جدید ادب پڑھ رہا ہوں۔رسالہ خوبصورت چھپا ہے۔جوگندر پال جی کا گوشہ اچھا ہے،تاہم دوسرے تنقیدی مقالات کا حال پتلا ہے۔آپ اور نذر خلیق کے کتابوں پر مضامین بہت اچھے ہیں۔ایک افسوسناک خبر ہے کہ ڈاکٹرسید معین الرحمن کا انتقال ہو گیا ہے۔لوگوں کا خیال ہے کہ وہ صدیق جاوید کی کتاب کو سہہ نہیں سکے۔خدا ان کی مغفرت کرے۔ ناصر عباس نیر۔پنجاب یونیورسٹی۔لاہور
میں تو جدید ادب کو ایک قیمتی تحفہ سمجھتا ہوں برادرم!آپ نے تو ادبی تحریروں کا ایک خزینہ یکجا کردیا ہے۔میرا مضمون شائع کرکے آپ نے جو مجھے اعزاز بخشا ہے،اس کا بے حد شکریہ۔اپنے مضمون کی دوسری قسط جلد ہی ارسال کروں گا۔ احمد ہمیش۔کراچی
گوشہ کے سبھی مضامین بڑی محنت اور محبت سے لکھے گئے ہیں۔صرف یہی نہیں،تم نے ان صفحات میں بعض پرانے مضامین کے تراشے بھی بڑی ترتیب سے جوڑ کر اختصار میں بھی فراواں سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔۔۔تمہارا پرچہ پہلے شمارے سے ہی مجھے بھا گیا تھا۔اب پانچویں شمارے تک آتے آتے اور بھی گاڑھا اور گھمبیر ہو گیا ہے۔میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ کوئی اچھا ادبی رسالہ کئی اعتبار سے کسی یونیورسٹی کے شعبۂ ادب سے بھی اہم تر رول انجام دیتا ہے۔خدا تمہیں اس نہایت اہم کی ہمت اور ذرائع کرتا رہے۔ جوگندر پال۔دہلی
آپ کا کام لائقِ تحسین ہے،اسے جاری رکھیں اور مخالفین کو زیادہ اہمیت نہ دیں۔میری رائے ہے کہ اس سے آپ کے تخلیقی کام پر اثر پڑے گا اور مخالفین آپ کو اسی لئے الجھانا چاہتے ہیں۔
سیف اللہ سیفی۔ایمسٹرڈیم،ہالینڈ
جدید ادب ملے،میں نے ان میں سے ایک کاپی زہرہ نگاہ کو پڑھنے کودی،دوسری عدیل صدیقی کو اور تیسری کاپی ڈاکٹر بدر منیر نیو یارک لے گئے۔۔۔۔رسالہ دلچسپ ہے اور پڑھنے کے لیے کافی مواد ہے۔یہ کیا کہ جوگندر پال پر مضامین تو پڑھنے کو ملے مگر ان کی کوئی کہانی شامل نہیں؟۔۔۔۔۔۔
دوسری بات یہ ہے بھائی کہ کیچڑ میں پتھر پھینکنے سے فائدہ!آپ اپنا کام کرتے جائیے۔کیوں ناحق ان چوروں اچکوں پر اپنا لہو جلاتے ہیں؟ مصطفیٰ شہاب۔لندن۔انگلینڈ
I have seen the new shumara of Jadeed Adab and enjoyed the most because all the time you present something new. please accept my mubarakbad.
