تیرہ ستمبر 1848 کو ایک حادثے میں فنئیس گیج نامی شخص کی کھوپڑی میں ایک لوہے کی سلاخ گھس گئی۔ فنئیس کی زندگی تو نہیں گئی لیکن حادثے سے پہلے اور حادثے کے بعد کے فنئیس کی شخصیت میں بہت فرق تھا۔ اس چوٹ کے بعد ایک محنتی اور خوشگوار شخص، ایک درشت مزاج اور کام چور شخص میں تبدیل ہو گیا تھا۔ دماغ کی تبدیلی نے شخصیت کو تبدیل کر دیا تھا۔
اس حادثے نے نفسیات، نیورولوجی پر تحقیق کرنے والوں کو خاصا مواد دیا اور فلسفیوں کو بھی۔ یہ ہمیں اس چیز کے واضح شواہد دیتا تھا کہ ہماری شخصیت کی براہِ راست فزیکل بنیاد ہے۔ اور یہ ایک سوال پیدا کرتا ہے۔ ہمارا ذہن کہاں پر رہتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے کسی سائنسدان کے لئے اس میں کوئی حیرت کی بات نہنیں کہ فنئیس کی چوٹ میں ان کی شخصیت میں اتنی بڑی تبدیلی کر دی۔ سائنس کے موجودہ فلسفے میں غالب نکتہ نظر reductive physicalism کا ہے۔ اس نکتہ نظر کے مطابق، ہمارے بشمول، ہر شے صرف فزیکل اشیا سے بنی ہے۔ اس منطق کے مطابق آپ میں اور مجھ میں پائی جانے والی ہر شے کی وضاحت ہمارے جسم سے کی جا سکتی ہے۔ دماغ، ہارمون، نیوروٹرانسمٹرز کے ذریعے۔ تو اگر فنئیس کی شخصیت کو دماغ کے طور پر بتایا جا سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ دماغ میں بڑی تبدیلی کا مطلب شخصیت میں بڑی تبدیلی ہی تو ہو گا۔
اور یہ بہت اہم انسائیٹ ہے۔ اسی وجہ سے ماہرینِ نفسیات کی دی گئی ادویات مریضوں کو ڈیپریشن یا بے چینی جیسی تکالیف سے آزاد کرتی ہیں، دماغ کی کیمسٹری تبدیل ہونے سے مریض کا موڈ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔
فزیکل ازم سائنس کی ڈیفالٹ پوزیشن ہے کیونکہ بظاہر یہ ایک مفید مفروضہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیکارٹ کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی چیز کی موجودگی پر شک کر سکتے ہیں، بشمول اپنے جسم کے۔ لیکن اپنے ذہن کے ہونے کی موجودگی پر نہیں۔ یہ فیکٹ کہ ایک پر شک کیا جا سکتا ہے لیکن دوسرے پر نہیں، انہیں بتاتا ہے کہ وہ یقینی طور پر دو الگ چیزوں سے بنے ہیں۔ اس نکتہ نظر کو substance dualism کہتے ہیں۔ اس کے مطابق دنیا فزیکل اشیا سے بنی ہے اور ذہنی اشیا سے بنی ہے۔ اس مکتبہ فکر کے مطابق ذہن نان فزیکل اور الگ ہے جس کی تخفیف نہیں کی جا سکتی۔ اور اس کی دماغ جیسے مادے کی اصطلاحات سے وضاحت نہیں کی جا سکتی۔
ڈیکارٹ کے نکتہ نظر میں کچھ چیزیں (جیسے خدا) مکمل طور پر ذہن ہیں اور کچھ چیزیں (جیسے پتھر) مکمل طور پر مادہ ہیں۔ لیکن انسان کے ایک ہی وجود میں ذہن اور جسم، دونوں موجود ہیں۔ اور ان کا ایک دوسرے سے انٹرایکشن ہے۔ اس کو interactionism کہا جاتا ہے۔ اس تھیوری کے مطابق ذہن اور جسم ایک دوسرے سے آزاد نہیں اور ان کا ایک دوسرے پر اثر ہوتا ہے۔
جب آپ کوئی کام کرنے کے لئے ذہن بنا رہے ہیں تو آپ کے پاس طاقت ہے کہ اپنے جسم کو اس کے مطابق حرکت دینے پر مجبور کر سکیں۔ بستر سے اٹھیں، کپڑے تبدیل کریں اور نہا دھو کر ناشتہ کریں۔
اور میری ذہنی حالتوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ میری فزیکل حالت پر (میری مرضی کے بغیر) اثرانداز ہو سکتی ہیں۔ مثلاً، لوگ غم میں یا سٹریس میں بیمار پڑ جاتے ہیں۔
اور اسی طرح، دوسری طرف، جسم کا اثر ذہن پر ہوتا ہے۔ بھوک زیادہ لگی ہے جس کی وجہ سے کلاس میں توجہ مرکوز نہیں کر پا رہے۔ یا پیاری سی بلی کو دیکھ کر موڈ خوشگوار ہو گیا ہے۔
