عاص اپنے کمرے میں داخل ہوا تو ایلیاء فرش پر بیٹھی ہوئی آگے کی جانب جھک کر ماربل کی لڑئیوں کا رف ڈیزائن دیکھ رہی تھی۔ عاص اپنی شرٹ کی پوری آستینوں کو فولڈ کرتے ہوئے اس کے قریب جاکر کھڑا ہوا۔
“تمھیں گھر میں سکون برداشت نہیں؟ کوئی نا کوئی وجہ ہونی چاہیے لڑنے کے لیے۔ “عاص نے طنز کیا جسے وہ سر جھکا کر نظر انداز کر گئی پھر بیڈ سے پشت ٹکائے سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔
“اپنے پاوں دکھاو۔” عاص کے حکم پر ہونٹوں پہ پینسل رکھے ایلیاء نے حیرت سے اسے دیکھا۔ ایلیاء نے پاوں موڑ کر اپنے نیچے کئیے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ عاص کی نظروں سے چھپے ہوئے تھے۔
“کس لیے؟” اس نے پینسل سائیڈ پر رکھی اور پشت سیدھی کرکے اسے دیکھنے لگی۔
” بھابھی کہہ رہیں تھیں کہ تمھارے پاوں پر بھی سالن گرا تھا۔ اس لیے…” عاص نے جملہ ادھورا چھوڑ کر اس کے سامنے ٹیوب لہرائی۔
“میرے پاوں سلامت ہیں۔ کسی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔” ایلیاء نے ڈزائن کو دیکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا۔ عاص نے نظریں گھما کر ٹیوب اس کی جھولی میں ڈال دی۔
“خود لگا لینا.. نہیں تو بھابھی کو واپس کر دینا۔” وہ کہہ کر باتھ روم کی جانب چل دیا۔
” اور آئندہ میری ماں سے ایسے تلخ لہجے میں مخاطب نہیں ہونا۔” اس نے آواز دھیمے رکھے ہوئے کہا اور پلٹ کر ایلیاء کی جانب دیکھا۔ جو کھوئے ہوئے انداز میں اسے ہی دیکھ رہی تھی لیکن عاص کے دیکھنے پر پلکیں جھپکا کر نظریں جھکا گئی اور اثبات میں سر ہلایا۔
“میں صرف بھابھی کی مدد کر رہی تھی لیکن قسمت نے تو آج کل میرے خلاف جانے کی قسم کھا رکھی ہے۔” ایلیاء نے ڈزائن کو دیکھ کر ماربلز اٹھائے اور اس کے درمیان آر پار کئے گئے دو سراخوں کے بیچ میں موٹا دھاگہ پرونا شروع کیا۔
“تم یہی ڈسرو کرتی ہو۔” عاص نے طنز کیا۔
“تم سے محبت کے بدلے میں تم سمیت سب کی تلخیاں اور نفرتیں ڈسرو کرتی ہوں؟” ایلیاء کے سوال پر عاص نے رک کر اس کی جانب دیکھا۔
“محبت نہیں ہے… ضد ہے صرف… ” عاص نے منہ بگاڑ کر کہا۔
“تمھیں کیا خبر محبت کسے کہتے ہیں؟ تم نے محبت کی بھی تھی۔” ایلیاء نے سر جھٹک طنز کیا اور نظریں جھکا کر دھاگے میں ماربل پرونے لگی۔ عاص نے اس کے قریب پہنچ کر ایک جھٹکے میں وہ لڑی اس سے چھین لی کچھ ماربل دھاگے سے نکل کر فرش پر بکھر گئے۔ ایلیاء جلدی سے کھڑی ہوگئی۔
“محبت کی بات تم نہ ہی کرو تو بہتر ہے۔ محبت میں خود پرستی نہیں ہوتی۔ محبت خود غرض نہیں ہوتی۔” عاص نے دھاگوں کو ایک سمت پھیکا۔ ایلیاء نے گھور کر اسے دیکھا۔
“تم صرف اپنی مرضی چلاتی ہو ایلیاء… تمھیں لوگوں کی زندگیوں کو ہینڈل کرنا پسند ہے۔ تم صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچتی ہو۔” عاص نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر الفاظ چبا کر ادا کئے۔ ایلیاء نے غصہ ضبط کیا پھر ایک نظر دھاگے میں پروئی گئی بکھری لڑیوں اور اس سے نکل کر ادھر اُدھر گرے ماربلز کو دیکھ کر دوبارہ عاص سے نظریں ملائیں۔