آپ کی بات بھی درست ہے کہ جعلی شعراءکی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔یہاں بھی کچھ ایسا ہی حال ہے مگر آپ کس کس کو روکیں گے؟بہت بڑا پروجیکٹ ہے اور لگتا ہے کہ اس میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے۔خدا ہی حافظ ہے ! پرویز مظفر۔برمنگھم۔انگلینڈ
جدید ادب کا تازہ شمارہ نمبر۵دیکھا جس میں میری غزلیں بھی شامل ہیں۔غزلوں کی اشاعت کے لیے شکریہ قبول فرمائیے۔کمپوزنگ کی غلطی کی وجہ سے میری پہلی غزل کے آخری شعر کا پہلا مصرعہ یوں شائع ہو گیا ہے
سچ ہے اس نے قسطوں پر ہی مجھ کو ٹھگا۔۔۔۔جبکہ مصرعہ اس طرح ہے سچ ہے اس نے مجھ کو قسطوں میں ٹھگا
تازہ شمارے کی بیشتر تحریریں قابلِ مطالعہ ہیں۔نثری حصہ زیادہ جاندار ہے۔’گوشۂ جوگندر پال‘ کے تحت لکھے گئے مضا مین پسند آئے۔بھئی جدید ادب کا جوگندر پال نمبر شائع ہونا چاہیے۔آپ کا مضمون” چند وضاحتیں اور اصل ادبی مسئلہ“بغور پڑھا۔نام نہاد شاعر و ادیب کیسی کیسی گھٹیا حرکتیں کر رہے ہیں۔خدا انہیں عقلِ سلیم سے نوازے ۔اور کیا کہہ سکتا ہوں۔خدا کرے آپ تمام بلاؤں سے محفوظ ہوں۔کاوش پرتاپ گڑھی۔ د ہلی
کل جدید ادب کا تازہ شمارہ ۵ملا،اس بار بھی رسالہ قابلِ ستائش ہے،بہت پسند آیا۔اس میں شامل معیاری تحریروں نے متاثر کیا۔”ادب دوست“میں چھپنے والے نازیبا مواد کے جواب میں آپ نے مناسب طریقے سے صورتحال واضح کر دی ہے۔”ادب دوست“میں مواد چھپوانا جعلی شاعروں کی حرکت تھی۔میں اس معاملہ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ایسے جعلی شاعروں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔ اکمل شاکر۔پسنی۔ بلوچستان
جدید ادب کا پانچواں شمارہ مل گیا۔اب کے پرچہ پہلے سب شماروں سے بہتر ہے گویا جدید ادب خوب سے خوب تر کا سفر تیزی سے طے کر رہا ہے۔احمد ہمیش صاحب کا مقالہ بڑا علمی ہے،ان کے اندازِ تحریر کی سطح بہت بلند ہے،سلطان جمیل نسیم نے مشفق خواجہ صاحب پر بھرپور مضمون لکھا ہے جو بہت پُر لطف بھی ہے اور معلوماتی بھی۔خواجہ صاحب کے کئی نئے گوشے سامنے آئے ہیں۔خواجہ صاحب سے میرا بھی اچھا تعلق تھا۔میری سب کتابوں کی نہ صرف رسید بھیجتے تھے بلکہ دو چار جملے تعریف و ستائش کے بھی لکھتے۔ایک مرتبہ لطیفہ ہو گیا۔میرا پنجابی غزلوں کا مجموعہ ”بکّی غزل پنجاب“شائع ہوا تو میں نے خواجہ صاحب کو بھیجنا چاہا۔تب نظیر صدیقی صاحب حیات تھے۔میرے ذہن میں تھا کہ خواجہ صاحب پنجابی نہیں ،اس لیے شاید پنجابی غزلوں سے لطف اندوز نہ ہو سکیں۔نظیر صدیقی صاحب خواجہ صاحب کے بھی دوست تھے اور میرے بھی۔چنانچہ میں نے صدیقی صاحب سے پوچھا کیا مشفق خواجہ صاحب پنجابی جانتے ہیں؟انہوں نے بے خبری کا اظہار کیا۔تب میں نے خواجہ صاحب کو خط لکھا اور پوچھا کہ کیا آپ پنجابی زبان جانتے ہیں؟ان کا خط آیا”میں پنجابی زبان اتنی ہی جانتا ہوں جتنی نظیر صدیقی اردو“۔
