آنسوؤں سے اسکا چہرہ تر ہوگیا تھا لیکن آنسوں اب تک نہیں تھم رہے تھے حیا بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئ م مہر حیا نے دھیمی آواز میں مہر کو پکارا مہر نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے حیا کی طرف دیکھا ح حیا وہ اس سے لپٹ کے زور زور سے رونے لگی حیا و وہ مجھ چھوڑ کے چلا گیا حیا اسنے مجھ بے سہارا کر دیا مہر کے رونے میں شدت آ گئی بس کرو مہر کتنا روو گی اندر چلو حیا مہر کو اپنے کمرے میں لے آئ تم کچھ دیر ریسٹ کرو میں تمہارے لیے پانی لیکے آتی ہوں مہر کو اسنے چپ بیٹھے پایا تو اسکو تشویش ہوئی مہر حیا نے اسکے شانے پے ہاتھ رکھا مہر نے چوںک کے حیا کی طرف دیکھا لیٹ جاؤ تھوڑی دیر وہ اسکو لٹا کے حسین صاحب کے کمرے تک آئ اسنے اپنی نمی کو صاف کیا اسے بہت مضبوط بن کے سب کو سمبھالنا ہے خاص کر کے مہر کو اسنے آپ کو کمپوز کیا اور حسین صاحب کے روم کا دروازہ نوک کیا کچھ دیر بعد دروازہ کھلنے کی آواز آئ حیا اپنے دماغ میں لفظوں کو ترتیب دینے لگی کے کیسے اتنی سنجیدہ بات کرے مدیحہ بیگم نے اسکو کسی گہری سوچ میں پایا حیا تم اس وقت یہاں او اندر تمہاری طبیت تو ٹھیک ہے نا وہ اسے بیڈ پے بٹھا کے تشویش سے پوچھنے لگیں وہ اس وقت کبھی ان کے کمرے میں نہیں آتی تھی حیا مدیحہ بیگم کو کچھ دیر دیکھتی رہی پھر جب اسکے صبر کا پےمانا لبریز ہوگیا تو وہ مدیحہ بیگم کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی حسین صاحب بھی اٹھ چکے تھے انھیں بھی اب پریشانی لاحق ہوگئی تھی حیا نے ہچکیوں کے درمیان انکو ساریبات بتائی کچھ دیر بعد سب مہر کے کمرے میں تھے مدیحہ بیگم مہر کے سرھانے بیٹھی تھیں باکی سب لان میں آ گئے میں اس خبیث کو چھوڑوںگا نہیں کیا حالت کردی ہے اس نے میری بھن کی اگر چھوڑنا ہی تھا تو کیوں اس وقت چپ رہا آخر کون سی دشمنی تھی اس کمینے انسان کی میری بھن کے ساتھ غصے سے حماد کے جبڑے بھینج گئے حماد ہوش کے ناخن لو میں خلیل سے بات کرونگا پتا تو چلے کیا ماجرا ہے حسین صاحب کچھ سوچتے ہوے گویا ہوۓ بابا آپ کیا بات کرینگے انسے اگر انکو کچھ کرنا ہوتا تو وہ اپنے بیٹے کو ضرور روکتے لیکن انہوں نے ہرگز ایسا نہیں کیا وہ سب ملے ہوۓ ہیں حماد نے مٹھییاں بھینجتے ہوۓ کہا آہستہ بولو ابھی مہر کا صدمہ بہت گہرا ہے اسکو کچھ دیر سکوں سے سونے دو بعد میں دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے حسین صاحب نے حماد کو سمجھاتے ہوۓ کہا صبح کے نو بج رہے تھے مہر اب تک کمرے سے باہر نہیں آئ تھی مدیحہ بیگم ناشتہ تیار کرکے اسکے کمرے میں لے آئیں مہر بیٹے اٹھ جایئں دیکھیں میں آپ کا فیورٹ ناشتہ لائی ہوں مدیحہ بیگم نے اسے پیار سے پکارا لیکن جواب نادرد مدیحہ بیگم نے اسکا شانہ ہلایا مہر کا جسم بلکل ٹھنڈا برف کی ماند پڑا تھا مدیحہ بیگم کو تو ٹھنڈے پسینے آنے لگے اپنی بچی کی حالت دیکھ کے کچھ دیر میں وہ سب ہسپتال میں موجود تھے ڈاکٹر کے مطابق مہر کا بی پی شوٹ ہوگیا تھا اس نے کسی بات کا بہت گہرا زیادہ سٹریس تھا کیسی طبیعت ہے اب تمہاری حیا نے بیڈ کے قریب کرسی پے بیٹھتے ہوۓ پوچھا زندہ ہوں مہرنے قرب سے کہا حیا کے دل پے چوٹ سی لگی مہر جو ہوا اس پے صبرکرو کیوں اتنا سٹریس لیکے خود کو ہلکان کررہی ہو حیا نے اس کے چہرے سے بال ہٹاتے ہوۓ کھا دیکھو کیا حالت بنا دی ہے تم نے اپنی میرا تو سب کچھ وہ شخص اجاڑ کے چلا گیا ایک آنسوں ٹوٹ کے تکیے میں جذب ہوگیا مہر نے چھت کو گھورتے ہوۓ کہا حیاکو اسکی حالت پے ترس آیا وہ بنا کچھ کہے روم سے باہر نکل آئ مہر کو ہسپتال سے اے ہوۓ ایک ہفتہ ہوگیا تھا وہ بلکل خاموش ہوگئی تھی کوئی بات کرتا تو بس ہوں ہاں میں جواب دیتی ایک ہفتے میں ہی وہ سالوں کی بیمار لگ رہی تھی اسے کسی بھی چیز کا ہوش نہیں تھا اسنے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے فق رنگت وہ کہی سے بھی ہنستی مسکراتی مہر معلوم نہیں ہو رہی تھی سب کو اسکی یہ حالت بہت اذیت دے رہی تھی
وہ اس وقت بلیک جینس پر بلیک شرٹ پہنے سارا کے گھر کے قریب تھا اس نے گاڑی کو لاک لگایا اور گنگناتے ہوۓ سارا کے روم کی جانب بڑھا آج اسنے طے کر لیا تھا کے سارا کو شادی کے لیے مانا کر آج ہی اسے نکاح کر لے گا وہ اس کے روم کے قریب ہی تھا جب اسے کسی کے ہنسنے کی آواز آئ وہ اندر جانے سے رک گیا ہاہاہاہا نہیں یار میں اور اس سے پیار وہم ہے تمہارا ارحم اسکی بات سن کے ٹہٹک گیا اتنی پاگل نہیں ہوں جو اسے شادی کر بیٹھوں یہ سارا تھی جو کسی کو بہت مزے سے یہ بات سنا رہی تھی ارحم کے سر پے تو جیسے آسمان ہی گرگیا ہو اس سے تو میں کبھی پیار کر ہی نہیں سکتی آئ میں میں اس کےساتھ صرف اس لیے تھی کیوں کے میرا بزنس ڈوب رہا تھا میں جسٹ اسکو اس لیے برداشت کر رہی ہوں کیوں کے میں چاہتی ہوں وہ میرے بزنس کو سککسسفل بناے تھٹس اٹ ورنہ کون اکیسویں صدی میں پیار کرتا ہے تمہیں پتا ہے وہ بلکل بیوقوف ہے مطلب میرے لیے وہ اپنی ایک رات کی بیوی کو چھوڑ کے آگیا اب تم بتاؤ کوئی اتنا احمق ہو سکتا ہے کیا سارا بے اختیار ہنسنے لگی ارحم شاک کے عالم میں یہ سب سن رہا تھا اسے اپنے کانوں پے یقین نہیں آیا کے جس محبت کے لیے اسنے اپنوں سے بےوفائی کی آج اسی محبت نے اس سے بے وفائی کی تھی وہ وہی سے ہی اپنے فلیٹ میں واپس آگیا دو دنوں سے اس کا بخار سے جسم جھلس رہا تھا اسنے ہسپتال کی طرف جانے کا سوچا آج اسکو اپنے گھر والوں کی بہت یاد آرہی تھی مہر کا آنسوں بہاتا ہوا چہرہ بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے آرہا تھا وہ مسلسل مہر کے بارے میں ہی سوچے جا رہا تھا کتنا ماں تھا اس لڑکی کو اس پر جو نکاح کے تین بول بولنے سے اس کے ساتھ چل دی تھی اور اسنے اسکے ماں کو بری طرح توڑا تھا اسے وہ سب الفاظ یاد اے جو اسنے مہر کے سامنے استمال کیے تھے اسنے اپنے کانوں پے ہاتھ رکھ دیا یہ دنیا مکافات عمل کی دنیا ہے یہاں پر جو جیسا کرتا ہے اسی کو ویسا ہی ملتا ہے عزت کے بدلے عزت محبت کے بدلے محبت دھوکے کے بدلے دھوکا اور بے وفائی کے بدلے بے وفائی اسکو پشتاوے نے غہیر لیا تھا اس کا سکوں سب غارت ہو چکا تھا وہ فلیٹ سے باہر نکل آیا راستے میں اسنے پاس کی مسجد سے اذان کی آواز سنی
