مجھے اپنا مستقبل تعمیر کرنے کے لئے آسان راستوں کی تلاش تھی اور میرے جیسے کئی ساتھی میرے گرد اکٹھے ہوگئے تھے۔ ہم دُوسروں کی محنت پر گزارا کرتے تھے اور ہم سے محبت کرنے والے، ہمیں چاہنے والے، ہمیں ہماری ضرورت کے لئے دیتے تھے۔ ریس، سٹّہ، فلیش ہر طرح کی شرطیں، ہمارا ذریعہ آمدنی تھیں اور ہم انہی میں کمال حاصل کرنے میں کوشاں تھے، اس کے لئے طرح طرح کے جتن کرتے تھے۔ رفیق کہتا…
’’کچھ ہونا چاہئے اُستاد… کوئی لمبا ہاتھ لگ جائے تو پوبارہ ہوجائیں۔‘‘
’’لمبا ہاتھ کہاں ہے؟‘‘
’’کوشش تو کرنی چاہئے۔‘‘
’’مشکل ہے، بہروپیئے ہزاروں ہیں کام کا کوئی نہیں ملتا۔‘‘
’’یار کوئی چلہ وغیرہ کیا جائے جس سے سٹے اور گھوڑے کا نمبر معلوم ہو جایا کرے۔‘‘
’’آسان نہیں ہے۔ عمل اُلٹا بھی ہو جاتا ہے اور پھر ایسا اُلٹا کرتا ہے کہ کبھی سیدھے نہیں ہو پاتے۔‘‘
میں ایک دن قصائی کی دُکان سے گوشت خرید رہا تھا، دست کا گوشت تھا قصائی نے بڑی ہڈی سے گوشت صاف کیا اور پھر ہڈی کو بغدا مار کر توڑا اور ایک طرف ڈال دیا۔ یہ عمل میں نے بیشتر قصائیوں کو کرتے ہوئے دیکھا تھا، اس دن پوچھے بغیر نہ رہ سکا…!
’’شیخ جی ایک بات بتایئے۔‘‘ آپ لوگ اس ہڈی کو توڑ کر کیوں پھینک دیتے ہیں، جبکہ دُوسری ہڈیوں کے ساتھ آپ ایسا نہیں کرتے۔
’’میاں جی باپ دادا کی روایت ہووے ہے، یہ ثابت ہڈی سفلی عمل کرنے والوں کے کام آوے ہے، بزرگوں کا کہنا ہے کہ اسے ہمیشہ توڑ کر پھینکنا چاہئے۔‘‘
’’اس سے سفلی عمل ہوتا ہے…؟‘‘
’’یہی سنا ہے جی…!‘‘
سفلی عمل کیسے ہوتا ہے اور یہ ہڈی کہاں استعمال ہوتی ہے اس بارے میں تو کچھ نہیں معلوم تھا لیکن ذہن بھٹک گیا تھا۔ دوستوں سے تذکرہ کیا تو انہیں بھی دلچسپی پیدا ہوگئی۔ ایک جاننے والے بزرگ سے ملاقات ہوئی اور ان سے یہی سوال کیا تو وہ بولے۔
’’ہاں میاں گندے علم تو ہوتے ہیں، ایمان کھونے میں کتنی دیر لگے ہے مگر مسلمان بچّے ہو ایسی باتوں کے بارے میں سوچنا بھی گناہ ہے۔‘‘
سنا اور کان سے اُڑا دیا، کسی سفلی عمل والے کی تلاش شروع کر دی۔ میرا شہر بڑا خوبصورت تھا۔ زندگی سے بھرپور چھوٹی بڑی عمارتوں، بازاروں اور صنعتوں سے سجا ہوا۔ مشرق میں لہلہاتے کھیت حد نگاہ تک چلے گئے تھے۔ مغرب میں نگاہ کی حد سے خوبصورت پہاڑی ٹیلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ ریس کورس کا میدان اسی سمت تھا اور اسی طرف سے پیر پھاگن کے مزار کا راستہ تھا۔ ریس میں دوڑنے والے گھوڑوں کا مشاہدہ میرا دلچسپ مشغلہ تھا اور اکثر عام دنوں میں بھی اس طرف نکل آتا تھا۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا، دیر تک اصطبل میں بندھے ہوئے گھوڑوں کی ناز برداری دیکھتا رہا۔ پھر یونہی آوارہ گردی کرتا ہوا ٹیلوں کی طرف نکل گیا۔ خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا تھا، دُور دُور تک کسی ذی رُوح کا وجود نہیں تھا۔ چھوٹے چھوٹے پتھر آواز پیدا کر رہے تھے، کافی دُور نکل آیا، پھر ایک طرف نظر اُٹھی اور ٹھٹھک کر رہ گیا۔ وہ انسان ہی تھا بہت چھوٹے قدم کا مالک، سوکھا بدن، گھٹا ہوا سر، اُوپری بدن برہنہ، نpچلے جسم پر چھوٹی سی دھوتی بندھی ہوئی۔ گلے میں جنئو پڑا ہوا، آنکھیں بند کئے ایک نکیلے پتھر پر ایک پائوں سے کھڑا ہوا تھا۔ دُور سے اس کا چہرہ صاف نہیں نظر آ رہا تھا، دلچسپی پیدا ہوگئی اور تیز قدموں سے چلتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا۔ مکروہ شکل تھی۔ بندر کی طرح اُبھری ہوئی پیشانی، سانولا رنگ، میرے قدموں کی آواز سن کر اس نے اپنا اُٹھا ہوا پائوں نیچے رکھ لیا، اطراف میں ایک عجیب سی چراند پھیلی ہوئی تھی جو بدبودار تھی۔ وہ مجھے دیکھنے لگا، چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں عجیب سی شیطانی چمک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا اور اپنی چھوٹی چھوٹی چمکیلی آنکھوں سے مجھے دیکھتا رہا۔ اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ بھی شیطنت لئے ہوئے تھی، نجانے کیوں مجھے اپنے بدن میں کچھ جھرجھری سی محسوس ہوئی۔ ریڑھ کی ہڈی میں ایک شدید سرد لہر دوڑ گئی تھی۔
’’کا ہے رہے چھورا، کاہے ٹکر ٹکر دیکھے ہے۔‘‘ اس کی باریک سی آواز اُبھری، جو اس کی شخصیت سے ہم آہنگ لگتی تھی۔
’’کون ہو تم؟‘‘ میں نے سنبھل کر کہا اور اس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
’’جو کوئی بھی ہیں… ہیں تیرے کام کے۔‘‘ اس نے مخصوص آواز میں جواب دیا۔
’’سادھو ہو…‘‘ میں نے اس کے حلیے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’تجھے کا لگ رہے ہیں۔‘‘ اس نے پوچھا اور میرے ذہن میں بجلی سی چمک گئی۔ ہو سکتا ہے یہ سادھو میرے کام آ جائے، ذہن میں وہ تمام گندے خیالات جاگ اُٹھے تھے، جن کے تصور میں دن رات سرگرداں رہتا تھا۔ میں نے نرم لہجے میں کہا۔ ’’مجھے تمہاری تلاش تھی۔‘‘
وہ اپنی جگہ سے ہٹا اور کچھ فاصلے پر پڑے ہوئے دو پتھروں کے پاس پہنچ گیا، ایک پتھر کی طرف اشارہ کر کے اس نے کہا… ’’بیٹھ جا۔‘‘ اور میں خاموشی سے بیٹھ گیا۔ تو کا ہماری تلاش تھی تو ہم بھی تیرے ہی لئے یہاں آئے ہیں۔‘‘
کیا مطلب۔‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا اور وہ خاموش ہو کر مسکرانے لگا۔ پھر بولا۔ ’’تجھے ہماری تلاش کاہے تھی بھائی؟ کوئی بات تو ہووے گی نا تیرے دل میں۔‘‘
’’تم سادھو ہو، مجھے سٹے وغیرہ کا نمبر بتا سکتے ہو، یہ بتا سکتے ہو کہ اب کی ریس میں کون کون سے گھوڑے اوّل آئیں گے؟‘‘
وہ اس طرح ہنس پڑا، جیسے اسے مجھ سے اسی سوال کی توقع تھی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا… ’’اگر ہم تجھے ایک گھوڑے اور ایک سٹے کا نمبر بتا دیں تو تیرا کا بھلا ہوئے۔ ارے کام کرو سو پکا، اگر تجھے زندگی بھر گھوڑے اور سٹے کا نمبر معلوم ہوتا رہے تو کا برائی ہوئی رے، پر بٹوا، ہر کام کو کرنے کے لئے پہلے محنت کرنی پڑتی ہے۔‘‘
میرے دل میں دلچسپی اور تجسس پیدا ہوگیا۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’مجھے کیا محنت کرنی پڑے گی؟‘‘
’’ایک علم ہووے ہے، جسے تو اگر سیکھ لے تو ای سمجھ لے کہ دولت تیرے پیروں میں ڈھیر لگی ہوگی۔‘‘
میرا دل دھاڑ دھاڑ کرنے لگا۔ یہ تصور تو نجانے کب سے میرے سینے میں پل رہا تھا کہ ایسی کوئی قوت مجھے مل جائے، جس سے میں دُنیا کا امیر ترین آدمی بن جائوں، میں نے کسی قدر عاجزی سے کہا۔
’’اگر تم میرا یہ کام کر دو سادھو بابا تو میں زندگی بھر تمہارے قدموں میں رہوں گا۔‘‘
’’اپنا کام تجھے خود ہی کرنا ہووے گا بٹوا، بس ای سمجھ لو کہ ہم تیری مدد کر دیں گے۔‘‘
تو بس یوں سمجھ لو کہ میں آج سے تمہارا چیلا۔‘‘ وہ پھر اسی انداز میں ہنسنے لگا، پھر بولا… ’’مگر ایک بات پکی کرنی ہوگی تجھے، جو ہم کہیں گے وہی کرے گا۔ نہیں تو تیرا نقصان ہو جائے گا۔‘‘
’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ جو تم کہو گے وہی کروں گا۔‘‘
’’تو پھر ٹھیک ہے، ابھی ہم کئی دن یہاں رہیں گے تو کسی اور کو ہمارے بارے میں مت بتانا، ورنہ ہمیں پتہ چل جائے گا اور پھر ہم تجھے یہاں ناہی ملیں گے۔‘‘
’’نہیں بتائوں گا۔‘‘
’’تو پھر سن، ایک ہڈی لانی ہوگی تجھے، عمل کرنے کے لئے۔ وہ ہڈی جناور کے بازو میں ہووے ہے، ثابت لانی پڑے گی، کہیں سے ٹوٹی پھوٹی نہ ہو۔‘‘
مجھے ایک دم شیخ جی کی بات یاد آ گئی تھی اور اس وقت اس بات کی تصدیق ہوگئی تھی۔ میں نے کہا۔ ’’کیا تم سفلی عمل کرو گے سادھو بابا؟‘‘
’’اب تو ہمارے کان مت کھا… جو کچھ ہم کریں گے وہ تیری آنکھوں کے سامنے ہی ہوگا۔ پر ایک بات پھر کہیں تجھ سے۔ بات کریو تو سو پکی، ہم کچی بات کرنے والے کو چھوڑتے نہیں ہیں۔‘‘
’’میں بھی پکی ہی بات کرتا ہوں سادھو بابا… نام کیا ہے تمہارا؟‘‘
’’بس رے جو نام تو نے رکھ لیا وہی ہے، یہ ہڈی تو کب لائے گا؟‘‘
’’کل ہی۔‘‘
’’بس رے جو نام تو نے رکھ لیا وہی ہے، یہ ہڈی تو کب لائے گا؟‘‘
’’کل ہی۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے کل اِدھر آ جائیو، ہم انتظار کریں گے۔ بس اب جا۔‘‘ میں خاموشی سے پتھر سے اُٹھ گیا اور گردن جھکا کر واپس چل پڑا۔ دل کی کیفیت عجیب ہو رہی تھی۔ پائوں لرز رہے تھے، ایک طرف ہلکا سا خوف بھی دل میں تھا اور دُوسری طرف بے پناہ مسرت کا احساس بھی۔ واقعی اگر کوئی مجھے ایسی مستقل قوت حاصل ہو جائے تو پھر دُنیا دیکھے گی کہ میں کیا بن گیاہوں۔ خصوصی طور پر اس بات کو دل میں چھپائے رکھا اور اس بات کے منصوبے بناتا رہا کہ ہڈی کے حصول کے لئے کیا کرنا چاہئے اور ایک ہی ترکیب سمجھ میں آئی۔ چنانچہ دُوسرے دن گوشت مارکیٹ گیا اور اچھی خاصی مہنگی قیمت پر جانور کا پورا دست حاصل کرلیا، کیونکہ قصائی ہڈی توڑے بغیر نہ دیتا اور بات عام ہو جاتی، اس کے بعد اسے کاغذ میں لپیٹ کر کندھے پر رکھے ہوئے اپنی منزل کی جانب چل پڑا۔ ایک جگہ ٹیلے کے قریب بیٹھ گیا اور پہلے سے ساتھ لائی ہوئی تیز دھار چھری کی مدد سے اس ہڈی سے گوشت صاف کرنے لگا۔ یہ کام مشکل ترین تھا اور اسے کرتے ہوئے طبیعت جھک ہوگئی تھی لیکن لگن کام کر رہی تھی۔ بڑی مشکل سے وہ صحیح سالم ہڈی نکالنے میں کامیاب ہوا، اُوپر چیلیں منڈلا رہی تھیں اور گوشت پر جھپٹا مارنے کے لئے نیچی پرواز کر رہی تھیں، کئی بار انہیں بھی اُڑانا پڑا۔ جب صاف ستھری ہڈی نکل آئی اور میں تھک کر پسینہ پسینہ ہوگیا تو اپنی جگہ سے اُٹھا اور تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔
میرے ہٹتے ہی چیلوں کے غول گوشت پر جھپٹے مارنے لگے تھے۔ میں برق رفتاری سے اسی جانب جا رہا تھا، جہاں سادھو مجھے ملا تھا۔ وہ اپنی جگہ موجود تھا۔ مجھے دیکھ کر اس طرح مسکرایا جیسے اسے میرے آنے کا یقین ہو اور پھر اس نے بڑی چاہت سے وہ ہڈی اپنے ہاتھ میں لے لی۔ دونوں ہاتھ فضاء میں بلند کئے، آنکھیں سورج پر گاڑھ دیں اور نجانے کیا کیا بڑبڑاتا رہا۔ دیر تک اسی عمل میں مصروف رہا اور اس کے بعد اس نے وہ ہڈی ایک پتھر پر رکھ دی اور مجھ سے بولا۔
’’اب تو کل شام ڈھلے ہمارے پاس آنا، پرسوں جمعرات ہے نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کل ضرور آ جانا، ورنہ پھر تجھے ایک ہفتے انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
’’کس وقت آئوں میں تمہارے پاس؟‘‘
’’کوئی چھ بجے۔‘‘ اس نے جواب دیا اور میں نے گردن ہلا دی۔ وہ بولا۔ ’’جا اب بھاگ جا۔ زیادہ دیر رُکنا اچھا نہیں ہوگا۔‘‘ میں وہاں سے واپس چلا آیا۔ بس یوں لگ رہا تھا جیسے میرا کام بننے ہی والا ہے۔ یار دوستوں سے ملاقات بھی ہوئی لیکن یہ کوئی بتانے والی بات نہیں تھی، ویسے بھی مجھے اس کے لئے منع کر دیا گیا تھا۔ اگر انہیں بتا دیتا تو وہ سب بھی سادھو بابا کی طرف دوڑ پڑتے، لیکن بڑی بے چینی رہی تھی اور بڑا تجسس تھا۔ دوسرا دن بھی نجانے کس طرح کٹا۔ تیار ہوا اور جیسے ہی ساڑھے چار بجے، گھر سے نکل آیا۔ سادھو بابا کا خیال دل میں تھا، وقت گزرتا رہا اور مقررہ وقت پر وہاں جا پہنچا۔
سادھو کے سامنے اس وقت نجانے کیا اَلا بلا رکھی ہوئی تھی، ایک طرف چھوٹی چھوٹی لکڑیاں آپس میں جوڑ کر رکھی گئی تھیں اور ان میں مدھم مدھم آگ سلگ رہی تھی، وہی چراند اور بدبو فضاء میں پھیلی ہوئی تھی، جو پہلے دن میں نے محسوس کی تھی۔ ایک عجیب سا طلسمی ماحول تھا۔ بوڑھے سادھو نے مجھے دیکھ کر اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میں نے اپنا کام کر لیا ہے۔ اب تیرا کام باقی ہے۔‘‘
’’مجھے بتائو سادھو بابا مجھے کیا کرنا ہے؟‘‘
’’پہلے وعدہ کر میں جو کہوں گا وہ تو ضرور کرے گا۔‘‘
’’یہ وعدہ تو میں پہلے ہی کر چکا ہوں بابا جی۔‘‘
’’تو پھر رُک…‘‘ سادھو نے کہا اور اپنی جگہ سے اُٹھ کر عقب کے پہاڑی ٹیلے کے پیچھے پہنچ گیا۔ وہاں سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں نجانے کس چیز سے بنا ہوا ایک بدہیئت انسانی شکل کا پتلا تھا۔ اس نے یہ پتلا میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’اسے اپنے لباس میں چھپا لے۔‘‘
میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا۔ بڑی کراہیت کا احساس ہوا تھا۔ پتلا لجلجا اور بدبودار تھا، اس میں عجیب سی ٹھنڈک تھی لیکن میں نے کسی بات پر توجہ نہیں دی۔ سادھو نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اب تو یہاں سے پیر پھاگن کے مجار پر جائے گا۔ سیڑھیاں طے کر کے اُوپر جانا اور قبر کے پیچھے جو تین طاق بنے ہوئے ہیں، ان میں سے بیچ کے طاق میں یہ پتلا رکھ دینا۔ بس یہی تیرا کام ہے، بعد میں سب ہمارا کام ہوگا اور تیرے مجے ہی مجے ہوں گے۔‘‘
’’پیر پھاگن کے مزار پر؟‘‘ میں نے سہم کر کہا۔ دِل کے کسی گوشے میں کچھ ایمان باقی تھا۔ پیر پھاگن سے بچپن سے عقیدت تھی اور ساری آوارگیوں کے باوجود ان کا احترام دل میں تھا۔ اس کی وجہ شاید اس مزار سے منسوب کہانیاں تھیں۔
’’ای کام اب تجھے کرنا ہے۔ اس سے منہ موڑے گا تو ای دُنیا توہار واسطے نرکھ بن جائے گی، جا جلدی کر نیئں تو رات ہوجائے گی۔‘‘
میں لرزتے قدموں سے واپس مڑا، دل کی کیفیت عجیب ہو رہی تھی، اگر پیر پھاگن کے مزار کا معاملہ نہ ہوتا تو میں خوشی سے اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتا، مگر نہ جانے کیوں دل کو ایک جرم کا احساس ہو رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میں کوئی غلیظ اور ناپاک شے اس مقدس جگہ لے جا رہا ہوں۔ کچھ دُور جا کر میں نے گردن موڑی مگر بوڑھا وہاں موجود نہیں تھا۔ وہ ناپاک پتلا مجھے اپنے سینے پر بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔ کچھ دُور چل کر ایک اور عجیب احساس ہوا، پتلے میں انسانی جسم جیسی حرارت پیدا ہوتی جا رہی تھی اور شاید یہ میرے خوف کا تخلیق کردہ احساس تھا کہ وہ پتلا مجھے اپنے سینے کے قریب کلبلاتا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس میں جان پڑ گئی ہو۔ خوف و دہشت کی سرد لہریں میرے بدن میں دوڑنے لگیں، مگر میں اسے لباس میں سے نکالنے کی ہمت نہیں کر سکا تھا۔ مزار تک کا فاصلہ نہ جانے کس طرح طے کیا تھا۔ مزار ایک ٹیلے پر تھا اور وہاں تک جانے کے لئے ٹیلے پر انیس سیڑھیاں تراشی گئی تھیں۔ میں نے لرزتے قدموں سے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا، اُوپر خاموشی چھائی ہوئی تھی، چونکہ یہ مزار شہر سے بالکل باہر تھا اور یہاں زیادہ لوگ نہیں آتے تھے۔ ہاں جمعرات کو یہاں رونق ہوتی تھی اور کافی لوگ نذر نیاز کرنے آجاتے تھے، عام دنوں میں بس چند مجاور یا ملنگ یہاں موجود ہوتے تھے۔
میں سہما سمٹا سیڑھیاں طے کرنے لگا۔ دماغ ایک ہیجانی کیفیت کا شکار تھا اور بدن میں اینٹھن سی ہو رہی تھی۔ پائوں مسلسل اُوپر اُٹھ رہے تھے اور میں بلندی پر پہنچتا جا رہا تھا۔ اچانک ہی ایک انوکھا احساس ہوا، یہ انیس سیڑھیاں تو اب تک طے ہو جانی چاہئے تھیں۔ گردن اُٹھا کر اُوپر دیکھا تو دم بخود رہ گیا۔ مزار اتنا بلند نظر آیا کہ ہوش اُڑ گئے۔ یہ انیس سیڑھیاں انیس سو سیڑھیاں بن گئی تھیں۔ خوف کے عالم میں پلٹ کر نیچے دیکھا تو جان ہی نکل گئی۔ زمین سیکڑوں فٹ نیچے نظر آ رہی تھی۔ بدن پر شدید کپکپاہٹ طاری ہوگئی، سوچنے سمجھنے کی قوتیں سلب ہوتی جا رہی تھیں۔ یہ کیا ہوگیا۔ یہ سب کیسے ہوگیا۔ بے شمار بار اس مزار پر آیا تھا، مگر یہ اتنا اُونچا تو نہیں تھا، اُوپر نظر ڈالتا تو سیڑھیاں آسمان میں گم نظر آتیں۔ نیچے دیکھتا تو خوف سے آنکھیں بند ہونے لگتیں۔
’’ہمت کر، ہمت کر چڑھتا جا۔ پہنچ جائے گا۔‘‘ میرے کانوں میں وہی منحوس باریک آواز اُبھری اور میں اُچھل پڑا۔ میں نے اپنے اردگرد دیکھا۔ یہ آواز کہاں سے آئی۔ پھر اس کا مخرج علم میں آ گیا۔ میرے سینے کے قریب لباس میں پوشیدہ پتلا بول رہا تھا۔ رہی سہی کسر پوری ہوگئی۔ میرے حلق سے کئی دہشت بھری چیخیں بلند ہوئیں اور میں پلٹ کر نیچے بھاگا۔ میرے سینے کے قریب شدید ہلچل پیدا ہوگئی۔ پتلے کے ننھے نوکیلے ہاتھ میرے سینے میں چبھ رہے تھے، وہ مجھے روکنے کی جدوجہد کر رہا تھا اور اس کی چبھتی ہوئی باریک آواز مجھے سنائی دے رہی تھی۔
’’او پاپی… او مورکھ، کیا کرے ہے۔ ارے تیرا ستیاناس، بنا بنایا کام بگاڑے دے رہا ہے۔ ارے سنبھل رُک۔ ڈرنے کی جرورت ناہے، ہمت سے چل اُوپر پہنچ جائے گا۔‘‘ مگر میرے قدم نہ رُک پائے تھے۔ مزید حیرت ناک بات یہ ہوئی تھی کہ پہلے مجھے زمین جتنی نیچے نظر آئی تھی اب اتنی نیچی نہ رہی تھی۔ میں آخری سیڑھی عبور کر رہا تھا کہ پائوں لڑکھڑائے اور میں بری طرح نیچے گرا۔ نیچے پتھریلی زمین تھی۔ سر ایک پتھر سے ٹکرایا اور آنکھوں میں سورج اُتر آیا، پھر گہری تاریکی چھا گئی۔ نہ جانے کب تک یہ کیفیت رہی تھی۔ ہوش آیا تو ماموں ریاض کی آواز سنائی دی۔
’’کیسی طبیعت ہے مسعود۔ کیا حال ہے بیٹے؟‘‘ میری آنکھوں میں دُھندلاہٹ تھی۔ کچھ صاف نہیں نظر آ رہا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ کیفیت دُور ہوئی۔ والدہ کا چہرہ نظر آیا اور پھر ان کی رُندھی ہوئی آواز اُبھری۔
’’مسعود بیٹے۔ آنکھیں کھولو، کیسی طبیعت ہے بیٹے؟‘‘ دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، ہاں گزرے ہوئے واقعات یاد تھے، وہ خوفناک لمحات پوری طرح ذہن میں تھے۔ بے اختیار میرا ہاتھ سینے پر پہنچ گیا، وہاں کچھ موجود نہیں تھا، دل کو قرار سا ہوا۔ میں نے ماموں ریاض کو دیکھا، والدہ کو دیکھا اور اُٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن ماموں ریاض نے جلدی سے میرے سینے پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’نہیں نہیں، لیٹے رہو۔ بہت کمزور ہوگئے ہو، لیٹے رہو۔ کیسی طبیعت ہے۔‘‘ میں نے کہنا چاہا کہ ٹھیک ہوں مگر منہ سے آواز نہیں نکل سکی۔ مجھے حیرت ہوئی تھی دوبار کوشش کی مگر گلا بھنچا ہوا تھا آواز نہ نکل سکی۔