میں نے صدیقی صاحب کو خط پڑھوایا تو وہ بھی اس سے محظوظ ہوئے۔سردیوں کی ایک رات جب بارش ہو رہی تھی،رات کے دس بجے بیرونی دروازے کی گھنٹی بجی۔میں جلدی سے اٹھا کہ معلوم کروں کہ ایسے موسم میں کون ہو سکتا ہے۔دیکھا تو مشفق خواجہ صاحب اور نظیر صدیقی صاحب چھتریاں تانے موسلا دھار بارش میں کھڑے ہیں۔
خواجہ صاحب بولے”حمیدی صاحب ہم کچھ دوست صدیقی صاحب کے ہاں بیٹھے ہیں،سوچا آپ کو بھی بلا لیں“
میں اندر سے اپنی چھتری لے کر آیا ،ہم اکٹھے صدیقی صاحب کے ہاں پہنچے۔دیکھا تو وہاں ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب اور انتظار حسین صاحب بیٹھے تھے۔خاصی دیر ہم خوش وقت ہوتے رہے۔یہ وہی سال تھا جب نظیر صدیقی صاحب کو ایک ترجمے پر ایوارڈ ملا تھا۔یہ جیوری کے حضرات تھے۔بات اکادمی کے ایوارڈوں کی طرف مڑ گئی۔تب خواجہ صاحب نے مجھے مخاطب کرکے پوچھا:آپ کو تو پچھلے سال ایوارڈ مل گیا تھا نا؟میں نے انکار میں جواب دیا تب خواجہ صاحب حیرت بھری نظروں سے کتنی ہی دیر میری طرف دیکھتے رہے،مگر کچھ بولے نہیں۔
میرے محترم دوست جوگندر پال کا خصوصی گوشہ چھاپ کر آپ نے مجھے نہال کردیا۔علی احمد فاطمی،نگار عظیم،ثروت خان،ممتاز عالم،حیدر قریشی کے لکھے مضامین ایسے عمدہ ہیں کہ ایک سے بڑھ کر ایک۔پال جی کا نام اردو فکشن میں امر ہو گیا ہے،وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔غزلوں کا معیار اس مرتبہ خاصا بلند ہے تاہم ابھی اور توجہ دیں۔نظموں میں جہاں میرا جی اور وزیر آغا جیسے شاعر ہوں،اس کی امارت کا کیا ٹھکانہ۔برادرم منشا یاد کا انٹرویو بھی اس شمارے کی خصوصی چیز ہے۔منشا صاحب نے اپنے اور اپنے فن پر اچھی باتیں کہی ہیں ۔کتاب میلہ بھی خوب ہے۔غرض ایک بہت اچھا شمارہ پڑھنے کو ملا۔ اکبر حمیدی۔اسلام آباد
جدید ادب انٹرنیٹ پر پڑھنے کو ملا تو یقینا بہت مزہ آیا لیکن کاغذ پر چھپی ہوئی تحریر کی بات ہی اور ہوتی ہے لہٰذا پرچہ ملنے پر ہی تسلی ہوئی۔ اس شمارے میں حضرت صبا اکبر آبادی مرحوم کی غزل پڑھ کر اپنے گریبان میں جھانکنا پڑا کہ ”ہر کم نظر یہ کہتا ہے پردہ اُٹھا تو ہے“ کہیں ہمیں تو اپنی لپیٹ میں نہیں لے رہا۔ بہت خوب شعر ہے۔ عاکف غنی کا جوانی کا نوحہ اب جوان تر نسلوں کا نوحہ بنتا جا رہا ہے، پتہ نہیں کیوں، یا شاید ہمیشہ سے یونہی رہا ہو۔ جمال اویسی کا ”ہونٹوں پر بربادی کے نغمے نسل ہمای مرثیہ خواں ہے“ بھی شاید یہی سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ شموئل احمد کا ”سراب“ یوں تو دو طبقوں کی کہانی ہے مگر یہ کہانی آج کے دور میں طبقوں سے نکل کر پورے کرّئہ ارض پر پھیلی ہوئی محسوس ہوتی ہے جہاں میری نسل کے کئی لوگ طبقاتی کشمکش میں نہ ہونے کے باوجود بدلتی ہوئی دنیا کے ”جیلانی“ نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر بلند اقبال کا ”شکوہ“ دیوانِ غالب کے پہلے شعر کی اچھی تصویر کشی ہے، وہ سوالوں کی کدال لئے ہمیشہ مصروفِ عمل دکھائی دیتے ہیں۔ رؤف خیر کی نظم ”بونوں کا خواب“ شاید ہم سب کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔ سلطان جمیل نسیم صاحب کی یادداشتیں دلچسپ ہیں۔ منشا یاد صاحب کا انٹرویو بہت اچھا تھا، منشا یاد صاحب جیسے ادیبوں کا دم غنیمت ہے جو اوروں کی طرح ظاہری معاملات میں الجھ کر بے اصول ضابطوں کے غیر قانونی تسلّط کا جواز ماننے پر تیار نہیںہیں۔ نصرت ظہیر کا ”ادبی معمے“ بہت دلچسپ ہے اور نسرین نقاش کا ماہیا ”دیوانی سی لگتی ہوں“ پرانے خیال کے باوجود خوشگوار تاثر لئے ہوئے ہے۔آپ کے دم سے ہم لوگ سردیوں میں جدید ادب کی گرمی کا لطف اُٹھا رہے ہیں آپ بھی نظرکرم کرتے رہئے ہم بھی آپ کے سائے میں بیٹھے رہنے کی دعائیں مانگتے رہیں گے۔ فیصل عظیم(امریکہ)
سلطان جمیل نسیم نے مشفق خواجہ کی یادنگاری کا فریضہ بخوبی نبھایا۔ ڈاکٹر عقیلہ شاہین کا مقالہ” سابق ریاست بہاول پور کا پہلا اہم نثر نگار “تحقیق کے نئے باب کھولتا ہے۔ ابتدائی پیرا میں انہوں نے شہر کی بنا ءکاسن ۱۷۴۸ءکی بجائے ۱۷۴۸ء تحریر کیا یہ سہو ہے جو صفحہ نمبر ۳۲کی عبارت سے بھی واضح ہوجاتا ہے۔ سید نصیر الدین نصیر کی شاعری پروردان احمدکا وردان داد چاہتا ہے۔ شاعر موصوف کی ترجیع بند غنائیت کا مرقع ہے۔ صفحہ نمبر ۵۱پر کمپوزر نے لفظ پوربی کو یورپی کردیا ہے کیا کہوں؟نصیر کی منقبت درشان علی کرم اللہ وجہہ‘ کی تراکیب اور بندش یقینا شعریت سے بھرپور کلام ہے، مگر لفظ دیوی کا استعمال نظرثانی کا تقاضہ کرتا ہے۔
علی احمد فاطمی کی نگارش ”چار جنموں کا مسافر“ جوگیندر پال کے حوالے سے متاثر کن ہے۔ نگار عظیم شخصیت نگاری میں اچھا اضافہ ہیں جبکہ ثروت خان نے ”پارپرے“ پر مبسو ط رائے تحریر کرکے ناول کا اچھا تعارف کرادیا۔
منشا یاد سے انٹرویو ہماری معلومات میں گراں قدر اضافے کا موجب بنا۔ نصرت ظہیر کا فکاہیہ انہیں اچھے طنز و مزح نگاروں میں شامل کرنے کے لیے کافی ہے۔ ان کا یہ جملہ خاص طور پر مزہ دے گیا۔ ادب کی تعریف بھی فی زمانہ یہی ہے کہ جو زیادہ سمجھ میں نہ آئے وہ ادب ہے اور جو بالکل سمجھ میں نہ آئے وہ اعلیٰ ادب کہلاتا ہے۔ حیدر قریشی کے خامہئِ خاص سے ”چند وضاحتیں اور اصل ادبی مسئلہ“ پر یہی عرض کرسکتا ہوں کہ بہت اچھا کیا جو بیک وقت د و جعل سازوں کو بے نقاب کردیا۔ماہیوں میں اقبال حمید اصل پنجابی ماہیا سے بخوبی واقف نظر آئے، رفیق شاہین نے تیسرے ماہیے میں احمد ندیم قاسمی کاوہ مضمون سادگی سے دہرایا:
دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا۔نسرین نقاش کا آخری ماہیا تغزل سے مملو ہے۔
