٭٭Dear Haider Quraishi:
I recd. the new issue of the Jadeed Adab. I should have written to you much earlier but for my illness for the last few days. My blood sugar had been teasing me quite a bit but has now started behaving itself well enough.It has been a very good experience to read through the
new issue. It’s very pleasantly diverse and smart, and makes excellent reading.I am sure
you’d continue to publish it regularly with an eye on similar standard but how do you manage to do so many things so well at a time; magazine, internet, your writing and whatever else comes your way.Your delightful review on my “Par Pare” provides a testimony of your having read the novel very closely. It shows how the reader can as well be as creative in attributing a meaning to a literary work as the writer.Thank you indeed.When would you plan to visit Delhi next.
Give our love to everybody at home.Affectionately,
Joginder Paul جوگندر پال(دہلی)
٭٭شرمندہ ہوں کہ رسالہ کی رسید کافی تاخیر سے بھیج رہا ہوں۔پچھلے کئی مہینوں سے کبھی بمبئی سے باہر رہا اور کبھی انڈیا سے باہر رہا۔کافی عرصہ کے بعد لوٹا ہوں۔مجھے آپ کا رسالہ ”جدید ادب“بہت اچھا لگا۔آپ کی مدیرانہ ذہانت اور محنت ہر صفحہ پرروشن ہے۔آپ اردو مرکزوں سے دور ہو کر بھی جس طرح زبان کی خدمت کر رہے ہیں وہ قابلِ ستائش ہے۔خدا آپ کی کوششیں کامیاب کرے۔میرے لیے کوئی خدمت ہو تو ضرور تحریر فرمائیں۔
ندا فاضلی(بمبئی)
٭٭جدید ادب کا شمارہ نمبر ۳موصول ہوا۔یہ جریدہ ادبی،علمی،فنی،معنوی اور زیبائشی ،ہر لحاظ سے بہت جاذبِ نظر اور پُر وقار و پُر اثر ہے۔اس میں شامل تخلیقات اور ادب پارے آفاقی شعور اور عالمگیر یگانگت کے احساس کے ساتھ اپنی مقامی خوشبو سے بسے ہوئے ہیں۔روایت آمیزی اور جدت انگیزی کی ندرت کاری اس شمارہ سے ظاہر ہے۔
ناصر نظامی ۔ایمسٹرڈیم۔ہالینڈ
٭٭جناب محمد عمر کیرانوی صاحب کے توسط سے ”جدید ادب“کا شمارہ بابت جولائی تا دسمبر۲۰۰۴ءموصول ہوا۔
۲۸۰صفحات کو محیط یہ رسالہ ہندوپاک کے اکثر معیاری رسائل کے دوش بدوش نظر آتا ہے۔دوسرے یہ کہ کتابی صورت اور انٹرنیٹ پر نکلنے سے اس کی اہمیت و افادیت میں غیر معمولی اضافہ بھی ہوا ہے۔اس بات کی بھی خوشی ہے کہ رسالہ اپ ڈیٹیڈ ہو گیا ہے۔غیر اردو علاقوں سے رسائل و جرائد نکالنے والوں کے مسائل کم پیچیدہ نہیں ہوتے ،لیکن آپ نے اس طرح کے مسائل پر فتح حاصل کرکے اپنے مضبوط عزائم کا ثبوت فراہم کیا ہے۔
ڈاکٹرمعین الدین شاہین۔بیکانیر۔انڈیا
٭٭(بنام عمر کیرانوی)آپ کا رسالہ ملا بہت شکریہ۔اشفاق صاحب پچھلے تین ماہ سے صاحبِ فراش ہیں۔پیٹ اور انتڑیوں کا بائی پاس ہوا ہے۔اور ابھی تک خوراک ہضم نہیں کر سکتے۔نقاہت کا یہ عالم ہے کہ لکھنے پڑھنے کا عمل یکسر موقوف ہے۔جونہی صحت پکڑی آپ کو خود خط لکھیں گے۔تب تک آپ پر دعا کی استدعا واجب ہے۔اﷲ تعالیٰ کرے کہ کسی جگہ سے دعا کا عطیہ مل جائے اور وہ نارمل زندگی بسر کر سکیں۔
بانوقدسیہ ۔لاہور
از ادارہ:اس دوران اشفاق صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ہم بانو قدسیہ صاحبہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔
٭٭میں جاپان سے اس وقت دبئی میں اپنے دوسرے بیٹے محمد عون شاہد کے ہاں آیا ہوا ہوں۔جدید ادب کا نیا شمارہ(نمبر ۳)آپ نے شاید پاکستان یا جاپان بھیجا ہوگا،اس لئے مجھے ابھی تک نہیں ملا البتہ انٹرنیٹ ایڈیشن کا ایک بڑا حصہ دیکھ چکا ہوں۔ رسالہ ماشاءاﷲ بہت بہتر ہو گیا ہے۔اﷲ نظرِ بد سے بچائے۔میرے ماہیے شامل کرنے کا شکریہ لیکن میرا ایک ماہیا جو اس طرح چھپا ہے،درست نہیں ہے۔
آئی ۔ٹی کا زمانہ ہیاج بجا ہے سبکل تک جو فسانہ تھا
یہ سہو آپ کے ادارہ کی طرف سے ہوا ہے۔میں نے یہ ماہیا اس طرح بھیجا تھا۔
آئی ٹی کا زمانہ ہیاج درست ہے ،جوکل کا افسانہ ہے
جدید ادب میں چھپنے والے ماہیوں کا ویسے بھی نک سک سے درست ہونا بہت ضروری ہے،کیونکہ انہیں نہ صرف سند کے طور پر پیش کیا جائے گا بلکہ کسی اور کے ماہیے میں سقم پر بھی اعتراض آپ پر جڑ دیا جائے گا۔اسی شمارہ میں اعجاز عبید کے باقی سارے ماہیے درست ہیں لیکن ان کے نعتیہ ماہیوں میں چوتھے نمبر کا ماہیا اپنے قافیہ کے حساب سے درست وزن میں نہیں ہے۔ایسے سارے سقم آپ کی نظر میں رہنے چاہئیں۔ امین خیال۔حال دبئی
٭٭جرمنی سے حیدر قریشی کی زیر ادارت شائع ہونے والے ”جدید ادب“ کا شمارہ نمبر3نہ صرف اپنے آﺅٹ لُک اور ضخامت کے اعتبار سے عمدگی کی ایک مثال ہے بلکہ پاکستان سے باہر شائع ہونے والے تمام ادبی پرچوں میں یہ اپنے مواد کے اعتبار سے انتہائی معیاری ادبی رسالہ ہے جو جناب حیدر قریشی اور انکے رفقائے کار نذر خلیق(پاکستان)،عمر کیرانوی(انڈیا) اور ریحانہ احمد (کینڈا)کی مساعی جمیلہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس پرچے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں مروجہ طریقہ کار یعنی صرف کسی ایک خاص حلقۂ فکر کے شعراءو ادباءکی نگارشات کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ بلا امتیاز تمام مکاتب فکر کے اہل قلم کو نمائندگی دی گئی ہے۔ہاں البتہ انتخاب کی اگر کوئی کسوٹی اس میں کار فرما رہی ہے تو وہ صرف اور صرف معیار ہے۔جس طرح انٹر نیٹ اور ای۔میل دنیا بھر کے اہل قلم کے مابین رابطہ کا ایک ذریعہ ہے اسی طرح ”جدید ادب“ بھی رابطے اور جان پہچان کا کام سر انجام دے رہا ہے۔
اداریے سے لیکر خطوط و ای میلز تک کے تمام سلسلے قاری کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں او ر اس کا کریڈٹ ”جدید ادب“کی مجلس ادارت کو جاتاہے۔جدید ادب کے مطالعے کا آغاز ”گفتگو“ سے ہوتا ہے ۔اس میں نان جینوئن ادباءکے خلاف مہم چلانے والی بات سے میں سو فیصد متفق ہوں۔ابتدا میں حضرت علی کی”اللہ رب العزت سے راز و نیاز “خاصے اور محفوظ کرنے والی چیز ہے۔ صادق باجوہ کی نعتیں اور امین خیال،سجاد مرزا،اعجاز عبید کے نعتیہ ماہیے خوب ہیں۔تازہ شمارے میں شامل تمام مضامین خصوصی مطالعے کے متقاضی ہیں۔سہیل احمد اور اقبال حیدر کے ہائیکو کا مطالعہ خوش کن لگا۔غزلیات کا انتخاب حسب سابق بڑی محنت کے ساتھ کیا گیا ہے،تاہم اکبر حمیدی،حیدر قریشی،خادم رزمی،نذر خلیق،عارف فرہاد،کلیم احسان بٹ،راحت حسن،نسرین نقاش اور ناہید ورک کی غزلوں نے لطف دیا۔افسانوں میں ڈاکٹر رشید امجد،رحیم انجان اور حامد سراج کے افسانوں نے متاثر کیا۔نظموں میں ڈاکٹر وزیر آغا،حمایت علی شاعر،آفاق صدیقی،فیروز شاہ،رﺅف خیر،سیما عابدی سریندر بھوٹانی زاہد،شفیق مراد،اکمل شاکر،مسعود منورکی نظمیں ،جدید نظم کے شائقین کی تشفی کا باعث ہیں ۔خصوصی مطالعے کا گوشہ سینئرز کی تحاریر سے مزین و مضبوط ہے ۔ماہیے کے حصے میں حیدر قریشی کی کمی شدت سے محسوس ہوئی ۔کتاب گھر ، کتاب میلہ اور تفصیلی مطالعے سمیت جدید ادب کے تمام سلسلے ”جدید ادب“کے معیار کی تقویت کا حوالہ ہیں۔ مرتضیٰ اشعر۔ملتان
٭٭”جدید ادب“مل گیا ہے۔بہت بہت شکریہ! اتنا ضخیم ،حسین،دلکش اور معیاری رسالہ۔۔میں تو دیکھ کر حیران ہی رہ گیا۔صورت اور سیرت دونوں پہلوؤں سے معیاری ہے۔آپ نے اس میں نظم و نثر کے نگینے جڑ دئیے ہیں۔دل خوش کر دیا ہے آپ نے۔آپ کی اس شاندار پیشکش کے لئے آپ کو دل و جان سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ رفیق شاہین۔علی گڑھ
٭٭اس دفعہ آپ نے پرچہ ہر خاص و عام کے لئے فری کرکے ایک بڑے علمی اور ادبی جہاد کا اعلان کیا ہے۔خدا آپ کی توفیق میں برکت دے اور آپ کو طویل عرصے تک یہ خدمت کرنے کے مواقع دے۔دوسرے یہ کہ ”جدید ادب“میں پوری اردو دنیا کے لوگ شامل ہیں۔گویا اردو دنیا کو آپ نے ایک متفقہ پلیٹ فارم پر جمع کر دیا ہے۔اگرچہ اس کارِ خیر میں کچھ نرمیاں بھی کرنی پڑی ہیں اور یہ ضروری بھی تھیں۔نئے ناموں کو شامل کرکے آپ نے پرچے کے دامن کو وسیع کر لیا ہے مگر پرچے کے عمومی معیار کو بحال رکھا ہے۔تبسم کاشمیری نئی نظم کا ایک اہم نام ہے،اچھا ہوا انہوں نے غزل کی طرف بھی توجہ کی۔اس شمارے میں غزلوں اور نظموں کا حصہ بہت نمایاں ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا کی نظم”کیوں دکھ اوڑھ کے بیٹھے ہو“دل میں اتر جانے والی اور زندگی آموز نظم ہے۔صادق باجوہ صاحب آپ کی اچھی دریافت ہیں۔”پار پرے“برادرِ محترم جو گندر پال کا نیا ناول ہے۔آپ نے اچھا تبصرہ کیا ہے۔اس ناول میں بڑے تلخ حقائق ہیں۔یہ چھوٹا سا ناول ہے لیکن اپنے آپ میں بڑا پن رکھتا ہے۔امین خیال ماہئے میں نام پیدا کر رہے ہیں۔بحیثیت مجموعی یہ ایک بھر پور اور پُر لطف شمارہ ہے۔مبارکباد!
