(Last Updated On: )
(یہ ناولٹ سہ ماہی “سیپ” کے شمارہ نمبر ۶۸ میں مئی، جون 1999ء میں شائع ہوا تھا بعد ازاں انڈیا اور پاکستان کے دیگر ادبی رسائل نے یہ ناولٹ از خود شائع کیا۔ اس کی اشاعت کے کچھ عرصے بعد ایک پاکستانی فلم ریلیز ہوئی۔ جس کے بعد، پیش نظر کہانی سے مذکورہ فلم کی جزوی مماثلت کی بابت متعدد قارئین کی آراء ملیں۔ وضاحت کے لیے کہانی کا سنِ اشاعت تحریر کیا جا رہا ہے اس کی تصدیق ادارہ “سیپ” سے کی جا سکتی ہے۔)
شاکر علی نے آبخورے اور لٹیا میں گرم دودھ کو الیچتے الیچتے سفید جھاگوں کے آر پار دیکھا۔ ہاجرہ کالے برقعے کی نقاب ڈالے دائی بتول کے ساتھ تیز تیز قدموں سے گلی کے نکڑ پر بہتے گندے نالے کے پار اتر رہی تھی۔ اس کا دل بجھ سا گیا۔ گاہک جو محویت سے دودھ کے جھاگوں کو دیکھ رہا تھا، اس کے چہرے پر پڑی راکھ نہ دیکھ سکا اور مٹی کا پیالہ ہاتھ میں لیتے ہوئے بولا۔ “بس شاکر علی؟” شاکر علی نے چونک کے دیکھا۔ خجل سا ہو کے مسکرایا اور پھر کھمچے سے بالائی کا ٹکڑا نفاست سے توڑ کے پیالے میں ڈال دیا۔ گاہک کے جانے کے بعد شاکر علی ٹوکری میں پڑے میٹھے بن اور ڈبل روٹی پیش تختے پر جما جما کے رکھنے لگا۔
وہ محلے کی سب سے با رونق گلی تھی۔ اسی سے سارے رستے باہر کو جاتے تھے۔ وہیں محلے بھر کی ضرورت کی تقریباً تمام اشیاء ملتی تھیں۔ شاکر علی کی دودھ دہی کی دکان کے
برابر حلوائی کی دکان تھی پھر پان والے کی۔ کونے پر بساطی بیٹھا تھا اور ذرا ہٹ کے مہتاب دین قصائی۔ گلی کے باہر نکلتے حصے میں ایک چھوٹی سی مسجد بنی تھی جس کا رخ سڑک کی طرف تھا اور جس کے باہر چندے کا ہرے رنگ کا ٹین کا ڈبہ رکھا رہتا تھا۔
۔ یوں تو شاکر علی کی سلام دُعا تمام دکانداروں سے تھی لیکن جب اسے فرصت ملتی تو وہ بخشو کمہار کے پاس جا بیٹھتا تھا اور چپ چاپ اسے کام کرتا دیکھتا رہتا۔ تازہ گندھی مٹی کے چھوٹے بڑے کوزے اپنی ناقابلِ بیان مہک اس کے وجود میں گھولتے رہتے۔ وہ کوزہ گر کے ہاتھوں پر یوں نگاہ مرکوز رکھتا جیسے ابھی بس ابھی اس کی طلب کا کوزہ چاک پر سے اترے گا۔ بخشو کمہار جانتا تھا کہ شاکر علی کو زیادہ بولنے کی عادت نہیں ہے۔ وہ چاک گھماتے گھماتے سر اٹھا کے اسے دیکھتا پھر مسکرا کے لکڑی کے گول مسطح ٹکڑے کو چکر دینے لگتا۔ ایک آدھ رسمی بات کے بعد شاکر علی دہکتے آوے پر گہری نگاہ ڈالتا ہوا اٹھ جاتا۔ بخشو کمہار اس کی گمبھیر خاموشی اور مستغرق انداز پر مسکراتا پھر خود بھی کہیں کھو سا جاتا۔ شاکر علی گلی کے وسط میں بنے برما کے نلکے کا ہتھا اٹھا کے شر شر کرتے ٹھنڈے پانی سے خوب جم جم کے وضو کرتا اور پھر گلے میں پڑے چار خانے دار صافے سے منہ پونچھتا اور امیر خسروؒ کو زیریں صوت میں گنگناتا ہوا مسجد کی طرف چل دیتا۔
اس روز بھی عشاء پڑھنے کے بعد شاکر علی نے گھر میں داخل ہونے سے پہلے باہر بہتے بدرو کو احتیاط سے پھلانگ کے ٹاٹ کا پردہ سرکایا تو دیکھا کہ ہاجرہ برآمدے میں بچھی چارپائی پر آسن پاٹی لیے پڑی ہے۔ شاکر علی نے آس پاس نظر ڈالی۔ بڑی بیٹی فرخندہ رسوئی میں بیٹھی روٹی پکا رہی تھی۔ منجھلی پاس بیٹھی کوئلوں پر روٹی سینک سینک کے کپڑے میں لپیٹتی جا رہی تھی۔
“ارے بھئی! میری بلبلیں کہاں ہیں؟ شاکر علی نے لہک کے پکارا اور قریب پڑی کرسی ہاجرہ کی چارپائی کی طرف کھسکائی۔ چھوٹے کمرے سے ساجدہ، عابدہ تیزی سے باہر کو نکلیں۔ ان کے پیچھے تابندہ بھی دوڑتی آئی۔ شاکر علی نے باری باری انہیں تھپتھپایا اور ہنس کے ہاجرہ کو کن انکھیوں سے دیکھتے ہوا بولا۔۔۔۔۔۔ “یہ نفری تو کچھ کم ہے “۔
اس کا اندازہ صحیح نکلا۔ ہاجرہ تڑپ کے اٹھی اور بولی۔ “تو اور بڑھا دو”۔۔۔۔ شاکر علی یونہی مسکراتا رہا۔ ساجدہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے بولی۔۔۔۔ “بابو جی! آج ننھی کو جلدی نیند آ گئی ہے۔ “
“اچ۔۔۔۔۔ چھا۔۔۔۔! ” شاکر علی نے کہا۔ ” اور شائستہ؟”
” بابو جی! اس کے پیٹ میں درد تھا۔ بڑی آپا نے تھوڑی سی کھچڑی کھلا کے اسے سلادیا ہے “۔ تابندہ نے معلومات دیں۔
“ہوں۔۔۔۔۔! ” شاکر علی نے گہری آواز میں کہا اور پھر رسوئی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ بیٹا فرخی! کتنی دیر ہے کھانے میں۔ “
“بس بابو جی۔۔۔۔! آپ کپڑے بدل لیجئے۔ کھانا ابھی لگاتی ہوں۔ ” فرخندہ کی آواز کے ساتھ ہی جیسے ایک کھلبلی مچ گئی اور سب بچیاں دستر خوان لگانے میں جُت گئیں۔ شاکر علی نے اپنی کرسی ہاجرہ کی جھنگولا چارپائی کے اور قریب کی پھر دھیمی آواز میں بولا۔
“تو آج پھر تم۔۔۔۔۔؟”
“ہاں۔۔۔۔! ” ہاجرہ نے مزاحمتی لہجے میں کہا۔
“دائی بتول کے چکروں میں نہ پڑو، ہاجرہ۔۔۔۔! کیا کمی ہے ہمارے ہاں۔۔؟”
“کمی۔۔۔۔؟” ہاجرہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح اس کی طرف پلٹی اور بولی۔ “تمہیں تو زندگی میں کبھی کسی شے کی کمی لگی ہی نہیں شاکر علی! تم کس مٹی کے بنے ہو؟ میں نہیں جانتی۔۔۔۔ مگر میں تو۔۔۔ ” اس کی آواز رُندھ سی گئی۔ چند ثانیے بے رحم سی خاموشی بد نما چمگادڑ کی طرح ان کے اطراف پھڑپھڑاتی رہی پھر ہاجرہ نے ہلکی سی سسکی بھر کے دوپٹے کے کونے سے پلکوں کو رگڑا اور بولی۔
“ہر برس اس آس میں جنتی رہی کہ اب کی بار شاید اب کی بار مگر۔۔۔۔! ” وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح سر پکڑ کے بیٹھ گئی۔
“اری کملی۔۔۔۔! رب سے جھگڑا نہ کیا کر۔۔۔۔ کبھی خاک کو آسمان سے الجھتے دیکھا ہے تو نے۔۔۔؟”
“ہاں دیکھا ہے۔۔۔۔ ” وہ سرکشی سے بولی۔ “جب خاک ہواؤں کی زد میں مسلسل رہتی ہے تو بگولہ بن کے اوپر کو اٹھتی ہے۔ اپنا ماتم کرتی ہے، آہ و بکا کرتی ہے۔ “
“جو بات اپنے بس کی نہ ہو، اس پر جھگڑنا کیسا۔۔۔۔۔؟” وہ حلاوت سے بولا۔ “اپنے اندر کا شور سنبھال کے رکھ۔۔۔۔ یہ تو انجن کا ایندھن ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اس سے زندگی کی کھیتی پر ہل چلا۔ یوں چلّا چلّا کے اسے رائیگاں نہ کر۔۔۔۔
“تُو مجھے بولنے بھی نہ دینا۔۔۔۔۔ “
“میں تو یہ کہتا ہوں کہ جتنا دو اور دو چار کرے گی، اتنا حساب بگڑے گا اور کیا بیٹی، کیا بیٹا۔۔۔ کسی کسی کو تو بیٹی بھی نصیب نہیں ہوتی۔ “
ہاجرہ نے پھنکارتے ہوئے سر اٹھایا اور شاکر علی کو یوں دیکھا کہ ایک لمحے کو وہ بھی سہم گیا اور پھر اونچی آواز میں بولی۔ ” سات بیٹیاں ہیں، پوری سات۔۔۔! کبھی سوچا تم نے۔۔۔؟”
شاکر علی نے چوروں کی طرح آس پاس دیکھا۔ سہمی سمٹی اپنے وجود پر پشیمان بیٹیاں سر جھکائے خود کو مصروف رکھنے کی کوشش میں دستر خوان پر برتنوں کو اٹھانے رکھنے کی شش و پنج میں تھیں۔
شاکر علی نے اٹھ کر دالان کے ایک کونے میں رکھی پانی کی چھوٹی سی ٹنکی سے ہاتھ دھوئے اور پھر کمرے میں بچھے فرشی دستر خوان پر آ کے بیٹھ گیا۔ ہاجرہ اور سب لڑکیاں آس پاس بیٹھ گئیں۔ شاکر علی نے شفقت سے بیٹیوں کو دیکھا پھر پلیٹ میں ترکاری ڈالتے ہوئے بولا۔ “اری نیک بخت! ہم تو جنّتی ہیں، جنّتی۔۔۔۔۔! جو ایسی خوش اطوار و فرمانبردار بیٹیوں کو اپنی آخرت کا وسیلہ بنا رہے ہیں۔ کیا تو جانتی ہے کہ سات کا ہندسہ کتنا متّبرک ہے۔۔۔۔؟”ایسا کہتے کہتے اس نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی۔ بیٹیوں کے سہمے چہروں پر زندگی کی رونق سی بکھر گئی۔۔۔۔ لیکن ہاجرہ چپ تھی۔۔۔۔
“بابو جی! وہ کیسے۔۔۔۔۔؟” زبیدہ سے ضبط نہ ہو سکا۔
“دیکھ بیٹا۔۔۔۔! آسمان سات۔ کیوں؟” ہاجرہ کے سوا سب نے تائید میں سر ہلایا۔ ” زمینیں سات۔ سمندر سات اور میں نے اس وقت نوالے بھی کھائے ہیں سات۔۔۔۔ ” بچیاں ہنسنے لگیں اور اپنی روٹھی سی امّاں کو کن انکھیوں سے دیکھنے لگیں۔
کچھ دیر بعد ہاجرہ بولی۔ ” جہنم کے دروازے بھی سات ہیں شاکر علی؟”
” اری۔۔۔۔! تو، تو بہت پڑھی لکھی ہو گئی ہے۔ ” شاکر علی نے اسے چھیڑنے کی کوشش کی۔ ہاجرہ نے بڑا سا لقمہ نگلتے ہوئے پانی کا گلاس اٹھایا۔ اب اس کے چہرے کا تناؤ کچھ کم ہو گیا تھا۔
“دائی بتول آج ایک پیر صاحب کے ہاں بھی لے گئی تھی۔ ” اس نے دھیمے لہجے میں انکشاف کیا۔ شاکر علی کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں پکڑ کے چھوڑ دیا لیکن وہ خود پر قابو پاتے ہوئے بولا۔ ” ابھی تک تو دائی بتول تمہیں نیم حکیموں اور کمپاؤنڈروں کے چکر لگواتی رہی ہے اور اب پیروں فقیروں کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا؟”
” جب انسان مایوس ہوتا ہے تو ہر دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ ” ہاجرہ کہتی ہوئی دستر خوان سے اٹھ گئی۔
٭٭٭
برآمدے میں بجلی کا چھوٹا سا بلب جل رہا تھا۔ باقی پورے گھر میں اندھیرا تھا۔ شاکر علی اٹھ کے بیٹھ گیا۔ چارپائی کے نیچے پاؤں لٹکا کے اس نے اپنی جوتیاں تلاش کیں پھر بغیر آواز کیے دھیرے سے اٹھنے کی کوشش کی۔ مدھم سی روشنی میں اس نے کمرے اور برآمدے میں بچھی چارپائیوں کو دیکھا۔ ایک ایک چارپائی پر دو دو بیٹیاں ہمجولیوں کی طرح لپٹی پڑی تھیں۔ اس نے سب پر چھچھلتی ہوئی نگاہ ڈالی اور پھر اس کی نظر بڑی بیٹی فرخندہ پر ایک لمحہ ٹھہر گئی۔ وہ تیزی سے دالان کی طرف آیا۔ بہت دور آسمان پر ستارے تھے۔ خاموش مگر معنی خیز۔۔۔۔! شاکر علی نے اپنی سلوٹوں بھری پیشانی کو چھُوا پھر اپنی کھچڑی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑ بڑانے لگا۔
“تیری بیٹیاں جوانی کی طرف بڑھ رہی ہیں شاکر علی۔۔۔۔! لیکن تیری بیوی کے اور تیرے دل میں وارث کی آرزو ہے کہ چین نہیں لینے دیتی۔۔۔۔ یار۔۔۔! تجھے کس چیز کا وارث چاہیے؟ بھوک کا یا مسائل کا؟
اس گھر کے اتنے جنے ہیں پھر بھی یہاں سکوتِ مرگ طاری رہتا ہے۔۔۔۔ ایک نامعلوم سا انتظار۔۔۔۔! “
نیم اندھیرے دالان میں کھڑے کھڑے اسے اپنی آنکھوں سے پانی بہتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے تیزی سے چہرے پر ہاتھ پھیرا پھر بولا۔۔۔۔۔ “ناشکرے! ایسا تو نہ کر۔۔۔۔ ” نمازِ تہجد کے لئے ٹھنڈے پانی سے وضو کرتے ہوئے اسے لگ رہا تھا جیسے کسی صحرائی میدان میں جلتے الاؤ کی بجھتی لکڑیوں پر آخری پہر کی شبنم گر رہی ہو۔۔۔۔۔ قطرہ قطرہ۔۔۔۔۔
٭٭٭
گلی میں جوتیاں گھسیٹ کے چلنے کی آواز تیز ہو گئی۔ چوکھٹ کا ادھ کھلا دروازہ کھٹ سے کھلا۔ ٹاٹ کا پردہ تیزی سے سرکا اور دائی بتول ہانپتی کانپتی نمودار ہوئی۔ دالان کی جس چارپائی پر ہاجرہ بیٹھی تھی، اس کی پائنتی پر دائی بتول دھم سے آ گری اور حسب معمول کراری آواز میں پکارا۔۔۔۔ “اے بڑی۔۔۔! ذرا گلاس بھر کے پانی تو لا۔۔۔ ہائے! دم پھول گیا۔۔۔۔ ” فرخندہ نے پانی بڑھاتے ہوئے ماں کو دیکھا جو کب سے انتظار کی سولی پر ایسی ٹنگی تھی کہ اترنے کا نام نہ لے رہی تھی۔
“اے بیوی۔۔۔۔! ” دائی بتول نے پانی کا بڑا سا گھونٹ بھرا۔ “قسم لے لو۔۔۔ میں تو دو گھنٹے پہلے آ جاتی۔۔۔ ہائے! مگر۔۔۔ اس محلے میں ہر دم کوئی نہ کوئی کھٹ پٹ چلتی رہتی ہے “
