تازہ ’’جدید ادب‘‘ ملا۔ شکریہ۔ پرچہ مجموعی حیثیت سے اچھا ہے لیکن شاعری نے کم و بیش مایوس کیا۔ بعض اشعار میں واضح کمزوریاں ہیں جو ذرا سی محنت سے دور ہو سکتی ہیں۔آپ کی دونوں غزلیں اچھی ہیں، خاص کر
پہلے آدھا ملک ہمارا توڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔ سلطان جمیل نسیم کے گوشے نے دل خوش کیا۔ عبد اللہ جاوید بھی گوشے کے مستحق تھے۔اکبر حمیدی صاحب کے مطلعے پر آپ کا نوٹ ہے کہ حمیدی صاحب کا اصرار ہے کہ اصل تلفظ شرابور مع واؤمجہول (بر وزن ’’شور‘‘)نہیں، بلکہ مع تحتانی مفتوح بر وزن ’’جور،ثور‘‘ وغیرہ ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ یہاں ’’اہل علم کے لئے مکالمے کا موقع ہے۔ـ‘‘میں ناسخ کے شعر پیش کرتا ہوں جن سے واضح ہو جائے گا کہ صحیح تلفظ مع واؤ مجہول ہے ۔ ’’نور اللغات‘‘ میں بھی یہی درج ہے۔ ناسخ کے شعر ہیں
جلد ہو مست یہی کر رہی ہے شور گھٹا ساقیا دیر نہ کر د یکھ تو ہے زور گھٹا
خم سے برسات میں اس درجہ ہوا جوش شراب ہو گئی بادۂ گلگوں سے شرابور گھٹا
حمیدی صاحب نے اسی غزل میں ’’گھنگھور‘‘ بھی باندھاہے، لہٰذا وہ اس لفظ کو بھی بر وزن ’’جور،ثور‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اسی غزل میں ناسخ کا شعر ہے جس سے ثابت ہو گا کہ یہ لفظ بھی ’’شور‘‘ کا ہم قافیہ ہے، ’’جور،ثور‘‘ کا نہیں
آگ برسے تونہیں جائے عجب فرقت میں ہے یہ دُودِ دلِ سوزاں نہیں گھنگھور گھٹا
شمس الرحمٰن فاروقی۔الٰہ آباد
آپ نے اپنی کتابوں کے مجموعوں پر مشتمل کتاب ’’عمرِ لاحاصل کا ھاصل‘‘اور ’’جدید ادب‘‘جرمنی کا شمارہ ۱۳ مرحمت فرمایا،کرم فرمائی کا شکر گزار ہوں۔انشاء اللہ میں بھی پڑھوں گا اور دیگر احباب اور رفقا بھی فیض یاب ہوں گے۔اللہ تعالیٰ آپ کے لفظ کو تاثیر کی دولت سے مالا مال فرمائے۔
جانِ عزیز! آپ سے ملاقات کو صدیاں بیت گئیں۔آپ نے باہر رہ کر اردو اور اپنے وطنِ عزیز کی جیسی خدمت کی ہے،جہانِ علم و دانش ہی میں نہیں،عوامی حلقوں میں بھی اس کا اعتراف و احترام کیا جاتا ہے۔اللہ کریم اور عزت دے۔ افتخار عارف ۔(چیئرمین مقتدرہ ۔اسلام آباد)
’’جناب حیدر قریشی ساحب کے اردو مجلّے (جدیدادب،جرمنی)کے شمارہ نمبر ۱۳میں شامل مضمون ’’روح کا عالمی تصور‘‘پڑھ کر مجھے غایت درجہ خوشی ہوئی ۔دراصل وجودی تصوف یعنی’’ہمہ اوست اور ہمہ از اوست‘‘کے صحیح ادراک نہ رکھنے والے بیشتر صوفیائے کرام بھی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے علی الرغم بہکے اور بھٹکے ہوئے ہی نظر آتے ہیں۔اس کا دوسرا سبب قال اللہ کے مطابق من امر ربّی کے الوہی تصور کو جو کما حقہ نہ سمجھ سکے گا وہ روح کے حقیقی تصور کو کیا خاک سمجھے گا۔سارے فساد کی جڑ گویا یہی ہے کہ لوگ باگ موضوعی(وضع کیے ہوئے نظریات و تصورات)کے پھیر میں ابھی تک پڑے ہوئے ہیں۔اس باب میں سید رضی الدین سے زیادہ حیدر قریشی ساحب چونکہ ایک عرصے سے اپنی تصانیف اور اپنے مجلّے میں کھل کر اظہارِ خیال کرتے اور آگہی دیتے رہے ہیں،قابلِ صد مبارکباد ہیں۔آپ نے بھی سید محمد رضی الدین صاحب کی کتاب’’روح کا عالمی تصور‘‘پر مثبت ڈھب سے بالتفصیل روشنی ڈالی ہے،اس لیے آپ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے زائد آپ کو نوشت و خواند کی توفیق ارزانی کرے۔ عتیق احمد عتیق (مدیر سہ ماہی توازن مالے گاؤں)
(یہ خط رفیق شاہین صاحب کے نام لکھا گیا اور اس میں خواہش ظاہر کی گئی کہ اس خط کا یہ متعلقہ حصہ جدید ادب میں شائع کیا جا سکتا ہے،سو موضوع زیرِ بحث کے حوالے سے اس حصہ کو خطوط کے صفحات میں شامل کیا جا رہا ہے)
میرے دو اشعار میں کتابت کی غلطیاں رہ گئی ہیں،اصل صورت میں وہ اشعار یوں ہیں::
کرنا ہی نہیں تھا کچھ کیا خوب ارادہ تھا
جو ہم نے نبھایا ہے پیماں تھا نہ وعدہ تھا
ان میں پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں ’’خوب‘‘کی بجائے’’خواب‘‘چھپا ہے اور دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں ’’ہے‘‘ کی جگہ ’’تھا‘‘ چھپا ہے۔ایک بات اور’’شرابور‘‘کے ضمن میں اکبر حمیدی صاحب کا موقف درست ہے۔میرے خیال میں ’’ب‘‘ پر ’’پیش‘‘نہیں۔ احمد صغیر صدیقی(کراچی)
جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۳شائع ہو گیا
حیدر قریشی اور ڈاکٹر نذر خلیق کی ادارت میں جدید ادب جرمنی کا شمارہ نمبر ۱۳ (جولائی ۲۰۰۹ء تا دسمبر ۲۰۰۹ء) شائع ہو گیا ہے۔۳۵۲صفحات پر مشتمل اس بھرپور شمارہ میں اس بار تین ادبی گوشے شائع کیے گئے ہیں۔یہ تینوں گوشے تین گوشہ نشین قسم کی علمی شخصیات کے ہیں۔افسانہ نگار سلطان جمیل نسیم اور شاعروافسانہ نگارعبداللہ جاوید کے گوشے معمول کے گوشے ہوتے ہوئے بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔میرزا ادیب،رئیس امروہوی،غلام عباس،ڈاکٹر وزیر آغا،جوگندر پال،ممتاز مفتی،انتظار حسین،انور سدید،الیاس عشقی،مشفق خواجہ،ابوالخیر کشفی،اسلم فرخی،دیوندر اسر،اکرام بریلوی،ڈاکٹر خالد سہیل،نسیم درانی،شہناز خانم عابدی اور متعدد دیگر نامور لکھنے والوں نے ان گوشہ نشینوں کے فن کو سراہا اور داد دی ہے۔آخر میں دونوں کی تخلیقات کا ایک انتخاب شامل کیا گیا ہے۔تاہم اس شمارہ میں پروفیسر ناصر احمد کا گوشہ اپنی نوعیت کا بالکل منفرد اور انوکھا گوشہ ہے۔پروفیسر ناصر احمد اردو کے ایک مخلص قاری تھے۔ ادب کی قرات کا ان کا انداز ایسا پر کشش تھا کہ انہیں دیکھ کر ہمارے عہد کے تین شاعر اور ادیب نہ صرف اپنی ابتدائی عمر میں ان سے متاثر ہوئے بلکہ انہیں سے انہیں تحریک ملی کہ وہ علمی و ادبی کام کریں۔وہ تین ادبی شخصیات جو پروفیسر ناصر احمد کی ادب دوستی سے متاثر ہو کر ادبی دنیا میں آئیں ان کے نام ہیں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان(پشاور)،حیدر قریشی (جرمنی)اور صادق باجوہ ( امریکہ)۔پروفیسر ناصر احمد کا گوشہ شائع کرکے ادب کے سنجیدہ قارئین کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے اور گم ہوتے ہوئے قاری کی دریافت کی ایک صورت نکالی گئی ہے۔اس گوشہ کے لکھنے والوں میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان،صادق باجوہ،منشا یاد ،بشریٰ ہما اور حیدر قریشی شامل ہیں۔
