٭٭٭آپ کا خوبصورت جریدہ جدید ادب ملا،شکریہ آپ نے یاد رکھا۔آپ کا میرا رشتہ بہت پرانا ہے۔میرا ایک استاد تھا ہر دلعزیز،دل کے قریب، دل کا سلطان،میرے دل میں ہر دَم حاضر پروفیسر ناصر۔ہائے اب مرحوم کیسے کہوں؟آپ کا رسالہ دیکھ اور آپ کا مضمون پڑھ کرکیا کیا یادیں تازہ ہو گئیں۔وہ مثل سائبان کے تھا۔۔۔۔۔
جب ملتے کہتے حیدر کے ہاں جانا ہے۔افسوس کے میں ہی ماٹھا نکلا،وہ تیز تھا۔حیدر سے بھی ملتا رہااور ہم سے چھوٹ کر پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔وہاں ہم سب نے جانا ہے۔
حیدر!رسالہ بھیجنے کا بہت شکریہ،خوبصورت تحفہ ہے۔ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان۔پشاور
٭٭٭ حیدر قریشی اور نذر خلیق کی ادارت میں جرمنی سے چھپنے والے ادبی جریدہ جدیدادب کا نیا شمارہ نمبر ۸شائع ہو گیا ہے۔یہ پہلا موقعہ ہے کہ جنوری ۲۰۰۷ء کا یہ شمارہ اپنے وقت سے پہلے ریلیز ہو گیا ہے۔اس میں ڈاکٹر رشید امجد کے لئے ایک گو شہ مختص کیا گیا ہے۔اس گوشہ کے لکھنے والوں میں منشا یاد،ناہید قمر،صفیہ عباد شامل ہیں۔صفیہ عباد کا طویل مقالہ اس گوشے کی ایک اہم پیش کش ہے۔دیگر مندرجات میں معمول کے مطابق مضامین،افسانے،غزلیں، نظمیں،ماہیے،خصوصی مطالعہ اور تبصرے وغیرہ شامل ہیں۔متعدد اہم لکھنے والوں میں سے چند اہلِ قلم کے نام یہ ہیں:جوگندر پال،وزیر آغا،صبا اکبر آبادی،قاضی سلیم الرحمن،ڈاکٹر جمیل جالبی،حمایت علی شاعر،شمیم حنفی،مظفر حنفی،ڈاکٹر شفیق احمد،نذیر ناجی،سلطان جمیل نسیم،تاجدارعادل،حسن عباس رضاقاضی اعجاز محور،خورشید اقبال،عظیم انصاری،خاور اعجاز،ناظم خلیلی،سہیل احمد صدیقی،جان عالم،ھانی السعید المصری،شاہد ماہلی،شہناز نبی،ارشد خالد،نصرت ظہیر،اکبر حمیدی،امین خیال،یونس خان، کامران کاظمی،رضیہ فصیح احمد،ناصر نظامی اورنسرین نقاش۔اس شمارہ میں فوت شدگان میں ن۔م راشد،میرا جی،اخترالایمان کی نظمیں قندِ مکرر کے طور پر شامل کی گئی ہیں۔ امریکی مصنفہ کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب حضرت محمدﷺ(MUHAMMAD) پر یونس خان کا تعارفی مضمون اور حیدر قریشی کا مضمون’’ رہے نام اللہ کا!‘‘اس شمارہ کی خصوصی تحریریں قرار دی جا سکتی ہیں۔
سعید شباب(خانپور)
(یہ خبر [email protected] سے مورخہ ۲۹؍نومبر ۲۰۰۶ء کو ریلیز ہوئی)
٭٭٭جدید ادب کا تازہ ترین شمارہ ملا۔دلّی جا رہا تھا اِس لیے اُسے ساتھ ہی لیتاگیا۔دلی کے دو روزہ قیام کے دوران پورا رسالہ پڑھ ڈالا،یہاں تک کہ خطوط بھی نہ بچے۔زیادہ تر مضامین اچھے لگے۔غزلوں کا انتخاب بھی خوب ہے۔آپ کی محنت کی داد دیے ہی بنتی ہے۔خدا آپ کو اپنے ارادوں میں کامیاب کرے۔
رشید امجد کے افسانے اچھے ہیں لیکن اُن کا تصورِ وقت اُن کا نہیں۔ولیم جیمزکی دین ہے اور شعور کی رو والے افسانہ یا ناول نگاروں نے اُسے خوب برتا ہے۔ہاں البتہ رشید امجد کے ٹریٹ منٹ میں ندرت ضرور ہے جس کی اُن کو داد دی جانی چاہیے۔ پروفیسر ظہورالدین۔جموں،توی،انڈیا
٭٭٭آپ کا تازہ رسالہ(جنوری سے جون ۲۰۰۷ء والا)مل گیاہے۔میرے افسانے کی شمولیت کا شکریہ۔۔پچھلے شمارے میں میری ۶غزلیں اور ڈاکٹر انیس صدیقی کے مجھ پر تحریر کردہ مضمون کو بھی جگہ دی تھی جس پرڈاکٹر بلند اقبال نے تازہ شمارے میں اپنے ایک مکتوب میں کافکا کے حوالے سے ایک دلچسپ جملہ لکھا ہے۔(اب ہمیں کو ایک دوسرے کو پڑھنا اور ایک دوسرے پر تبصرہ کرنا ہے،عوام تو بیچارے کبھی کے ان بکھیڑوں سے دور ہو گئے)۔
شعرائے کرام سبھی عمدہ ہیں،ایک سے ایک منتخب اور چنیدہ۔لیکن پتہ نہیں کیوں آپ کے جدید ادب کی ابتدا ہمیشہ ٹوپی پہن کر ہوتی ہے۔ایسی ہی کچھ چیزوں نے اردو کو مسلمانوں کی زبان بنا کر رکھ دیا ہے۔اگلا شمارہ کسی عیسائی دعا یا ہندو اشلوک اور دوہوں سے یا سکھوں کی پنتھیوں سے کریں۔۔۔۔خاور اعجازصاحب کی غزلیں،نظمیں بھی بڑی عمدہ ہوتی ہیں لیکن اپنے سلام میں انہوں نے لفظ موضوعات کو ضرورتِ لفظی کے ذیل میں کچھ دبا سا دیا ہے،جس کی وجہ سے شعر کی روانی میں تھوڑی سی اڑس پیدا ہو گئی ہے۔سرورق پر آپ کا خوبصورت ماہیا دیکھ کر مجھے اپنا وہ اکلوتا ماہیا یاد آگیا جو میں نے آپ کی ایما پر لکھا تھا۔ وہ شِیر تھی میں خرما؍ خوب یہ جفتی تھی؍ وہ آنکھ تھی،میں سُرمہ
ناظم خلیلی(رائچور)
٭٭٭جدید ادب حیدر قریشی اور نذر خلیق کی ادارت میں جرمنی سے شائع ہونے والا ایک موقر جریدہ ہے۔جس کے(۲۰۰صفحات پر مشتمل)تازہ شمارے میں افسانے،غزلیں،نظمیں،مضامین ، تبصرے ہی نہیں،گوشۂ
ڈاکٹر رشیدامجدبھی شامل ہے لیکن یہ گوشہ دیکھ کرکہیں سے یہ نہیں لگتا کہ یہ دوسرے جرائد کی طرح تجارتی نقطۂ نظر کا حامل ہے۔اس گوشے میں ناہید قمر،منشا یاد اور صفیہ عباد کے سیرحاصل مضامین کے علاوہ صاحبِ گوشہ کا ایک افسانہ’’پژ مردہ کا تبسم‘‘جدید ادب کی رونق ہے۔
انٹرنیٹ دیکھنے والے جدید ادب کو اس سائٹ www.jadeedadab.comپر دیکھ سکتے ہیں۔ہندوستان میں جدید ادب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،کوچہ پنڈت،لال کنواں،دہلی۔۶سے منگا سکتے ہیں۔
(مطبوعہ ادبی صفحہ ’’ادب و ثقافت‘‘ روزنامہ انقلاب بمبئی۔۲۴؍دسمبر۲۰۰۶ء)
٭٭٭ Your article in JA was interesting and informative. M.Saleem is my frieind and
. has published two books منشا یاد۔اسلام آباد
٭٭٭جدید ادب کا تازہ شمارہ مل گیا ہے۔یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے اس میں گوشۂ رشید امجد رکھا ہے۔ ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ۔ہائیڈل برگ،جرمنی
٭٭٭Thank you very much for your message. I had seen the recent issue of
Jadeed Adab on the internet, and have read a bigger part of it.Congratulations.