ہاجرہ اپنے تجسّس کو دباتے ہوئے بولی ” دائی بتول۔۔۔۔ تم ہی نے تو کہا تھا کہ بارہ بجے تک پیر صاحب اپنا آستانہ بند کر دیتے ہیں۔ اب بھلا بتاؤ۔۔۔۔ ہم کب نکلیں گے اور کب پہنچیں گے۔۔۔؟”
“تم ٹھیک ہی کہو ہو بیوی۔۔۔۔! مجھے بھی یہی فکر کھائے جا رہی تھی مگر اس محلے کی عورتوں کے قضیے تو ختم ہوں۔ میں تو اپنے گھر سے صبح نو بجے نکل پڑی تھی مگر نکلتے ہی۔۔۔۔ ” وہ بات ادھوری چھوڑ کے غٹا غٹ پانی پینے لگی۔
“آخر ہوا کیا؟” ہاجرہ نے خفگی کو دباتے ہوئے پوچھا۔
” اے بی۔۔۔۔ تمہیں کیا بتاؤں؟” دائی بتول نے تجسّس کو ہوا دی اور دونوں پاؤں چارپائی پر جما کے آگے کو کھسک آئی۔ اس کا برقعہ جو فقط نام ہی کا تھا فرش پر لٹکنے لگاجسے دیکھ کے قریب کھڑی ساجدہ اور عابدہ منہ دبا دبا کے ہنسنے لگیں۔
“اے! اس محلے کی کن گھسی عورتیں ہر وقت گن سن میں ایسی مگن رہتی ہیں کہ رائی کا پہاڑ روز بنتا، روز ٹوٹتا ہے۔ اب نہ معلوم، کس نگوڑی کو خبر ہو گئی؟” وہ بولی۔
“کیا۔۔۔۔؟؟” ہا جرہ نے پوچھا۔
“یہی کہ تم بیٹے کی چاہ میں علاج معالجہ کراتی پھر رہی ہو اور پیروں فقیروں کے ہاں پھیرے لگا رہی ہو”۔ دائی بتول نے اپنی ٹھوڑی پر انگلی رکھ کے چہرے پر تشویشناک خط کھینچ دیئے۔
“مجھ سے کوئی پوچھ کے دیکھے تو بتاؤں؟” ہاجرہ تنک کر بولی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی زبان کی تُندہی سے محلے والیاں ڈرتی ہیں۔
“اپنے کَچر گھان تو سنبھلتے نہیں اور دوسروں کی آل اولاد کی خبر گیری میں لگی رہتی ہیں۔ اس محّلے کے روتے بلکتے، بھوکے ننگے بچے ساری ساری دوپہر آوارہ پھرتے ہیں جیسے ان کا کوئی گھر بار نہ ہو ان کی ماؤں کو ان کی فکر تو ہوتی نہیں اور میرے گھر کی ٹوہ میں یہ ناس پیٹیاں لگی رہتی ہیں۔۔۔۔ “
ہاجرہ کو غائبانہ صلواتیں سناتے دیکھ کے دائی بتول کو یقین ہو گیا کہ اس کا غصہ اب نکل چکا ہے۔ وہ مصری کی ڈلی جیسا لہجہ بنا کے بولی۔
“اے بیوی۔۔۔۔! پروا نہ کرو۔۔۔۔ کل سویرے سویرے آ جاؤں گی اور تمہیں پیر صاحب کے ہاں لے جاؤں گی۔ “
٭٭٭
شاکر علی نے دودھ کے ابلتے کڑھاؤ کے نیچے جلتے الاؤ کی لکڑیاں باہر کی طرف کھینچ کے اسے دھیما کیا پھر اسٹین لیس اسٹیل کی لٹیا میں دودھ لے کر اسے آبخورے میں الیچنے لگا۔ اس کی دکان پر حسب معمول گاہک جمع تھے۔
” شاکر علی! تیری دکان کا دودھ بہت لذیذ ہوتا ہے۔ آخر تو کس باڑے سے دودھ لاتا ہے؟” ایک گاہک بولا۔
“یہ سب تو شاکر علی کی نیت کا کرشمہ ہے کہ اس کے دودھ دہی کی مثال پوری بستی میں نہیں ملتی۔ ” دوسرے گاہک نے کہا۔
شاکر علی زیر لب مسکراتا رہا۔ اس کی شخصیت میں نیاز مندی کے ساتھ اک سوزِ دروں بھی تھا جو آج کسی انجانی لہر سے باہم ہو کے دو آتشہ ہو رہا تھا۔ اس کی ہمیشہ جھکی رہنے والی نگاہوں میں جھلملاتے ستارے پلکوں کی اوٹ سے صاف نظر آ رہے تھے اور چہرہ جیسے کسی حسین خواب کی پھوار سے بھیگا ہوا تھا۔ منتظر گاہک کو دودھ کا آبخورہ پکڑا کے اس نے ابلتے کڑھاؤ سے گھی سے تر موٹی سفید بالائی کی لیر اتار کے گاہک کے آبخورے میں ڈال دی۔ گاہک خوش ہو گیا اور بولا۔
” شاکر علی! ویسے تو، تُو وزن کا پکا ہے مگر آج تو لگتا ہے جیسے سخاوت پر اتر آیا ہے۔ “
“ہاں، میرا تو آبخورہ دودھ سے چھلکا دیا ہے۔ ” دوسرا بولا۔
شاکر علی حسبِ عادت سر جھکائے مسکراتا رہا۔ آج وہ قصداً ناپ سے زیادہ تول رہا تھا اور اس میں اک رمز تھا۔ وہ ایک خاموش نذرانہ اپنے محلے کے لوگوں میں راز داری سے بانٹ رہا تھا۔
گزری رات کے آخری پہر جب وہ تہجد پڑھنے اٹھا تھا تب ہاجرہ بھی کسمسائی تھی اور پھر وہ اٹھ کے بیٹھ گئی تھی۔ شاکر علی سمجھا تھا کہ کسی خواب نے اسے جگا دیا ہے مگر اس نے راز داری سے بتایا تھا۔ ڈاکٹرنی نے رپورٹ دے دی ہے، وہ پھر امید سے ہے۔۔۔ “اور اب کی بار۔۔۔۔ ” وہ تھوڑا چپ ہوئی۔ “پیر صاحب نے کہا ہے کہ اب کی بار مراد ضرور پوری ہو گی۔ “
شاکر علی نے دیکھا تھا۔ اس رات بہت دور اپنی مخصوص جگہ پر چمکنے والا اور ستاروں سے بڑا ستارہ زیادہ روشن تھا۔ اسے آہ سحر گاہی میں معمول سے سوا سرشاری کا احساس ہوا۔۔۔۔ یہ خفی اشارے، یہ نامعلوم سگنل اور ہی کسی سمت سے آتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے اور پھر اس نے صبح دم دکان کی طرف جاتے ہوئے بخشو کمہار کے چاک پر ایک دیدہ زیب اور جسیم کوزہ گھومتا دیکھا تھا۔ وہ ذرا کی ذرا ٹھہرا تھا۔ بخشو نے سر اٹھا کے اسے دیکھا تھا۔ دونوں میں مسکراہٹ کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔
٭٭٭
رسوئی میں جھوٹے برتنوں کا ڈھیر تھا اور دالان میں بنی سیمنٹ کی پختہ ہودی میں لگے برما کے نلکے کے نیچے میلے کچیلے کپڑے دھونے کے لئے پڑے تھے۔
فرخندہ نے ننھی کو نہلا دھلا کے پھولدار فراک پہنا دی تھی۔ اس کے گیلے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے فرخندہ نے نظر اٹھا کے ماں کو دیکھا جو برآمدے میں پڑی چارپائی پر گھر گرہستی سے بے خبر سپنوں میں ڈوبی بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر ایسا نکھار تھا جو فرخندہ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ سات بیٹیوں کی ماں ہونے کے باوجود اب بھی پُر کشش اور طرحدار عورت لگتی تھی اور اب کچھ دن سے اس کا یہ معمول بن گیا تھا کہ سارا دن کھجور کے باندوں سے بنی جھنگولا چارپائی پر بیٹھی خوابوں کا سوت کاتتی رہتی تھی اور شام ڈھلے خود کو بازارِ مصر کی بڑھیا کی طرح پُر اعتماد پاتی تھی جو سوت کی ایک اَٹّی کے عوض یوسف کو خریدنے چلی تھی اور اسے اعتماد تھا کہ وہ یوسف کو خرید بھی لے گی۔
ڈیوڑھی کی دیوار پر بیٹھا کّوا بڑی دیر سے کائیں کائیں کر رہا تھا اور فرخندہ گرہستی کے چھوٹے موٹے کئی کام نبٹا کے اب میلے کپڑوں کو صابن لگا کے ڈنڈے سے کوٹ رہی تھی۔۔۔۔
جھاگ اور پانی کے چھینٹے اس کے اطراف اُڑ رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی، آنے والا کون ہو گا۔۔۔۔؟ بھائی۔۔۔ یا بہن؟؟ پھر اس نے سر جھٹک دیا۔ یہ سوال اس کے لئے کسی خواب کا دروازہ نہیں کھولتا تھا۔ وہ تو بس اتنا جانتی تھی کہ خدمتگاری اس کا مقّدر ہے۔ ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی اس نے خود کو گھر گرہستی کے کاموں میں الجھا ہوا پایا تھا۔ گُڑیوں سے کھیلنے کی عمر میں اس نے چھوٹی بہنوں کی پرورش کی تھی اور کرتا بھی کون۔۔۔۔؟ا مّاں کو تو ہر سال بچہ جننے سے ہی فرصت نہ تھی۔ ایک کسی قابل نہ ہوتی تھی کہ دوسری آ جاتی تھی اور آتے ہی لڑکی ہونے کے طعنے اس پر برسنے لگتے تھے۔۔۔۔
فرخندہ کو اپنی بہنوں سے محبت سے زیادہ ہمدردی تھی۔ وہ ہمہ وقت ان کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مصروف رہتی اور کبھی بد دل نہ ہوتی تھی لیکن جب نوجوانی کا شوں شوں کرتا جھاگوں بھرا سمندر اس کے تھکے ماندے وجود سے ٹکریں مارتا تو وہ گھبرا جاتی تھی۔
٭٭٭
کمرے سے لے کر دالان کے آخری کونے تک گھمبیر خاموشی طاری تھی۔ گرمائی پُروا چلتی تو دالان میں کھڑے سیدھے تنے کے املتاس سے پھولوں کے زرد رنگی خوشے اور بیضوی شکل پتے بہا کے لے جاتی اور پھر انہیں پورے دالان میں اڑائے اڑائے پھرتی۔ گھر بھر میں چپ کا راج تھا پھر بھی کونے کونے سے سرگوشیاں اٹھ رہی تھیں۔
فرخندہ نے چولھے پر پانی کا دیگچہ چڑھایا ہوا تھا اور چولھے کی راکھ کو چمٹے سے کرید رہی تھی۔ زبیدہ چھوٹے کمرے میں جائے نماز پر بیٹھی تھی۔ اس نے سر پر بڑا سا دوپٹہ لپیٹا ہوا تھا۔ وہ گرچہ صرف بارہ برس کی تھی لیکن خضوع و خشوع کے ساتھ عبادت میں مصروف تھی۔ اس کے قریب ہی تابندہ جائے نماز کے کونے پر بیٹھی تھی۔ اس کا فراک فرش پر پھیلا ہُوا تھا اور وہ بلند آواز سے بھائی کے آنے کی دعا مانگ رہی تھی۔ شائستہ اور عابدہ لوہے کے ٹرنک کے اوپر بچھے کھیس پر بیٹھی گُڑیوں سے کھیل رہی تھیں۔ ساجدہ ننھی کو سنبھال رہی تھی لیکن ننھی بار بار اس کا ہاتھ چھڑا کے بڑے کمرے کی طرف بھاگتی جہاں بستر پر لیٹی ہاجرہ درد سے بے حال تھی۔ شاید آنے والے کی آمد آمد تھی۔ انجانی مسرت، نامعلوم خوف سب کچھ دھندلا دھندلا سا تھا۔ شاکر علی آج دکان پر نہیں گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس بار زچگی ہسپتال میں ہو لیکن خواب بھی خریدار کی جیب ٹٹولتے ہیں۔ دائی بتول محلے بھر کی آزمودہ دائی تھی۔ پھر اس مرتبہ تو اس نے ہاجرہ کی خدمتگاری میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی البتہ اس نے پہلے ہی سے بیٹا ہونے پر دگنا محنتانہ اور ریشمی جوڑا طے کر لیا تھا۔ اس وقت وہ ایک ماہر جرنیل کی طرح چوکس تھی جو محاذِ جنگ کے اسرار و رموز سے مکمل آگاہ ہوتا ہے۔ ہاجرہ پلنگ کی پٹی پر ہاتھ پٹخ پٹخ کے نیم بے ہوش ہو چکی تھی۔ دائی بتول نے کمرے کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کے پکارا۔۔۔۔
“اری او۔۔۔۔ بڑی۔۔۔! کسی طباقی طبقچے میں گرم پانی تو لے آ۔”
فرخندہ چولھے پر چڑھے دیگچے سے جلدی جلدی گرم پانی گہرے برتن میں انڈیلنے لگی۔ دائی بتول کی کراری اور اونچے سُروں والی آواز گھر کے دیوار و درسے جڑے مکانوں میں پہنچ چکی تھی۔ اطراف کی دیواروں سے عورتوں کے سر آہستہ آہستہ نمودار ہونے لگے۔
“اری او۔۔۔۔! ہش۔۔۔! ہش۔۔۔! او فرخی۔۔۔۔! کیا ہوا۔۔۔۔؟”
“اری! کچھ ہوا؟ ترا بھائی۔۔۔۔ یا پھر۔۔۔۔! “
داہنی دیوار سے خالہ صغراں نے اشارے کئے اور پھر دالان میں شاکر علی کو دیکھ کے اپنا سر دیوار کی اوٹ میں کر لیا۔ دائی بتول نے پانی لینے کے بعد دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا۔ شاکر علی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔۔۔ فرخندہ دوبارہ چولھے کے پاس جا بیٹھی تھی وہ تیزی سے راکھ کرید رہی تھی۔ اک جاں گسل انتظار کی جادوئی چھڑی پورے گھر میں گھوم گئی تھی۔
ہاجرہ نے نیم بے ہوشی میں اپنے گربھ استھان میں فطرت اور انسانی آفرینش کو پیچیدہ ہوتے ہوئے پایا۔ اس کے حواس اس کے وجود سے ہٹ کے معلق ہو گئے تھے اور اب اس چھوٹے سے نیم اندھیرے کمرے میں ڈول رہے تھے۔ ہر اک حاسہ کی سمت نامعلوم اور دھندلی تھی۔ اسے اپنے جسم کے روئیں روئیں سے کراہیں بھاپ کی طرح اوپر کو اٹھتی محسوس ہو رہی تھیں۔ گہری غنودگی میں اس نے خود کو عضو عضو بکھرتے دیکھا اور پھر اسی تیزی سے اپنے حواس کو ایک نقطے پر مرتکز ہوتے اور خود کو مکمل وجود میں جُڑتے پایا۔ یک بیک زمین و آسمان کے درمیان ایک باریک مگر بہت گہری چیخ سنائی دی اور ہاجرہ خواب اور بے خوابی کی کیفیت سے ماورا ہو کے عمیق اور اندھیرے غار میں اترتی چلی گئی لیکن اس عمل سے گزرتے گزرتے اس نے اپنے اندر آفرنیش کے کشکول کو چٹختے ہوئے دیکھا۔ چٹخنے کی آواز کے ساتھ ہی باقی آوازوں سے اس کا رابطہ منقطع ہو گیا۔