’’چائے لے آئوں۔‘‘ والدہ نے کہا۔
’’ہاں ڈاکٹر صاحب نے یہی کہا تھا۔ آپ لے آیئے۔‘‘ ماموں ریاض بولے اور والدہ اُٹھ کر باہر نکل گئیں۔ میں اپنے گھر میں تھا، اپنے کمرے میں تھا، نہ جانے یہ سب کیسے ہوا تھا اور میری آواز۔ میری آواز کو کیا ہو گیا تھا۔ ماموں ریاض نے کہا۔ ’’بولو مسعود میاں کیا ہوا تھا۔ پیر پھاگن کے مزار پر کیوں گئے تھے۔ وہاں بے ہوش کیسے ہوگئے تھے۔ تمہیں اندازہ ہے کہ پورے دو دن کے بعد ہوش میں آئے ہو، سخت بخار میں پھنک رہے تھے۔ وہاں مزار کے مجاوروں نے تمہیں بے ہوش پڑے پایا تھا۔ اتفاق سے میرے ایک شناسا حیدر علی مزار پر فاتحہ پڑھنے گئے ہوئے تھے، تمہیں جانتے تھے۔ وہی تمہیں یہاں تک لائے تھے۔ کیا واقعہ ہوا تھا کچھ بتائو تو سہی۔‘‘
میں نے بولنے کے لئے کافی زور لگایا مگر آواز کسی طرح نہ نکل سکی اور میرے چہرے پر بے بسی پھیل گئی۔ ماموں ریاض کو شاید احساس ہوگیا تھا، ان کے چہرے پر تشویش کے آثار نظر آنے لگے۔ اتنی دیر میں والدہ چائے لے آئی تھیں۔ ماموں ریاض بولے۔ ’’یہ بول نہیں پا رہا باجی۔‘‘
’’ہیں…؟‘‘ والدہ متوحش لہجے میں بولیں۔
’’ہاں یوں لگ رہا ہے جیسے بولنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن آواز نہ نکل رہی ہو۔‘‘
’’کیا ہو گیا میرے بچّے کو… الٰہی خیر۔ کیا ہوگیا اسے؟‘‘ والدہ صاحبہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
’’حوصلہ رکھیں باجی۔ اللہ بہتر کرے گا۔ اُٹھو مسعود میاں چائے پی لو۔ بدن میں جان آئے گی۔‘‘ مجھے اُٹھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی تھی۔ ماموں میاں نے چائے کی پیالی میرے ہونٹوں سے لگائی، مگر منہ ہی نہ کھل سکا۔ لاکھ کوشش کی مگر ہونٹ ایک دوسرے سے چپک کر رہ گئے تھے۔ ماموں ریاض اب بے حد پریشان نظر آنے لگے، پھر وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولے۔
’’چمچہ لے آیئے۔ شاید منہ کھولنے میں دقت ہو رہی ہے۔‘‘ تمام جتن کر لیے گئے مگر میرا منہ نہ کھلا۔ والد صاحب بھی آ گئے مجھ پر تبصرے ہوتے رہے۔ والد صاحب کے ایماء پر مجھے کاغذ تھما دیا گیا تاکہ میں لکھ کر کچھ بتانے کی کوشش کروں لیکن میری اُنگلیاں اکڑ گئیں۔ قلم پر گرفت ہی نہ قائم ہو سکی۔ شام کو کئی ڈاکٹر آئے، میرے معائنے ہوئے لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ میں غذا اور پانی سے محروم ہوگیا تھا۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اسپتال میں داخل کر دیا جائے، ہو سکتا ہے فالج کا اثر ہو۔ سب لوگ میرے سامنے ہی باتیں کر رہے تھے اور ان کی باتیں میری سمجھ میں آ رہی تھیں مگر میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ طے یہ ہوا تھا کہ دوسرے دن مجھے ایک اچھے اسپتال میں داخل کیا جائے گا۔
رات ہوگئی، اہل خاندان کی پریشانی کا مجھے پورا احساس تھا۔ دل میں سخت شرمندہ تھا کہ مصیبت خود مول لی ہے۔ دوسرے بھی پریشان ہوئے اور اپنی جان پر بھی بن گئی۔ آدھی رات تک سب میرے قریب رہے، پھر مجھے نیند آ گئی تو مجھے تنہا چھوڑ دیا گیا مگر زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ آنکھ کھل گئی۔ مدھم روشنی والا بلب جل رہا تھا مگر رات کا وقت تھا۔ وولٹیج زیادہ ہونے کی وجہ سے اس زیرو کے بلب کی روشنی تیز ہوگئی تھی۔ پہلے میری نگاہ چھت پر پڑی جہاں ایک غیرمعمولی طور پر بڑی مکڑی چپکی ہوئی تھی۔ اتنی بڑی اور ہیبت ناک مکڑی میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ خاص طور سے اس کی آنکھیں۔ وہ سرخ آنکھیں مٹر کے دانوں کے برابر تھیں اور مجھے گھور رہی تھیں۔ میرے بدن میں خوف و دہشت کی لہریں اُٹھنے لگیں۔ میں سہمی ہوئی نظروں سے اس بھیانک مکڑی کو دیکھتا رہا۔ اچانک اس نے اپنی جگہ سے جنبش کی اور اپنے بدن کے لیس دار مادے کا ایک تار چھوڑتی ہوئی وہ اس کے سہارے نیچے اُترنے لگی۔ اس کا نشانہ میرا سینہ تھا۔ دہشت سے میرا رُواں رُواں کانپ رہا تھا۔ مکڑی میرے سینے پر اُتر گئی اور یہ دیکھ کر میری سانس رُکنے لگی کہ اس کا چہرہ بوڑھے سادھو کا چہرہ تھا۔ بدن مکڑی کا تھا اور اس کا ہلکا سا وزن مجھے اپنے سینے پر محسوس ہو رہا تھا۔ پھر بوڑھے سادھو کی وہی منمناتی آواز مجھے سنائی دی۔
’’تو نے وعدہ خلافی کی ہے مورکھ۔‘‘
’’مم… میں نے… میں نے…‘‘ میرے منہ سے نکلا اور اپنی آواز کھل جانے پر مجھے سخت حیرت ہوئی۔
’’تجھ سے پہلے ہی کہا تھا میں نے، مجھ سے کام لینا ہے تو ہمت کرنا ہوگی۔ پہلے میرا کام کرنا ہوگا، اس کے بعد سنسار میں تیرے لئے اتنا کچھ ہوگا کہ تجھ سے سنبھالے نہ سنبھالا جائے گا۔ دولت تیرے سامنے کوڑے کے ڈھیر کی طرح پڑی ہوگی، تو منہ سے جو بات نکالے گا پوری ہوگی۔ اب بھی میں تجھ سے یہی کہتا ہوں۔ پتلا وہاں پہنچا دے جہاں میں چاہتا ہوں، تیرا کام ختم ہو جائے گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو…‘‘
’’آخر تو کون ہے؟‘‘ میں نے ہمت کر کے پوچھا۔
’’میں تیری خوش بختی ہوں مورکھ۔ میرا یہ کام ایک مسلمان ہی کر سکتا تھا۔ وہ مسلمان جو خود میرے پاس آئے، مجھ سے کچھ لینا چاہے، تو نہیں جانتا کہ پتلا وہاں پہنچ گیا تو مجھے کیا مل جائے گا اور تو خود ہی تو آیا تھا میرے پاس، مجھ سے اپنا کام کروانے، تو نے ہڈی لا کر دی تھی مجھے۔‘‘
’’مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔ مجھے معاف کر دے۔ میرا پیچھا چھوڑ دے۔ میں ایک پاک بزرگ کے مزار پر تیری نجاست نہیں لے جا سکتا اور پھر تجھے بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ میرے مزار پر جانے کے راستے بند ہوگئے تھے۔ سیڑھیاں اتنی زیادہ ہوگئی تھیں کہ میں اوپر پہنچ ہی نہیں سکتا تھا۔‘‘
’’بھول ہے تیری۔ تو نے نو سیڑھیاں چڑھی تھیں، دس باقی رہ گئی تھیں۔ بس تیری آنکھوں کو دھوکا دیا تھا میاں جی نے، تھوڑی سی کوشش کر کے اوپر جا سکتا تھا، یہ ہمت تو کرنی ہے تجھے۔‘‘
’’نہیں سادھو، میں یہ کام نہیں کروں گا۔‘‘
’’اب یہ نہیں ہو سکتا بالک۔ یہ تو تجھے کرنا ہی پڑے گا۔ سن بالک، میں تجھے تین دن دیتا ہوں۔ ان تین دنوں میں، میں تجھے سمجھائوں گا اور اگر پھر بھی تیری سمجھ میں نہیں آیا تو، تو وہ دیکھے گا جو دیکھ نہ پائے گا۔ خون کے آنسو روئے گا تو اور تیرے آنسو پونچھنے والا کوئی نہ ہوگا۔ جا ٹھیک ہے، سمجھ میں آ جائے گا تو اسی جگہ میرے پاس آ جانا اور نہ سمجھ میں آئے تو…‘‘
مکڑی میرے سینے سے اُٹھ گئی۔ وہ اسی تار کے ذریعے اُوپر جا رہی تھی۔ میں اسے دیکھتا رہا۔ وہ چھت سے چپک گئی تھی۔ پھر اس کا حجم چھوٹا ہونے لگا اور پھر وہ ایک ننھا سا دھبّہ بن کر رہ گئی۔ آہستہ آہستہ یہ دھبّہ کھسکنے لگا۔ پھر ایک جگہ دیوار سے اُتر کر کھڑکی کے راستے باہر نکل گیا۔ خوف و دہشت اب میرے لیے بے معنی ہوگئے تھے، جو کچھ نگاہوں سے گزر چکا تھا، وہ خود میرے لیے ناقابل یقین تھا لیکن قصور میرا ہی تھا۔ اتنا بے عقل نہیں تھا کہ اچھا برا نہ سمجھتا۔ لالچ نے آنکھیں بند کر دی تھیں اور گندے علوم کا سہارا لے کر تقدیر بنانے کی کوشش کی تھی۔ کسی سے کچھ کہتا بھی تو کیا۔ ٹھنڈی آہ بھر کر سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔ اب تک شاید اس گندے جادو کے زیراثر تھا اور اب اس سے آزاد ہوگیا تھا۔ بدن کو ایسی شدید نقاہت کا احساس ہوا کہ پورے بدن میں سنسنی پھیل گئی۔ زبان تالو سے چپک گئی کیونکہ
پانی کا ایک قطرہ بھی حلق سے نیچے نہیں اُترا تھا
ہاتھ پائوں ساتھ دے رہے تھے۔ پہلے جو کیفیت پیدا ہوگئی تھی اب نہیں تھی، گھر والے بیچارے تھک کر سو گئے تھے، عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی میری۔ میں نے انہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ نجانے کس طرح دیواریں پکڑ پکڑ کر باورچی خانے تک پہنچا۔ روشنی جلائی اور اس کے بعد کھانے پینے کی اشیاء تلاش کرنے لگا۔ کھانا تیار ضرور کیا گیا تھا لیکن جوں کا توں رکھا ہوا تھا۔ گھر والے بیچارے خود اپنی پریشانیوں کا شکار رہے تھے ،کوئی کھانا نہیں کھا سکا تھا۔ میں نے خود ہی پانی پینے کی بجائے کھانے پینے کی کچھ چیزیں نکالیں اور انہیں کھانے میں مصروف ہوگیا۔ غالباً باورچی خانے میں ہونے والی روشنی اور پھر برتنوں کی کھڑکھڑاہٹ نے دوسرے لوگوں کو بھی جگا دیا۔ والد صاحب، ان کے پیچھے والدہ اور والدہ کے عقب میں ریاض ماموں باورچی خانے میں پہنچ گئے۔ انہوں نے یہ حیران کن منظر دیکھا اور پریشان ہونے کی بجائے خوش ہوگئے۔ والدہ کے منہ سے آواز نکلی۔
’’الٰہی تیرا شکر ہے۔ الٰہی تیرا شکر ہے۔ بھوک لگ رہی ہے میرے بچے، تو پیچھے ہٹ، میں تجھے کھانا دیتی ہوں۔‘‘