آپ نے اپنے پرچے کا ایک معیار بنا لیا ہے۔ایک بات یقیناََ ناقابلِ تردید ہے کہ اس پر آپ کی بھرپور چھاپ ہے جس سے اس پرچے کی ایک اپنی انفرادیت بھی قائم ہو گئی ہے۔مجھے ایک چھوٹا سا اعتراض یہ ہے کہ آپ پرچے میں بہت سی طبع شدہ تحریریں بھی ڈال دیتے ہیں۔ممکن ہے یہ بہت سے لوگوں کے لئے نئی ہوں مگر جو احباب انہیں پڑھ چکے ہیں وہ ان کی بجائے کچھ اور پڑھنا پسند کریں گے۔میں تازہ شمارے میں اپنے ناول پر مضمون نہیں دیکھ سکا ۔وہ اس پرچے میں ہے یا آپ اسے اگلے شمارے میں شامل کریں گے؟محبتوں اور نیک تمناؤں کے ساتھ۔ فاروق خالد۔ایمسٹرڈیم۔ہالینڈ
٭٭٭ جدید ادب: ۸جتنی بار دیکھا اورپڑھا ،اُسے پہلے سے بہتر پایا اور اسی کی آپ سے توقع بھی رہتی ہے۔
نصرت ظہیر۔دہلی
٭٭٭’جدید ادب‘ کا نیا پرچہ دیکھا، جو مجھے جناب سلطان جمیل نسیم صاحب کے وسیلے سے ملا۔میں آپ کی ہمت اور حوصلہ کو ہدیہء تہنیت پیش کرتا ہوں کہ جرمنی میں رہتے ہوئے آپ ایک نہایت معیاری اور شاندار رسالہ مسلسل نکال رہے ہیں،مجھے ذاتی طور پر اندازہ ہے کہ کوئی ادبی رسالہ شائع کرنااپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے برابر ہے۔ یہ اتنی بری لت ہے جو آدمی کو گھر کارکھتی ہے نہ گھاٹ کا، تخلیقی صلاحیتوں کو بھی یہ شوق گھن کی طرح کھوکھلا کرکے رکھ دیتا ہے۔اس بارے میں زیادہ لکھنے کے بجائے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ سلام آپ کو۔
ڈاکٹر شفیق احمد کا مضمون بہت معلوماتی ہیاور کیوں نہ ہو وہ تحقیق کے آدمی جو ٹہرے۔ آپ کو شاید یاد ہو جب مرحوم اشفاق احمد اردو ترقیء بورڈ کے سربراہ تھے تو انہون نے متروک الفاظ کی ایک لغت بھی شائع کی تھی اب کوئی ادارہ اس لغت کو معیار بناکر ڈاکٹر شفیق صاحب سے اس اہم موضوع پر مزید کام کراکے شائع کرسکے تو متروک الفاظ یا سوئے ہوئے الفاظ کو دوبارہ اہل قلم بیدار اور متحرک کر سکتے ہیں، لیکن یہ کام کون کرے گا۔!اردو زبان کے بارے میں تو آپ نے اپنی ادارتی شذرہ میں تمام حقیقت کو کھول کے بیان کر دیا ہے۔ برصغیر کے علاوہ یورپ میں جو بقول آپ کے جعلی اہلِ قلم، اپنا پیسہ خرچ کرکے ہندوستان اور پاکستان کے رسالوں سے اپنے گوشے اور نمبر نکلوا رہے ہیں وہ بھی جناب نذیر ناجی کے مضمون کے مرکزی کردار سے کچھ کم نہیں ہیں، لیکن رسالے والے بھی کیا کریں ان کو اپنا رسالہ بھی چلانا ہے اور گھر کو بھی دیکھنا ہے۔
جدید ادب‘ کی مجھے یہ بات بھی اچھی لگی کہ آپنے ن م راشد، اخترالایمان اور ڈاکٹر وزیر آغا کی نظمیں نئی نسل کی رہنمائی کے لئے شائع کردیں۔میرا بھی یہی ارادہ تھا کہ اردو کے کلاسیکی ادب کے لئے ’انشاء‘ کے کچھ صفحات مخصوص کروں۔گزشتہ دنوں شوکت صدیقی،منیرنیازی ،محسن بھوپالی اور شریف کنجاہی کی اموات نے زبان و ادب کو کچھ اور مفلس کردیا۔آخر میں پھر آپ کی ہمتوں کی داد دیتا ہوں۔رسالے کی اشاعت کے سلسلے میں آپ کی رہنمائی کا منتظر۔مخلص۔ صفدر علی خاں۔حیدرآباد،سندھ
٭٭٭جدید ادب کا شمارہ :۸آج ۱۳؍جنوری ۰۷کو یہاں پہنچا۔اتنا اچھا رسالہ پاکر کون کافر خوش نہ ہوگا؟اگر رسید نہ لکھوں تو سخت بے ایمانی،نا اہلی اور کم ہمتی ہوگی۔اس لئے وقت نکال کر یہ چند سطریں ضبطِ تحریر میں لا رہا ہوں۔یہ شمارہ خوبصورت ہے،presentableہے۔پرچے میں سبھی کچھ ہے۔علمی اور معیاری انداز کا مواد پوری پوری داد چاہتا ہے۔رشید امجد نے ادب کو بہت کچھ دیا ہے۔ہنوز توانا اور تازہ فکر دکھائی دیتے ہیں اور ان کی تخلیقات سے آپ نے اپنا رسالہ سجا کر،نمایاں کرکے ایک مہان قلم کارکا حق تسلیم کیا ہے،اسے خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔میری رائے میں اداریہ خوب سوچ سمجھ کر لکھا گیا ہے لیکن بات آگے بڑھتی نظر نہیں آتی،عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔اپنے اپنے پسندیدہ موضوعات پر کانفرنس اور سیمینار بلانے والے مل جل کر بیٹھ جاتے ہیں۔اچھی اچھی باتیں بھی کرتے ہیں۔اتنے میں گرانٹ وغیرہ ختم ہوجاتی ہے اور آگے’’فل اسٹاپ‘‘۔جنہیں کام کرنا آتا ہے اور جو اوکھلی میں سر دے کر بھی اُف نہیں کرتے ،اُنہیں عطیے لینا،اخراجات بھگتانا اور سرخرو ہونا نہیں آتا۔بہتر یہی ہے جو من میں آئے وہ لکھتے جائیے خواہ انگلیاں فگار ہی کیوں نہ ہوں۔کانفرنس کی سرخی دیرپا نہیں ہوتی مگر لکھا ہوا حرف(گو کانفرنس میں بولنے والے بھی لکھ کر ہی لاتے ہیں)دیر تک شعور کو جگانے کا فعل انجام دیتا رہتا ہے۔یہ ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکری کی مثال شروع میں چھوٹاسا ہی دائرہ بناتا ہے پھر بڑھتا جاتا ہے،بڑھاتا جاتا ہے۔ ہے نا؟آپ کا معاملہ یوں ہے کہ’’ لوگ باتیں بناتے ہیں ،سید کام کرتا ہے‘‘ بھائی! حالیؔ نے کہا تھا’’کرتے کی سب بدیا ہے‘‘۔پرچہ عمدہ،خوبصورت اور نظر پرور ہے۔ مقصود الہٰی شیخ۔بریڈ فورڈ۔انگلینڈ
٭٭٭ جدید ادب شمارہ ۸ مو صول ہوا۔ دو دن میں اس کا بیشتر حصہ پڑھ لیا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد صاحب کے مضمون سے مکمل طور پر متفق نہیں ہوں۔جہاں تک الفاظ کے متروک اور مروج ہونے کا تعلق ہے اس کے لئے ایک معیار مقرر کرنا ہوگا۔ کوئی لفظ چند علاقوں میں تلفظ کے اختلاف بلکہ املاکے خلاف بھی بولا یا برتا جاتا ہے تو اُس کو بے شک متروک نہیں سمجھنا چاہیئے۔ مگر ڈاکٹر صاحب بحث کو پھیلاتے ہوئے قدیم حکمرانوں تک لے گئے ، اس پر اہلِ علم مباحثہ کر سکتے ہیں۔ جب ہندوستان پر ولندیزی اور انگریز حکمران تھے اُس وقت سے ان کی زبان کے بے شمار الفاظ اردو میں ضم اور مروج ہوئے۔دوسری بات یہ کہ اردو تو بقول شخصے لشکری زبان ہے،اس سے پہلے مغلوں کے دور میں فارسی سرکاری زبان تھی پھر انگریز آئے تو انگریزی کا چلن عام ہوا مگر ایک نئی زبان بھی ساتھ ساتھ پل اور پنپ رہی تھی۔ اردو میں آج بھی نت نئے الفاظ کا اضافہ ہوتا ہے۔جہاں تک ڈاکٹر صاحب نے اہلِ زبان اور لغت کی اہمیت کونہ ماننے کی بات کی ہے وہ بھی اگرمان لی جائے تو زبان کے درست اور نادرست ہونے کے لئے کوئی ایک پیمانہ تو مقرر کرنا ہی ہوگا، اور جو پیمانہ پہلے سے موجود ہے یعنی قوائد تو اس کے مطابق لکھی جانے والی زبان درست مانی جائے تو بہتر ہے۔ مجھے یاد ہے ایک زمانے میں رسالہ نقوش لاہور کے مدیر نے سوال اٹھا یا تھا کہ’’ میں نے جانا ہے ‘‘ کو غلط کیوں مانا جاتا ہے ۔؟اس کا جواب عصمت چغتائی نے یہ دیا تھا کہ’’ میں نے‘‘کے بجائے ’’مینوں‘‘ کر لیجئے ہم استعمال بھی کریں گے اور قوائد کی رو سے درست بھی ہو گا۔میری ان گذارشات کا مقصد ڈاکٹر شفیق احمد صاحب کے خیالات کے ایک چھوٹے سے حصہ سے متفق ہونا نہیں ہے، جس میں وہ بادشاہ سے غالب تک کی نفی کر گئے ہیں۔ میں تو اس بات کا حامی ہوں کہ جب مغربی زبانوں کے بے گنتی الفاظ اردو میں سما گئے ہیں تو برصغیر کے مختلف حصوں میں مروج الفاظ کیوں استعمال نہیں کئے جاسکتے۔ تقریباَ اسی سے ملتی جلتی بات میں نے اپنی حیدرآباد سندھ کی یادوں کو آواز دیتے ہوئے بھی ایک مضمون میں لکھی ہے۔ زبان کی وسعت لازمی ہے اور ساتھ ہی ذہن کی کشاد گی بھی۔ لیکن معیار تو کوئی بنانا ہوگا۔۔۔ شوکت تھانوی مرحوم نے اپنے کسی کالم میں یہ بات لکھی تھی کہ جب تک لتا منگیشکر کے گیت سنے جا رہے ہیں ہندوستان سے اردو ختم نہیں ہو گی۔لتا کے گیت سننے کے باوجود اب ہندستان میں اردو لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔کیوں؟ خود اردو کے ادیب اور شاعر اپنی آنے والی نسل کو اپنی زبان سے بیگانہ رکھ رہے ہیں یہ بات پاک وہند کے لئے ہے۔جہاں تک لفظ بھیتر کا تعلق ہے تو یہ نہ صرف ولی دکنی کے یہاں استعمال ہوا بلکہ جگر مرادآبادی نے لکھا․․․․اوپراوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ․․․․بھاگ مسافر میرے وطن سے میرے چمن سے بھاگ․․․․لیکن چراغ اور دیئے کے سلسلے میں عرض کروں گا کہ علامہ اقبال کے یہاں چراغ پوری روشنی کے ساتھ موجود ہے اور بعد کے شعرا بھی استعمال کر رہے ہیں یہی صورتِ حال دئیے کی بھی ہے․جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔ان معروضات کا مقصد اختلاف نہیں ہے بلکہ میں نے بات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