کمرے کے بند دروازے پر مسلسل تھاپ پڑ رہی تھی۔ ننھی اور تابندہ چلّا چلّا کے کہہ رہی تھیں۔ “امّاں! دروازہ کھولو۔۔۔۔! بھائی کو دیکھوں گی، دروازہ کھولو۔۔۔! اماں۔۔۔! بھائی۔۔۔! ” ہاجرہ کے دُکھتے ہوئے نحیف بدن میں خفیف سی حرکت ہوئی۔ غنودگی کا غلبہ گہرا تھا لیکن ایک نئی روتی پکارتی آواز اس کے کانوں میں پڑی تو لگا جیسے منوں شہد سماعت میں گھل گیا ہے۔ اس نے جھٹ آنکھیں کھول دیں۔۔۔۔ لکڑی کے پنگھوڑے میں نوزائیدہ تھا۔۔۔ یا تھی، جس کے بلک بلک کے رونے نے ہاجرہ کو بے قرار اور متجسس کر دیا۔ اس نے تیقن سے دائی بتول کی طرف دیکھا اور بولی۔ “۔۔۔۔ بیٹا ہُوا ہے نا۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ میرا بیٹا ہے نا۔۔۔؟” پھر اس نے کروٹ کے بل اٹھنا چاہا مگر ایسا نہ کر سکی۔
دائی بتول کی قینچی کی طرح چلنے والی زبان تالو سے چپکی ہوئی تھی اور وہ زچہ و بچہ سے دور پلنگ کی پائنتی کے قریب سکتے کی سی کیفیت میں کھڑی تھی۔ اس کا گہرا سانولا رنگ جامنی ہو گیا تھا اور موٹی موٹی آنکھیں باہر کو اُبلی ہوئی تھیں۔ عجیب و غریب دہشت کی چھاپ اس کے خد و خال کو پُر اسرار بنا رہی تھی۔
ہاجرہ نے حیرت اور سراسیمگی سے دائی بتول کو دیکھا اور بولی۔ “دیکھو تو۔۔۔۔ وہ کیسا بلک رہا ہے اور تم۔۔۔۔! ” جملہ ادھورا چھوڑ کے اس نے چادر سے اپنا پاؤں باہر نکالا اور اٹھنے کے لئے اسے پٹی پر جمانے لگی۔ ذرا سا ترچھا ہو کے اوپر کو اٹھی۔ یکدم دائی بتول جیسے کسی جادوئی اثر سے باہر آ گئی۔ اس نے تیزی سے بڑھ کے ہاجرہ کے بازو پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے تقریباً زبردستی لٹاتے ہوئے بہت دھیرج سے بولی۔۔۔۔ “ابھی تمہیں اٹھنا نہیں چاہیے۔ ” پھر اس نے رک کے کچھ سوچا اور بڑبڑانے کے سے انداز میں کہنے لگی۔ “میں نے بچے کی آنول نال کاٹ دی ہے۔۔۔۔ اب اس کے باوا کو بلا کے لاتی ہوں کہ اس کے کانوں میں اذان دے کے اسے گھٹی دے دے۔۔۔ اور تم۔۔۔ ہلنا جلنا مت ہی۔ “اتنا کہہ کے وہ دروازہ کھولنے کو آگے بڑھی مگر بیکل ہاجرہ تڑپ کے رہ گئی۔ “دائی بتول۔۔۔۔! ” اس کی پکار میں شدید احتجاج تھا۔ دائی بتول کے قدم رُک گئے۔ چند لمحے وہ پشت کئے کھڑی رہی۔ کچھ سوچتی رہی پھر تیزی سے پلٹی اور پنگھوڑے سے بچہ اٹھا کے اسے ہاجرہ کے پہلو میں لٹا دیا۔۔۔۔ ہاجرہ کی آنکھوں کے ڈھیلے امید اور نا امیدی کے منظروں کے بیچ ڈولنے لگے اور اس سے پہلے کہ پھر کوئی خیال دائی بتول کو روکتا، اس نے جلدی سے بچے کی ٹانگوں کے اوپر سے کپڑا ہٹا دیا۔ ہاجرہ جو تجسّس کے مارے کہنی کے بل داہنی کروٹ پر ذرا سا اُٹھ گئی تھی، یوں ساکت و جامد ہو گئی جیسے سنکھیا سونگھ لی ہو۔ دونوں عورتیں یک ٹک ایک دوسرے کو خالی خالی نگاہوں سے دیکھتی رہیں اور پھر بہت آہستگی سے ہاجرہ کی داہنی کہنی کھسکی اور اس کا سر سرہانے کی پٹی سے ٹکرا گیا۔۔۔۔ دائی بتول نے گھبرا کے اس کا چہرہ ہاتھوں میں لے کے جھنجوڑا۔
“ہاجرہ! حوصلہ کر۔۔۔۔ ہوش میں آ۔۔۔ آنکھیں کھول بیوی ہاجرہ! ” نیم بیہوشی میں ہاجرہ کو دائی بتول کی پکار لکڑ بھگے کی ہنستی سسکتی چیخ میں تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہوئی پھر آس پاس بھیڑیوں کے ہُوکنے کی آوازیں آنے لگیں جو رفتہ رفتہ غمناک وحشی قہقہوں میں تحلیل ہوتی گئیں پھر دیکھتے ہی دیکھتے تنگ و تاریک گلیوں سے ننگ دھڑنگ بچوں کی کھیپ تعفّن زدہ گٹروں کو پھلانگتی رلتی شور مچاتی اس کے گھر کی طرف بڑھی۔ کالے سوکھے ٹیڑھی ہڈیوں والے آوارہ بچے، بے مصرف جیئے جانے والے۔۔۔ بے خواہش پیدا ہونے والے بچے۔۔۔ جو کسی کا خواب نہ تھے۔ انسانی سروں کا خوفناک بہاؤ لئے اس کے گھر کی طرف بڑھے اور پھر ہاجرہ نے دیکھا کہ اس کے پہلو میں پڑے چند سانسوں کے تہمت گزار اس لوتھڑے کو وہ سب کچلتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ کوئی انہیں روکنے والا نہیں تھا۔ کوئی دیکھنے والا نہیں تھا۔ زمین اعصاب زدہ ہو گئی تھی۔ آسمان خمیدہ کمر تھامے پشیمان کھڑا تھا اور ہاجرہ آوازوں کا بہیمانہ وار تنہا سہہ رہی تھی یکدم اسے کسی نامعلوم سمت سے اپنے پیر صاحب آتے دکھائی دیئے۔ ان کے ایک ہاتھ میں لپکتے شعلے تھے اور دوسرے میں کانٹے دار جھاڑیاں۔۔۔۔ وہ اس کی سمت بڑھے آ رہے تھے کہ ہجوم کو دھکیلتا چیرتا ہوا مکروہ صورت کمپاؤنڈر جو دائی بتول کے مطابق لائق فائق ڈاکٹر تھا، اس کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا۔ ہاجرہ نے دیکھا، اس کے ہاتھ میں زہر سے بھری ایک سرنج تھی جس کی سوئی گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ سرنج کی سوئی کئی فٹ لمبی ہو گئی اور پھر عین اس کے جسم میں کھب گئی۔۔۔۔ شدت کرب سے وہ نڈھال ہو گئی۔ اس کی آنکھوں کے گرد اندھیرا بڑھنے لگا۔ وہ اٹھ کے بھاگنے لگی اور بھاگتی چلی گئی۔ دور بہت دور۔۔۔۔ یہاں تک کہ اس کا سامنا اپنے خالق سے ہو گیا جو پُراسرار خاموشی کے ہالے میں تھا۔ ہاجرہ نے کچھ کہنا چاہا مگر آس پاس کھڑی انجانی مخلوق کے ہونٹوں پر چبھتی ہوئی تمسخرانہ مسکراہٹ دیکھ کے وہ حوصلہ ہار گئی اور دھم سے زمین پر گر پڑی پھر بے اختیار سسکنے لگی۔۔۔۔
“اٹھ ہاجرہ! آنکھیں کھول۔۔۔۔ دیکھ، میں شاکر علی کو بلا کے لاتی ہوں۔۔۔۔ ہوش کر بیوی۔۔۔۔! انسان تو بے بس ہے۔۔۔۔ ” ہاجرہ نے دائی بتول کی آواز سن کے اپنی بجھی بجھی سی آنکھیں کھولیں۔ اس کے ہونٹوں سے آہیں نکل رہی تھیں اور چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔۔۔۔۔
دالان میں کھڑے شاکر علی نے املتاس کے پتے کو مسلتے ہوئے منتظر اور متوحش نگاہوں سے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا۔ یکا یک اسے گلی میں اونچی تال پر ڈھول بجنے کی آواز سنائی دی۔ شاکر علی نے دروازے پر پڑے ٹاٹ کے پردے کو ہلکا سا ترچھا کر کے باہر جھانکا۔۔۔۔ نیلے پیلے، سرخ چمکدار کپڑوں میں ملبوس تالی پیٹتی ہوئی ایک ٹولی اس کے گھر کی طرف بڑھی آ رہی تھی۔ ان کے ہاتھوں میں ڈھولکی اور دف تھی۔ وہ ناچتے گاتے والہانہ انداز سے آگے بڑھ رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ شاکر علی دروازہ بند کرنے کی کوشش کرتا، وہ گھر کی چوکھٹ پر قبضہ جما چکے تھے۔ ان کے چہروں پر پاؤڈر اور غازے کی دبیز تہیں تھیں۔ آنکھوں میں کاجل کے گہرے ڈورے اور ہونٹوں پر آتشیں سرخی کی لپکیں۔۔۔۔ شور شرابہ سن کے گلی کے گھروں کے دروازوں پر پڑی سر کنڈے کی چقوں اور ٹاٹ کے پردوں کے پیچھے سے عورتیں جھانکنے لگیں۔
شاکر علی ہاری ہوئی فوج کی طرح پیچھے ہٹنے لگا اور ہیجڑوں کی ٹولی آگے بڑھتی گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ صورت حال کو قدرے سنبھالتا، اس نے ہاجرہ کے کمرے کا دروازہ کھلتے اور دائی بتول کو تیزی سے اپنی طرف آتے دیکھا۔ دائی بتول اسے اشارے سے بلاتی ہوئی املتاس کے درخت کے قریب لے گئی اور کھسر پھسر کرنے لگی۔ شاکر علی کے چہرے پر ایک تغیر سا آیا اور پھر جیسے اس کا رنگ کورے لٹھے کی طرح سفید پڑ گیا۔ اس نے اپنی کانپتی ٹانگوں کو جنبش دیتے ہوئے سراسیمگی سے آس پاس دیکھا۔ مکان کے اطراف کی دونوں دیواروں سے پڑوسنیں جھانک رہی تھیں اور دائی بتول کو اشارے کر کے سوال کر رہی تھیں۔۔۔۔ ہیجڑوں کی کرکیلی آوازیں اور طمانچے کی طرح پڑتی تالیاں شاکر علی کو عین اپنے دل پر کند کلہاڑے کے وار کی طرح محسوس ہوئیں۔ وہ تیزی سے اندر کو لپکا۔ کمرے میں مخصوص بساند پھیلی ہوئی تھی۔ ہاجرہ چارپائی پر سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور اس کا دایاں ہاتھ کہنی تک اس کی آنکھوں پر رکھا ہوا تھا۔ پہلو میں وہ تھا۔۔۔۔۔ وہ کہ جس کے خوابوں نے ہاجرہ کو پتھر بنا دیا تھا لیکن اب وہ خود اس کے پہلو میں پتھر کی طرح چبھ رہا تھا۔
شاکر علی ایک بے خواہش انسان کی طرح بے حس و حرکت کھڑا ہو گیا۔ دائی بتول نے اسے نظر بھر کے دیکھا پھر بچے کو گود میں اٹھا کے اس کے قریب کرتے ہوئے قدرے حقارت سے بولی۔۔۔۔ “جانے خاک کم پڑ گئی کہ خاک میں ڈالی گئی آگ کم پڑ گئی۔۔۔۔ ” ایسا کہتے کہتے اس نے بچے کے اوپر سے کپڑا ہٹا دیا۔ شاکر علی ایک جھٹکے سے پیچھے کو ترچھا ہوا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا۔ اس اندھیرے میں اسے اپنے جسم کے کٹے پھٹے اعضاء دکھائی دیئے جنہیں ایک لوتھڑے کی شکل میں تخلیق کے ضابطے سے مبرا ہو کے جوڑ دیا گیا تھا۔ یکدم اسے بخشو کمہار کا گھومتا ہوا چاک یاد آ گیا پھر ایک کونے میں پڑے ٹیڑھے میڑھے ناقابلِ استعمال مٹی کے کوزے یاد آ گئے جن کی تجسیم کا عمل چاک کی تیزی کے آگے ناقص رہ گیا تھا۔ شاکر علی کا سر گھومنے لگا۔ بالکل ایسے جیسے چاک گھومتا ہے اور پھر اسے یوں لگا جیسے پورا کا پورا آسمان چاک بن گیا ہے۔ ایک کونے سے لے کے دوسرے کونے تک کی زمین کمہار کی تغاری بن گئی ہے۔ وہ خود اس چاک پر گھومتا ہوا مٹی کا کوزہ ہے جو ہر لمحے ٹوٹنے چٹخنے کے خوف سے گزر رہا ہے اور۔۔۔۔ دور کسی منطقے پر کھڑی دائی بتول چڑیلوں جیسی ہیئت کے ساتھ بال کھولے دانت نکوسے ہنس رہی ہے اور چیخ چیخ کے کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔ “دیکھو تو لوگو! دیکھو تو۔۔۔۔ خاک کم پڑ گئی ہے۔۔۔۔ ارے نہیں، نہیں۔۔۔۔ خاک میں ڈالی گئی، آگ کم پڑ گئی ہے۔۔۔۔۔ ” شاکر علی نے اپنے دائیں ہاتھ کو ماتھے پر جما کے آنکھیں بند کر لیں اور پھر کسی بھی طرف دیکھے اور کچھ بولے بنا سر جھکا کے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔ دالان میں ہیجڑوں کی ٹولی اپنا رنگ جما چکی تھی۔۔۔ ان کے ٹھمکے اور بد آوازوں سے گائی جانے والی عامیانہ بدھائیاں اونچی تال پر بجتے ڈھول کے ساتھ ایسا سماں پیدا کر رہی تھیں جیسے کسی گہرے اندھیرے جنگل میں آندھیاں دھاڑ رہی ہوں۔ سیاہ بالوں کی لٹیں چہرے پر گرائے عورتیں نما مرد ریشمی بھڑکیلے ملبوسات پہنے بے تکی تھاپ پر زمین کا سینہ کوٹ رہے تھے۔ ان کے گوٹے کناری لگے چمکتے دوپٹے سورج کی ڈوبتی روشنی میں جھلملا رہے تھے اور وہ ایڑیوں کے بل یوں ناچ رہے تھے جیسے اپنے وجود کی دہائی دے رہے ہوں۔
شاکر علی نے دیکھا، فرخندہ نفرت و حقارت سے انہیں باہر کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے اور وہ اپنی ہتھیلی کے زور پر کمر لچکا لچکا کے اس سے بدھائی مانگ رہے ہیں۔ شاکر علی فرخندہ کے قریب آیا اور بہت دھیرج سے بولا۔
“بیٹی۔۔۔۔! انہیں مت دھتکارو۔۔۔ آخر کو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ “
“بابو جی! میں تو بس اتنا کہہ رہی تھی کہ ہمیں زیادہ تام جھام پسند نہیں ہے۔ ” فرخندہ بولی۔۔۔۔ شاکر علی نے جیب سے روپے نکالے اور ہیجڑوں کی طرف بڑھا نے لگا۔
“اے نا۔۔۔۔! بھائی جی نا۔۔۔۔! ایسے تھوڑی۔۔۔ پہلے تو ہم بیٹے کی بلائیں لیں گی پھر جائیں گی۔ ” ایک ہیجڑے نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو موڑ کے کنپٹیوں پر جماتے ہوئے کہا۔۔۔۔