“تم بھی تو خود غرض ہو عاص؟ تم بھی تو اپنی محبت کا سوچ رہے ہو اور میری محبت نظر انداز کر رہے ہو۔ شادی کے بعد سے مجھ پر کس کی مرضی چل رہی ہے؟ بتاو کیا میں شادی سے پہلے ایسی نظر آتی تھی؟” اس نے ایک قدم آگے بڑھایا۔
“تمھیں یاد ہے؟ ہماری پہلی ملاقات کے وقت میرا ہاتھ جلا تھا۔ میرا ریکشن یاد ہے؟ ” اس نے جتانے کے انداز میں کہا۔ “ابھی صرف تمھارے لیے میں نے معافی مانگی… صرف تمھارے لیے میں خاموش رہی۔” ایلیاء نے اسے خود سے پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا۔
“اور مجھے تم خود غرض کہتے ہو؟” ایلیاء نے طنز کیا۔ ” خود غرض وہ تھی جو اپنی محبت کا ہاتھ تھام کر تمھیں خالی ہاتھ چھوڑ گئی۔ خودغرض تم ہو… عاص سلطان جو تمکین کی کی گئی بے وفائی کا بدلہ اپنی سرد مزاجی سے مجھے لوٹا رہے ہو۔” ایلیاء رخ موڑ کر دوبارہ بیٹھ گئی اور ماربل اکھٹے کرنے لگ گئی۔ اس نے چار، پانچ ماربل اٹھا کر اپنی جھولی میں ڈالے پھر ایک اور ماربل کی جانب ہاتھ بڑھایا لیکن عاص نے وہ اٹھا کر اس کی جانب بڑھایا۔
“میری سرد مزاجی کی وجہ محبت میں ملی بے وفائی نہیں ہے…” عاص اپنے ہاتھ میں پکڑے ماربل کو دیکھتے ہوئے ایلیاء سے مخاطب تھا۔ ایلیاء کی نظریں اس کے سپاٹ چہرے پر جمی تھیں۔ “صرف تمھاری ضد نے مجھے ایسا بننے پر مجبور کر دیا ہے۔” عاص نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
” میری ضد نے تمھیں اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہے جتنا تمھاری اس سرد مزاجی نے مجھے پہنچایا ہے… اور تمھیں میرے ہر زخم کا اچھے سے اندازہ ہے۔” ایلیاء نے آگے بڑھ کر زبردستی اس کے ہاتھ سے ماربل کی بال چھین کر اپنی جھولی میں ڈال لی۔
“یہاں تمھیں اپنے زخموں پر خود مرحم لگانے ہوں گے۔ کوئی مدد کے لیے نہیں آئے گا۔” عاص نے کھڑے ہوکر کہا۔ ایلیاء نے بیٹھے بیٹھے ہی چہرہ اٹھا کے اسے گھورا۔
“مجھے لگا تھا یہاں انسان بستے ہیں۔” اس نے طنزیہ کہا اور رخ موڑ کر ماربلز کو اپنے قریب فرش پر رکھا۔ عاص نے اس کے قریب بیٹھ کر اس کا بازو پکڑا ایلیاء نے اسے گھور کر دیکھا۔
“تمھارے خود کے کام انسانوں والے ہیں؟” عاص کے سوال پر ایلیاء نے گھور کر اسے دیکھا۔
“چپ چاپ اپنا سامان پیک کرو۔ بہت برداشت کر لی تمھاری زبان کی تیزی۔” عاص نے اسے اپنے ساتھ کھڑا کیا۔ ایلیاء نے جھٹکے سے بازو چھڑوایا۔
“فضول بحث نہیں کرنا۔ سامان پیک کرو فوراً۔” عاص نے اسے خبردار کیا اور بیڈ کی جانب چل دیا۔
“جب تک بتاو گے نہیں کہاں جا رہے ہیں؟ میں کوئی پیکنگ نہیں کروں گی۔” ایلیاء نے سامنے ہاتھوں کو باندھے کہا اور عاص نے پلٹ کر اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔
“تم بہت ڈھیٹ ہو ایلیاء۔” عاص نے الفاظ چبا کر ادا کئیے۔ ایلیاء نے زبردستی مسکرا کر اسے دیکھا اور چہرے کا رخ پھیر لیا۔
” یعنی پیکنگ نہیں کرو گی؟” عاص نے سوال کیا۔ ایلیاء نے نہیں میں سر ہلایا۔
عاص نے سانس خارج کیا اور لمبے قدم اٹھا کر اس کے مقابل پہنچ گیا۔ اگلے ہی لمحے وہ ایلیاء کی کلائی پکڑے اسے ذبردستی اپنے ساتھ کمرے باہر لے جارہا تھا۔ ایلیاء کے تمام احتجاج کے باوجود وہ رکنے کو تیار نہیں تھا۔