’’نہیں امی میں نے کھانا کھا لیا ہے بس ایک گلاس پانی دے دیجئے۔‘‘ میں نے کہا اور ان سب کے زرد چہرے خوشی سے کھل گئے۔ مجھ سے چھوٹی ایک بہن تھی اور اس سے ایک سال چھوٹا بھائی بھی تھا۔ وہ دونوں شاید نہیں جاگے تھے لیکن باقی تینوں افراد میرے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مجھے بڑے اہتمام سے اپنے ساتھ لے گئے۔ والدہ نے اپنے کمرے کا بستر درست کیا، ایک طرف جائے نماز بچھی ہوئی تھی، اس کا کونا موڑ دیا گیا تھا اور اس پر تسبیح بھی رکھی ہوئی تھی۔ غالباً والدہ جاگ رہی تھیں اور میرے لئے دُعائیں کر رہی تھیں۔ والد صاحب مجھے متجسس نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، پھر انہوں نے کہا۔
’’بیٹے اب کیسی طبیعت ہے؟ اب تو تم بول سکتے ہو نا، ہاتھ پائوں بھی ٹھیک ہیں؟‘‘
’’جی ابو!‘‘
’’مگر بیٹے کچھ بتائو تو سہی کہ ہوا کیا تھا؟‘‘
یہ بات تو میں پہلے ہی طے کر چکا تھا کہ ان لوگوں کو اپنی اس گندی حرکت کے بارے میں کچھ نہیں بتائوں گا۔ میں نے خاموشی ہی اختیار کی تو ریاض ماموں بولے۔ ’’رہنے دیجئے بھائی جان، یہ بالکل صحت مند ہو جائے تو ہم اس سے پوچھ لیں گے، دماغ پر زور ڈالنا مناسب نہیں ہے، تم یوں کرو مسعود میاں یہیں سو جائو باجی کے بستر پر، کسی قسم کی کوئی گرانی تو محسوس نہیں کر رہے؟‘‘
’’نہیں اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
’’یہ تو یاد ہوگا کہ تم پیر پھاگن کے مزار پر کیوں گئے تھے۔‘‘ والد صاحب نے پوچھا۔ شدید تجسس انہیں بے چین کر رہا تھا۔ مگر ماموں ریاض نے پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
’’بھائی جان خدا کے لئے ابھی یہ تمام باتیں رہنے دیں۔ آپ کو اندازہ ہے کہ کتنی مشکل سے صورت حال دُرست ہوئی ہے۔‘‘ والد صاحب خاموش ہوگئے۔ ماموں ریاض ہمارے ساتھ ہی ہمارے گھر میں رہتے تھے۔ نانا نانی مرچکے تھے۔ ان کی بھی بس یہ ایک بہن تھیں جو میری والدہ تھیں۔ مجھ سے بس چند ہی سال بڑے تھے۔ بڑے باہمت اور مخلص آدمی تھے، لیکن میں نے انہیں بھی اپنی کارستانیوں کی ہوا نہیں لگنے دی تھی، بہرطور مجھے افسوس تھا کہ میری غلط حرکت کی وجہ سے ان لوگوں کو پریشانی اُٹھانی پڑی تھی۔ دوسرے دن والد صاحب بھی دفتر نہیں گئے تھے۔ ماموں ریاض نے بھی چھٹی کرلی تھی۔ بہن اور بھائی بھی گھر ہی میں تھے اور سب خوش نظر آ رہے تھے۔ میری جسمانی کیفیت بالکل اعتدال پر تھی، بس دل کی دھڑکنیں تیز تھیں اور یہ خوف بار بار دل کو دہلا رہا تھا کہ کہیں وہ منحوس جادوگر کوئی ایسا عمل نہ کرے جس کی وجہ سے ان لوگوں کو دوبارہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے۔ بڑا ہی پچھتاوا تھا دل کو کہ اپنی ایک غلط حرکت کی وجہ سے پورے گھر کیلئے مصیبت مول لے بیٹھا۔
دن پُرسکون گزر گیا، پَر رات خوفناک تھی۔ دل تو یہ چاہتا تھا کہ اپنے کمرے میں نہ سوئوں لیکن ان لوگوں سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ پورا دن چونکہ بہتر گزارا تھا اس لیے اب وہ لوگ بھی مطمئن ہوگئے تھے۔ بس قیاس آرائیاں جاری تھیں۔ البتہ جب آنکھیں بند ہوئیں تو خوابوں نے مجھے گھیر لیا۔ ایسے ایسے بھیانک خواب نظر آ رہے تھے کہ بار بار آنکھ کھل جاتی تھی۔ کبھی میں خود کو ایک ویران کھنڈر میں دیکھتا جس کی دیواریں ٹوٹی پھوٹی ہوتیں۔ میں فرش پر لیٹا ہوتا اور چھت سے اینٹیں نکل کر نیچے گر رہی ہوتیں۔ میں اس خوفناک منظر سے دہشت زدہ ہو کر اپنی جگہ سے اُٹھا اور ایک ستون کا سہارا لینے کیلئے اسے پکڑا لیکن اچانک ستون نے بھی اپنی جگہ چھوڑ دی، پھر بہت سی انسانی آوازیں مجھے سنائی دیں اور میں جاگ گیا۔ آوازیں درحقیقت باہر سے آ رہی تھیں، میں حیران سا ہو کر اپنے کمرے سے نکل آیا۔ میں نے دیکھا کہ گھر کے تمام افراد صحن میں کھڑے ہوئے ہیں، تیز روشنی ہو رہی ہے اور سامنے کامن باتھ روم کے قریب ایک بڑے تھال میں کوئی چیز رکھی ہوئی ہے جو سب کی نگاہوں کا مرکز ہے۔ میں آگے بڑھا تو وہ سب میری طرف دیکھنے لگے۔ والدہ صاحبہ دل پکڑے کھڑی ہوئی تھیں۔ ماموں ریاض بھی سہمے سہمے سے نظر آ رہے تھے۔ اس تھال میں، میں نے دو کالے بکروں کے کٹے ہوئے سر اور ایک بڑی سی کلیجی رکھی ہوئی دیکھی۔ اس کے چاروں طرف خون کے دھبے بکھرے ہوئے تھے۔ والد صاحب نے پریشان لہجے میں کہا۔ ’’خدا جانے کیا ہے یہ سب۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا، یہ کہاں سے آیا، آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا، اب بتائو کیا کریں ان چیزوں کا؟‘‘
’’خ… خدا کے لیے، یہ تو سفلی کا عمل معلوم ہوتا ہے۔ کوئی ہمارے لیے کچھ کرا رہا ہے، مگر کون، بھلا ہمارا کون دُشمن پیدا ہوگیا۔ دُنیا میں کسی سے تو جھگڑا نہیں ہے ہمارا۔ الٰہی خیر یہ ہمارے گھر کو کیا ہو رہا ہے۔ والدہ صاحبہ رُندھی ہوئی آواز میں بولیں۔ بہن بھائی بھی سہمے ہوئے انداز میں کھڑے ہوئے تھے۔ والد صاحب نے ماموں ریاض سے کہا۔
’’میاں ریاض ہمت کرنا ہوگی۔ میں اُٹھاتا ہوں ان چیزوں کو۔ خاموشی سے باہر پھینک دیں۔ پڑوسیوں کو خبر ہوگئی تو نجانے کیا کیا قیاس آرائیاں کریں گے۔‘‘ ماموں ریاض بہت باہمت تھے، فوراً ہی آگے بڑھ کر وہ تھال اُٹھا لیا، والد صاحب نے دروازہ کھولا اور رات کی تاریکی میں دونوں باہر نکل گئے۔ میری زبان پر تالا لگا ہوا تھا۔ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن نجانے کیوں زبان خاموش تھی۔
جاگتی راتیں تو اب مقدر بن گئی تھیں۔ اس پُرسکون گھر میں مصیبت کا بیج تو میں نے بویا تھا۔ ایک خبیث سفلی عمل کے ماہر کو میں نے اپنا گھر دکھا دیا تھا اس نے جو کچھ کہا تھا اس کا پہلا نمونہ پیش کر دیا تھا۔ گھر والے انہیں یاد کر رہے تھے جنہیں کبھی ان کے ہاتھوں تکلیف پہنچی تھی مگر ایسا کوئی یاد نہیں آ رہا تھا۔ سب مصیبت کا شکار تھے اور میرا دل رو رہا تھا کیونکہ ان کی مصیبت کا باعث میں تھا۔ میں نے اس گندگی کو پورے ہوش و حواس کے عالم میں مزار پر پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ اب میں کسی کو کیا بتاتا۔ وہ بیچارے خود بھی کوئی فیصلہ نہ کر پائے۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، میری کیفیت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ بہن بھائی سہمے ہوئے تھے۔ ماموں ریاض اور والد صاحب سخت پریشان تھے۔ دوسری رات بھی بھیانک تھی۔ رات بھر ہماری چھت پر دھماچوکڑی رہی، بلیوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ یہ آوازیں در و دیوار سے بلند ہوتی محسوس ہوتی تھیں۔ ماموں ریاض، والد صاحب اور میرا چھوٹا بھائی اختر، ڈنڈے لیے چھت پر اور صحن میں بھاگتے پھرے مگر ایک بھی بلی نظر نہیں آئی تھی۔ صبح کو ایک اور دہشت ناک واقعہ پیش آیا۔ چھوٹی بہن شمسہ غسل خانے میں غسل کرنے گئی تو اس کی دلدوز چیخوں سے سب کے کلیجے دہل گئے اور تو کوئی اس کے پاس نہ جا سکا، والدہ غسل خانے میں داخل ہوگئیں۔ شمسہ بے ہوش ہو کرغسل خانے میں گر پڑی تھی۔ وہ سر سے پائوں تک خون میں ڈوبی ہوئی تھی۔ نجانے کس طرح والدہ صاحبہ نے اسے چادر میں لپیٹا اور اسے بستر پر لایا گیا مگر وہ بالکل زخمی نہیں تھی بلکہ خون کی پھواریں شاور سے نکلی تھیں۔ دوسرے نلوں کو چیک کیا گیا۔ سب کی ٹونٹیوں سے خون بہہ رہا تھا۔ بقول شخصے ہمارے گھر میں تازہ تازہ سرخ خون کے دریا بہہ گئے تھے۔ ماموں ریاض اوور ہیڈ ٹینک کی طرف بھاگے مگر ٹینک میں شفاف پانی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بعد میں نلوں کی ٹونٹیاں بھی صاف پانی اُگلنے لگیں۔ مگر وہ خون اپنی جگہ ایک مستحکم حیثیت رکھتا تھا کیونکہ جہاں وہ گرا تھا، اپنی خاصیت کے مطابق جمتا جا رہا تھا۔ والدہ صاحبہ حواس باختہ ہوگئیں۔ شمسہ کو مشکل سے ہوش آیا تھا اور اس نے یہی بتایا کہ جونہی اس نے شاور کھولا اس سے خون کی دھاریں اُبل پڑیں۔ غرض اس گھر میں پریشانیوں کے سوا کچھ نہ رہا۔ میں سکتے کے عالم میں تھا۔ مجھے خاص طور سے پریشان نہ ہونے کی تلقین کی جا رہی تھی کیونکہ وہ لوگ مجھے بیمار سمجھتے تھے مگر یہ میں ہی جانتا تھا کہ یہ بیماری ان سب کیلئے میں خود خرید کر لایا ہوں۔ والدہ صاحبہ نے کہا۔
یہ گھر چھوڑ دو، خدا کیلئے یہ گھر فوراً چھوڑ دو، یہاں کچھ ہوگیا ہے۔ ہم سب کسی خوفناک مصیبت میں مبتلا ہونے والے ہیں۔ میرا دل کہتا ہے ہم کسی بڑی مصیبت کا شکار ہونے والے ہیں۔‘‘
’’مگر ہم کہاں جائیں۔‘‘ والد صاحب نے حیرت سے کہا۔
’’جنگل میں جا کر پڑ رہیں گے۔ آہ کون دشمن ہمارے پیچھے لگ گیا ہے۔‘‘ والدہ صاحبہ روتے ہوئے بولیں۔ والد صاحب اور ماموں میاں کے درمیان بڑی یگانگت تھی۔ سالے بہنوئی ایک جان دو قالب تھے۔ جو کچھ بھی کرتے تھے آپس کے مشورے سے کرتے تھے۔ والد صاحب بولے۔
’’کبھی خواب میں بھی ان فضولیات کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ مگر آخر کیا کہوں ان واقعات کے بارے میں۔ تمہاری کیا رائے ہے ریاض میاں؟‘‘
’’میں خود حیران ہوں بھائی جان لیکن ایک بات دعوے سے کہہ سکتاہوں یہ سب کچھ شروع اسی دن سے ہوا ہے۔‘‘ ان کا اشارہ میری طرف تھا۔