جدید ادب کا آغاز ایک دلچسپ اور فکر انگیز اداریہ میں اپنے ذاتی مسئلہ کے حوالے سے ہوتا ہے لیکن یہ ایک ادبی مسئلہ بھی ہے۔حمد و نعت کے باب میں ڈاکٹر محبوب راہی، مرزا رفیق شاکر،صادق باجوہ اور فرحت حسین خوشدل کے نذرانۂ محبت و عقیدت شامل ہیں۔مضامین کے حصہ میں پروفیسر مسعود حسین خاں(خود نوشت’’ورودِ مسعود ‘‘ والے) سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی ۹۰ویں سالگرہ پر پروفیسر مرزا خلیل بیگ کا مضمون خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔دیگر مضمون نگاروں میں ڈاکٹر نذر خلیق(فکرِ اقبال،اقبال کی نثر کے حوالے سے)،عبدالرب استاد(حیدرآبا،کرناٹک میں اردو تنقید)،رفیق شاہین(روح کا عالمی تصور)، اطہر معز ( اردو ناولٹ کا مقام و منصب)،صبیحہ خورشید(اردو ماہیا کا آغازوارتقا اور اردو میں ماہیا نگاری)،مرتضیٰ اطہر(فہمیدہ ریاض کی شاعری میں عصری حسیت)،آصف علی محمد(اقبال اور ماریشس) شامل ہیں۔ڈاکٹر انور سدید کا مکتوب بنام مدیر جدید ادب اور شمارہ ۱۲پر ان کا مطبوعہ تبصرہ کو مضامین کے حصہ میں شامل رکھا گیا ہے۔غزلوں کے حصہ میں عبداللہ جاوید کے کلام کے انتخاب کے ساتھ ساتھ ان شعراء کی غزلیات شاملِ شمارہ ہیں۔ایوب خاور، نصرت ظہیر،کاوش پرتاپگڈھی،رؤف خیر،شہناز نبی،احمد صغیر صدیقی،کاوش عباسی،حمیدہ معین رضوی،جان عالم،ناصر نظامی،طاہر عدیم،معید رشیدی،تحسین گیلانی،مبشر سعید،خواجہ جاوید اختر،عاطر عثمانی،جیم فے غوری اور متعدد دیگر شعرا ئے کرام۔غزلیات کے حصہ میں اس بار مغربی دنیا کے شعراء کی تعداد پہلے کی نسبت زیادہ دکھائی دیتی ہے۔مظفر حنفی،اکبر حمیدی،انور سدید،محبوب راہی،اشعر نجمی اور حیدر قریشی کی چار چار غزلیں شامل ہیں۔انواراحمد کے تعارف کے ساتھ ان کی تیرہ نایاب غزلیں دی گئی ہیں۔افسانوں کے باب میں اس بار جوگندر پال کے چار افسانے’’بھوک پریت‘‘،’’ڈیرہ بابا نانک‘‘،’’جاگیردار‘‘ اور ’’بَسے ہوئے لوگ‘‘ایک ساتھ دئیے گئے ہیں۔دوسرے افسانوں میں رشید امجد کا سفر گشت،انور زاہدی کا خواب سا د ن،عبداللہ جاوید کا میری بیوی کو اس شمارہ کے حاصل افسانے قرار دیا جا سکتا ہے۔سلطان جمیل نسیم کے دو افسانے’’من مانی‘‘ اور ’’سچ کے سوا کچھ نہیں‘‘،سلیم آغا قزلباش کا اکائی،ڈاکٹر بلند اقبال کا کوڑے جو درد سے چیختے تھے،شہناز خانم عابدی کا امانت،محمد حامد سراج کا ریشم کے ریشے،شبہ طراز کا ماند گی کا وقفہ اور اقبال حسن آزاد کا آسیب بھی اپنی اپنی جگہ دلچسپ اور عمدہ افسانے ہیں۔
نظموں کے حصہ میں وزیر آغا،نصرت ظہیر،جعفر ساہنی،اسنیٰ بدر،احمد سغیر صدیقی،جان عالم،پروین شیر،فیصل عظیم،معید رشیدی،طاہر عدیم،سہیل اختر اور راقم کی نظمیں شامل ہیں۔ستیہ پال آنند ،ایوب خاور،تنہا تما پوری اور کاوش عباسی کی چار سے لے کر سات تک نظمیں شامل کی گئی ہیں۔خصوصی مطالعہ کے باب میں ستیہ پال آنند کا’’شوکت صدیقی ۔ایک سوانحی مونتاژ‘‘نصرت ظہیر کا ’’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘اور تحسین گیلانی کا’’جھڑکیاں‘‘دلچسپ تحریریں ہیں تینوں تحریریں موضوع کے ساتھ مصنفین کی ذاتی زندگی کی ہم آہنگی کا احساس دلاتی ہیں۔ماہیوں کے باب میں اس بار امین خیال،نذیر فتح پوری،طاہر عدیم،مبشر سعید،حسن رضا،امین بابر اور رانا اختر کے ماہیے شامل ہیں۔
کتاب گھر میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے سفر نامہ،ایوب خاور کے دو شعری مجموعوں اوریحییٰ نشیط،کرامت علی کرامت،سلیم آغا،خواجہ محمد عارف،ارشاد قمر کی کتابوں پر مختصر تبصرے شامل ہیں۔عبدالرب استاد کے مجموعہ تاثر اور تنقید پر محمد اسلم رسولپوری کا، مولانا حالیـ کے مقدمہ شعرو شاعری پر فریدہ بیگم کا اور احمد حسین مجاہد کے صفحۂ خاک پر حیدر قریشی کا تفصیلی مطالعہ بھی کتاب گھر میں شامل ہے ۔خطوط کے صفحات پر ڈاکٹر رضیہ حامد،فخر زمان،افتخار عارف اور مقصود الہٰی شیخ سے لے کر اکبر حمیدی،محبوب راہی،رؤف خیراور تنہاتما پوری تک ۲۳ناموں کی فہرست ہے۔جدید ادب کا موجودہ شمارہ اردو ادب کی تازہ ترین ادبی صورتحال کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔
ارشد خالد(اسلام آباد)
(یہ خبر[email protected]سے سات جولائی ۲۰۰۹ء کو ریلیز کی گئی)
جدید ادب کا تازہ شمارہ میرے سامنے ہے۔سینئر لکھنے والوں کے ساتھ نئے قلم کاروں کو ادبی دنیا میں متعارف کرانے کا سلسلہ مستحسن ہے۔آپ نے علم و ادب کا چراغ جلا کر چراغ دان کے نیچے نہیں بلکہ چراغ دان کے اوپر رکھا ہے تاکہ اس کی روشنی تمام اردو گھر والوں کو پہنچے۔۔۔ڈاکٹر نذر خلیق کے مضمون’’ فکرِ اقبال‘‘نے مجھے بچپن کے وہ دن دلائے جب میں اپنے والد کے ہمراہ (سیالکوٹ میں)علامہ اقبال کے گھر کے سامنے سے گزرتے وقت’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ گنگنایا کرتا تھا۔
رفیق شاہین کا تعارفی مضمون’’روح کا عالمی تصور‘‘،صبیحہ خورشید کا مضمون’’ماہیا کا ارتقا اور اردو میں ماہیا نگاری‘‘تحقیقی اور معلوماتی ہیں۔ستیہ پال آنند کی تحریر ’’شوکت صدیقی ایک سوانحی مونتاژ‘‘خاص تحریر ہے۔حیدر قریشی کا ’’رانجھے کے ماموں‘‘محبت و ایثار کی ان مٹ داستان ہے۔’’تاثر اور تنیقد‘‘(اسلم رسولپوری)،’’مقدمہ شعرو شاعری‘‘(فریدہ بیگم)اور’’ صفحۂ خاک‘‘(حیدر قریشی)پر تفصیلی مضامین اچھے لگے۔آپ کے مختصر تبصرے زیر تبصرہ کتاب کی اصل خوشبوپیش کرتے ہیں۔شاعری میں نئے اور پرانے ناموں کے ساتھ اردو شاعری کا موجودہ منظر نمایاں ہے۔ماہیا کے سلسلہ میں جدید ادب کی کدمات قابلِ ستائش ہیں۔گوشے،افسانے اور دیگر مندرجات سب قابلِ ستائش ہیں۔جدید ادب کا ہر صفحہ اپنے اندر ایک دنیا رکھتا ہے،اس سے مدیر کی محنت و لگن عیاں ہے۔
جیم فے غوری(اٹلی)
ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کے ذریعہ آپ کی کتاب(عمرِ لاحاصل کا حاصل)اور رسالہ کا پیکٹ ملا،بیحد شکریہ۔اتنی خوبصورت چیزیں پا کر دل باغ باغ ہو گیا۔خدا آپ کو خوش رکھے،بڑا کام کر رہے ہیں اور بڑی بے باکی اور جرات مندی کے ساتھ۔جدید ادب کے شمارے مل نہیں پا رہے تھے،بعض مضامین کے چرچے سنے تو کسی طرح ادھر ادھر سے حاصل کرکے پڑھتا رہا۔،،،آپ نے یہ اچھا کیا کہ اپنی ساری چیزیں اکٹھا کر دیں،اب یہ ضروری ہو گیا ہے۔ان کو دیکھ کر عجیب سا لگا۔ہم لوگ تو ایک صنف کا حق ادا نہیں کر پا رہے ہیں اور آپ ہمہ جہت ہیں،شاعر،افسانہ نگار،نقاد،مدیر وغیرہآپ کے لیے دل میں عزت ہی نہیں محبت بھی جاگتی ہے۔خدا آپ کو سلامت رکھے اور مزید کام کرنے کا حوصلہ بھی دے۔ پروفیسر علی احمد فاطمی(الٰہ آباد)
صفحہ نمبر ۱۹۵پر اکبر حمیدی صاحب کی غزل’’برس مجھ پر ایساشرابور کر دے‘‘میں لفظ شرابورکے سلسلہ میں کچھ عرض کرناچاہتا ہوں۔اس غزل میں اقوائے قافیہ پیدا ہو گیا ہے۔اگر لفظ’’ شراابُور‘‘ کوپیش کے بغیر بھی لکھا جائے تو یہ لفظ غور(ghaur)،دور(daur)،طور(taur)،فور(faur)کے وزن پر نہیں آتا۔لفظ شرابور(sharabor) کا تلفظ زور(zor)، مور(mor)، چور(chor)، جوڑ(jorr)، موڑ (morr)کے تلفظ کے مطابق ہے۔اکبر حمیدی صاحب کی اسی غزل کا ایک قافیہ گھنگورکا تلفظ بھی زور(zor)، مور(mor)کے تلفظ کے مطابق ہے۔لاہور کے بارے میں البتہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں تلفظ کی تبدیلی ممکن ہے۔
اداریہ میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے یورپ کے دوسرے مدیران کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے احتیاط کے ساتھ لکھا ہے،اصل حقیقت یہ ہے کہ دوسرے تمام مدیران سرکاری گرانٹ کے بل پر رسالے نکال رہے ہیں یا پھر دوسروں سے چندہ اور کنٹری بیوشن کی مختلف شکلوں میں رقم وصول کر کے رسالے نکال رہے ہیں۔یہ بھی ان سب کی ہمت ہے کہ کسی طرح سہی ادب کی ترویج کے لیے کام کر رہے ہیں۔لیکن انتہائی معمولی مزدوری اور معمولی تنخواہ کے باوجود اسی رقم سے پس انداز کرکے جدید ادب جیسا ’’ون اینڈ اونلی‘‘ جریدہ نکالنا صرف اور صرف آپ کا کارنامہ ہے ۔ ناصر نظامی(ایمسٹرڈیم ،ہالینڈ)
گفتگو کے تحت ایک ذاتی گزارش سے آپ کی صاف گوئی اور اردو دوستی کا بھر پورا ظہار ہوتا ہے۔جدید ادب ایک ایسا ادبی اور علمی جریدہ ہے جو ٹھہر ٹھہر کر سنجیدہ توجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔اس کے درمیان سے سرسری گزر جانا ممکن نہیں۔ جعفر ساہنی(کول کوتہ)
یقین مانیے جدید ادب پا کر انتہائی مسرت ہوتی ہے اور گویا ہماری عید ہو جاتی ہے۔اس بار سلطان جمیل نسیم، پروفیسر ناصر احمداور عبداللہ جاوید صاحبان سے تفصیلی ملاقات ہو گئی۔جدیدادب یقیناََ واحد انٹرنیشنل جریدہ ہے۔خدا اسے سلامت رکھے اورآپ اسی تندہی کے ساتھ اردو زبان و ادب کی خدمت کرتے رہیں۔
کاوش پرتاپگڈھی(دہلی)
’ جدیدادب ‘ شمارہ (۱۳) ۳۵۲صفحات کے ضخیم علمی وادبی مجلّے کی صورت میں وصول ہوا۔ اس سے قبل میرے بیٹے سہیل جاوید نے انٹرنیٹ ایڈیشن کی جھلکیاں دکھا دی تھیں۔ آپ نے جو کہا وہ کر دکھایا ۔اس گوشہ نشین کو اپنے مجلّے میں گوشہ نشین کیا۔اس مرتبہ آپنے گوشہ نشینوں میں ادیب و شاعر کے علا وہ ادیب و شاعر گر شخصیت کو شا مل کر لیا ، ایک نئی اور مثبت جدّت کی ہے ، میری مراد پروفیسر ناصر احمد کی گوشہ نشینی سے ہے ۔ پروفیسر صاحب کے بارے میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان ، جناب صادق باجوہ اور آپ کی تحریروں سے مرحوم کی زندہ جاوید شخصیت کا ابلاغ ہوتا ہے۔ مضامین میں رفیق شاہینؔ صاحب نے جناب سیّد محمد رضی الدّین کی کتاب ’روح کا عالمی تصور ‘نہایت عمدگی سے متعا رف کیا ہے ۔آپ کی تحریر کا حوا لہ بھی پورے جواز کے ساتھ دیا ہے۔البتہ میں ان کے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا کہ اس کتاب میں سائنسی نقطۂ نظر کو بھی شامل کیا جاتاتو مناسب ہوتا ۔ ڈاکٹر انور سدید کا خط اور تبصرہ مضامین کے حصہّ میں اچّھااضافہ ہے موصوف نے میرا افسانہ پڑھا اس کیلئے میں ان کا شکر گزار ہوں ۔ افسانوں میں جوگندر پال جی کے شاہکار افسانوں ، بھوک پریت ، ڈیرا بابا نانک ، جاگیردار ، کو ایک بار پھر پڑھا اور ایک بار پھر وہ پھانس کی طرح چبھ کر کھٹکنے لگے ، دل میں نہیں شاید دماغ میں ، نہیں شاید روح میں یا میرے باطن کی کسی نرم ترین ،حساس ترین جگہ جس کی میں صراحت نہیں کرسکتا۔