” عاص کیا کر رہے ہو؟” ایلیاء کی آواز سن کر منتہی جو کچن سے باہر نکل رہی تھی اس نے سوال کیا۔
“بھابھی اسے روکیں۔” ایلیاء نے عاص کے ہاتھ پر دوسرے ہاتھ سے مکا مارتے ہوئے منتہی کو اپنی مدد کے لیے بلایا تھا۔ عاص نے پلٹ کر اس کا بازو تھام لیا۔
“ڈرامے بازیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مارنے نہیں لے جارہا ہوں جو چیخ و پکار لگا رکھی ہے۔” عاص نے مدھم لہجے میں اسے جھاڑا تھا۔ ایلیاء ابھی بھی اس سے بازو چھڑوا رہی تھی۔
” عاص… بابا کے آنے تک رک جاو۔ جو مسلہ ہے سب بڑے حل کر لیں گے۔” منتہی نے ایلیاء کا دوسرا بازو تھام کر عاص سے کہا۔
” بھابھی پلیز… مجھے نہ روکیں یہ ہماری بھلائی کے لیے ہے۔” عاص نے منتہی سے ایلیاء کا بازو آرام سے چھڑوایا۔ عقیل بھی وہاں آگیا تھا۔
“بھائی… اس سے چھڑوائیں مجھے۔” ایلیاء نے اسے دیکھتے ہی پکارا۔ عاص نے پلٹ کر اپنے بھائی کو دیکھا۔
” یہ کیا پاگل پن ہے عاص؟” عقیل غصے میں آگے بڑھا۔
” امی کی قسم آپ مجھے نہیں روکیں گے۔” عاص نے اس کے قدموں پر قسم کی زنجیر ڈال دی تھی۔ محول میں خاموشی چھا گئی تھی۔
“میں اسے مارنے کے لیے نہیں لے جارہا ہوں۔ جو آپ سب ایسے ریکٹ کر رہے ہیں۔ نہ ہی رشتہ ختم کیا ہے۔” عاص نے ان سب کو دیکھتے ہوئے کہا۔ رقیہ بھی اپنے کمرے سے باہر آگئیں تھیں۔ ” بس یہاں سے لے جارہا ہوں تاکہ ہمارے گھر کا امن و سکون قائم رہے۔” عاص نے ایک نظر غصے میں تیور چھڑائے خود کو گھورتی ایلیاء کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اسے پھر اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ ایلیاء نے اپنی ساس کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھا۔
“پلیز آنٹی اسے روکیں۔ آنٹی… یہ آپ کی بات سنتا ہے… اسے روک لیں۔ پلیز… مجھے نہیں جانا یہاں سے…” ایلیاء چلاتی رہ گئی لیکن کسی نے اسے نہیں روکا۔ منتہی تو بس اس کی بے بسی پر نم آنکھیں لیے یہ سب دیکھتی رہ گئی۔
” اف میرے بھائی… تم نے اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری ہے…” منتہی دل کی آواز پر بس افسوس ہی کرسکی اور دروازے سے باہر کھینچے جانے والے اپنی سہیلی کے وجود کو افسوس سے دیکھتی رہ گئی۔
“آپ اسے روک سکتیں تھیں۔” عقیل نے کمر پر ہاتھوں کو رکھے اپنی ماں سے شکوہ کیا۔ رقیہ نے کچھ نہیں کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
کئی موقوں پر انسان جلد بازی میں فیصلے لے لیتا ہے۔ رشتوں سے جڑے فیصلے جزبات سے نہیں بلکہ عقل سے کیے جاتے ہیں۔ ناجانے عاص کا جزباتی فیصلہ ان کی زندگی میں کیا اثر کرے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
••••••••
وہ اسے گاڑی کی پیسنجر سیٹ پر پٹک چکا تھا اور خود ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
“یہ تمھارا انسانی رویہ تھا؟ جانور…” ایلیاء نے اپنی کلائی مسل کر عاص کو گھورتے ہوئے کہا۔ جو اسے صاف نظر انداز کئے ہوئے تھا۔
“کہاں لے جارہے ہو؟ عاص بتادو پلیز…” ایلیاء نے گھر سے گاڑی نکلتے دیکھ کر ساتھ بیٹھے عاص سے سوال کیا۔