’’کیا بتا سکتے ہو مسعود میاں۔ تم خود بھی ذہن دوڑائو۔ اگر کوئی اشارہ مل جائے تو۔ تم اس دن پیر پھاگن کے مزار پر کیوں گئے تھے، وہاں بے ہوش کیسے ہو گئے تھے۔‘‘ میرے ذہن میں سب کچھ تازہ ہوگیا، مگر ساتھ ہی یوں محسوس ہوا جیسے کسی کا ہاتھ گلے پر آپڑا ہو۔ میرے چہرے کا رنگ بدلنے لگا، آنکھیں حلقوں سے اُبھر آئیں اور میں اپنا گلا پکڑ کر تڑپنے لگا۔ وہ نادیدہ قوت میری گردن دبا رہی تھی۔ ایک بار پھر ہنگامہ ہوگیا۔ میری حالت غیر ہوگئی تھی۔ لینے کے دینے پڑ گئے۔ وہ اپنے اس سوال سے تائب ہوگئے تھے۔ رات گئے میری حالت بحال ہوسکی تھی۔
پریشانیوں کے دن، پریشانیوں کی راتیں، سارا کاروبار بند ہوگیا تھا۔ کوئی ڈیوٹی پر نہیں جاتا تھا۔ میں بھی گوشہ نشین ہوگیا تھا۔ اس دوران میں نے کچھ تجربات بھی کئے تھے۔ مثلاً اپنے اوپر بیتنے والے تمام واقعات کاغذ پر لکھنے کی کوشش کی۔ قلم میں سیاہی غائب ہوگئی۔ کئی نئے بال پوائنٹ آزمائے مگر کسی نے چل کر نہ دیا۔ دوسری بار اُنگلیاں اکڑ گئیں۔ تیسری بار آنکھوں سے روشنی ہی غائب ہوگئی۔ خوفزدہ ہو کر میں نے یہ کوشش ترک کر دی تھی۔ یوں بھی تین دن گزرنے کے بعد ایک دم پُراسرار خاموشی چھا گئی تھی۔ کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تھی جو حیرانی کا باعث ہوتی لیکن گھر والوں کے حواس خراب تھے۔ بہن بھائی کو پڑھنے نہیں بھیجا جا رہا تھا کہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ ماموں اور والد دفتر نہیں جا رہے تھے کہ گھر میں کچھ نہ ہو جائے۔ اس صبح ناشتہ کرتے ہوئے ماموں ریاض نے کہا۔
’’بھائی جان آپ کو حکیم سعد اللہ یاد ہیں؟‘‘
’’ایں؟‘‘ والد صاحب چونک پڑے پھر کسی قدر پرجوش لہجے میں بولے۔ ’’بھئی خوب یاد آئے وہ تمہیں۔ واقعی اس وقت وہ ہمارے بہترین مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘ حکیم سعد اللہ صاحب مجھے بھی یاد تھے۔ ایک دین دار بزرگ جن سے ہماری قدیم شناسائی تھی۔ پہلے حکمت کرتے تھے، تجربے کے ساتھ ساتھ روحانیت بھی تھی، بیٹے جوان ہو کر عمدہ ملازمتوں پر لگ گئے تو مطب ختم کر دیا مگر اب بھی فی سبیل اللہ خاص ضرورت مندوں کا علاج مفت کیا کرتے تھے۔ کافی عمر تھی، بھنوئوں کے بال بھی سفید ہوگئے تھے۔ مگر کمر سیدھی تھی۔ بینائی درست تھی، دانت بتیس موجود تھے۔ چہرے پر صحت کی سرخی تھی، ان کا بڑھاپا قابل رشک تھا۔
حکیم صاحب کی روحانیت کے تذکرے میں نے بھی بار ہا سنے تھے بلکہ میرے ایک دوست نے تو ازراہِ مذاق ایک دن مجھ سے کہا تھا کہ یار یہ تمہارے حکیم صاحب بڑے عالم ہیں، ان کی گھوڑوں سے شناسائی نہیں ہے کیا۔ جواب میں، میں نے ہنس کر کہا تھا۔
’’ان کی ابا جان سے بھی شناسائی ہے۔‘‘
شام کو چھ بجے ہم حکیم صاحب کے ہاں روانہ ہوگئے۔ بہت خوبصورت مکان بنا ہوا تھا جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ بیٹوں کی بیویاں، پوتے پوتیاں۔ ان کا کمرہ الگ تھلک تھا جہاں ان کی ساری کائنات سجی ہوئی تھی۔ والد صاحب کا نام سن کر وہ خود ہی باہر نکل آئے۔
’’اخاہ… بڑے بڑے لوگ آئے ہیں بھئی۔ محفوظ احمد بڑے بے مروت انسان ہو، بخدا کئی دن سے بہت یاد آ رہے تھے، میں نے نعیم سے کہا تھا کہ کسی وقت خبر لیں تمہاری، کہاں غائب ہو۔ آئو، اندر آئو۔‘‘ انہوں نے کہا اور واپسی کیلئے مڑ گئے مگر آگے بڑھ کر رُکے، چونک کر باری باری ہم تینوں کی شکلیں دیکھتے رہے۔ پھر بولے۔ ’’کوئی اور ہے تمہارے ساتھ؟‘‘
’’جی نہیں، کیوں؟‘‘ والد صاحب نے پوچھا۔
’’ایں… نہیں۔‘‘ وہ کسی قدر الجھے ہوئے لہجے میں بولے۔ ’’آئو…! پھر وہ ہمیں اپنے کمرے میں لے گئے۔ فرید… فرید میاں…؟‘‘ انہوں نے کسی کو آواز دی۔ نو سال کا ایک بچہ اندرونی دروازے سے داخل ہوگیا۔ ’’میاں باہر دیکھنا کوئی آیا ہے کیا؟‘‘
’’جی بہتر نانا میاں۔‘‘ بچے نے جواب دیا اور باہر نکل گیا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے واپس آ کر بتایا کہ کوئی نہیں ہے۔ حکیم صاحب نے گردن جھٹک کر کہا۔
’’ٹھیک ہے جائو اور چائے کیلئے کہہ دو۔‘‘ بچّے کے جانے کے بعد وہ مسکرا کر بولے۔ ’’یہ پُراسرار آمد باپ بیٹے اور سالے کی خالی اَز علّت نہیں ہو سکتی، کوئی کام ہے مجھ سے۔‘‘
’’جی سعد اللہ صاحب۔‘‘
’’میاں بے دھڑک بتائو۔ کیا بات ہے؟‘‘
’’بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں ہم لوگ سعداللہ صاحب۔‘‘
’’اللہ رحم کرے، کیا بات ہے؟‘‘ والد صاحب نے پوری تفصیل سے سب کچھ بتا دیا۔ سعداللہ صاحب پوری توجہ سے سب کچھ سن رہے تھے۔ آخر تک تمام تفصیل بتانے کے بعد والد صاحب نے کہا۔
’’ان کی والدہ کہہ رہی ہیں کہ گھر چھوڑ دیا جائے۔ اگر میں گھر کرائے پر…‘‘ سعداللہ نے ہونٹوں پر اُنگلی رکھ کر انہیں خاموش کر دیا۔ وہ کچھ پڑھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے چاروں طرف پھونکیں ماریں اور پھر ٹھنڈی سانس لے کر بولے۔
’’نہیں میاں یہ بیکار بات ہے۔ اٹھو صاحب زادے ادھر آئو۔‘‘ میں خاموشی سے ان کے پاس پہنچ گیا۔ انہوں نے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر ہتھیلوں کی طرف سیدھے کئے اور پھر انہیں ناک کے قریب کر کے سونگھنے لگے۔ پھر انہوں نے ناک سکوڑ کر جھٹکے سے میرے ہاتھ پیچھے ہٹا دیئے اور بولے۔ ’’جائو بیٹھو۔‘‘ میں خاموشی سے اپنی جگہ جا بیٹھا تھا۔ حکیم صاحب نے یہی عمل ماموں ریاض اور والد صاحب کے ساتھ دُہرایا۔ اس وقت انہوں نے کسی ناگواری کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ پھر وہ بولے۔ ’’نہیں میاں گھر وغیرہ چھوڑنے سے کچھ نہیں ہوگا البتہ انہیں چھوڑ جائو۔ آج رات یہ ہمارے مہمان رہیں گے، صبح کو انہیں لے جانا، کوئی حرج تو نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں حکیم صاحب حرج بھلا کیا ہوگا۔‘‘ والد صاحب نے کہا۔ اسی وقت ایک نوکر چائے لے آیا تھا۔ حکیم صاحب ہنس کر بولے۔
’’چلو میاں کھائو پیو، مذاکرات ہو جائیں گے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے گھر میں رہو آرام سے، گھر چھوڑ کر کہاں جائو گے۔‘‘ چائے کے بعد ماموں میاں اور والد صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ حکیم صاحب نے انہیں وہیں سے خدا حافظ کہا اور پھر مجھ سے بولے۔ ’’جوتے اُتار کر آرام سے بیٹھ جائو مسعود میاں۔ رات کو باتیں کریں گے۔ کچھ پڑھو گے؟ ویسے تمہیں یہاں اپنے مطلب کی کوئی کتاب نہیں ملے گی۔ مجبوری ہے آرام سے بیٹھو، کوئی تکلف مت کرو۔‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ ایک خاص بات میں نے محسوس کی تھی وہ یہ کہ حکیم صاحب اس کے بعد اس کمرے سے گئے نہیں تھے۔ ایک بار بچہ کسی کام سے انہیں بلانے آیا تو انہوں نے کہا۔
’’ہم آ نہیں سکتے شکیل میاں۔ ساڑھے آٹھ بجے دو آدمیوں کا کھانا بھجوا دینا، اس سے پہلے مت آنا۔‘‘ پھر وہ جائے نماز پر جا بیٹھے تھے۔ وقت بہت مشکل سے گزر رہا تھا۔ ہم نے ساتھ کھانا کھایا پھر میں حکیم صاحب کی ہدایت پر وہیں ایک دیوان پر لیٹ گیا۔ ساڑھے دس بجے حکیم صاحب اٹھے، انہوں نے پورے کمرے کے تین چکر لگائے اور پھر مجھ سے بولے۔ ’’اٹھو میاں بیٹھ جائو۔‘‘ میں اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ حکیم صاحب مجھ سے کچھ فاصلے پر میری طرف پشت کر کے بیٹھ گئے، پھر انہوں نے کہا۔ ’’جو کچھ کہو گے سچ کہو گے۔ وعدہ کرو۔‘‘
’’جی سچ کہوں گا۔‘‘
’’کہو، وعدہ کرتا ہوں۔‘‘
’’وعدہ کرتا ہوں۔‘‘
’’ہوں۔ کیا قصہ تھا۔‘‘
’’میں ریس کھیلتا ہوں، جوا کھیلتا ہوں کوئی ایسا عمل کرنا چاہتا تھا جس سے مجھے کوئی پُراسرار قوت حاصل ہو جائے۔‘‘
’’یہی میرا اندازہ تھا۔ خیر آگے کہو۔‘‘ انہوں نے کہا اور میری زبان چل پڑی۔ میں نے انہیں سادھو کے ملنے کا واقعہ، ہڈی کا حصول، اس کے بعد اس شیطان کا حکم، پیرپھاگن کے مزار کی سیڑھیاں چڑھتے وہاں سے گرنے کا واقعہ اور پھر بعد کے سارے واقعات سنا ڈالے۔ میرا دل دہشت سے کانپ رہا تھا۔ اس سے پہلے میں نے جب بھی یہ داستان دُہرانے کی کوشش کی تھی، میرے اعضاء نے میرا ساتھ نہیں دیا تھا اور میری بری حالت ہوگئی تھی لیکن اس وقت میری زبان نے میرا ساتھ دیا تھا، میرے اندر خوشی کی لہر بیدار ہو رہی تھی۔
’’اس کا حلیہ تو بتائو ذرا۔‘‘ حکیم صاحب بولے۔
’’قد بہت چھوٹا تھا، سر گنجا تھا، اوپری بدن ننگا اور گلے میں …‘‘ دفعتاً میری زبان رُک گئی، کمرے کا منظر بے حد پُراسرار تھا۔ سامنے کی دیوار پر میرا اور حکیم صاحب کا سایہ پڑ رہا تھا اور میری نگاہ کئی بار ان دونوں سایوں پر پڑ چکی تھی لیکن اچانک ہی مجھے ایک تیسرا سایہ متحرک نظر آیا۔ یہ ایک پتلی رسی کا سایہ تھا جو ہل رہی تھی اور اس کے سرے سے کوئی پھیلی پھیلی چیز بندھی ہوئی تھی۔ رسی تیزی سے لمبی ہوتی جا رہی تھی۔ لٹکتی ہوئی شے میرے چہرے کے عین سامنے پہنچ گئی۔ آہ… وہ ایک بہت بڑی مکڑی تھی۔ اس کی آنکھیں مٹر کے دانوں کے برابر اور گہری سرخ تھیں اور… اور… وہ میرے چہرے کے عین سامنے جھول رہی تھی…!