“مگر پتہ تو چلے کہ بیٹا ہوا ہے یا۔۔۔۔ کہ پھر بیٹی؟؟” دائیں ہاتھ والی دیوار سے جھانکتی پڑوسن بلند آواز سے بولی۔۔۔۔ شاکر علی کی آنکھوں کے سامنے دوبارہ سیاہ دائرے ناچنے لگے۔ یہ مرحلہ تو کلیجے پر پتھر کی سل رکھنے سے زیادہ جاں گسل تھا۔ وہ الٹے قدموں یوں کمرے کی طرف پلٹا جیسے ہاجرہ کو یا دائی بتول کو یا۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔ نومولود کو پتہ ہو گا کہ ان سوالوں کو کس صندوق میں بند کر کے کون سے سمندر میں بہانا چاہیے۔ لیکن وہ کمرے کے دروازے ہی پر ٹھٹک گیا۔ اس نے دیکھا، ہاجرہ تکیے کے نیچے سے پرانے کپڑے کی ایک پوٹلی نکال رہی ہے پھر وہ اسے کھولنے لگی۔ دائی بتول کی حریص نظریں ہر کھلتی گرہ پر لگی ہوئی تھیں۔ ہاجرہ نے چند نوٹ اس کی طرف بڑھائے اور بولی۔۔۔۔ “دائی بتول۔۔۔! یہ رہا تمہارا معاوضہ۔۔۔ ” پھر اس نے پوٹلی کی دوسری بڑی گرہ کھولی اور اس میں بندھے تمام نوٹ مٹھی میں دبا کے بہت لجاجت سے بولی۔۔۔۔ ” یہ پیسے میں نے کسی بُرے وقت کے لئے اٹھا رکھے تھے۔۔۔۔ میرے گھر کے دروازے پر جگ ہنسائی دستک دے رہی ہے۔۔۔۔ اب اس سے بُرا وقت اور کیا ہو گا۔۔۔۔؟ تم یہ پیسے بھی رکھ لو۔۔۔ ” یہ کہتے کہتے وہ کراہنے لگی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کے اس کی کنپٹیوں میں جذب ہو رہے تھے۔
“مگر کیوں بیوی۔۔۔۔؟ معاوضہ تو تم دے چکیں۔۔۔۔ ” دائی بتول بولی۔
“ہاں مگر یہ پیسے ہماری بد بختی کو راز میں رکھنے کے لئے ہیں۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ کسی کو پتہ چلے۔۔۔۔۔ میں خودتو کسی کو پتہ نہیں لگنے دوں گی۔۔۔۔ بس تم۔۔۔۔ دائی بتول! تم بھی اپنی زبان بند رکھنا۔۔۔۔ ” ہاجرہ کے لہجے میں بیچارگی، منت و سماجت اور اندیشے تھے۔
” اور جو کسی نے پوچھا۔۔۔۔ جو کہ ظاہر ہے، سب پوچھیں گے۔۔۔ تو۔۔۔۔۔ تو؟؟”
دائی بتول نے گو مگو کیفیت میں پوچھا۔
” کہہ دینا کہ۔۔۔۔ بیٹا۔۔۔ ہوا ہے۔۔۔۔ میں بھی۔۔۔۔ سب سے یہی کہوں گی۔ ” ہاجرہ اٹک اٹک کے بولی۔
٭٭٭
تین دن گزر گئے تھے۔
ان تین دنوں میں ان ساتوں بہنوں کی چودہ آنکھیں چودہ سنگ ریزوں میں بدل چکی تھیں اور ہاجرہ کو اپنے اور نومولود کے جسم پر ان کی نظریں پتھر کی طرح لگتی محسوس ہوتی تھیں۔ وہ ساتوں بہنیں جب ایک دوسرے سے جُڑ کے بیٹھتی تھیں تو شاکر علی کو لگتا تھا جیسے وہ کسی قدیم داستان کے اس بادشاہ کی شہزادیاں ہیں جس نے اپنا تخت و تاج تاراج ہوتے دیکھ کے انہیں وقت کی اوٹ میں شبھ لمحوں کی آس میں چھپا دیا تھا۔ وہ شبھ لمحے تو پھر نہیں آئے مگر وہ اس کے گھر کے آنگن میں یکے بعد دیگرے جمع ہو گئیں۔ ان کے شبھ لمحے کس بات سے مشروط تھے، شاکر علی کی سمجھ میں یہ تو نہ آتا تھا لیکن نو مولود کی پہلی چیخ سے اب تک وہ ساتوں اپنے اپنے انداز سے بیکل و بیتاب سی دکھائی دیتی تھیں۔ وہ بہانے بہانے اس کی چارپائی کے گرد چکر لگاتیں۔ اسے دیکھنے، پیار کرنے کی تمنا میں اس کے قریب جھکتیں لیکن ہاجرہ کی غصیلی اور نوکیلی نظریں دیکھ کے پیچھے ہٹ جاتیں۔
وہ تیسرے دن کی شام تھی کہ جب فرخندہ اک اندازِ دلداری سے ماں کی چارپائی کی پائنتی پر آ کے بیٹھ گئی۔ ہاجرہ تین دن سے اپنے منہ کو لپیٹے بے سدھ پڑی تھی۔ فرخندہ نے آہستہ سے بچے کو گود میں اٹھا لیا اور محبت سے اس کا منہ چومنے لگی پھر کپڑے گیلے ہو گئے ہیں، میں بدل دوں؟”
“نہیں! ” نیم خوابیدہ ہاجرہ چوکنّی ہو کے پھنکاری۔۔۔۔
” تو جا۔۔۔۔ جا! ” وہ اسے گھورتے ہوئی بولی۔۔۔۔ فرخندہ،، ماں کا ہذیانی انداز دیکھ کے سراسیمہ ہو گئی اوراس نے گھبرا کے بچے کو دوبارہ لٹا دیا۔ کھڑے ہوتے ہوئے اس نے ماں کو غور سے دیکھا جس کی آنکھوں میں بے چارگی تھی، خوف تھا پھر ہاجرہ نرمی سے بولی۔ “میں خود اس کے کپڑے بدل دوں گی تیرے کرنے کو اور کئی کام ہیں۔ “
فرخندہ خاموشی سے رسوئی کی طرف چل دی۔ شاکر علی جو یہ سب دیکھ رہا تھا، آہستگی سے آگے آیا اور ہاجرہ کے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا۔ ہاجرہ کراہتی ہوئی اٹھی اس نے بچے کو نہالچے سے اٹھایا اور اس کے کپڑے بدلنے لگی۔ اس کی آہوں میں جسمانی نہیں، روحانی کرب تھا۔ شاکر علی نے بچے کو پیار سے چھُوا اور بولا۔
“کتنا صبر کرنے والا ہے۔۔۔۔ ذرا بھی نہیں روتا۔۔۔۔ “
“اسے تمام زندگی صبر ہی تو کرنا ہے۔۔۔۔۔ ” ہاجرہ طنز سے بولی۔
“ہم نے ابھی تک اس کا نام بھی نہیں رکھا۔ “۔۔۔۔ شاکر علی، ہاجرہ کی تلخی کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔
“نام۔۔۔۔! ! ” ہاجرہ کے ہاتھ تھم گئے اور نظریں کھو سی گئیں پھر جیسے وہ خود سے بولی۔ “میں نے سوچا تھا کہ اس کا نام۔۔۔۔ آفتاب رکھوں گی۔۔۔۔۔ ” شاکر علی نے اس کے ستے ہوئے نم آلود چہرے کو غور سے دیکھا پھر نرمی سے بولا۔۔۔۔ “اچھا نام ہے۔۔۔۔ تو۔۔۔۔ یہی رکھ لیتے ہیں۔ “
ہاجرہ کے چہرے پر چبھتی ہوئی طنزیہ مسکراہٹ آئی پھر وہ بولی۔۔۔۔۔ “ہاں۔۔۔۔! کبھی کبھی اپنے ساتھ بھی مذاق کر لینا چاہیے۔ “
شاکر علی تھوڑی دیر تک گردن جھکائے بیٹھا رہا پھر سمجھوتے اور شکست کے احساس سے نبرد آزما ہوتے ہوئے بولا۔۔۔۔ “دیکھو ہاجرہ! قدرت کے کئے ہوئے کو کوئی بندہ بشر نہیں ٹال سکتا۔۔۔۔ یہ جو تین دن سے تم نے گھر کو آسیب زدہ بنا رکھا ہے تو اس کا حاصل حصول آخر کیا ہے۔۔۔۔؟” ہاجرہ نے چوٹ کھائی ہوئی ناگن کی طرح سر اٹھا کے اسے دیکھا پھر بولی۔ “آسیب تو اس گھر میں ہے ہی۔۔۔۔ تبھی تو کوئی خوشی یہاں کا رخ نہیں کرتی۔۔۔۔ بیٹے کی آس میں یہ کس کو جنم دے دیا ہے میں نے۔۔۔۔ جو نہ بیٹا ہے نہ بیٹی۔۔۔۔ اور تم کہتے ہو کہ میں۔۔۔۔ “اتنا کہتے کہتے وہ گھٹنوں میں سر دے کر سسکیاں بھرنے لگی۔
“میرا مطلب تو صرف اتنا ہے کہ تم بچیوں کو سوالوں میں مت الجھاؤ۔۔۔ ” شاکر علی نرمی سے بولا۔
“ابھی ان کی عمر نہیں کہ ایسی باتیں سمجھ سکیں۔۔۔۔ “وہ ناک پونچھتے ہوئے بولی۔۔۔۔ ” تم نے محلے کی عورتوں اور بچوں کا گھر میں آنا بند کیوں کروا دیا ہے؟ صحن کی دیوار سے پڑوس کی عورتیں بچیوں سے طرح طرح کے سوال کرتی ہیں اور بچیاں اپنے ہی اندر الجھتی رہتی ہیں۔۔۔۔ “
“تو پھر میں کیا کروں۔۔۔۔؟” ہاجرہ نے ہارے ہوئے انداز میں دونوں بازو اپنی گود میں گرا دیئے۔
“کچھ نہ کرو۔۔۔ بس حقیقت کو تسلیم کر لو۔۔۔۔ ” شاکر علی بولا۔
” ایسا مجھ سے نہیں ہو سکے گا۔ ” وہ تڑپ کر بولی۔
شاکر علی نے تاسف سے اپنے ہاتھ ملے پھر دھیمے مگر گہرے لہجے میں بولا۔
“ہم لوگ بھی کیسے لوگ ہیں۔۔۔۔ جو دریا کی خواہش میں پیاسے بیٹھے ہیں لیکن قریب بہنے والی میٹھی ندیوں سے پیاس نہیں بجھاتے۔۔۔ کبھی تم نے سوچا کہ۔۔۔۔ اس گھر میں ان باتوں کی طلب محسوس ہی نہ کی گئی جو بہت ضروری تھیں۔۔۔۔ “
ہاجرہ نے چونک کے اسے دیکھا،
“ہاں ہاجرہ۔۔۔۔! ” شاکر علی بولا۔۔۔۔ “باہمی محبتیں جو بہت سے غموں کے آگے ڈھال بن سکتی تھیں، ایک بیٹے کی خواہش نے ہمیں سات بیٹیوں سے محبت کرنے سے روکے رکھا۔۔۔۔ محبت کی کمی سے ٹھٹھرتی سہمی سہمی یہ لڑکیاں۔۔۔۔ ایک اشارے پر دوڑ دوڑ کے کام کرتی ہوئی۔۔۔۔ ذرا سی توجہ کی طالب۔۔۔۔۔ آخر ہم نے انہی میں اپنی خوشی کیوں نہیں تلاشی۔۔۔۔؟ وہ خواہش جو ہمارے بس میں نہ تھی، اسی کے تعاقب میں بھاگتے رہے۔ گھاٹے کا سودا کرتے رہے۔ جیون کی یہ کیسی دکانداری ہم نے کی؟ اپنی زندگیوں کو مقدور بھر رنگ روپ بھی نہ دکھانے دیا۔۔۔۔ “
٭٭٭
گندھی مٹی کے تغاروں سے سوندھی خوشبو کی مہک اٹھ رہی تھی۔ بھاری مسطح چاک گھوم رہا تھا اور چاک کے بیچ رکھی مٹی کوزوں میں ڈھل رہی تھی۔ شاکر علی بہت دیر سے گم سم بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ چاک پر گھومتے کوزے دھاگے کی ہلکی سی جنبش سے اتارے جاتے تھے اور سوکھنے کے لئے دھوپ میں رکھ دیئے جاتے تھے۔ شاکر علی کو قطار اندر قطار رکھے کوزے
بے زبان مخلوق کی طرح لگے۔ رنجور کوزے، مہجور کوزے، مقہور کوزے۔۔۔۔ یکایک اسے ان کوزوں کی شکل میں انسانی انبوہ اٹھتا دکھائی دیا۔ اس نے چونک کے مٹی سے بھرے تغاروں کو دیکھا جن میں تجسیم کے منتظر کوزے اپنے ہونے یا نہ ہونے کے سوال سے نبرد آزما تھے اور سرِ چاک گھومتی مٹی ازل و ابد کے درمیان استادہ نامعلوم گھمن گھرنی کی مانند گھیریاں ڈال رہی تھی۔ اچانک ہی چاک پر سے اترتا کوزہ بخشو کمہار کے ہاتھ سے پھسلا اور سنبھالنے کی سعی میں ٹیڑھا ہو گیا۔ بخشو نے بے نیازی سے اسے دیکھا پھر کونے میں پڑے ناقص و شکستہ کوزوں کے ڈھیر میں اُسے اچھال دیا۔ شاکر علی کے دل پر جیسے گھونسا سا لگا۔ اس نے تاسف سے زمین پر اوندھے پڑے کوزے کو دیکھا۔ اسے آفتاب یاد آ گیا۔ گہن لگا آفتاب۔۔۔۔ جس نے اس کے گھر کی ننھی سی دنیا میں اندھیرا کر دیا تھا۔ بھّٹی جھونکنے والے لڑکے نے آواز لگائی۔۔۔۔ “استاد۔۔۔! بھّٹی گرم ہو گئی ہے۔ ” اور اس کے ساتھ ہی بخشو کمہار اپنا تہبند سنبھالتا ہوا اٹھا۔ کونے میں رکھی بجھی چلم کو اس نے انگلیوں سے کریدا اور پھر حقّہ گڑگڑانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کی نگاہ ٹوٹے کوزوں کے ڈھیر پر گئی جہاں شاکر علی کھڑا تھا اور انہیں یک ٹک دیکھ رہا تھا۔ بخشو نے حقّہ چھوڑا اور شاکر علی کے پاس آ کے کھڑا ہو گیا۔ شاکر علی نے اپنے کاندھے پر بخشو کے پنجر جیسے ہاتھ کی کھردری گرفت محسوس کی مگر وہ یونہی بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ کچھ دیر کے بعد وہ اٹک اٹک کے بولا ” بخشو۔۔۔۔ تو گیلی مٹی کو پانی کا چھینٹا مار کے خوب گوندھتا ہے۔ پھر اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کے چاک پر رکھتا ہے اور پھر اپنے انگوٹھے کی گرفت گہری اور گہری کرتا جاتا ہے۔ ایسا سب کچھ تُو کتنی محبت اور شوق سے کر رہا ہوتا ہے۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔ پھر بھی۔۔۔۔ اتنے کوزے ٹوٹ کیوں جاتے ہیں؟؟ کیا کسی کسی کوزے کے لئے تیری محبت میں کمی آ جاتی ہے؟”
“کیسی محبت؟ اور کیسی محنت؟ دنیا تو اوپر سے نیچے تک کسی نہ کسی دھندے پر لگی ہوئی ہے۔۔۔۔ سچ پوچھ تو یہ ساری دنیا ماٹی کا دھندا ہی تو ہے میرے سجن۔۔۔۔! اور دھندے میں نفع اور گھاٹا دونوں چلتے ہیں۔ “
ایسا کہتے کہتے بخشو نے تیزی سے شاکر علی کے کاندھے موڑے۔
“ارے او سودائی۔۔۔! تیری آنکھوں میں پانی؟۔۔۔۔ ” اس نے حیرت سے شاکر علی کو دیکھا پھر ہنس کے دھیرے سے اس کے کاندھے چھوڑ دیئے اور دور کہیں دیکھتا ہوا سوچتا ہوا بولا۔۔۔ “تیرا یار ماٹی گڑھتے گڑھتے یہ تو بھول ہی گیا تھا کہ ہم بندے بھی ماٹی سے بنے ہیں پر ہمارے اندر پانی کی اتنی جِیاستی ہے کہ جو ہمیں بھیتر ہی بھیتر بہائے رکھتی ہے۔۔۔ پر تُو دل چھوٹا نہ کر۔۔۔۔ اس کی نیاؤ کا برتن کبھی ماٹی نہیں ہوا۔۔۔۔ کہیں نہ کہیں تیرا حصہ بھی جرور ہو گا۔۔۔! “
شاکر علی کے ہونٹوں پر اک زیریں تبسم آیا جس کے معنی بس۔۔۔ وہ جانتا تھا یا اس کا رب۔۔۔! !
