مسکان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے زوہیب سے معذرت کی۔
زوہیب:” ھمممم اب تو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ ملنا پڑے گا” زوہیب نے شرارتی انداز میں جعلی خفگی سے کہا۔
مسکان:”ملنا۔۔۔۔۔۔” وہ اب بھی کنفیوز تھی۔
زوہیب:” مان جاو نا اب تو ویزا بھی لگ گیا ہے تھوڑے دنوں میں میں چلا جاو گا۔ جانے سے پہلے میری یہ خواہش پوری نہیں کرو گی پلیز۔۔۔” اس نے پھر التجا کی۔
مسکان دوہری کیفیت کا شکار تھی وہ ملنا بھی چاہتی تھی اور اکیلے جانے سے خوفزدہ بھی تھی لیکن آج وہ زوہیب کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی اس لئے اس نے ہمت کر کے ہاں کر دی۔
اگلے دن لنچ پر ریسٹورنٹ میں ملنا طے پایا۔ کالج کے پاس ایک پوائنٹ طے کر کے وہاں سے ساتھ چلنے کا پلان بنا۔
زوہیب:” اچھا اب میں تھوڑی دیر سوجاتا ہوں کچھ دیر پہلے ہی پہنچا ہوں بہت تھک گیا ہوں ۔” اس نے بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں بند کی اور مسکان نے الوداعی کلمات کہہ کر فون بند کیا۔
وہ کمرے میں ٹہلتے ناخن چباتے یہ سوچ رہی تھی کہ وہ جائے گی کیسے اور گھر پر کیا کہے گی ستارہ سے چھپ کر کیسے نکلے گی۔
حارث صاحب گھر کی بیٹیوں کے معاملے میں ہمیشہ سے ہی محتاط رہے ہے کبھی گھر سے اکیلے باہر جانے نہیں دیا اس لیے بھی مسکان کو اکیلے جانے میں گھبراہٹ ہورہی تھی۔
“اب تو زوہیب کو ہاں کر دیا ہے جانا تو پڑے گا”۔ اس نے دل میں سوچا اور کل کے لیے تیاری کرنے لگی۔
****************
کالج کے مڈ ٹرم کی چھٹیاں چل رہی تھی۔ صبح دیر تک سوئے رہنے کا معمول بنا ہوا تھا۔
صبح وہ 10 بجے تک اٹھی 12 بجے ملنے جانا تھا۔
وہ نہا کے آئی اور آئینہ میں بال برش کرنے لگی ساتھ ساتھ مسلسل دماغ بہانہ گڑھنے میں لگا رہا۔ 11:30 تک وہ تیار ہوئی اس نے سرخ رنگ کا کرتا پجامہ پہنا اور سفید دوپٹہ گلے میں لیا۔ بالوں کی ڈھیلی ڈھالی چھٹیاں بنائی اور کچھ لٹے چہرے پر رہنے دیئے۔
دبے پاؤں چلتی لاؤنج میں گئی امی دوپہر کے کھانے کے لیے سبزی کاٹنے میں مصروف تھی اور سائرہ بھابھی اپنے چھوٹے بیٹے کو کھلانے میں۔
وہ ڈائننگ ٹیبل پر امی کے پاس بیٹھی۔
مسکان:” امی۔۔۔۔ مجھے ایک کتاب لینے سنٹرل لائبریری جانا ہے” اس نے ہلکے آواز میں امی کے ساتھ مٹر چھیلتے ہوئے کہا۔
امی:” شام کو تیرے بابا آئے گے تو ساتھ چلی جانا۔” امی نے مصروف انداز میں جواب دیا۔
مسکان:” امی ابھی ضرورت ہے۔۔۔۔ شام تک نہیں رک سکتی۔” اس نے معصوم انداز میں التجا کی۔
امی:” مسکان مجھے بہت کام ہے میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتی۔”
مسکان:” نہیں امی آپ کام کریں میں خود چلی جاتی ہوں” اس نے ہڑبڑا کر کہا۔
امی:”نہیں خود کیسے جاو گی اکیلے۔” امی نے کچن جاتے ہوئے جھڑکا
مسکان:” امی ضروری ہے جانے دیں۔” اس نے امی کو کچن جاتے ہوئے آواز لگائی۔
امی:” اچھا ستارہ کو ساتھ لے جا” اس نے کچن سے امی کو بولتے سنا۔
وہ کرسی سے اٹھی اور بالائی منزل کی سیڑھیوں کی جانب چلی گئی۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی اور بنا آواز کئے ستارہ کے کمرے میں جھانکا وہ ابھی بھی گہری نیند سو رہی تھی۔ اس نے خدا کا شکر کیا اور واپس نیچے آئی۔
مسکان:” امی اس کی طبیعت ٹھیک نہیں وہ سورہی ہے۔ تھوڑی دیر کی بات ہے جلدی آ جاو گی واپس۔” اس نے کچن کے دروازے پر ہی کھڑے کھڑے کہا۔
امی:” لیکن بیٹا اگر تمہارے بابا کو پتہ چلا تو۔۔۔۔”
