٭٭جدید ادب کا پہلا شمارہ مجھے مل گیا تھا۔اس بار آپ نے اسے بالکل نئے انداز میں مرتب کیا ہے اور بہت عمدہ تخلیقات شامل کی ہیں۔مبارکباد! ڈاکٹر وزیر آغا۔لاہور
٭٭آج ۹ستمبر کو رات ۹بجے ارشد خالد صاحب نے آپ کا’جدید ادب‘ مجھے دیا ۔ اس کے چھپنے کی خبرتو کئی ہفتے پہلے مل گئی تھی سو کئی ہفتے بعد پرچہ بھی مل گیا۔ بہت خوب صورت اور خوب سیرت پرچہ ہے ’جدید ادب ‘ کا یہ تیسرا دور ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ چوتھا دور نہیں آئے گا ۔ تیسرا دور اب جاری و ساری رہے گا۔ اس پرچے کا یہ اختصاص ہے کہ یہ بیک وقت پرنٹ میڈیا پر بھی ہے اور انٹر نیٹ پر بھی۔ ’ہر اک طرف سے ‘ پر آپ کا تبصرہ بہت قابل قدر ہے اور شکر یئے کا مستحق بھی مگر شاید ہم لوگ اب شکریئے کی رسومات سے آگے نکل آئے ہیں۔ پرچہ امید ہے پوری اردو دنیا میں پڑھا جائے گا ۔اکبر حمیدی۔اسلام آباد
٭٭(بنام عمر کیرانوی)’’جدیدادب‘‘کامرسلہ تازہ شمارہ بحفاظت پہنچا، خوب ہے، صوری اعتبارسے بھی او رمضامینِ نظم و نثر کی شمولیت کے لحاظ سے بھی۔ حیدرقریشی صاحب علمی و ادبی حیثیت سے عالمی شہرت و مقبولیت کے مالک ہیں، انہیں رشحاتِ قلم کی فراہمی کے لئے کوئی بھی زحمت اٹھانی نہیں پڑتی، چاروں اُورسے ان کے نام پہنچی ہوئیں فکری کاوشوں کاانبارسا لگ جاتاہے، میں بھی توازن کے تازہ شمارہ کے ساتھ اپنا کلام بھیجنے ہی والاہوں۔ اطلاعاً عرض ہے۔خداکرے آپ ہر طرح اچھے ہوں،آمین۔
عتیق احمد عتیقؔ(ایڈیٹر’’توازن‘‘مالے گاؤں)
٭٭’جدید ادب‘کا تازہ شمارہ موصو ل ہوا۔اس کرم گستری کے لئے ممنون ہوں۔ماریشس میں آپ سے مل کر جی خوش ہوا۔دیارِ غیر میں بیٹھ کر اردو زبان و ادب کی خدمت کوہ کنی کے مترادف ہے اور یہ صبر آزما کام آپ نہایت جوش و استقلال اور سلیقہ مندی سے کیے جا رہے ہیں۔تازہ شمارے کے اکثر مشمولات معیاری اور آپ کے حسن انتخاب کے غماز ہیں۔محترم جوگندر پال کے دونوں افسانے حسب توقع اچھے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ آپ کا یہ چراغ ناموافق حالات کے باوجود یوں ہی تا دیر فروزاں رہے گااور اردو زبان و ادب کی خدمت کرتا رہے گا۔
پروفیسرالطاف احمد اعظمی
(ہیڈ)سینٹر فار ہسٹری آف میڈیسن اینڈ سائنس ، ہمدرد یونیورسٹی ہمدرد نگر، نئی دہلی ۔)
٭٭بھائی خورشیداقبال کے توسط سے آپ کا رسالہ نظرنواز ہوا۔شکریہ۔اتنی ڈھیر ساری چیزیں مناسب ترتیب و تزئین کے ساتھ پڑھنے کو ملیں لطف آگیا۔ بہت عمدہ اور معیاری رسالہ ہے مبارک ہو۔تفصیلی خط اطمینان سے لکھوں گا انشاء اﷲ۔ادھر ’آبشار‘ میں آپ کی تحریر ماریشس میں اردو کانفرنس پڑھ کر طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ شستہ اور رواں دواں نثر اچھی لگی۔ ایک شعر یاد آگیا آپ بھی سنئے۔