٭٭٭
ڈاکٹر نے اپنی ناک پر رکھی عینک پر انگشت شہادت کا دباؤ ڈالا اور کاغذوں پر جھکتے ہوئے بولا۔ “آپ کے بچے کے ہارمونل ٹیسٹ کی رپورٹ آ گئی ہے۔ ” ہاجرہ اور شاکر علی نے بے چینی سے پہلو بدلے۔ ڈاکٹر نے سر اٹھایا اور ان دونوں کے درمیان بیٹھے چھ سالہ آفتاب کو نگاہ بھر کے دیکھا جو بے خبری میں بھی حیرانی کی تصویر تھا۔
“ڈاکٹر۔۔۔۔! اب آپ آپریشن کی تیاری کریں۔۔۔۔ خرچے کی بالکل فکر نہ کریں۔۔۔۔ ہم اپنا گھر دکان سب بیچ کے آپ کو فیس ادا کریں گے۔۔۔ بس۔۔۔ ہمارا بیٹا ٹھیک ہو جائے۔ ” ہاجرہ نے لجاجت سے کہا۔
“اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ” ڈاکٹر نے گھومنے والی کرسی ذرا سی ترچھی کر کے کھڑکی کے باہر ایک سرسری نگاہ ڈالی جہاں بے چارگی کی ماری کراہتی بیمار خلقت کا ہجوم تھا پھر جیسے وہ خود سے بولا۔
“انسان اور فطرت کی کشمکش بہت گمبھیر ہے، اس کا کوئی انت نہیں۔۔۔۔۔ فطرت کی سفاکیوں کے خلاف ہمارے پاس کوئی محاذ نہیں۔۔۔۔۔۔ ہمیں تو بس آزمائشی زندگی دی گئی ہے۔ اس کی بذلہ سنجی ہمارے لئے کچھ بھی طے کر سکتی ہے۔۔۔۔ “
شاکر علی نے تجسّس اور خوف سے ڈاکٹر کو دیکھا مگر وہاں نامعلوم سی خفت تھی۔ اک ایسی ناگفتہ اذیت جو صرف انسان ہی کے حصے میں آئی ہے۔ شاکر علی نے اپنے ذہن کو اُس بھولے بسرے علم کے ست میں ڈبونے کی کوشش کی جسے اس کے مولوی باپ نے بڑی جانفشانی سے اس تک منتقل کرنے کی مشق کی تھی۔ اس نے ہمہ وقت سوچوں میں گم رہنے والے اپنے باپ کی گہری گہری باتوں کی معلوم اور نامعلوم پرتیں کھولنے کی سعی کی شاید کوئی اشارہ ایسا ملے جو ڈاکٹر کی باتوں کا مطلب سمجھا سکے۔۔۔۔ مگر اس کی کمزور گرفت میں کسی چھوٹے سے چھوٹے تالے کی چابی بھی نہ آ سکی۔ ڈاکٹر نے دوبارہ اپنی کرسی ان کی طرف موڑ دی تھی۔ اب اس نے باری باری ان دونوں کو دیکھا پھر اپنی نظر بچے پر جما دی اور چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولا۔ “تمہاری آنکھوں سے لگتا ہے جیسے تم بہت ذہین ہو؟” بچہ اسے یک ٹک دیکھتا رہا مگر ہاجرہ بولی۔۔۔۔۔ “ہاں ڈاکٹر! یہ اپنے باپ سے انگریزی کا قاعدہ پڑھتا ہے اور اسے کوئی بھی بات ایک دفعہ میں یاد ہو جاتی ہے۔ “
“ہوں! ” وہ پھر کچھ سوچنے لگا۔
“ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔! جو بھی کچھ ہے۔۔۔۔ کھُل کھُلا کے بتا دو۔۔۔۔ تاکہ۔۔۔۔ اس کی ماں کے اور میرے جی کو قرار آ سکے۔ “
“سب کچھ سن لینا آسان نہیں ہوتا۔۔۔ شاکر علی۔۔۔! پھر سمجھنے کا بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے۔۔۔ اور اس کے بعد سہہ لینے کا مشکل عمل۔۔۔ ” ڈاکٹر نے توقف کے بعد کہا۔
“ڈاکٹر! ہم سمجھ تو نہیں سکیں گے مگر۔۔۔۔ شاید سب کچھ سن لینے سے سہہ لینے کا حوصلہ ہو جائے۔ ” وہ بے چارگی سے بولا۔
ڈاکٹر کچھ دیر گردن جھکائے بیٹھا رہا، سوچتا رہا پھر بولا۔
“جان لینے کا عمل زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔۔ بے خبری نعمت ہے اور بے حسی۔۔۔ وہ تو اور بھی۔۔۔ خیر۔۔۔! تم تھوڑے بہت پڑھے لکھے اور ذہین آدمی ہو لیکن۔۔۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ طبّی علوم اتنے ترقی کر چکے ہیں کہ انسان فطرت کے روبرو کھڑا ہو سکے تو ایسا نہیں ہے۔۔۔۔ ہمیں گھوم گھما کے بالآخر اسی لفظ کی طرف آنا پڑتا ہے جو دنیا کی تمام لغات میں درج الفاظ میں سب سے زیادہ پر قوت ہے۔۔۔ اور وہ لفظ ہے “صبر”۔۔۔۔ شاکر علی! تمہیں تمہاری بیوی کو اور تمہارے اس معصوم بچے کو اب صرف صبر کرنا ہے کیونکہ اس بچے کی جینیات ہی مختلف ہے۔۔۔ یہ آپریشن سے بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔!! “
ہاجرہ کے سامنے روزِ محشر کی نشانیاں مجسم ہونے لگیں۔ زمین دہلنے لگی۔ آسمان شق ہونے لگا۔ چہار اطراف سے آہ و بکا کا شور سا اٹھا اور اس نے اپنے چکراتے سر کو ہاتھوں میں تھام لیا۔
ایک صور کی آواز تھی۔ ڈاکٹر کی آواز سے مماثل۔۔۔۔ جو عین اس کے گربھ استھان میں دہکتی پھونک کی طرح پھونکی جا رہی تھی جس سے اس کی زرخیز کوکھ میں اچانک لگ جانے والی پھپھوندی کا کاہی مائل رنگ اور چوکھا ہوتا جا رہا تھا۔
ڈاکٹر، ہاجرہ کی کیفیت سے بے خبر اپنے آپ میں ڈوبا ہوا کچھ رنجیدہ، کچھ کھویا کھویا سا بول رہا تھا۔ “اس بچے میں عورت اور مرد دونوں کے ادھورے جنسی اعضاء ہیں۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔ دونوں طرح سے ادھورا ہے۔۔۔۔۔ آپریشن سے یہ نہ لڑکی بن سکتا ہے نہ لڑکا! ! “
“مگر کیوں۔۔۔۔ کیوں۔۔۔؟؟ “یکدم شاکر علی شدتِ کرب سے چیخ اٹھا۔ ڈاکٹر نے چونک کے اسے دیکھا پھر اٹھا اور اس کے قریب آیا اور اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کے ہمدردی سے بولا۔ “اس کیوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔۔۔۔ ہاں، مگر طبّی تحقیقات کے مطابق لڑکی یا لڑکے کا فیصلہ حمل کے ابتدائی ایام میں ہی کروموسومز کے ذریعے طے پا جاتا ہے لیکن بعض اوقات جنسی کروموسومز کی تفریق۔۔۔۔ تقسیم کی خطا کی وجہ سے نارمل مردانہ یا زنانہ جنس کا تعین نہیں ہوتا ہے اور بچے کے جنسی نظام اور جنسی اعضاء کی تعمیر میں عجیب و غریب مخلوط الجنسی خامیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس بچے کے معاملے میں بھی فطرت نے جنسی کروموسومز کی تفریق میں تقسیم کی خطا کی ہے۔، ڈاکٹر نے اپنے دونوں ہاتھ پشت پر باندھے اور کھڑکی کے باہر بلکتے بیمار مفلوک الحال بچوں کو دیکھنے لگا۔
“تقسیم کی خطا؟؟”شاکر علی بڑبڑایا۔۔۔۔۔ بس ایک ہی جملہ تھا جو اس کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ کہیں نہ کہیں کوئی خطا ہوئی ضرور تھی۔۔۔۔۔ یا پھر فطرت اپنے تخلیقی زعم میں اسے ندامت و ملامت کے مراحل سے گزارنے پر آمادہ تھی۔ زندگی جیسے یکلخت اس کے ہاتھوں سے پھسل کے سرِ بازار جا بیٹھی تھی۔ پاپیادہ اور سر برہنہ۔ ایسا لگتا تھا جیسے اب کوئی نہیں روک سکتا اس تماشے کو جو اس کے اور ہاجرہ کے خواب کسی نامعلوم مداری کے ہاتھوں لیر لیر کروا دے گا۔
٭٭٭
چھ سال۔۔۔۔۔ پورے چھ سال۔۔۔۔ ایک معّمہ کو معّمہ بنائے رکھنا کتنا جاں گسل عمل تھا۔ یہ تو بس ہاجرہ جانتی تھی۔۔۔۔۔ کاش! ڈاکٹر چھ سال پہلے انہیں سب کچھ بتا سکتا۔ ایک موہوم سی امید نے اسے کتنے کرب سے گزارا تھا اس تمام عرصے میں ہاجرہ کو نہیں یاد کہ اس نے سوائے اس کے کچھ اور سوچا یا چاہا ہو کہ اس کا بچہ آپریشن کے بعد ایک مکمل لڑکا بن جائے۔ اس نے آفتاب کو دیکھا اور دکھ سے سوچا۔ اب اسے گھرسے باہر جانے سے میں کب تک روک سکتی ہوں اور ایسا ممکن نہیں کہ اسے دنیا کے سامنے بنا خوف و خجالت لا سکوں۔۔۔۔ اب تو جو ہونا ہے، وہ تو ہونا ہے۔
شاکر علی نماز سے فارغ ہو کے برآمدے میں آیا۔ زرد چہرے پر اس کی آنکھیں بے چراغ بستی کی طرح لگ رہی تھیں کہ جس پر کچھ دیر پہلے دل دہلا دینے والا ڈاکہ پڑا ہو اور کچھ بھی باقی نہ بچا ہو۔ وہ بمشکل ہی ہاجرہ کی طرف دیکھ پایا۔ ہاجرہ کے ہونٹوں پر شکست مان لینے والی چپ تھی پھر وہ لاتعلق سا ہو کے آفتاب کو دیکھنے لگا جو اپنی دھن میں مست تھا۔ اس کے سامنے انگریزی کا قاعدہ کھلا پڑا تھا۔ مگر وہ کہیں اور دیکھ رہا تھا۔ کچھ اور رٹ رہا تھا۔ شاکر علی نے اپنی توجہ اس پر مرکوز کر دی۔ یکا یک آفتاب اٹھا اور لپک کے اس کی طرف آیا اور جوش سے کہنے لگا۔۔۔۔
“بابو جی۔۔۔! ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ کہا تھا، میں نے وہ سب یاد کر لیا ہے۔۔۔ سناؤں؟۔۔۔ سناؤں۔۔۔! ” پھر وہ جواب کا انتظار کئے بنا زور زور سے بولنے لگا۔
“وائی ایکس۔۔۔ ایکس ایکس۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ ” وہ رکا پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا۔ “ایکس ایکس ایکس۔۔۔۔ نہیں، نہیں۔۔۔۔! ” وہ پھر رکا اور سوچنے لگا۔ یکدم جوش سے اس کی آواز بلند ہو گئی۔۔۔۔ “ایکس وائی وائی۔۔۔۔ ہاں، ایکس وائی وائی۔۔۔۔ “
وہ دہراتا جا رہا تھا اور برآمدے کے پختہ فرش پر ایڑی کے بل گھومتا جا رہا تھا۔ شاکر علی کو یوں محسوس ہوا جیسے بخشو کمہار کے چاک پر کوزہ گھوم رہا ہے۔ یکا یک آفتاب تیز گھماؤ میں آ کے چکرایا اور دھم سے فرش پر گر گیا۔
٭٭٭
باہر گلی میں شور تھا۔
ہاجرہ کھانستی ہوئی کھری کھاٹ سے بمشکل اٹھی اور تھکے تھکے قدموں سے دروازے تک گئی۔ ٹاٹ کا پردہ سرکا کے اس نے باہر جھانکا تو اک لمحے کے لیے جیسے اس کی سانس رک گئی۔ آفتاب گلی کی نالی پر کھڑا پیشاب کر رہا تھا اور پیشاب نالی میں گرنے کی بجائے اس کی دونوں ٹانگوں پر بہہ رہا تھا۔ محلے کے بچے اس کی عجب الخلقی پر قہقہے لگا رہے تھے۔ ہاجرہ لپک کے باہر آئی اور خجل و حیراں آفتاب کا پاجامہ اوپر چڑھانے لگی۔ گلی کے آمنے سامنے بنے دروازوں کی اوٹ سے عورتوں کی دبی دبی ہنسی اور پھبتیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہاجرہ نے چاروں اور گھوم کے دیکھا۔ دنیا کے بازار میں اس کی گھن لگی کوکھ اسی جیسے مجبور و مقہور لوگوں کی تضحیک کا نشانہ تھی۔ آسمان کے سات پردوں اور زمین کی ہزارہا فٹ گہرائیوں سے تمسخرانہ ہنسی کی آوازیں آ رہی تھیں اور انسانی نسلوں پر پھٹکار بھیجتا ہوا اس کا مخنث خواب آفرینش پر زنّاٹے دار طمانچے کی طرح کائنات کے سُر میں تھرتھراہٹ ڈال رہا تھا۔ وہ ہراساں ہو کے اسے گھسیٹتی ہوئی اندر کو بھاگی۔ دکھ اس کی پور پور سے پھوٹنے لگا۔ بہت دیر بعد اس نے سر اٹھایا۔ آفتاب ایک کونے میں سمٹا ہوا پتھرایا سا بیٹھا تھا۔ ہاجرہ اس کے قریب گئی اور پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔
“خالی خالی نظروں سے کیا دیکھتا ہے بیٹا۔۔۔۔۔؟ کوئی بات کر، ماں صدقے واری جائے۔۔۔ “
“اماں۔۔۔۔۔! ” وہ اٹک اٹک کے بولنے لگا۔ “گلی کے لڑکے کہتے ہیں کہ میں۔۔۔۔! ” بات ادھوری چھوڑ کے اس نے دالان میں لگے املتاس کے درخت پر نگاہ جما دی پھر بہت دیر سوچنے کے بعد اس نے پوچھا۔۔۔۔ “اماں۔۔۔۔! میں۔۔۔۔ ایسا کیوں ہوں۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔ “
“یہ تو وہ جانے جو سب کا پیدا کرنے والا ہے۔۔۔۔ مگر تو ہے تو میری اولاد۔ ” ہاجرہ نے اسے سینے سے لگا لیا۔
٭٭٭
بخشو کمہار نے مٹی گوندھتے گوندھتے سر اٹھایا تو دیکھا، شاکر علی، آفتاب کی انگلی پکڑے کھڑا ہے۔۔۔۔
“ارے۔۔۔! آج تو یہ بھی آیا ہے۔ “۔۔۔ بخشو نے تغاری ایک طرف کو کھسکائی۔
“ہاں۔۔۔۔! میں نے سوچا ہے، اب اسے دکان پر اپنے ساتھ بٹھایا کروں گا۔۔۔۔ ” شاکر علی نے قریب بیٹھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا۔
“مگر یہ تو اسکول جاتا ہے؟؟”بخشو کمہار نے حیرت سے سوال کیا۔
“وہاں سے میں نے اٹھا لیا ہے۔۔۔۔ “شاکر علی سر نیچے کر کے بولا۔
“کیوں۔۔۔۔۔؟ تم تو اسے بہت پڑھانا چاہتے تھے۔۔۔۔۔؟؟”
“لڑکے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اسے تنگ کرتے ہیں۔ روز روتا ہوا گھر آتا ہے اور پھر اس کا مَن پڑھائی میں لگتا بھی تو نہیں۔۔۔۔! ! “
بخشو نے نگاہ بھر کے آفتاب کو دیکھا جو اب تیرہ برس کا ہو چکا تھا۔ ڈیل ڈول تو اس کا خوب تھا مگر چہرہ بے رونق اور زرد سا تھا اور اس پر اس کی آنکھیں۔۔۔۔ جیسے کاسۂ گدائی ہوں۔ وہ خالی خالی نظروں سے تغاری میں بھری مٹی کو اور دھوپ میں رکھے کوزوں کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر ایک کونے پر جا ٹکی۔ وہ اس طرف لپکنے کو تھا کہ بخشو نے اس کی نگاہ کو گرفت میں لے لیا اور مسکرایا۔
“اچھا۔۔۔۔۔! تو تم اسے لینا چاہتے ہو۔۔۔۔؟”
شاکر علی نے دیکھا، بخشو ایک چمکتی ہوئی دو دھاری تلوار اٹھا رہا ہے۔
“نجانے کس زمانے کی ہے “وہ جیسے خود سے بولا۔۔۔۔ ” شاید میرے پرکھوں کی ہے یہ تلوار۔۔۔ گھرکے کسی کونے میں پڑی تھی۔ چنائی ہوئی تو نکل آئی۔۔۔ میرا پوتا۔۔۔۔ ” بخشو نے رک کے شاکر علی کو دیکھا اور بولا۔ “تم نے تو دیکھا ہے نا اسے۔۔۔۔ سات برس کا ہے مگر بڑا نٹ کھٹ۔۔۔۔ ” وہ اس کی شرارتیں یاد کر کے زیر لب مسکرایا۔