انور زاہدی کا افسانہ ’خواب سا دن ‘ ایک جانب داستانوں کی کوکھ سے اپنا رشتہ استوار کرتا ہے تو دوسر ی جانب انیسویں صد ی کے اواخر اور انیسویں صدی کے آ غاز کے دنوں کے مغربی افسانو ں سے ہاتھ ملا تا ہے ایسے افسانے وہی لکھے گا جو ایک اچھّافنکار ہونے کے علاوہ ماہر دستکار(Craftsman)بھی ہو ۔اس افسانے کے ساتھ آپ نے جوگندر پال جی کے افسانچے ’ گمشدہ ‘ کا ٹیل پیس لگا یا ہے ۔ میرا تو خیال ہے یہ جوڑ غیب سے لگا ہے اس نے انور زاہدی کے افسانے کو زبردست توانائی اور بلندی مہیّا کی ہے ، لطف آ گیا ۔سلیم آغا قزلباش کا افسانہ ’اکائی‘ اسلوب اور بیان کا کلاسیک ہے ۔ ڈاکٹر بلند اقبال کا افسانہ ’کوڑے جو درد سے چیختے تھے‘۔ بڑی تفصیل سے اذیت پہنچانے والا افسانہ ہے ۔ ایسا افسانہ ایک ڈاکٹر ہی لکھ سکتا ہے ۔ اس افسا نے کو انگریزی زبان میں چھپے ہوئے ایک اقتباس سے جوڑ کر آپ نے اس افسانے کے قاریوں کومولانا عبیداللہ سندھی کی اجتہادی فکر اور بصیرت کی جانب متوجّہ کر دیا ہے جو دیو بندی مکتبۂ خیال کی ایک جہت (کسی قدر اختلافی ہی سہی) ہے۔مولانا عبید اللہ سندھی کے موقف کو حضرت شاہ و لی ا للہ کے فرمودات سے سہارا دیا گیا ہے۔۔۔ اجماع اور اجتہاد کے نظریات پر غورو فکر اور کام کی ضرورت ہے لیکن جہاں تک میں نے محسوس کیا ہے ان معاملات کو پسِ پشت ڈالا جاتا رہا ہے بہرحال میں ان موضوعات پر اظہار رائے کا اہل نہیں ہوں ۔ مناسب اقتباسات اور ان کے موزوں مقامات پر اند راج ’’ جدید ادب ‘‘ کو دیگر جملہ ہائے ادب میں ایک امتیاز ضرور دلواتے ہیں ۔ شہنازخانم عابدی کا افسانہ ’’امانت ‘‘ اچّھا لگا ۔لیکن شاید مجھے اس افسانے پر اظہار رائے کاحق نہیں بنتا ، وہ میری’ پتنی ‘جو ٹھہریں۔
افسانوں سے بمشکل پیچھا چھڑایا تو کیا دیکھتا ہوں ایک اور گوشہ میرا منتظر ہے ۔ میرا اشارہ انوار احمد ( مر حوم ) کی تیرہ غز لوں اور تعارف کی جانب ہے ۔ آپ نے یہ بہت اچّھا کیا ہے ۔ گوشۂ سلطان جمیل نسیم خاصے کی چیزہے ۔ نظموں میں جناب وزیرآغا کی نظم جزئیات اوراشارات کے امتزاج کا حیران کُن کرشمہ ہے ۔ اس کے باوجود انتہائی سنگین ’’ واپسی ‘‘ ہمیشہ تو نہیں لیکن اکثر سنگین ہوتی ہے۔ اسنٰی بدر (ہنگری) کی ’’ نظم ‘‘ دل کو چھونے والی نظم ہے۔ اس موضوع پر مغربی ادب میں بڑی شاعری ملتی ہے لیکن اسنیٰ بدر کی نظم سادہ اور معصوم ہے اس میں خود ترسی ہے لیکن بلندآہنگ طنز کا شائبہ بھی نہیں ملتا اورمصرع آغاز(opening line) تو سیدھا دل میں اتر جا تا ہے تیر کی مانند ’’ ہم بوڑھے لو گ بہت بے بس ‘‘۔ پروین شیر ( کینیڈا ) کی نظم ’’جگِ سا پزل ‘‘ لڑکپن سے میرے ذہن میں سمایا ہوا موضوع ہے جس پر میں تو نظم موزوں نہ کرسکا۔ پروین شیرؔ نے کر دی اوربڑی ا بلاغی صلا حیّتوں کے ساتھ ۔فیصل عظیم ( امریکہ ) کی نظم ’’ انگشت بدنداں ‘‘ سماجیات اور سماجی نفسیات کے ایک مسئلے پر مشتمل سچّی نظم ہے ۔ منا فقوں کے درمیان ایک نا منافق نوجوان کا اڈجسٹ ہونا آسان نہیں ۔ طاہرعدیم (جرمنی ) کی نظم ’’ بس اک حسرت سی ‘‘ ایک ایسی محرومی کی جانب اشا رہ کر تی ہے جو کم ہی ابلاغ کی صورت اختیار کرے گی۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنندؔ کی چھ نظمیں ’’ اندر باہر کی نظمیں ‘‘ ،’’ اگنی کنڈ ‘‘، ’’ صورت گر‘ ‘، ’’جنگل میں واپسی ‘‘، ’’ آل قابیل ‘‘،’ ’ ستیہ پال اندھا ہو گیا ہے ‘‘، ’ ’خود کلا می ‘‘ انسان کی اندر کی اور باہر کی زندگی ، انسان کے اسا سی جرم اور دیگر اخلاقی اور فکری موضوعات پر ڈرامائی ، مصورانہ ، استعا راتی ، اور رمزیہ منظو مات ہیں ۔ان سب کا رشتہ انسانی اسطوری اور عمومی زندگی کے بنیا دی پیرا ڈو کسیکل سچّائیوں سے ہے ۔ میں ہمیشہ مسیحی فکر کے اس اصرار پر حیران رہا ہوں کہ انسان کااساسی گناہ ’’Basic sin‘‘ آدم (ع۔س) سے سر زد ہوا۔ میں نے قابیل کے گناہ کو اساسی گناہ تسلیم کیا ہے۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی نظم اختصار اور ارتکاز کے ساتھ اور پوری شاعرانہ توانائی سے اس مرکزی خیال کا ابلاغ کررہی ہے ۔ ( آل قابیل ) البتہ ’’ فرشتے ‘‘ کے متکبّرانہ ارشاد کے ضمن میں مجھے ’ فرشتے ‘ کو درمیان میں لانا پسند نہیں آ یا۔ فرشتوں نے تو تخلیق آدم کے مرحلے پر ہی یہ پیشین گوئی کر دی تھی کہ مٹّی سے خلق کیا جانے والا بشر زمین پر فساد کرے گا اور خون بہائے گا اور اس پیش گویا نہ اعتراض کو خالقِ مطلق نے اس مرحلے پر ہی نظر انداز یا مسترد کر دیا تھا ۔ نظم میں فرشتے کو بے سبب اہمیت مل گئی ۔یوں بھی مذکورہ الفاظ ستیہ پال جی کے اندر کے ’ میں ‘ نے ادا کئے ہیں فرشتے نے نہیں ۔ ’’ آل قابیل ‘‘ بہت مختصر اور بے حد کامیاب نظم ہے جو علّامہ اقبال سے ہوتے ہوئے دنیائے شعرو ادب میں دور تک جا تی ہے ۔ تنہا تما پوریؔ کی نظمیں بھی پڑھنے کے لئے سوغات ہیں ۔ کراچی کے کاوش عبّا سی کی نظمیں بھی پسند آئیں ۔ غزل کا شعبہ بھرپور ، متنوع ، اور باغ و بہار ہے ۔ میں شرابور کو طَور کا ہم قافیہ ہونے پر اصرار کرنے سے اس وقت بھی گریز کروں گا جب کسی لغت کی سند بھی مجھے حاصل ہوگی۔ ہندوستانی تلفظ کی اساس پر بھی نہیں۔ جناب اکبر حمیدیؔ سے بھی یہی توقّع کروں گا ۔
میں نے کچھ زیادہ ہی جگہ گھیرلی ہے ۔کیا کروں ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ’’ جدید ادب شمارہ ۱۳ ‘‘ نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا ہے ۔ چلتے چلتے میں یہ بھی کہتا چلوں ، میں آدھی رات کے بعد شکاگو سے کینیڈا پہنچا تو ’’ جدید ادب ‘‘ کو اپنا منتظر پا یا ،پھر کیا تھا اس میں ایسا محو ہوا کہ فجر کرلی اور شہناز خانم کو میرے بے ضا بطہ زندگی گزارنے کے ڈھنگ پر ایک عدد لیکچر جھاڑنے کا موقعہ ہاتھ آگیا۔ اب جدید ادب سے رخصت طلب کرتا ہوں اورمدیر محترم کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ قارئین کو بھی مبارک ہو ۔ عبداللہ جاوید(کینیڈا)
