مونا کی منگنی ہوچکی تھی….
لڑکے کی ماں نے منگنی کے اک مہینہ بعد نازیہ کو فون کھڑکادیا…
“بہن شادی کی تاریخ اس مہینہ کی رکھنی ہے مجھے…..میں اپنی بیٹی کو بس جلدی اپنے گھر لانا چاہتی ہوں…. لڑکے کی ماں نے بڑی لگاوٹ سے کہا…
مونا تو کسی طور حق میں نہیں تھی کہ اتنی جلدی شادی ہو…..
اک تو باذل کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا دوسرا وہ ابھی ذہنی طور پہ بھی تیار نہیں تھی…
نازیہ بھی ابھی نہیں کرنا چاہتی تھی…. انہوں نے بھی منع کردیا…
“بہن ابھی تو نہیں ابھی میرے بھانجے کا ایکسیڈینٹ ہوا ہے ایسے وقت میں شادی کا تو ابھی میں سوچ بھی نہیں سکتی…. آپ تھوڑا ٹائم تو دیں مجھے…..”
لڑکے کی ماں نے بنا کوئی جواب دئیے فون بند کردیا….
اسکے بعد انہوں نے پھر کوئی فون نہیں کیا اک ہفتہ گزر چکا تھا اس بات کو پھر اک دن انکا فون آگیا
” میں یہ منگنی ختم کرنا چاہتی ہوں…..” انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے بنا کوئی تمہید باندھے سیدھی بات کردی…..
نازیہ تو ہکا بکا رہ گئی…..
” یہ… یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ بہن…..؟؟؟؟ آپ سے وقت مانگا ہے وہ بھی اک بڑی وجہ ہے….”
“بس آپ کرنا ہی نہیں چاہتیں…اور میں انتظار نہیں کرسکتی…. اپنی بیٹی کو رکھیں اپنے پاس ہی… آپکی بیٹی آپکو مبارک ہو…..
میں منگنی کا سامان جلدی منگوالوں گی……”
یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کردیا….
نازیہ تو سن ہوکر رہ گئی…. مونا نے جب ماں کی یہ حالت دیکھی تو پریشان ہوگئی…
“امی کیا ہوا….؟؟ کس کا فون تھا….؟؟؟
وہ… وہ انہوں نے منگنی ختم کرنے کا کہہ دیا….. ” نازیہ نے بہت مشکل سے اپنی بات مکمل کی…..
مونا نے صد شکر کیا…. ویسے ہی وہ شادی نہیں کرناچاہتی تھی اور اب منگنی ختم ہونے پہ اسکو بلکل کوئی دکھ اور ملال نہیں تھا…..
“کوئی بات نہیں امی… آپ پریشان نا ہو اللّٰہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے…..”
مونا نے ماں کو تسلی دی….. نازیہ نے نم آنکھوں سے بیٹی کو دیکھا وہ سمجھ گئی کہ مونا تو پہلے ہی نہیں چاہتی تھی خیر جو ہو اللّٰہ بہتر کرے…..
نازیہ نے ہادیہ کو بھی بتادیا تھا…. ہادیہ بھی بہت افسردہ ہوگئیں تھیں سن کر…. مگر دعا کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتی تھیں…..
کچھ دنوں بعد سامان منگوالیا گیا تھا اور یوں مونا اس عارضی بندھن سے آزاد ہوگئی تھی….
**********
اس دن بھی مونا آگئی تھی، باذل کو اسنے ہادیہ کے کمرے میں بے جان بت کی طرح دیکھا تو اسکو کچھ عجیب سا احساس ہوا
اس نے باذل سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے…؟ سب ٹھیک ہے نا….؟ باذل چپ…. کوئی جواب نہیں…..!
ہادیہ نے کہا…” شانزے نے طلاق لے لی ہے باذل سے….”
“یہ…. یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ خالہ…..؟؟؟ مونا کو جیسے شاکڈ لگا….
“ہاں مونا ٹھیک کہہ رہی ہوں” انہوں نے دو دن پہلے ہونے والا واقعہ اسکو بتادیا….. اسکو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا…. اور غصہ بھی آیا….