اکبر حمیدی(اسلام آباد)
٭٭(بنام عمر کیرانوی)جدیدی ادب (جرمنی) کا زیر نظر شمارہ نمبر۳اپنی تمام مشمولات کی انفرادیت کی بنا پرایک مستقل تصنیف کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔نیز ایک یادگاری حیثیت کا حامل بھی ہے اور افادی بھی،جس کا چرچا دیر اور دور تک ہوتا رہے گا۔یہ دین ہے حیدر قریشی صاحب کے تبحر علمی کی اور ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے معتبر تخلیق کاروں اور قلمکاروں کے حلقۂ اثر تک رسائی اور ان کی پذیرائی کی۔پھر اس پر مستزاد یہ کہ ان کی پیش کش کا انداز بھی غیر اکتسابی ہے،اور اختراعی بھی،اس شمارے کے بعد دیکھناجدید ادب کا طنطنہ بڑھے گا اور۔ عتیق احمد عتیق(مالے گاؤں۔انڈیا)
٭٭آپکا تازہ جدید ادب کا شمارہ جناب عزیز نبیل کے توسط سے باصرہ نواز ہوا ، دیکھ کر طبیعت مسرور ہوگئی ، دیار غیر میں رہ کر اتنی انتھک اور خوبصورت کوشش یقینا آپ ہی کا حصہ ہے اور شمارہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ادب کی خاموش اور مخلص خدمت کرنے والے ابھی باقی ہیں۔آپکا انتخاب بھی قابلِ مبارکباد ہے۔خاص طور پر ڈاکٹر جمیل جالبی کا مضمون فیض احمد فیض کا ایک گم شدہ ورق بے حد پسند آیا نیز آپکی جانب سے تحریر شدہ خورشید اقبال کی شاعری اور اردو افسانے کی اولیت کی تحقیق کا مسئلہ ایک بیش بہا تحفہ ہے۔غزلیات میں یوں تو سبھوں کا کلام خوب ہے مگر جناب تبسم کاشمیری ولی بجنوری اور عزیز نبیل کی غزلیں بہت عمدہ لگیں۔ ندیم ماہر۔(دوحہ ۔ قطر)
٭٭دنیا داری نے ادب سے دور کر رکھا ہے۔فرصت کے لمحات میںجدید ادب دیکھنے کا موقعہ ملا۔سبحان اللہ کیا تیور ہیں۔کیسے کیسے عمدہ خیالات اور بڑے نام دیکھنے کو ملے۔تبسم کاشمیری کا غزل کی جانب رجوع خوش آئند ہے۔
قاضی عابد کی تحقیق ثقہ ہے۔آپ کا مختصر مضمون بھی عمدہ ہے،دریا کوزے میں بند نظر آتا ہے۔ڈاکٹر رشید امجد اور سلطان جمیل نسیم کے افسانے متاثر کن اسلوب میں لکھے گئے ہیں۔نظموں کے جواہر پارے دیکھ کر یہ کہنے کو جی چاہ رہا ہے کہ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔البتہ وزیر آغا اور حمایت علی شاعر کے استادانہ کلام کا جواب نہیں۔ ”فنون آشوب“پر رائے زنی کا شکریہ۔ ڈاکٹر سعادت سعید۔انقرہ یونیورسٹی،ترکی
٭٭جدید ادب کا شمارہ سوم صوری و معنوی لحاظ سے پرکشش ہے۔ اس کے سرورق کی سادگی ہی اس کی دیدہ زیبی کی پہلی بنیاد ہے۔ مضامین کی ابتداءمیں ڈاکٹر قاضی عابد کا تحقیقی جائزہ’قرة العین حیدر سے منسوب ایک کتاب ‘ نہایت عمدہ اور دعوت تحقیق دینے والا فن پارہ ہے۔ ایسے مضامین بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔اس مضمون میں ایک جگہ بر سبیل تذکرہ قاضی صاحب نے غالب سے منسوب مشہور واقعہ درج فرمایا ہے…. اس واقعے کی صحت و سند پر جرح ہوچکی ہے اور اسے غالب کے تخلص کی تبدیلی کا محرک قرار دینا بھی مشکوک ہے۔ میں سر دست حوالہ نہیں دے سکتا…. ہاں فرصت سے تلاش کرکے پیش کر سکتاہوں۔ اسی حوالے سے کسی محقق نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ غالب نے اخیر عمر میں بھی اسد تخلص استعمال کیا ہے۔قرة العین حیدر نے سوانحی ناول کے ذکر میں ایک اچھی فرینچ اصطلاح غو شیغ شے دُو تاں پیغ دُ وُ استعمال کی ہے۔
محمد حمید شاہد صاحب نے ’فیض احمد فیض اور تنقید ‘ کے عنوان سے ایک اچھے موضوع پر کھرا انداز اختیار کیاہے…. ہمیں مشاہیر ادب کے معاملے میں اسی طرح دیانت برتنی چاہیے‘ ان کی ہر ادا اور ہر کارنامے کو نشان عظمت نہیں بنانا چاہیے۔” تزک جہانگیری سے صدیوں پرانی روایت کی تردید“ دل چسپ اور منفرد تحقیقی کاوش ہے…. جناب محمد عمر کیرانوی اس کے لیے داد کے مستحق ہیں۔ اس مضمون میں ایک جگہ تزک کے مترجم اردوسے ایک سہو ہوا…. اصل عبارت میں لفظ ہے: روز شنبہ ‘ یعنی ہفتہ مگر انہوں نے اسے پیر لکھ دیا….نیز جہاں شہنشاہ جہاں گیر نے لفظ ’ولایت‘ استعمال کیا ہے اس کے قوسین میں فارس یعنی ایران لکھنا ضروری تھا….کیوں کہ اس عہد میں اس ملک کے لیے عوام و خواص میں یہی لقب عام تھا‘ جبکہ بعد ازآں ولایت کا عرف انگلستان کے لیے عام ہوگیا….
