افسانہ افریقی ادب کی ایک مقبول صنف ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ نثری افریقی ادب کی مقبول ترین صنف ہے۔براعظم افریقہ کے طول و عرض کے تقریباً ہر خطے میں افسانے لکھے جا رہے ہیں ۔ا س بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ افریقی افسانے معیار کے لحاظ سے کافی بلند ہیں اور انہیں دنیا کے کسی بھی ملک کے افسانوی ادب کے مقابل پیش کیا جا سکتا ہے۔(انگریزی افریقہ کی مقبول ترین ادبی زبان ہے اوریہاں افریقی افسانوں سے میری مراد خاص طور سے انگریزی زبان میں دستیاب افسانوں سے ہے)۔
افریقی افسانوں کے موضوعات
افسانہ لکھتے وقت موضوع کا انتخاب سب سے پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔افسانہ نگار جب افسانہ لکھنے کا ارادہ کرتا ہے توسب سے پہلے اس کی نگاہیں کسی موضوع کے انتخاب کی تلاش میں بھٹکتی ہیں۔افسانے کا موضوع در اصل افسانہ نگار کے لیے بنیاد کا کام کرتا ہے جس پر وہ پلاٹ ،کرداروں اورمکالموں کی مدد سے افسانے کی عمارت بلند کرتا ہے۔موضوع جتنا بہتر ہوتا ہے افسانہ اتنا ہی دلچسپ ہوتا ہے۔
افسانے کے موضوع کی تلاش کوئی بہت مشکل کام بھی نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے کوہ قاف سے اتار کر لانا پڑے۔موضوعات تو ہمارے ارد گرد بکھرے پڑے ہیں۔ضرورت تو ہے بس ایک اچھے موضوع کے انتخاب کی۔افسانہ نگار کو کنکریوں کے ڈھیر سے بھی ہیرا ڈھونڈھ نکالتا ہے۔
بعض موضوعات تو ایسے ہیں جو دنیا کے ہر ملک ، ہر زبان کے افسانوں میں عام ہیں جیسے محبت، نفرت، بے وفائی، بدلہ وغیرہ۔لیکن زیادہ تر موضوعات ایسے ہیں جو کسی ملک کے اپنے سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی حالات پر مبنی ہوتے ہیں۔وہاں زندگی کے جتنے بھی مسائل پائے جاتے ہیں وہ سارے کے سارے ان افسانوں میں جھلکتے ہیں۔
افریقی افسانوں میںبھی زندگی کا ہر رنگ جھلکتا ہے۔ان میں موضوعات کی رنگا رنگی ہے۔افریقی افسانہ نگاروں نے تقریباً ہر اہم موضوع پر افسانے لکھے ہیں ۔پھر بھی چندموضوعات ایسے ہیں جو بہت زیادہ مقبول ہیں اور ان پر ڈھیر سارے افسانے دستیاب ہیں۔ذیل میں ہم ایسے ہی چند موضوعات پر ایک نظر ڈالیں گے۔
۱۔ نسلی امتیاز :
افریقی افسانوں کا سب سے اہم موضوع نسلی امتیاز اور نسلی منافرت ہے۔خاص طور سے سائوتھ افریقہ کے افسانہ نگاروں نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ افریقہ کے لوگوں کے جِلد کی رنگت سیاہ ہے جب کہ ان پر حکومت کر نے والے آقائوں کی چمڑی گوری ہے۔محض جِلد کی رنگت کی بنا پر سفید فام آقا اپنے سیاہ فام غلاموں کو جانوروں سے بھی کمتر درجے کا کوئی جاندار سمجھتے ہیں ، انسان سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے۔اسی بنیاد پر انہیں ستایا جاتا ہے اوران کے سارے حقوق غصب کرلیے جاتے ہیں۔سفید فاموں کو تو ساری مراعات حاصل ہیں جب کہ سیاہ فام عوام زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔انہیں ہر جگہ دھتکارا جاتا ہے۔ہم ہندوستانیوں کو بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب ٹرینوں کے فرسٹ کلاس ڈبوں میں ہندوستانیوں کو سوار ہونے کی اجازت نہیں تھی اورہوٹلوں کے دروازوں پرDogs and Indians not allowed لکھا ہوتا تھا۔افریقہ کے لوگوںکے ساتھ تو اس سے برا سلوک ہوتا آیا ہے۔ظاہر ہے ایسے حالات میں احتجاجی ادب کی تخلیق ناگزیر ہے۔افریقی افسانہ نگاروں نے نسلی امتیاز مخالف تحریکوں کا بھر پور ساتھ دیا اور اس موضوع پر بے شمار افسانے لکھے۔
Alex Ia Gumaکے افسانےA walk in the night میں ایک سیاہ فام مائکل ایڈونس کو ایک سفید فام شخص کومحض پلٹ کر جواب دینے کی پاداش میں نوکری سے برطرف کر دیا جاتا تھا۔اس کے بعد مائکل کی ذہنی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ سفید فاموں کے سائے سے بھی ڈرنے لگتا ہے۔ایک موقع پر وہ سفید فام پولیس کانسٹیبل کے چہرے کی طرف نظر نہیں اٹھا پاتا ہے اور اس کے ہر سوال کے جواب میں مکمل محکومی ظاہر کرنے والا ایک لفظ ’باس [Baas] ‘ بولتا ہے جو انگریزی کے لفظ Bossکی بگڑی ہوئی شکل ہے اور سائوتھ افریقہ کے سیاہ فاموں میں رائج ہے۔یہ کہانی اس بات کی بڑی اچھی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح سفید فام پولیس والے سیاہ فاموں پر ظلم ڈھا کر انہیں اپنا محکوم بنا کر رکھتے ہیں تاکہ وہ کبھی ان کے خلاف سر نہ اٹھا سکیں۔
Nadine Gordimerکے افسانے The Bridegroom میںایک سفید فام اور ایک سیاہ فام آپس میں شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود حاکم اور محکوم کا رشتہ میاں بیوی کے رشتے پر غالب رہتا ہے۔
Ezikiel Mphahleleنے اپنے مشہور افسانے The Coffee-cart Girlمیںسیاہ فاموں کے حقوق کی پامالی کی بھر پور عکاسی کی ہے۔اس کہانی میں ایک کارخانے کے سیاہ فام مزدوروں سے ہڑتال کر نے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔یہی نہیں سیاہ فاموں کو شہر میں ٹھیلوں پر کافی کے اسٹال لگانے سے بھی روک دیا جاتا ہے۔
Mafika Gwalaکے افسانے Reflections in a cell کا مرکزی کردار ایک کم عمر نوجوان ہے جسے پولیس اپنے ظلم کا شکار بناتی ہے اور جب وہ ان کی محکومیت قبول کر نے سے انکار کرتا ہے تو اسے ’غیر سماجی عنصر‘ قرار دے کر بچوں کی جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ Dambundzo Marecheraکی کہانی Prostia میں جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ سیاہ فام کردار کو نفسیاتی اذیت بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو جائے۔
Ahmed Essopکی کہانی Betrayal میں سفید فاموں کی ایک زبردست حکمت عملی’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘ ‘کی عکاسی کی گئی ہے۔وہ اپنے خلاف لڑنے والی سیاہ فام تنظیموں کو آپس میں ہی لڑا دیتے ہیں تاکہ وہ کمزور پڑ جائیں اورآپس میں الجھ کر ان کا ذہن سفید فاموں کی طرف سے ہٹ جائے۔اس کہانی میں بھی نسلی منافرت کے خلاف احتجاج کرنے والی تنظیمیں سفید فاموں کی سازش کے تحت آپس میں ہی لڑ پڑتی ہیں۔پولیس اس دوران بالکل مداخلت نہیں کرتی اور دور کھڑی تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔جب سیاہ فام آپس میں لڑ کر کمزور پڑ جاتے ہیں تب پولیس آگے بڑھتی ہے اور منقسم، کمزور سیاہ فاموں پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالتی ہے۔
نسلی امتیاز کو باقی رکھنے کا ایک اورحربہ اپنے محکوموں کو معاشی طور پر اتنا کمزور کر دینا ہے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات میں ہی الجھ کر رہ جائیں اور آقائوں کے خلاف سوچنے کا انہیںموقع ہی نہ ملے۔مثال کے طور پر Matshobaکے افسانے To kill a man’s pride میں سیاہ فاموں کو بندھوا مزدور کے طور پر دکھایا گیا ہے جب کہ Richard Rive کے افسانے Rain کے کرداروں کو بھوکا اور بدحال بنا کر پیش کیا گیاہے۔
ان حالات کا شکارکمزور انسان اپنا غصہ اپنے سفید فام آقائوں پر نکالنے کے بجائے جھلاہٹ میں آپس میں ہی لڑ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیںاور نتیجے میں مزید کمزور ہو جاتے ہیں۔کچھ ایسی ہی کہانی Ia Gumaکے افسانے Gladiator میں پیش کی گئی ہے جس میں دو سیاہ فام باکسنگ ایرینا میں ایک دوسرے پر مکے برسا رہے ہیں اور سفید فام ناظرین خوشی سے چیخ چیخ کر ان کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں اور انہیں ایک دوسرے پر حملے کی ترغیب دے رہے ہیں۔اسی طرح کی ایک اور مثال Ia Gumaکی ہی ایک اور کہانی Blanketsمیں ایک سیاہ فام دوسرے سیاہ فام کی پشت میں خنجر اتار کر اسے مارڈالتا ہے۔Alan Patonکے افسانے The wasted land میں ایک بیٹا اپنی ٹولی کے ساتھ اپنے باپ کو ہی لوٹ لیتا ہے۔ Casey Motsisi کا افسانہ On the beat اور Bereng Setuka کا افسانہ Dumani وغیرہ جیسی لاتعداد کہانیاں اس موضوع پر موجود ہیں۔
نسلی منافرت کا ایک دوسرا نتیجہ بھی اکثر سامنے آتا ہے ۔ سفید فاموں کے تشدد کے جواب میں سیاہ فام بھی اکثر تشدد پر اتر آتے ہیںاور سفید فاموں سے بدلہ لینے کوشش کرتے ہیں یعنی تشدد کا جواب تشدد سے دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