اسنے باذل کو سمجھایا لیکن وہ تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہا تھا مونا کو لگا جیسے وہ دیوار سے باتیں کررہی ہے…..
اس کو بہت دکھ ہورہا تھا باذل کی حالت دیکھ کے…. اسکا تو دل کٹ کے رہ گیا… اس نے تو اپنی محبت کو شانزےکے حوالے کردیا تھا مگر اسنے کیا کیا….
اتنی بےدردی…. اتنی بےحسی…..
اس نے تو اسکی محبت کو جیسے مار ہی دیا….
اسکو بھی رونا آنے لگا مگر اسنے خود کو سنبھالا اور اپنی خالہ کو بھی حوصلہ دینے لگی.۔۔۔
اس نے نازیہ کو بھی بتادیا تھا وہ بھی حیرت کرنے لگیں پھر تھوڑی دیر بعد وہ بھی آگئیں…..
وہ کافی دیر اپنے بھانجے اور بہن کے پاس بیٹھی رہیں….
مونا نے باقی کام سنبھال لیے…… اب یہ اسکا روز کا معمول تھا وہ آتی اور اپنی خالہ کے ساتھ انکا ہاتھ بٹاتی اور باذل کا بھی پہلے سے زیادہ خیال رکھتی…
باذل نے ہمت چھوڑدی تھی وہ شانزے کے جانے کے بعد سے بہت گم صم رہنے لگا تھا،مونا اسکو ہمت دلاتی اسکو احساس دلاتی وہ اسکے بیٹے کو بھی اسکے پاس لے آتی…
باذل کی گود میں بٹھاتی….
باذل اسکو خوب پیار کرتا اور اسکو دیکھ کر روتا…. اپنے بیٹے کو دیکھکر اسکو شانزےیاد آنے لگتی…..
مونا ہادیہ کے کہنے پہ اسکو سمجھاتی رہتی مگر اک دن مونا نے اس سے کہا…” باذل صرف شانزے کےجانے سے تمہاری زندگی رک نہیں گئی…
تمہارا بیٹا تمہارے پاس ہے تمہاری زندگی کی سب سےبڑی خوشی اور جینے کی وجہ…
تمہارے ماں باپ انکا سوچو تم بھی تو انکے اکلوتے بیٹے ہو وہ تمہیں دیکھ دیکھ کے ہی تو جیتے ہیں….
تم ایسے رہو گے تو انکا کیا ہوگا….
اپنی ایسی حالت سے تم انکو دکھ پہنچا رہے ہو…. وہ تمہیں یوں دیکھ کر روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں….
اپنےآپکو سنبھالو…. اپنےبیٹے کے لیے اپنےماں باپ کے لیے، ہمارے لیے….
ہمارے لیے جیو… خود کو کھڑا کرو کیا یوں ہی بیٹھے بیٹھے اپنے بیٹے کو جوان ہوتے دیکھنا ہے…؟؟؟
باذل نے نفی میں سر ہلادیا….
” پھر….؟ مجھے توایسا ہی لگتا ہے…. تم تو بت بن کے بیٹھ گئے ہو ایسا لگ رہا ہے جیسے زندگی میں یوں بیٹھے رہنے کے علاوہ تمہیں کوئی کام ہی نہیں ہے….
اگر تم نے ایسے ہی بیٹھے رہناہے تو ٹھیک ہے میں راحم، خالو اور خالہ کو اپنےساتھ لے جاتی ہوں تم یوں ہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرےبیٹھے رہو….
کیونکہ میں مزید ان سب کو دکھی نہیں دیکھنا چاہتی جو تمہارے غم میں آدھے ہو کر رہ گئے ہیں، ” مونانے جان بوجھ کے اس سے سخت الفاظ میں بات کی….
باذل نے گھبراکر اسکو دیکھا اور کہا…”نہیں یہ کیا کہ رہی ہو تم…؟ ایسا مت کرنا….. ”
اگر تم اسی طرح رہو گے تو میں اب یہی کرنے والی ہوں بلکہ میں جاکر انکا سامان پیک کرنا شروع کرتی ہوں…..” مونا نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا……
باذل کی تو سٹی گم ہوگئی…. ” نہیں نہیں پلیز ایسامت کرنا…
میں… میں کروں گا…. جو اور جیساتم سب کہو گے ویسا ہی کروں گا….