دہشت سے میرا لہو میری رگوں میں منجمد ہو گیا، میں نے چیخنے کی کوشش کی تو میرا گلا بھنچ گیا، زبان اس طرح اکڑ گئی کہ میں اسے جنبش نہ دے پایا۔ حکیم سعد اللہ میری اس کیفیت سے بے نیاز میری طرف پشت کئے شاید میرے آگے بولنے کا انتظار کر رہے تھے، اپنے بدن کے لیس دار مادّے سے بنے ہوئے تار میں جھولتی مکڑی میرے چہرے کے سامنے آکر رک گئی تھی اور میں اس کا ننھا سا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ وہی منحوس سادھو تھا۔ کوئی اور اسے دور سے دیکھتا تو وہ مکڑی کے سوا کچھ نظر نہ آتا لیکن میں اس چہرے کو پہچانتا تھا، وہ شیطانی انداز میں مسکرا رہا تھا۔ میرے کانوں میں حکیم سعد اللہ کی آواز ابھری۔
’’بولتے رہو میاں، ڈرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ میں نے ایک بار پھر پوری قوت صرف کرکے بولنا چاہا لیکن آواز نے ساتھ نہیں دیا، البتہ مکڑی نے اپنی آنکھوں سے مجھے اشارہ کیا تھا۔ پہلے تو میں کچھ نہیں سمجھ پایا مگر دوسری بار مکڑی نے اپنی منحوس آنکھوں سے مجھے اشارہ کیا تب میری نگاہ پیتل کے اس ڈھائی فٹ لمبے گلدان پر پڑی جو مجھ سے دو گز کے فاصلے پر رکھا ہوا تھا، اس میں صبح کے باسی پھول سجے ہوئے تھے۔ سعد اللہ صاحب نے پھر کہا۔
’’مسعود میاں مجھے اس کا پورا حلیہ بتائو، میں اس کا نقشہ بنا رہا ہوں، تمہاری طرف رخ نہیں کرسکتا۔‘‘
سادھو نے مجھے کڑی نظروں سے دیکھا۔ اس کی سرخ آنکھوں میں چمک بے پناہ ہو گئی تھی اور دو سرخ لکیریں میری پیشانی کی ہڈی میں جیسے سوراخ کرنے لگی تھیں۔ میں دَرد و کرب سے بے چین ہو گیا۔ اس وقت پیتل کا گلدان اپنی جگہ سے فضا میں بلند ہوا اور خود بخود مجھ تک آگیا۔ میرے دونوں ہاتھوں نے اسے اپنی گرفت میں لیا اور جیسے کسی نے مجھے اٹھا کر کھڑا کردیا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ چیخ کر سعد اللہ صاحب کو اس خطرے سے آگاہ کر دوں جو انہیں پیش آنے والا تھا۔ مگر آہ، یہ کرنا میرے بس میں نہیں تھا، میرے اعضاء اب میرے قبضے میں نہیں تھے، میرا ذہن ان طلسمی روشنیوں میں جکڑتا جا رہا تھا جو میرے دماغ میں داخل ہو چکی تھیں، میرے قدم میرے نہ چاہنے کے باوجود سعد اللہ صاحب کی طرف بڑھ رہے تھے۔ میرا رُواں رُواں فریاد کر رہا تھا مگر میں بے بس تھا، میرے ہاتھ سر سے بلند ہو چکے تھے۔ سعداللہ صاحب میری مسلسل خاموشی سے پریشان ہو گئے تھے۔ انہوں نے کسی قدر ناخوشگوار لہجے میں کہا۔
’’میاں کچھ منہ سے تو بولو، تم نے ہماری ساری محنت…‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے پہلو بدلا اور رُخ تبدیل کر لیا مگر میں ان سے بالکل نزدیک تھا۔ میرے ہاتھ بلند ہو کرجھک چکے تھے اور کوئی تین کلو وزنی گلدان ان کے سر کا نشانہ لے چکا تھا، البتہ رُخ اچانک تبدیل ہونے سے ان کا سر پہلی ضرب سے بچ گیا اور گلدان ان کے شانے پر پڑا۔ حکیم صاحب کے منہ سے ایک دل خراش چیخ نکلی، میرا ہاتھ دوبارہ بلند ہو گیا تھا۔ حکیم صاحب نے بے اختیار سر کا دفاع کرتے ہوئے کلائی سامنے کردی اور گلدان کی ضرب سے ان کی کلائی چکنا چور ہو گئی۔ اس بار وہ پہلے سے بھی زیادہ زور سے چیخے تھے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے دروازے کی طرف دوڑ لگائی تھی مگر میرے قدموں نے ایک لمبی زقند بھری اور میں دوبارہ ان کے قریب پہنچ گیا۔ حکیم صاحب کافی زور سے دروازے سے ٹکرائے تھے اور ایک زوردار دھماکا ہوا ہو گا مگر میں ہر احساس سے بے نیاز انہیں ہلاک کرنے کے درپے تھا۔ حکیم صاحب نے دروازے کا سہارا لے کر اٹھنا چاہا مگر اس بار گلدان ان کے سر پر پڑا تھا۔ ضعیف اورکمزور آدمی تھے، ہائے کی ایک مدھم سی آواز ان کے ہونٹوں سے خارج ہوئی اور اس کے بعد وہ بے سُدھ ہو گئے، لیکن میرے ہاتھ نہیں رکے، گلدان کی مسلسل ضربیں، میں ان کے جسم کے مختلف حصوں پر لگا رہا تھا، ان کے اہل خاندان نے ان کی چیخیں اور اند ر ہونے والی دھما چوکڑی سن لی تھی۔ چنانچہ سب دروازے پر آگئے اور باہر سے دروازہ پیٹا جارہا تھا، پھر اس پر زوردار ضربیں پڑنے لگیں اور اچانک مجھے ہوش آگیا۔ میں نے اس منحوس مکڑے کو دیکھا مگر اب اس کا نام و نشان نہیں تھا۔ باہر سے لگنے والی ضربوں سے دروازے کی چٹخنی کے اِسکرو اُکھڑ گئے اور بہت سے لوگ بھرّا مار کر اندر داخل ہو گئے، ان میں عورتیں بچے اور دو جوان آدمی بھی تھے جو شاید حکیم صاحب کے بیٹے تھے۔ پھر سب بھیانک آوازوں میں چیخنے لگے۔ انہوں نے حکیم صاحب کا کچلا ہوا جسم دیکھ لیا تھا۔ نہ جانے کیا کیا آوازیں سنائی دے رہی تھیں، کون کیا کہہ رہا تھا، میرے حواس قابو میں ہی نہ تھے۔ دماغ سائیں سائیں کررہا تھا، شاید مجھے مارا بھی جا رہا تھا مگر بدن کو چوٹ لگنے کا احساس بھی نہیں تھا، پھرمیرے چاروں طرف تاریکی چھا گئی۔
ہوش آیا تو اسپتال کے بستر پر تھا، ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ جس کے دروازے اورکھڑکیاں بند تھے، دیر تک کچھ سمجھ میں نہیں آیا، ہوش و حواس جاگے تو جسم کے مختلف حصوں میں درد ہونے لگا۔آہستہ آہستہ گزرا وقت یاد آیا اورایک ایک چیز یاد آگئی۔ میں وحشت زدہ انداز میں اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ اس منحوس غلیظ جانور نے میرے ہاتھوں حکیم سعد اللہ جیسے نیک انسان کو قتل کروا دیا تھا۔ آہ … اس کے بعد، اس کے بعد کیا ہوا تھا، وہ صحیح طور پر اب بھی یاد نہیں آرہا تھا۔ بستر پر پائوں لٹکا کر بیٹھ گیا پھر دروازہ تھوڑا سا کھلا، کسی نے جھانک کر اندر دیکھا اور فوراً ہی دروازہ بند ہوگیا لیکن چند ہی لمحات کے بعد وہ پھرکھلا اور ایک زبردست جسامت کا مالک پولیس آفیسر کمرے میں داخل ہو گیا، اس کے پیچھے چند کانسٹیبل تھے اور اس کے بعد ایک ڈاکٹر، ایک نرس کے ساتھ… پولیس آفیسر نے بارعب لہجے میں کہا۔ ’’دیکھئے ڈاکٹرصاحب معائنہ کیجئے اس کا، ہم اسے لے جانا چاہتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
’’بس ہوش میں آجانے کا انتظار تھا۔ جسم پر کوئی ایسی چوٹ نہیںہے جس کا باقاعدہ علاج کیا جائے، پھر بھی میں دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ اس نے آلہ لگا کر میرے دل کی دھڑکنوں کامعائنہ کیا۔ جسم کے مختلف حصوں کو ٹٹولا اور میرا شانہ تھپتھپاتے ہوئے بولا۔
’’ٹھیک ہے انچارج صاحب، بالکل ٹھیک ہے، تندرست آدمی ہے، کوئی بات نہیں، اسے آپ لے جا سکتے ہیں۔‘‘
انسپکٹر نے اپنے ساتھی کانسٹیبلوں کو اشارہ کیا اور انہوں نے میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں۔ میں ششدر تھا، خوف سے میرا دل بند ہوا جارہا تھا، ہونٹ خشک ہور ہے تھے، ہوش و حواس وقت بالکل بحال تھے، سوائے جسم کے کچھ حصوں میں درد کے اور کوئی کمی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ انسپکٹر نے مجھے گردن سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’چل اوئے آگے بڑھ۔‘‘ خاموشی کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ کسی سے کچھ کہنے کے لئے الفاظ بھی نہیں تھے میرے پاس۔ بے چارگی کے انداز میں کمرے کے دروازے سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر دل حلق میں آگیا کہ باہر سب ہی موجود تھے۔ ماموں ریاض، والد صاحب اور والدہ، چھوٹی بہن اور بھائی سب کے چہرے اس طرح مرجھائے ہوئے تھے جیسے ان پر خزاں آگئی ہو۔ والدہ صاحبہ مجھے دیکھ کرپچھاڑیں کھانے لگیں، والد صاحب نے دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا لیا، چھوٹی بہن دونوں ہاتھ پھیلا کر آگے بڑھی اور بولی۔
بھائی جان… بھائی جان… ‘‘ لیکن انسپکٹر نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ڈنڈا سامنے کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بی بی، خود کو سنبھالے رکھو، قریب آنے کی اجازت نہیں ہے، یہ مجرم ہے، قاتل ہے، اس سے دور رہو۔‘‘
بہن نجانے کیا کیا کہنے لگی، میرے کان ایک بار پھر سنسنانے لگے تھے، ماموں ریاض نے البتہ ہمت کر کے میرے قریب پہنچتے ہوئے کہا۔
’’ فکر نہ کرنا مسعود میاں، ہم تمہاری ضمانت کرانے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔ بالکل فکر مت کرنا، ہم زندہ ہیں جو کچھ بھی بن پڑے گا ہم سے، ہم تمہارے لئے ضرور کریں گے۔‘‘ ماموں ریاض کہتے رہے لیکن میں نے ان کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ماں اور بہن کی کیفیت دیکھ کر دل پھٹا جارہا تھا، جی چاہ رہا تھا کہ دوڑ کر ماں سے لپٹ جائوں، ان کی آوازیں کانوں میں گرم سیسے کی مانند اُتر رہی تھیں۔ چھوٹا بھائی آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھ رہا تھا، ہر شخص کی ایسی کیفیت تھی کہ تصور کرتا تو سینہ پھٹ جاتا، پھر وہ سب پیچھے رہ گئے۔ ماں کی آوازیں اب بھی میرے کانوں میں آ رہی تھیں۔
’’بچالو… بچالو میرے بچے کو بچا لو… وہ بے قصور ہے، بے گناہ ہے ۔‘‘ مجھے ایک گاڑی میں بٹھا دیا گیا اور باقی سب لوگ پیچھے رہ گئے، اب میں انسپکٹر کے رحم و کرم پر تھا۔ کچھ دیر کے بعد ہم تھانے پہنچ گئے اور مجھے لاک اَپ میں بند کردیا گیا۔ کسی نے مجھ سے کچھ نہیں کہا تھا۔ انسپکٹر چلا گیا اورمیں لاک اَپ میں زمین پر بیٹھ کر دیوار سے ٹیک لگائے گزرے ہوئے واقعات پر غور کرنے لگا۔ اب اتنا بھی احمق نہیں تھا کہ اس بھیانک صورت حال کو نہیں سمجھ پاتا۔ میں نے ایک قتل کیا تھا اور بڑی وحشت اور درندگی کے عالم میں کیا تھا۔ حکیم سعد اللہ میرے ہاتھوں مارے گئے تھے، اگر میںکسی سے کہتا کہ انہیں قتل کرنے والا میں نہیں تھا تو لوگ ہنسنے کے علاوہ کچھ نہ کرتے، چنانچہ ایسی باتیں کرنا ہی حماقت تھی۔