Daniel Kuneneکے افسانے The spring of life میں یہ دکھایا گیا ہے کہ جب سائوتھ افریقہ ایک سیاہ فام شخص کے تمام حقوق غصب کر لیے جاتے ہیں،اسے زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے اور اس کے وقار کو ہر روز مجروح کیا جاتا ہے تو وہ شخص کس طرح آہستہ آہستہ ایک مجاہدِ آزادی بن جاتا ہے۔ حالات اسے خود بخود اس راہ پر لے جاتے ہیں۔Marium Tlali کے افسانے Point of no return کا ہیرو بھی حالات کے بھنور میں پھنس کر مجاہدین آزادی کے کیمپ کا رخ اختیار کر لیتا ہے کیونکہ اس کے سامنے دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا، یہاں تک کہ اس کے چاہنے والوں کے آنسو بھی اسے نہیں روک پاتے۔
کئی کہانیوں میں نسلی امتیاز کو مٹانے کی ترکیب بھی سجھائی گئی ہے۔Ia Gumaنے اپنے افسانے A matter of taste میں سفید فاموں اور سیاہ فاموں کو قومی دولت اور اقتدار کو آپس میں انسانیت ، آپسی بھائی چارے اور پیار کی بنیادوں پر آپس میں تقسیم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔Black Stan Motjuwadi کے افسانے What is not White is Darkie میں سیاہ فاموں اور سفید فاموں کو آپسی اتحاد کا مشورہ دیا گیا ہے۔Ahmed Essopنے اپنے افسانے Betrayal میںنسلی امتیاز کے خلاف لڑنے والے سیاہ فاموں کی تمام تنظیموں کواپنی ذاتوں اور قبیلوں کا خیال دل سے نکال کر آپسی اتحاد پیدا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔James Matthews نے تو اپنے افسانے Azikwelwaمیں سفید فاموں کو بھی نسلی امتیاز کے خلاف سیاہ فاموں کے شانہ بہ شانہ لڑنے کا مشورہ دیا ہے۔Matshobaنے اپنے اپنے افسانے To kill a man’s pride میں یہ خیال پیش کیا ہے کہ سفید فام نسلی امتیاز کو ختم کر نے کے بعد ہی اپنی کھوئی ہوئی انسانیت کو دوبارہ حاصل کر پائیںگے۔
۲۔ مذہب :
مختلف مذہبی رجحانات اور عقائد افریقی افسانہ نگاروں کے پسندیدہ موضوع ہیں۔افسانہ نگار ان موضوعات کا استعمال یا تو ان مذہبی عقائد کو مزید تقویت دینے کے لیے کرتا ہے یا پھر ان کے خلاف سوال اٹھا کر ان کی تضحیک کی کوشش کرتا ہے۔دونوں ہی طرح کے افسانوں کی افریقی ادب میں بہتات ہے۔
I.N.C.Aniebo اور Bessie Headدو ایسے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے افسانوں میں مذہبی موضوعات کو اپنایا ہے۔Anieboکا افسانہDilemma افریقہ کے قدیم روایتی مذہب کی حمایت میں لکھا گیا ہے۔افسانے میں Ajalaدیوی کی ایک پجارن Mgbekaکا بیٹا Nwankwo گناہ کرتا ہے۔پجارن اسے اس گناہ کی پاداش میں Ajalaکی خدمت میں قربانی پیش کرنے کا حکم دیتی ہے۔لیکن Nwankwo اپنی طاقت کے زعم میں ایسا نہیں کرتا اور دیوی کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے۔ آخر کار Nwankwo سزا کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔یہ فیصلہ Mgbeka پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو زندہ رکھنا چاہتی ہے یا اسے مرنے دیتی تاکہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر نیا جنم لے سکے۔Mgbekaاس کی موت کا فیصلہ کرتی ہے ۔ایک دن اچانک Nwankwo مر جاتا ہے اور ایک ماہ بعد ایک بچے کی صورت میں دوبارہ جنم لیتا ہے۔
Bessie Headکا افسانہ Heaven is not closed بھی افریقہ کے روایتی مذہب کی حمایت میں لکھا گیا ہے۔اس کہانی میں ایک متعصب عیسائی پادری کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ایک نو مذہب عیسائی لڑکی کی شادی روایتی رسم و رواج کے مطابق ایک غیر عیسائی افریقی سے ہو جاتی ہے لیکن عیسائی پادری اس وقت تک اس شادی کو ماننے کے لیے تیار نہیں جب تک اس کا دولہا بھی عیسائی مذہب نہ اختیار کر لے۔دولہاروایتی مذہب کا کٹر پرستار ہے اور کسی بھی حال میں اپنا مذہب چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ایسے میں کیا ہوگا؟ کیا وہ لڑکی شوہر کے لیے اپنا مذہب چھوڑ دے گی یا مذہب کے لیے شوہر کو؟
کہانی میں دولہے کی زبان سے ادا ہونے والے چند جملے بہت معنی رکھتے ہیں : ’’خدا خیر اپنی جگہ ہے ۔۔۔۔ لیکن وہ لوگ جو اس کا پیغام اس سرزمین پر لائے ہیں وہ صحیح نہیں ہیں۔ان کا پیار در اصل سیاہ فاموں کو اپنا غلام بنانے کا ایک ہتھیار ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ اس سرزمین پر نئے عقائد، نئے ضابطے لے کر آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایسے ضابطے جو انسان کو پیار کے لیے ترساتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرانے مذہب میں تو کسی کو پیار کے لیے ترسنا نہیں پڑتا تھا۔اس میں توہر وقت سب کے لیے پیار کا سمندر موجزن تھا۔‘‘ یہ افسانہ در اصل مذہب کے ساتھ ساتھ افریقہ میں جاری روایت اور جدیدیت کے تصادم کی بھی زندہ مثال ہے۔
سفید فام عیسائی اکثر محض اپنی طاقت کے زعم میں غیر عیسائیوں کے ساتھ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن کی اجازت عیسائی مذہب نہیں دیتا ہے۔Alex Ia Gumaکا افسانہ The Lemon Orchardایک ایسا ہی افسانہ ہے جس میں عیسائی وزیراپنے حق کے لیے لڑنے والے ایک غیر عیسائی اسکول ماسٹر کو سزائے موت دے دیتا ہے۔
James Mathewsکے افسانے The Second Coming میںایک سیاہ فام چرواہا یہ دعویٰ کر بیٹھتا ہے کہ خدا اس سے مخاطب ہوا اور اسے سیاہ فاموںکا نجات دہندہ مقرر کیا تاکہ وہ انہیں نسلی منافرت سے بچا سکے۔لیکن اسے ایک سفید فام عیسائی بڑی بے رحمی سے قتل کر دیتا ہے۔
Lionel Abrahamsکے افسانےThe Messiah میںایک نومذہب عیسائی کو جو یہودی مذہب اپنانے کی خواہش رکھتا ہے ، بے عزت کر کے مجلس سے نکال دیا جاتا ہے۔
افریقی افسانہ نگاروں نے صرف عیسائی مذہب کو ہی اپنا موضوع نہیں بنایا بلکہ مسلم ملائوں کی ریاکاری، بد نیتی اور ڈھونگ کے خلاف بھی قلم اٹھا یا ہے۔Ama Ata Aidooکا افسانہA gift from somewhere اور Sembene Ousmaneکا افسانہ The False Prophet اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔
The False Prophet میں Ousmaneنے محمود فعل نامی ایک ایسے کردار کو پیش کیا ہے جوایک نہایت ہی کاہل شخص ہے اور محض آسانی سے پیسے بٹورنے کے لیے بڑے عالم کا بھیس بنا کر جاہلوں کی بستی میں امام بن جاتا ہے۔الٹی سیدھی حرکتوں سے جب کافی دولت کما لیتا ہے تو ایک رات اپنے وطن واپس جانے کے لیے وہاں سے فرار ہو جاتا ہے۔لیکن راستے میں ایک اچکّا اس کا سارا مال لے کر چمپت ہو جاتا ہے۔کہانی کا آخری جملہ : ’’یہ بات اب اس کی سمجھ میں آئی تھی کہ ایک چور کے لیے اللہ پر ایمان رکھنا لازمی نہیں ‘‘ بہت اہمیت رکھتا ہے۔جس شخص کا پیشہ دھوکے بازی اور چوری ہے اس کا خدا پر ایمان رکھنا اور نمازیں پڑھنا بے معنی ہے۔اس سے اسے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
افریقی افسانہ نگاروں نے خود اپنے روایتی مذہب اور اس کے رسوم کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ۔مثال کے طور پر Looking for a rain godمیں Bessie Head نے ایک ایسے خاندان کی کہانی پیش کی ہے جو خشک سالی کو دور کر نے کے لیے بارش کے دیوتا کی خدمت میں اپنے دو بچوں کی قربانی پیش کرتا ہے۔بارش تو خیر ہوتی نہیں ہے الٹے بچوں کے ماں باپ کو انسانی قربانی کے جرم میں سزائے موت ملتی ہے۔اس طرح اس کہانی میں روایتی دیوی دیوتائوں کے وجود کو تشکیک کے دائرے میں لا کھڑا کیا گیا ہے۔
دوسری طرف Aniebo اپنے افسانے Godevil میں روایتی مذہب اور عیسائیت دونوں کو شک کے دائرے میں لا کھڑا کرتا ہے اور لا مذہبیت کی وکالت کرتا ہے۔
اس کہانی کا کردار جب دیوتائوں کی پوجا کیاکرتا تھا تب اس نے اپنے بچوں کو کھو دیا ۔جب اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تو بری طرح بیمار پڑ گیا اور جب اس نے دونوں مذاہب کو خیرباد کہہ دیا تو اس کے حالات سدھرنے لگے۔اور اسے ذہنی سکون کا احساس ہوا۔
ویسے زیادہ تر افریقی افسانہ نگار لا مذہبیت کی وکالت سے گریز کرتے ہیں لیکن وہ مذہبی ریا کاری، خودغرضی، تعصب اور بد نیتی کے خلاف ضرور قلم اٹھاتے ہیں ، خواہ وہ قدیم افریقی مذہب ہو یا افریقہ میں داخل ہونے والے جدید مذاہب جیسے اسلام یا عیسائیت وغیرہ۔
۳۔ روایت اور ثقافت :
ہزاروں سالوں سے افریقی اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ جی رہے تھے۔ دنیا کی نظروں سے دور اس تاریک براعظم میںان کی روایات اوررسم و رواج میں مداخلت کر نے والا وہاںکوئی نہیں تھا۔لیکن گزشتہ چند صدیوں میں جب بیرونی دنیا کے لوگ اپنی تہذیبی ثقافت ساتھ لے کرافریقہ میںنہ صرف داخل ہوئے بلکہ انہیں افریقیوں پر تھوپنے کی پر زور کوششیں بھی کیں تو تہذیبوں کا ایک تصادم عمل میں آیا۔ کچھ لوگوں نے نئی تہذیب کی چمک دمک سے متاثر ہوکر اسے اپنا لیا تو کچھ لوگوں نے اس کی پر زور مخالفت کی۔