’جدید ادب‘ کا شمارہ ۱۳ بذریعہ ڈاک ملا، شکریہ۔’گفتگو‘ کے تحت کی گئی آپ کی ’ذاتی گزارش‘ دل کو چھونے والی تحریر ہے۔دعا گو ہوں کہ متعلقہ مدیران رسائل کی سمجھ میں پوری بات آجائے اور محکمۂ ڈاک کی طرف سے جو مسائل سامنے آئے ہیں وہ بھی جلد ہی دور ہوں تاکہ رسالے کی ششماہی نوعیت برقرار رہ سکے۔ پروفیسر مسعود حسین پر لکھا ہواپروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ کا مضمون سیر حاصل اور معلومات افزا ہے، البتہ مضمون کے اختتام پر درج شدہ پروفیسر مسعود کے اشعار پڑھ کر محسوس ہوا کہ ان کی پیرانہ سالی ان پر غالب آگئی( حالانکہ پروفیسر بیگ نے انھیں ذہنی طور پر چاق و چوبند لکھا ہے)، ذرا ان کے اشعار پر غور کیجئے
دوا سے کچھ نہ ہوا، اور دعا سے کچھ نہ ملا بشر نے کچھ نہ دیا اور خدا سے کچھ نہ ملا
میں خالی ہاتھ چلا آرہا ہوں تیری طرف تجھے بتانے کہ تیری عطا سے کچھ نہ ملا
ایک ایسا شخص جو خدا کا منکر نہیں ہے اور جسے اس بات کا یقین ہے کہ وہ جلد ہی لوٹ کر اپنے خالق کے پاس جانے والا ہے وہ یہ شکایت کیسے کر سکتا ہے کہ ’ تیری عطا سے کچھ نہ ملا‘ ، جبکہ نام و نمود، عزت اور شہرت سب کچھ تو اُسی نے حضرت مسعود کو عطا کیا، ایں سعادت بزور بازو نیست ، بہر کیف پروفیسر بیگ کی طرح میں بھی ان کی مزید درازیٔ عمر اور صحت و تندرستی کے لئے دعاگو ہوں۔ ’روح کا عالمی تصور‘ پررفیق شاہین کا مضمون مختصر ہی سہی،لیکن ایک لائق مطالعہ تحریر ہے۔اس کے ساتھ درج شدہ آپ کی تحریر کا اقتباس بھی موضوع سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔اس طرح کے فکر انگیز اقتباسات ’جدید ادب‘ کی مخصوص پہچان بن گئے ہیں۔
گوشۂ جاوید عبد ا للّٰہ کے تحت شاعر موصوف کی غزلیں اور نظمیں یک مشت پڑھنے کو ملیں۔ مجھے ان کی غزلیہ شاعری نسبتاً بہتر معلوم ہوئی، البتہ اتنا ضرور ہے کہ اگر وہ اشعار کے انتخاب میں تھوڑی سی احتیاط یا سختی سے کام لیں تو ان کی غزلیہ شاعری کا مجموعی تأثر مزید بہتر ہوسکتا ہے۔حصۂ نظم میں وزیر آغا ،جعفر ساہنی، پروین شیر اور نصرت ظہیر کی تخلیقات سے محظوظ ہوا، جبکہ غزلوں میں مظفر حنفی، اکبر حمیدی اور غلام مرتضیٰ راہی کے علاوہ خود آپ کے متعدد اشعار پسند آئے۔اکبر حمیدی کے ایک’ ز بردست‘ مطلع سے’ شرابور ‘ہوکر ذرا آگے بڑھا تو انور سدید کے ان اشعار نے راستہ روک لیا۔
تمھیں رتبہ بڑا جب سے ملا ہے ہوا میں اُڑ گئے اقرار تیری
تمھیں گرداب میں اُلجھا کے انورؔ کہاں غائب ہوئے ہیں یار تیرے
جب اول ا لذکر شعر پرمیری نظر پڑی تو میں یہ سمجھا کہ کمپوزنگ کی غلطی کی وجہ سے مصرعۂ اولیٰ میں لفظ ’تجھے‘ کی جگہ ’تمھیں‘ درآیا ہے لیکن پھر مقطع میں یہی صورت حال دیکھ کر سخت حیرت ہوئی۔ابھی میں گو مگو کی کیفیت میں تھا کہ اس صورت حال کو کمپوزنگ کی غلطی پر محمول کروں یا کچھ اور سمجھوں، کہ ایوب خاور کی نظموں (صفحہ ۲۷۴۔۲۷۶)میں کچھ ایسی ہی زبان پڑھنے کو ملی۔ پہلی نظم(بعنوان ’ایک نظم‘) میں شاعر ’ اجل‘ سے اس طرح مخاطب ہے
اجل / اپنارستہ بدل / میرے دل سے نکل / مجھ سے دو ہاتھ دوری پہ چل
اور پھر دوچار سطروں کے بعداُسی ’اجل‘ سے شاعر اس لہجے میں گویا نظر آتا ہے:
’ ․․․․․میں اُس دن سے پہلے تمھیں آواز دوں گا‘
ایوب خاور ہی کی ایک دوسری نظم ’التجا‘ کا آخری ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں(صفحہ۲۷۶) :
’ ردھالی ! تیرے سینے کی اتھاہ زنبیل میں ہر غم کا نم ہی
تُو تو سخیوں کی سخی ہے
اے سخی!․․․․․․میرے اس خواب کی مےّت کے پہلو میں سخن کردو‘
مذکورہ دونوں نظموں میں تُو/ تم اور تجھے/ تمھیں جیسے الفاظ کو شروع سے اخیر تک جس طرح خلط ملط کیا گیا ہے اس کی کوئی ظاہری وجہ میری سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔اگر قواعد کی رُو سے اس طرح کی زبان ( کے مستعمل ہونے ) کا کوئی جواز ہے تو براہ مہربانی اس کی وضاحت فرمادیں تاکہ مجھ جیسے ادب کے طالب علم کو کچھ روشنی مل سکے
مذکورہ نکات سے قطع نظر زیر نظر شمارے میں آپ نے کچھ اتنا زیادہ مواد فراہم کردیا ہے کہ اس مراسلے میں ان سب کا احاطہ کرنا دشوار ہے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ اوپر کی سطروں میں میں نے اپنی بات ایک ایسے مدیر تک پہنچانے کی کوشش کی ہے جو ہر طرح کے مصائب جھیل کر رسالے کو نہ صرف پابندی سے شائع کر رہا ہے بلکہ پورے خلوص کے ساتھ قارئین تک اس کی ترسیل بھی کر رہا ہے، چنانچہ صرف رسمی طور پر ’ یہ بھی اچھا، وہ بھی اچھا‘ لکھ کر میں اس کی طبیعت کو مکدر نہیں کرنا چاہتا۔ ارشد کمال(نئی دہلی)
جدید ادب شمارہ 1 3 ملا ۔جناب ارشد کمال صاحب نے جدید ادب شمارہ 1 2میں شائع ہونے والی میری
غزل میں ایک غلطی کی نشاندہی کی ہے۔میں ان کا بے حد ممنوں ہوں۔ـ” لمحاتوں” کا یقینا کوئی جواز نہیں۔ “تین گوشہ نشینوں ” کے گوشے قابلِ ستائش ہیں۔ایک بھولے بسرے شاعر انوار احمدکا تعارف بھی خوب ہے۔
اﷲ ان بے لوث خدمات کا اجر دے۔ صادق باجوہ(میری لینڈ،امریکہ)