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پا س ہمیں طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
مشتاق انجم (ہوڑہ۔مغربی بنگال)
٭٭جدید ادب کے دورِ نَو کا پہلا شمارہ ملا۔بہت بہت شکریہ۔اﷲ مبارک کرے۔رسالہ آپ نے بہت سلیقے اور محنت سے مرتب فرمایا ہے۔خدا کرے آپ اسے اسی ڈھنگ سے جاری رکھ سکیں۔
جمہوریت اور آزاد خیالی کی وکالت کرنے والے رسائل بھی ذاتی امور میں بعض اَن کہے یا غیر ارادی تعصبات کے شکار ہو جاتے ہیں۔(بعض کانفرنسیں تو ہوتی ہی اس لئے ہیں کہ فلاں گروپ کے لوگوں کا بائیکاٹ کرنا ہے۔اسی طرح اکثر رسائل بھی ایک خاص پروگرام کے تحت نکالے جاتے ہیں اور مقصد ان کا بھی کسی مخصوص گروہ کے ادیبوں کوزک پہنچانا ہوتا ہے)آپ چونکہ صرف خدمت ادب کے طور پر اس میدان میں آئے ہیں اس لئے کسی بائیکاٹ یا ادبی مقاطع سے پرہیز فرمائیے ۔کسی اختلافی تحریر کو اس وقت تک شائع نہ فرمائیے جب تک مخالف نقطۂ نظر کی معقول وضاحت نہ حاصل ہو جائے۔اس طرح آپ گروہ بندی کے الزام سے بچے رہیں گے۔
قیصر تمکین۔برمنگھم۔انگلینڈ
٭٭آپ کا رسالہ جدید ادب شاہد ماہلی نے عنایت کیا۔خوبصورت گٹ اپ اور عمدہ طباعت سے سجا بنا رسالہ زاد راہ کے طور پر کام آیا۔آپ کی’’گفتگو‘‘سے اس کی درازیٔ عمر کا اندازہ تو ہوا ہی،نیز ادبی مباحث،تھیوریٹکل بحثوں کے تعلق سے آپ کا نقطۂ نظر بھی سامنے آیا۔اردو میں اکثر شعراء خالص شاعر قسم کی چیز ہوتے ہیں۔آپ کی تحریر وں سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نرے شاعر یا فنکار نہیں ہیں بلکہ علم و دانش سے بھی گہرا رشتہ ہے۔یہ تو آپ کے چھوٹے سے اداریہ سے ہی ظاہر ہے۔ڈاکٹر علی احمد فاطمی مدیر ’’نیا سفر‘ا لہٰ آباد
٭٭جدید ادب کے دور ثالث کا پہلا شمارہ مل گیا ہے ۔ اس کی طباعت کا معیار بھی عمدہ ہے اور مشمولات بھی معیاری ہیں۔ آپ نے اسے بیک وقت کتابی صورت میں شائع کر کے اور انٹر نیٹ پر جاری کر کے اچھا اقدام کیا ہے ۔ اس سے جدید ادب کے قارئین کا حلقہ وسیع ہو گا ۔ یہ اور بات ہے کہ ادبی پرچے یا کتاب کو پڑھنے کا لطف چھپی ہوئی صورت میں ہی ملتا ہے۔ انٹر نیٹ سے بہت جلد اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔(شاید یہ میرے ساتھ ہی ہوتاہو دوسروں کے ساتھ نہیں) جدید ادب کے سارے مندرجات اہم ہیں۔ناصر عباس نیر جھنگ