اکثر افریقی کہانیوں میں افریقی روایتی تمدن و ثقافت کو موضوع بنایا گیا ہے،کبھی اس کی حمایت میں تو کبھی مخالفت میں اورکبھی کبھی تو محض افریقی ثقافت کا ایک معلوماتی تعارف پیش کرنے کی غرض سے۔ایسے افسانے عموماًبھوت پریت، دیوی دیوتا، کالا جادو، آوا گون،قربانی اور مختلف رسوم پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔ان میں افریقی روایتی شادی کے رسوم، بچوں کی پیدائش یا کسی کے مر نے پر ادا کیے جانے والے رسوم اور روزمرہ کی زندگی اور سماج کی مختلف رسموں اور روایات کی عکاسی کی جاتی ہے۔چند اہم مثالیں درج ذیل ہیں۔
I.N.C.Anieboکی کہانیFour Dimensionsمیں Ajalaدیوی کا ایک پجاری ،دیوی کی قسم کھانے کے بعد، ایک غلط فیصلہ کرتا ہے تو فوراً ایک درخت اس پر گرتا ہے جس کے نیچے دب کر وہ مر جاتا ہے۔ کہانی میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اَجالہ دیوی کے قہر نے اسے مار ڈالاتھا۔Kafungulwa Mobitanaکے افسانےSong of the Rainmakerمیںایک شخص اپنے جادو ٹونے اور عملیات کی مدد سے بارش برسانے میں کامیاب ہو جا تا ہے۔اس کے ایک اور افسانے The day of the Ghostsمیں ایک نوجوان بھوتوں کے وجود سے متعلق ریسرچ کرتا ہے اور آخر کار اسے بھوتوں کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
Anieboکی ایک کہانی Of Wives, Talismans and the Dead میںاس بات کی وکالت کی گئی ہے کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ ایک بچے کی صورت میں جنم لے لیتا ہے۔William Saidiکے افسانوں Nightmare اور Educated people میں کالے جادو کو ایک اٹل حقیقت کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔
بعض افریقی افسانوں میںانسانی قربانی کی بھی حمایت کی گئی ہے بشرطیکہ وہ لوگوں کی بھلائی کے لیے اداکی جائے۔Grace Ogotکے افسانےThe rain cameمیں ایک بادشاہ اپنی قوم کو قحط سالی اور بھکمری سے بچانے کے لیے اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی دے دیتا ہے جس کے نتیجے میں زبر دست بارش ہوتی ہے۔یہاں بادشاہ کی وطن پرستی کی وجہ سے انسانی قربانی کو جائز ٹہرایا گیا ہے۔اسی طرح F. Odun Balogun کے افسانے The Apprenticeمیں ایک بادشاہ اپنی رعایا کو پلیگ کی بیماری سے بچانے کے لیے خود اپنی جان کی قربانی پیش کرتا ہے۔یہاں بھی عوام دوستی اور وطن پرستی کے جذبے کے تحت کی گئی انسانی قربانی کو ایک جائز عمل قرار دیا گیا ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ حقیقت بالکل الٹی ہے۔ آج افریقہ کے زیادہ تر حکمراں اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے عوام کے حقوق کو ہی قربان کر دیا کرتے ہیں۔
بعض افسانہ نگاروں نے ان روایات کی شدید مخالفت بھی کی ہے۔مثال کے طور پر Mufalo Liswanisoکے افسانے The Mystry of the Metalمیں ایک جعل ساز جادوگر کا پردہ فاش کیا گیا ہے کہ وہ کس طرح لوگوں کو بیوقوف بنایا کرتا تھا۔Saida Hagi-Dirie Herziکے افسانےGovernment by magic spellمیں ایک لڑکی حلیمہ کے بارے میں یہ مشہور ہو جاتا ہے کہ اس پر ایک جن سوار ہو گیا ہے۔کچھ لوگ اس لڑکی کی شہرت کا سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کی مدد سے اپنی حکومت کو مزید مضبوط کر لیتے ہیں۔
زیادہ تر افریقی روایتی شادیوں میں لڑکیوں کو، اور کبھی کبھی لڑکوں کو بھی، ان کی مرضی کے خلاف شادی کے بندھن میں بندھنا پڑتا ہے۔ Paul Zelezaکے افسانےNight of darknessمیں ایک روشن خیال بادشاہ اپنی محبوبہ سے شادی کرنا چاہتا ہے جب کہ امرائے سلطنت اس شادی کو پسند نہیں کرتے بلکہ وہ بعض سیاسی وجوہ سے اس کی شادی خاص روایتی انداز میں کسی اور سے کر وانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ رسم و رواج کی آڑ میں اپنی طاقت اور حکومت پر اپنی گرفت بر قرار رکھنا چاہتے ہیں۔اس کہانی میں کسی بادشاہ کے مرنے پر زندہ انسانوں کو اس کی لاش کے ساتھ ’’تکیوں‘‘ کے طور پر دفن کیے جانے کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔
Ahmed Essop کے افسانے Noorjehan میں ایک طالب علم اپنے غیر شادی شدہ ٹیچر سے پیار کر نے لگتی ہے ۔لیکن اسے کم عمری میں ہی ایک بوڑھے امیر آدمی کی بیوی بنا دیا جاتا ہے۔Bessie Head کے افسانے Snapshots of a wedding میں مردوں کی جارحیت اور عورتوں کی بے زبانی کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ افریقی اپنی روایات، اپنی تہذیب اور اپنے رسم و رواج سے بہت پیار کرتے ہیں اور جدید تہذیب کی آندھی میں بھی اسے اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس سے جڑی جاہلانہ اور غیر انسانی روایات کی شدید مخالفت بھی کرتے ہیں۔
۴۔ شہری زندگی کے مسائل :
ہزاروں برسوں سے افریقی ثقافت قبیلوں اور گائوںمیں سانسیں لیتی رہی ہے لیکن بیرونی دنیا سے در آمد شدہ جدید تہذیب اپنے ساتھ شہری کلچرلے کر آئی۔شہر میں بجلی، پانی، ٹیلی ویژن،ٹیلی فون، چمکتے ہوئے سائن بورڈ، چمچماتی کاریں ، ہوٹل، پارک،میوزیم، تھیٹر اور اسٹیڈیم ہیںجن کی کشش گائوں والوںکو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ان بے چارے بھولے بھالے لوگوں کو توبعد میں پتا چلتا ہے کہ شہر وں کی چمک دمک کے پیچھے مسائل کے بھیانک عفریت بھی چھپے ہوئے ہیں۔بہت کم خوش قسمت لوگ شہر میں ترقی کے منازل طے کر کے اونچائیوں کو چھوپاتے ہیںجب کہ زیادہ تر لوگوں کے ہاتھ دکھوں اور پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں آتا۔شہری زندگی کے موضوعات پر مبنی یہ افسانے انسانیت اور اخلاق کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ان افسانوں کے ذریعہ ایک طرف توشہر میں نئے آنے والوں کو شہری زندگی کے مسائل سے آگاہ کر نے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری طرف شہر میں رہنے والوں کو یہاں کی چمک دمک کے پیچھے چھپی پریشانیوں کا احساس دلایا جاتا ہے۔
کئی افسانہ نگاروں نے ان شہری مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایاہے۔ چند مثالیں پیش ہیں۔
Ngugiکے افسانےMinutes of gloryمیں ایک غریب لڑکی نوکری حاصل کرنے کی کوشش میں شہر کے ایک بدمعاش کے ہتھے چڑھ جاتی ہے جب کہ اسی کہانی کی اور لڑکی جو ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہے، محض شہر کی آزاد فضا میں سانس لینے کی لالچ میں گھر سے بھاگتی ہے اور آخر کار دونوں لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔کئی افریقی افسانوں میں یہ موضوع اپنایا گیا ہے۔نوجوان لڑکیا ںشہر کی چمک دمک سے متاثر ہوکر اس کی طرف کھنچتی ہیں اور آخر کار غریبی، جرم اور جسم فروشی کے دلدل میںپھنس جاتی ہیں۔
Cyprian Ekwensi کے افسانے Make-believe night کی ہیروئن Bisi اپنی سہیلی Yemiکے ساتھ شہر کی چمک دمک میں قدم رکھتی ہے۔اس کی ملاقات ایک لڑکے Koni Johnsonسے ہوتی ہے جو آخر کار ایک بڑا مجرم نکلتا ہے۔ Bisiاس کے چکر میں مجرم بن جاتی ہے اور اس کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔
شہری زندگی کی چمک دمک میں گرفتار ہو کر لوگ اپنے آپ کو ماڈرن، فیشن ایبل اور دوسروں سے بہتر دکھانے کی خاطر اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اور نتیجے میں قرض کے بوجھ تلے بری طرح دب جاتے ہیں۔Billy Nkunikaکے افسانے Shamo’s Downfall میں شامو اپنی شہری زندگی کی مصنوعی چمک دمک سے اپنی محبوبہ کو متاثر کر نے کے لیے کمپنی کی رقم چوری کرتا ہے جس کا انجام جیل کی سلاخوں کی شکل میں اس کے سامنے آتا ہے۔
جو لوگ گائوں سے کچھ بننے کی للک میں شہر آتے ہیں وہ اکثر شہر والوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کر نے کی غرض سے اپنے آپ کو بالکل بدل لیتے ہیں یہاں تک کہ اپنا نام بھی۔ شہری زندگی کو پوری طرح اپنانے کی ہوس میں یہ لوگ گائوں میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے بھی ہمیشہ کے لیے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔کچھ ایسا ہی المیہPhilip. J. Dakaکے افسانے Matyo My Son میں پیش کیا گیا ہے۔ جس میں ایک ماں اپنے بیٹے Matyo Dinkwiکو ڈھونڈتے ہوئے شہر آتی ہے لیکن لاکھ بھٹکنے کے باوجود وہ اپنے بیٹے کو نہیں ڈھونڈ پاتی۔ وہ بھلا ملتا بھی کیسے اس نے تو شہری زندگی سے خود کو ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنا نام ہی بدل ڈالا تھا ۔ اب وہ ایک باعزت شہری Matthew Deanqui, Esq. بن چکاتھا۔اب اس کی ماںبھلا اسے کیسے ڈھونڈ پاتی؟ وہ توآج بھی اپنے دیہاتی بیٹے Matyo Dinkwi کو ڈھونڈ رہی تھی۔