انٹرایکشنسٹ کہتے ہیں کہ اس دوران جو کام ہو رہا ہے وہ یہ کہ دو الگ اشیا، مادہ اور جسم ایک دوسرے سے انٹرایکشن کر رہے ہیں۔ لیکن یہ نکتہ نظر ایک معمہ کھڑا کر دیتا ہے۔ کہ ذہنی شے فزیکل شے پر اثرانداز کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ معمہ مائنڈ باڈی پرابلم کہلاتا ہے۔
آخر کیسے میرے جسم میں الگ شے پائی جا سکتی ہے، جو ذہن ہے اور اسے کنٹرول کر سکتی ہے یا اس کے ذریعے کنٹرول ہو سکتی ہے۔ اور میرے ذہن کا جوڑ آخر میرے والے جسم کے ساتھ کیسے جڑا ہے۔ اور میرا ذہن بھاگ کر کہیں اور کیوں نہیں چلا جاتا؟ یا پھر کہ اپنے تجسس کی خاطر دوسرے اجسام کے اندر غوطہ کیوں نہیں لگاتا رہتا کہ دیکھے کہ وہاں پر کیا ہے؟
ڈیکارٹ کا اس بارے میں دیا گیا جواب غیرتسلی بخش تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ذہن جسم کے ساتھ پینیل گلینڈ کے ساتھ جڑا ہوا ہے (جو دماغ کے زیریں حصے میں پایا جاتا ہے)۔ یہ جواب معمے کا جواب نہیں دیتا اور اس سوال کو صرف مزید پیچھے دھکیل دیتا ہے کیونکہ پینیل گلینڈ فزیکل جسم کا ایک حصہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلاسفی آف مائنڈ کے جدید فلسفی مائنڈ باڈی پرابلم کا کوئی حل نہیں دیکھتے۔ کئی dualism کو مسترد کر کے فزیکل ازم کے ساتھ مطمئن ہیں جبکہ کئی اس بات کے قائل ہیں کہ انسانی تجربے کے کئی حصے ہیں جن کا جواب دماغ سے نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے لئے سوچ کا ایک تجربہ جو فرینک جیکسن تجویز کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری نے اپنی تمام زندگی ایک کمرے میں گزاری ہے جو صرف سفید اور سیاہ رنگوں پر مشتمل ہے۔ اس میں صرف بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی ہے۔ اس کمرے میں ہی تربیت حاصل کر کے میری ایک نیوروفزسسٹ بن گئی ہیں اور ان کی مہارت رنگوں کی سائنس ہے۔ روشنی، آپٹکس اور رنگوں کی فزکس کے بارے میں جو کچھ بھی ہے، وہ جان چکی ہیں۔ یہ بھی کہ یہ ہماری حسیاتی اعضا کو کیسے متاثر کرتے ہیں لیکن انہوں نے خود کبھی رنگ نہیں دیکھے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب میری کمرے سے باہر نکل کر زندگی میں پہلی بار رنگ دیکھتی ہیں تو کیا انہوں نے کوئی چیز ایسی ہے جو زندگی میں پہلی بار سیکھی؟
جیکسن کا یہ آرگومنت ریڈکٹو فزیکل ازم کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق سرخ رنگ کو دیکھنے کا تجربہ بالکل ہی الگ معاملہ ہے اور سرخ رنگ کے بارے میں ہر تفصیل کو جاننا ایک بالکل الگ۔ اگر ہر شے کی فزیکل وضاحت کی جا سکتی تو میری نے نیا رنگ دیکھا تھا تو وہ ان کی سمجھ میں کچھ اضافہ بھی نہ کرتا۔ یہ تجربہ انہیں کچھ بھی ایسا نیا نہ بتاتا جس کا انہیں پہلے سے علم نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فزیکلزم کی تشریح میں جو چیز نہیں پائی جاتی وہ کوالیا ہے۔ یہ کسی شے کا موضوعی تجربہ ہے جو کوئی شخص خود ہی کر سکتا ہے۔ مثلاً، جب پیر پر چوٹ لگی یا جب پراٹھے کا پہلا لقمہ چبایا تو کیسا محسوس ہوا۔ یا جب یہ آشکار ہوا کہ بہت ہی قریبی شخص دھوکا دے رہا تھا تو محسوس ہونے والی چوٹ کیا تھی۔
جب میری نے کمرے سے قدم باہر نکالا اور پہلی بار رنگ دیکھے تو یہ ایسا ہی ایک تجربہ تھا۔