میں خود کو ٹھیک کروں گا… میں جلد ہی اپنے پیروں پہ کھڑا ہو کر دکھاؤں گا مگر تم پلیز ایسا مت کرنا….
کسی کو بھی کہیں مت لیکر جانا…. اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا….
مونا کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی اسنے جلدی سے اسکےبندھے ہوئے ہاتھوں پہ اپنا ہاتھ رکھااور کہا ایسے نہیں کرو… ٹھیک ہے میں کہیں نہیں لیکر جاؤں گی بس تم مجھ سے وعدہ کرو جیساہم کہیں گے تم ویسا ہی کرو گے….
باذل نے سر اثبات میں ہلادیا…. مونا نے اسکا شکریہ اداکیا اور کمرے سے باہرچلی آئی ہادیہ مکرم اور نازیہ باہر ہی کھڑے تھے انہوں نے ساری باتیں سن لیں تھیں ہادیہ نے بھانجی کو گلے سے لگالیا اور بہت پیار کرنے لگیں انکی آنکھوں میں آنسو تھے مونانے ان سے الگ ہوتے ہوئے انکے آنسو صاف کیے اور انکے گال پہ پیار کیا….
نازیہ بھی بہت خوش تھیں اورمکرم نے بھی اسکے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ رکھا
فزیو تھراپسٹ اب برابر آرہا تھا اور باذل نے بھی اب خود کو تیار کرلیا تھا وہ بھی اپنے اوپر پوری محنت کررہا تھا تاکہ جلد از جلد اپنے پیروں پہ پھر سے کھڑا ہوسکے…
مونا کی دی گئی دھمکی کارگر ثابت ہوئی تھی…..
آہستہ آہستہ اسکے اندر کافی بہتری آگئی تھی….
منگنی ختم ہونے کے اور شانزے کے طلاق لینے کے بعد اک بار پھر باذل کے ساتھ کی خواہش نے مونا کے دل میں سر اٹھایا…. مگر خدشہ تھا کہ باذل راضی ہوتا ہے یا نہیں وہ اسکو ایسے اکیلا نہیں دیکھ سکتی تھی…..
اس نے اپنی ماں سے اک بار پھر اپنی خواہش کا اظہار کیا اور نازیہ نے باتوں باتوں میں ہادیہ سے کہہ دیا تھا کہ مونا باذل سے شادی کرنا چاہتی ہے….
ہادیہ کی تو خود یہی خواہش تھی انہوں نے پہلے مکرم سے بات کی انکو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا….
پھر انہوں نے اک روز باذل سے کہا.۔۔۔
” باذل بیٹا میری خواہش ہے کہ تم اپنا گھر بسالو……”
باذل نے کہا….”ماما میں اک تجربہ کرچکا ہوں شادی کا……. اب مزید مجھ میں ہمت نہیں کہ میں کسی اور کی زندگی برباد کروں اور ویسے بھی مجھ سے کون شادی کرے گی اب….
میں اک معذور انسان ہوں….. اور راحم آپ کے ہاتھوں پرورش پارہا ہے تو مجھے کوئی فکر نہیں ہے اپنے بیٹے کی طرف سے کہ وہ کسی غلط ہاتھوں میں نہیں ہے میری ماں کے ہاتھوں میں ہے…..
اسلیے پلیز مجھ سے شادی کا مت کہیں… مجھے نہیں کرنی شادی….
ہادیہ نے اسکے منہ پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا اور کہا…” نہیں بیٹا ایسے مت کہو تم اب کافی بہتر ہوچکے ہو اور دیکھنا جلد ہی ان شا ءاللّٰہ پورے صحت یاب ہوجاؤ گے بس ہمت مت ہارنا…..
اور بیٹا جہاں تک بات ہے راحم کی تو دیکھو بیٹا وہ مجھے بہت عزیز ہے بہت پیارا ہے مگر میری زندگی کاکوئی بھروسہ نہیں کب بلاوا آجائے…..
راحم بہت چھوٹا ہے اسکو ماں کی ضرورت ہے….
مگر ماما…..!!!
اگر مگر کیا باذل…..