بہت سارے افریقی افسانوں میں شہر کے مزدوروںکے حالات کو مو ضوع بنایا گیا ہے۔Certain Winds from the South میں دکھایا گیا ہے کہ شمالی گھانا کے دیہاتوں کے لاتعداد کسان پیسے کمانے کے لیے شہر آتے ہیں لیکن حالات ان کے قدموں کو ایسے جکڑ لیتے ہیں کہ انہیں دوبارہ اپنے گائوں واپس جانا نصیب نہیں ہوتا۔Ekwensiکے افسانے Lokotownمیں دکھایا گیا ہے کہ مزدور شہر کی زندگی میں قدم رکھتے ہی شراب اور سستی عورتوں کے جال میں اس طرح پھنستے ہیں کہ تباہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔I.N.C.Aniebo کے افسانےThe Mortar and the Pestle میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح شہری مزدوروں سے کم اجرت پر زیادہ کام لیا جاتا ہے اور ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔Aniebo کے ایک اور افسانے Rats and Rabits کاموضوع بھی یہی ہے لیکن ساتھ ہی اس افسانے میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ مزدوراپنے استحصال سے بے خبر ہیں ۔اس لیے مزدوروں کے حق میں اٹھاگئی آوازیں اور ہڑتالیں ناکام ہو جاتی ہیں۔
۵۔ سیاست :
افریقہ کے بیشتر ممالک کی تواریخ کے صفحات پر غلامی کے سیاہ دھبے پڑے ہوئے ہیں۔غلامی کے دور میںآقائوں نے اپنے غلاموں کا بھر پور استحصال کیا۔غلامی کے دور کے خاتمے کے بعد جب ان ملکوں کو آزادی نصیب ہوئی تو اقتدار زیادہ تر غلط ہاتھوں میں ہی گیااورعوام کا استحصال ویسے ہی جاری رہا۔ ظاہر ہے ان حالات میں کہانیاں تو جنم لیں گی ہی۔بے شمار افریقی افسانوں میںان سیاسی حالات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ان افسانوں کے مطالعہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ دور غلامی میں وہاں کے حالات کیسے تھے؟ ان دنوں عام آدمی کی زندگی کیسی تھی؟ آزادی کی جد و جہد کس طرح چلی؟ آزادی کیسے ملی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آزادی کے بعدجب اقتدار خود سیاہ فام ہاتھوں میں آگیاتو ملک کے حالات میں کیا تبدیلیاں آئیں؟ یہ تبدیلیاں اچھی تھیں یا بری؟ وغیرہ وغیرہ۔کئی افسانہ نگاروں نے انہیں اپنے افسانوں میں استعمال کیا ہے۔چند مثالیں پیش ہیں:
Ngugi Wa Thiong’ O نے اپنے افسانوں میں یہ دکھایا ہے کہ باہر سے آنے والے لوگ کس طرح حکومت اور قومی دولت پر قابض ہو جاتے ہیں۔جن کی زمینیں تھیں انہی کو بے دخل کر دیا جاتا ہے ۔مجبور افریقیوں کے دل میں غصے کی ایک جوالا مکھی پنپتی رہتی ہے اور اس کے افسانوں میں سیاہ فام افریقی عوام کا غصہ صاف جھلکتا ہے۔ دوسری طرف اس کے افسانوں میں، طنزیہ انداز میں، سفید فام غاصبوں کی ناراضگی بھی دکھائی دیتی ہے جودراصل سیاہ فاموں کو ’’مہذب‘‘ بنانے کی غرض سے ان کے ملک میں آئے ہیں۔ان کی سمجھ میںنہیں آتا ہے کہ آخر سیاہ فام آزادی کی لڑائی کیوں لڑ رہے ہیں ۔وہ تو ان کا بھلا کر رہے ہیں۔ایک افسانےGoodbye Africaمیں سفید فام کردار یہ کہتے ہوئے نظر آتا ہے ــ’’ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم نے انہیں مہذب بنایا۔ ہم نے غلامی کا کاروبار اور قبائلی جنگوں کا خاتمہ کیا۔کیا ہماری آمد سے قبل وہ لوگ بدترین زندگی نہیں گزار رہے تھے؟ ‘‘ ۔
Ellis Komeyنے اپنے افسانےI can face you میں ایسی آزادی کا تصور پیش کیا ہے جس میں افریقی بالکل ہی خود مختار ہوں اور یوروپ، امریکہ یا روس ان کے معاملات میں کوئی دخل نہ دیں۔
آزادی ملنے کے بعد لکھے جانے والے زیادہ تر افسانوں میں آزادی کو نہایت ہی مایوس کن دکھایا گیا ہے کیونکہ آزادی کے بعد جب اقتدار سفید فام ہاتھوں سے سیاہ فام ہاتھوں میں منتقل ہوا تو بھی حالات وہی رہے۔ سیاہ فام حکمراں طبقہ بھی اتنا ہی برا نکلا ۔اس نے بھی استحصال کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔مثال کے طور پر Leonard Kiberiaکے افسانےThe Spider’s Web میں یہ تصویر پیش کی گئی ہے کہ افریقیوں کے آقائوں کی جلد کا رنگ تو بدل گیا۔سفید فاموں کی جگہ سیاہ فام آقا آگئے لیکن حالات نہیں بدلے۔ Taban Io Liangکے افسانوںFixions, Asu the Great, اور The Uniformed Man میںبھی ان نئے آقائوں کو گزشتہ آقائوں سے بھی بد تر دکھایا گیا ہے۔Ngugiکے افسانے A mercedes Funeral میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یہ نئے آقا شہنشاہوں جیسی زندگی گزارتے ہیں جب کہ عوام زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ Ama Ata Aidooکے افسانےFor whom things did not change میںبھی یہ بتا یا گیا ہے کہ یہ نئے آقا تو پرانے آقائوں سے بھی زیادہ ’’غیر ملکی‘‘ ہیں ۔ان میں حکمرانی کا نشہ سفید فاموں سے زیادہ ہے۔عوام آزادی سے قبل جیسے تھے آج بھی ویسے ہی ہیں۔اس کہانی میں ایک گورنمنٹ ریسٹ ہائوس کا اسٹیوارڈ ایک ایسے سرکاری مہمان کی خدمت پر مامور ہے جو افریقی تو ہے لیکن اس کے عادات و اطوار کسی طرح سے افریقی نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ سفید فاموں جیسے ہیں۔اسٹیوارڈ اس سیاہ فام ’’غیر ملکی‘‘ کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔Ngugiکے ایک اور افسانے A Meeting in the Darkمیں حکمراں طبقے کا ایک عیسائی لڑکا ایک عام سی لڑکی سے محبت کر نے لگتا ہے لیکن جب اسے اپنانے کا موقع آتا ہے تو اسے ایک ان پڑھ، غیر عیسائی، غریب کینیائی لڑکی سے وابستہ ہونے میں شرم محسوس ہوتی ہے اورآخر کار اس پریشانی کا حل اسے یہی سوجھتا ہے کہ وہ اس لڑکی کوقتل کر دے۔
Chinua Achebeکے افسانوں میں بھی نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے ذریعہ عوام کے استحصال کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔ایسا ہی ایک افسانہ Vengeful Creditorہے ۔ ایک افسانے The Voterمیںملکی انتخاب کے دوران ہونے والی دھاندلیوں اوربے اعتدالیوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔Girls at warمیں یہ دکھایا گیا ہے کہ حکمراں اپنے مفاد کے لیے نہ صرف قوم کو جنگ کی آگ میں جھونک دیتے ہیں بلکہ اس جنگ سے مالی منفعت بھی حاصل کر نے سے نہیں چوکتے۔Civil Peaceمیں یہ دکھایا گیا کہ جنگ سے نائجریا کا کچھ بھلا نہیں ہوا بلکہ جنگ کے خاتمے کے بعد جب امن کا دور آیا تو وہ اس جنگ سے بھی بدتر ثابت ہوا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ افریقی افسانوں میں غلامی ،آزادی کی تحریک اور آزادی کے بعد کے سیاسی حالات کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے اور ان کے مطالعہ سے قاری کو افریقہ کے سیاسی حالات سے بھرپور واقفیت حاصل ہو سکتی ہے۔
۶۔ فن اور فنکار :
افریقی افسانوں میںسیاہ فام فنکاروں کو حساس اور محروم انسانوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ایسے انسان جن کی قدر نہیں کی جاتی اور جو اپنے وجود کے ساتھ ساتھ اپنے فن کی بقا کی جد وجہد میں مصروف ہیں۔یہ بے حد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اکثر اپنی غیر مطمئن زندگی سے تنگ آکر خودکشی تک کر لیتے ہیں۔
Mtutuzeli Matshobaکے افسانے To Kill a Man’s Pride میںدکھایا گیا ہے کہ سیاہ فام محنت کش بڑی مشکل کی زندگی گزارتے ہیں۔ان کے ساتھ نسلی امتیازبر تاجاتا ہے، بے حد کم اجرت پر ان سے خطرناک اور مشکل ترین کام لیے جاتے ہیں۔رات کو جب وہ اپنے ہوسٹل میں لوٹتے ہیں تو وہاں کے حالات بھی کچھ کم تکلیف دہ نہیں ہوتے۔وہاں وہ اس بری حالت میں رہتے ہیں کہ انھوں نے خود ہی اپنی قیام گاہوں کو Auschwitzکا نام دے رکھا ہے۔(دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں نے کچھ خاص قسم کے عقوبت خانے بنوائے تھے ،جنہیں Auschwitz کا نام دیا تھا۔ان میں لاکھوں لوگ، جہنم جیسے حالات میں،بندھوا مزدوروں کے طور پر کام کرتے تھے)۔سیاہ فام محنت کش پورے ہفتے کی جی توڑ محنت کے بعد چھٹی کے دن اکٹھے ہوتے ہیں ، ایک ساتھ ناچتے ہیں، گاتے ہیں اور موسیقی کا لطف اٹھاتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کی کڑواہٹوں کو کم کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔
Kaizer Ngwenyaکے افسانے Dreams Wither Slowly فن کی ناقدری کی بڑی اچھی عکاسی کی گئی ہے۔اس افسانے کا ہیرو Bennyجو ایک موسیقار ہے،اپنے فن کو دنیا تک پہونچانے کے لیے بڑی سخت محنت کرتا ہے اور کڑی آزمائشوں سے گزرتا ہے۔ لیکن آخر کار اسے پتا چلتا ہے کہ اس کے اعلیٰ فن کی یہاں کوئی قدر نہیں ہے اور سوائے بھوکوں مرنے کے اس کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں۔ہاں اگر وہ بدقماش امرأ کے لیے سوقیانہ اور سستا فن پیش کرے تو اس کے دن بدل جائیں گے ،اس کو عزت، دولت، شہرت سب مل جائے گی۔لیکن وہ ایسا کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتا۔ اس کی بیوی، بچے، دوست سب اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔وہ زندگی کی راہ میں تنہا رہ جاتا ہے ۔یہاں تک کہ اسے نوکری کو بھی خیرباد کہنا پڑتا ہے اور آخر کار ایک دن وہ خودکشی کر لیتا ہے۔
ایسے ہی بہت سارے افریقی افسانے مل جائیں گے جن میں فن اور فنکار کو موضوع بنایا گیا ہے۔ جن میں یہ دکھایا گیا کہ فن کی یہاں کوئی قدر نہیں۔اس دنیا میں وہی فنکار کامیاب ہو سکتا ہے جو کسی طوائف کی طرح اپنا فن بیچے۔سیاہ فام فنکاروں کے ساتھ کیا جانے والا نسلی امتیاز بھی ان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ان کی جلد کا رنگ اکثر ان کے فن پر حاوی ہو جایا کرتا ہے اور لوگ اکثر فن کی قدر محض اس لیے نہیں کرتے کہ وہ کسی سیاہ فام ہاتھوں کی تخلیق ہوتا ہے۔
۷۔ قسمت کی ستم ظریفی :
اکثر افریقی افسانہ نگاروں نے روزمرہ کی قسمت کی ستم ظریفی کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ انسان نے زندگی سے کچھ اور امیدیں باندھی ہوتی ہیں لیکن زندگی اسے کچھ اور ہی دیتی ہے جو اس کی امیدوں کے بالکل خلاف ہوتا ہے۔انسان زندگی کی اس ستم ظریفی پر بھونچکا رہ جاتا ہے۔
Achebeکے افسانے Civil Peaceمیں ایک خاندان امن کے زمانے میں خود کو زیادہ غیر محفوظ سمجھتا ہے ۔اس خاندان کا سربراہ جوناتھن جنگ شعلوں کے درمیان سے اپنا بہت کچھ صحیح سلامت بچالا نے میں کامیاب ہوتا ہے ۔لیکن امن کے زمانے میں وہ لٹ جاتا ہے۔اسی طرح Anieboکے ایک افسانےA Hero’s Welcome میںایک سپاہی محاذ جنگ سے زندہ بچ کر اپنے گھر واپس آتا ہے جہاں وہ اپنے ہی باپ کے ساتھ ہونے والے ایک جھگڑے میں مارا جاتا ہے۔
David Owoyeleکے افسانےThe Will of Allah میں دو ایسے چوروں کی کہانی ہے جو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے لیکن پھر بھی ایک ساتھ مل کر چوریاں کرتے ہیں۔ان میں سے ایک چور،چوری کا مال اکیلے ہڑپنا چاہتا ہے لیکن وہ ایک سانپ کا شکار ہو جاتا ہے۔مرتے مرتے بھی وہ اپنی خباثت سے باز نہیں آتا اور اپنے ساتھی کو بھی اس سانپ سے ڈسوا دیتا ہے۔اس کا یہ ساتھی جو ایک کامیاب واردات کی خوشی میں چُور تھا اس اچانک حادثے پر حیران رہ جاتا ہے۔Grace Ogotکے افسانےGreen Leavesمیںبھی ایک چور ایک مردہ چور کا مال چراتے ہوئے اسی طر ح اچانک مارا جا تا ہے۔
Cyprian Ekwinski کے افسانے The Indispensable کا ایک کردار، ایک نہایت ہی باصلاحیت ڈاکٹر، اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ اپنی میڈیکل ٹیم کے لیے بہت ہی اہم ہے اور اس کے بغیر ان کاکام نہیں چل سکے گا۔نتیجے میں وہ ضرورت سے زیادہ کام کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتا ہے اور آخر کار بری طرح نڈھال ہو کر گر پڑتا ہے اور مر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی ٹیم کے لیے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے اور جلد ہی اس کا نعم البدل تلاش کر لیا جاتا ہے۔
Zlezaکے افسانےAt the crossroadکا کردار، ایک پولیس والا اچانک اس انکشاف پر حیران رہ جاتا ہے کہ رات کی تاریکی میں وہ جس قاتل کا پیچھا کر رہا تھا وہ دراصل اس کا اپنا ہی بیٹا ہے۔
Eldred Durosimiکے افسانےA Man Can Tryمیں ایک شخص اپنی بہت پیار کر نے والی سیاہ فام بیوی کو ٹھکرا کر ایک سفید فام عورت سے شادی کر لیتا ہے لیکن شادی کے بعداسے پتا چلتا ہے کہ اس کی سفید فام بیوی اس سے ذرا بھی پیار نہیں کرتی۔اب اسے احساس ہو تا ہے کہ اس نے ہیرے کوٹھکرا کر کانچ کا ٹکرا قبول کر لیا ہے۔
Mafika Paskalکے افسانے Side Stepمیں ایک کم عمر اسکولی طالبہ ، کہانی کے ہیرو سے محبت کر نے لگتی ہے لیکن وہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ برسوں بعد جب وہی لڑکی ایک خوبصورت عورت کی شکل میں اس کے سامنے آتی ہے تو وہ اسے چاہنے لگتا ہے لیکن اب وہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتی۔
Abioseh Nicolکے افسانے The Truly Married Womanکی ہیروئن جو ہیرو کے ساتھ برسوں سے رہ رہی ہے اور اس کے بچوں کی ماں بھی ہے، ہیرو کی ہر خدمت کرتی ہے۔پھر ایک دن وہ دونوں چرچ میں جاکر شادی کر لیتے ہیں اور باقاعدہ شوہر بیوی بن جاتے ہیں۔دوسری صبح وہ ہیرو کو بیڈ ٹی نہیں دیتی ہے بلکہ وہ ہیرو سے کہتی ہے کہ اب چونکہ وہ اس کی باقاعدہ بیوی ہے اس لیے اب روزانہ وہ اس کے لیے بیڈ ٹی لایا کرے اور اس کی دوسری ضروریات کا خیال رکھے۔
افریقی افسانوں کا اسلوب
افسانہ نگار ی ایک مشکل فن ہے ۔افسانہ سیدھی سادی ’کہانی‘ سے کافی الگ ایک صنف ہے۔جس طرح ایک تراشیدہ ہیرے میں بہت سارے پہلو ہوا کرتے ہیں اور ہر پہلو اپنے طور پر روشنی کا انعکاس کرتا ہے۔ہیرے کی چمک دراصل ان ساری منعکس کرنوں کے مجموعے کا نام ہے۔ٹھیک ویسے ہی افسانے کے بھی مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر پہلو اپنے طور پر روشن ہوتا ہے اورافسانے کی کامیابی یا ناکامی کا دارو مدار ان کے مجموعی تاثر پرہی قائم ہوتا ہے۔
ذیل میں ہم افریقی افسانوں کے ان مختلف پہلوئوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
۱۔ افریقی افسانوں کی زبان :
لفظوں کے استعمال کے معاملے میں شاعری کے بعد افسانہ نگاری کا ہی نمبر آتا ہے۔افسانے کا ہر لفظ افسانے میں ویسے ہی جڑا ہوتا ہے جیسے کسی جڑائو ہار میں نگینے۔افسانہ نگار عام الفاظ کو خاص انداز میں استعمال کرتا ہے اور کبھی کبھی ایک لفظ کا غلط استعمال پورے افسانے کی خوبصورتی کو گرہن لگا دیتا ہے۔
جب ہم افریقی افسانوں کی زبان پرنظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر افریقی افسانے زبان کے اس سخت معیار پر پورے اتر تے ہیں۔کبھی کبھی Themeکمزور ہوتے ہوئے بھی افسانہ محض زبان کی بنا پرمعیاری بن جاتا ہے۔مثال کے طور پر Cyprian Ekwensi کے افسانوں کو نقادوں (Anna Rutherford وغیرہ)نے موضوع کے لحاظ سے ہلکا قرار دیا ہے لیکن الفاظ کے خوبصورت استعمال نے ان افسانوں کو زندگی بخش دی ہے۔اسی طرح Bereng Setuke کے افسانے Dumani کوبھی محض اس کی زبان کی وجہ سے نقادوں نے سرا ہا ہے۔
عام طور سے افریقی افسانوں کی زبان نہایت سلیس ہوتی ہے اور ان میں الفاظ کا نپا تلا استعمال ملتا ہے۔ایسے افسانوں کی تعداد بہت کم ہے جن کی زبان کمزور ہو۔
۲۔ افریقی افسانوں میں افریقیت :
افریقی افسانہ نگار اپنے افسانوں میں حقیقی افریقہ پیش کرنا چاہتے ہیں جب کہ جس زبان میں وہ لکھ رہے ہوتے ہیں (یہاں میری مراد خاص طور سے انگریزی میں لکھے افریقی افسانوں سے ہے) وہ ایک غیر ملکی زبان ہے،جس کا تعلق یوروپی یا امریکی کلچر سے ہے۔اپنے افسانوں میں True Africa پیش کرنے کے لیے وہ انگریزی زبان کو اپنے خاص انداز میں استعمال کرتے ہیںجو برٹش یا امریکی انگریزی افسانوں کی زبان سے قطعی مختلف ہوتی ہے۔دوسرے الفاظ میں انگریزی افریقی افسانوں کی زبان وہ ہوتی ہے جو انگریزی بولنے والے افریقی ممالک میں عام طور سے بولی جاتی ہے۔اس طرح ان افسانوں کی زبان انگریزی ہوتے ہوئے بھی ان میں افریقیت برقرار رہتی ہے۔
یہاں مثال کے طور پر Ama Ata Aidoo کے افسانوی مجموعے No Sweetness Here کو رکھا جا سکتا ہے۔ان افسانوں میں گھانا کے افریقیوں کی زبان، ان کا لہجہ، ان کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے الفاظ، ان کا انداز گفتگو، ان کے طور طریقے، ان کی گفتگو کے موضوعات وغیرہ کا بخوبی استعمال کیا گیا ہے۔ایک افسانے Something To Talk About On The Way To The Funeral میں Aidoo نے عام گپ شپ کو داستان سرائی کی تکنیک کے طور پر استعمال کیا ہے۔
