ پیچھے ره گئی
یہ حسن بھی نا الو کا پٹھا ہے….. کوئی کام بھی ٹھیک سے نہیں کر سکتا اگر ہم لوگ بھی ادھر نہ ہوتے تو کیا ہوتا اور یہ عا شی اس کے لیے کب سے اسپیشل ہو گئی ہمیں پتا تک نہیں گھر پہنچ کے اسکا تو حشر کرتا ہادی نے غصے سے کہا
مجھے غصہ حسن پے نہیں باقی تینوں پے وہ میرے بنا چلی کیسے گئی مجھے انسے اسی امید نہیں تھی نوال نے افسوس سے کہا ……
یار نوال نہیں ائی ہمارے ساتھ کدھر ره گئی سحرش نے فکر مندی سے کہا ………
وہ کال بھی نہیں ریسو کرر ہی سبین کو بھی اسکی فکر لاحق ہوئی …..
میں دیکھتی ھوں کیا پتا انٹی کے ساتھ ہو۔۔۔۔۔ سحرش با ہر نکل گئی….
ہمیں اسے ایسے چھوڑ کے نہیں آنا چائیے تھا سبین نے اسکا نمبر ڈیل کرتے ہوے کہا
کیا تم لوگ اسکی ٹینشن لے کے بیٹھ گئی آ جاۓ گی بچی تھوڑی جو گم ہو جاۓ گی عاشی نے لا پرواہی سے کہا وہ کافی دیر سے انکی باتیں سن رہی تھی ………….
زہرا میں آج تمہارے کمرے میں سو گی کپڑے چینج کر کے آتی ھوں ………..
سبین دوبارہ نمبر ٹرائ کرو…… زہرا نے کہا ……
تبی سحرش نوال کے ساتھ اندر ائی ……
نوال کدھر گئی تھی کتنا پرشان ہو گئی تھی ہم لیکن تم بیٹھ گئی ہو گی کیسی انٹی کے پاس گپ لگنے اک کال ہی کر دیتی ہمیں اتنا ہلکا ن تو نہ ہوتی ہم
بس کرو زہرا اک لفظ اور نہ بولنا بیچاری سے پوچھ بھی لو ہوا کیا اس کے ساتھ تم الٹا سنانے لگ گئی سحرش نے زہرا کو گھورتے ہوے کہا
زہرا نے نوال کے چہرے کی طرف دیکھا تو دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا اسکا چہرہ مر جھا چکا تھا آ نکھیں رونے کی وجہ سے سوج چکی تھی…….
نوال بیٹھو پانی پیو سبین نے اسے بیٹھا تے ہوئے پانی کا گلاس دیا۔۔۔۔۔۔
سحرش نے دونوں کو پوری بات بتائی ……
تب تک نوال بھی ر یلکس ہو چکی تھی …
سوری نوال میں جذباتی ہو گئی تھی………. زہرا نے معذرت کی…..
بھا ڑ میں جاؤ تم سب مجھے اکیلا چھوڑ کے آ گئی اور اگے سے اتنی باتیں بھی سنا دی نوال نے پھر سے رونا شروع کر دیا …….
پیلز ہمیں معاف کر دو نیکسٹ ٹائم ایسا کبھی نہیں کرے گی تینوں نے اسکی منتیں شروع کر دی ……..
اچھا میں ڈسٹرب ھوں مجھے سونے دو …….
نوال نے نرم پڑتے ہوئے کہا …….
اپنی اپنی جگہ پے لیٹ جاؤ وہ چڑیل نہ آ جاۓ وہ بھی ادھر سونے کا که گئی زہرا نے کہا
چاروں لیٹی ہی تھی نوال تو فورا سو گئی …..
تھوڑی دیر بعد اسکا سیل بجا ……….
سبین ذرا دیکھنا کون کال کر رہا سحرش نے کہا …..
سبین نے سکرین دیکھی تو رضا کا نمبر تھا ……کیا سانپ سونگھ گیا ریسو کیوں نہیں کر رہی سحرش نے جھنجھلتے ہوے کہا
سبین نے ڈ ھر کتے دل سے کال ریسو کی…..
ہیلو رضا کی آواز ائی
ہا ہا ہا لو سبین نے اٹکتے ہوے کہا ……..
کون رضا کسی حد تک پہچان چکا تھا لیکن پھر بھی تصدیق چا رہا تھا ………
وہ وہ میں سبین
اھاوو اس میں اتنا ڈرنے والی کونسی بات ہے ۔۔۔ آپ مجھ سے پہلی بار تھوڑی بات کر رہی ہو ۔۔۔،، رضا نے انجوے کرتے ہوے کہا…..