دروازے کے سامنے موجود پہرہ دینے والا سنتری مجھے عجیب سی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے گردن جھکا لی اور آنکھیں بند کر لیں۔ دن گزر گیا۔ غالباً میں پچھلی ساری رات بے ہوش رہا تھا اور اس وقت دن کے تقریباً گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تھے۔ بہرحال شام ہوگئی، رات کو مجھے سلاخوں کے پیچھے سے روٹی اور سالن دیا گیا اور پانی کا ایک گلاس۔ ایک کانسٹیبل ہی نے یہ چیزیں رکھی تھیں اور خاموشی سے واپس مڑ گیا تھا۔ میں دن بھر کا بھوکا پیاسا تھا لیکن ان چیزوں کی طرف رُخ کرنے کو بھی جی نہیں چاہ رہا تھا، بس طرح طرح کے خیالات جی میں آ رہے تھے۔ اب کیا ہو گا، اب کیا ہو گا۔ خاص طور سے ماں کی حالت سے میں بہت دل گرفتہ تھا۔ میری ماں میرے غم میں مر ہی جائے گی… آہ! کیا یہ سب میرا ہی قصور ہے، کیا میں ایک ناگہانی مصیبت میں نہیں پھنس گیاہوں؟ لیکن اگر پس منظر میں نگاہ دوڑاتا تو سچ مچ قصور اپنا ہی نظر آتا تھا، وہی ساری چیزیں ذہن میں آجاتی تھیں۔ کائنات میں بسنے والے محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں، اگر میری طرح سے ہر شخص ان آسان راستوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرے تو کاروبار حیات معطل ہوجائے۔ یہ سب غیرفطری تھا، ناجائز تھا، اللہ کے بنائے ہوئے اصولوں سے انحراف تھا اور اسی انحراف کی مجھے سزا ملی تھی۔ تھا تو میں اسی سزا کا مستحق اور اب بعد میں پچھتانے سے کچھ نہیں مل سکتا تھا، ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا۔ پہرہ دینے والے سنتری نے جب کافی دیر کے بعد بھی کھانا اسی طرح رکھے ہوئے دیکھا تو چہرے پر ہمدردی سجائے میرے پاس پہنچ گیا۔
’’کھالے بابو کھالے… برا کام کرتے ہوئے کچھ نہیں سوچتے تم لوگ… جنون میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہو کہ اللہ کی بنائی ہوئی زندگی کو ختم کر دیتے ہو اور بعد میں پچھتا تے ہو… کھانا تو تجھے کھانا ہی پڑے گا۔ آج نہ سہی کل کھائے گا، یہ پیٹ کب پیچھا چھوڑتا ہے۔‘‘ میں نے اُداس نگاہوں سے سنتری کو دیکھا۔ حالات سے بے خبر انسان اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا تھا، پھر میں نے آہستہ سے کہا۔
’’بھائی اس وقت بھوک نہیں ہے، بعد میں کھا لوں گا۔‘‘
’’تیری مرضی ہے مگر تو نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
’’ اللہ بہتر جانتا ہے، گناہوں کی سزا ہے۔‘‘
’’ہاں اللہ سے ہمیشہ توبہ کرنی چاہیے۔‘‘ سنتری نے کہا۔ کھانا اسی طرح رکھا رہا، رات ہو گئی اور میں زمین پر کمبل بچھا کر لیٹ گیا، آنکھیں بند کر کے گھٹنوں میں سردے کر خیالات کی دنیا میں کھو گیا۔ کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ظاہر ہے جو کچھ ہوا تھا اس میں میرا عمل بھی برابر شامل تھا، اگر سوچ کا انداز یہ نہ ہوتا تو شاید یہ سب کچھ بھی نہ ہوتا۔ نیند البتہ فراخدل ہے۔ اس نے اپنی آغوش مجھ سے نہیں چھینی تھی اور رات کے کسی حصے میں میری آنکھوں میں آبسی تھی اور اس کی مہربانی نے سوچوں کے دکھ سے نکال دیا اور اس وقت جاگا جب سورج کی کرنیں چاروں طرف پھیل چکی تھیں اور ایک روشن دن نکل آیا تھا لیکن یہ روشن دن بڑا تکلیف دہ محسوس ہوا۔ آہ کاش اتنی طویل نیند آجائے کہ سوچنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔
دن کے ساڑھے بارہ بجے ہوں گے جب میں نے ماموں ریاض کودیکھا۔ کالے کوٹ میں ملبوس ایک صاحب کے ساتھ لاک اَپ کے دروازے کی طرف آ رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر میں کھڑا ہوگیا۔ ماموں ریاض بہت خوش مزاج انسان تھے۔ ہر وقت ہنسنے ہنسانے کے عادی، کبھی ان کے چہرے پر سنجیدگی دیکھی ہی نہیں گئی تھی، سوائے ان پچھلے دنوں کے جب سے میں اس عذاب کا شکار ہوا تھا، لیکن اس وقت تو ان کی صورت دیکھے نہ دیکھی جا رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اچانک ہی بوڑھے ہوگئے ہوں۔ لڑکھڑاتے قدموں سے میرے قریب آئے، کالے کوٹ والے صاحب نے کہا۔
’’کہو میاں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی، مارا پیٹا تو نہیں کسی نے تمہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ میں نے آہستہ سے جواب دیا۔
’’ہوں، میرا نام ضمیر الدین ہے اور میں تمہارا وکیل ہوں۔ دیکھو میاں مجھ سے کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وکیل نے کہا۔
’’مسعود میاں ہم تمہاری ضمانت کی کوشش کر رہے ہیں، وکیل صاحب کو سب کچھ صاف صاف بتا دو ۔‘‘ میں نے عجیب سی نگاہوں سے ماموں کو دیکھا، اپنے ذہن کو ٹٹولا، زبان پر کوئی بوجھ نہیں تھا، دماغ آزاد تھا یعنی جو چاہوں کہہ سکتا ہوں لیکن اب اس کیفیت سے کوئی خوشی نہیں ہوئی تھی کیونکہ جو کچھ ہو چکا تھا وہ ہی اتنا تھا کہ کسی خوشی کا کوئی
امکان باقی نہیں رہا تھا۔ میں نے بمشکل تمام کہا۔ ’’میرا کچھ کہنا بے معنی ہے۔ ماموں صاحب میں نے عالم ہوش میں یہ سب کچھ نہیں کیا۔‘‘
’’تمہاری کیفیت کیا تھی۔ ’’ماموں ریاض نے پوچھا۔
’’بس ہوش حواس نہیں تھے۔ آپ کو اس کا اندازہ ہے۔‘‘ میں نے مختصراً کہا۔
’’یہ دورے تم پر کب سے پڑ رہے ہیں۔‘‘ وکیل صاحب نے کہا۔
’’یہ دورے نہیں ہوتے۔‘‘
’’تمہیں یہ دورے ہوتے ہیں۔ تمہیں اپنا ذہن تاریک لگتا ہے، ہاتھ پائوں بے قابو ہوجاتے ہیں، پھر تمہیں کچھ یاد نہیں رہتا اور یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ تم کیا کررہے ہو۔ سمجھ رہے ہونا میری بات۔‘‘ وکیل صاحب بولے اور میں نہ سمجھنے والے انداز میں وکیل صاحب کو دیکھنے لگا۔ وہ پھر بولے ۔’’یہاں کسی نے تمہارا بیان لیا ہے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’گڈ … یہ بہت اچھا ہوا۔‘‘ تمہیں بیان میں یہی کچھ کہنا ہے جو میں تمہیں بتا رہا ہوں۔‘‘
’’جی۔‘‘ میں نے کہا اور وکیل صاحب مجھے بتانے لگے کہ مجھے کیا بیان دینا ہے۔ میں خاموشی سے گردن ہلاتا گیا۔ پھر یہ دونوںچلے گئے۔ چلتے ہوئے ماموں ریاض نے مجھے پھر پُرسکون رہنے کی تلقین کی۔ میں ان کی کیفیت سمجھ رہا تھا۔ وہ میرے سامنے خود کو سنبھال رہے تھے لیکن گھر میں کیا کہرام مچا ہوگا، میں جانتا تھا۔
ڈھائی بجے کے قریب مجھے لاک اَپ سے نکالا گیا اور انچارج صاحب کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہاں میں نے حکیم سعد اللہ کے بڑے بیٹے کو بھی دیکھا تھا جو خود گورنمنٹ افسر تھے۔ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے منہ پھیر لیا۔ پولیس انسپکٹر نے کڑک کر کہا۔
’’سیدھا کھڑا ہو، یا لگوائوں چار ڈنڈے۔‘‘ میں سیدھا کھڑا ہوگیا۔ انسپکٹر نے مجھے چند گالیاں سنا کر اپنے نیک کام کا آغاز کیا۔ پھر بولا۔ ’’اوئے کیا موت پڑی تھی تجھ پر، کیا دشمنی تھی سعداللہ جیسے اللہ والے سے تجھے۔‘‘
’’مجھے ان سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔‘‘
’’پھر تو جنگلی کیوں بن گیا؟‘‘
’’میں نہیں جانتا صاحب، کچھ دن سے میں بیمار ہوں۔ اچانک میرادماغ بھاری ہو جاتا ہے، پھر مجھے ہوش نہیں رہتا، ایسی کیفیت کئی بار ہوئی۔ میرے والد صاحب کے حکیم صاحب سے بہت اچھے تعلقات تھے، وہ مجھے ان کے پاس علاج کے لئے لے گئے تھے۔ حکیم صاحب نے مجھے دیکھا اور میرے والد صاحب سے کہا کہ وہ مجھے ان کے پاس چھوڑ جائیں۔ حکیم صاحب کے گھر سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ہمارے لئے چائے منگوائی تھی، پھر رات کا کھانا انہوں نے مجھے اپنے ساتھ کھلایا تھا اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے میری نبض دیکھتے رہے تھے۔ دوبار انہوں نے مجھے دوائوں کی پڑیاں بھی کھلائی تھیں۔ پھر رات کو میری وہی کیفیت ہو گئی اور اس کے بعد اسپتال میں ہو ش آیا۔‘‘
پولیس انسپکٹر نے حیرت سے مجھے دیکھا اور پھر سعد اللہ کے بیٹے نعیم اللہ کو … پھروہ بھرّائی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’یہ تو کیس ہی بدل گیا نعیم اللہ صاحب…‘‘
’’جھوٹ بکتا ہے یہ بدمعاش۔ اس نے میرے ابا کو دیوانوں کی طرح مارا ہے، سارے بدن کی ہڈیاں توڑ دی تھیں بدبخت نے۔ میں اسے آسانی سے نہیں چھوڑوں گا۔ میرا نام بھی نعیم اللہ ہے۔ اسے پھانسی نہ دلوائی تو نام نہیں۔‘‘ نعیم اللہ نے غیظ کے عالم میں کہا۔
’’آپ فکر نہ کریں جی، ہم اس سے اصل بات پوچھ لیں گے۔‘‘ انسپکٹر نے محرر سے بیان لکھنے کو منع کر دیا اور ایک کانسٹیبل سے کہا۔’’مخدوم خاں اسے بند کر دو، رات کو نو بجے ڈرائنگ روم میں لے آنا۔‘‘ مجھے دوبارہ لاک اَپ میں بند کردیا گیا۔ شام کو پانچ بجے ماموں ریاض پھر آئے اور میرے پاس پہنچ گئے۔ انہوں نے مجھ سے صورت حال پوچھی تو میں نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔ ان کاچہرہ ہلدی کی طرح زرد ہوگیا۔ میں تو ڈرائنگ روم کے بارے میں کچھ نہیں جانتاتھا لیکن وہ سمجھ گئے تھے، چنانچہ فوراً ہی چلے گئے۔ وہ دوبارہ نہیں آئے البتہ رات کو نو بجے ایک اور کمرے میں لایاگیا تھا۔ انسپکٹر صاحب کا موڈ بہت خوشگوار تھا۔ ہنستے ہوئے بولے۔
’’اوئے اصل بات اُگل دے شہزادے، ورنہ یہ ڈرائنگ روم دیکھا ہے نا۔ بڑے بڑوں کی زبان کھل جاتی ہے یہاں، اویار بشیر، دوچار نشان بنا دے اس کے منہ پر، وہ نعیم اللہ بھی سرکاری افسر ہے۔ اصل بات کیا تھی شہزادے۔‘‘
’’میں نے آپ سے ایک لفظ جھوٹ نہیں کہا جناب۔‘‘
’’عدالت میں بھی یہی بیان دے گا؟‘‘
’’جو سچ ہے ہرجگہ بتائوں گا۔‘‘
’’اوجیتا رہ شیر، مگر سن، کل جب نعیم اللہ آئے یا اس کے گھرکا کوئی اور بندہ آئے تو یہی ظاہر کرنا جیسے تیری ٹھیک ٹھاک پھینٹی لگی ہے۔ اُٹھتے بیٹھتے دوچار آوازیں بھی نکال لینا۔ چلو بھئی اس کا بیان لکھوائو۔‘‘ محرر نے میرا بیان لکھ لیا مگر انسپکٹر صاحب کی یہ مہربانی میری سمجھ میں نہیں آئی تھی البتہ دوسرے دن حقیقت واضح ہوگئی۔ ڈرائنگ روم کا عذاب روکنے کے لئے ماموں صاحب نے دس ہزار روپے خرچ کئے تھے۔ اس دن سعد اللہ کے دوسرے صاحبزادے فہیم اللہ صاحب آئے تھے اور مجھے ان کے سامنے بلایا گیا تھا۔ انسپکٹر صاحب نے کہا۔
’’جوڑ جوڑ توڑ دیا ہم نے اس کا مگر اس کا کہنا ہے کہ اس نے ہوش کے عالم میں یہ سب نہیں کیا۔‘‘