آپ نے خورشید اقبال کی شاعری کا اچھا اور مختصر تعارف پیش کیا ہے….مجھے ان کے اس شعر نے متاثر کیا:
کیسے لگی ؟ کہاں سے لگی ؟ سرغنہ ہے کون ؟ تحقیق ہوگی ‘ آگ تو پہلے بجھائیے
اردو افسانے کی ایک صدی کی تکمیل پر آپ نے اچھی بحث کا آغازکیا ہے…. مزید تحقیق ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کی مساعی کو اپنے نام کرنے والے حضرات بھی بے نقاب ہونے چاہئیں…. اس ضمن میں بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی…. ہمارے بہت سے ادبی بتوں کی شہرت کا دارو مدار ہی بعض انتہائی ضرورت مند مگر با صلاحیت ادباءکی کد و کاوش پر ہے…. ان میں بعض زندہ اور بعض متوفی بزرگ شامل ہیں۔میں نہایت ممنون ہوں کہ آپ نے میری ہائیکو شاعری پر محترمہ رخسانہ صبا کا مضمون شائع فرمایا…. اس مضمون میں کمپوزر صاحب سے ایک جگہ یہ سہو ہوا کہ میری ایک ہائیکو کا آخری مصرع چھوڑ کر دوسرے مصرعے کو دوہرادیا۔ ہائیکو مندرجہ ذیل ہے:
ڈولے میرا منکس کس کو پرچائے گاگوری کا جوبن
جدید ادب میں پروفیسر خوشی محمد خان صاحب کا افسانہ ’ازل سے ابد تک‘ شامل کرکے آپ نے یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ آپ کسی مخصوص نظرئے سے مبراءرہنا چاہتے ہیں اور یہی اس جریدے کی کامیابی کی دلیل ہے۔رحیم انجان کا ’ اندھیروں کا سفر‘ بالکل اپنا احوال واقعی لگتا ہے…. فرق یہ ہے کہ یہ خاکسار ڈھائی برس سے معاشی بدحالی اور منتظم اشاعت کی بد دیانتی کے باعث ہائیکو انٹرنیشنل نہیں نکال پایا۔اصغر عابد کی اکبر حمید ی صا حب سے گفتگو بہت معلومات افزاءاور کشادہ ذہنی کا ثبوت ہے….اس موقع پر اپنے اسلام آبادی ادیب دوست سے بصد احترام عرض کروں گا کہ براہ کرم حسب وعدہ دیرینہ کبھی ادھر بھی نظر کرم فرمائیے …. شاید انہیں یاد ہو کہ ستمبر ۲۰۰۰ءمیں ان سے ملاقات نہ ہو نے پر اس عاجز نے ٹیلی فون پر شرف کلام حاصل کیا تھا….
تبسم کاشمیری کا کلام پہلی مرتبہ مطالعے میں آیا…. شاید اس کی وجہ میری کم علمی ہو‘ ان کے کلام کی اشاعت کی بابت ‘ان کی دوسری غزل کا یہ شعر خیال کی بندش کے لیے لائق تحسین ہے :
ہوائے ابر میں بادہ کشی سے خوش ہوا حصارِگل کی تمازت میں جھومتے جانا
جبکہ اسی غزل کا آخری شعر لکھنؤ کی لمسیاتی شاعری کی یاد تازہ کرتاہے:
کسی کے چاند بدن پہ گلاب رکھ د ینا کسی کے پھو ل سے جامے کو کھولتے رہنا
محترم آفاق صدیقی کی چوتھی غزل سے یہ شعر انتخاب ہے:
ہمیں بے خودی نے خبر نہ دی کہ نشیب کیا ہے فراز کیا دل دوستاں کی تلاش میں صفِ دشمناں سے گزرگئے
آفاق صاحب کی پانچویں غزل کے یہ دو اشعار قابل ذکر ہیں:
یاد آئی جب کبھی ترے لہجے کی نغمگی دھیمے سروں میں گونجتی شہنائیاں رہیں
پانی پہ جب بکھر سا گیا چودھویں کا چاند میری نگاہ میں تری انگڑائیاں رہیں
اور برا نہ مانیں تو عرض کروں کہ اس پر بے اختیار وہ پرانا شعر یاد آگیا:
کششِ بدر سے چڑھتا ہوا دریا دیکھا اﷲ اﷲ رے عالم تری انگڑائی کا
ڈاکٹر محبوب راہی صاحب سے اپنی معلومات کے لیے استفسار ہے کہ ان کی غزل کے اس شعر میں لفظ درخشاں کس طرح پڑھا جائے…. در خشاں …. یا …. دال اور رے پر تشدید کے ساتھ…. کیوں کہ میرے ناقص علم کے مطابق اگر صحیح تلفظ دَرَخشاں ( یعنی دال اور راءمتحرک اور خاءساکن)ہے اور یہی پڑھا جائے تو غالباً اس جگہ سکتہ آجائے گا…. ویسے میں کوئی عروضی نہیں…. جواب سے یقینا رہنمائی ہوگی۔ان کے یہ دو اشعار خاص طور پر پسند آئے:
وہ تو ہے حسن کا دیوانہ ‘ شب و روز کو وہ سایہئِ زلف سیہ ‘ سرخیئِ لب جانتا ہے
قبل از مرگ اے مرے مولا یہ عذابوں کا سلسلہ کیا ہے
آخری شعر اگرچہ تضمینِ غالب میں ہے‘ بڑا مختلف محسوس ہوا۔خادم رزمی صاحب کا نام میرے لیے نیا ہے،ان کی حمدیہ غزل بھی اچھی کاوش ہے۔ خادم رزمی نے اس شعر میں ایک نیا مضمون تراشا ہے:
ہوتے ہیں جواں بیٹیوں والے کے جو دل میں ہر شاخِ ثمر دار کے خدشات وہی ہیں
ڈاکٹر ولی بجنوری سے بھی آپ کے طفیل تعارف ہوا اور کیا خوب ہوا….ان کی دوسری غزل کے دوسرے شعر میں جدید ترین لہجہ نظر آتا ہے۔ولی صاحب کی چوتھی غزل میں یہ شعر خیال آفرینی کے لیے داد طلب ہے:
جاگی ہوئی ہو ہجر کی سفاک رات جب ہمراہ چاند تاروں کو لے کر اڑا کریں
مسعود منور سے بھی ابھی تعارف ہوا….ان کا یہ شعر جدید اور منفرد انداز میں دینی نقطہئِ نظر بھی اجاگر کرتا ہے:
اگلے وقتوں کے رسولوں کی یہ تازہ امتیں دوزخوں کی آگ میں جلتی سلگتی لکڑیاں
آگے چل کر مسعود منور نے خالص مادی و اشتراکی نقطہئِ نظر کا اظہار کیا ہے:
وہ خریدے گا زرِ زہد سے ستّر حوریں دین میں ایسی تجارت کو روا کہتا ہے
شمسہ اختر ضیاءکی نظم ’وہ خواب لمحے‘ عمدہ مسلسل نظم ہے….اس پڑھ کر نجانے کیوں ٹینا ثانی کے گائے ہوئے کلام بہار آئی …….. کی طرف دھیان چلا جاتا ہے…. شاید دونوں کا طرز ایک ہے۔صبا اکبر آبادی کی تضمینِ غالب بہت جاندار ہے…. ایسے بزرک شعراءکا کلام آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔صادق باجوہ کی شاعری میں بہت سا مواد خیال آفرینی اور سادہ بیانی کے سبب داد طلب ہے۔ ان کا یہ شعر بہت عمدہ ہے:
مدتو ں سے نوحہ گر تھی بے بسی کشتِ دل میں تخم وحشت بوگئی
باجوہ صاحب کا یہ شعر ۱۱/۹کے پس منظر اور پیش منظر میں امریکا کے کردار پر تبصرہ محسوس ہوا…. کیا خوب کہا ہے: دور بدلے مگر رہا صادق نام تہذیب، کام قبلائی
ناوک حمزہ پوری ‘ فرحت قادری ‘ ایس ۔پی۔ شرما ‘ شباب للت‘ ہاشم نعمانی ‘ اور شبیر فراز فتح پوری کے ماہیوں نے بہت متاثر کیا…. جناب ایس ۔پی۔ شرما کے لیے دل سے دعا نکلی ہے ۔باقی مواد ابھی جستہ جستہ دیکھا ہے…. خط یوں بھی خاصہ طویل ہو گیا …. سو باقی آئندہ پر اٹھا رکھتا ہوں۔ سہیل احمد صدیقی ۔کراچی
٭٭ماسکو سے جانے سے پہلے میں نے آپ کو جدید ادب کا شمارہ نمبر ۳ملنے پر اپنا شکریہ ادا کیااور لکھا بھی تھا کہ اس شمارہ کا سارا مواد بہت دلچسپ اور میرے لئے معلوماتی بھی ہے۔مثلاََ میں نے بڑے شوق سے خورشید اقبال کے بارے میں آپ کا مضمون پڑھا۔ان کے بارے میں مجھے پہلے کچھ معلوم نہ تھا۔کیا وہ ای میل آپ کو ملا نہیں؟وہ اردو میں تھا۔آپ کے دوست کاشف صاحب کو کیا بھیجوں؟ ڈاکٹر لڈمیلا(ماسکو۔رُوس)
نوٹ از ایڈیٹر: لڈمیلا جی!افسوس کہ آپ کی جدیدادب پر اصل تبصرہ والی ای میل مجھ تک نہیں پہنچی۔کاشف صاحب سے اب تک آپ کا رابطہ ہو چکا ہے۔آپ کا مضمون بھی اردوستان ڈاٹ کام کی زینت بن چکا ہے۔