٭٭(بنام نذر خلیق)آپ کی طرف سے جدید ادب جرمنی موصول ہوا۔ اس سلسلے میں میں کچھ کہنا چاہوں گا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ فکر انگیز مضامین و مقالات ، نایاب و نادر شعری تخلیقات ، نظمیں ،گیت اور غزلیں ، نئے افسانے ، خصوصی گوشے، ماہیے، کتاب میلہ اور تفصیلی مطالعے کی شمولیت نے ۱۷۶صفحات کے جدید اد ب کو کچھ اتنا وقیع بنایا ہے کہ حاصل مطالعہ کے طور پر کچھ لکھنا چاہوں تو بھی کئی صفحات درکار ہوں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں اختصار ہی بہتر ہے ۔ جدید ادب کا یہ شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۳ء تک ہے اور اس کا اداریہ جو گفتگو کے عنوان سے لکھا گیا ہے حیدر قریشی کی ادب دوستی اور زبان و ادب کے حوالے سے کچھ نظری وفکری مباحث کا احاطہ کرتا ہے۔ ادب دوستی کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ ’’ادب میری زندگی کی سب سے با معنی سرگرمی ہے ‘‘ ظاہر ہے کہ جب وابستگی ایسی ہو تو نظریہ داری سے کہیں زیادہ نظر داری درکارہوتی ہے ۔ سوحیدر قریشی کثیر المطالعہ اور کثیرالجہات ادبی شخصیت ہیں ۔
جدید ادب کا اداریہ ہی پڑھ کر قاری کو اندازہ ہو جاتاہے کہ اس کا مدیر ساختیات ، نو ساختیات ، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت جیسے مغربی شوشوں کی تہہ داریوں سے کتنا باخبر ہے ۔ یہ باخبری سطحی نہیں بلکہ ان کی شعوری پختگی اور معاملہ فہمی کا حصہ ہے ۔ انہوں نے کتنی معقول بات کی ہے کہ ’’تھیوری کی دنیا میں رہنے کے ساتھ ساتھ اس کے عملی مظاہر کے تناظر میں بھی اس کا جائزہ لیا جائے ۔‘ ‘ کچھ فرصت نصیب ہوئی تو ایک جائزہ جدید ادب کی نذر کروں گا ۔ اس جریدے کو بہر طور جاری رہنا چاہیے۔
پروفیسر آفاق صدیقی
صدر نشین اردو سندھی ادبی فاؤنڈیشن کراچی
٭٭بشرطِ زندگی کی بات ہم اپنی تمام زندگی سے سنتے چلے آ رہے ہیں لیکن اسکا صحیح عملی مظاہرہ گزشتہ دنوں اس وقت ہوا جب میں اپنے دفتر میں اخبار اردو کا ایک سرسری سا مطالعہ کر رہا تھا کہ ماریشس میں ہونے والی اردو کانفرنس کے بارے میں مضامین پڑھتے ہوئے ایک نام حیدر قریشی کا بھی نظر آیا ادھر نام نذرِ بصارت ہوا اور ادھر ۷۷،۷۸کے حیدر قریشی کا چہرہ نظروں میں گھوم گیا جب آپ نے جدید ادب کا بالکل پہلا شمارہ نکالا تھا جس میں میرے علاوہ میرے دوست فہیم جوزی، شائستہ حبیب اور نسرین انجم بھٹی کی تخلیقات کے علاوہ میری غزلوں کے مجموعے ’کفن پہ تحریریں‘ یہ خود آپکا(حیدر قریشی) کا تبصرہ بھی شامل تھا․عجب بات یہ ہے یہ پہلا شمارہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے ․میں نے اسی اخبار اردو میں جدید ادب کا اشتہار بھی دیکھا اور اس میں درج ای میل پر ایک خط یہ سوچ کر روانہ کیا کہ شاید حیدر قریشی کو یہ تہی دست اور گمنام سا شخص یاد بھی ہو گا یا