اکبر حمیدی کی نگارش ’چند عزیز اور حفیظ شخصیتیں‘ کا یہ جملہ نقل کے لائق ہے ”خاکہ نگاری کو میں خاک ڈالنایا خاک میں ملانا نہیں سمجھتا ،بلکہ خاک سے اٹھانا خیال کرتا ہوں“۔غزلیات میں بطور خاص صبا اکبر آبادی ‘کاوش پرتاب گڑھی ‘آفاق صدیقی، خورشید اقبال ، ترنم ریاض نے متاثر کیا رضیہ فصیح احمدکی دوسری غزل کا مزاج نظم مسلسل جیسا لگا ، میں انہیں نثری حوالے سے جانتا تھا ….شاعری سے تعارف خوشگوار ہے۔ شموئل احمد نے قدیم موضوع پر اچھی نگارش بہ شکل افسانہ سے نوازا ۔ان کے یہاں بہار کا مخصوص لہجہ نمایاں ہے ۔ حمایت علی شاعر کی نظم وحدہ لا شریک سے علم ہواکہ وہ محبت میں توحید کے قائل ہیں۔ فیصل عظیم کی نظم ”جمود “روانی اور سلاست کا شاہکار ہے۔ محمد فیروز شاہ کی نظم ”اپنے اپنے دکھ “قابل تحسین ہے۔ شہناز نبی کی نیند کی ماتی کا خیال اور پیشکش اثر انگیز ہونے کے باوجود نظم ادھوری محسوس ہوئی۔ منیر ارمان نسیمی نظم و عزل سے زیادہ گیت میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
حیدر قریشی کا متعارف کردہ ڈاکٹر رشید امجد کا مقالہ” میرا جی ، شخصیت او ر فن “اہل ذوق کے لیے دلچسپی کا سامان رکھتا ہے۔خطوط کے ضمن میں اپنے بزرگ حمایت علی شاعر سے یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ محض ماہیا یا دیگر نوزائیدہ اصناف سہ مصرعی کی بات نہیں، ہائیکو کے زیر اثر آ پ نے اپنی ثلاثی پر دوبارہ دل جمعی سے نظر فرمائی جس کے لیے بندہ بہت پہلے کبھی خواستگار ہوا تھا ورنہ آپ کے کلام بلاغت نظام (ثلاثی) کے نئے نمونے ہمیں دیکھنے نصیب نہ ہوتے۔ سہیل احمد صدیقی(کراچی)
جوگندر پال کا گوشہ اس شمارہ کی خصوصی پہچان ہے۔مضامین قابلِ توجہ ہیں لیکن ان کے ساتھ درج اقتباسات بھی مضامین جیسی اہمیت لیے ہوئے ہیں۔یوں بھی جدید ادب میں اقتباسات کی پیش کش میں جس سلیقے سے کام لیا جاتا ہے اس کے اچھے اثرات دوسرے ادبی رسائل میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔یہ شمارہ پہلے سارے شماروں سے زیادہ معیاری اور خوبصورت ہے۔اس کی داد بھائی نذر خلیق کو دی جانی چاہیے۔نصرت ظہیر کا فکاہیہ اور اقبال حمید،رفیق شاہین،نسرین نقاش اور شاہدہ ناز کے ماہیے مجھے بہت اچھے لگے۔اپنی تمام تر سستی اور نا اہلی کے باوجود اپنے ریکارڈ میں موجود آپ کے سارے پرانے مضامین تلاش کرنے میں لگا ہوا ہوں۔ کافی سارا کام نمٹا لیا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ اب آپ کے مضامین کے مجموعہ”حاصلِ مطالعہ“ کی اشاعت میں میری وجہ سے تاخیر نہیںہو گی۔ سعید شباب(خانپور)
جدید ادب کا شمارہ :۵اس بارپروفیسر نذر خلیق صاحب پاکستان کے توسط سے موصول ہوا۔۔۔۔ہر شمارہ کی طرح اس بار بھی جدید ادب اپنی پوری رعنائی کے ساتھ نکلا ہے۔تمام مضامین نثرو نظم کا انتخاب آپ بڑی خوبی سے کرتے ہیں اور اپنی مدیرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ایک تخلیق بھی اس شمارہ میںایسی نہیں جس کو جدید ادب کے مزاج سے ہم آہنگی نہ ہو۔آپ حضرات جس طرح غیر اردو داں طبقہ میں اردو کے چراغوں کو روشن رکھے ہوئے ہیں وہ آپ کا ہی حوصلہ ہے۔اللہ ان چراغوں کو تمام آندھیوں سے بچائے۔رئیس الدین رئیس۔علی گڑھ