٭٭ نئی بستیوں سے شائع ہونے والے کئی جرائد میں جرمنی سے ”جدید ادب“ اپنی امتیازی حیثیت رکھتاہے۔ اس کا تیسرا شمارہ اپنے صاف سیدھے سنجیدہ سرِورق سے متاثر کرتا ہے اور پھر ”گفتگو“ (اداریہ) جو مختصر ہونے کے باوجود لائق تحسین ہے۔ ایک سے زائد وجوہ سے! اول تویہ کہ ہمارے یہاں اس نوعیت کے بیشتر جریدے اپنے کئی صفحات پر مشتمل اداریوں میں مخالفین کے خلاف جو جی میں آیا لکھ دیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو اچھی خاصی مہم چلائی جاتی ہے گویا اُن کا جریدہ نکالنے کا مقصد یہی ہے او رکچھ نہیں۔ کبھی کبھی تو اخلاقی اقدا ربھی پامال ہوتی نظر آتی ہیں، ذاتیات کو نشانہ بنایا جاتاہے اور وہ سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے جو نہ لکھا جاتا تو شعر و داب کی حرمت برقرار رہتی۔ آپ اختلاف کیجئے، اختلاف کاحق ہر کسی کو حاصل ہے لیکن اصولی اور نظریاتی طور پر اخلاقی قدروں کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے۔ عموماً ایسا نہیںہوتا یہی لائق اعتراض بات ہے۔ شکر ہے کہ مدیر، حیدر قریشی نے اس نوعیت کے اداریوں سے ”جدید ادب“ کو بچائے رکھا ہے اور نہ صرف بچائے رکھا ہے بلکہ اس کے خلاف شستہ انداز میں آواز بھی بلند کی ہے۔ انہیں یہ تسلیم ہے کہ اختلاف رائے سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا۔ لیکن ادب میں اختلاف رائے میں پہلا قرینہ ”ادب“ ہونا چاہئے۔ قدآور علمی و ادبی شخصیات کے علمی و ادبی کردا رکو مسخ کرنے کی انہوں نے بھی مذمت کی ہے۔ ہاں جیسا کہ حیدر قریشی نے لکھاہے ”اگر مہم چلانی ہو تو منشی گیری کرنے والے غیر جینوئین لکھنے والوں کے خلاف چلائیے۔ جعلی شاعروں اور چور افسانہ نگاروں کے خلاف مہم چلائیے“۔ اور ایسے جعلی قلم کار کہاں نہیں ہیں۔ غرض یہ اداریہ مختصر سہی لیکن اہم ہے ہم سب کو خصوصاً شخصی او ربیکارسی گروہ بندی کے شکار لوگوں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے حیاتِ فیض کے ایک گم شدہ ورق کو پیش کیا ہے او رکچھ ایسی جامعیت کے ساتھ کہ صرف فیض کی زندگی کا ایک گوشہ ہی سامنے نہیں آتا اس دور کا سیاسی منظرنامہ بھی بڑی حد تک روشن ہو جاتاہے۔ لیکن یہ کہ جس تفصیل سے فیض کی زندگی کے اس ورق کا پس منظر بیان کیا گیاہے۔ اصل بات دو سطروں میں ادا کردی گئی ہے اس ضمن میں بھی قدرے تفصیل سے کام لیا جاتا تو اچھا تھا فیض کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ”میزان“ کے حوالہ سے محمد حمید شاہد کا مضمون بھی توجہ چاہتاہے۔ یہ درست کہ فیض کے تنقیدی مضامین ان کی شاعری کے مقابلہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے لیکن فیض کے ذہن بلکہ ان کی شاعری کی تفہیم میں ان سے بڑی مدد ملتی ہے۔” قرة العین حیدر سے منسوب ایک کتاب “کئی زاویوں سے اہم ہے۔ ۱۹۸۵ءمیں سجادحیدر یلدرم کے تراجم او رطبع زاد تحریروں کا ایک انتخاب جس کو پروفیسر ثریا حسین نے مرتب کیا، اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ سے شائع ہوتاہے جس کا پیش لفظ پروفیسر محمود الٰہی نے تحریر کیا او رپروفیسر ثریا حسین نے ”یلدرم اور اردو افسانہ“ کے بعنوان اور قرة العین حید رنے ”داستانِ عہد گل“ کے عنوان سے اس کا مقدمہ تحریر کیا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ۱۹۹۰ءمیں یہی کتاب سنگ میل پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوتی ہے اور اس کے مرتب کے طورپر قرة العین حید رکا نام دے دیا جاتاہے اور پھر کئی اصحاب نے اس کتاب کو قرة العین حید رہی کی مرتبہ قرار دیتے ہوئے اپنے کئی مضامین اور کتابوں میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ظاہر ہے قرة العین حیدرکے نام سے فائدہ اٹھانے کی یہ افسوس ناک کوشش ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات کی بہتری اورتہذیبی او رادبی سمجھوتوں کے ساتھ ایسی کوششوں کی بھی مذمت کرنے اور ان کا مکمل طورپر سد باب کرنے کے لیے معاہدہ ہونا چاہیے ورنہ یہ کیا جو کتاب چاہے ایک ملک والے دوسرے ملک کی شائع کرلیں۔ حتیٰ کہ مصنف اور مرتب کے ناموں کی تبدیلی بھی عمل میں آئے۔ ڈاکٹر قاضی عابد نے اس کتاب پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے اور یلدرم کے تراجم او رطبع زاد تخلیقات کے بارے میں نہایت اہم باتیں لکھی ہیںکہ یلدرم کی تفہیم میں ان سے اعانت ملتی ہے۔ ونیز ان کا یہ مطالبہ بھی حق بجانب ہے کہ پاکستان میں اس کتاب کی جب بھی مکرر اشاعت ہو اس کے مرتب کے طور پر پروفیسر ثریا حسین کا نام درج ہونا ضروری ہے۔ ہندوستان و پاکستان کے اور قلمکاروں کو بھی اس خصوص میں آواز بلند کرنی چاہئے۔ آغاسکندر مہدی کی مرثیہ گوئی اور خورشید اقبال کی شاعری پر بھی قلم اٹھایا گیاہے۔ اسی طرح محمد عمر کیرانوی کا مضمون ”تزک جہانگیری سے صدیوں پرانی روایت کی تردید“ بھی ہے اور” اردو کی اہم ادبی ویب سائٹس“ بھی۔ دونوں معلوماتی ہیں۔ ویب سائٹس کے بارے میں نذرخلیق کے مضمون سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔ اسلام آباد میں، اردو افسانے کی ایک صدی پوری ہونے پر جو تقریب منعقد ہوئی تھی، اس میں منشا یاد او رافتخا رعارف نے افسانہ ”ایک صدی کا قصہ“ کے بعنوان بالترتیب ابتدائیہ او رمضمون پیش کیا۔ یہ تحریریں ایسی ہیں جو ایسے مواقع پر پیش کی جاتی ہیں۔ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے یقینا یہ بحث اہم ہے چنانچہ حیدر قریشی نے ”اردو افسانہ کی اولیت کی تحقیق کا مسئلہ“ میں اس بحث کو آگے بڑھایا اور ”جدید ادب“ کے صفحات پر مزید اظہار خیال کی دعوت دیتے ہیں۔ غزلوں کا حصہ بھی اہم ہے۔حامدی کاشمیری، تبسم کاشمیری، ناصر زیدی، انو رمینائی، نسرین نقاش اور حیدر قریشی وغیرہ کی غزلیں اچھی ہیں۔ افسانو ںکا حصہ بھی خوب ہے ”گملے میں اُگاہوا شہر۲“ رشید امجد کا افسانہ ہے اور ظاہر ہے اشاریتی۔ اشارات بھی ہیں اور افسانے میں اشاریتی فضاءبھی۔ معاشرتی زندگی اور مذہبی گروہ بندی کو خوب آشکار کیا گیاہے۔دیگر افسانے ”بے چارہ بے کار“، ”ازل سے ابد تک“، ”اندھیروں کا سفر“، ”افسانہ نگار نے بہت دیرکردی“ اور”کارٹون“ بھی اچھے ہیں۔زندگی کے مختلف پہلوسامنے آتے ہیں، کئی نشیب و فراز نظموں میں وزیر آغاحمایت علی شاعر، ناصر زیدی، رؤف خیر اور آفاق صدیقی کے علاوہ کئی شعراءکی نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ۔۔۔۔۔ ان دنوں ماہیوں کاشہرہ کچھ زیادہ ہی ہے۔ ۔۔۔ ”جدید ادب“ کے اس شمارے میں ہندوستان و پاکستان کے ماہیہ نگارو ںکے علاوہ ہندوستانی ماہیوں سے انتخاب بھی ہے جس کو نذیر فتح پوری نے مرتب کیاہے۔ اس انتخاب میں ناوک حمزہ پوری، فرحت قادری، رؤف خیر، ایسی پی شرماتفتہ، امین حزیں، عبدالاحد ساز، شرون کمار وَرما، شباب للت، علیم صبا نویدی او رکئی کے ماہیے ہیں۔ بعض ماہیے بڑے عمدہ ہیں۔ اکبر حمیدی سے اصغر عابد کی گفتگو ضرور پڑھئے۔ اصغر عابد نے ادب میں فکری تحریکوں، ادب کی زوال پذیری، ادب اور صحافت اور ہمارے سماجی رویوں، عمرانی تہذیب کے پس منظر، جدید نظم کے مستقبل، لکھنے والوں کی فکر، ان کی شخصیت، ان کے کردار، علاقائی ادب اور غزل کے بارے میں سوالات کیے۔ اکبر حمیدی کے جوابات ان کے وسیع مطالعہ اور زندگی اور زمانے کے تعلق سے ان کی گہری آگہی کے عکاس ہیں۔ غزل اور نظم کے تعلق سے انہو ںنے کہا: ”تسلسل خیال کے لیے جو لطف نظم میں ہے وہ غزل مسلسل میں نہیں آسکتا اور متنوع مضامین اور تیزیٔ طبع اور دھماکہ خیزی اور وسعت فکر کے لحاظ سے جو متاع غزل کو حاصل ہے وہ نظم کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ نظم ایک عالمی میڈیم ہے اور غزل میں مقامیت زیادہ ہے“۔ (صفحہ ۱۸۹) ایسے انٹرویوز کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے کہ مضامین وغیرہ میں کسی موضوع پر تخصیصی گفتگو ہی ہوتی ہے جب کہ انٹرویوز میں بیک وقت کئی مسائل پر قلم کاروں کے خیالات سے آگہی ہوتی ہے۔ تفصیلی مطالعے کے تحت کتابوں پر مفصل اظہا رخیال ہے نگار صہبائی کی کتاب پر پروفیسر آفاق صدیقی نے قلم اٹھایاہے۔ یہ بات خاطرنشیں رہے کہ گیت کہنے کے لیے ہی نہیں، گیتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی صدیوں کے ثقافتی دھارو ںسے آگہی اور دلچسپی ضروری ہے۔ نگار صہبائی کے گیتوں میں، گیتوں کا روایتی اور فنی حسن بھی ہے اور ادبی خوبیاں بھی۔ آفاق صدیقی کا جائزہ بھر پور ہے۔ صلاح الدین پرویز کی کتاب عشق کو روحانی مکاشفات کی تمثیل قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر منظر حسین نے اظہا رخیال کیاہے۔ منظر حسین نے لکھا ہے کہ صلاح الدین پرویز نے طرب و انبساط کی فضاءمیں اپنے متین اور مقدس
خیالات کو منضبط اتار چڑھاؤ کے ساتھ ہم آہنگ کرکے صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیاہے۔ ساری کتاب فنکار کے ذہن کو رسائی، فکر کی بلندی، سیرت کی پاکیزگی، جذبۂ عبودیت کے علاوہ حکیمانہ فکر اور شاعرانہ تخیل کی عمدہ مثال ہے۔ تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے منظر حسین نے ”کتاب عشق“ کو اکیسویں صدی میں رویائی شاعری پر مشتمل ایک اہم اور گراں قدر تصنیف قرار دیاہے ۔صبا اکبرآبادی کے مراثی کے مجموعہ ”خون ناب“ پر نذر خلیق نے لکھا ہے۔ اسلم بدر کی مثنوی ”صدائے کن فیکون“ پر سیر حاصل مضمون ہے سید احمد شمیم کا۔ چونکہ فی زمانہ مثنوی نگاری پر توجہ کم ہے اس لیے اسلم بدر کی مثنوی اوریہ مضمون دونوں لائق قدر ہیں۔ کتاب گھر اور کتاب میلہ کے تحت طویل اور مختصر تبصرے ہیں۔ مجموعی طورپر ”جدید ادب“ بیک وقت کتابی صورت میں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہونے والا اردو کاادبی جریدہ ہے۔ حیدرقریشی صاحب نہایت حسن سلیقہ سے اس کی اشاعت عمل میں لاتے ہیں۔ یقین ہے ظاہری اور معنوی دونوں طرح اس کے معیار میں اضافہ ہوگا، ہوتارہے گا۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید ( تبصرہ مطبوعہ روزنامہ سیاست حیدرآباد کا بڑااور اہم حصہ)
٭٭جدید ادب ملا۔ میں آپ کا نہایت ممنون ہوں۔ آپ نے ہمیشہ مجھے یاد رکھا اور ہمیشہ کرم فرمائی کی۔مجھے اپنی کوتاہی کا شدید احساس ہے۔ میں آپ کی تحریریں پڑھتا رہتا ہوں۔ میں آپ کا بڑا معترف اور مداح ہوں۔ آپ نے بہت کام کیا ہے۔ فی الحال میں آپ کو جدید ادب کیلئے ایک غزل، ایک نظم اور چند ہائیکو نذر خلیق صاحب کے توسط سے بھیج رہا ہوں۔دوماہ تک میرے تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ چھپ جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی میں آپ کو اپنی پانچ کتابوں کا سیٹ براہ راست بذریعہ ڈاک جرمنی بھیج دوں گا۔ یہ کتابیں آپ کے مطالعے کے لئے ہیں اور اگر آپ ان پر تبصرہ کر ائیں تو میں بہت ہی شکر گزار ہوں گا۔پروفیسر محمد امین(ملتان)
٭٭حیدرقریشی نے ”گفتگو“ کے تحت اس بات پر زور دیا ہے کہ ادب کو ذاتی اور علاقائی عصبیت سے پاک ہونا چاہیے ۔ اس گفتگو کے بعد حضرت علی المرتضٰے، صادق باجوہ اور سیما عابدی کی مناجات و نعت اور نعتیہ ماہیے درج ہیں۔ اردو میں ”ماہیا“ او ر”ہائیکو“ نووارد اصنافِ سخن ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سہیل احمد صدیقی ”ہائیکو“ کا عالمی روپ نکھارنے کے لیے وہی کردار ادا کررہے ہیں جو ”انشائیہ“ میں وزیر آغا نے کیا اور اب”ماہیا“ میں حیدر قریشی کر رہے ہیں۔ جاپانی ادب سے مستعار صنف ”ہائیکو“ اور پنجابی صنفِ سخن’ماہیے‘ کا مستقبل اردو میںکیاہے؟ ساتھ ہی اس کے اوزان اور مصرعوں کے ارکان کی حد بندی کس طرح کی جائے اس سے متعلق مشمولہ تخلیقات اور تنقیدی مباحث کے مطالعے سے بخوبی واقفیت ہوجاتی ہے۔ صفحہ ۲۱۵سے ۲۲۶تک ماہیو ںکا انتخاب شامل ہے جس میں امین خیال، نذر خلیق، عبید اعجاز، ترنّم ریاض، ناوک حمزہ پوری، فرحت قادری، رؤف خیر، امین حزیں، عبدالاحد ساز، علیم صبا نویوی اور دیگر شعرا کے ماہیے بھی شامل
ہیں۔
تحقیقی و تنقیدی مضامین میں جمیل جالبی نے حیاتِ فیض کامطالعہ کرتے ہوئے اس پر حیرت ظاہر کی ہے کہ فیض احمد فیض جیسے پکّے مارکسسٹ کو دوسری جنگِ عظیم کے دوران کیوں اور کیسے برطانیہ کی سامراجی حکومت کی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے حساس عہدے پر فائز کیاگیا؟ قاضی عابد نے فرید اور امیر خسرو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب کوئی ادبی شخصیت شہرت کے نصف النہار پر ہوتی ہے تو اس سے عجیب و غریب باتیں اور روایتیں منسوب ہوجاتی ہیں۔ نفسِ مضمون یہ ہے کہ ڈاکٹر ثریّا حسین سابق صدر شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ۱۹۸۵میں سجاد حیدر یلدرم کے تراجم اور طبع زاد تحریروں کا ایک انتخاب اترپردیش اردواکادمی سے شائع کرایا تھا جس کا پیش لفظ پروفیسر محمود الٰہی نے لکھا تھا۔ ”یلدرم او راردو افسانہ“ کے عنوان سے خود مرتبہ نے اور ”داستانِ عہدِ گل“ کے عنوان سے قرة العین حیدر نے مقدمہ تحریر کیا تھا لیکن یہی کتاب ۱۹۹۰میںجب سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، سے شائع ہوئی تو مرتب کے طور پر قرة العین حید رکا نام بیرونی اور اندرونی سرورق پر دیا گیا اور تب سے یہ کتاب قرة العین حیدر کے نام سے منسوب ہوگئی تھی۔ قاضی عابد نے شواہد سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کتاب کی مرتبہ ڈاکٹر ثریّا حسین ہیں۔ انہوں نے ثریّا حسین کی ان کوششوں کا بھی ذکر کیاہے جو یلدرم کی تفہیم میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آغاسکندرمہدی، جدید اردو مرثیے کے ایک اہم شاعر ہیں۔ انہوں نے ۱۹۶۷ءسے مرثیہ گوئی کا آغاز کیا او راپنی وفات ۱۹۷۶تک کل ۱۶مرثیے قلمبند کیے۔ ان مراثی کی روشنی میں ان سے متعلق عام خیالات کی تردید کرتے ہوئے پروفیسر زوار حسین نے لکھا ہے کہ آغا سکندمہدی نے جدید مرثیہ نگار ہوتے ہوئے روایتی اجزائے مرثیہ کی پابندی سے دامن نہیں چھڑایا ہے اور حیرت ظاہر کی ہے کہ سید عاشور کاظمی نے انہیں جدید مرثیے کے ارکان خمسہ میں کس جواز کی بنیا دپر جگہ دی ہے؟ حمید شاہد نے فیض کی تنقید نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے آفتاب احمد کے اس قول کو گمراہ کن قرار دیا ہے کہ فیض کو پوری طرح سمجھنے کے لیے فیض کی شعری تخلیقات کے ساتھ ساتھ ان کے تنقیدی معتقدات کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ فیض کی تنقید نہ صرف ان کی شاعری کو دو متضاد رویو ںکے مقابل کرتی ہے بلکہ فراز تک آتے آتے اس نے بہت سے دوسرے شاعروں کو بھی گمراہ کردیا۔ عمر کیرانوی نے قصبہ کیرانہ سے متعلق ایک پرانی روایت پربیان کرتے ہوئے ”تزکِ جہانگیری“ کے سہارے اس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ اس مضمون میں تحقیق سے زیادہ قصبے کی روایت بہت پُر لطف ہے۔ نذرخلیق نے اپنے مضمون ”اردو کی اہم ویب سائٹس“ میں کاشف الہدیٰ۔امریکہ، حسن علی۔لاہور، حیدر قریشی۔جرمنی، اردو ادب۔کینیڈا، ادبی دنیا۔دہلی، اردو پیجز۔انگلینڈ، کے علاوہ دیگر اہم ویب سائٹ سے متعارف کرتے ہوئے ان کی رکنیت حاصل کرنے سے متعلق واقفیت بہم پہنچائی ہے۔