افریقی افسانوں میں ترجمہ شدہ یا غیر ترجمہ شدہ مقامی الفاظ ، شہروں کی عام بول چال اور محاورات و ضرب الامثال بکثرت پائے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر Mafika Gwalaنے اپنے افسانے Reflection In A Cell میںانگریزی میں ترجمہ شدہ افریقی الفاظ استعمال کیے ہیں۔Mbulelo V. Mzamaneکے افسانوں A Present For My Wife اور The Sweeto Bride میں ، Mongane W Serote کے افسانےLet’s Wonder Togather میں اور Monteane Melamuکے افسانے Bad Times, Sad Times میں بھی افریقی الفاظ اور محاورات کا بخوبی ستعمال کیا گیا ہے۔Musi، Heyns اور Black Stan بھی اپنے افسانوں میں اکثر افریقی محاورات کا استعمال کرتے ہیں۔ مشرقی افریقہ کے افسانہ نگار وں میں یہ روایت کم ہے۔Ngugi اور Grace Ogot اپنے افسانوں میں ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن بہت کم۔
I.N.C. Aniebo ، Ekwensi اور Chinua Achibe اور کئی دیگر افسانہ نگار اپنے افسانوں میں بگڑی ہوئی انگریزی کے الفاظ اور ضرب الامثال کا استعمال کرتے ہیںیعنی وہ انگریزی جو افریقی عوام میں رائج ہے۔مثال کے طور پرAchibeکے افسانےCivil Peace میں Ex-gratia کوافریقی عوامی لہجے میں Egg-rasher لکھا گیا ہے ۔Alex Ia Guma کے افسانے A walk in the night میںBoss کی بگڑی ہوئی افریقی شکل Baas کا استعمال ہوا ہے۔Steve Chemombo کے افسانے The Rubbish Dump میں Morning کے لیے بول چال میں استعمال ہونے والا عام لفظ Moni کا استعمال ہوا ہے۔ Civil Peace میں چوروں کی آمد پر گھر والوں کے چیخنے کا انداز خالص افریقی ہے۔”Police-o! Teifmen-o! Neighbours-o! We done loss-o! Police-o!” دوسری طرف چور اُن سے جس لہجے میں مخاطب ہوتے ہیں وہ بھی بگڑی ہوئی افریقی انگلش ہے۔
ــ” My frien …. we don try our best for call dem but I tink say dem all done sleep-o …. so wetin we go do now?”
بعض افریقی افسانوں میں افریقی الفاظ کا استعمال جوں کا توں کر دیا جاتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ ان افسانوں کو غیر افریقی بھی پڑھیں گے جیسے Abdulrazzak Gurnah کے افسانے Cagesمیں Zuwarde, Msichana, Mzungu جیسے افریقی الفاظ کا استعمال ہوا ہے۔Okey Chigboکے افسانےThe Housegirlمیں’خدا ‘کے لیے Chineke! لفظ کاکئی بار استعمال ہوا ہے۔اسی افسانے میں جسم فروش لڑکی کے لیے agaracha کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ویسے ہی Njabulo S. Ndebeleکے افسانے The Prophetes میں kena , voetsek , doek, Lumela ‘me, Eea ngoanaka, Heit جیسے افریقی الفاظ، Sembene Ousmane کے افسانے The False Prophet میں Bilahi-vahali کے الفاظ، Lindiwe Mabuzaکے افسانےWake میں Thina Silangazela Ikhaya Laphezulu Seis, Kutheni na, Msila, Mos, Abantwana, Baba, Qha, Mama We! Awu Baba, Mntungwa mbu, اور Lomtwana wethu intombi جیسے افریقی الفاظ اور فقرے موجود ہیں۔Honwana کے افسانے Papa, Snake & I میں افریقی زبان Ronga کا ایک جملہ Tatan, ha ku dumba hesi ya lilo misaba … موجود ہے۔ ایسی ہی بے شمار مثالیں موجودہیں۔
افریقی افسانوں میں افریقی لباسوں کے نام جیسے Capulana, Djellaba, Jalabiya, Galabia, Danshiki, Doek, Boubou وغیرہ، افریقی کھانوں کے نام جیسے Ugba, Akara, Akamu, Mealie-meal وغیرہ، افریقی کرنسی کے نام جیسے Kwanza, Pula, Nakfa, Dalasi, Loti, Naira, Dobra, Lilangeni وغیرہ ، غیرافریقیوں خصوصاً یورپی سفید فاموں کے لیے استعمال ہونے والے نام جیسے Mzungu, Boer وغیرہ ، رنگوں کے افریقی نام جیسے Zik ، Balewa ، Awolowo ، Lugard وغیرہ ، پیمائش کی اکائیاں Morgen اور Feddan وغیرہ کا استعمال بکثرت ملتا ہے۔
افریقی افسانوں میں اکثر افریقی نظموں اور گیتوں کو بھی ترجمہ کیے بغیر جوں کا توں استعمال کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر Steve Chimomboکے افسانےThe Rubbish Dumpمیں ایک لڑکا کھیلتے ہوئے ایک افریقی گیت گنگنا رہا ہے:Azungu nzeru / kupanga ndege / si kanthu kena / koma ndi khama اس گیت کو افریقی زبان میں ہی جوں کا توں لکھ دیا گیا ہے۔
۲۔ افریقی افسانوں میں ڈرامائی عناصر :
افسانہ ڈرامے سے تھوڑی بہت مشابہت رکھتا ہے کیونکہ اس میں بھی مکالموں اور واقعاتی تسلسل پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔افریقی افسانوں میں بھی یہ التزام بدرجہ اتم موجود ہے۔ زیادہ تر افریقی افسانوں میںڈرامائی عنصر موجود ہوتا ہے۔مثال کے طور پر Patonکے افسانےDebbie Go Home اور The Wasted Landکا انداز بالکل ریڈیائی ڈراموں جیسا ہے۔Chinua Achebe کے افسانے Civil Peace میںبھی ڈرامائیت اپنے عروج پر ہے۔William Saidi ، Ezekoel Maphahlele، Ahmed Essop اور Abdulrazzak Gurnahوغیرہ کے ڈرامائی تسلسل اور مکالموںکا بہت اچھا توازن دکھائی دیتا ہے۔Ama Ata Aidooاپنے افسانوں میںمکالموں کے ذریعہ مختلف قسم کے تجربے کرتی ہے۔اپنے افسانوی مجموعےNo Sweetness Hereکے کئی افسانوں میں اس نے صرف متکلم کے مکالمے اس طرح لکھے ہیںکہ مخاطب کا جواب قاری کے ذہن میں اپنے آپ گونج اٹھتا ہے۔بیشکAidooاپنے ان تجربات میں لاجواب طریقے سے کامیاب رہی ہے۔
۳۔ افریقی افسانوں میںشعری عناصر :
افریقی افسانوں کی زبان میں عام طور سے بڑی روانی اور موزونیت پائی جاتی ہے یہاں تک کہ ان میں کبھی کبھی لے کا التزام بھی موجود ہوتا ہے جس سے افسانہ شاعری کی سطح تک پہونچ کر نثری نظم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ Achebeکا افسانہThe Madman ، Mongo Tshabanguکا افسانہThoughts in a train ، Kibera کا افسانہ The Spider’s Web ، Ngugi کا افسانہ Minutes of Glory ، Naduine Gordimer کا افسانہ The Bridegroom ، Mazamaneکا افسانہ A Present For My Wife ، Baleni Khumalo کا افسانہ I did not know ، Bessie Head کا افسانہ Snapshots Of A Wedding ، Owoyele کا افسانہ The Will of Allah وغیرہ ایسے افسانوں کی بہترین مثالیں ہیںجن کا انداز بیاں شاعرانہ ہے۔۔ان کی زبان کی جامعیت، صوتی آہنگ، تکرار،تشبیہات و استعارات، مبالغہ اور مجاز مرسل کی موجودگی انہیں شاعر ی سے قریب تر کر دیتی ہیں۔
Grace Ogot کو الفاظ سے منظر کشی کرنے میں مہارت حاصل ہے وہ بالکل ایک تصویر سی آنکھوں کے سامنے پینٹ کر دیتی ہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
’’ راستے کے کنارے اُگی لمبی لمبی گھاس شبنم کے قطروںکے بوجھ تلے جھکی جارہی تھی ،ایسا لگ رہاتھا جیسے طلوع ہوتی صبح نوکے لیے دعامیں مشغول ہو۔‘‘
’’ ڈوبتے سورج کی سرخ کرنوں نے اوگانڈا کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا اور وہ اس بیابان میں کسی جلتی ہوئی شمع کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔‘‘
ویسے ہی Alex Ia Guma کے یہ چند جملے ملاحظہ فرمائیں:
’’سورج تقریباً ڈوب چکا تھااور بادل آسمان کے کناروں پر خون میں بھیگے کمبلوں کی طرح لٹکے ہوئے تھے‘‘
’’سورج مغرب کی طرف اچھا خاصا جھک چکا تھا اتنا کہ افق پر جھکے ہوئے بادلوں کا رنگ زرد ہو گیا تھا بالکل انڈے کی زردی جیسا‘‘
افریقی افسانوں میں صرف شاعرانہ زبان اور شعری آہنگ ہی استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ باقاعدہ شاعری کا ابھی استعمال ملتا ہے۔نظموں اور گیتوں کا استعمال افریقی افسانوں میںعام ہے۔مثال کے طور پر Ngugi wa Thiong’ O کے افسانے Minutes of Gloryکی یہ چھوٹی سی نظم دیکھئے :
When I left Nairobi for Ilmorog / Never did I know / I would bear this wonder-child mine / Nyang’ endo
Tijan M. Sallahکے افسانے Weaverdom میںکئی گیتوں کا استعمال کیا گیا ہے جیسے Song of the Grass, Song of the Forced Grass, Song of the Rain, Song of the Forced ‘Lesser’ Souls, Sermon of the Weaver
Najabulo S. Ndebeleکے افسانے The Prophetess میںProphetessایک گیت گاتی ہے:
If the fish in the river / boiled by the midday sun / can wait for the comming evening, / we too can wait / in this wind-frosted land, / the spring will come, / the spring will come. / If the reeds in winter / can dry up and seem dead / and then rise / in the spring, / we too will survive the fire that is / coming / the fire is coming, / we too will survive the fire that is / coming
Lindiwe Mabuzaکے افسانے Wakeمیں استعمال کی گئی اس طویل نظم کی چند لائنیں ملاحظہ فرمائیں :
It is ours / this land / the air / the water and the sun / it is ours / when someone says nay nay nay / say, I beg your pardon, nay / also ours the mountains / the fruits in velleys / from end to endless end / ours all …….