نہیں لیکن اگلے ہی روز ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ آپکابہت ہی پیارا خط موصول ہوا گویا میں نے اپنے تئیں حیدر کے ساتھ ساتھ جدید ادب کو بھی ایک بار پھر دریافت کر لیا․آپ نے جس محبت کا ثبوت دیا میں اس کے لیئے ذاتی طور ممنون ہوں․جدید ادب کو نیٹ پر دیکھا اور پھر از راہ کرم آپ نے اسکی تازہ دو کاپیاں بھی مجھے لندن ارسال کر دیں جنہیں دیکھ کر اور پڑھ کر جی خوش ہوا․حیدر قریشی ادب کا واسکوڈے گاما ہے مگر اس مرتبہ میں بھی کولمبس ثابت ہوا․میں اور میری اہلیہ ایک عرصے سے ادب میں گروہ بندیوں اور مافیا ذہنیت کے باعث ادبی جریدوں میں لکھنے کا سلسلہ منقطع کر چکے ہوئے تھے لیکن اب ایک مرتبہ پھر آپ کی تحریک پہ اس سلسلے کو جاری کر رہے ہیں میں جانتا ہوں کہ آپ دُھن کے کیسے پکے آدمی ہیں جس لگن اور محنت کے ساتھ جدید ادب کی ابتدا کی تھی وقتی تعطل کے باوجود وہ اسے جاری رکھنا قابل صد مبارکباد ہے․میں نے انٹر نیٹ پہ بے شمار اردو کے جریدے دیکھے ہیں تا ہم اگر میں غلط نہیں تو شاید جدید ادب واحد ادبی جریدہ ہے جو نیٹ اور کتابی صورت میں ہو بہوایک جیسا ہے․میں اس مختصر سے اظہار قلبی کو طوالت نہیں دینا چاہتا ہاں اتنا ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ سائینس کی اس ترقی نے دو عشروں سے زائد عرصے سے بچھڑا ہوا بے غرض دوست تو ملوا ہی دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ بچھڑا ہوا ’جدید ادب‘ بھی مل گیا جو آج بھی جدید ہی ہے اور اس میں ادب ہی شامل ہے․میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے عزمِ صمیم کو استقامتِ کامل کی صورت میں برقرار رکھے(آمین) صفدر ھمٰدانی۔لندن
٭٭جدید ادب میں آپ نے شعری تخلیقات تو تھوک کے بھاؤ سے دی ہیں اور ماشاء اﷲ سب اچھی ہیں۔ڈاکٹر فراز حامدی کے گیت بہت اچھے ہیں سوائے پہلے گیت کے۔یہ تو سرکاری گیت ہے۔سنجئے گوڑ بولے اور کرشن مہیشوری کا مشترکہ مضمون اردو کا مستقبل خوب ہے۔پروفیسر شفیق احمد کا مضمون ادبی تحقیق کے مسائل بھی اچھا مضمون ہے۔آپ کا ’’ابتدائی ادبی زمانہ‘‘ دلچسپ ہے۔ رؤف خیر(حیدرآباد۔دکن)
٭٭کھٹی میٹھی یادیں پڑھیں۔اﷲ نے آپ کے قلم میں بڑی روانی رکھی ہے۔ایسا بے ساختہ پن کم ہی پڑھنے میں آیاہے۔جدید ادب کا افسانوی حصہ جاندار ہے۔مضامین کا حصہ اور توجہ چاہتا ہے۔
سلطان جمیل نسیم۔(ٹورونٹو،کینیڈا)
٭٭رسالہ بہت معیاری ہے۔پرانے دنوں کی یاد تازہ ہو گئی۔آپ کی محنت اور قابلیت کا معترف ہوں۔
ڈاکٹر سعادت سعید(ترکی)