(حیا للصلاح حیا للصلاح ) آؤ نماز کی طرف آؤ نماز کی طرف (حیالل فلاح حیا للفلاح )آؤ کامیابی کی طرف آؤ کامیابی کی طرف ) اسکی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی وہ مسجد کی طرف نم آنکھوں سے دیکھنے لگا اسکے قدم بے اختیار مسجد کی طرف بڑھے لیکن اسکی ندامت اتنی تھی کے وہ مسجد کے صہن میں ہی رک گیا پاس بیٹھے امام نے کچھ عجیب طرح اسے دیکھا امام صاحب اسکی جانب بڑھے اور اس کے شانے پے ہاتھ رکھا کیا ہوا بچے رک کیوں گئے اندر چل کے نماز پڑھو امام صاحب نے شفقت سے اسے کہا میرے گناہون کی فرست بہت بڑی ہے اللہ میری نماز کبھی قبول نہیں کریگا بہت برا ہوں وہ کبھی مجھے معاف نہیں کریگا ارحم نے رںدھی ہوئی آواز میں کہا امام صاحب اسکی بات پے مسکراے بیٹا اگر اسنے تمہیں یہاں تک آنے کی توفیق دی ہے تو اسکا مطلب ہے کے وہ چاہتا ہے کی آپ انسے معافی مانگیں وہ تو بہت کریم ہے میرے بچے آپ ایک بر معافی مانگ کے تو دیکھیں ارحم نے نماز پڑھی جب دوا کے لیے اسنے ہاتھ اٹھاے تو بے اختیار اسے مہر کا ڈرا سہما چہرہ یاد آیا اسنے مہر کے لیے دعا مانگنا شروع کی مجھ سے بہت بڑا گناہ ہوگیا یا اللہ کے مینے ایک بے قصور کی زندگی کو اس طرح برباد کیا مجھ اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے جس طرح اپنے میرے دل میں معافی مانگنے کا احساس ڈالا ہے اسی احساس کو مہر کے دل میں بھی ڈال دین کے وہ مجھ معاف کردے
وہ اس وقت کمرے میں لیٹی چھت کو گھور رہی تھی حسین صاحب نے اسکی بجھی بجھی رنگت دیکھی مہر وہ آ کے پاس بیٹھ گئے مہر نے چوںک کے انکی طرف دیکھا بابا آپ مجھ بلا لیتے مہر اٹھ بیٹھی بیٹا آپ کب تک یوں ہی اپنے آپ کو تکلیف دیتی رہیں گی جو ہوا اسے بھول کے خوش رہنے کی کوشش کریں حسین صاحب نے اسکے سر پے ہاتھ رکھا میری خوشیاں تو وہ شخص لے گیا بابا میرے دامن میں تو صرف غم ہی چھوڑے ہیں اسنے خوشی کیا ہوتی ہے مجھ نہیں پتا بس غم ہی اب میرے ساتھی بن چکے ہیں مہر نے نم آنکھیں صاف کرتے ہوۓ کھا بیٹا آپ کی امی آپ کی اس حالت سے بہت پریشان ہیں سب ہی آپ کی وجہہ سے پریشان ہیں آپ اپنی صحت پے بہت زیادتی کررہی ہیں زندہ ہوں بابا یہی بہت ہے بابا م میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں مہر نے سر جھکا لیا جانا چاہتی ہیں پر کہاں بیٹا حسین صاحب کو اسکی بات سمجھ میں نہیں آئ
میں لاہور جانا چاہتی ہوں پھوپھو کے پاس میں تانگ آ گئی ہوں یہاں سے تکلیف ہوتی ہے مجھ یہاں میں پاگل ہوجاؤن گی بابا پلیز جھ یہاں سے لے جایں مہر اں کے سامنے ہاتھ باندھ کے سسک پڑی حسین صاحب نے اسے گلے لگا لیا مہر بیٹا حوصلہ رکھیں میں نہیں رہ سکتی یہاں پر میں مر جاؤنگی بابا پلیز مجھ یہان سے لے جائیں ٹھیک ہے میں حماد کو کہتا ہوں وہ چھوڑ آئے گا آپ کو
میں خدیجہ سے بات کر لوں ذرا حسین صاحب اسے دلاسا دیتے ہوۓ اٹھ کھڑے ہوۓ مہر نے آنسوں صاف کیے اور کپڑے پیک کرنے لگی میں دعا کرونگی کے تمہارا دل وہاں پر لگ جائے حیا مہر سے ملتے ہوۓ بولی دل تو اب کہیں۔ لگتا ہی نہیں مہر نے کھوءے ہوۓ لہجے میں کہا اور لاہور کے لیے روانہ ہوگئی تم نے بہت اذیت دی ہے مجھ ارحم میری دعا ہے جس کے لیے تم نے مجھ چھوڑا ہے وہ بھی تمہیں یوں ہی چھوڑ جائے پھر تمہیں احساس ہوگا کے اپنا بنا کے چھوڑ دینے کا غم کیا ہوتا ہے مہر نے دل ہی دل میںارحم کو دعا دی