آپ کے اداریے کے سلسلے میں ایک روز کراچی سے صفدر علی صاحب کا بھی فون آیا تھا۔ اور وہ جعلی شاعروں کے سلسلے میں آپ سے متفق تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ بھائی اگر شاعری کے لین دین سے دو آدمیوں کا بھلا ہوتا ہے تو ہم شعر بیچنے والے کی روزی پر لات کیوں ماریں۔یہ کاروبار تو نجانے کب سے چل رہا ہے۔چلنے دو۔کوئی ایسا شاعر بتادو جو شعر خرید کر بھی مستقبل میں شعراء میں شامل رہا ہو۔میں ادب کا ایک ادنیٰ طالبِ علم ہوں۔ پڑھنے کا شوق ہے اس شوق کی بدولت کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے۔ورنہ تبصرہ میرا کام ہے نہ منصب۔
نذیر ناجی صاحب کا مضمون(کالم)میں پڑھ چکا تھا۔نام اور دام ایسے ہی کلنک کے ٹیکوں کو ملتے ہیں۔
رشید امجد کا گوشہ بہت بھر پور ہے۔ماہیے میں پڑھتا رہا ہوں اور مجھے ہائیکو سے زیادہ دلفریب لگتے ہیں، شاید اپنی مٹی کی خوشبو ہونے کی وجہ سے۔میری دعا ہے’’جدید ادب‘‘ اور زیادہ شاندار انداز میں شائع کرنے کی اللہ تعالیٰ آپ کو ہمت دے۔ سلطان جمیل نسیم۔ ٹورانٹو،کینڈا
٭٭٭’جدید ادب‘ کا آٹھواں شمارہ ملا، جس کی بہت زیادہ خوشی ہوئی۔ اس کو بڑے خوب صورت گیٹ اَپ میں شائع کیا گیا ہے ۔ جس کے لئے آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔اس میں گوشۂ ڈاکٹر رشید امجد کی تمام تحریریں جاندار اور خو ب صورت ہیں۔ خاس طور پرصفیہ عباد صاحبہ نے اپنا تھیسس ’’ رشیدامجد کے افسانوں کا اسلوبیاتی مطالعہ‘‘ بڑی محنت اور جانفشانی سے تحریر کیا ہے لیکن اس تھیسس کو وائنڈ اَپ نہیں کیا گیا۔ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے طویل تھیسس سے ایک چیپٹرنکال کر یہاں شائع کیا گیا ہے۔ بہرحال یہ تھیسس کافی معلومات افزا ہے۔ جس میں رشید امجد صاحب کی افسانوں کے اسلوب پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔اس تھیسس سے پتہ چلتا ہے کہ موصوف معاشرتی ناہمواری، اخلاقی زوال، معاشی تنگ دستی اور پریشان حالی کو بڑی خوبصورتی سے جدت پسندانہ اسلوب میں ڈھال دینے کی صلا حیت رکھتے ہیں اور انہوں نے آپ کی اس خصوصیت کو بڑی خوبصورتی سے اس مقالہ میں آشکار کیا ہے۔ڈاکٹر ناہید قمر صاحبہ نے ’’ رشید امجد کا تصور وقت‘‘ کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد نے ’’ اردو اور متروک الفاظ کا مسئلہ‘‘ کو بڑی درد مندی سے پیش کیا ہے لیکن جہاں زبان خود اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہو وہاں متروک الفاظ کا رونا رونابڑا عجیب لگتا ہے۔ موجودہ ای۔میل اور ایس۔ایم۔ایس کلچر کے حوالے سے اگر اردو کے مستقبل کو دیکھا جائے تو یہ بڑاہی مخدوش نظر آ رہا ہے ۔ کیونکہ ان جدید اور تیز ترین زرائع میں اردو فونٹ نہ ہونے سے زمانہ رومن اردو استعمال کر رہا ہے جبکہ انگلش ابجد کی کمپوزیشن اردو ابجد کے مقابلے میں آسان بھی ہو تو اسکا مستقبل بہت زیادہ مخدوش ہو جاتا ہے۔ اردو زبان کو مزید خطرہ ٹی۔وی جینلز سے ہے، ایک طرف اگر ہندوستانی ڈرامہ اور فلم کی وجہ سے روزمرہ زبان میں ہندی الفاظ کی بھر مار ہو رہی ہو اور دوسری طرف پاکستانی چینلز بھی اردوکی بجائے انگلش اور اردو کا کوئی ملغوبہ پیش کر رہے ہوں تو وہاں بہتری کی گنجائش کیا ہو سکتی ہے! اربابِ بست و کشاد کو اس زمرہ میں ضرور سوج بچار کرنا چاہیے۔
’گفتگو‘ میں حیدر قریشی نے بھی اردو کی زبوں حالی پر روشنی ڈالی ہے اور اردو کے تینوں مراکز یعنی پاکستان، ہندوستان اور برصغیر سے باہر اردو بولنے والے حلقوں کی اس سلسلہ میں کانفرنس کی سظح پر کچھ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر عامۃ الناس ہی اپنی زبان سے دور چلی جائے تو پھر ایسی کانفرنسیں کیا کر پائیں گی! ضرورت اس امر کی ہے کہ کیمیونیکیشن کے جدید زرائع میں اردو کے فروغ کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں لیکن جیسا کہ ہمارامعاشرہ جو کہ صرف ایک صارف معاشرہ بن چکا ہے کو کیپٹل ازم کی حامی ملٹی نیشنیل کمپنیوں کے گلوبل ازم کے ہتھکنڈوں سے نبرد آزما ہونے اور جہاں ا نگلش زبان کو گلوبل زبان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہو،سے بچنے اور زبان کو قائم رکھنے کے لئے سرکاری سرپرستی میں سنجیدہ کوششیں ہونی چاہیں لیکن وہاں سے بھی خیر کی امید اس لئے نہیں ہے کہ اگر وہاں بھی گلوبل ازم اور عالمی سرمایہ درانہ نظام کے حامی ہی موجود ہوں جنکو اس سے کوئی سروکار نہ ہو کہ کوئی زبان مخدوش ہو رہی یا پھیل رہی ہے، تو زبان کو اس کے زوال سے نہیں روکا جا سکتا ۔
انگریزی استعمار نے برعظیم پاک و ہند پر قبضہ کیا تو فارسی ختم کر کے اردو کو متوازی زبان کے طور پر ترقی دی۔ ملائیشیا میں ملایاؔ زبان کے عربی رسم الخط کو ختم کر کے لاطینی رسم الخط نافذ کیا گیا۔ مالٹاؔ میں سامی النسل قدیم زبانوں کو ختم کر دیا گیا۔ مالٹاؔ کی قدیم زبان کا رسم الخط عربی تھاجس کو جبراً لاطینی سے تبدیل کر دیا گیا۔ انگریز سامراج نے براعظم آسٹریلیا کو اپنی پشت در پشت جاگیر سمجھ کر خوب لوٹا، وہاں کی بہت ساری زبانوں کو متروک قرار دے کر انگریزی کو فروغ دیتے ہوئے اسکولوں میں تدریسی زبان بنا دیا گیا۔ انگریزی ادب کو عظیم ادب کے طور پر پیش کیا گیا، جس کی وجہ سے وہاں کے مقامی لوگ اپنی زبانوں کو بھولتے چلے گئے اور ہم تباہی کے اس راستے پر چل پڑے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق دنیا میں اس وقت کل بولی جانے والی پانچ ہزار سے زائد زبانوں میں سے تین ہزار زبانیں تیزی کے ساتھ زوال کا شکار ہیں۔ صرف امریکہ میں اسکے قدیم باشندے جو ایک ہزار زبانیں بولنے کی صلاحیت رکھتے تھے ، ان کی یہ صلاحیت اب صرف ۱۵۰زبانوں تک محدود رہ گئی ہے۔آسٹریلیا کے ممتاز ماہر لسانیات پیٹر ہوسلر ؔیہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اگلے سو برسوں میں نوے فیصد زبانیں صفحہ ہستی سے متروک ہو جائیں گی اور صرف پانچ یا چھ بنیادی اہم زبانیں باقی رہ جائیں گی ، جن میں انگریزی ، ہسپانوی، فرانسیسی، جرمنی، چینی اور عربی زبانیں شامل ہیں۔ جبکہ نوبل انعام یافتہ ہسپانوی ادیب کمیلو جوسی سیلاؔ یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اگلی چند صدیوں تک دنیا بھر میں لوگ صرف چار زبانیں استعمال کریں گے۔ یعنی ، انگریزی چینی ،عربی اور ہسپانوی ۔ اس کے علاوہ تمام زبانیں متروک ہوکر محدود ہو جائیں گی اور علاقائی زبانوں کا روپ دھار لیں گی۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس زوال کو روکنے کے لئیے ہم کس حد تک بند باندھ سکتے ہے!