کیا ساری زندگی ایسے ہی رہو گے…
مونا تم سے شادی کرنا چاہتی تھی پہلے بھی اور اب بھی کرنا چاہتی ہے…. پہلے تو اسکی منگنی ہوگئی تھی جس پہ بھی عہ دل سے راضی نہیں تھی مگر ماں کے بہت سمجھانے پہ وہ مان گئی تھی مگر اب تو وہ منگنی بھی ختم ہوچکی اسکی…..
نازیہ نے مجھ سے بات کی ہے اور مکرم کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے….
وہ اچھی لڑکی ہے… پہلے تم نے اپنی مرضی کرلی وہ بےچاری چپ ہوگئی اس نے اپنے دل کو مارلیا مگر اب وہ تمہیں اس حال میں دیکھتی ہے تو بہت دل دکھتا ہے اسکا….” ہادیہ نے باذل کی بات کاٹ کے اصل موقف سامنے رکھ دیا….
باذل حیران سا انکو دیکھ رہا تھا…..
کیا ماما..؟؟ مونا مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے….؟؟
اب بھی…؟؟
جبکہ میرا تو بیٹا بھی ہے….!!! اس نے حیران ہوتےہوئے ہی پوچھا…..
ہاں باذل وہ اب بھی تم سے شادی کرنا چاہتی ہے میرا تو خیال ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں ہے پھر بھی تم سوچ لو.۔۔۔۔ ہادیہ نے اسکو جیسے اک حل دیا…
ٹھیک ہے ماما میں مونا سے پہلے بات کروں گا میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھ سے ہمدردی میں آکر یہ سب کرے…..
ہادیہ نے سر اثبات میں ہلادیا…..
شام کو جب مونا آئی اس سے ملنے تو اس نے مونا سے پوچھا…” مونا مجھے عادت نہیں تمہید باندھنے کی…. تم مجھ سے کیوں شادی کرنا چاہتی ہو…؟
مونا اسکے اس اچانک پوچھے جانے والے سوال پہ اک دم گھبراگئی اس کو امید نہیں تھی کہ باذل اس سے ڈائریکٹ یہ سوال پوچھ لے گا…..
باذل میں…..
ہاں کہو مونا….!!!!
وہ میں….!!!!
مونا پھر کچھ کہتے کہتے رک گئی…..
مونا کہو جو کہناچاہتی ہو پلیز…..
باذل نے اسکو چپ دیکھ کر کہا…
میں ہمیشہ سے تم سے شادی کرناچاہتی تھی مگر جب تم نے شادی کرلی تو میں خاموش ہوگئی ،میں نے تمہارے لیے ہمیشہ دعا ہی کی تھی مگر پھر بھی پتہ نہیں کیوں ایسا ہوا…..؟؟؟
مونا نے نظریں جھکائے جھکائے ہی اس سے کہہ دیا…
تو تم اب بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو جبکہ تم سب جانتی ہو کہ میں کیسا ہوں اور میرا بیٹا بھی ہے اک….
باذل نے اس سے صاف گوئی سے پوچھا
ہاں باذل اب بھی …. تمہارا بیٹا میرا بھی کچھ لگتا ہے میرا وعدہ ہے تم سے میں کبھی اسکو ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گی……
باذل نے اک سرد اہ بھری اور نظریں نیچے جھکادیں…..اور کہا…” مگر مونا میری یہ حالت ہے ابھی…..!
تم اب کافی بہتر ہو باذل اور جلد ہی پوری طرح ٹھیک ہوجاؤ گے اور تم جیسے بھی ہو مجھے قبول ہو تمہارا نام میرے نام کے ساتھ لگ جائے گامیرے لیے یہی میری سب سےبڑی خوشنصیبی ہوگی…..
مونا نے اسکی بات کاٹ کر اسکے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ کر محبت بھرے لہجے میں کہا….
باذل نے اسکی آنکھوں میں اپنے لیے بہت محبت دیکھی پرخلوص محبت….. اس نے بھی اپنا ہاتھ مونا کے ہاتھ پہ رکھ دیا اور مسکرادیا…..
مونا کو تو جیسے یقین ہی نہیں آرہا تھا…. وہ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے باذل کو دیکھ رہی تھی اور ناچاہتے ہوئے بھی پوچھ بیٹھی….