حیدر قریشی کی ادارت میں جدید ادب جرمنی سے جس طرح باقاعدگی اور پابندیٔ وقت کے ساتھ شائع ہو رہا ہے وہ یقیناََ لائق تحسین ہے۔حیدر قریشی نے اس ادبی صحیفے کو جو معیار،وقار اور اعتبار عطا کیا ہے اور صورت کے ساتھ جس طرح اس کی سیرت اور باطنی اوصاف پردھیان دیا ہے اس کے لیے بھی وہ لائق مبارکباد ہیں۔اب جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۳منظر عام پر آیا ہے۔۳۵۴صفحات پر محیط اس صحیفے کا رنگین سرورق اور اس کا پچھلا حصہ ناظرین کو فی الفوراپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔سرورق پر گندم کی پکی فصل پر آپ کا ماہیا
گندم کی کٹائی پر چھوڑ دیا گاؤں گوری کی سگائی پر
ایک موثر افسانہ بھی ہے،جس کی کسک دل پر قبضہ جما لیتی ہے۔سرورق کی پشت پر تین اہم شخصیات جلوہ گر نظر آتی ہیں،یہ ہیں سلطان جمیل نسیم،حیدر قریشی کے ماموں پروفیسر ناصر احمد اور شاعرو ادیب عبداللہ جاوید۔شمارے کی ابتدا حمد و نعت سے کی گئی ہے۔جس میں ڈاکٹر محبوب راہی،مرزا رفیق شاکر،صادق باجوہ اور جناب خوشدل شریک کار ہیں۔نو اہم مضامین بھی شاملِ شمارہ ہیں۔ان میں مرزا خلیل احمد بیگ،ڈاکٹر نذر خلیق ،رفیق شاہین،اور ڈاکٹر انورسدیدکے مضامین فکرو آگہی اور بصارت و بصیرت میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔مضمون ’روح کا عالمی تصور‘ بڑا عالمانہ ،پُر تجسّس،حیرت انگیز اور معلوماتی ہے،جسے رفیق شاہین نے دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے۔مضمون کا یہ پہلو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے کہ حیدر قریشی سائنسی ایجادات کو مذہب دشمن سمجھنے کی بجائے انہیں مذہبی سچائیوں کی سائنسی اور منطقی توثیق و تصدیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ان کی فکر کا یہ مثبت اور منفرد رویہ دعوتِ فکر دیتا ہے گوشہ سلطان جمیل نسیم اور گوشہ عبداللہ جاوید میں معروف ہستیوں نے افسانوں اور شاعری کا جائزہ پیش کیا ہے۔ باقی غزلیں ، نظمیں اور ماہیے بھی اپنی جگہ خوب تر ہیں۔من حیث المجموع یہ شمارہ معیار،وقار اورا عتبار کے حساب سے پچھلے شماروں سے سبقت لے گیا ہے اور بھر پور ادبی آسودگی فراہم کرتا ہے۔رئیس الدین رئیس(علی گڑھ)
جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۳ہمدست ہوا،دیکھ کر دل باغ باغ ہو اُٹھا۔رسالہ ہر اعتبار سے اعلیٰ ہے۔اس کا ہر صفحہ آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔خدا اس جریدے کو نظرِ بد سے بچائے،آمین۔اتنا ضخیم اور خوبصورت شمارہ شائع کرکے آپ نے تو کمال کر دیا۔’’گفتگو‘‘ میں اس بار ایک ذاتی گزارش پڑھ کر پتہ چلا کہ آپ کن مشکلوں اور کرب سے گزر رہے ہیں،پھر بھی اردو کی مشعل جلائے ہوئے ہیں۔ایسے حالات میں اتنا خوبصورت جریدہ نکالنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔آپ کی ہمتوں کو سلام۔ حفیظ انجم کریم نگری(کریم نگر۔آندھرا پردیش)
شعر و ادب سے حیدر قریشی کی دلچسپی فطری ہے۔اردو کی آبادیوں سے بہت دور رہ کر بھی ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔اس خد مت کی بنیاد ریال،پونڈ یا ڈالر پر نہیں ہے،اس لیے اس میں خلوص ہے جس کی زندہ مثال ان کا رسالہ ــ’جدید ادب‘ ہے۔یہ خالص ادبی رسالہ ہے جسے کچھ تنگ نظر اور متعصب حضرات نشانہ بنا رہے ہیں۔حیدر قریشی کی سنجیدہ فکر رسالے کے مشمولات سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔حالیہ ملاقات میں جوگندرپال نے مجھ سے کہا تھا کہ’جدید ادب‘ کو میں ہند و پاک کے دس بڑے رسائل میں شمار کرتا ہوں۔اس رسالے میں گذشتہ دنوں بعض ایسی تحریریں شائع ہوئیں جن سے اردو کے ایک بڑے ادیب کی کارستانیاں سامنے آئیں۔مضامین حقائق پر مبنی تھے۔بعض حضرات ایسے ہوتے ہیں جن میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ذرا سی مخالفت ہوئی،مخالف پر لٹھ لے کر پڑ گئے۔بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں سوچنے اور معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن خود پر تنقید سہنے کا ظرف نہیں ہوتا،اور ایسا ہی ہوا۔’جدید ادب ‘کی اشاعت بند کروانے کی کوشش کی گئی۔پھر کیا تھا۔یاروں کو موقع مل گیا ۔مدیر پر جانب داری کا الزام لگایا گیا اور طرح طرح کی بہتان تراشی ہوئی،لیکن ان کی حالیہ تحریریں تمام معاملات کی تہوں کو روشن کرتی ہیں۔آزادیِ اظہار پر قدغن لگانا اہلِ علم کا شیوہ نہیں۔
معید رشیدی(دہلی)
جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۳مل گیا،ماشاء اللہ کافی ضخیم اور دستاویزی نوعیت کا ہے۔فکرِ اقبال(نثر کے حوالے سے) بہت مختصر ہے۔ڈاکٹر نذر خلیق نے کھل کر نہیں لکھا۔تصوف کے بارے میں انہوں نے اقبال کے جمع کردہ نوٹس کا حوالہ ضرور دیا ہے جنہیں پروفیسر صابر کلوروی نے حواشی کے ساتھ’’تاریخ تصوف‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔اس میں اقبال تصوف کے خلاف لگتے ہیں مگر صوفیہ کے خیال میں اقبال تصوف سے قریب تھے۔یون بھی اقبال بڑی مصلحتوں سے کام لیتے رہے ہیں۔وہ ہندو،مسلم،سکھ،شیعہ سب کو خوش کردیا کرتے تھے۔صرف ’تاریخِ تصوف‘ اور حافظ کے خلاف اقبال کے لکھے ہوئے مضمون کے حوالے سے اقبال کی فکر کی ایک متضاد جہت کو سمجھا جا سکتا ہے،جس سے وہ رجوع کر لیتے ہیں۔
سلطان جمیل نسیم اور عبداللہ جاوید صاحبان کے گوشے بھرپور ہیں۔شہناز کانم عابدی نے اپنے شوہر عبداللہ جاوید کے بارے میں لکھا اور پھر آپ نے فوراََ عبداللہ جاوید کا ’’میری بیوی ‘‘ چھاپ دیا۔ان کی غزلیں اور نظمیں بھی آپ نے تھوک کے بھاؤ چھاپ دیں،اس طرح انہیں سمجھنے میں مدد ہوتی ہے۔اکبر حمیدی ’’شرابور‘‘کو طور،غور دَور ،اور کے ساتھ قافیہ بناتے ہیں،گھنگھور غزل کہتے ہیں مگر پھر بھی انہیں ’’عدم تحفظ ‘‘کا احساس خوفزدہ رکھتا ہے۔ کچھ ایسا عدم تحفظ کا خوف ہے اکبرؔ تمام دریا سمٹ آیا ہے سفینے میں