نذیر ناجی چونکہ اکادمی ادبیات کے سربراہ رہ چکے ہیں تو اس لئے ان کے مضمون ’کلنک کا ٹیکہ ‘ کو محض معاصرانہ چشمک کا نتیجہ نہیں کہا جاسکتا، بلکہ سوچنے کی بات تو یہ ہیے کہ فرازؔ صاحب واقعی اس اعزاز کے حقدار بھی تھے ؟ یا یہ اعزاز کسی اور کی حق تلفی کر کے حاصل کیا گیا تھا ؟جہاں تک افسانوں کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام افسانے خوبصورت اور معیاری ہیں۔’ مسلم چوک کا پاگل انور‘ بہت ہی خوبصورت اظہاریہ ہے۔ اس کی خوبصورتی کا یہ عالم ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ یہ دو نہیں بلکہ تین ڈاکٹروں کی کہانی ہے ۔ ان میں ایک ڈاکٹر ناظم خلیلی بھی ہیں۔ اس کا اختتامیہ میری سمجھ سے بالا تر ہے شائد یہاں کچھ کم ہے ؟۔
جوگندر پالؔ کے ’افسانچے‘ خوب صورت ہیں۔ خاص طور پر ’سکونت‘ کا آخری حصہ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔’پژمردہ کا تبسم‘ اور گورکن بہت ہی خوبصورت ہیں۔خاور اعجازؔ کا ’ سلام‘ شاہد ماہلیؔ کی’ نئے مکان کی نظمیں‘ شاکر کنڈانؔ کے ’ماہیے‘ اوردیگر نظمیں میعاری اور خوبصورت ہیں۔’رہے نام اللہ کا‘ خوبصورتی سے لکھا گیا ہے۔ جس نے مجھے بہت زیادہ انسپائر کیا ہے۔ اسکی باقی تمام تحریریں مثلاً ’اشتہاروں بھری دیواریں‘ اور ’ بھولنے کی بیماری‘ شاندار ہیں۔مجموعی طور پر ’جدید ادب‘ نے اپنا ایک ادبی معیار بنایا ہے اور اسے قائم بھی رکھا ہے۔
محمد یونس خاں(سرگودھا)
جدید ادب کا شمارہ ہشتم بابت جنوری تا جون ۲۰۰۷ء میرے پیش نظر ہے۔اتنی ضخامت میں اتنا بھرپور ادبی جریدہ نکالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں……اداریہ حسب معمول فکر انگیز بھی ہے اور ہمارے قومی المئے کا آئینہ دار بھی۔ ہم اپنی زبان سے جو سلوک کر رہے ہیں ‘ اس کی مثال کم از کم عالمی تاریخ میں نہیں ملتی‘ ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بجائے یہودیوں سے یہ سبق سیکھنا چاہئے کہ کس طرح انہوں نے عبرانی جیسی مردہ زبان کو زندہ کیا اور ہم ایک معیاری ‘ زندہ زبان کا بیڑہ غرق کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اس مرتبہ میں اپنے ممدوح ڈاکٹر شفیق احمد صاحب کے مضمون پر کچھ نکتہ وار خامہ فرسائی کر رہا ہوں‘ براہ کرم اسے شامل اشاعت کیجئے۔’’ اردو اور متروک الفاظ کا مسئلہ ‘‘ میں انہوں نے دوسرے پیرا گراف میں انوکھا تمثیلی انداز اختیار کیا …… اچھا لگا۔آگے چل کر وہ اپنی بات منوانے کے لیے بہت جذباتی ہوگئے ۔ ڈاکٹر صاحب یہ تاثر نہایت غلط ہے کہ میرؔ و میرزا کے دور میں ہر کوئی بادشاہ یا نواب کی زبان بول کر کوئی مصنوعی لہجہ اختیار کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے جو آپ پر بہ نظر غائر مطالعے سے عیاں ہوگی کہ اس عہد میں علم و ادب ہر جا سکہ رائج الوقت تھے۔ ہر کوئی معیار ی زبا ن محفل اور عوامی اجتماع میں بولنا پسند کرتا تھا۔ لکھنؤ اور نواح کے حجاموں ‘پنواڑیوں‘ نورباف یا اسی قسم کے دیگر پیشہ ور افراد کو کسی بہادرشاہ ظفرؔ ‘ نواب اودھ یا راجہ مہاراجہ کو خوش کرنے کے لیے (باقاعد ہ تعلیم حاصل کئے بغیر) اعلیٰ زبان بولنے اور اس میں شاعری کرنے کی کیا حاجت تھی۔دوسری بات یہ کہ ظفرؔ جیسے استاد سخن کی پوری شاعری پڑھئے ‘ اس نے جا بجا عوامی لب و لہجہ اختیار کیا اور حد یہ کہ پنجابی میں بھی شاعری کا شوق پورا کیا ‘ جب کہ اس دور میں کوئی پنجابی شاعر کم از کم اُس خطے میں نمایاں نہ تھا…… کیا حاجت تھی اسے ایسا کرنے کی؟؟؟﴿ بہادرشاہ ظفرؔ کے صحیح کلام کے مطالعے اور تنقید کے لیے شا ن الحق حقی مرحوم کی ’ نوادر ِظفرؔ ‘ ضرور ملاحظہ کیجئے﴾
ڈاکٹر شفیق صاحب زبان کی اصلاح اور سند و معیار کا تعین کوئی تو کرے گا‘ ورنہ ہر طرح کا آدمی ہر طرح کی زبان بولے گا اور لکھے گا پھر ادبی زبان کا بھی یہی حشر ہوگا جیسے ان دنوں ہمارے ذرائع ابلاغ ہندوستان کے بعض کم خواندہ لکھاریوں کی نقل میں فرد/افراد کے لیے لوگ بول اور لکھ رہے ہیں( دو لوگ آئے ‘ آپ کتنے لوگ ہوو غیرہ)…… اس مسئلے پر میرا ڈاکٹر فہیم اعظمی سے بھی اختلاف رہا کہ ڈاکٹر صاحب جب آپ ہر کسی کو لائسنس دے رہے ہیں اہل زبان( اور شاید ماہر ز بان ) ہونے کا تو پھر ہماری ادبی زبان کا کیا بنے گا۔ یہاں ایک ضمنی مگر اہم بات کی طرف اشارہ‘ لفظ فرانسیسی کسی کم علم صحافی کی ایجاد ہے ‘ تاریخی واقعہ ہے کہ ایڈیٹر روزنامہ زمیندار نے اس سب ایڈیٹر کو جھاڑ پلائی تھی کہ میاں یہ کون سی قوم ہے ‘کہاں بستی ہے؟؟؟ صحیح لفظ فرانس سے فرانسی یا فرانسوی ہے (جیسا کہ اہل ایران بولتے ہیں) فرانسہ ہے ( جیسا کہ ڈاکٹر عبد الرحمن بجنوری نے محاسن کلام غالبؔ میں استعمال کیا ) یا فرینچ……اس زبان سے واقفیت کے سبب عرض کروں کہ خود اہل زبان اس کے لیے جو لفظ استعمال کرتے ہیں ‘ اردو گو حضرات کے لیے نہایت ثقیل ہے:ف(خ)انسے﴿ یعنی فے کے ساتھ جڑی ہوئی بلغمی آواز میں حرف خے﴾‘لہٰذا فرانسی بہتر ہے۔
لہجے کے اختلاف کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں جتنا کہ شین قاف کا۔ ذرا دینی حوالے سے دیکھئے ۔ جب آپ کسی آیت یا حدیث میں شامل لفظ ’قلب‘ کو کلب بمعنی کتا کہتے یا بولتے ہیں تو کیسا لگتا ہے…… مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ معدودے چند اہل پنجاب تلاوت قرآن میں یہ محنت کرتے ہیں مگر میں اس ضمن میں میمن برادری کی مثال روشن سمجھتا ہوں جنہوں نے ایک دینی اصلاحی تحریک سے متاثر ہوکر اپنا شین قاف درست کرلیا۔ یہ تعصب کی نہیں دین کی بات ہے ۔ اردو محض مسلمانو ں کی زبان نہیں مگر دین اسلام کی ایک بڑی زبان ضرور ہے۔ اس باب میں شدھ ہندی بولنے والے ہندوؤں سے سبق لینا چاہئے۔