“””””سبین نوال اب کیسی ہے ۔۔۔۔ اسکا پوچھنے کے لیے ہی ابھی کال کی۔۔۔۔ آپ تو گھبر ا گئی رضا اسے تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا تب ہی سیدھی طرح بات پوچھی
وہ اب بہتر ہے کافی۔۔۔۔۔۔۔ سو چکی ہے سبین اتنا ہی بول پائی
ویسے آپ مجھ سے ڈرتی کیوں ہیں ۔جبکے میں آپ سے ڈرتاہوں ۔۔۔۔ رضا نے ترنگ میں کہا
جی کیا مطلب
سبین آپکے دل میں میرے بارے میں جو احساسات ہیںں نوال مجھے انکے بارے میں بتا چکی ہے رضا نے محبت سے چور لہجے میں کہا …..
سبین آپ سن رہی نہ میری بات رضا نے تصدیق چائی
جی سبین نے با مشکل کہا ……..
I love u
رضا نے اک دم بول دیا
سبین کو امید نہیں تھی کے وہ ایسا کہے گا اس نے گھبرا کے کال بند کر دی رضا اسکی حرکت پار ہنستا چلا گیا
حسن آج تو نے جو بے عزتی کروائی ہے دل کر رہا تیرا منہ توڑ دوں ہادی نے گھر آ تے ہی حسن پے چلانا شروع کر دیا
میں نے کیاکر دیا جو تو اتنا چلا رہا حسن نے نہ سمجتے ہوے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سے ایسے پوچھ رہے جیسے تمہے پتا نہ ہو کیا کر کے آ ئے ہو رضا نے غصے سے کہا
نوال کو ادھر ہی چھوڑ آئے اگر تمہے کوئی ذمداری دی جاۓ پوری کیوں نہیں کرتے اگر نہیں کر سکتے تو بتا دیتے اور یہ عا شی تمہارے لے اسپیشل کب سے ہو گئی سعد نے پوری بات بتاتے ہوے پوچھا…
…”””””او مائی گاڈ میرا ایسا کوئی اردہ نہیں تھا ……..میں تو ہادی کو ساتھ لانا چاہ رہا تھا نوال کو بھی یہ ہی سمجھانے لگا تھا۔۔۔۔۔
لیکن اسی وقت انکل آ گے اور رہی سہی کسر عا شی نے پوری کر دی ……..یار میں معذرت خوا ھوں حسن نے معافی مانگتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
یار تیرا اگر ایسا کوئی پلان تھا کم از کم مجھے تو بتاتا……. ہادی نے ٹھنڈا پڑتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔رضا قسم سے میں ایسا ہر گز نہیں چاہتا تھا حسن نے رضا کو دیکھ کے کہا…….جو غصے سے اس کو ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
“”””مجھ سے نہیں تمھ نوال سے معافی مانگنی چائیے رضا نے کہا……
یار جو کہو کرنے کو تیار ہو ں غلطی جو میری ہے ۔۔۔۔۔۔
گڈ نائٹ اب سو جاؤ رضا نے کمبل اڑتے کہا..
سبین سب چیزیں بیگ میں رکھ دی نا کچھ ره تو نہیں گیا نوال نے بیگ میں کپڑے رکھتی سبین سے کہا ھاں سب کچھ رکھ دیا سبین نے مصروف انداز میں کہا
او میرے خدا اس لڑکی کا کچھ نہیں ہونے والا ابھی تک سوی پڑی نوال نے سوتی سحرش کو دیکھ کے کہا
ہاہاہا کوئی حال نہیں اسکا پتا نہیں میرے بھائی کا کیا بنے گا جسکا دل اس پے آ گیا ویسے کہتے ہیںں نا دل گھدی پے اے حور کیا چیز ہاہاہا زہرا بس کرو سحرش جاگتی ہوتی تو تیرا حشر کر دیتی نوال نے ہنستے ہوے کہا
جب سے نوال نے سعد کی فیلنگز کا بتایا تھا وہ سحرش کو تنگ کرنے کہ کوئی موقع نہیں چھوڑ رہی تھی سحرش خدا کا واسطہ اٹھ جا کیا رخصتی کے وقت پونچھو گی نوال نے اسکے کان کے پاس زور سے کہا وہ ہڑپ کے اٹھ بیٹھی ہاہاہا وہ تینو ں اسکی حالت پے ہسنے لگی تبی سعد اندر آیا تم لوگ ریڈی ہو تو چلنے
ہم تو ریڈی لیکن ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا نوال نے سعد کی بات کا جواب سحرش کی جانب دیکھتے دیا سحرش اٹھ کے واشروم چل دی کیوں کی وہ سعد کی نظروں کی تپش محسوس کر چکی تھی
سعد پانچ منٹ میں نیچے آنے کا کہ کر چلا گیا ۔۔۔۔۔
………ماشا اللہ زہرا تم پے تو روپ ٹوٹ کے آیا میری ہی نظر نہ لگ جاۓ سحرش نے زہرا کو دیکھ کے کہا جس کا گولڈن دوپٹہ بیو ٹیشن سیٹ کر رہی تھی زہرا گولڈن اینڈ ریڈ لہنگے میں نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی جس پے گولڈن گوٹی سلمہ وائٹ اینڈ گرین موتیوں کا انتہائی دل فریب کم ہوا تھا سموکی ایز ریڈ لپسٹک میں وہ تو اس دنیا کی تو لگ ہی نہیں رہی تھی ……..