“بس اس کی نظر اس تلوار پر پڑ گئی۔۔۔۔ پھر کیا تھا؟ اسے حاصل کرنے کی ضد کرنے لگا مگر یہ درمیان سے چٹخ گئی ہے اب کہتا ہے دادا۔۔۔۔ اسے ٹھیک کر کے دو۔۔۔ بھلا یہ ٹھیک ہو سکتی ہے۔۔۔۔؟” وہ بے سود ہونے کے احساس سے ہنسا۔ آفتاب نے بڑھ کے اس تلوار کو تھامنا چاہا۔۔۔۔۔ شاکر علی نے دیکھا، تلوار کے بیچوں بیچ پڑنے والی ترچھی لہریا چٹخ اتنی نمایاں تھی کہ لگتا تھا، دستہ ہاتھ میں لیتے ہی تلوار دو ٹکڑے ہوکے گر پڑے گی۔ بخشو نے تلوار احتیاط سے آفتاب کے پھیلے ہوئے دونوں ہاتھوں پر رکھ دی۔ آفتاب اسے تجسّس سے دیکھنے لگا۔ شاکر علی کو محسوس ہوا جیسے تلوار کی عین ترچھی لہر یا چٹخ میں آفتاب کا جسم متشکل ہونے لگا ہے۔
٭٭٭
ساون ٹوٹ کے بر سا تھا۔ کیا صاف اور کیا گندا۔ پورے محلے میں حد نظر پانی ہی پانی تھا۔ گلی کے ننگ دھڑنگ بچے غل غپاڑہ مچاتے ہوئے بارش میں نہا رہے تھے۔ ایک دوسرے کو ٹانگ مار کے کیچڑ میں گرا رہے تھے۔ آفتاب، بابو جی کی نگاہ بچا کے دکان سے چپ چاپ کھسک گیا تھا۔ محلے سے ہٹ کے میدانی حصے میں ایک جوہڑ تھا جس کے آس پاس کیکر کی خار دار جھاڑیاں بھی تھیں، بس وہی جگہ آفتاب کو بہت پسند تھی۔ کیکر کی جھاڑیوں کی اوٹ سے وہ جوہڑ میں نہاتے اپنے ہم عمر لڑکوں کو دیکھا کرتا تھا اور تصور ہی تصور میں خود کو بھی ان میں شامل کرتا تھا۔ اس دن تو غضب کا منظر تھا۔ جوہڑ پانی سے بھرا ہوا تھا اور اوپر سے تیز مینہ برس رہا تھا۔ اس کے ہم عمر لڑکے جوہڑ میں نہا کم رہے تھے اور ایک دوسرے سے مستیاں زیادہ کر رہے تھے۔ آفتاب کے لئے خود کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا لیکن اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ ان کے ساتھ شامل ہونے کی کوشش میں تختۂ مشق بنتا۔۔۔۔ وہ کیکر کی جھاڑی کے پیچھے چھپا انہیں حسرت و یاس سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک ہی ایک لڑکا جوہڑ سے باہر نکلا اور جھاڑی کی سمت بڑھنے لگا۔ جوں جوں وہ قریب آتا جا رہا تھا، آفتاب کے بدن کی کپکپاہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ لڑکا جھاڑی کے پاس پہنچ گیا۔ آفتاب نے اپنی دونوں کہنیاں گود میں رکھ لیں اور خود کو سمیٹ کے بیٹھ گیا۔ لڑکے نے پانی ٹپکاتی ہوئی نیکر کے بٹن کھولے اور جھاڑی پر پیشاب کی دھار گرانے لگا۔ آفتاب کا سارا خوف بارش میں بہہ گیا۔ اب وہ تجسّس و محویت سے پیشاب کرتے لڑکے کو دیکھ رہا تھا۔ لڑکا فارغ ہو کے لا پروائی سے نیکر کے بٹن بند کرتا ہوا آگے بڑھا پھر اچانک رکا اور گھوم کے جھاڑی کے اندر ہوتی حرکت کے تعاقب میں پلٹا۔ یکدم وہ چلاتے ہوئے بولا۔
“ابے او۔۔۔۔ زنانے۔۔۔! تو نے مجھے ننگا دیکھا۔۔۔۔ یہاں چھپ کر ابے سالے! تیری تو۔۔۔۔! “
آفتاب لرز اٹھا۔ لڑکے کی آواز پر نہاتے ہوئے لڑکے جوہڑ سے نکل نکل کے ان کی طرف بڑھنے لگے۔ آفتاب اسی طرح بیٹھا تھر تھر کانپ رہا تھا لڑکوں نے اسے گھسیٹ کے جھاڑی سے باہر نکالا اور اسے لاتوں اور گھونسوں سے مارنے لگے۔
“ابے! نہیں مارو بے چارے کو۔۔۔۔ خسرہ ہے، خسرہ۔۔۔۔ اسے نچواؤ۔۔۔ ” کسی نے کہا۔
“ہاں۔۔۔۔! ہاں اسے نچواؤ۔۔۔۔ ” لڑکے ہم آواز ہو کے بولے اور بے تحاشہ قہقہے لگانے لگے پھر اسے گھسیٹ کے زبردستی سب کے درمیان کھڑا کر کے نچوانے کی کوشش کی جانے لگی۔۔۔۔ بارش زوروں پر تھی اور تمسخر و تضحیک کا پانی بھی گھڑوں اس پر انڈیلا جا رہا تھا جس سے اس کی روح آلودہ ہوتی جا رہی تھی۔
“یہ ایسے نہیں ناچے گا۔۔۔۔ پہلے اس کا پاجامہ اتارو۔۔۔۔ پھر ناچے گا۔۔۔۔ “کسی نے تجویز دی۔
“نہیں۔۔۔۔! نہیں۔۔۔۔! ” آفتاب ہاتھ جوڑنے لگا۔ لڑکے اس پر ٹوٹ پڑے۔ کچھ ہی دیر کے بعد اس کے کپڑے لیر لیر ہو کے پانی اور مٹی میں مل چکے تھے۔ اب وہ ننگ دھڑنگ تھا اور لڑکے اس کے بازو کھینچ کھینچ کے اسے نچوا رہے تھے۔ وہ رو رہا تھا، فریاد کر رہا تھا اور ماں کو اور بابو جی کو زور زور سے پکار رہا تھا۔
٭٭٭
اسے بستر میں دبکے ہوئے گھنٹوں ہو گئے تھے۔ اس کا بخار اب بھی تیز تھا مگر اسے دیکھنے بہت دیر سے کوئی نہیں آیا تھا۔
“میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟” اس نے اپنی موٹی موٹی خالی آنکھوں کو پوری طرح کھول کے سوچا۔۔۔۔ “پہلے۔۔۔۔ اماں مجھے کتنا پیار کرتی تھی مگر اب۔۔۔ اتنے دن ہو گئے ہیں، وہ میری طرف دیکھتی تک نہیں ہے۔۔۔۔ بستر پر پڑی کھانستی رہتی ہے۔۔۔ اور جو میں اس کے پاس جا بیٹھوں تو منہ پیچھے کر لیتی ہے۔۔۔۔ آخر میرا کیا قصور ہے۔۔۔۔؟” آفتاب کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔۔۔۔۔ “گھر میں کوئی بھی مجھ سے بات نہیں کرتا۔۔۔۔ بڑی آپا۔۔۔۔ چھوٹی آپا۔۔۔۔۔ میرا تھوڑا بہت خیال رکھتی تھیں۔۔۔۔ اب ان کی شادیاں ہو گئیں۔۔۔۔ ننھی اپنی گڑیوں کو مجھ سے چھپا کے رکھتی ہے۔۔۔۔ محلے کے لڑکے مجھے اپنے ساتھ کھیلنے نہیں دیتے۔۔۔۔ اور بابو جی کہتے ہیں۔ دکان پر کام کرو۔۔۔۔ دکان پر جو آتا ہے، مجھے دیکھ کے ہنستا ہے۔۔۔۔۔ میں نہیں جاؤں گا دکان پر۔۔۔ لیکن یہاں گھر پر۔۔۔۔ یہاں بھی تو۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔۔ ” اچانک اس کا پاؤں کسی نرم سی شے سے ٹکرا گیا۔۔۔۔۔ اس نے جھک کے دیکھا، فرش پر ایک چوہا مرا پڑا تھا۔۔۔۔ کچھ دیر تک وہ نیم اندھیرے کمرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے اسے دیکھتا رہا پھر اسے یاد آیا کہ یہ چوہا کئی دن سے گھر میں کھلبلی مچا رہا تھا اور بابو جی نے کل رات چوہا مار دوا گھر کے کونوں میں ڈالی تھی۔۔۔۔ وہ دیر تک مردہ چوہے کو دیکھتا رہا۔ اس کی چمکتی آنکھوں اور کانپتی مونچھوں کو یاد کرتا رہا۔ اس کے لیے گھر بھر کے ناپسندیدہ رویے کو ذہن میں لاتا رہا پھر اس نے چوہے کو دم سے پکڑ کر الٹا پلٹا۔ “اسے موت آ گئی ہے۔ ” آفتاب نے دل ہی دل میں کہا۔۔۔۔۔ “موت کیا چیز ہوتی ہے؟” اس نے سر اونچا کر کے سوچنے کی کوشش کی پھر دوبارہ چوہے کو دیکھا۔۔۔۔ یکدم اسے خیال آیا کہ اب گھر والے پُر سکون ہو جائیں گے۔ انہیں اناج چھپانے بچانے کی کوشش نہیں کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔
“مجھے بھی تو یہ سب لوگوں سے چھپانے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ” آفتاب نے سوچا۔۔۔۔ اسے یاد آیا کہ جب اس کی بہنوں کی سہلیاں گھر آتی ہیں تو بہنیں کوشش کرتی ہیں کہ وہ ان کے سامنے نہ آنے پائے اور کبھی جو وہ آ جاتا ہے تو وہ خجل سی ہو جاتی ہیں۔۔۔۔ پھر وہ فرش سے آہستہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ دبے پاؤں کمرے سے باہر آیا اور پھر بلی کی طرح پنجوں کے بل چلتے ہوئے اس نے پورے گھر کا چکر لگا لیا۔۔۔۔ بابو جی عشاء کی نماز پڑھنے جا چکے تھے۔۔۔۔ اماں حسبِ معمول چار پائی پر منہ اوندھا کئے پڑی تھی۔ دو بہنیں رسوئی میں تھیں اور باقی دوسرے کمرے میں۔۔۔۔ کسی نے اس کی چاپ کو محسوس نہیں کیا۔۔۔۔ اس کی طرف سراٹھا کے نہیں دیکھا۔ کیا وہ نا موجود تھا۔۔۔۔۔ یا وہ سب ایسا ہی چاہتے تھے؟ اچانک اس کی نظر برآمدے کے کونے میں رکھی چوہے مار دوا پر پڑی۔ وہ لپکا اور اسے اٹھا کے دوبارہ چھوٹے نیم اندھیرے کمرے میں آ گیا۔۔۔۔ دوا حلق میں انڈیلتے ہی شدید بدبو دار بھبھکے اور تیزاب کی طرح جسم کاٹ دینے والے محلول نے اس کی آنتیں الٹ پلٹ کر کے رکھ دیں مگر ایسے میں بھی وہ مردہ چوہے کو نہیں بھولا تھا۔ اس نے بہت پیار سے اپنی لرزتی ہتھیلی پر اسے اٹھایا پھر اپنے بستر پر رکھ دیا اور اس کے برابر خود لیٹ گیا۔۔۔۔۔
٭٭٭
دو دن تک شاکر علی گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔
وہ نیم جاں آفتاب کی چارپائی کے برابر کرسی ڈالے بیٹھا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آفتاب کے زندہ بچ جانے پر اطمینان کا سانس تو گھر بھر نے لیا تھا مگر خوشی کی رمق کسی کے چہرے پر نہیں آئی تھی شاید خوشی کا رنگ اس گھر کے حساب میں ازل سے لکھا ہی نہیں گیا تھا۔ وہ اٹھا۔ اس نے آفتاب کی جلتی پیشانی پر شفقت سے ہاتھ رکھا پھر اسے سوتا دیکھ کے کمرے سے باہر نکل آیا۔ برآمدے میں کھڑے ہو کے اس نے ایک گہری ٹھنڈی سانس لی۔ محلے کی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے خطبے کی آواز آ رہی تھی۔۔۔۔
“فرمانِ حقِ تعالیٰ ہے۔۔۔۔ ہم نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا ہے جس کو ہم آزماتے ہیں۔۔۔۔ “
“میں تو تجھ سے حسنِ ظن رکھتا تھا میرے رب۔۔۔۔! پھر تو نے مجھے اس آزمائش کے لئے کیوں چنا۔۔۔۔۔؟” شاکر علی نے وضو کرتے ہوئے اپنے چہرے پر ٹھنڈے پانی کے ساتھ گرم آنسوؤں کو بھی بہا دیا۔
آفتاب کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی۔ وہ تابندہ کی مدد سے تکیئے کے سہارے اٹھ کے بیٹھا ہوا تھا۔ بابو جی کی ہدایت پر تابندہ اس کا دل بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ریڈیو سیٹ تھا اور وہ ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن تک مسلسل سوئی گھمائے جا رہی تھی لیکن مطلوبہ اسٹیشن لگ ہی نہیں رہا تھا۔۔۔۔۔ یکدم وہ چونکی۔ آفتاب سر پکڑے بیٹھا تھا۔۔۔۔
“تجھے کیا ہوا ہے؟” تابندہ نے اسے جھنجھوڑا۔
“آپا۔۔۔۔۔! جب تم ریڈیو کی سوئی گھماتی ہو تو شوں شوں جیسی آواز آتی ہے نا۔۔۔ بالکل ایسی ہی آواز میرے سر کے اندر سے آتی ہے۔ کئی بار ایسا لگتا ہے جیسے سر کے اندر کوئی سوئی گھما رہا ہو۔۔۔۔۔ شوں شوں کی آوازوں سے سر میں گھماؤ پڑ رہا ہو لیکن۔۔۔۔ کوئی اسٹیشن نہ لگ پا رہا ہو۔۔۔ آپا۔۔۔۔۔! کیا سر کے اندر بھی کوئی ریڈیو رکھا ہوتا ہے جس میں بہت سے تاریں اور بہت سی آوازیں ہوتی ہیں۔۔۔۔ جو آپس میں مل نہیں پاتی ہیں بس۔۔۔۔ شوں شوں کرتی رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔؟”
تابندہ نے غور سے اسے دیکھا پھر ریڈیو کا بٹن بند کر دیا۔
شام کو آفتاب نے ڈرتے ڈرتے کمرے سے باہر جھانکا۔۔۔۔۔ ہاجرہ چارپائی پر اٹھ کے بیٹھ گئی تھی اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھے حسب معمول سوچ میں غلطاں تھی۔۔۔۔ وہ بلی کی طرح دبے پاؤں چلتا ہوا آگے آیا اور چارپائی کا پایہ پکڑ کے زمین پر بیٹھ گیا۔ ہاجرہ نے لاپرواہی سے اسے دیکھا پھر دوبارہ اپنی سوچ میں غرق ہو گئی۔۔۔۔ شاکر علی نے قریب آ کے محبت سے اس کی پشت تھپتھپائی اور بولا۔۔۔۔ “بیٹے! اوپر بیٹھو، کچھ بات کرو۔۔۔۔ “۔۔۔۔ بڑی دیر تک وہ ماں باپ کی شکل خاموشی سے تکتا رہا پھر بولا۔۔۔۔۔
“بابو جی۔۔۔۔۔! جادو کیا ہوتا ہے؟”
“کیوں بیٹا! تجھے کیا کرنا ہے۔۔۔۔؟” شاکر علی نے پوچھا۔
“ایک دن۔۔۔۔ میں نے گلی کے پچھواڑے ایک بہت موٹا اور کالا آدمی جاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔۔ ” آفتاب کچھ یاد کر کے سوچتا ہوا بولا۔
“اس کی آنکھیں بہت چمکتی تھیں۔۔۔۔ اس کے گلے میں مالائیں تھیں۔۔۔۔ جن میں رنگ برنگے موتی تھے۔۔۔۔ کانوں اور ہاتھوں میں بھی بڑے بڑے موتی تھے! ۔۔۔۔ وہ زمین پر ڈنڈا بجا بجا کے چلتا تھا۔۔۔۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ تو جادوگر ہے، جادوگر۔۔۔ جو چاہے، کر سکتا ہے۔۔۔۔! ” پھر آفتاب خاموش ہو گیا اور کھوئی کھوئی نظروں سے املتاس کے درخت کو دیکھنے لگا۔ یکدم وہ چونکا اور شاکر علی کو دیکھنے لگا۔
“بابو جی۔۔۔۔۔! میں بھی جادو سیکھوں گا۔۔۔۔ “
“تو کیا کرے گا جادو سیکھ کے۔۔۔۔۔؟” شاکر علی نے نرمی سے پوچھا۔
“جادو سے میں خود کو ٹھیک کر دوں گا۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ جادو سے ٹھیک ہو جاؤں گا نا بابو جی۔۔۔۔۔۔؟ “اس نے تیقن سے پوچھا۔
“کاش۔۔۔۔! کہ ایسا بھی جادو دنیا میں ہو سکے۔۔۔۔ ” شاکر علی نے ٹھنڈی آہ بھر کے کہا۔۔۔۔۔ ہاجرہ نے “اونہہ! ” کہہ کے منہ پھیر لیا۔۔۔۔۔
٭٭٭