آگے چل کر ڈاکٹر صاحب نے ایک لفظ ’ دارالہائے حکومت‘ لکھا ہے جو بجائے خود غلط اور ایجاد بندہ ہے۔ اسی طرح لفظ سند کی جمع اسانید ہے نہ کہ سندات…… جہاں تک کسی ایک مخصوص پیشے یا شعبے سے متعلق لفظ اور اس کے مترادفات کا تعلق ہے تو یہ کوئی ایسا لااینحل مسئلہ نہیں ‘ کسی بھی جامع لغت سے حل ہوسکتا ہے۔ میں نے اردو لغت بورڈ کی مفصل لغت پوری نہیں پڑھی ‘جستہ جستہ دیکھی ہے مگر میرا خیال ہے کہ اس جیسی لغت میں یہ مسئلہ اس طرح نہ ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ بہت سال پہلے ڈاکٹر نسیمہ ترمذی ( عرف نسیمہ بنت سراج)نے اپنے اخبار ی کالم میں ازراہ تفنن یہ بات چھیڑی کہ اردو کا دامن حرف ’ڑ‘ سے شروع ہونے والے الفاظ سے خالی ہے۔جواب میں مختلف زبانیں بولنے والے حضرات نے اپنی اپنی طرف سے الفاظ کی کچھ مثالیں دیں کہ انہیں شامل اردو کرلیا جائے۔ایک عرصہ بعد جب میں ٹیلی وژن کے لیے تحریر و تحقیق کا سلسلہ شروع کیا ……( ۱۹۹۳ء میں) پروگرام’’ ٹی وی انسائکلو پیڈیا‘‘ کے لیے حرف ’ڑ‘ کا تعارف اس مواد کی مدد سے لکھنا چاہا تو میری تگ ودو کے بعد محترمہ سے محض ٹیلی فون پر طویل اور لاحاصل گفتگو ہوسکی ‘ انہوں نے مواد نہ فراہم کیا…… بالآخر میں نے اردو لغت بورڈ کی لغت سمیت مختلف ذرائع سے وہ مختصر اسکرپٹ مکمل کیا۔
آخری بات ڈاکٹر شفیق احمد کے مضمون کے حوالے سے ‘ میرے دادا مرحوم ہاپڑ ( میرٹھ) سے آبائی تعلق کے باوجود چوں کہ ہندوستان کا چپہ چپہ گھومے تھے ‘ پوربی اور پنجابی میں آزاد تک بندی کرتے تھے ‘ ان کی زبان سے ہم نے لفظ ’کبھی‘ ہمیشہ ’کدی‘ سنا جو قدیم اردو اور پنجابی میں مشترک ہے۔ اسی طرح میری والدہ مرحومہ کپور تھلہ میں پیدائش اور لاہور و بہاول پور میں قیام کے سبب اکثر ایسی زبان بولتی تھیں کہ اکثر میرٹھ کی بجائے پنجابی گلابی اردو لگتی تھی۔بات یہ ہے کہ زبان میں شعوری اختلاط بے جا ہے مگر غیر شعوری اور فطری انداز میں کسی بھی علاقے کے لوگوں کا کوئی لہجہ ہو سکتا ہے جو کتابی یا علمی و ادبی زبا ن آسانی سے نہیں بنتا …… اس حوالے سے اہل فرنگ کی مثال بھی دی جاسکتی ہے‘ اگر برا نہ لگے۔
میں کبھی بھی نذیر ناجی کا مداح نہیں رہا مگر انہوں نے روزنامہ جنگ میں ‘کلنگ کا ٹیکہ کے عنوان سے احمد فراز کی پول کھول کر اپنے محب اردو ہونے کا ثبوت دیا۔ احمد فراز کے اندھے مقلدین کے لیے اس کالم کا پڑھنا نصابی ضرورت ہے۔بہاول پور سے ڈاکٹر روبینہ رفیق نے محمد خالد اختر کی مزاح نگاری پر بھرپور تجزیہ پیش کیا ہے جس سے ادیب موصوف کی کتب پڑھے بغیر ہی اچھا تعارف حاصل ہوجاتا ہے۔گوشہ رشید امجد اس قدر معلومات افزا ہے کہ اسے جدا کتابی شکل میں شائع ہونا چاہئے نیز گوشے کے شروع میں اکبر حمیدی کے خاکے ’’ علامتی افسانے کا اکبر اعظم‘ ‘ سے اقتباس بہت عمدہ اور دل چسپ ہے۔ ایسے خاکے کم ہی لکھے جاتے ہیں۔اکبر حمیدی صاحب اگر شاعری کے بجائے اس طرف زیادہ توجہ دیں تو یہ ناقدانہ شکوہ دور ہوگا کہ اردو میں بہت کم اچھے خاکہ نگار ہیں۔
نصرت ظہیر صاحبہ (اگر میں غلطی پر نہیں تو یہ خاتون ہیں)نے نسیان پر بہت پُر لطف پیرائے میں قدیم طنز و مزاح نگاروں کی یاد تازہ کردی ہے۔آپ کا انشائیہ ’’رہے نام اﷲ کا‘‘ ایک مرتبہ پھر پڑھا‘ فکر انگیز اور پُر خیال نگارش ہے۔ آپ نے حدیث قدسی کے مفہوم میں یہ بدیع خیال پیش کیا کہ اگر خدا دہر ہے تو دہریہ کا مطلب ہوا خدا پرست۔
شاعری میں مظفر حنفی صاحب کی پہلی غزل خاصہ معلوم ہوتی ہے۔ ان کے یہ شعر بہت اچھے لگے:
جھلستی ریت میں زندہ گڑے ہو‘ کیا ہوا تم کو تمہارے ہاتھ پر بیعت کبھی منجدھا ر کرتے تھی
ہماری راہ میں دیوار کی مانند حائل ہیں وہ جن کے واسطے ہم راستے ہموار کرتے تھے
حسن عباس رضا نے ایک مصرع میں لفظ ’مرجانی‘ استعمال کیا ہے جو غالباً پنجابی ہے…… اگر انہوں نے عربی لفظ مرجان سے یہ لفظ تخلیق کیا ہو تو وضاحت درکار ہے۔کاوشؔ پرتاب گڑھی کی غزل میں نظم مسلسل کا انداز محسوس ہوا۔قاضی اعجاز محورؔ نے پہلی غزل کے مقطع میں لفظ ’انکارا‘ برتا ہے جو اردو میں تو اس طرح استعمال نہیں ہوتا‘ ممکن ہے اہل پنجاب اسی طرح بولتے ہوں‘ البتہ ان کی دوسری غزل ہر لحاظ سے اچھی لگی۔خورشید اقبال کی غزل عمدہ ہے‘ اس سے قبل ان کا ایسا کلام نظر سے نہیں گزرا۔اس مرتبہ کسی سبب آپ سے چوک ہوئی کہ ہمارے دوست فیصل عظیم کے بعد آپ کے ماموں صادق باجوہ کا کلام دیکھنے کو ملا‘ میرا خیال ہے کہ حفظ مراتب کے تحت ناموزوں ہے‘ بہر حا ل فیصل کا یہ شعر منفر دہے:
یہاں پر شان جاتی ہے ‘ وہاں پر جان جاتی ہے زمیں چھُوٹی تو لگتا ہے کہ چھُوٹا آسماں اپنا
خاور اعجاز کا یہ شعر منفرد ہے:
راستہ روک رہی تھی مِرے سائے کا مگر دھوپ کے ساتھ ہی دیوار میں دَر آیا ہوں
بزرگ افسانہ نگار سلطان جمیل نسیم کا افسانہ گورکن اچھا لگا‘ اس موضوع پر اردو میں ایک آدھ ادیب نے ہی لکھا ہوگا۔ناظم خلیلی کا افسانہ انداز تحریر کے لحاظ سے منفرد ہے ‘ مگر اس کا اکثر حصہ مجھے انشائیہ معلوم ہوتا ہے۔غالبؔ جیسے قد آور شاعر کے فارسی کلام کا منظوم ترجمہ صباؔ اکبر آبادی کے قلم سے ایسا جان دار ہے کہ اگر میرزا صاحب کے دور میں ہوتا تو شاید وہ اپنے مقبول اردو کلام اور اس زبان کو ہیچ نہ سمجھتے‘ بلکہ یہ تراجم ان کے فارسی کلام کو نہ سمجھنے والوں میں انہیں اسی وقت مقبولیت کی سند عطا کردیتے۔قاضی اعجاز محورؔ کے مکالماتی ماہیے بھرپور اور جدید عہد کے عکاس ہیں۔نسرین نقاش محض ماہیا نگاری میں ہی اختصاص کریں تو اردو کی پہلی بڑی ماہیا نگار شاعرہ کہلائیں گی۔
قاضی سلیم کے بارے میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ان کی وفات کب ہوئی۔میری ہائیکو کی شمولیت اور محترمہ وضاحت نسیم کی کتاب پر مختصر تبصرے کے لیے صمیم قلب سے شکریہ قبول کیجئے۔
حصہ مکاتیب میں نعیم الرحمن صاحب کے خط کے حوالے سے اتنا کہوں گا کہ میرے چودہ سالہ ٹیلی وژن کیرئیر (بطور لکھاری و محقق) کااہم ترین مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر پڑھے لکھے جہلاء ان اہم مناصب پر فائز ہیں جہاں ماتحتوں کی اصلاح زبان و انداز کی توقع ازبس کی جاتی ہے……پی ٹی وی میں اسکرپٹ ایڈیٹر کا عالم فاضل ہونا شرط نہیں بلکہ ایک مخصوص فرقے کا پیروکار ہونا لازم ہے ۔ اس بارے میں اگر لب کشائی کروں تو بہت سا نا گفتنی مواد سامنے آئے گا۔ سہیل احمد صدیقی(کراچی)