ویسے ہی Kyalo Mativoکے افسانےOn the market day کے اس طویل گیت کی یہ لائنیں دیکھیں:
When the moon shines / it is because Mbula is out there / Visiting the people;
When the wind blows / It is because Mbula / Is caring for the sick;
When the sun rises / It is because Mbula / Rose up early to attend to the young;
So what do you say? ………..
اسی افسانے میں ایک اور مقام پر یہ لائنیں درج ہیں ۔ذرا ان کی شاعرانہ بلاغت ملاحظہ فرمائیں:
We have heard his foot steps / Shuffling among the weeds / And on the countryside on rainy days / We have seen his deeds; / And we have felt his tears / Trickling on our cheeks: / And he will feed the hungry / For he is the son of the country.
۴۔ افریقی افسانوں میں قصہ گوئی کے عناصر:
زمانۂ قدیم سے افریقہ میں فنِ قصہ گوئی کافی مقبول رہا ہے۔ وہ زمانہ جب لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تب پیشہ ور قصہ گو ہوا کرتے تھے جو گائوں گائوں گھوم کر لوگوں کو قصے اور داستانیں سنایا کرتے تھے اور بدلے میں لوگ انہیں اناج اور پھل دے دیا کرتے تھے۔ قبائلی علاقوں میں یہ فن آج بھی زندہ ہے اور لو گ آج بھی اسی ذوق و شوق سے قصے سنا کرتے ہیں۔آج کے افریقی ادب پر کہیں نہ کہیں افریقی زبانی ادب کے اثرات موجود ہیں اور افریقی افسانے اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ افریقی افسانوں میں شاعرانہ آہنگ پائے جانے کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ ان کا رشتہ براہ راست روایتی قصہ گوئی سے جڑا ہوا ہے۔ قصہ گو اپنے قصوں کو عموماً گا کر سنا یا کرتے تھے اسی لیے ان میں صوتی آہنگ، صوتی الفاظ اور تجنیس حرفی موجود ہوا کرتے تھے،نظموں اور گیتوں کا استعمال ہوا کرتا تھا۔آج بھی زیادہ تر افریقی افسانہ نگارشعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے افسانوں میں ان روایات کا استعمال کرتے ہیں۔
بعض افسانوں میں تو کہانی کہنے کا انداز ہی روایتی قصہ گوئی جیسا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر افسانہBossy ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:
’’بہت دنوں پہلے کی بات ہے ، ندی کے پشتے پر بیٹھے ، ہوا میں پیر ہلاتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
اسی طرح The moon shall be my witness میں Leshoai نے یہی طریقہ اپنایا ہے:
’’کسی زمانے میں ماہلو مولا میں دو دوست رہتے تھے جن کے نام Ou Breench اور Skeelie تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
اکثر افریقی افسانوں میں یہ انداز بیان پایا جاتا ہے جو داستانوں کا مخصوص انداز ہے۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں آج کے افریقی افسانے پر کہیں نہ کہیں افریقی زبانی ادب کی چھاپ موجود ہے۔
۵۔ افریقی افسانوںمیں طنزیہ عناصر :
طنز افریقی افسانوں کا ایک اہم عنصر ہے جو زیادہ تر افسانوں میں پایا جاتا ہے۔افسانہ نگار کسی بات کو ایسے پیرائے میں بیان کرتا ہے جس میں بظاہر وہ کسی چیز کی تعریف کرتا ہے لیکن اس کا اصل مقصد دراصل اس کی تضحیک ہوتی ہے۔وہ قارئین کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ چیز جو اتنی اچھی لگ رہی ہے حقیقت میں اچھی نہیں ہے بلکہ بہت بری اور نقصاندہ ہے۔در اصل وہ ایک کڑوا سچ ہلکے پھلکے مزاح کے کیپسول میں بھر کر قاری کے سامنے رکھ دیتا ہے۔
مثال کے طور پر Jacky Heynsکے افسانے Our Last Flingمیں نسلی منافرت کو سفید فاموں کے لیے ایک بوجھ دکھایا گیا ہے جسے وہ خواہ مخواہ ڈھوئے جا رہے ہیں جب کہ کالے ان حالات سے بے حد خوش ہیں اور نسلی منافرت کی فضا کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔اسی طرح Ia Gumaکے افسانےA matter of tasteمیں دو سیاہ فاموں کو ایک سفید فام کے ساتھ انتہائی محبت کے ساتھ پیش آتے اور اپنی چیزیں shareکرتے دکھایا گیا ہے۔بات حقیقت کے بالکل خلاف ہے لیکن افسانہ نگار کے طنزیہ اندازسے قاری با آسانی بات کی تہہ تک پہونچ جاتا ہے۔
Willian Saidiکے افسانےEducated Peopleمیںایک شادہ شدہ جوڑے کو دکھایا گیا ہے جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ اور نہایت با اصول ظاہر کر نے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں لیکن اصلیت یہ ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کی نظر میں نہایت ہی بے وقوف، توہم پرست، بد تمیز، مغرور ،خودپسند اور کمینے قسم کے لوگ ہیں۔
مذہب اپنی جگہ پر اچھی چیز تو ہے لیکن اس کا سہارا لے کر لوگوں کو بڑی آسانی سے بیوقوف بنا یا جا سکتا ہے۔ نقلی سادھوئوں، پیروں اور فقیروں کی ایک بڑی تعداد ہرملک میں اور زمانے میں موجود رہی ہے۔ کئی افریقی افسانہ نگاروں نے اس پہلو کو موضوع بنا کر طنزیہ افسانے لکھے ہیں۔Bessie Headنے اپنے افسانےThe Village Saint میں ایک تارک الدنیا صوفی کو دکھایا ہے جو دراصل ایک دنیا دار شخص ہے اور سادھو کے روپ میں شیطان ہے۔کچھ ایسا ہی Sembene Ousmaneکے افسانےThe False Prophetمیں ہے جس میں محمود فعل نامی ایک دنیا دار شخص ایک دور دراز علاقے میں جاکر امامت کرتا ہے اور دینداری کا ڈھونگ رچا کر کافی دولت کماتا ہے۔
David Owoyeleکے افسانےThe Will of Allah میں Sule ایک چور ہوتے ہوئے بھی نہایت ہی مذہبی انسان ہے اور خدا پر یقین کامل رکھتا ہے ۔اس کے دل میں خوف خدا حقیقی معنوں میں جاگزیں ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ چوری کے معاملے میں وہ اپنا خاص نظریہ رکھتا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ اللہ نے رزق کے حصول کا طریقہ لوگوں پر ہی چھوڑ دیا ہے۔اس نے کچھ لوگوں کو ضرورت سے زیادہ دے رکھا ہے جب کہ کچھ لوگ دانے دانے کے محتاج ہیں ۔اللہ اتنا ظالم نہیں ہو سکتا کہ وہ کچھ لوگوں کو بھوک سے مر نے دے اور کچھ لوگوں کے پیٹ زیادہ کھانے کی وجہ سے پھولتے چلے جائیں۔اپنی اسی سوچ کی بنیا د پر Suleچوری کو جائز ٹھہراتا ہے اور اسے اپنا پیشہ بنا لیتا ہے۔یہاں تک کہ وہ عدالت میں جج کے سامنے بھی یہی دلیل پیش کرتا ہے۔
Mbulelo V. Mzamaneکے افسانے A present for my wife میں بھی چوری سے متعلق ایک دلچسپ طنزیہ کہانی پیش کی گئی ہے۔اس افسانے میں دو شادی شدہ جوڑے ہیںجو ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ ان کی بیویاں چوری کو بہت بڑی لعنت سمجھتی ہیں ۔وہ اپنے شوہروں سے ان کی آمدنی سے زیادہ بڑی فرمائشیں کیاکرتی ہیں۔ان میں سے ایک کا شوہربیوی کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے چوریاں شروع کر دیتا ہے۔جب کہ دوسرا شخص چوری سے گریز کرتا ہے۔
کہانی کے آخر میںپتا چلتا ہے کہ دوسرا شخص چوری سے اجتناب اس لیے نہیں کرتا کہ وہ اسے برا سمجھتا ہے بلکہ دراصل اس میں اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی ہے کہ وہ باہر جاکر چوریاں کرے۔وہ تو اپنے پڑوسی دوست کی بیوی کے بٹوے سے رقم نکال لیا کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنے دوست کو مزید چوریاں کرنے پر اکساتا ہے تاکہ دونوں کا کام چلتا رہے۔
Saida Hagi-dire Herziکا افسانہ Government by magic spell میں حلیمہ نامی ایک گائوں کی عام سی لڑکی کے بارے میں یہ مشہور ہو جاتا ہے کہ اس پر جن کا سایہ ہے جس کی وجہ سے اس میں بہت طاقت آگئی ہے۔بر سر اقتدار پارٹی کے اہلکاروں تک بات پہونچتی ہے تو وہ حلیمہ کو راجدھانی لے جاتے ہیں اوراس کا استعمال کرتے ہوئے توہم پرست اور جاہل عوام کے دلوںمیں جنوں کا خوف بٹھا کر حکومت پر اپنی پکڑمزید مضبوط کر لیتے ہیں۔