جدید ادب میں اس بار بھی دلچسپ مواد ہے۔ آجکل حسبِ معمول بہت مصروف ہوں۔ اگلی چھٹیوں میں تفصیل سے لکھوں گی۔ ڈاکٹر کرسٹینااوسٹر ہیلڈ۔ہائیڈل برگ،جرمنی
مائی ڈئر قریشی صاحب!یقین مانئے ”گو میں رہی رہینِ ستم ہائے روزگار لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہی“
یہ سال عجیب و غریب دوڑ دھوپ اور سفروں کا سال رہا۔مارچ میں پاکستان عالمی اردو کانفرنس کے لیے گئی،ایک مہینہ وہاں رہی۔اسلام آباد،لاہور اور کراچی کی یونیورسٹیوں اور طرح طرح کے ادبی اداروں میں کم از کم آٹھ دس لیکچرز،تقریریں،گفتگو ہوئی۔اگست میں کینیڈا میں سجاد ظہیر سیمینار میں شرکت کی اورٹورنٹو وغیرہ میں کوئی بیس دن رہی تھی۔آج ہی ہندوستان سے ڈیڑھ مہینوں بعد آئی ہوں۔ابھی تک سامان کھولا نہیں۔بھارت میں بھی کئی کانفرنس اور سیمیناروں میں شرکت کی اور مقالے بھی پڑھے۔بیچ بیچ میں یہاں بھی امّی کے پاس پیٹرس برگ جایا کرتی تھی۔اس طرح آنے جانے،مقالوں کی تیاری کرنے اور سامان باندھنے اور کھولنے میں تقریباَ پورا سال نکل گیا۔ابھی تھوڑا بہت ہوش میں آؤں گی اور ایک دو روز میں آپ کو لکھوں گی۔سجاد ظہیر پر ایک مقالہ کینیڈا میں پڑھا تھا۔ اس کی بنا پر ایک مضمون بھی تیار کیا تھا۔اس کے علاوہ فیض پر اردو میں کچھ لکھا ہے۔دو ایک روز میں آپ سے رابطہ کروں گی۔بہترین تمناؤں کے ساتھ ڈاکٹر لڈمیلا واسلویا۔ماسکو روس
جدید ادب کا تازہ شمارہ نمبر ۵ (۲۰۰۵ء)موصول ہوا۔پروین شیر نے سرورق دلکش بنایا ہے۔پروین اپنی پدھری شاعری کی طرح فنِ مصوری میں بھی کمال و جمال دکھا رہی ہیں۔آپ کا جدید ادب جدیدیت سے مالا مال تو ہے ہی،لیکن شمارے کے آغاز میں حصہ حمد و نعت میں”انا بعد العسر یسرا“شائع کر کے آپ نے اپنی جدیدیت اور قریشیت کا بھی ثبوت دے دیا ہے۔
مجھے”انا بعد العسر یسرا“کے اشعار نے عجب سرشاری عطا کی ہے۔یہی سرشاری مجھے ”نہج البلاغہ“کی قرات کے دوران ملی تھی۔یہی سرشاری جدید ادب کے صفحہ اوّل سے ادبی حظ اٹھاتے ہوئے محسوس ہو رہی ہے۔اوّل کی تخلیق صفحہ اوّل پر ہی اچھی لگتی ہے۔شاہِ مردان کے اس عربی شہ پارے پر آپ اعراب بھی ڈال دیتے تو عام قاری کے لیے تلفظ کی ادائیگی میں آسانی رہتی۔
جوگندر پال پر سبھی لکھنے والوں نے متاثر کیا ہے۔معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اس بار ایک آدھ شعری تخلیق کے سوا حصہ شعری خاصا کمزور اور پھیکاہے۔شعری انتخاب میں معیار کا خیال رکھیں۔جدید ادب کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ورنہ۔۔؟