بہت دن بعد دائی بتول کا ان کے ہاں آنا جانا بحال ہوا تھا۔۔۔۔۔ دائی بتول اُس راز کو چند دن بھی نہ سنبھال سکی تھی جسے بالآخر خود طشت از بام ہو جانا تھا۔ اب کئی برس بعد عابدہ اور تابندہ کا رشتہ طے کرانے کے طفیل اس کی حیثیت پھر بن گئی تھی۔ اس کی دانست میں اسے صفائی کا موقع اب آ کے ملا تھا لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ ہاجرہ اب تک اس کے ساتھ ساتھ خود کو بھی معاف نہیں کر پائی ہے۔۔۔۔ ہاجرہ کی پتھرائی ہوئی صورت دیکھ کے اس کے دل میں ایک ہُوک سی اٹھی اور اسے ہاجرہ کے وہ تمام اندیشے یاد آنے لگے جن کا اظہار وہ جعلی ادویات کا استعمال کرتے ہوئے کیا کرتی تھی۔۔۔ پر اب تو پلوں سے پانی گزر چکا تھا۔۔۔ سو وہ بولی “۔۔۔۔ اے بیوی۔۔۔۔! میں کوئی کہانت تھوڑی جانوں ہوں۔۔۔۔ جیسا تیسا لوگ باگ بتاتے گئے تھے، ویسا میں تمہیں کرواتی رہی تھی۔ وید ہوں کہ پیر فقیر، جہاں بھی لے گئی، نیک نیتی ہی سے لے گئی پر اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بھلا کس کو دخل۔۔۔۔؟”
“اب یہ ذکر مت چھیڑو دائی بتول۔۔۔۔۔! ” ہاجرہ نے مکدّر ہو کے کہا۔
“اے ہاں۔۔۔۔۔! یہ تو کنکریلا جیون ہے نہ نگلا جائے نہ اگلا جائے۔ “۔۔۔۔۔۔ اس نے لمبی سی آہ بھر کے کتری ہوئی چھالیہ پھانکی۔ یکدم اس کی نظر گھر کے اندر آتے ہوئے آفتاب پر پڑی۔۔۔۔۔
“ہائے بے چارہ۔۔۔۔۔! ” وہ ناک پر انگلی رکھ کے بولی۔۔۔۔۔ “اس سے تو بہتر تھا کہ یہ معذور پیدا ہوتا۔ کم از کم جگ ہنسائی تو نہ ہوتی۔۔۔۔ لوگ ہمدردی ہی کرتے۔۔۔۔ ہمدردی بہر حال تمسخر سے بہتر ہوتی ہے۔ ” ہاجرہ نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
“اے! ادھر تو آ۔۔۔! ” دائی بتول نے لپک کے آفتاب کو پکارا۔ “روز تیری ایک نہ ایک کہانی سنوں ہوں پر دیکھ تو میرے نصیب۔۔۔۔ میرے ہاتھوں تو پیدا ہوا اور اب جوان ہونے پر آیا تب دیکھ رہی ہوں۔ ہاں، کبھی کبھار محلے میں آتے جاتے نگاہ پڑ جاتی ہے۔۔۔ “
آفتاب گھبرایا گھبرایا سا کھڑا تھا۔
“اے بیوی۔۔۔۔! یہ سترہ برس کا تو ہو گیا ہو گا۔۔۔۔ ” ہاجرہ کو خاموش پا کے وہ پھر بولی۔۔۔۔ “کیا یہ اور کیا اس کی جوانی۔۔۔! اے! بے معنی ہے اس کیلئے تو سب کچھ۔ “
وہ ٹک ٹک اسے دیکھتا رہا اور ہولے ہولے کانپتا رہا۔
“پنکھ پکھیرو کے بھی سنگی ساتھی ہوتے ہیں۔۔۔۔ پر انسان ہی کوئی کوئی بے جوڑ پیدا ہو جاوے ہے۔۔۔ ” دائی بتول کی زبان تالو سے نہ لگ پا رہی تھی اور ہاجرہ حسبِ معمول خاموشی کی بکل مار کے بیٹھ گئی تھی۔
“اے۔۔۔! بدن تو ایسا لچکیلا ہے جیسے زنانیوں کا۔۔۔۔ پر چہرے پر سبزہ نمودار ہو رہا ہے۔۔۔۔! ! ” دائی بتول غور سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔ آفتاب کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔
“ڈیل ڈول اور ناک نقشے سے کچھ زیادہ پہچان نہیں پڑتی۔۔۔۔ اجنبی دیکھے تو دھوکہ کھا جاوے۔۔۔۔۔ ” دائی بتول سیانیوں کے سے انداز میں بولتی چلی گئی۔ ہاجرہ دوپٹے سے منہ لپیٹ کے اوندھی لیٹ گئی تھی۔ اس کی منجمد حسیات بہت زمانے بعد قطرہ قطرہ بن کے کھجور کے باندوں سے بنی کھری چارپائی میں جذب ہو رہی تھیں۔
“اے! کچھ تو بول؟” دائی بتول چہار اطراف سکوت محسوس کر کے جھلائی۔
“جی۔۔۔۔! جی۔۔۔۔۔! کیا؟” آفتاب اٹک اٹک کے بولا۔
“ہوں۔۔۔۔! ” اس نے معنی خیز ہنکارا بھرا اور ناک پر انگلی رکھ کے بولی۔۔۔۔ “تیری تو آواز بھی باریک ہے۔۔۔۔ پر۔۔۔۔ حلق توتا نما ہے۔۔۔۔۔؟؟ اے! تیرے ہاتھوں، ٹانگوں پر، تیرے کانوں پر بال ہیں کہ نہیں؟ تجھے پسینہ آتا ہے؟”
“بس کرو دائی اماں۔۔۔! ایسی باتوں سے آفتاب کی طبیعت بگڑ جاتی ہے۔۔۔ ” عابدہ نے قریب آ کے دائی بتول کی جرح پر احتجاج کیا۔
“آپا۔۔۔۔۔! ” آفتاب دوڑ کے عابدہ کے قریب گیا اور اس کے کندھے پر سر رکھ کے سسکیاں بھرنے لگا۔
“اے لو۔۔۔۔! میں نے کیا کہہ دیا؟میں تو فقط تمہارے سسرال والوں کی طرف سے سندیسا لے کر آئی تھی۔۔۔۔۔ ” وہ بڑبڑاتے ہوئے اپنے برقعے کی ٹوپی سر پر جمانے لگی۔۔۔۔ “پچھلی چار لڑکیوں کی شادی میں تو مجھے پوچھا تک نہیں اور اب ان دو کے لئے میں بھاگی بھاگی پھر رہی ہوں تو موئی یہ عزت ہے میری؟” دائی بتول، ہاجرہ کی طرف دیکھ کے دہائی دیتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔
٭٭٭
گھر میں ڈھولک رکھی تھی۔ آفتاب نے دیکھا، بڑے کمرے میں سب بہنیں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جمع تھیں اور مہندی کے گانے گائے جا رہے تھے۔ اب میزبانی کرنے کو صرف ننھی رہ گئی تھی اس لیے ہاجرہ اپنا کھٹولا چھوڑ کے رسوئی میں کام کرنے لگی تھی۔ اسے یوں مصروف دیکھ کے شاکر علی بہت خوش تھا۔ آفتاب کو گھر والوں نے خوب سمجھا دیا تھا کہ وہ مہمانوں سے دور دور رہے مگر ڈھولک کی تھاپ عین اس کے دل پر پڑ رہی تھی اور وہ یوں بے قرار ہو رہا تھا جیسے پٹاری میں بند سانپ بین کی آواز پر اندر ہی اندر ٹکریں مارنے لگتا ہے۔ جب تیسری بار وہ کمرے میں آیا تو فرخندہ نے غصے سے اسے گھور کے دیکھا اور وہ لرزتا کانپتا گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔ اس کے گھر کے دروازے پر اس کے ہم عمر مہمان لڑکے جمع تھے۔ آفتاب نے اچک کے جھانکا۔ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا رنگین پوسٹر تھا جس پر ایک فلمی اداکارہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ہیرو کی بانہوں میں کھڑی تھی اور اس کے ہم عمر نوجوان لڑکے تصویر پر طرح طرح کی پھبتیاں کَس رہے تھے اور لذتِ گفتار سے ایک دوسرے کے جذبات گدگدا رہے تھے۔ وہ بھی تو نوجوان تھا۔۔۔۔ آفتاب کچھ سوچنے سمجھنے کی کوشش میں اپنے آپ ہی سے الجھنے لگا۔۔۔۔ شادی والے گھر کی سجاوٹ کے لئے رنگین قمقمے لگانے والے آدمی بجلی کے کھمبے سے کنکشن لے رہے تھے۔ اچانک ان میں سے کسی نے بجلی کا تار اچھال کے دور پھینک دیا۔ آفتاب نے زمین پر پڑا تار کا ٹکڑا اٹھایا اور ان کے قریب لے گیا۔ “یہ تار۔۔۔۔۔ تمہارا ہے۔۔۔۔۔؟”اس نے پوچھا
” یہ بے کار ہے اس میں بجلی نہیں دوڑ سکتی۔ ” بجلی کا تار لگانے والے نے کہا
“بجلی نہیں دوڑ سکتی؟” آفتاب نے دہرایا اور تار پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگا پھر اسے بل دے کے تھام لیا اور گھر کے اندر گھسا تا کہ بے کار تار کو اپنے ذاتی سامان میں رکھ سکے۔ اچانک ہی جیسے گھر میں موجود شورو غل دو چند ہو گیا۔ آفتاب نے پلٹ کے دیکھا۔۔۔ شوخ و شنگ بھڑکیلے کپڑوں میں ملبوس اور غیر معمولی ہار سنگھار کئے ہوئے ایک ٹولی تالیاں پیٹتی ہوئی گھر کے اندر گھس آئی تھی اور اس سے پہلے کہ گھر کا کوئی فرد آگے بڑھ کے انہیں روکتا، نووارد ڈانسر رنگِ محفل جما چکے تھے۔ نوجوان لڑکے فلمی پوسٹر بھول کے اندر گھسنے لگے اور ہیجڑوں کے رقصِ مستانہ پر فقرہ بازی کرنے اور سیٹیاں بجانے لگے۔ آفتاب اس ہجوم میں پھنسا کونے میں کھڑا تھا۔ یکلخت ایک ہیجڑہ ناچتے ناچتے اس کے قریب آیا اوراسے بازو سے گھسیٹ کے اپنے ساتھ نچوانے کی کوشش کرنے لگا۔ محفل میں ایک کھلبلی سی مچ گئی۔ آفتاب کی جگہ اور کوئی ہوتا تو بات اتنی نہ بڑھتی مگر محلے کے لڑکوں نے وہ پھبتیاں کسنی شروع کیں کہ ساری محفل کا رنگ ہی بدل گیا۔ آفتاب حواس باختہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔ شاکر علی ہجوم کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور بمشکل اسے چھڑا کے گھسیٹتا ہوا چھوٹے کمرے تک لے گیا۔۔۔۔۔
“تمہیں سمجھایا تھا کہ مہمانوں کے سامنے مت جانا۔”۔۔۔۔۔ آفتاب نے حیرت سے باپ کو دیکھا۔ پہلی مرتبہ اس کے لہجے میں سختی تھی۔ شاکر علی نے آفتاب کو کمرے کے اندر دھکیل کے باہر سے کنڈا لگا دیا۔ ہاجرہ اب تک رسوئی میں تھی لیکن اس کے ہاتھ سے دودھ کا گرم دیگچہ لڑھک گیا تھا اور فرش پر دودھ بہہ رہا تھا۔ وہ گھٹنوں میں سر دیئے سسک رہی تھی اور اس کے قریب بیٹھی ننھی بھی دکھ اور شرمندگی سے رو رہی تھی۔
***
وہ گھر کبھی ایسے سناٹوں میں نہیں ڈوبا تھا۔
شادی کی تقریبات ختم ہوتے ہی آفتاب لاپتہ ہو گیا تھا۔
تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ شاکر علی جب گھر کی چوکھٹ پر قدم رکھتا تو ہاجرہ اس پر ایک گہری سوالیہ نظر ڈالتی اور پھر سر جھکا لیتی۔۔۔۔۔ اس سکوتِ مرگ کو کئی روز گزر گئے تھے کہ ایک شام طوفانی انداز سے گھر کا دروازہ کھلا اور دائی بتول ہانپتی کانپتی داخل ہوئی۔
“اے بیوی ہاجرہ۔۔۔۔۔! وہ تمہارا نگوڑ مارا افتاد۔۔۔۔۔! “
“افتاد نہیں، آفتاب دائی اماں! “۔۔۔۔۔ ننھی نے ٹوکا جو آفتاب کا ذکر سن کے قریب آ گئی تھی۔
“ہاں! ہاں! وہی۔۔۔۔۔ اے! ٹھمکتا پھر رہا ہے گلیوں میں۔۔۔۔۔! ” وہ انگلیاں نچاتے ہوئے بولی۔
“کیا۔۔۔۔۔؟؟” شاکر علی بے تابی سے کھڑا ہو گیا۔ “کہاں؟ کدھر؟؟”
“قصائی مہتاب دین کی دکان کے سامنے۔۔۔۔ ” دائی بتول نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ “اس نے عورتوں کے سے کپڑے پہن رکھے ہیں۔۔۔۔۔ چست قمیض شلوار اور دوپٹہ۔۔۔۔۔ منہ پر سرخی پاؤڈر تھوپا ہوا ہے۔۔۔۔ اب! اب تو پکا پکا ہیجڑہ لگ رہا ہے۔ “
شاکر علی تیزی سے باہر کو لپکا۔
مہتاب دین قصائی کے چیچک زدہ سیاہ چہرے پر باگھ جیسی سرخی مائل بھوری چمکتی آنکھوں کا امتزاج آج کچھ سوا ہی لگ رہا تھا۔ وہ دانت نکوس نکوس کے ہنس رہا تھا اور اس کے ہونٹوں کے کناروں سے پان کی پیک بہہ رہی تھی۔۔۔۔۔
“ابے! ذرا زور دار ٹھمکا لگا۔ “۔۔۔۔ اس نے ایک آنکھ میچ کے فرمائش کی۔۔۔۔۔ آفتاب نے کمر پر ہاتھ رکھ کے نزاکت سے کولھے مٹکائے۔ ارد گرد جمگھٹا کئے ہوئے لڑکے بالے سیٹیاں بجانے لگے۔ انہیں ہنستا دیکھ کے آفتاب بھی ہنس رہا تھا اور ان کی شہہ پر مداری کے بندر کی طرح اچھل کود رہا تھا۔۔۔۔۔۔ شاکر علی کے قدم من من بھر کے ہو گئے آنسو اس کی سفید داڑھی بھگونے لگے۔ یکدم وہ ہجوم کو چیرتا ہوا جھپٹا اور آفتاب کو بازو سے پکڑ کے گھسیٹتا ہوا گھرکے دروازے تک لایا اور پھر ایک زور دار دّھکے سے اس نے اسے ہاجرہ کی چارپائی کے قریب گرا دیا۔ ہاجرہ نے اپنی مندی ہوئی بجھتی آنکھوں سے اسے دیکھا اور پھر جیسے اس کی پتلیاں حیرت سے پھیل گئیں۔ وہ بے یقینی اور دکھ سے آفتاب کے بھڑکیلے زنانہ لباس اور ہار سنگھار کو دیکھنے لگی۔
شاکر علی سر پکڑ کے بیٹھا ہوا تھا اور بڑبڑا رہا تھا۔
“میں پنج وقتہ نمازی۔۔۔۔۔ میں عزت والا۔۔۔۔۔ میں سر بازار رسوا ہوا۔ اے میرے رب! تو نے مجھے اٹھا کیوں نہ لیا۔۔۔۔؟”
ننھی بھی کمرے سے باہر آ گئی تھی اور حیرت سے آفتاب کو دیکھ رہی تھی۔ وہ ماں کی چارپائی کا پایہ پکڑے سر جھکائے زمین پر بیٹھا تھا پھر کچھ دیر ایسی گزری کہ جس میں کسی کے رونے بولنے کی آواز تو کیا، ہلنے جلنے کی سرسراہٹ بھی نہ آئی اور جب شاکر علی نے آفتاب کا اٹھا ہوا سر دیکھا تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کینچوا سانپ بن چکا ہو اور اس کی سفید پوشی کو ڈسنے کو بے تاب ہو۔ شاکر علی نے ایک جھر جھری سی لی۔۔۔۔ آفتاب کی آنکھوں میں پہلے جیسا ڈر، ندامت اور بے اعتمادی نہیں تھی۔ سات دن میں وہ کینچلی اتر گئی تھی جس نے سنسناتے گارے سے خلق کی جانے والی بے چارگی کو اک تمسخرانہ رد عمل سے روکے رکھا تھا۔
“تُو کہاں چلا گیا تھا۔۔۔۔؟” شاکر علی نے خود کو سنبھالتے ہوئے بمشکل پوچھا۔
“گرو جی کے پاس۔۔۔۔ ” وہ بے پروائی سے اپنے گلے میں پڑے ریشمی دوپٹے پر ٹکے سلمہ ستاروں سے کھیلتا ہوا بولا۔
“کون گر و جی۔۔۔؟ کون لے گیا تھا تجھے یہاں سے؟” شاکر علی نے پھر پوچھا۔
