نظامِ انہضام کا مرکز چھوٹی آنت ہے۔ یہ پچیس فٹ لمبی ٹیوب ہے جو لپٹی ہوئی موجود ہے۔ یہ ہضم ہونے کے کام کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ چھوٹی آنت کے تین حصے ہیں۔ ڈیودینم، جیجونم اور ایلیم۔ لیکن یہ صرف سہولت کی خاطر دئے گئے نام ہیں۔ اگر آنت کو نکال کر سیدھا کریں تو کچھ بھی اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کونسا کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں پر ختم ہوتا ہے۔
چھوٹی آنت میں چھوٹی سی بالوں کی طرح کے سٹرکچر ہیں جنہیں villi کہا جاتا ہے اور ان کی وجہ سے سطحی رقبے میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ کھانا سکڑاو اور پھیلاو کے عمل کی مدد سے آگے بڑھتا ہے۔ اسے peristalsis کہا جاتا ہے۔ یہ رفتار ایک انچ فی منٹ کی ہے۔
ہاضمے کے نظام کے بارے میں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے ہاضمے کے خوفناک قسم کے جوس ہماری اپنی خوراک کی نالی کو کیوں نہیں گلا دیتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری نالی حفاظتی خلیات کی تہہ سے ڈھکی ہوئی ہے جو کہ epithelium ہے۔ یہ چوکس خلیات ہیں اور بلغم سی رطوبت پیدا کرتے ہیں۔ یہ تہہ ہمارے خود کو ہی ہضم کر لئے جانے سے بچاتی ہے۔ اگر اس میں دراڑ آ جائے اور آنتوں کا مواد نکل کر جسم کے دوسرے حصوں تک جا پہنچے تو اس کا نتیجہ (اگر فوری علاج نہ کر لیا جائے) موت ہو گا۔ لیکن ایسا شاذ ہی کبھی ہوتا ہے۔ اور یہاں پر ہمارے فرنٹ لائن کے خلیات کو اس قدر مار پڑتی ہے کہ تین سے چار روز میں یہ تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جسم کے کسی بھی طرح کے خلیات میں اتنی کم عمر کسی اور کی نہیں۔
اس کے باہر چھ فٹ کی ایک اور پلمبنگ ہے جسے بڑی آنت کہا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک پاوچ ہے جو سیسم ہے اور یہاں سے انگلی کی طرح ایک شے نکلتی ہے جو اپینڈکس ہے۔ اس کی وجہ سے ہر سال دنیا میں اسی ہزار لوگوں کی موت ہوتی ہے۔ اس کے پھٹ جانے کی وجہ سے یا پھر اس کی انفیکشن کی وجہ سے۔ امریکی نیشل لائبریری آف میڈیسن کے مطابق ہر سال یہاں پر چار لاکھ لوگوں کو appendicitis سے ہسپتال داخل ہونا پڑتا ہے جس میں سے 300 زندہ نہیں بچ پاتے۔
اس کو نکال دیا جاتا تو زندگی کے معمولات پر فرق نہ پڑتا جس کی وجہ سے بہت عرصے تک سمجھا جاتا رہا کہ یہ بالکل بے مصرف ہے۔ اب خیال یہ ہے کہ یہ آنتوں کے بیکٹیریا کے ذخیرے کا کام کرتی ہے۔
ایمرجنسی سرجری کی سب سے عام وجہ یہی ہے اور وقت پر سرجری نہ ہونے کی وجہ سے موت واقع ہو سکتی ہے۔ کسی وقت میں ایسی اموات عام تھیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں appendicitis کے واقعات اب 1970 کی دہائی کے مقابلے میں نصف رہ چکے ہیں لیکن ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ ان کے کم ہونے کی وجہ کیا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسا کیوں؟ اس کا کچھ اندازہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑی آنت کی دنیا سست رفتار ہے۔ یہاں پر کچھ بھی تیزی سے نہیں ہوتا۔ یہاں پر فضلہ، بدبودار ہوا اور جراثیم کی وسیع و عریض دنیا پائی جاتی ہے۔ لیکن یہاں پر ہونے والا کام بہت اہم ہے۔ یہاں پر بڑی مقدار میں پانی دوبارہ جذب ہو کر جسم میں جاتا ہے۔ یہاں کے جراثیم کی کالونیاں وہ چباتی ہیں جو چھوٹی آنت سے بچ جاتا ہے اور اس عمل کے دوران کئی اہم وٹامن قابو میں آتے ہیں۔ B1, B2, B12, K وٹامن جسم کو بھجوائے جاتے ہیں۔ اور پھر جو بچ جاتا ہے، وہ جسم سے خارج ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
جسم سے خارج ہونے والے مواد میں بڑا حصہ مردہ بیکٹیریا، غیرہضم شدہ ریشہ، آنتوں کے مر جانے والے خلیات اور خون کے مردہ سرخ خلیات کی باقیات ہوتی ہیں۔ اس کے ایک گرام میں چالیس ارب بیکٹیریا، دس کروڑ آرکیا ہیں۔ اس کے علاوہ فنگس، امیبا، بیکٹریوفیج کے علاوہ alveolate, ascomycetes, basidiomycetes اور بہت کچھ پایا جاتا ہے۔ اور ہماری اس بارے میں سمجھ ابھی بہت اچھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری آنت میں ہونے والے تمام کینسر بڑی آنت کے ہیں۔ چھوٹی آنت میں تقریبا کبھی نہیں ہوتا۔ اور اس کی وجہ کا علم نہیں۔۔ (جبکہ چوہوں میں چھوٹی آنت میں کینسر ہوتا ہے جبکہ بڑی آنت میں نہیں)۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...