٭٭’’جدید ادب‘‘ دورِ سوم کے شمارہ اول کی اشاعت پر جناب حیدرقریشی اور مجلس ادارت کے تمام معزز ارکان کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتاہوں۔ ’گفتگو‘ میں قریشی صاحب نے بے حد اہم مسئلہ کو موضوع بنایاہے۔ باضمیر فنکاروں کو اس پر اظہار خیال کرنا چاہیے۔ کرشن مہیشوری ،سنجے گوڈ بولے،ناصر عباس نیرکے مضامین بھی عمدہ ہیں لیکن ڈاکٹر شفیق احمد کا ادبی تحقیق کے مسائل حاصل مطالعہ ہے۔ جوگندرپال کا مضمون بھی گہری افسانوی فضا کے ساتھ دکھی انسانیت کانوحہ سناتاہے۔ ان کا افسانہ ’سکونت‘ بھی اس کا تسلسل ہے۔ منشا یاد کاافسانہ ’نظر آ لباسِ مجاز میں‘ بے حد خوبصورت اور متاثر کن افسانہ ہے۔ رشیدامجد اور رحیم انجان کے افسانے بھی پسندآئے۔ منظومات میں صلاح الدین پرویز، شاہد ماہلی، حیدر قریشی،مظہرامام، خورشید اقبال متاثر کرتے ہیں۔ ماہیئے کچھ کچّے پکّے آموں کی طرح ہیں۔ کتاب میلہ میں کتابوں کا مختصر تعارف کہیں کہیں نامکمل محسوس ہوا۔چراغ آفریدم کا تفصیلی مطالعہ خوبصورت ہے۔ حیدر قریشی نے تبصروں میں اصابت رائے کا اظہا رکیاہے۔
حامد اکمل(حیدرآباد۔دکن)
٭٭’’جدید ادب‘‘ کا تازہ شمارہ انٹر نیٹ پر پڑھا۔حیرت انگیز خوشی ہوئی کہ اسقدر معیاری پرچہ اس سے پہلے کیوں نظر نواز نہ ہوا۔پرچے میں مواد کا انتخاباور معیار ’’جدید ادب‘‘کی مجلس ادارت کی مساعی جمیلہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔میری دعا ہے کہ آپکا یہ سلسلہ مزید ترقیوں سے ہمکنار ہو۔مرتضیٰ اشعر(ملتان)
٭٭جدید ادب کا یہ شمارہ ایک دلکش ادبی جریدہ ہے۔اس میں شامل تمام تخلیقات دلچسپ اور معیاری ہیں،جس کے لئے آپ مبارکباد کے مستحق ہیں۔امید ہے آپ کی یہ کوشش اب عرصہ دراز تک جاری رہے گی۔
گلشن کھنہ(لندن)
٭٭جدید ادب کا تازہ شمارہ دیکھا خوبصورت اور خو ب سیرت ہے۔سبھی مشمولات قابلِ توجہ ہیں۔آزاد شاماتوف صاحب کا خط آیا تھا۔ماریشس کی رپورٹ میں شاید ان کا نام غلط ہو گیا ہے۔تصحیح کر لیجئے گا۔’’منصف‘‘ حیدرآباد میں آپ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ ابنِ کنول(دہلی یونیورسٹی)
جوابی نوٹ:جناب آزاد شاماتوف کا نام واقعی مجھ سے غلط طور پر صمد درج ہو گیا تھا۔اس کے لئے ان سے معذرت خواہ ہوں ۔میرا خیال ہے کہ اس رپورتاژ میں مزید کچھ اضافے کروں اور اسے دوبارہ اردوستان ڈاٹ کام پر اپ لوڈ کرادوں۔اس سلسلہ میں کاشف الہدیٰ صاحب سے بات طے ہو چکی ہے۔جیسے ہی موقعہ بنا کم از کم ویب سائٹ پر تو تصحیح ہو جائے گی اور یہ رپورتاژ میری کسی کتاب میں جب بھی شامل ہوا ،آزاد شاماتوف صاحب کے اصل نام کے ساتھ ہی شائع ہو گا۔(حیدر قریشی)
صلاح الدین پرویز(دہلی)
1Aug 20021 3:10:2 2-000 [email protected]
My dearest Haider Qureishi.