’’مارپیٹ سے کوئی فائدہ نہیں انسپکٹر صاحب، قانون اسے بھرپورسزا دے گا، آپ اسے آئندہ نہ ماریں۔‘‘ پھر عدالت سے میرا مزید چند روز کا ریمانڈ لیاگیا۔ قتل اور وہ بھی ایسے وحشیانہ قتل کے ملزم کی ضمانت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا البتہ تھانے کے چند روز قیام میں انسپکٹر صاحب نے ماموں صاحب کی خوب کھال اُتاری تھی۔ اس کے بعد مجھے جیل بھیج دیا گیا۔ اس دوران میری ذہنی کیفیت نارمل رہی تھی۔ میں نے اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں بھی سوچا تھا۔ یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا گھر تباہ کردیا ہے۔ میرا گناہ مجھ تک ہی رہتا تو میں خوشی سے سب کچھ برداشت کر لیتا مگر سب لپیٹ میںآگئے تھے۔ اب وہ لوگ مجھے بچانے کی کوشش میں روپیہ پانی کی طرح بہائیں گے اور نتیجہ جو ہوگا، وہ سامنے تھا۔ دل خون کے آنسو روتا تھا لیکن اس سادھو کے بارے میں، میں نے زبان بند رکھی تھی۔ مجھے خوف تھا کہ اگر میں نے کسی کو اس بارے میں بتا دیا تو وہ بھی اس گندی رُوح کا شکار ہو جائے گا۔ میرا مستقبل کسی حد تک میرے سامنے آچکا تھا۔ زندگی کا خاتمہ، اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جیل کی کوٹھری کی پہلی رات بڑی اذیت ناک تھی۔ رات کو نو بجے ایک اور قیدی کو اس کو ٹھری میں بھیج دیا گیا۔ جہاں میں تھا، یہ ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا جو صورت سے ہی غنڈہ نظر آتا تھا، اس نے بس ایک نگاہ مجھے دیکھا تھا اور پھر خاموشی سے اپنا کمبل لے کر ایک گوشے میں جا پڑا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کے خراٹے ابھرنے لگے تھے۔ وقت گزرتا گیا۔ لاک اَپ میں نیند بھی آنے لگی تھی، پھر وہاں کے لوگوں کا رویہ بھی برا نہیں تھا لیکن یہاں نیند اُڑ گئی تھی۔ رات نہ جانے کتنی بیت گئی۔ چاروں طرف خاموشی اورسناٹا تھا۔ بس تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پہرہ دینے والے سنتریوںکے بھاری جوتوں کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔ ساتھی قیدی کے خراٹے دماغ کو مجروح کررہے تھے۔ جب یہ خراٹے ناقابل برداشت ہوگئے تو میں اپنی جگہ سے اُٹھ کر اس کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اس کے شانے کو ہلاتے ہوئے کہا۔
’’بھائی یہ خراٹے بند کرو۔ مجھے نیند نہیں آرہی۔‘‘ خراٹے رک گئے، ساتھ ہی قیدی نے چہرے سے کمبل ہٹا دیا۔ وہ اپنی چمکدار سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا اور اس کے ہونٹوں پر مکروہ شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی، میرا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ آہ … وہ … وہ، وہی ناپاک سادھو تھا۔ پیلے مدقوق بلب کی روشنی میں اس کا چہرہ صاف نظر آ رہا تھا۔ اس نے کمبل ہٹایا اوراٹھ کر بیٹھ گیا حالانکہ پہلے میں نے اس قیدی کو دیکھا، وہ یہ نہ تھا۔ میں گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ وہ ہنسنے لگا، پھراس کی کریہہ آواز ابھری۔
’’کہو میاں جی، دماغ ٹھکانے آیا یا نہیں۔‘‘
’’تم … ذلیل کتے، شیطان، یہاں بھی آ مرے۔‘‘ میں نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ وہ ہنستا رہا۔ پھر بولا۔
’’ہم کہاں ناہیں جا سکتے میاں جی۔ پَر لگے ہیں لیکن تمہاری دُم ابھی ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہے۔‘‘
’’تو نے آخر، تو نے آخر میری زندگی کیوں برباد کر دی۔ ذلیل سادھو، میں نے تیرا کیا بگاڑا ہے؟‘‘
’’اِک جرا سا کام کہا تھا ہم نے تم سے، ہمارا کام کر دو، سب ٹھیک ہوجائے گا، اب بھی کچھ نہ بگڑا میاں جی، ہماری بات مان لو، ہمیں پھاگن دوار پہنچا دو، بھگوان کی سوگند سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’توغلیظ ناپاک کتے، اس پاک مزار پر جا کرکیا کرے گا؟‘‘
’’یہ تمہاری سمجھ میں نہ آئے گا میاں جی، تم بس ہمارا کام کر دو اورپھر مزے کرو، ایسے عیش کرو گے کہ جیون بھر دعائیں دو گے ہمیں۔‘‘
’’مجھے کچھ بھی ہو جائے، میں تیرے ناپاک وجود کو اس پاک جگہ کبھی نہیں پہنچائوں گا۔ یہ میر اعہد ہے۔‘‘
’’تو پھر ہم بھی تمہیں بتا دیں میاں جی، ایسا حال کردیں گے تمہارا ہم کہ موت بھی تم سے گھبرائے گی، جو کہیںگے وہ کر دکھائیں گے۔‘‘
’’غلیظ
ناپاک کتے، میں تجھے فنا کر دوں گا۔ میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ میں نے اُچک کر اس کی گردن پکڑ لی اور اس کے منہ سے دلدوز چیخیں نکلنے لگیں۔ مجھ پر جنون سوار تھا، مجھے باہر سنتریوں کی چیخ و پکار بھی نہیں سنائی دی، وہ اندرگھس آئے تھے، اسے میری گرفت سے چھڑانے کی کوشش کررہے تھے مگر اس میں ناکام تھے، پھرشاید میرے سر پر ضربیں لگائی گئی تھیں اور اس کے بعد مجھے ہوش نہیں رہا تھا۔ نہ جانے کب ہوش آیا تھا۔ سر پھوڑ ا بنا ہوا تھا۔ آنکھوں کے سامنے بار بار تاریکی چھا جاتی تھی، بری طرح چکر آرہے تھے، جی مالش کررہا تھا۔ حواس کسی قدر قابو میںآئے تو محسوس کیا کہ کسی بستر پر ہوں اور پیروں میں فولادی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں۔ گزرے لمحات یاد آنے لگے، سب کچھ یاد آگیا، نہ جانے اس کے بعد کیا ہوا تھا۔ بعد میں تمام صورت حال علم میں آگئی اور اسے معلوم کر کے کیا بتائوں کہ اندرونی کیفیت کیا ہوئی۔ وہ قیدی میرے ہاتھوں ہلاک ہو گیا تھا جس کا مقدمہ زیر سماعت تھا۔ مجھ پر ایک اور قتل کا مقدمہ قائم ہو گیا تھا۔ جیل کے حکام سخت پریشانی میں گرفتار ہوگئے تھے اور بڑی لے دے ہو رہی تھی۔ سنتریوں نے میرے سر پر زوردار ضربیں لگا کر قیدی کو مجھ سے چھڑایا تھا مگر اس وقت تک اس کا دم نکل چکا تھا۔ میرا سر بری طرح پھٹا ہوا تھا اور جیل کے اسپتال میں میرا علاج ہو رہا تھا۔ ہرآنکھ میں میرے لئے نفرت تھی، کئی دن تک جیل اور پولیس کے حکام میں گھرا رہا۔ ڈاکٹر تک مجھے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور کسی کے دل میں میرے لئے ہمدردی نہیں تھی۔ پھر میرا بیان لیا گیا۔ ایک پولیس افسر نے پوچھا۔
’’غلام خان کو تم کب سے جانتے تھے؟‘‘
’’کون غلام خان؟‘‘
’’جسے تم نے قتل کردیا۔‘‘
’’میں کسی غلام خان کو نہیں جانتا۔‘‘
’’پھر تم نے اسے کیوں قتل کیا؟‘‘
’’میں نہیں جانتا۔‘‘
’’اس سے پہلے کتنے قتل کئے ہیں؟‘‘
’’بیکار باتوںکا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔‘‘ میں نے جھلاّئے ہوئے لہجے میں کہا۔ سرکی دکھن ناقابلِ برداشت تھی اور پھر یہاں موجود تمام لوگوں کے ناخوشگوار رویئے نے بے حد بددل کر رکھا تھا۔ ایک نظر بھی ایسی نہیں تھی جس میں میرے لئے ہمدردی کے آثار ہوتے، اس کیفیت نے جو بیزاری دل و دماغ پر طاری کررکھی تھی، اس کے تحت اس کے علاوہ اور کیا جوابات دے سکتا تھا۔ پولیس افسر نے غرائے ہوئے لہجے میںکہا۔
’’ہوش و حواس تو اس طرح درست ہوں گے تمہارے کہ مرنے کے بعد بھی یاد رکھو گے، تم نے دو قتل کئے ہیں، دو بے گناہوں کو قتل کیا ہے تم نے۔ تمہارا انجام اچھا نہیں ہوگا۔‘‘ میں نے تلخ نگاہوں سے پولیس آفیسر کو دیکھا اور کہا۔
’’میرا جو انجام ہو رہا ہے پولیس آفیسر، وہ شاید بہت اچھا ہے۔‘‘
’’تم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ تمہارے ساتھ کیا ہو گا۔‘‘ اس نے کہا اور میں مسکرا کر خاموش ہوگیا۔ پولیس آفیسر مجھ سے طرح طرح کے سوالات پوچھتا رہا اورمیں نے اسے الٹے سیدھے ہی جوابات دیئے، وہ دانت پیستا رہا اور اس کے بعد اٹھ کر چلا گیا تھا۔ بہرطور اسپتال میں تقریباً ایک ہفتے رہنا پڑا تھا، بیڑیوں اور ہتھکڑیوں نے الگ ناک میں دم کر دیا تھا۔ پولیس کے جوان ہر وقت میرے کمرے کے سامنے رہا کرتے تھے، ڈاکٹر بھی آتا تو پولیس کی نگرانی میں، مجھے خطرناک اورجنونی قاتل قرار دیا گیا تھا، کوئی میرا درد نہیں جانتا تھا، کوئی میرے دل کی پکار نہیں سن سکتا تھا، میرا دل چیخ چیخ کر کہتا تھا کہ میں ایسا نہیں ہوں۔ یہ سب کچھ جو ہوا ہے اس میں میرا قصور نہیں ہے۔ لیکن اب تو جان بوجھ کر بھی کسی کو کچھ بتانے کوجی نہیں چاہتا تھا، بس عجیب سی کیفیت تھی، بہت ہی عجیب۔
اس بار جس کوٹھری میں مجھے پہنچایا گیا تھا، اس میں سوائے میرے اورکوئی نہیں تھا۔ کوٹھری کی کھردری زمین پر لیٹتے ہوئے میں نے ٹھنڈی سانس لی اور سوچنے لگا کہ اب کیا ہوگا، جو کچھ ہوا تھا اور اس قیدی کو ہلاک کرنے کی جو وجہ تھی، وہ میں نے اب تک کسی کو نہیں بتائی تھی۔ بتاتا بھی تو کون یقین کرتا، یہ کہانی تو صرف ایک شخص نے سنی تھی اورکسی اور کو سنانے کیلئے زندہ نہیں رہ گیا تھا۔ بے چارے حکیم سعد اللہ… ان کا تصور ذہن میں آتا تو دل بری طرح دکھنے لگتا تھا۔ ایک نیک آدمی کا یہ انجام جو میرے ہاتھوں ہوا تھا، باعث خوشی تو نہیں ہوسکتا تھا۔ آہ منحوس سادھو، کہاں سے تو میری زندگی میں شامل ہو گیا، کیا قصور ہے میرا، کیا کیا ہے میں نے…!
بس یہی تمام احساسات دل میں رہتے تھے اور دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا تھا۔ پھر تقریباً اس واقعہ کے چودہ دن کے بعد ماموں ریاض میرے پاس آئے۔ پولیس کے جوان مجھے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں لئے ہوئے جب ملاقات کی جگہ پہنچے تو میں نے دور ہی سے ماموں ریاض کو دیکھ لیا، میری آنکھیں شرم سے جھک گئی تھیں۔ کوئی بھی تو کچھ نہیں جانتا تھا میرے بارے میں، ماموں ریاض بے چارے پہلے ہی کی مانند پریشان حال نظرآرہے تھے۔ عجیب سی نگاہوں سے مجھے دیکھتے رہے، پھرپھوٹ پھوٹ کر روپڑے، میری بھی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے تھے۔ ماموں ریاض کی محبتوں کو میں جانتا تھا۔ ایک طرح سے وہ ماموں کی بجائے بڑے بھائی ہی کی حیثیت رکھتے تھے۔ والد صاحب کا رویہ بھی ان کے ساتھ اپنی اولاد جیسا ہی تھا۔ ماموںمجھے جتنا چاہتے تھے، میں اسے اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولے…
’’ کیا ہو گیا تجھے، تجھے کیا ہو گیا مسعود، کیا کر ڈالا تو نے یہ سب کچھ میرے بچے، کیا کر ڈالا تو نے، کوئی وجہ بھی تو ہو ان ساری باتوں کی۔ آہ کیا نحوست نازل ہوگئی ہے ہمارے گھر پر؟‘‘
’’ابا اور امی کا کیا حال ہے ماموں صاحب…‘‘
’’سب زندگی کا بوجھ گھسیٹ رہے ہیں، سارا کیا دھرا چوپٹ ہو گیا ہے۔ بھائی صاحب بستر سے لگ گئے ہیں، باجی کا ذہنی توازن خراب ہوتا جا رہا ہے، وہ یہاں آنے کے قابل نہیںہیں۔ میں تجھے یہ باتیں نہ بتاتا۔ مگر کیا کروں، مجبوری ہے، بتانا بھی ضروری ہے…‘‘