’’جدید ادب‘‘ کا ہر شمار جدید ہوتا ہے ۔ کچھ نہ کچھ نیا ہوتو باذوق قاری ادب سے دور نہیں بھاگتابلکہ قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ جدید ادب کا اپنا ایک مزاج ہے ، جس میں اُردو ورلڈ کے تمام اہل قلم نظر آتے ہیں ۔ جدید ادب کے سات (7) شماروں اگر ورق گردانی کی جائے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ رسالہ جرمنی ، پاکستان اور بھارت علمی ادبی و ثقافتی سطح جوڑ رہا ہے ۔ حیدرقریشی اور نذر خلیق کی ادارت میں نکلنے والا جدید ادب مجلاتی صحافت میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے ۔ شمارہ (7) میں پاکستان کے بلند قد ادیب شاعر اور ناقد ڈاکٹر انور سدید صاحب کے نظامِ فکر وفن پر گوشہ ایک اہم باب ہے ، جس میں سدید صاحب کے فکروفن کو خراجِ تحسین عطا کرنے والے اکبر حمیدی ، عمران نقوی اور شفیع ہمدم مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ پروفیسر رشید امجد ، ڈاکٹر محمد علی صدیقی ، ڈاکٹر انیس صدیقی کے مضامین خوب تر ہیں ۔ ڈاکٹر وزیر آغا ، احمد ہمیش، پروفیسر حمید سہروردی ، صبا اکبر آبادی اور ناظم خلیلی کا کلام بلاغت نظام اپیل کرتا ہے ۔ محترم حیدر قریشی ،بلند اقبال اور سلطان جمیل نسیم کے کہانی افسانہ متاثر کن ہیں ۔ کتابوں کے خصوصی مطالعے کے تحت محترم حیدرقریشی ، ڈاکٹر نذر خلیق اور ناصر عباس کے تبصرے اور تاثرات نے جدید ادب میں جان ڈال دی ہے ۔ جدید ادب کے شمارے کا مطالعہ کرتے ہوئے ذہن اس ماہیے سے آباد رہا
یوں روشن جان ہوئی
دل کہیں جیسے
مغرب کی اذان ہوئی
ڈاکٹر غضنفر اقبال۔گلبرگہ ۔ (انڈیا )
Hyder Qureshi Bhai Jaan: I’ve today received a copy of Jadeed Adab through Mrs. Parvin Shere. Thanks for remembering me. I am in Canada getting treatment for prostate cancer. It is a cumbersome, prolonged and painful process, radiation therapy and all. But Allah is great and He will not let me die before I’ve had the fullest exposure of my creative faculty through
poems….Jadeed Adab is beyond my expectations. Your editorial is thought-provoking. Indeed, it is not the spokesmen of Hindu-Hindi fundamentalism alone who are responsible for dubbing Urdu as the language of the Muslims in India, but some misguided Muslims themselves also.
.Rashid Amjad deserves a thousand pages of critical appreciation for his immortal effort to enrich Urdu fiction. He is nine years my junior in age, but so tall in his literary stature that I feel a pygmy before him. The articles about him, particularly Dr. Naheed Qamar’s and Safia Abbad’s, touch two very important aspects of his art which are experimental and yet rooted in tradition. In his manipulation of fictional time sequence, he doesn’t follow the path paved by Qurratulain Hyder, who herself had actually taken her cue from James Joyce and Virgine Woolf, but it is an approach which is purely Rasheed Amjad’s own. I’m going to write a letter in Urdu to you as soon as I am strong enough to sit in a chair (my pelvis-skin is burnt through radiation and I feel difficulty in sitting up), and also send a couple of my poems to
you….Remember Hyder bhai, I’ve always had great regards for you. My phone number here is 519-621-8951, and my postal address is as under: 367, Burnett Avenue, Cambridge. Ontario. N1T-1G6. Canada. Yours: Satyapal Anand
ستیہ پال آنند(اونٹاریو۔کینڈا)
٭٭٭جدید ادب کا شمارہ ۸فردوس نگاہ ہوا۔اس خوبصورت ادبی سوغات کے لیے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔
ادارئیے میں آپ کی یہ تجویز لائق توجہ ہے کہ اردو کے تینوں مراکزپاکستان،ہندوستان اور بر صغیر سے باہر کی بکھری ہوئی پاکٹوں کی ایک ایسی کانفرنس بلائی جائے جو اردو کی بقا و ترویج کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دے سکے۔مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہل کیسے ہو؟
متروک الفاظ کے سلسلہ میں ڈاکٹر شفیق احمد صاحب کی اس بات سے اتفاق کرلینا چاہئے کہ معاشرے میں رائج لفظوں کو اردو زبان و ادب کا حصہ مان لیں۔’’کلنک کا ٹیکہ‘‘میں نذیر ناجی صاحب نے احمد فراز کے قول و فعل میں تضادات کی واضح نشاندہی کی ہے۔وہ لائق مبارکباد ہیں کہ بڑی بے باکی کے ساتھ حقائق پر سے پردہ اُٹھایا ہے۔
محمد خالد اخترکی مزاح نگاری اور ان کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ ڈاکٹر روبینہ رفیق صاحبہ نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔’’بھولنے کی بیماری‘‘ایک عمدہ فکاہیہ ہے جس کے لئے نصرت ظہیر لائق مبارکباد ہیں۔مگر ان سب میں آپ کی یادوں کا مضمون ’’رہے نام اللہ کا‘‘حاصلِ مطالعہ رہا۔جو بے حد مفید اور معلوماتی ہے۔خصوصاَ سائنس کے منفی رجحانات سے الوہیت کے اثبات کا نتیجہ اخذکرنا آپ کی مذہب سے گہری وابستگی کی روشن دلیل ہے۔گوشۂ رشید امجد ایک عمدہ خراجِ عقیدت ہے جس کے مطالعہ سے صاحبِ گوشہ کی اسلوبیاتی ،فکری اور تخلیقی جہات روشن ہوتی ہیں۔شعری حصہ بھی وقیع اور معیاری ہے۔ سعید رحمانی(اڑیسہ،انڈیا)
٭٭٭حسبِ سابق جدید ادب کے تازہ شمارہ نمبر۸کے بھی شعری و نثری دونوں حصے معیاری و وقیع ہیں۔مضامین میں ’’اردو اور متروک الفاظ کا مسئلہ‘‘غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔نذیر ناجی صاحب نے’ کلنک کا ٹیکہ‘ بھی خوب لکھا ہے۔آپ کا تحریر کردہ اداریہ سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے۔ کاوش پرتاپگڈھی(دہلی)
٭٭٭جدید ادب کا آٹھواں شمارہ موصول ہوا،شکریہ۔دیارِ غیر میں رہ کر بھی آپ جس حوصلہ مندی سے رسالہ نکال رہے ہیں،مبارکباد کے مستحق ہیں۔خالص ادبی خدمت اسی کو کہتے ہیں۔رسالے کے تعلق سے مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ یہ اسم با مسمٰی ہے۔ساری تخلیقات پسند آئیں۔رشید امجد کا گوشہ بھی خوب ہے۔نظموں اور غزلوں کا حصہ بے حد معیاری ہے۔میں آپ کی مدیرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہوں۔گزشتہ دنوں خورشید اقبال کے مکان پر گفتگو کے دوران آپ کا ذکر نکل آیا اور دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔انہوں نے آپ کی کتاب’’میری محبتیں‘‘دکھائی۔میں اسے گھر لیتا آیا اور اول فرصت میں پڑھ گیا۔کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اثرات دیرپا ثابت ہوتے ہیں۔میں’’میر ی محبتیں ‘‘کا شمار بھی انہیں کتابوں میں کروں گا۔آپ کی تحریر نہایت شگفتہ ہے۔خاکے عموماَ جس مزاج اور جس طرزِ تحریر کا تقاضا کرتے ہیں وہ آپ کے یہاں موجود ہے۔