You are really a great man. You have done a very respectable job as an Editor of Jadeed Adab. It is really a joy and beauty forever. What can I say more, as I love you, respect you and above all you are my brother. Good Luck and congratulation from me and Isteara group.
Love & Regards. Yours
Salahuddin Pervez
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسرشریف حسین قاسمی(دہلی)
03.09.20060 3:00:1 3[email protected]
Dear Mr. Haider Qureshi
I have seen your journal Jadid Adab. It is a good venture and I hope you would be able to continue it in the same grand and proper pattern. I congratulate you for your litenary efforts. Prop. Sharif Husain Qasemi
Department of Persian Delhi University
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر عباس نیر(جھنگ)
06.09.20061 3:48:2 0[email protected]
dear haider qureshi ! a o a,
thank u very much for sending me new issue of jadeed adab.present issue is good one.thanks also for publishing my article and on chiragh aafreedam.i hope u will contiue it.u have raised important issues in editorial which r debatable. regards. nasir abbas nayyar
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر فہیم اعظمی(کراچی)
15.09.20031 3:14:2 2[email protected]
Dear Mr.Haider Qureshi
This is the first E-MAIL i have received from you. I do not know about the previos one referred to by you. I have received JADID ADAB NO 1and have read most of it . Well done Masha Allah.Due to my constant engagement in producing SAREER , writing other Articles and getting my book published, I will not be able to offer any thing exept good wishes , later per haps.Hope you are in good health . Best Wishes FAHIM AZMI
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر کرسٹینا(ہائیڈل برگ)
30.09.20090 3:00:0 5[email protected]
Dear Qureshi Ji,
Thank you for the latest issue of “Jadeed Adab” – and apologies for the belated acknowledgment! I had been out of station for the last two weeks and am now busy winding up some urgent matters before teaching starts day after tomorrow. So far I have had only a cursory look at the journal, but the contents look variegated and interesting.
You might remember that a couple of years ago you had expressed the wish to publish Urdu translations of German poetry in your journal. Somehow this, however, never materialised. So far I have always shied away from doing translations into Urdu, but now I think I may attempt short literal translations which might then be revised by an Urdu speaker. This is something I could do from time to time in between other work . Are you still interested in publishing anything of this kind? Hoping that you are fine, and with best regards, Christina
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر تبسم کاشمیری (جاپان)
[email protected] 04.10.20012 3:14:38
Dear Haider, On October 1, I came back from Pakistan after enjoying my vacations. While I was checking my mail I found a copy of JADEED ADAB, it was my pleasure to see the magazine and your message, a lot of time has passed I have listened something from you after two decades. I hope you will keep on publishing this magazine. During the last years I have been reading your contributions in KITAB NUMA, DELHI, it looks you are still active in literary field. Although in these days I am very busy in my research project but I will find out some poems in my records and will mail you with in this month. God bless you in your creativity. I hope we will the contact in the future. Tabassum
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منشا یاد(اسلام آباد)
11.10.20080 3:32:1 7[email protected]
Sending you a new short story(swanhi kahani)for jadeed adab. I will also send you an article soon. An anthology containing my 5 0selected short stories(36 6pages) and titled “Shehare Fasana” has been published by Dost Publishers Islamabad. I have received Jadeed Adab also. Thank you. Mansha Yad.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرور ادبی اکادمی جرمنی کے زیر اہتمام جدید ادب کی یہ کتاب (جنوری تا جون ۲۰۰۴ء)
پریس سے شائع کرائی گئی ۔