“وہ جو اپنا سنیاری ہے نا۔ “۔۔۔۔۔۔۔ آفتاب نے ہلکا سا لجاتے ہوئے کہا۔ “وہی۔۔۔۔۔ جو چھوٹی آپا کی شادی میں ناچنے آیا تھا۔۔۔۔۔ بعد میں وہ پھر آیا اور مجھے اپنے گرو کے ٹھکانے پر لے گیا۔۔۔۔۔ ” آفتاب بولتے بولتے ٹھہرا پھر جیسے کچھ یاد کر کے مسکرایا۔ اس کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی جیسے اس نے اک نیا جہاں دریافت کر لیا ہو یکدم جوش سے اس کی آواز میں ارتعاش سا آنے لگا۔ وہ بولا۔۔۔۔۔۔ “گرو جی بہت اچھے ہیں۔ وہ مجھ سے میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں۔ جب میں نے انہیں پہلی بار دیکھا تو۔۔۔۔۔ تو وہ ایک بڑے سے نقشین پلنگ پر ریشمی چولا پہنے بیٹھے تھے اور۔۔۔۔ اور گرو جی نے کہا۔۔۔۔ “آفتاب! تو پیدا ہی اس کام کے لئے ہوا ہے۔۔۔۔ یہاں آ جا۔۔۔۔۔۔ بہت خوش رہے گا۔۔۔۔ یہی تیری صحیح جگہ ہے! ” اس کے بے باک لہجے میں بے رحم ہو جانے کی حد تک بے نیازی تھی اور دل دہلا دینے والا اعتماد تھا۔۔۔۔ شاکر علی نے ہاجرہ کو دیکھا جو پتھرائی ہوئی بیٹھی تھی۔ اس کے دل میں شدت سے یہ خواہش جاگی کہ ہاجرہ، آفتاب کی اس حالت پہ تڑپ اٹھے، روئے پیٹے، بین کرے۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ اب وہ ہاجرہ کہاں! ! پھر شاکر علی نے بے بسی سے آفتاب کو دیکھا۔۔۔۔ جس کے لئے اس کی پیدائش سے پہلے اس نے اور ہاجرہ نے ڈھیروں محبتیں سینت کے رکھی تھیں۔ وہ محبتیں جو ان کے دلوں کی پنہائی میں آج بھی بس اک اشارے کی منتظر تھیں مگر وہ پُر نمو اشارہ ان کے دلوں کی زرخیز زمینوں میں کسی سنگلاخ پتھر سے ٹکرا کے وہیں دب گیا تھا۔۔۔۔ پھر شاکر علی نے آفتاب کی بھیک کے خالی کٹورے جیسی آنکھوں کو دیکھا اور سوچا۔۔۔۔ “ہم نے تو اس بچے کے پیدا ہونے پر چڑھاوے چڑھانے تھے، صدقے وارنے تھے مگر یہ تو خود محبت کی بھیک مانگتا پھر رہا ہے۔ اب کیا یہ ساری عمر دوسروں کے گھروں میں تالیاں بجا بجا کے بدھائیاں وصول کرے گا؟ دنیا اس پر ٹھٹھے بازی کرے گی اور یہ اپنی تمام تر خوشی غمی دوسروں سے منسوب کر دے گا۔ کیا اس کی ذات اس کی اپنی تالیوں میں پٹتی رہے گی۔۔۔۔۔؟” وہ بے تاب ہو کے اٹھا اور فرش پر ہی آفتاب کے سامنے اکڑوں بیٹھ گیا پھر اس نے آفتاب کے کندھے پکڑ کے اسے ساتھ کھڑا کیا اور بولا۔
“تُو۔۔۔۔ تو میرا بازو ہے۔۔۔۔ تُو مجھے چھوڑ کے کہاں جا سکتا ہے۔۔۔۔؟” ننھی آہستہ آہستہ سسکیاں بھرنے لگی۔ ہاجرہ کا پورا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔۔۔۔ شاکر علی نے آفتاب کے گلے سے سلمہ ستاروں سے بھرا دوپٹہ اتارا اور بولا۔ “چل اندر جا کے کپڑے بدل لے اور یہ پیتل کے گہنے موتی اتار دے۔۔۔۔ “
آفتاب نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ بے یقینی سے کچھ سوچا پھر سر جھکا کے کمرے کی طرف چل دیا۔
***
دکان کے سامنے خریدار کم اور تماش بین زیادہ تھے۔ شاکر علی تین دن سے یہ نیا عذاب سہہ رہا تھا۔ آفتاب کو قابو میں رکھنے کا یہی طریقہ اس کی سمجھ میں آیا تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ دکان پر بٹھائے لیکن محلے بھر کے لونڈوں لپاڑوں کو آفتاب کی شکل میں ایک شغل مل گیا تھا۔ سودا لینے کے بہانے وہ قریب آتے اور اس پر فقرہ چست کر کے آنکھ مارتے، کبھی سیٹی بجاتے اور شاکر علی کی نگاہ بچتے ہی اسے ٹھمکا لگانے کو کہتے۔ شاکر علی پانی میں ڈالے نمک کی طرح تہہ در تہہ بیٹھا جا رہا تھا لیکن حیران بھی تھا کہ ایسی صورت حال میں آفتاب کا رد عمل پہلے سے یکسر مختلف تھا اور وہ بھونڈی اداؤں سے تماش بینوں کو شہہ دے رہا تھا۔ کونے والی دکان کا بساطی دودھ لینے کے لئے شاکر علی کی دکان پر آیا تو معمول کے مطابق اس کا حال احوال پوچھنا بھول گیا۔
شاکر علی نے اسے دووھ کا آبخورہ پکڑاتے ہوئے دیکھا۔ بساطی کی نظر آفتاب پر جمی ہوئی تھی اور وہ مسکرا رہا تھا۔ جب ایک لفنگے نے موقع پاتے ہی آفتاب کی کمر میں چٹکی بھری اور اس نے عورتوں کی طرح کمر لچکا کے “اوئی اللہ! ” کہا تو بساطی ٹھٹھا مار کے ہنس پڑا اور بولا۔۔۔۔۔ “شاکر علی۔۔۔۔! اس کی وجہ سے تو تیری دکان کی رونق دگنی ہو گئی ہے۔ بِکری بڑھانے کا خوب بہانہ ڈھونڈا ہے تو نے۔۔۔۔۔ ” دودھ کاگرم کھولتا کڑھاؤ جیسے پورے کا پورا شاکر علی پر آ پڑا اور اس کا حلق گرم نمکین پانی سے بھر گیا۔
***
دسمبر کی یخ بستہ رات تھی۔۔۔۔۔
ہوا شاں شاں کرتی ہوئی املتاس کے خزاں رسیدہ پتوں سے ٹکراتی تو یوں لگتا تھا جیسے نامعلوم زبانیں بولنے والے ہزارہا لوگ ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کے تیر برسا رہے ہوں۔ شاکر علی کوسوں دور کھڑی نیند تک پہنچنے کی سعی کر رہا تھا مگر درمیان میں بار بار بساطی کا چہرہ آ جاتا تھا۔ اس نے بے چین ہو کے پہلو بدلا تو رتجگے سے بوجھل اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ چوکھٹ کا دروازہ نیم وا تھا شاید نصف شب سے زیادہ کا وقت تھا۔ شاکر علی محتاط قدموں سے چلتا ہوا دروازے تک آیا۔ چوکھٹ کی سیڑھی پر آفتاب بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نگاہ اندھیری گلی میں دور تک بھٹک رہی تھی۔
“تُو۔۔۔۔ یہاں کیا کر رہا ہے بیٹے۔۔۔۔؟؟” شاکر علی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس نے سر اٹھا کے لاپروائی سے دیکھا پھر بولا۔۔۔۔ “مجھے ایسا لگا تھا جیسے سنیاری نے آواز دی ہو۔۔۔
” سنیاری”! شاکر علی نے ایک جھر جھری سی لی۔ پھر بولا
“کوئی نہیں ہے یہاں۔۔۔۔ تُو اندر آ جا۔۔۔۔۔ ورنہ ٹھنڈ لگ جائے گی۔۔۔۔”
“ٹھنڈی ہوا میرے جی کو اچھی لگتی ہے۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ اور اب مجھے کچھ نہیں ہوتا بابو جی! “۔۔۔۔ آفتاب نے یوں کہا کہ شاکر علی کو اپنے دل کی دھڑکن تھمتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد وہ بڑبڑایا۔
“تُو اپنے گرو سے ایسا کونسا نسخہ لے کر آیا ہے کہ۔۔۔۔ اب تجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔۔۔ ” یکلخت آفتاب اس کے سامنے آ کھڑا ہوا اور جوش سے بولا۔
“میرے گرو جی کہتے ہیں کہ تیری ادھوری جات کا پورا سرا کہیں پر نہیں ہے۔۔۔۔ اس لیے سب سے اپنی ڈوریں کاٹ لے۔۔۔۔ “
شاکر علی نے اسے بے یقینی سے دیکھا پھر دکھ بھری آواز میں بولا۔۔۔۔ “تیرے گرو نے سات دن میں تجھ سے اتنی باتیں کر لیں جو ہم سترہ برس میں بھی تجھ سے نہ کر سکے۔ “
***
اگلی صبح دکان پر جانے سے پہلے شاکر علی بہت دیر تک سوچتا رہا۔ عمر بھر کی تھکن اور ضعیفی اسے آفتاب کا سہارا لینے پر مجبور کر رہی تھی لیکن بساطی کا زہر بھرا جملہ اور محلے کے بدقماش لڑکوں کے تمسخر اسے تذبذب میں مبتلا کر رہے تھے۔ بالآخر اس نے تنہا جانے کا فیصلہ کیا۔
دھوپ برآمدے تک آ گئی تھی۔ آفتاب نے ماں کو دیکھا جو حسبِ معمول چارپائی پر اوندھے منہ پڑی تھی پھر اس نے ننھی کو دیکھا جو گھر کے کام کاج میں جتی ہوئی تھی۔ اس نے مضطرب ہو کے پورے گھر کا چکر کاٹا۔ ایسا وہ صبح سے اب تک کئی بار کر چکا تھا۔ ایک بے کلی سی تھی جو اس کے پاؤں کے تلوؤں میں سوئیوں کی طرح اترتی جا رہی تھی۔ کوئی فرد تو کیا، گھر کا کوئی کونہ بھی کبھی اس کا راز دار نہ رہا تھا۔ گرو کے ڈیرے پراسے احساس ہوا تھا کہ زندگی میں کسی ہمدرد راز دار کا ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔۔ کچھ دیر تک وہ ہاجرہ کی پائنتی کے قریب مضمحل سا کھڑا رہا۔ جب ہاجرہ نے کروٹ بدلی اور اسے چندی چندی سی آنکھوں سے لاتعلقی سے دیکھا تو۔۔۔۔۔ بس وہ اسی نظر کو اک وسیلہ جان کے چارپائی کا پایہ تھام کے فرش پر بیٹھ گیا۔ ہاجرہ کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں لیکن اب وہ کہیں اور دیکھ رہی تھی یا شاید کہیں بھی نہیں دیکھ رہی تھی۔ آفتاب نے اپنے بازوؤں میں دبی ہوئی گٹھڑی کو اپنی گود میں بھینچ لیا اور ملتجی نگاہوں سے ماں کو دیکھنے لگا۔ بہت دیر تک ہمت باندھنے اور توڑنے کے عمل سے گزر کے بالآخر اس نے رُک رُک کے بولنا شروع کیا۔
“اماں۔۔۔۔ بابو جی نے مجھے باہر جانے سے روکا ہے۔ ” ہاجرہ سنی ان سنی کئے یونہی بے حس و حرکت پڑی رہی۔ وہ پھر بولا۔
“بابو جی کہتے ہیں کہ میں گھر سے باہر گیا تو لڑکے مجھے تنگ کریں گے۔ مجھ پر ہنسیں گے۔ مجھے پتھر ماریں گے۔۔۔۔ لیکن امّاں۔۔۔۔! لڑکے جب مجھے پتھر مارتے ہیں تومیں آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور پھر خود بخود تیری شکل میرے سامنے آ جاتی ہے تب۔۔۔۔ پتھر مجھے چوٹ نہیں لگاتے۔۔۔ “
ہاجرہ نے اپنے اندر دم بھر کو خفی سا ارتعاش محسوس کیا۔
“اماں! میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔ تو مجھے بہت پیار کرتی ہے۔۔۔۔ مگر کہتی نہیں ہے۔۔۔! ” وہ گلو گیر سا ہو کر بولا۔۔۔۔ ہاجرہ نے اپنے چہرے کو دوپٹے کے پلو سے ڈھک لیا۔۔۔۔ آفتاب کچھ دیر تک سر جھکائے بیٹھا رہا اور پھر کسی کیفیت کے زیرِ اثر اردگرد سے غافل سا ہو گیا اور جیسے اپنے آپ ہی سے بولا۔۔۔۔ “گرو جی کہتے ہیں کہ۔۔۔۔ لوگ کتّے کو پیار دے سکتے ہیں، اسے اپنا سکتے ہیں۔ لیکن۔۔۔ ہمیں ہمارے اپنے بھی اپناتے ہوئے شرماتے ہیں۔۔۔۔۔ ہم ان کے لئے جگ ہنسائی کا سامان ہیں۔۔۔۔ گرو جی کہتے ہیں کہ تیرے گھر والے تجھے ایسی محبت نہیں دیں گے جو ہم تجھے دیں گے۔۔۔۔ وہ تجھ پر شرمسار رہیں گے، ہم تجھے ہنر مند بنا کے تجھ پر فخر کریں گے۔۔۔۔ ” پھر وہ اپنے آپ میں چونکا اور ہاجرہ کی موجودگی کا احساس کر کے بولا۔ “اماں! وہ جو سنیاری ہے نا۔۔۔۔۔ اس کے گھر والوں نے اسے گرو جی کو اللہ واسطے کے لئے دے دیا تھا۔۔۔ اب سب خوش ہیں۔ سنیاری بھی اس کے گھر والے بھی اور گرو جی بھی۔۔۔۔ “پھر آفتاب نے کچھ توقف کیا اور مایوسی سے ماں کو دیکھا اور سوچا کہ وہ سن بھی رہی ہے یا نہیں۔۔۔ لیکن یہ سب کچھ سنانا ضروری ہے۔ اس نے گود میں دبی گٹھڑی کو چھوا پھر مضطرب ہو کے پاؤں کے ناخن کھرچنے لگا۔ ہاجرہ کی طرف سے دل مسوس دینے والی خاموشی طاری تھی۔ آفتاب نے بات جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن اب وہ بے ربطی سے اور غیر واضح لہجے میں اٹک اٹک کے بول رہا تھا۔۔۔۔۔ “گرو جی کہتے ہیں۔۔۔۔۔ کہ تُو ایک بار ناچنا سیکھ لے۔۔۔۔۔ پھر تجھے ایسا نشہ چڑھے گا کہ تُو ہمیں چھوڑ کے کہیں نہیں جائے گا۔۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ اب تک تو جیسا تیسا چل رہا تھا پر وقت کے ساتھ تیرا انگ انگ تھرکنے لگے گا۔ گھنگھروؤں کی آواز تجھے مستانہ بنا دے گی۔۔۔۔۔ تیری روح میں یہ سب شامل ہے۔ ایک نہ ایک دن تجھے ہماری طرف آنا ہی ہے۔۔۔۔۔ ” پھر اس نے ہاجرہ کے چہرے پر نگاہیں جما دیں۔ ململ کے باریک دوپٹے کی تہہ سے اسے ماں کی کھلی آنکھیں اور پلکوں کی حرکت دکھائی دے رہی تھی۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کی ماں اس کی باتیں غور سے سن رہی ہے۔ اس کی ٹوٹی ہوئی ہمت بحال ہونے لگی۔۔۔ “اماں۔۔۔۔! میں وہاں بہت مزے میں تھا۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ لیکن جب میں آنکھیں بند کرتا تھا۔۔۔۔ تو۔۔۔ تُو مجھے روتی ہوئی نظر آتی تھی۔ گرو جی مجھے بہت پیار کرتے ہیں۔۔۔۔ وہ مجھے۔۔۔۔ اپنی بیٹی۔۔۔۔ کہتے ہیں۔۔۔۔ اور کہتے ہیں کہ زبردستی نہیں۔۔۔۔ اپنی مرضی سے۔۔۔۔ ہاں، بالکل اپنی مرضی سے میں ان کے پاس آ جاؤں مگر۔۔۔۔ تُو۔۔۔۔ تُو۔۔۔۔؟؟ اماں۔۔۔! اگر تو کہے تو میں تیری کھاٹ کے پائے پکڑ کے ہمیشہ اسی طرح بیٹھا رہوں “اس نے مصمم لہجے میں کہہ کے بے اختیار کھاٹ کے پائے دونوں ہاتھوں سے چھوئے پھر جواب نہ پا کے کچھ سوچنے لگا اور پھر اس نے اپنی گود میں رکھی گٹھڑی کو محسوس کیا اور بولا۔۔۔۔ “اور اگر۔۔۔۔ اگر تو کہے۔۔۔۔ تو۔۔۔۔۔ تو میں گرو جی کے پاس۔۔۔۔ چلا جاؤں۔۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔۔۔۔؟؟” ململ کے سفید پلو کے نیچے ہاجرہ کی پلکیں ساکت ہو گئیں۔۔۔ پورے آنگن میں اک مضطرب خاموشی ہُوکنے لگی۔۔۔۔ ہاجرہ کو محسوس ہوا جیسے سورج سوا نیزے پر اتر آیا ہے۔ پھر بہت دور سے کسی نے نقارہ بجا کے سب کچھ ختم ہونے کا اعلان کیا۔
“سب کچھ ختم ہوا۔۔۔؟ کیا واقعی سب کچھ ختم ہو گیا۔۔۔۔؟؟ میرا خواب بھی؟ اس کی تعبیر بھی۔۔۔۔؟ یہ دنیا اور اس دنیا میں رینگنے والی لاتعداد جانیں بھی۔۔۔۔؟ ختم۔۔۔۔ سب کچھ ختم۔۔۔۔؟؟” ایک زمانے کے بعد اس نے اپنے سہمے دل کو مخاطب کر کے کہا اور پھر اپنے اندر ایک ایسی کیفیت کو سرایت کرتے ہوئے پایا جو کسی زائد المیعاد شدید درد کے ختم ہو جانے کے بعد نیم جاں بدن میں محسوس ہوتی ہے پھر اس نے ململ کا دوپٹہ آنکھوں پر سے ہٹائے بِنا اُس عجوبۂ فطرت کو یوں لاتعلقی سے دیکھا جیسے اُس سے اس کا کوئی ناتہ ہی نہ ہو اور بہت دھیرج سے بولی۔۔۔۔۔
“میں نے روکا کب ہے؟”۔۔۔۔۔
٭٭٭