”اردو افسانہ کے سو سال“ کے گوشے میں منشایاد، افتخار عارف، حیدر قریشی اور ناصر عباس نیّر کی تحریریں، اردو
افسانے کی ایک صدی پوری ہونے پر اسلام آباد میں منعقد کی گئی تقریب کی روداد پیش کرتی ہیں۔ اس گوشے میں شامل منشا یا دکی تحریر اور افتخار عارف کا خطبہ پڑھنے کے بعد قاری کو یہ رائے قائم کرنے میں کوئی تامّل نہیں ہوگا کہ اسلام آباد میں منعقد اس تقریب کا موضوع ”پاکستان میں افسانے کی نصف صدی“ زیادہ مناسب ہوتا۔ یہ تقریب مسعود رضاخاکی کے مطابق راشدالخیری کے افسانے ”نصیراور خدیجہ“(جو”مخزن“ لاہو رکے دسمبر ۱۹۰۳کے شمارے میں شائع ہوا تھا)اس کے حوالے سے منعقد کی گئی تاہم افسانوں کے گوشے میں راشد الخیری، سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند کے درمیان اوّلین افسانہ نگار کون؟ کی بحثیں بہت اہم اور معلوماتی ہیں۔اس گوشے میں چھ افسانے بھی شامل ہیں۔ ان میں خوشی محمد خاں کا افسانہ ”ازل سے ابد تک“ رحیم انجان کا ”اندھیروں کا مسافر“ اور محمد حامد سراج کا ”افسانہ نگار نے بہت دیر کردی“ لائق مطالعہ ہیں جو قارئین پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔روایتی شعری تخلیقات میں ۳۶غزل گو اور ۱۸نظم نگار شعرا شاعرات کی تخلیقات کو شامل کیاگیاہے۔ نظموں میں حمایت علی شاعر کی ”ایک نظم“ صداق باجوہ کی ”انانیت“ آفاق صدیقی کی ”فوقیت“ محمد فیروز شاہ کی ”ایثا رکے موسم میں ایک نظم“ رؤف خیرکی ”دہشت پسندی“ سیما عابدی کی ”دنیا“ طاہر مجید کی ”اپنا اپنا کام“ فکری و فنی اعتبار سے متوجہ کرتی ہیں۔ وزیر آغا کی نظموں میں شعریت کم فلسفہ زیادہ ہے۔ غزلیں جدید رنگ و آہنگ کی ہیں اور ادب کی توانا روایات پر مبنی ہیں ان میں آفاق صدیقی، حامدی کاشمیری، نسرین نقاش اور ناہید ورک کی غزلیات توجہ طلب ہیں۔غالب کی غزل ”دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے“ پر صبا اکبرآبادی کی تضمین اور احمد فراز کی ”ٹھہر کے دیکھتے ہیں“، ”سنور کے دیکھتے ہیں“ والی غزل پر ابراہیم اشک کی تضمین ایک عجیب مضحکانہ تاثر قائم کرتی ہیں۔ اصغر عابد کی اکبرحمیدی سے گفتگو قاری کے ادبی مزاج کی مختلف گرہیں کھولتی ہے۔ اکبر حمیدی ذاتی طورپر پورے آدمی کے ادب کے قائل ہیں۔ یہ ادب میںاس تحریک کے قائل ہیں جن کی بنیاد انسان دوستی کے وسیع المشرب نظریے پر قائم ہے۔”کتاب گھر“ میں حیدرقریشی کے تبصرے اور”کتابِ میلہ“ میں ریحانہ احمد کے اجمالی تبصرے شامل ہیں۔ نگار صہبائی کے گیتوں کے مجموعے ”انت سے آگے“ پر آفاق صدیقی، صلاح الدین پرویز کے مجموعے ”کتابِ عشق“ پر ڈاکٹر منظرحسین، صبااکبرآبادی کے مجموعۂ مراثی ”خونناب“ پر نذرخلیق اور اسلم بدر کی مثنوی ”صدائے کن فیکون“ پر سیّد احمد شمیم کے تنقیدی و تجزیاتی مضامین سے نہ صرف کتاب کے مغز سے شناسائی ہوتی ہے بلکہ اصل متن کے مطالعے کے لیے قاری برانگیختہ ہوجاتاہے۔ آخر میں قارئین کے خطوط اور ای میلز ہیں جو تہنیتی و تاثراتی نوعیت کے ہیں۔ ا احمد کفیل کا تبصرہ مطبوعہ ماہنامہ اردو دنیا دہلی شمارہ نومبر ۲۰۰۴ء
٭٭آپ متحرک تخلیق کار ہیں ،کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ماہیا کی تحریک میں تو آپ نے بہت نام کمایا ۔اب لوگ ماہیا لکھ رہے ہیںمگر ماہیا کے شاعروں کی تخلیقی حیثیت پرابھی گفتگو باقی ہے،ناقدین کو اس طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے ۔ جدید ادب اچھا پرچہ ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ آپ انتخاب کے معاملے میںکچھ نرمی برتتے ہیں۔ غالباً پوری اردو دنیا کی نمائندگی آپ کے پیشِ نظر ہوتی ہے۔شمارہ ۔۳کی بعض چیزیں میرے لئے خاصی کشش آور ثابت ہوئیں۔ڈاکٹر قاضی عابد تحقیق میں خاصے فعال ہیں،تنقیدی نظر بھی رکھتے ہیں،ان کے مضمون سے ان کی سنجیدگی اور محنت ظاہر ہوتی ہے۔محمد حمید شاہد فکشن کے آدمی ہیںمگر انہوں نے اپنے مضمون میں فیض کی ان تحریروں کو نہیں چھیڑا جو فکشن سے متعلق ہیں۔رتن ناتھ سرشار والے مضمون پر تو انہیں لازماً بات کرنی چاہیے تھی اور تخمینہ لگانا چاہیے تھا کہ فیض نے” فسانہءآزاد“ کے مطالعہ کے لئے کیسے وقت نکالا ہو گا اور کتنے صفحات پڑھے ہوں گے ۔فیض نے اپنی تنقید کو باتوں کا نام دیا ہے اور باتیں عالمانہ بھی ہوتی ہیں ،دلچسپ بھی اور پھسپھسی بھی،فیض صاحب کی تنقید ان کی بیشتر شاعری کی طرح پھسپھسی ہے۔لہٰذا حمید شاہد کو فیض کی تنقید سے پریشان اپنے مضمو ن کوان کی شاعری کی طرف لے جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ افسانوں میں رشید امجد، سلطان جمیل نسیم اور محمد حامد سراج کے افسانے توجہ کھینچتے ہیں۔رشید امجد تو خیر منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں ،نئے افسانہ نگاروں میں محمد حامد سراج نے تسلسل کے ساتھ لکھ کرقارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے ۔ان کے افسانوں میں کسی نہ کسی جذبے کی لہر حاوی رہتی ہے۔”اردو افسانہ کے سو سال“ کے تحت دیے گئے منشا یاد اور افتخار عارف کے مضامین میں نے نہیں پڑھے،کیونکہ میں یہ مضامین تقریب میں سُن چکا ہوں۔اردو افسانے کی اولیّت کی تحقیق کے ضمن میں عرض ہے کہ افسانہ” نصیر اور خدیجہ“ کی نشان دہی اولاّ ڈاکٹر مسعود رضا خاکی نے کی مگر یہ نشان دہی صرف ذکر تک محدود تھی۔ڈاکٹرانوار احمد نے بعد ازاں کوشش کر کے یہ افسانہ ڈھونڈ لیا تھا مگر ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی مہربانی یہ ہے کہ انہوں نے اس کا پورا متن اپنے مضمون کے ساتھ شائع کرایا۔یہ مضمون ”فنون “لاہور ،سالنامہ ۱۹۹۱ءمیں” اردو کا پہلا افسانہ نگا ر۔ایک تعارف“ کے عنوان سے طبع ہوا۔اس میں مرزا نے لکھا ہے:
حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر خاکی کی رسائی مخزن“ لاہور کی فائل تک نہ ہو سکی اور اپنے مقالہ کو شائع کرتے وقت انہوں نے پھر اسی تساہل سے کام لیا۔۔۔ڈاکٹر خاکی کی اس ادھوری تحقیق کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر انوار احمد نے ”مخزن“،شمارہ۳جلد ۶بابت دسمبر۱۹۰۳ءمیں سے راشدالخیری کا یہ افسانہ بعنوان” نصیر اور خدیجہ“ ڈھونڈ نکالا جو” مخزن “کے مذکورہ شمارے میں ۲۷تا ۳۱تک کے صفحات گھیرے ہوئے ہے۔ڈاکٹر انوار احمد نے تا حال اس افسانے کا متن شائع نہیں کیا،اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے اوّلین افسانے کونذرِ قارئین کیا جائے۔(صفحہ۱۲۸)
