(Last Updated On: )
حاذق۔ محمد عظیم
آپ واقف ہیں مجھے عرض کی حاجت کیا ہے
نہیں پوشیدہ مرا آپ سے کچھ مطلب ہے
گیسوئے رخ دل دار نظر یوں آیا
قرض خورشید گویا آیا گہن میں اب ہے
قطرے یوں عرق کے آتے ہیں نظر زلفوں میں
کوئی پر وین و عطارد کوئی کوکب ہے
یاد میں زلف کی آیا یہ ضرر پیری میں
کاسۂ چینی میں بال آ گیا میری، اب ہے؟
دیکھتے ہیں وہ مجھے ترچھی نگاہوں سے ضرور
عشق گر ان کو مرا ہے تو بہت غایت ہے
آپ کی حسنِ لیاقت سے بھی معنی ہیں بعید
لے کے دل پاس نہیں کرتے یہ کیا موجب ہے
ہے گناہوں میں سراپا تو اگر چہ غرق آب
حاذقؔ اب تیرا شفیع خاص حبیبِ رب ہے