” باذل سچ میں…؟ تم…. تم….. مجھ سے….
باذل اسکے اس طرح بے اختیار پوچھنے پہ ہنس دیا اور کہا ہاں مجھے تمہارا ساتھ قبول ہے…..
مونا خوشی سے بھاگتی ہوئی باہر چلی گئی سامنے سے ہادیہ آرہی تھیں تو وہ اک دم جھینپ گئی انہوں نے پوچھا ارے ارے لڑکی کیاہوگیا……
مونا انکے گلے لگ گئی اور کہا….خالہ مبارک ہو…..
باقی آپ اپنے بیٹے سے پوچھ لیں…..
ہادیہ نے حیرانی سے اسکو دیکھا … “کیا واقعی باذل مان گیا…؟؟؟؟
مونانے شرما کر سر جھکالیا…..
انہوں نے اسکو پیار کیا اور کہا تم چلو میں آتی ہوں…
مونا وہاں سے چلی گئی تو وہ باذل کے کمرے میں آگئیں…. پہلی دفعہ آج انہوں نے اپنے بیٹے کو مطمئن سادیکھا تھا انہوں نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا اور پھر اسکے نزدیک بیٹھ کے اسکے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان لیا اور کہا…..
” میرا بیٹا..! یقین کرو تم نے مجھے زندگی کی بہت بڑی خوشی دے دی….
ہمیشہ خوش رہو گے اب تم…..
ماما پہلے آپ دونوں کی نافرمانی کر کے بہت دکھ اٹھا چکاہوں بہت تکلیف سہی ہے میں نے اب اور ہمت نہیں تھی مجھ میں بس اسلیے آپکا حکم مان لیا……
باذل نے انکے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا….
تو تم صرف ہماری وجہ سے راضی ہوئے ہو کیا تمہاری اپنی مرضی نہیں ہے….؟؟
ہادیہ نے تشویش سےپوچھا
ارے نہیں ماما… میں دل سے راضی ہوں مونا واقعی بہت اچھی ہے بس میں ہی نہیں سمجھ سکا….
ہادیہ مطمئن سی ہوگئیں….
انہوں نے مکرم کو بتایا تو وہ بھی خوش ہوگئے اور نازیہ تو پہلے ہی بہت خوش تھیں…..
سارے انتظامات ہوگئے اور چند دنوں بعد باذل اور مونا کا نکاح ہوگیا، رخصتی باذل کے مکمل صحت یاب ہونے تک ملتوی کردی گئی….
مونا بہت خوش تھی اب اس نے باذل کا بھرپور ساتھ دیا اور اسکو اسکے پیروں پہ کھڑا کرنے کی ہمت دلاتی رہی…..
اور آخر اسکی محنت کوششیں اور اسکا ساتھ رنگ لایا اور باذل کسی حد تک اپنے پیروں پہ کھڑا ہونے اور تھوڑا بہت بغیر سہارے کے چلنے میں کامیاب ہوگیا…..
باذل کو تقریبا اک سال لگا اور وہ مکمل صحت یاب ہوگیا تھا،پہلے کی طرح چلنے پھرنے لگا اور بہت خوش رہنے لگا تھا…..
مونا کا اسکی زندگی میں آنا اسکے لیے بہت اچھا ثابت ہوا وہ واقعی اک بہت اچھی بیوی تھی…..
اور سب سے بڑھ کے وہ راحم کی تربیت اور اسکی پرورش بھی بہت اچھے طریقے سے کررہی تھی…
اس نے راحم کو چھوٹی عمر سے ہی یہ ذہن نشین کروادیا کہ کبھی کسی بھی بات پہ غرور نہیں کرنا چاہیے، اچھی صورت سے بڑھ کے اچھی سیرت زیادہ معنی رکھتی ہے، انسان کا اخلاق اسکی سب سے بڑی خوبی ہوتا ہے…..
راحم کچھ فطرتا بھی نیک سیرت تھا اور جب اسکی مونا نے تربیت کی تو وہ مزید نکھر گیا۔۔۔۔۔
ہادیہ اور مکرم بھی بیٹے کو خوش اور مطمئن دیکھ کر مسرور رہتے……
انہوں نے باذل کے ٹھیک ہوجانے کے بعد ان دونوں کو سیر و تفریح کے لیے ملک سے باہر بھیجنا چاہا….