افریقہ میں جھاڑ پھونک کا رواج حد سے زیادہ ہے اور قبائلی علاقوں میںبیماروں کے علاج کے لیے آج بھی ڈاکٹروں کے بجائے جھاڑ پھونک کرنے والے عامل(Witch doctor) پائے جاتے ہیں۔Njabulo S. Ndebeleکے افسانے The Prophetess میں جھاڑ پھونک کرنے والی ایسی ہی ایک عورت کا ذکر ہے جسے سب Prophetessکہتے ہیں۔لوگوں میں مشہور ہے کہ اس کے دم کیے ہوئے پانی کو پی کر مریض شفا یاب ہو جاتے ہیں ۔ ایک لڑکا بڑی زحمت اٹھا کر اس تک پہونچتا ہے اور اپنی بیمار ماں کے لیے اس سے پانی پر دم کرواتا ہے لیکن راستے میں بوتل ٹوٹ جاتی ہے۔وہ ماں کی تسلی کے لیے ایک دوسری بوتل میں نل کا پانی بھر کر اسے دے دیتا ہے جسے پی کر وہ خود کو بہتر محسوس کرتی ہے۔اس طرح افسانہ نگار نے نہایت سلیقے سے توہم پرستی کا مذاق اڑایا ہے۔
بعض افریقی افسانوں میں کرداروں کے نام ہی طنزیہ انداز میں رکھے جاتے ہیں جو ان کی اصلیت کے بالکل خلاف ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر Kuneneنے اپنے ایک کردار، ایک بد قماش افسر ،کوMr. Blessingکا نام دیا ہے جب کہ یہ شخص سیاہ فاموں کا سخت دشمن ہے۔ویسے ہی Heynsایک تعصب پرست سفید فام شخص کو طنزیہ طور پر Poor whitemanکہہ کر پکارتا ہے۔Obed Musi اپنے افسانے میں Bloemfonteinنامی مقام کو ، جہاں سیاہ فام ہمیشہ کرفیو کی زد میں رہتے ہیں، Centre of Culture and Agricultureکا نام دیتا ہے۔
۶۔ افریقی افسانوں میںروایت اور جدیدیت:
عام طور پر افریقی افسانوں کا انداز روایتی ہوتا ہے۔ان کی زبان میں لوک کہانیوں والی سلاست ہوتی ہے۔ان کے کردار عام زندگی کے جیتے جاگتے کردار ہوتے ہیں جو زندگی کی حقیقتوں سے بے حد قریب ہوتے ہیں۔ افسانوں میں ـ’کہانی پن‘ واضح طور پر نمایاں ہوتا ہے ۔ پلاٹ قابل یقین ہوتا ہے اورکرداروں کے مکالموں میں حقیقت کا رنگ جھلکتا ہے۔وہ اسی زبان میں باتیں کرتے جس زبان میں عام انسان باتیں کرتے ہیں۔کرداروں کے لباسوں، غذائوں اور دیگر اشیا کا ذکر اس تفصیل سے ملتا ہے کہ پورا منظر آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح ابھر آتا ہے۔کہانیوں کی زبان عموماً سلیس اور بامحاورہ ہوتی ہے جس میں نثری نظموں جیسی بلاغت پائی جاتی ہے۔مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان افسانوں کو پڑھتے وقت قاری کو کسی اجنبی پن کا احساس نہیں ہوتا ہے اسے لگتا ہے کہ یہ کردار اسی کی دنیا کے کردار ہیں اورایسے واقعات اپنی روز مرہ کی زندگی میں وہ کہیں نہ کہیں دیکھ چکا ہے۔
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ افریقی افسانوں میں جدید یت کی بود و باش نہیں ہے۔جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی لہریں یہاں بھی پہونچیں ہیں ۔ کم تعداد میں سہی لیکن یہاں بھی جدید اور مابعد جدید افسانے لکھے گئے ہیں اور لکھے جا رہے ہیں۔
جدید تجرباتی افسانوں میں حقیقت کو نئے نئے زاویوں سے دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس طرح یہ کہانیاں حقیقت بیانی سے دور بھٹک کر فنطاسیہ کی حدوں میں داخل ہو جاتی ہیں۔ان کے کردار اور واقعات ناقابل یقین لگنے لگتے ہیں۔غیر منطقی اورناقابل اعتبار واقعات اور پلاٹ سے مبالغہ آمیز مفہوم با آسانی نکالے جا سکتے ہیں۔ ان افسانوں کا انداز بیشتر اوقات شاعرانہ بھی ہو جا تا ہے۔افسانہ جتنا زیادہ تجرباتی ہوگا وہ حقیقت نگاری سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جائے گا۔
Kuneneکے افسانےThe spring of life میں ایک طرف ہیرو سے دفتری پوچھ تاچھ کی جارہی ہے اور دوسری طرف اس کے دماغ میں خیالات کا سلسلہ جاری ہے۔یہ دورویہ مکالمے ایک ساتھ مل کر ایک عجیب سا تاثر پیدا کرتے ہیں۔ Marecheraکے افسانے Protista کاا نداز بیاں اسے مغرب کے Surrealistic اور Existantialistic افسانوں سے قریب کر تا ہے۔ Kibera کا افسانہThe spider’s web ایک بہترین علامتی افسانہ ہے۔اس افسانے میںتشبیہات و استعارات اور پیچیدہ علامتوں کا زبردست استعمال ملتا ہے جیسے نوخیز پودا، مکڑی کا جال، رانی شہد کی مکھی، ٹوپی، چاقو، تابوت، کتابیں اور تیر کمان وغیرہ۔لیکن ان پیچیدہ استعاروں کی وجہ سے عام قاری کو کہانی کی تہہ تک پہونچنے میں کافی دشواری بھی ہوتی ہے۔ کہانی کا اچانک خاتمہ خودکشی کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ہر قاری کا ذہن اس طرف نہیں جا سکتا ۔اس کے ذہن میں مختلف خیالات ابھرتے ہیں اور وہ سمجھ نہیں پاتا کہ آخر ہوا کیا ہے؟
Bossy, The journey home, Let’s wonder togather اور Opeque shadows وغیرہ بھی جدید افریقی افسانوں کی بہترین مثالیں ہیں۔ افریقی جدید افسانہ نگاروں میں سب سے اہم نام Taban Lo Liyong کا ہے۔اس کے افسانے Lexicographicide, Sages and Wages, The uniformed man, Project X, He and him, Fixions اور A Traveller’s Tale وغیرہ جدید افریقی افسانوں کی بہترین مثالیں ہیں۔
بعض افریقی افسانوں میں جدیدیت موجود تو ہے لیکن اس کا انداز یوروپی جدیدیت سے تھوڑا جدا ہے۔یوروپی جدید ادب میں انسان کو اس لا متناہی کائنات میں ایک گم کردہ راہ کی حیثیت سے دیکھا جا تا ہے جس کی زندگی کا کوئی مصرف نہیں رہ گیا ہے۔وہ اپنی جڑوں سے کٹ چکا ہے اور بے انتہا مایوسی کا شکار ہے۔
لیکن آخر اس مایوسی کی وجہ کیا ہے؟
یوروپ میںجدیدیت کے نام پرمایوسی کی لہر دراصل کئی تباہ کن یوروپی جنگوں کی دین ہے جن میں دونوں عالمی جنگوں کی تباہ کاریاں بھی شامل ہیں۔انسان کو یہ احساس ہونے لگا کہ اس کے قدم تمدن کی جانب نہیں بلکہ بربریت کی جانب بڑھ رہے ہیں اور وہ انسانیت سے دور ہوکر ہر لمحہ مزید سنگدل ہوتا چلا جا رہا ہے۔تاریخ کے صفحات سے سبق حاصل کر نے کی بجائے وہ اس کی مخالف سمت میں جا رہا ہے۔جنگوں کے بعد مسلط ہونے والے معاشی بحرانوں نے اس کی رہی سہی امیدیں بھی توڑ دیں۔اسی مایوسی نے یوروپ اور امریکہ کے جدید ادب کو جنم دیا۔
دوسری طرف افریقی عوام نے سینکڑوں برسوں تک غلامی کے کاروبارکا عذاب سہا پھر آیا نوآبادیاتی نظام جس نے کسی اژدہے کی طرح افریقہ کو جکڑ لیا۔افریقی غلام بن کر رہ گئے۔ نوآبادیاتی نظام اپنے پہلو میںنسلی منافرت بھی لے کر آیا۔ سیاہ فام افریقی قدم قدم پر اس عفریت کا شکار بننے لگے نتیجے میں احتجاجوں اور بغاوتوں کا دور شروع ہوا اور آزادی کی تحریکیں پورے افریقہ میں چل پڑیں ۔رفتہ رفتہ افریقی ممالک آزاد ہوئے۔افریقیوں نے سوچا تھا کہ گوروں کے جانے بعد جب کالے کالوں پر حکومت کریں گے تو عوام کی زندگی بدل جائے گی ۔ لیکن ہوا اس کے خلاف۔ کالے حکمراں تو گوروں سے بھی بڑھ کر ’’گورے‘‘ ثابت ہو ئے۔ہر ملک میں حکومتوں کے تختے الٹے گئے۔بار بار کی بغاوتوں اور کمزور حکومتوں نے ملکوں میں بدامنی کو رواج دیا۔آج ہر طرف لوٹ مار کا ماحول ہے۔حکومتوں کے اہلکار اپنی اپنی پہونچ کے مطابق corruptionمیں مشغول ہیں۔ ہتھیار بند ڈاکوں، چوریوں ، بنک ڈکیتیوں، مذہبی فسادات، طالب علموں کے ہنگاموںوغیرہ نے آزادی کے بعد کی خوشحالی کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دیا ہے۔ایسے میں لوگوں پر قنوطیت طاری ہونا ناگزیر ہے اسی قنوطیت نے آج کے جدید افریقی ادب کو جنم دیا ہے۔
خورشید اقبال
۳۰ ؍دسمبر ۲۰۱۰ء
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...