“عاص تم سے پوچھ رہی ہوں۔” ایلیاء نے اس کا بازو پکڑ کر زور سے ہلایا۔ عاص نے بازو جھٹک کر ایلیاء کو گھورا جو جھٹکا کھا کر پیچھے دروازے سے ٹکرائی۔
“سکون سے بیٹھ جاو۔ نہیں تو یہی کہیں کسی درخت میں گاڑی مار کر تمھاری اور اپنی جان لے لوں گا۔” عاص نے اسے گھور کر الفاظ چبا کر کہا۔ ایلیاء رخ موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گئی۔ اتنے ڈرامے سے تو اس کے سر میں بھی درد شروع ہوگیا تھا۔
چند منٹ میں وہ ایک ہاوسنگ سوسائٹی میں داخل ہوگئے۔ ایلیاء جگہ پہچان گئی تھی۔ آخر اس جگہ پر وہ شاندار گھر موجود تھا جو کہ بطور تحفہ ان کی شادی پر عارف صاحب نے اپنی بیٹی کو دیا تھا۔
“ہم اب یہاں رہیں گے؟” سامنے نظر آتے گھر کو دیکھ کر ایلیاء نے سوال کیا البتہ عاص نے ابھی بھی جواب نہیں دیا۔
گاڑی گھر کے سامنے رکی تھی۔ عاص وہاں موجود گارڈ کے پاس گیا۔ ایلیاء بھی گاڑی سے باہر نکل آئی تھی۔ گارڈ نے گیٹ کھولا اور عاص نے ایلیاء کے پاس جاکر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ وہ اسے اپنے ساتھ لیے گھر میں داخل ہوا۔ ساتھ ساتھ موبائل پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی خوبصورت سے ہال نے ان کا استقبال کیا۔ شادی سے پہلے وہ دونوں عارف کے ساتھ اس گھر کا معائنہ کرکے جا چکے تھے۔ اس لیے کچن اور دیگر کمروں کا دونوں کو علم تھا۔ بس یہاں فرنیچر کی کمی تھی۔
شادی کے بعد یونس کے کہنے پر عاص اور ایلیاء کو یہاں شفٹ ہوجانا تھا لیکن عاص اپنا گھر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اسے لگا تھا کہ فیملی کے ساتھ رہ کر ایلیاء میں کچھ مثبت تبدیلیاں آجائیں گی لیکن بگڑتے ماحول کو دیکھ کر اس نے یہاں آنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
“ہمارے لگیج کب تک آجائیں گے؟” ایلیاء نے ہال کا نظروں سے جائزہ لیتے ہوئے عاص سے سوال کیا۔ جو سر جھکائے موبائل میں مصروف تھا۔
“ہمارے نہیں… صرف تمھارے..” عاص نے چہرہ اٹھا کر اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ ایلیاء نے بھویں جوڑے اسے دیکھا۔
“کیا مطلب وہ اسے یہاں صرف چھوڑنے آیا تھا؟” ایلیاء اپنی سوچ پر کچھ دیر بے یقینی کی کیفیت میں اسے دیکھتی رہ گئی۔
“کیا مطلب؟” ایلیاء نے سوال کیا۔ عاص نے موبائل اپنی جیب میں رکھا۔
“یعنی یہ گھر عارف انکل نے شادی پر تمھیں گفٹ کیا تھا۔ تو تم ان کی لاڈلی بیٹی یہاں اکیلی رہو گی۔” عاص نے ایک ایک لفظ بہت آرام سے کہا تھا۔
” تم کہاں جا رہے ہو؟” ایلیاء نے سوال کیا۔
“میں آتا جاتا رہوں گا۔ عقرب کو میسج کر دیا ہے۔ وہ عنبر کو لے کر یہاں تھوڑی دیر میں پہنچ جائے گا۔ ” عاص نے اس کی گھورتی نگاہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تمام پلینگ سے آگاہ کیا۔
“مجھے چھوڑ کر جارہے ہو؟” ایلیاء نے بے یقینی سے سر ہلا کر اس سے سوال کیا۔
“ایسا نہیں کہ میں تمھیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جارہا ہوں۔ بس اب سے تم یہاں رہو گی کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ پھر دوبارہ ایسی مدمزگی ہو۔” عاص نے بےزاری سے کہا۔