ڈاکٹر مرزا حامدبیگ کابیان بالکل واضح ہے ۔اس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ تحقیق جس کی ابتدا مسعود رضاخاکی سے ہوئی تھی اس کا تکملہ ڈاکٹر مرزا حامدبیگ کی بدولت ہوا۔مرزا نے اس افسانے کا محض متن ہی رسالے سے اٹھا کر پیش نہیں کیا بلکہ افسانے کے بارے میں اہم ترین معلومات فراہم کی ہیںاور اس کی تکنیک اور مزاج پر اس طرح بات کی ہے کہ تعارف کا حق ادا ہوگیا ہے ۔لہٰذا اس تحقیق کے بارے میں اگر وہ خاص جذبات رکھتے ہیں تو ان کی
قدر کرنی چاہیے۔کیونکہ اس تحقیق کے جسم میں جان صحیح معنوں میں انہوں نے ہی ڈالی ہے البتہ افسانہ ڈھونڈنکالنے کا کریڈٹ ڈاکٹر انوار احمد کو جا تا ہے۔ رفیق سندیلوی(اسلام آباد)
٭٭کینیڈا میں مجھے جدید ادب کا شمارہ نمبر ۳ملا۔(جولائی تا دسمبر ۲۰۰۴ء)۔سب سے پہلے آپ کی کتابوں کی فہرست پر نگاہ پڑی۔ماشا ءاللہ،آپ تو کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔مجھے اندازہ نہ تھا۔میری نظر سے بیشترکتابیں نہیں گزریں۔ اگر ممکن ہو سکے تو فیض یاب کریں،ممنون ہوں گا۔
ماھیے پر میں آپ کے مضامین پڑھتا رہتا ہوں۔آپ نے اپنی مٹی کا حق ادا کر دیا ہے۔جدید ادب بھی اچھے مضامین سے آراستہ ہے۔اکثر تحریریں دعوتِ فکر دیتی ہیں۔تازہ شمارے میں ڈاکٹر قاضی عابد کا مقالہ”قرة العین حیدر سے منسوب ایک کتاب“کے مطالعے سے ایک افسوسناک حقیقت کا انکشاف ہوا۔اس سلسلے میں عینی صاحبہ کو خود واضح الفاظ میں لکھنا چاہئے کہ ڈاکٹر ثریا حسین کے ساتھ شرمناک نا انصافی ہوئی ہے۔اس شمارے میں اقبال حیدر کی ہائیکو نگاری پرالیاس عشقی نے جو مضمون لکھا ، اس میں ان کے درست ہائیکو کی تعریف کی گئی،مگر وہ ہائیکو (جب وہ دوسرے شعراءکی طرح)ہائیکو کی تیکنیک سے واقف نہیں تھے اور من مانے انداز میں ہائیکو لکھ رہے تھے۔۔اُن کو بھی ایک شاعرانہ خصوصیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔مزید برآن موصوف نے کچھ نثری ہائیکو کی مثالیں بھی دی ہیں۔
یہ ہائیکو کی کونسی قسم ہے؟اگر یہ ہائیکو کے تراجم ہیںتو انہیں نثری ترجمہ سمجھ کر قبول کیا جاتا۔عشقی صاحب نے انہیں ”غیر رسمی“ہائیکو قرار دیا اور اس طرح اردو شعراءکی لا علمی کی پردہ داری کی۔
ہائیکو نثری ہوں یا مساوی الاوزان ہوں۔من مانے چھوٹے بڑے مصرعے ہوں کہ مختلف عنوان کے ساتھ قافیہ ردیف کے پابند۔۔۔ہائیکو کی درست تعریف میں نہیں آتے۔صرف ۵۔۷۔۵سلے بلزمیں لکھے ہوئے ہائیکو ہی اس صنف کا قدرے حق ادا کرتے ہیں۔کسی بھی زبان کی کوئی صنف،ہمیں اُس کی مخصوص تیکنیک کے ساتھ اپنانی چاہیے۔ عشقی صاحب خود بھی ہائیکو کی مخصوص ہیئت سے بخوبی واقف نہیں ہیں ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مثالاََاپنے جتنے ہائیکو (۲۰عدد)لکھے ہیں ،سب غلط ہیں۔ آپ کم از کم ایک ادارتی نوٹ لکھ دیتے تاکہ قارئین غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوتے۔ ویسے جرمنی میں بیٹھ کر آپ اردو شعرو ادب کی جو خدمت انجام دے رہے ہیں ،لایقِ ستائش ہے۔اللہ کرے”عشقِ ادب“ اور زیادہ! حمایت علی شاعر(کراچی)
٭٭جناب حیدر قریشی کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ خان پور (پاکستان) میں رہتے تھے ۔اس وقت بھی میرا ان سے تعلق ادب ہی کے حوالے سے تھا البتہ یہ کسی قدر سرائیکی کے حوالے سے بنتا تھا، مجھے ادب سے ان کی بے پناہ محبت کا اندازہ اس وقت بھی تھا۔لیکن جب ایک طویل مدت کے بعد انٹر نیٹ کے ذریعے ان کے کام کا حوالہ ملا تو میں حیرت زدہ رہ گیا کہ انہوں نے اتنا زیادہ تخلیقی کام کر لیا ہے ۔خدا کی پناہ ۔وہ مجھے کوئی جن لگے لیکن اس سے نیٹ ملاقا ت سے بے حد خوشی بھی ہوئی ۔ کہ میں دوبارہ ان کے کام کو جاننے کے قابل ہوا ہوں ۔انہوں نے کمال مہربانی سے مجھے جدید ادب بھجوایا ۔اگر چہ یہ نیٹ پر مہیا تھا اور میں نیٹ سے بھی کافی مانوس ہوں لیکن بستر پر لیٹ پر کتاب پڑھنا اچھا لگتا ہے اس لیئے میں نے جدید ادب کو بستر پر لیٹ کر پڑھا ہے ۔
بلا شبہ یہ نوع بہ نوع تحریروں کا مرقع ہے اور اس میں حیدر نے دنیا بھر کے ا ہل قلم کو اکٹھا کر دیا ہے۔رسالے میں بھی بہت تنوع ہے اور تقریبا ہر موضوع پر لکھا گیا ہے ۔مگر پسند اپنی اپنی کے مطابق میں نیسب سے لسانیات کا حصہ تلاش کیا جو نہ پایا ۔ مجھے لسانیات سے دلچسپی ہونے کے سبب اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں نظریات سے دلچسپی ہے اور میرے نزدیک ابھی تک یہ مسئلہ طے نہ ہوا ہے لہٓذا میری خواہش ہے کہ اس بارے میں بھی جدید ادب کا حصہ مخصوص ہونا چاہئے۔اس کے بعد میری دلچسپی تحقیق کے حصے سے تھی جسے میں نے بڑی توجہ سے پڑھا ۔اس میں قاضی عابد کا مضمون قرہ العین حیدر سے منسوب ایک کتاب بڑی محنت سے لکھا گیا ہے ۔ قاضی عابد زکریا یونیو رسٹی ملتان کے ایک بہت با صلا حیت استاد ہیں ۔ اسا طیر کے حوالے سے اردو افسانے پر ان کا کام تاریخی نوعیت کا ہے ۔ فیض احمد فیض اور تنقید بھی اچھا مضمون ہے جب کہ خورشید اقبال کی شاعری کا جائزہ بھی خوبصورت تجزیہ ہے ۔ تزک جہانگیری سے صدیوں پرانی روایت کی تردید بھی مفید تحقیقی کام ہے ۔نظمیں اور گیت کا حصہ بھی اچھا ہے ۔وزیر آغا کی نظمیں خوب ہیں جبکہ فیروز شاہ کی نظم بھی پسند آئی ہے ۔ خصوصی مطالعہ میں اکبر حمیدی کا انٹر ویو نظریاتی حوالے سے ایک مدلل گفتگو ہے ۔ کتاب گھر میں جوگندر پال کے ناول پر حیدر قریشی کا جائزہ بہت تفصیلی اور بھر پور ہے اور بذات خود ناول پڑھنے کا مزہ دیتا ہے۔ جدید ادب ایک ایسا رسالہ ہے جو اپنے نام کے تقاضے پورے کرتا ہے اور اردو ادب میں تازہ رویوں کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے ۔ بلا شبہ یہ رسالہ میری لائبریری میں شان دار اضافہ ہے ۔ اسلم رسولپوری (رسول پور)
٭٭”اُردو دنیا“ کے ماہ نومبرکے شمارے میں ’جدیدادب‘ پر تبصرہ چھا تھا۔ اختتام پرلکھا تھا کہ یہ جریدہ صرف ڈاک خرچ بھیج کر تقسیم کار عمر کیرانوی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔اِس شہر کا چلن کچھ ایسا ہے کہ مفت رسالہ مل جائے یا کسی شو کا invitation cardمل جائے تو بہت خوب۔ میں نے عمر کیرانوی سے رابطہ قائم کیا اور ’جدیدادب‘ کا شمارہ ۳اُن سے حاصل کیا۔’جدید ادب‘ پہلی مرتبہ مطالعہ کے لئے ملا۔ بہت اچھا لگااور تعجب بھی ہواکہ اب تک کہاں تھا۔ کب سے چھپ رہا ہے۔ اِس کا جرمن سے کیا تعلق ہے۔ یہ حیدر قریشی کون ہیں۔ اب اُن کا جریدہ جدید ادب دیکھا تو اپنی لاعلمی پر بہت
افسوس ہوا۔ورق گردانی میں جو کچھ نظر سے گذرا محسوس ہوا کہ بہت ہی عمدہ رسالہ ہے۔ کتنا معیاری مواد ہے اس میں۔ لگ بھگ تین سو صفحات کا یہ ادبی جریدہ۔ اردو میں جو جرمنی سے نکلتا ہے۔ ہندستان میں چھپتا ہے۔ بہت سے ملکوں میں تقسیم ہوتا ہے وہ بھی مفت۔ یہ کسی معجزہ سے کم نہیں۔مضامین،افسانے،غزل، نظم اور گیت خاص طور پر ماہیے بہت اچھا انتخاب ہے۔ ہمت رائے شرما کی علالت کا پڑھ کر دُکھ ہوا۔ اُن کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہوں۔اس عمدہ رسالہ کے ئے حیدرقریشی کی داد دیناپڑتی ہے اور انہیں دلی مبارک باد بھی۔ اور عمرکیرانوی کاشکریہ جن سے مجھے یہ جریدہ ملا۔ پران کپیلا(دہلی)