محمد حامد سراج کا افسانہ”طاعون کی چونچ“اچھا ہے۔سراج جی!طاعون کی وبا اب ادب میں بھی پھیل گئی ہے بلکہ ادب کو طاعون کی چونچ لگ گئی ہے۔اگر آپ افسانے کے کرداروں میں سماجی طاعون کے ساتھ ”ادبی طاعون“کو بھی لے لیتے تو افسانہ اور جاندار ہوجاتا۔افسانہ میں ڈکٹیٹر جنرل ضیا ءالحق اور دیگر جن مقتول صاحبان کے قتل کا ذکرِ خیر ہواہے کہ ان کے قاتل نامعلوم تھے،بھائی میرے!ان سبھی حضرات کے قاتل جانے پہچانے ہیں۔حامد سراج کو اتنا بے خبر تو نہیں ہونا چاہیے ۔عارف حسینی سے لے کر محسن نقوی تک کے قتل کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ان کے قاتل کون تھے؟اسی افسانے میں سے مل جائیں گے۔
ڈاکٹر رشید امجد کے افسانے”بانجھ لمحے میں مہکتی لذت“نے مٹھڑی لذت سے نوازا۔تفصیلی مطالعہ میں اکبر حمیدی،سرور راز،پروفیسر نذر خلیق اور حیدر قریشی کی تحریریں قابلِ مطالعہ ہیں۔شمارے میں کہیں کہیں کمپوزنگ کی اغلاط کھٹکتی ہیں۔اس عیب سے کہیں کہیں الفاظ اور جملے غلط سلط ہو گئے ہیں۔پھر بھی رسالہ اپنے سجرے پن سے مالا مال ہے۔
خانپور کی زرخیز زمین سے جدید ادب کا اُگنے والا پودا جدیدیت کے سات سمندر پار کر کے جدید جرمنی آ پہنچا ہے۔اب یہ پودا پھل پھول کر سایہ دار شجر بن چکا ہے۔اس برف پوش کی برفابی چھاؤں تلے بیٹھ کر کتابی اور انٹرنیٹ پرجدید ادب کو جرمنی سے برابر شائع کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔حیدر قریشی یہ ادبی کام خانپور کی یادوں کو اپنے سینے میں رکھتے ہوئے خوب نبھا رہے ہیں۔خانپور کی یاد میں حیدر قریشی کا ماہیا قارئین کی نذر ہے:
یادوں کے خزینے میں خانپور اپنا تو آباد ہے سینے میں
برف پوش افضل عباس(اوسلو،ناروے)
”ہر دور کے سنجیدہ ادب کا مطالعہ لازمی طور پر مصنف کا مطالعہ ، عصر کا مطالعہ اور آفاقی اقدار کا مطالعہ ہوتاہے۔“
ڈاکٹر محمد حسن کی یہ رائے مجھے جرمنی سے شائع ہونے والے معتبر ادبی جریدہ جدید ادب کے مطالعہ سے یاد آئی۔حیدر قریشی اور نذر خلیق کی ادارتی محنتوں نے جسے اپنے زمانے کا آئینہ بنادیا ہے۔تخلیقی اسرار آفاقی اقدار کی رفاقت میں اپنے عہد کی صداقت کا اشاریہ بن کر ظہور کرتے ہیں۔ ظاہر پرست دنیا میں تخلیقی آدمی کی لگن اندر کی روشنی کو ایک اور طرح سے نافذ کرتی ہے کہ ظاہر و باطن بیک وقت جگمگا اٹھتے ہیں۔
حیدر قریشی اور جدیدادب کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب خان پور کے دور آباد مگر تخلیقی سطح پر شاد آباد علاقے سے ایک پر عزم آواز کی صورت میںا ن کا ظہور ہوا تھا۔ ویسے بھی دورآباد علاقوں کی ذہانتیں سرما کے یخ بستہ موسموں میں چاندنی بانٹتے تنہا مگر دلیر چاند کی طرح ہوتی ہیں جن کی ملائم رفاقتوں سے بے نیاز لوگ گرم لحافوں کی آسائشوں میںمگن ،بے خبر، اپنی آرائشوں کے تصنع میں محصور پڑے ہوتے ہیںاس حقیقت سے قطعی لا علم کہ ان کے صحنو ں کے آسمان پر کیسے کیسے خوبرو منظر تخلیق پا رہے ہیں اور ان کی زمین کی آغوش میںکیسی دلنواز تخلیقی رتیں نور و سرور تقسیم کر رہی ہیں۔