معید رشیدی(۲۴۔نارتھ پرگنہ۔مغربی بنگال)
٭٭٭سلام مسنون ۔شمارہ ۔۷میں اعلان کیا گیا تھا کہ ’’جدید ادب ‘‘(جرمنی) کا شمار نمبر ۸جولائی ۲۰۰۷ء میں شائع ہو گا۔ اس لیے میں نے شمارہ سات آہستہ آہستہ پڑھا لیکن اگلے روز پہلے نذر خلیق صاحب نے اور پھر آپ نے یہ بتا کر حیرت زدہ کر دیا کہ آٹھواں شمارہ تو چھپ چکا ہے۔ہمارا ڈاک کا نظام اتنا اچھا اور ترقی یافتہ ہے کہ اکثر غیر ملکی پرچے منزلِ مقصود پر نہیں پہنچتے۔سو ’’جدید ادب ‘‘کا نیا شمارہ(۸) بھی مجھے موصول نہ ہوا۔ میں ڈاکٹر نذر خلیق کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے خان پور سے مجھے پرچہ عنایت فرمایا ۔
میں نے اردو زبان کے مسئلہ پر آپ کا اداریہ بڑے غور سے پڑھا ہے ۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر آگے لانا محلِ نظر نہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’اردو ‘‘اس وقت بھی ہندوپاک کی واحد زبان ہے جو دونوں ملکوں کے ہر مقام پر بولی، پڑھی اور لکھی جاتی ہے اور اب اس کی بستیاں پوری دنیامیں پھیل گئی ہیں ۔’’اردو‘‘ کی مخالفت انیسویں صدی میں شروع ہو گئی تھی کیوں کہ یہ عربی سے ملتے جلتے رسم الخط (نستعلیق) میں دائیں طرف سے لکھی جاتی تھی اور اس میں فارسی اور عربی الفاظ کی آمیزش بھی زیادہ تھی جس کے خلاف سر سیّد احمد خان کے زمانے میں ردِعمل پیدا ہوا۔ فارسی کی سرکاری اہمیت ختم کرنے کے لیے اور ہندی اور اردو میں تنازع پیدا کرنے کے لیے انگریزی سرکار نے ’’بی جمالوکا‘‘ اپنا کردار ادا کیا لیکن کوئی زبان جب تک عوام میں زیر ِ استعمال ہے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس میں نئے الفاظ شامل ہوتے اور اس کے ذخیرے میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اس کے لئے جو اصول انشاء اللہ خان انشاء نے وضع کر دیا تھا اور وہ آج تک مستعمل ہے ۔ ڈاکٹر گیان چند جین نے امن و آشتی کی اس زبان کو فرقہ پرستی کے لیے استعمال کیا ہے۔ چنانچہ ان کی مخالفت ہر جگہ ہورہی ہے ۔ ڈاکٹر گیان چند جین کو جو عزت اور شہرت اردو زبان نے دی ہے اس پر انہوں نے خود جھاڑو پھیر دیا ہے ۔ کیوں کہ اردو کی ترویج و ترقی میں ہندو ادیبوں کے حصے کو کوئی خرد مند اور صاحب شعورنظر انداز نہیں کر سکتا۔ڈاکٹر جین کے اس اقدام میں سیاست اور سازش کا عمل دخل بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔جین صاحب کو یہ دل آزار کتاب لکھنے کی انگیخت دینے والوں کے نام تک لئے جا رہے ہیں اور وہ اپنا دفاع کرنے میں بھی مصروف نظر آتے ہیں کیوں کہ خود ان کو عزت ، عظمت اور شہرت اردو زبان و ادب نے ہی دی ہے ۔ جین صاحب نے اپنے بارے میں جو وضاحت فرمائی ہے وہ متاثر نہیں کرتی ہاں ان کی علالت پر ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ صحت مند ہوتے تو اپنادفاع مضبوط پیمانوں سے کرتے یا شاید یہ کتاب ہی واپس لے لیتے خدا انہیں صحت دے!
ڈاکٹر شفیق احمد نے مقالہ ’’اردو اور متروک الفاظ کا مسئلہ ‘‘محنت سے لکھا ہے لیکن بعض ضعیف الفاظ کے متروک کر دئیے جانے کے عمل کی نفی وہ لسانی بنیادوں پر نہیں کر سکے۔ دنیا کی ہر زبان نئے الفاظ قبول کرتی ہے اور بعض الفاظ متروک کر دیتی ہے۔ اس کے لئے میں اوپر انشاء اللہ خان انشا کے اصول کا حوالہ دے چکا ہوں جو وسعتِ زبان کے بارے میں ہے۔ بعض الفاظ کے متروک ہونے کا عمل بھی عوامی نوعیت کا ہے اور اس کا پیمانہ بھی عوامی قبولیت ہے ۔کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ بیرونی ممالک میں اردو کی بستیاں قائم ہونے کے بعد اردو کے بہت سے نئے الفاظ ان ممالک کی لغتوں میں شامل کر لئے گئے ہیں جبکہ بے شمار ایسے الفاظ ان ممالک کی لغتوں میں موجود ہیں جو بالکل استعمال نہیں ہوتے۔اور اگر کوئی شخص اپنی علمیت کے اظہار کے لیے انہیں استعمال کرتا ہے تو وہ جنبی نظر آتے ہیں۔یہاں مجھے سرگودھا کی ایک محفل یاد آرہی ہے جس میں ڈاکٹر وزیر آغا ، غلام جیلانی اصغر، سجاد نقوی، پرویز بزمی ، ڈاکٹر خورشید رضوی اور چند دوسرے ادب دوست حضرات موجود تھے ۔ڈاکٹر صفدر حسین (مرحوم)تشریف لائے تو انہوں نے وہاں موجود اصحاب کو ’’پنجابی ڈھگے‘‘کہا، جیلانی صاحب نے ان پر ’’تلیر‘‘کی پھبتی کسی اور پھر بحث چل نکلی جس میں ڈاکٹر صفدر حسین نے ’’اردو ‘‘ کو اپنی ادبی ضرورت قرار دیا اور اس زبان کے لیے پنجاب نے جو خدمات انجام دی تھیں ان کا اعتراف کیا اور اپنی روز مرہ دیہاتی بولی جو نواح دہلی کے دیہات میں مستعمل تھی کی مثال دی تو اسے ہم سب سمجھ نہ سکے۔ کسی زبان میں الفاظ کی جمع اور تفریق کاعمل کسی فارمولے یا ضابطے کی پیروی نہیں کرتا۔زبان لالہء خود رو کی طرح پھیلتی ہے او ر اس کی شاخ کے ساتھ لگا ہوا جو لفظ کا پھول خشک ہو جاتا ہے وہ خود بخود گر جاتا ہے میری نا چیز رائے میں اس کے لئے نجم الغنی اور خالد حسن قادری سے معیار کی سند حاصل کرنا ضروری نہیں اور کسی تخلیق میں جھانکنا بھی اہم نہیں۔ ہاں ادبی تقاضے کے تحت کد کداں یہ کام کرلیں تو معیوب نہیں۔