آج ہادی بھائی کی تو خیر نہیں سبین نے اسے پیار سے دیکھتے کہا …….
تم ہادی کو چھوڑو رضا کی بات کرو اس بیچارے پے کیا بجلیا ں گرنے والی ہے ۔۔۔نوال نے سبین کو شرارت سے دیکھتے ہوئے کہا جس نے پنک کلر کا نیٹ کا لانگ فراک جس پے وائٹ موتیوں کا زبردست کام ہوا تھا….پہنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ….
“””””””سبین رضا کے نام سے چپ ہو گئی جیسے وہ سامنے ہو
“””””””””سحرش پلیز میرے بھائی کا خیال کر لو کیوں بیچارے کو تڑپا کے مارنا چاہتی ہو…… زہرا سحرش کی جانب موتوجہ ہوئی تھی جس نے
ہاف وائٹ فراک جس پے گولڈن کام تھا اسی کلر کا پا جمہ پہنا تھا اور شاکنگ دوپٹہ ، گلے میں انتہائی نفیس نکلس۔۔۔۔۔۔۔ ماتھے پے بند یا چہرے پے مھر بیو ٹیشن کے ہاتھوں کا کمال …………وہ اسپرا لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“””””””زہرا ایسا کوئی سین نہیں تمہارے بھائی کے ساتھ میرا….
سحرش نے خجل ہوتے ہوے کہا ….
تمہاری طرف سے ابھی نہ ہو کچھ ٹائم بعد شروع ہو ہی جاۓ گا لیکن انکی طرف سے سو فیصد ہے ۔۔۔۔۔
نوال نے مرر میں اپنے عکس پر تنقیدی نگا ہ ڈالتے ہوے کہا ….
نوال آج تو ان دونوں سے زیادہ پیاری لگ رہی زہرا نے اسے دیکھتے کہا ….نوال نے بلیک فراک جس کے نچلے حصے پے گولڈن کام تھا اسکے دلکش بدن کو چار چاند لگا رہی تھی گولڈن بلو نڈ بالوں کے درمیان مانگ میں سحرش کی طرح بند یا لگی تھی بال کھلے چھوڑے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔میں صرف اور صرف تمہاری شادی کے لے تیار ہوئی تبی پیاری لگ رہی. ہوں ….
زیادہ کسی اور کی طرح نہیں جان بھو جھ کے بات ادھوری چھوڑی نوال نے…..
تبی سعد نے کال کی وہ لینے آ گیا وہ دونوں زہرا کو لے کر نکل گئی سحرش کو کہا کے وہ باقی سامان لے آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں پلان کے تحت پچھلی سیٹس پے بیٹھ گی اور سحرش کے لے فرنٹ سیٹ چھوڑ دی سحرش گھورتے ہوے فرنٹ سیٹ پے بیٹھ گی…
سعد بھائی اب د ھیان سے ڈرائیو کرے گا نوال نے معنی خیز لہجے میں کہا سحرش شرمندہ ہو رہی تھی کے وہ کیوں بیٹھی اور نوال کی باتوں پے غصہ بھی آ رہا تھا…
سگنل پے گاڑی روکی…. اک بچہ مو تیے کے گجرے لے آیا اور منتے کرنے لگا کے لے لیں اسکے پاس دو ہی بچے تھے ..
سعد نے لے لیے ابھی سوچ رہا تھا کے ان میں سے کس کو دے نوال بول اٹھی کے سحرش کو دیں.
کہ رہی تھی نہ کے گجرے ہو تو تیاری مکمل دیکھو کیسے وش پوری ھو گی سعد نے سحرش کی گود میں گجرے رکھ دیے اور سڑک کی طرف متوجہ ھو گیا ۔۔۔
ہال کے سامنے روکتے سعد نے اہستہ سے اسے کہا میر ے حقیر سے تحفے کو پہن کے عزت بخش دو …..
سحرش لے کے اگے بڑ گی….