کون اٹھ کر دیکھتا آنگن میں پھیلی چاندنی ہم دسمبر کی شب یخ بستہ کے مہتاب تھے
مگر یہ بھی ایک آفاقی حقیقت ہے کہ چاندنی کی مسلسل دستک سے دلوں کے بند دروازے بھی کھل جایا کرتے ہیں کہ سدا سے کامرانی استقامت اور استقبال کی ہم معنی رہی ہے چنانچہ حیدر قریشی اور نذر خلیق کی محنتیں بھی رنگ لائیں اور ان کے کام کی روشنی میں ان کے نام کو بھی اجالے سے بھر گئی۔جو نام اپنے کام سے دوام پاتے ہیں ان کی اہمیت کم نہیں ہوا کرتی اسی لےے میں اکثر کہا کرتاہوں کہ سچی محنتیں اور محبتیں کبھی رائیگاں نہیں جایا کرتیں ”جدید ادب“ادب کا اعتبار ایک تخلیقی وقار کی رفاقت میں بشارت کی طرح چمک رہا ہے۔رب کرے کہ یہ لوگ اسے ہمیشہ قائم رکھ سکیں۔
ماضی پرست نہ ہونے کے باوجود گئے دنوں کی روشنیوں سے چراغ لانا کبھی کبھی مجھے بہت اچھا لگتا ہے یادوں کے اجالوں کی بھی توا پنی ایک خوشبو ہوتی ہے جو میں نے آپ کے دامن میں لا ڈالی ہے اب آئیے آج کی طرف جدید ادب کا زیر نظر شمارہ (جولائی دسمبر 2005ء) سنجیدہ ادب کے قاری کو تخلیقی مہک رکھنے والے لکھاری نے بڑے اہم مسئلہ کی نشاندہی کی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔” اپنی قوم اور معاشرے کی خیر خواہی کا جذبہ رکھنے والے چینلز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مختلف کمرشل پروگراموں کے ساتھ معیاری اردو ادبی پروگرام بھی شروع کریں۔ میڈیاکرشاعروں اور ادیبوں والے پروگرام نہیں بلکہ واقعتا تخلیقی ادب کی تازہ ترین صورت حال کی عکاسی کرنے والے پروگرام شروع کریں۔“
ہمارے چینلز جس بری طرح اقربا پروری حلقہ بندی او ر دوست نوازی کی مثالیں پیش کرتے چلے جا رہے ہیں اور بار بار دیکھے دکھائے چہرے اور رٹے رٹائے اشعار دکھا سنا کر سامعین کو بور کر رہے ہیں، اگر عدل پسند آنکھ رکھنے والا کوئی صاحب اختیار ان میں ہوتو شاید صورت حال کچھ بہتر ہو ورنہ اسی تنخواہ پر گزارا ہوتا رہے گا،کے مصداق لکیر کے فقیر لکیریں پیٹتے رہیں گے ۔جدیدادب کے اس شمارہ میں باب مدینتہ العلم کی نظم، احمد ہمیش کا مضمون” برائے کہانی ناگزیر فتویٰ“ جس پر کئی فتوے لگائے جا سکتے ہیں، مشفق خواجہ کی یاد میں سلطان جمیل نسیم کا مضمون آواز نہیں ہوتی۔ جو گندر پال کی 80 ویں سالگرہ پر خصوصی تحریریں، صبا اکبرآبادی، تاجدار عادل اورآفاق صدیقی کی غزلیں محمد حامد سراج اور سہیل احمد صدیقی کے افسانے میرا جی ،وزیرآغا اور حمایت علی شاعر کی نظمیں اور منشا یاد سے انٹرویو خاصے کی چیزیں ہیں اور سرورق پر ایک ماہیا!!!
میں اک ازلی ، راہی
ساتھ نہ ہو یونہی
پھر سوچ لے چن ماہی
محمد فیروز شاہ(میانوالی)مطبوعہ روز نامہ” پاکستان“۲۰اکتوبر۲۰۰۵ء