اگر آپ فزیکلسٹ ہیں تو اس کا جواب یہ دیں گے کہ جیکسن کا تھاٹ ایکسپریمنٹ مغالطہ ہے۔ انہوں نے پہلے سے یہ فرض کر لیا ہے کہ میری جب باہر نکلے گی تو کچھ نیا سیکھے گی۔ اگر فزیکل ازم درست ہے اور وہ واقعی رنگ کے بارے میں ہر فزیکل شے سے واقف ہے تو پہلی بار رنگ دیکھنا اس کی سمجھ میں کسی بھی طرح کا کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔
فزیکل اسٹ یہ بھی کہیں گے کہ ان کا کیس آگے بڑھ رہا ہے۔ اور ہم فزیکل پراسسز سے جتنا واقف ہوتے جائیں گے، ہمیں جواب ملتے جائیں گے لیکن ایسا کوئی بھی جواب غیرتسلی بخش ہے۔ “ایک دن آئے گا جب میرا والا جواب ٹھیک ہو جائے گا”۔ ایسے جواب دینے اور اسے قبول کر لینے سے ہم احتیاط کرتے ہیں۔ جواب نہ ہونے کی صورت میں مستقبل کا وعدہ جواب کے طور پر قابلِ قبول نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں کہ اس بارے میں صرف یہی دو کیمپ ہیں۔ میری کے اس تجربے سمیت بہت سے اچھے آرگومنٹ ہیں جس وجہ سے کئی مفکر ڈوئل ازم کے ساتھ وابستہ ہیں، اگرچہ ان کے پاس اس بارے میں حل موجود نہیں۔ ان میں سے ایک نکتہ نظر epiphenomenalism کا ہے۔ اس نکتہ نظر میں فزیکل حالت سے ذہنی حالت برآمد ہوتی ہے لیکن ذہنی حالت فزیکل حالت پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔ یعنی آپ کے یقین، خواہشات اور مزاج وجود رکھتے ہیں لیکن یہ آپ کی فزیکل حالت پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ یہ نکتہ نظر بھی کئی مسائل رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک اور نکتہ نظر کولن مک گن پیش کرتے ہیں جو mysterianism کا ہے۔ اس کے مطابق انسانی شعور کا سوال انسانی شعور کے لئے ناقابلِ حل ہے۔ اس لئے نہیں کہ ہم بے وقوف ہیں۔ ہمیں کوئی مسئلہ دیا جائے تو ہم اسے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہ خاص مسئلہ ہے ہی الگ نوعیت کا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دماغ کے الگ حصے ہیں۔ ہم اپنی ذہنی معاملات کو خود اپنے اندر جھانک کر سمجھتے ہیں۔ (میں اداس کیوں ہوں؟)۔ یہ ذاتی اور غیرمعروضی ہے۔ جبکہ ہم اپنے جسم اور دماغ کو معروضی طریقے سے سمجھتے ہیں۔ (میرا بلڈ پریشر کتنا ہے؟) اور سمجھنے کے یہ دو الگ طریقے آپس میں ملاپ نہیں کر سکتے۔
ہم جتنا بھی گہرا سوچ لیں، ہم نیورون کی فائرنگ کے بارے میں کچھ بھی نیا سمجھنے کا دعوی نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ایمپریکل ریسرچ درکار ہے۔ اور ہم جتنی بھی گہری ایمپریکل ریسرچ کر لیں، ہم اس تک نہیں پہنچ سکتے کہ یہ رنگ کسی اور کی آنکھ سے دیکھنے میں کیسا لگتا ہو گا۔
ہمارے دماغ میں وہ صلاحیت ہے ہی نہیں جو ان دو الگ اقسام کے ایویڈنس کو جوڑ کر مکمل کر سکے۔
مائنڈ باڈی پرابلم صدیوں پرانی ہے اور حل نہیں ہوئی۔ نہ ہی فزیکل ازم ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ ان دونوں چیزوں کے لئے دماغ کو وہ کرنے کی ضرورت ہے جو یہ نہیں کر سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا ذہن کہاں رہتا ہے؟ عملی طور پر، یہ سوال ہمیں پریشان نہیں کرتا کیونکہ ہم اس کو خود دو الگ پہلووٗں سے دیکھتے ہیں۔ اور اس کا جواب اس تناظر کے مطابق دیتے ہیں۔ مثلاً، جب ہم سائنس کی بات کر رہے ہیں تو ذہن ہمارے دماغ کے فزیکل پراسسز اور نیورل فائرنگ کا لازمی نتیجہ ہے۔ لیکن جب ہم ذاتی ذمہ داری کی بات کر رہے ہیں تو یہ خود ایک وجود رکھتا ہے۔ ہم بیک وقت اسے دونوں طریقوں سے نہیں دیکھتے۔
اب اس انفارمیشن کے ساتھ ہم اس اہم سوال کی طرف چلتے ہیں کہ ہم اپنے فیصلوں میں کس حد تک آزاد ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...