نذیر ناجی کا کالم ’’کلنک کا ٹیکہ‘‘ میں پڑھ چکا تھا آپ نے اسے احمد فراز کے ضمیر کی ’’بیداری ‘‘یا ’’عدم بیداری‘‘ سے منسلک کر دیا ہے اور نذیر ناجی کے کالم کی حقیقت دریافت کی ہے۔۔؟میں اس کالم پر اپنا رد عمل اخبار میں پیش کر چکا ہوں۔احمد فراز کا سجاد ظہیر کی نظریاتی ترقی پسند تحریک سے تعلق صرف شہرت کے لئے تھا،عملی زندگی میں انہوں نے صرف اپنی ذاتی ترقی ، دولت، شہرت اور جنسی طور پر عورت میں دلچسپی لی ہے۔ آخری مسئلے پر ان کے ایک مجادلے کی خبر بھی اڑی تھی جو مری کے ایک ’’عورت پسند‘‘ شہوت پرست اخلاق باختہ شاعر سے ہوا تھا۔بُک فاؤنڈیشن میں بد عنوانیوں کی خبریں بھی اڑتی رہیں۔ اس قسم کے شعرا ہر دور میں کام آنے والی نظمیں لکھ رکھتے ہیں اور نجی محفلوں میں سنا کر اپنی انسان دوستی کا بھرم قائم رکھتے ہیں۔ کبھی اسلام کے آسمانی صحیفوں کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن فوج کی آمریت کی مخالفت کرتے ہیں لیکن در پردہ انعام و اکرام حاصل کرتے ہیں۔ نذیر ناجی کا یہ دعویٰ ضروردرست ہو گا کہ انہوں نے ہلالِ امتیاز کے لیے صدر مشرف سے خصوصی سفارش کرائی ہو گی ،بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار میں نیشنل بُک کونسل کے عہدہ جلیلہ پر قائم رہے اور سابق تمام واجبات وصول کئے۔ ایک ایوارڈ نمائش اور شہرت کیلئے واپس کر دیا لیکن جنرل (ر)جاوید اشرف قاضی سے جو دوایوارڈوصول کئے تھے اورجن کے ساتھ کثیر مال بھی وابستہ تھااپنے پاس ہی رکھا۔نذیر جاجی کا کالم ۲۶جولائی ۲۰۰۶ء کو جنگ میں چھپا۔شاعر موصوف نے اس کے کسی لفظ کی تردید نہیں کی۔ آپ نے اس کالم کو دوبارہ چھاپ کر اخبار کی بجائے رسالے میں زیادہ محفوظ کر دیاہے۔اب یہ حوالے کے طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔
اس پرچے میں ممتاز افسانہ نگار رشید امجد پر ایک وقیع گوشہ پیش کر کے آپ نے اس درویش ادیب کی تحسین کا حق ادا کر نے کی سعی کی ہے جو احمد فرزانہ اور ندیم قاسمیانہ مزاج سے مختلف مزاج کے ادیب ہیں اور ’’ادب فروشوں‘‘ سے فاصلہ رکھتے ہیں۔منشا یاد نے انہیں اسلوب کی تازگی، اختصار اور گہری معنویت کا افسانہ نگار قرار دیا ہے ۔ہر چرن چاولہ کو ان کے افسانوں اور کرداروں میں ایک بالکل کنوارے اورنئے منطقے کی تصویر نظر آئی۔ صفیہ عباد اور ڈاکٹر ناہید قمر نے رشید امجد کونئے زاویوں سے پڑھا۔ ان کے مقالات کا حاصل انوکھا ہے۔ تجرید اور علامت کے متعدد اہم افسانہ نگار منظر ادب سے اوجھل ہو گئے ہیں رشید امجد زندہ ہیں مجھے ان کی توسیع سلیم آغا قزلباش، محمد سعید شیخ، طارق محمود،شبہ طراز اور ’’اشتہار آدمی‘‘ کے مصنف محمد عاصم بٹ کے فن میں بھی نظر آئی، ان سب نے تجرید کو نئے انداز میں استعمال کیا ۔علامت کی تہہ داری سے استفادہ کیا اور جدید تر افسانے میں کہانی کی اہمیت کو تسلیم و قبول کیا۔ کامران کاظمی نے محمد عاصم بٹ کے افسانوں کا اچھا تجزیہ کیا ہے لیکن ان کے سب نتائج سے اتفاق ممکن نہیں سچ یہ ہے کہ کامران کاظمی کی تنقید میں آمریت کا عنصردیکھا جاسکتاہے اور وہ محمد عاصم بٹ کی تخلیقی آزادی پر حملہ زن نظر آتے ہیں جب کہ اشتہار آدمی کے افسانے ’’شکاری‘‘ ’’تیز بارش میں ہونے والا واقعہ اور ’’گڑھے کھودنے والے ‘‘ حقیقی عصریت کے آئینہ دار افسانے ہیں اور افسانہ نگار کے گہرے مشاہدے اور وسعت نظر کی گواہی دیتے ہیں۔
اس مرتبہ آپ نے اکبر حمیدی، رضیہ فصیح احمد، اور خاور اعجاز کی چار چار غزلیں اور شاہد ماہلی، شہاز نبی اور ارشد خالد کی چار چار نظمیں پیش کر کے ان کے تخلیقی عمل کے مطالعے کا اچھا موقع دیا۔شاہد ماہلی کی نظموں میں ’’نیا مکان‘‘ ایک اہم حوالہ بن گیا ہے جس سے ’’نیم پلیٹ‘‘، ’’لیٹر بکس‘‘ اور ’’ڈسٹ بن‘‘کی نئی معنویت سامنے آتی ہے۔ اکبر حمیدی کا انشائیہ ’’اشتہاروں بھری دیواریں‘‘ اور نصرت ظہیر کا مزاح پارہ’’بھولنے کی بیماری‘‘ بڑی دلچسپی سے پڑھے۔ اکبر حمیدی کے انشائیے میں اشہارات شہرکی شخصیت پر غالب نظر آتے ہیں اور جناب نصرت ظہیر نے در اصل میری ’’بیماری‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ اپنی زندگی کا ۷۵واں عبور کرنے کے بعد میں بھول کے مرض میں بری طرح مبتلا ہوں۔ خدا جانے نصرت ظہیر صاحب کو دہلی میں یہ خبر کس نے دے دی کہ انہوں نے میرا نام لئے بغیر میری کہانی بیان کر دی۔
کھٹی میٹھی یادوں کے مضمون ’’رہے نام اللہ کا ‘‘ (از حیدر قریشی )میں باتیں ذاتی ہیں لیکن ان کے نتائج غیر ذاتی بھی نکا لے جا سکتے ہیں اوریہ بالعموم دانشِ مشرق پر منتج ہوتے ہیں ان دنوں مصنف کی طرح میں بھی’’پوتا مخلوق‘‘ سے دو چار ہوں اور بڑھاپے کے مزے لوٹ رہاہوں۔اس مضمون کی یاد نگاری انوکھی نوعیت کی ہے۔
سر ورق کے اندرون حمایت علی شاعر اور شمیم حنفی کی غزلیں چھپی ہیں اور ان سے کئی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ حمایت علی شاعر کا مصرعہ:’’ٹوٹے ہزار بت تو بنا خانہ خدا‘‘ان کی تلمیح نگاری کا آئینہ دار ہے۔۔ شمیم حنفی کا یہ مصرع میری آج کی کیفیت کو آشکار کرتا ہے۔’’لئے جاتا ہے اک دریائے بے تابی کدھر ہم کو‘‘
میں نے مختصر خط لکھنے کا ارادہ کیا تھا لیکن شوق نے بات بڑھادی اور یہ دفتر لکھا گیا۔ کیا اس طول بیانی کے لئے معذرت ضروری ہے؟خدا کرے آپ بعافیت ہوں۔ ا نور سدید(لاہور)
٭٭٭رشید امجد کے فکر وفن پر پہلی بار ایسا روشن،باوقار اور محبتوں کے لفظوں سے گندھا ہوا گوشہ مطالعہ میں آیا۔
رشید امجد میرے پسندیدہ افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانوں کا مجموعہ میں نے نہیں پڑھا لیکن بھارت اور پاکستان کے ادبی رسائل کے توسط سے ان کے افسانے مختلف وقتوں میں پڑھنے کا شرف حاصل کر چکا ہوں۔میں اس گوشے کی اشاعت پر آپ کو اور ڈاکٹر رشید امجد صاحب کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر شفیق احمد کا مضمون بہت اہم ہے۔جدید ادب کے توسط سے پہلے بھی موصوف کے علمی اور لسانی مضمون پڑھ چکا ہوں۔موجودہ مضمون میں آپ نے ولی دکنی کے حوالے سے لفظ’بھیتر‘کا ذکر کیا ہے۔یہ لفظ راجستھان میں بھی رائج ہے۔میں نے ایک شعر میں اس لفظ کا استعمال کیا ہے ،جس پر بعض احباب نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب اردو میں لفظ’’اندر‘‘موجود ہے تو’’بھیتر‘‘کی کیا ضرورت ہے۔
وہ جس کے روپ کی مہکار تھی فضاؤں میں ہماری روح کے بھیتر گلاب اسی کے تھے
یہاں وزن کے لحاظ سے ’’اندر‘‘ بھی لایا جا سکتا تھالیکن مجھے جو گہرائی اور اپنا پن’’بھیتر‘‘میں نظر آیا اس کی ہلکی سی رمق بھی لفظ’’اندر‘‘میں نہیں ہے۔میں تو’’ تلک ‘‘کو بھی متروک نہیں سمجھتا۔میں ڈاکٹر شفیق احمد کے خیالات سے پوری طرح متفق ہوں۔ نذیر فتح پوری۔(پونہ۔انڈیا)
تجھ تلک پہنچا ہوں خاصی دیر سے عمرِکہن
پہلے آنا تھا مگر رہ میں جوانی پڑ گئی (حیدر قریشی)