آپ نے انوار احمد کی بڑی اچھی اچھی غزلیں چھاپ کر انہیں گویا مرجانے سے بچا لیا ہے۔ایوب کاور صاحب کی تخلیقات چونکاتی ہیں۔ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کا پروفیسر ناصر احمد پر لکھا ہوا مضمون’’اچھے انسان مرا نہیں کرتے‘‘متاثر کرتا ہے۔صادق باجوہ نے بھی تحریر و تعلق کا حق ادا کیا ہے۔اور آپ نے تو حین حیات ہی ان کی اہمیت کو تسلیم کیا تھا اور کروایا تھا۔’’رانجھے کے ماموں‘‘ دلچسپ ہے۔آپ نے ساحر لدھیانوی کے گیت اور مہندر کپور کی آواز کے حُسن کو بھی تحریری داد دی ہے۔’’جدید ادب‘‘ اور پھر حضرت حیدر قریشی کیادارت، تو ظاہر ہے ’ماہئے‘ تو اس میں ہوں گے ہی۔آپ نے اچھے ماہیے چھاپے جو حوالے کے کام آئیں گے۔
ایوب خاور کی کتاب ’’گل موسمِ خزاں‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی برسوں پہلے شائع شدہ نظم کا ایک مصرع ’’ہوا سوچوں میں گرہیں ڈال دے تو روح کے اندر اترنے والے ساتھی چھوٹ جاتے ہیں‘‘کی نشاندہی کرنا جو اَب موجودہ مجموعہ میں شامل ہونے سے رہ گیا،آپ کی خوش ذوقی اور ایوب خاور سے آپ کی محبت کا غماز ہے۔ایسا خوبصورت مصرع کیسے ’’گل موسمِ خزاں‘‘ کی زینت بننے سے رہ گیا؟
’’شاخِ صنوبر‘‘پر بھی آپ کی رائے بہت صحیح ہے کہ ’’نادیدہ قاری کے نام خط ‘‘میں غزلوں،نظموں کی دوبارہ اشاعت کا ذکر ضروری تھا۔ رؤف خیر۔(حیدرآباددکن)
جدید ادب کا خوبصورت ترین شمارہ ۱۳جولائی تا دسمبر محترم جناب عبدالرب استاد نے عنایت فرمایا۔ ۔۔۔بذریعہ جدید ادب آپ کی بے لوث و پر خلوص اردو خدمت بے بہا ہے۔آپ واقعی مبارکباد کے لائق ہیں۔
مضامین میں ڈاکٹر نذر خلیق کا’’فکرِ اقبال‘‘ متاثر کرتا ہے۔’’حیدرآباد کرناٹک میں اردو تنقید‘‘ بہ قلم عبدالرب استاد نہ صرف اردو تنقیدی خدمات کی آگاہی دیتا ہے بلکہ گلبرگہ میں موجود شعراء و ادباء اور دیگر قلم کاروں کااحساس دلاتا ہے۔جدید ادب کے ذریعے موصوف نے گلبرگہ کے قلم کاروں کی جانکاری کو بین الاقوامی قارئین اردو تک پہنچاکر نیک کام سر انجام دیا ہے۔جوگندر پال کے افسانے منفرد اور نمایاں خصوصیت کے حامل ہیں۔(سلیم آغا کا)افسانہ ’’اکائی‘‘بے حد متاثر کن ہے۔’’کوڑے جو درد سے چیختے تھے‘‘بہ قلم ڈاکٹر بلند اقبال انوکھا انداز رکھتا ہے۔ستیہ پال آنندکی ساری نظمیں اچھی لگتی ہیں۔استادِ محترم تنہا تماپوری کی نظمیں متاثر کرتی ہیں۔ماہیے بھی بہت خوب ہیں۔تفصیلی مطالعہ میں ’’تاثر اور تنقید‘‘،’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ اور ’’صفحۂ خاک‘‘مضامین علمی جانکاری فراہم کرتے ہیں۔جدید ادب شمارہ نمبر ۱۳مجموعی اعتبار سے نہایت ہی خوبصورت ہمہ رنگی ادب کے پھولوں کی خوشبو سے مہکتا ہوا گلدستہ ہے۔ مسعود علی تما پوری۔گلبرگہ
جدید ادب کا تازہ شمارہ نمبر ۱۳انٹرنیٹ پر دیکھا۔میرا مضمون’’فہمیدہ ریاض کی شاعری میں عصری حسیت‘‘آپ نے شائع کیا،اس کے لیے شکر گزار ہوں۔ ابھی پورا پرچہ تو نہیں پڑھ پایا لیکن جتناق پڑھا ہے اس سے اندازہ ہوا کہ آپ کے جریدہ میں شائع ہونے والی تخلیقات کتنی معیاری ہوتی ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں تخلیق کار سے زیادہ تخلیق کی قدروقیمت دیکھی جاتی ہے۔اردو میں ایسے رسائل کی تعداد بہت کم ہے۔’گفتگو‘کے مطالعہ سے اندازہ ہوا کہ آپ کتنی مشقت سے یہ رسالہ نکال رہے ہیں۔اور ناساز گار حالات میں بھی اردو کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ مرتضیٰ اطہر(دہلی)
جدید ادب کا تازہ شمارہ انٹرنیٹ پر نظر نواز ہوا۔میں ان دنوں جاپان میں ہوں۔اگلے برس جنوری میں ہالینڈ واپسی ہے۔تب آپ سے رابطہ کروں گا۔ہاں آپ کا اداریہ بڑا سچا اور بے شمار تلخ حقائق کا آئنہ دار ہے اور ایک سچے دل کی پکار جو بے لوث ہو کر ادب کی آبیاری میں منہمک ہے۔۔۔۔ایک بات طے ہے کہ میں آپ کی علمی اور ادبی مصروفیات بلکہ اس تن من والی لگن کو عزت و مرتبے کی نظر سے دیکھتا ہوں۔فاروق خالد(ہالینڈ،حال جاپان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمارہ نمبر ۱۲کے حوالے سے
جدیدادب شمارہ بارہ انٹرنیٹ پر دیکھ چکی تھی۔لیکن جب کاغذی پیرہن میں وصول ہوا تو کچھ اور ہی لطف ملا۔سب سے پہلے آپ کی کامیاب مساعی پر آپ کو مبارک سلامت۔آپ سال بھر جدید ادب پر جاں فشانی کرتے رہنے کے با وجود تخلیقی اور تنقیدی ادب کی مختلف اصناف میں اپنی سر گر میاں مسدود نہیں ہونے دیتے۔اس طرح خود بھی قرطاس و قلم کی خدمت میں ڈٹے رہتے ہیں اور ساتھ ہی شاعروں اور ادیبوں کی ایک فوج ظفر موج کو ڈٹائے رکھتے ہیں حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
اس مرتبہ آپ نے ’’ ۔۔۔ادبی کا ئنات میں رنگ ‘‘ سے جدید ادب کو جس طرح رنگا ہے وہ دادوستائش سے بہت اوپر ہے۔ آپ نے شعرو ادب کی خواتین کا جس اہتمام اور احترام سے ذکر کیا ہے اس سے میرے ذہن ودل میں آپ کے لئے احترام نقش ہو گیا ۔آپ نے معمو لی سا ادبی کام کرنے والوں کا نام بھی قدر دانی سے لیا ہے ۔بڑوں کا ادب اور چھوٹوں کا لحاظ بھی ملحوظ رکھا ۔ کشور ناہیدکے بارے میں حفیظ جالند ھری کا فقرہ ’’ اگر میں نے تمہیں پہلے دیکھ لیا ہوتا تو قومی ترانے میں کبھی یہ مصرعہ شامل نہ کرتا ‘‘ ’ کشورِ حسین شاد باد ‘