ماما…پاپا آپ لوگ بھی چلیں گے ہمارے ساتھ…
میں نازیہ خالہ اور ہم سب کے ٹکٹ کروارہا ہوں…. باذل نے ہادیہ اور مکرم کو کہا…..
ہاں نا خالو خالہ آپ بھی چلیں ہم سب اک ساتھ جائیں گے تو مزہ آئے گا…..
ویسے بھی میں کوئی غیر تو نہیں ہوں جو برا مانوں گی….
مونا بھی بضد ہوگئی تو انکو ان دونوں کی بات ماننی پڑی اور پھر سب اک ساتھ کچھ دنوں کے لیے گھومنے چلے گئے….
کافی عرصے بعد وہ لوگ اس طرح اک دوسرے کے ساتھ بہت خوشیوں بھرا وقت گزار رہے تھے…..
راحم بھی اب تین سال کا ہورہا تھا سو واپس آنے کے بعد باذل اور مونا نے اسکا اک اچھے اور معیاری اسکول میں ایڈمیشن کروادیا
راحم پڑھنے میں تھوڑا تنگ کرتا تھا مگر مونا اسکو بہت پیار سے سمجھاتی اور اسکو خود ہی پڑھاتی تھی۔۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ وہ پڑھائی میں دلچسپی لینے لگا اور خوب محنت سے اور دل لگاکر پڑھنے لگا….
باذل اللّٰہ کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتا تھا وہ اپنی ماں سے بھی کہتا….
“ماما مجھے میرے صبر کا پھل اور آپکی فرمانبرداری کا صلہ مونا کی صورت میں ملا ہے….. میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں کبھی اتنا خوش قسمت بھی ہونگا….
تھینکیو ماما تھینکیو سو مچ….” ہادیہ بیٹے کی خوشی میں خوش ہوجاتیں…..
باذل نے مکرم کے ساتھ پروڈکشن ہاؤس جانا چھوڑ دیا تھا وہاں جاکر اسکو اپنا ماضی یاد آتا تھا اور شانزے سے جڑی کوئی بھی یاد اسکو تکلیف دیتی تھی سو اس نے اپنا بزنس اسٹارٹ کرلیا…..
اور کچھ عرصے بعد اس نے مکرم کو بھی اپنے ساتھ ہی بزنس میں لگالیا….. مکرم نے اپنا پروڈکشن ہاؤس بند کردیا….
وقت گزرتا رہا راحم کے بعد باذل کو اللّٰہ نے مزید اولاد نہیں دی مونا کی بہت خواہش تھی کہ اسکی بیٹی ہو مگر ابھی شاید انکے نصیب میں یہ خوشی نہیں تھی مونا بہت دعائیں مانگتی اور آخر اک دن اسکی دعائیں قبول ہوگئیں….
اور اللّٰہ نے اسکو اک بیٹی سے نوازا…. راحم اس وقت آٹھ سال کا تھا….
وہ تو چھوٹی بہن کو دیکھ دیکھ کر نہال رہتا….. مونا کی لائف اور فیملی مکمل ہوگئی….
راحم کی دوستی روحان سے اسکول میں ہی ہوئی تھی وہ بھی راحم کی جیسی فطرت کا حامل تھا….
مگر راحم کی نسبت روحان تھوڑا ڈرپوک سا تھا…..
وہ روز شام میں اپنی ماں کے ساتھ نزدیک پارک جاتا تھا، راحم کو بھی اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا تو راحم منع کردیتا لیکن دوست تھا اور وہ دوست کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا سو کبھی کبھی چلا جاتا…..
وہ دونوں جھولا جھولتے کھیلتے کودتے اور واپس گھر آجاتے….
،اس وقت روحان کی عمر گیارہ سال تھی جب اس نے اس خوفناک صورت والی فقیرنی کو دیکھا جس کو دیکھ کر وہ بہت ڈر گیا اور اس نے راحم سے اسکول میں اسکا ذکر کیا…. مگر راحم اپنی موجودگی میں کبھی اس فقیرنی کو نہیں دیکھ پایا….
*****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...