٭٭(بنا م نذر خلیق)شمارہ نمبر ۳بہت قابلِ مطالعہ مواد لایا ہے جی چاہ رہا ہے ہر مضمون نظم و نثر پر اظہار رائے کروں مگر آپ کے صفحات کی کمی آڑے آ رہی ہے پہلے ہی بھائی حیدر قریشی ”داستانِ صفحات“ سنا چکے ہیں۔۔۔۔ انہوں نے ادارئیے میں سینئیر اہل قلم پر کیچڑ اچھالنے کی روش پر جس افسوس کا اظہار کیا ہے میں اس میں اپنی آواز شامل کرتا ہوں ۔ ہم تو خطائے بزرگاں گرفتن خطا است“ کی تربیت لے کر یہاں تک پہنچے ہیں۔۔ ہمیں تو سینئرزکا احترام اپنے لہو میں خوشبو کی طرح گھلتا محسوس ہوتا ہے۔ پتہ نہیں یہ کیسی ناروا رسم چل پڑی ہے کہ چھوٹے بڑوں پر تنقید کر کے اپنا قد بڑا کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ عہد ابتلا ہے جس کی ابتدا بزرگوں کی تحقیر سے ہو رہی ہے مجھے درد بھرا تحیر اپنے حصار میں لئے ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ جن محترم لوگوںنے اپنی زندگیاں ادب کے لئے وقف کر دی ان کی شاندار اور جاندار خدمات کا صلہ یہ ہے کہ ہم انہیں گروہ بندیوں کی آلودگیوں میں الجھا دیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی صاحب ان ادبی معرکہ آرائیوں کے منظروں اور پس منظروںتک سے خوب واقف ہیں۔ وہ’ سیز فائر ‘ ضرور کرائیں یہ کارِ خیر ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر کرنے والا کام یہ ہے کہ ادبی بونوں اور بیساکھیوں کے سہارے چلنے والوں کو شعور ہستی عطا کیا جائے انہیں اس ادراک کی ثروت سے آشنا کرایا جائے کہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے اور بزرگوں کا احترام کرنے والے ہی کامیاب و کامران ہو ا کرتے ہیں۔ ورنہ آج جو کچھ وہ بورہے ہیںکل انہیں بھی کاٹنا پڑے گا۔ محمد فیروز شاہ(میانوالی)
٭٭’جدید ادب“ شمارہ ۳جولائی تا دسمبر ۲۰۰۴ء،مکرم محترم جناب نذیر فتح پوری صاحب یڈیٹر اسباق پونہ توسط سے ہمدست ہوا۔جدید ادب کا پہلا ودوسرا شمارہ مطالعہ میں نہیں آئے مگر شمارہ ۳میں تمام حضرات کے خطوط پڑھ کر پتہ چلا کہ جدید ادب آغاز سے بہت شاندار اور ادبی اردو دنیا کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔شمارہ ۳سے یہ ظاہر ہوگیا کہ تمام مضامین، تمام افسانے اور دیگر مشمولات و شاعری کے تمام اصناف سخن کا ایک معیاری رسالہ کا منفرد مقام حاصل کرلیا ۔
گفتگو میں سیرزخلاف مہم، جعلی ادیبوں اور شاعروں پر اعیانی دار و حق گوئی کے ساتھ تحریرپیش کی جو قابل ستائش میری طرف سے مبارک باد قبول فرمائیے۔ تبصرے بھی اعلی درجہ کے ہیں جو آپ کے قلم کی سچائی کا پیکر ہے۔ اسحاق ملک (حیدر آباد)
٭٭(بنام عمر کیرانوی)تین روز قبل جدید ادب کا تازہ شمارہ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کی علی گڑھ برانچ پر نظر آیا تو میں نے اُسے خریدنا چاہا لیکن اُس پر لکھا تھا رسالہ ڈاک ٹکٹ بھیج کر آپ کے پتے سے حاصل کیا جاسکتا ہے برائے فروخت نہیں ہے مگر وہاں کے مینجر نے ۳۰روپے طلب کئے تو میں نے پچاس کا نوٹ اُن کو یہ کہہ کر دیا کہ آپ معلوم کرلیں جو قیمت ہوبلا تکلف لے لیں تو انہوں نے کہا کہ میں دہلی سے معلوم کرکے دوں گا مگر دوسرے دن انہوں نے کسی اور صاحب کو وہ شمارہ ۶۰روپے میں فروخت کردیا او رمجھے دلاسہ دیا کہ وہ مجھے اور منگادیں گے اُن کی نیت کا فتور نظر آگیا ۔میں تو اس لئے قیمت دینا چاہتا تھا کہ جلد سے جلد میرے مطالعہ میں آئے مگر اُن کے لالچ کودیکھتے ہوئے چند روز صبر کرنابہت سمجھتے ہوئے آپ کی خدمت میں ۱۰روپے کے ڈاک ٹکٹ ارسال کررہاوں ہوں اس استدعا کے ساتھ کہ آپ بواپسی ڈاک جدید ادب کا تازہ شمارہ مجھے بھیج دیں گے۔ عرصہ ہوا میں نے اپنی غزلیں حیدرقریشی صاحب کی خدمت میں براہِ راست بھیجی تھیں مگر پھر معلوم نہ ہوسکا وہ غزلیں اُن کو ملیں بھی یانہیں؟ شائع ہوئیں یانہیں؟ بہرحال آج پھر حیدرقریشی صاحب کی خدمت میں مفصل خط اور غزلیں بھیج رہاہوں ۔مجھے امید ہے کہ آپ جلد جدید ادب روانہ فرمائیں گے۔ رئیس الدین رئیس(علی گڑھ)
٭٭اردو شاعری میں اکثریت ایسے شعراءکی ہے جو موزونیٔ طبع کے تحت شاعری کرتے ہیں اور علم و فن کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔بلکہ کئی مدیران بھی فنی نکات سے واقف و آگاہ نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے شاعری میں تقابلِ ردیفین،شُتر گربہ،ایطا،تنافر لفظی و حرفی اور اوزان سے خارج اشعارجیسے عیب نمایاں ہوتے ہیں ۔۔۔ جدید ادب کے شمارہ نمبر۲میں جناب صفدر ہمدانی کی چھ نعتیہ رباعیات شائع ہوئی ہیں،لیکن میں نہایت احترام کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ رباعی کے لئے کل چوبیس(۲۴)اوزان مقرر ہیں۔ان سے ہٹ کر کوئی رباعی نہیں ہو سکتی۔لہٰذا صفدر ہمدانی صاحب کی چھ نعتیہ رباعیات بھی ان اوزان میں نہیں ہیں۔اس لیے وہ صرف نعتیہ قطعات ہیں۔میرا خیال تھا کہ جدید ادب کے تیسرے شمارے میں کوئی صاحبِ علم اس کی نشاندہی کردے گا تاکہ دوسرے شعراءغلط ڈگر پر نہ چل پڑیں۔ایک اور غلط بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں،وہ یہ کہ تقطیع میں ”ع“کو ہرگز نہیں گرایا جا سکتاہے۔در اصل نجم الغنی صاحبِ بحرالفصاحت نے اپنی کتاب میں ”ع“کے گرانے کو جائز قرار دے کرانتہائی غیر مستحسن بات کا ارتکاب کیا ہے،جسے اہلِ علم کی اکثریت درست نہیں مانتی۔جدید ادب کے دوسرے شمارے میں شامل صفدر ہمدانی کی ایک غزل میں”ع“ کو گرایا گیا ہے جو درست نہیں۔
احسان سہگل۔ہالینڈ
نوٹ از ادارہ:آپ نے شاعری کے فنی رموزکی کی طرف بجا طور پر توجہ دلائی ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ بہت سی ”خامیوں“کا کوئی نہ کوئی جواز بنتا گیا ہے۔اوزان سے خارج اشعار والی بات تو ادبی رسائل میں نہیں ہوتی۔ہاں بعض بحریں ایسی ٹیڑھی ہوتی ہیں کہ ان پر بحث ضرور چل سکتی ہے۔ایسے اشعار کو عام بے وزن شاعروں کے کلام کی طرح اوزان سے خارج کہنا مناسب نہیں ہے۔چونکہ بات رباعی کے اوزان کی چلی ہے تو غالب جیسے عظیم شاعر بھی اس کے اوزان میں کچھ ہل گئے تھے لیکن ان کو روایتی بے وزن شاعروں کے ساتھ شمار کرنا بد مزاقی ہو گی ۔فنی رموز کے سلسلے میں ایطاءکی کئی مثالیں اساتذہ کے ہاں ملتی ہیں۔”ع“گرنے کی مثالیں بھی ولی و مصحفی اورمیر و نظیرتک ،سب کے ہاں مل جاتی ہیں ۔ تشدید والے الفاظ بغیر تشدید کے،نہ کی جگہ ناں جیسے کئی اشعار اساتذہ کے ہاں موجودہیں۔
چھوٹے چھوٹے معائب سے بچا جا سکے تو اچھی بات ہے تاہم انہیں کسی حد تک برداشت کیا جا سکتا ہے۔جہاں تک صفدر ہمدانی کی رباعیات یا قطعات کا تعلق ہے آپ کا اعتراض اصولی ہے ۔ توقع ہے کہ صفدر ہمدانی صاحب اس کا جواب دیں گے ۔٭٭