بہت لطف دیتا ہے۔ افسانوں کا شعبہ معیا ری ہے ۔ قیصر اقبال کا ’’ باز رفت ‘‘ ڈاکٹربلند اقبال کا ’’تمغۂ جرات ‘‘ علی محسن کا ’’ نارسا ئی ‘‘ اچھّے افسانے ہیں ۔قیصر اقبال نے ’’ باز رفت ‘‘ میں کملا کو جس طر ح بتدریج ’’ جہاں دیدہ ‘‘ ہوتا ہو ا دکھایا ہے قابلِ تعریف ہے ۔ میرا خیال ہے خط طوالت کی حدوں سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس لئے اب اجازت۔ شہناز خانم عا بدی(ٹورانٹو۔کینڈا)
’’جدید ادب‘‘ کا شمارہ یہاں کٹک میں جناب سعیدرحمانی صاحب کے پاس دیکھا۔ کافی وقیع اور جامع رسالہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ رسالے کے متعلق اس سے پہلے نہیں سنا تھا۔ سنا ضرور تھا اور جیسا سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا۔ پھر ادھر ’’ادب ساز‘‘ میں آپ پر ایک مبسوط گوشہ بھی نظر سے گذرا اور آپ جو کام کر رہے ہیں اس کی جانکاری ملی۔ ان سب سے اتنا مرعوب ہو چکا ہوں کہ دل کرتاہے کہ کاش یہ ناچیز بھی آپ کی کسی تحریک میں شامل ہو پاتا۔۔۔۔۔ اگر میں جدید ادب سے کسی بھی طرح جڑ سکا تو اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا۔
سہیل اختر(بھو بنیشور،انڈیا)
جدید ادب شما رہ ۱۲میں پڑھنے کے لئے بہت کچھ تھاآپ کی گفتگو (تحریری ) پڑھی ۔ ادب کے ہر پڑھنے والے کو پڑھنا چا ہئے۔لیکن ادب کے مسند نشینوں کو اسے گھول کر پی لینا چاہئے ۔آپنے ’’گفتگو ‘‘کے تحت سوچنے کو بہت کچھ دیا ہے لیکن ادب کی صورتِ حال پر بولنے والوں ،لکھنے والوں اور سوچنے وا لوں کو بھی ان لا ٹھی بر داروں کے با رے میں غور کر نا ہو گا جو ’ ادب ‘ کو بھینس فرض کر لینے کی غلطی کا ارتکا ب کر رہے ہیں ۔ ان لاٹھی بر داروں کے حوالیوں اور موالیوں میں کوئی تو مخلص ہو گاجو انہیں ادب اور بھینس میں امتیاز کرنا سکھا ئے اور تاریخِ ادب میں ان کی طرح کے لاٹھی برداروں کے انجام سے با خبر کرے۔ مضا مین میں نصرت ظہیر کا مضمون ’’ اردو کا تہذیبی پُل اور ماس میڈیا ‘‘انتہا ئی سلجھی ہوئی اور سچی تحریر ہے۔ مظفر حنفی اردو کے شاعر، افسانہ نگار، نقّاد اور ادیب تو ہیں لیکن ساتھ ہی اردو کے ایک پر خلوص خا دم بھی۔آپ نے ان کو ’’ جدید ادب ‘‘ کے ایک بھرپور گوشے میں مسند نشین کرکے لا ئقِ تحسین کام کیا ۔ احمد حسین مجاہد دوسرے صا حبِ گو شہ کی شا عری میں حسّیت،فکر،اور مضمونِ تازہ کی جستجوتخلیقی توا نا ئی کی بہار دکھا تی ہے۔مزاج دیکھنا ہو تویہ شعر ملا حظہ ہو
ہوں کہ جب تک ہے کسی نے معتبررکھا ہوا ورنہ وہ ہے باندھ کر رختِ سفر رکھ ہوا
شعری مواد اتنا زیادہ اورزیادہ میں بھی کچھ زیادہ اچھّا۔ میں تو گنگ ہوکر رہ گیا ہوں۔ البتہ ایک دو شاعروں سے ایک آدھ بات کر لوں ۔بھا ئی تنہا تما پوری! آپ کی نظم ’’پانچ پڑوسی ‘‘پڑھ کر یہ اندازہ ہو ا کہ آپکے اندرسب کچھ ابھی تک ٹھیک ہے ۔ حسّی توازن بر قرار ہے ۔ مبارک ہو ۔اور بھائی ستیہ پال جی اگر چہ اپنی نظموں کو ’اوورانٹلکچوالا ئز ‘ ہونے سے بچائے رکھتے ہیں ۔لیکن اپنے کو زیادہ پڑھا لکھا ہونے سے نہیں بچاسکے۔ اردو نظم کے قا ری کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ وہ کسی نظم کو ایک سے زائد مر تبہ نہیں پڑھتا ۔ پر وین شیر کی نظم کو پڑھ کرمیں بھی اس فکر میں پڑ گیاکہ وہ ننگے سر ، ننگے پاؤں کہاں جا ئے گی جس کی پروین شیر ’’ پُراکسی ‘‘ کر رہی ہیں ۔ فیصل عظیم دیکھنے میں مکھن اور کریم سے بنے
لگتے ہیں لیکن پڑھنے میں بالکل مختلف۔ بے حد حقیقت پسند۔ دیکھئے آگے کیا کرتے ہیں۔نیّر جہاں کی ’وری ڈال ‘ پڑھ کر میں نے اپنی فقیری پر رب کا شکر کیا ۔میں نے تو اپنا سارا بو جھ اس پر ڈا ل رکھا ہے و ہی میرے لئے بھی سوچتا ہے ۔میں تو اس کے پیاروں کے نعلین کے سہا رے پڑا رہتا ہوں۔اور شاید یہی سب ہے کہ نصرت ظہیر کی مانندنہ ہی ’خود گرفتہ ‘ ہوں ، نہ ہی ’روتی ہوئی تنہا ئی ‘ کے اسرار میں الجھ سکا ہوں ۔ اور ہاں مجید امجد کا ہم آواز ہو کرمیں یہ بھی نہیں کہتا’’اپنی آنکھ پہ ۔۔۔‘‘ پٹّی باندھ کے دیکھو!ڈاکٹر ستیہ پال جی نے دیپک چوپڑا کی سی ڈی کی گرفت کی ہے کچھ نہ کچھ اچھا کرتے ہی رہتے ہیں ۔The essential Rumiکے نئے اضافی ایڈیشن میں Coleman Barksنے اکیاسی نئی اور تا حال غیر مطبوعہ نظموں کا اضا فہ کیا ہے ۔ مولاناجلال الدّین رومی کی شاعری کا یہ ترجمہ پہلے ۱۹۹۵میں شائع ہوا اور بے حد مقبول ہوا۔ موجودہ اضافہ شدہ ۲۰۰۴میں آیا۔اور پھر شورشرابہ ، البم ،سی ڈی وغیرہ وغیرہ۔ اس ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ ریڈایبل ہے۔ اس نے مغربی دنیا فتح کر لی ہے یا دوسرے لفظوں میں مغربی دنیا نے رومی کی تسخیر کر لی ہے ۔ اس سے قبل فٹس جیرالڈ نے خیّام کو اسی طرح مغرب سے روشناس کیاتھا اور مغرب نے اس کی تسخیر کی تھی ۔ عمرخیّا م کی مانندجلال الّدین رومی کی جو شبیہ مغربی دنیا کے سطح بینوں کی نظروں کے سامنے پیش کی جا رہی ہے وہ غلط اوررمسخ شدہ ہے۔مشکل تو یہ ہے کہ کولمین برکسؔکو کم از کم میں کوئی الزام دینے سے قاصر ہوں اس نے جلا ل الدّین رومی کی شا عری کو روایتی شعبہ بندیوں سے آزاد کردیا ہے یہی اس کی خو بی ہے اور یہی اس کی برائی ۔ لیجئے صاحب بات سے بات بڑھے چلی جا رہی ہے جناب ارشد کمال اورڈاکٹر ستیہ پال آنند کا شکر گار ہوں کہ میری غزلوں کو اپنی توجّہ اور پسند سے نوازا ۔ قارئینِ کرام سے درخواست ہے کہ میری شخصیت کے با رے میں جو دو لفظ آنند جی کے قلم سے ٹپک پڑے ہیں انہیں سہوِ کتا بت سمجھ کر نظر انداز فرمائیں۔اب اجازت چا ہوں گا۔ رک اے خامہ ۔ عبداللہ جاوید( ٹورانٹو)