“عاص میری غلطی کی میں نے معافی بھی مانگی تھی۔ ” ایلیاء نے صفائی دی۔
“بات معافی مانگنے کی نہیں ہے۔” عاص نے اسے ٹوکا پھر گہرا سانس لیا۔
“دیکھو ایلیاء… ہم دونوں جانتے ہیں کہ یہ شادی صرف تمھاری ضد کی وجہ سے ہوئی تھی۔”
“میں نے تم سے محبت کی تھی۔ میری محبت کو ضد کہنا بند کردو۔ ” ایلیاء نے دھیمے لہجے میں کہا۔ لہجہ ایسا تھا کہ شاید وہ لمبی مسافت کرکے تھک چکی تھی اور کسی وقت ٹوٹ کر بکھرنے والی تھی۔
“جیسا تم کہو…” وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس سے مخاطب ہوا۔ عاص نے اس کی جانب دیکھا۔
“میں اب چلتا ہوں…” اس کا جملہ سن کر ایلیاء کے وجود میں غصے کی لہردوڑ گئی۔
“وہ یہاں تنہا چھوڑ کر جارہا ہے۔” ایلیاء کے دماغ نے دل کو اس بات کا احساس دلایا۔
“واپس آنے کی بھی زحمت نہ اٹھانا۔ فوراً یہاں سے چلے جاو۔” ایلیاء نے آخری جملہ بلند آواز سے ادا کیا۔ عاص کی پیشانی پر غصے کے بل پڑ گئے۔
“کیا ہوگیا ہے..؟” عاص نے چہرے پر زرا حیرت کے آثار سجائے سوال کیا۔
“جاو یہاں سے۔” ایلیاء زور سے چلائی تھی۔ عاص کچھ پل اسے دیکھتا رہ گیا۔ جس کی آنکھیں غصے سے سرخ تھیں۔ عاص رخ موڑ کر جانے لگا۔
“اچھا ہوا اللّه نے تم سے تمکین کو دور کردیا۔” ایلیاء کی بھرائی ہوئی آواز میں کہے گئے جملے نے اسے رکنے پر مجبور کردیا۔
“تم ناشکرے اور بے قدر انسان ہو… عاص” اس کا جملہ سن کر عاص نے آہستہ سے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔ ایلیاء کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔
“تمھیں محبت کرنے والوں کی قدر نہیں ہے۔” ایلیاء نے اپنے دل پر ہاتھ رکھے جملہ کہا۔
“اب میں بھی تمھیں نہیں روکوں گی۔ چلے جاو یہاں سے اپنی فیملی کے ساتھ رہو… اور ہوسکے تو بھول جانا کہ تم کسی گھمنڈی، ضدی اور ڈھیٹ لڑکی کی محبت ہو۔” ایلیاء کے چہرے سے صاف ظاہر تھا وہ بکھر گئی ہے۔
“جاو عاص… چلے جاو…” ایلیاء بلند آواز میں چلائی۔ عاص نے قدم پیچھے ہٹائے لیکن نظریں ایلیاء کے چہرے پر جمی تھیں۔
سرخ آنکھوں میں نمی ٹھری ہوئی تھی۔ یہی نمی ایلیاء کی آنکھ سے جھول کر عاص کے دل کی بنجر زمین پر برسات کی پہلی بوند کی مانند برسی تھی۔ وہ ٹھرا نہیں پلٹ کر اس سے دور قدم اٹھاتا گیا۔ وہ دور بہت دور جانا چاہتا تھا۔ جہاں اس کی نگاہوں میں پھر سے بھیگا چہرہ دکھائی نہ دے۔ جہاں اس کی بھیگی سسکیاں سنائی نہ دیں۔ وہ بہت دور جانا چاہتا تھا لیکن اسے کیا معلوم وہ اپنے ساتھ کسی وجود سے اس کی جان نکال کر لے جارہا تھا۔ وہ اپنے ساتھ اس کا دل نکال کر لے جارہا تھا۔ عاص کے جاتے ہی ایلیاء فرش پر گرنے کے انداز سے بیٹھی۔
وہ نہ رو رہی تھی ، نہ کوئی شکوہ اور شکایت تھی۔ دل تھامے اس نے بس دروازے پر نگاہ جمائے رکھی تھی۔ اسے امید تھی کہ عاص کو جس سے مانگا تھا وہ اسے ایسے دور نہیں کرے گا۔ سماعت میں کچھ الفاظ گردش کر رہے تھے۔ وہ اب بس ہار کے خاموش تھی۔
•••••••
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...