مسکان:” امی بابا کے آنے سے پہلے آ جاو گی پکا۔ پلیز۔۔۔۔” اس نے جھٹ سے کہا۔
امی نے “ٹھیک ہے پر جلدی آنا” کہتے ہوئے اسے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ خوشی سے اچھلتی ہوئی باہر کی جانب بڑھی۔
“اور سنبھل کر جانا” اس نے امی کو آواز لگاتے سنا۔
مسکان:” جی امی۔۔۔۔۔ بائے” اس نے گیٹ کے قریب پہنج کر صدا لگائی اور باہر نکل گئی۔
” میرے اللہ مجھے امی سے اتنے جھوٹ بولنے کےلئے معاف کر دینا پلیز” اس نے دل میں دعا کی اور دھڑکتے دل کے ساتھ تیز قدموں سے چلتی سڑک پر آئی اور رکشہ میں سوار ہوئی۔ رکشہ والے کو کالج کے پیچھے گلی کا ایڈریس بتا کے اس نے زوہیب کو کال ملائی۔
انسان ناداں ہوتا ہے شیطان اسے اپنے بہکاوے میں لے آتا ہے اور انسان سے وہ گناہ سرزد ہوجاتی ہے۔
*************
زوہیب کر کر کے بھی 11 بجے جاگا اور عادت سے مجبور پہلے موبائل دیکھنے میں 10 سے 15 منٹ مزید ضائع کئے۔ ایک جھٹکے سے ملنے کا یاد آیا تو برق رفتاری سے اٹھا اور واشروم میں بھاگ گیا۔
وہ نہا کے سفید قمیض شلوار پہنے بال سیٹ کرنے لگا تھا جب اس کا فون بجا۔
زوہیب:” ہاں کیا بنا” اس نے ہائے ہیلو کرتے ساتھ ہی پوچھا۔
مسکان:” بہت مشکل سے ملی ہے اجازت۔ جلدی واپس آنے کا بول کے نکلی ہوں۔” وہ متذبذب سی دوپٹہ سر پر ٹکاے ملاتشی نظروں سے آس پاس دیکھ رہی تھی۔
زوہیب:” کوئی بات نہیں ہمیں بھی زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ میں بھی بس نکل رہا ہو۔” وہ بات کرتے ہوئے جلدی جلدی ہاتھ چلاتا اپنی بقایا تیاری مکمل کر رہا تھا۔
مسکان:”کیا۔۔۔ ” زوہیب کی بات سن کے اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ ” آپ ابھی تک نکلے بھی نہیں ہے۔۔۔ زوہیب میں آدھے راستے تک پہنچ بھی چکی ہوں” اس نے گھبرا کے کہا۔
زوہیب:” don’t worry مسکان میں 10 منٹ میں پہنچ جاو گا۔ تم بس panic (ہیبت میں آنا) مت کرو کسی کو خود پر شک مت ہونے دو۔ be calm” وہ کمرے سے باہر جاتے مسکان کو ہدایت دیتے پورچ میں آیا اور کار میں بیٹھ گیا۔ اس نے کار سٹارٹ کی اور سڑک پر لا دی۔
مسکان اس سنسان گلی میں اتری اور آس پاس نظر دوڑائی۔ اسے وہاں اکیلے کھڑے رہنے سے خوف آرہا تھا۔ وہ پھر سے زوہیب کو کال ملانے لگی۔ دو رنگ گئے کہ اس نے گلی کے سرے پر کار کو مڑتے دیکھا۔ اسے اپنا سانس بحال ہوتا محسوس ہوا۔
زوہیب نے اس کے قریب پہنچ کر کار روکی اور ہاتھ بڑھا کر فرنٹ ڈور کھولا۔ وہ جلدی سے اندر بیٹھی تو زوہیب نے کار چلا دی۔
مسکان:” بہت رسکی ہے گھر سے ایسے نکلنا” اس نے سکون کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
زوہیب:” رسکی ہے پر مزا بھی بہت آتا ہے” اس نے دل فریبی سے دیکھتے ہوئے مسکان کی لٹوں کو چھوا۔
مسکان نے زوہیب کا یہ انداز پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے عجیب کھٹک محسوس ہوئی۔ وہ رخ موڑے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
مسکان:” ہم کہاں جا رہے ہیں۔” اس نے کچھ لمحے خاموشی سے گزرنے کے بعد سڑک پر ٹریفک کم ہوتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
زوہیب:” ایک سپیشل جگہ جا رہے ہیں” اس نے مسکراتے ہوئے مسکان کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
مسکان:” سپیشل جگہ کا کوئی نام تو ہوگا” اس کا گلا خشک ہونے لگا۔ ہاتھوں پر پسینہ آتا محسوس ہوا۔
زوہیب:” ٹرسٹ می مسکان میں تمہیں اغوا نہیں کر رہا۔” اس نے مسکان کی بیچینی کو سمجھ کر کہا ۔
مسکان نے مسکرانے کی کوشش کی اور پھر سے نظریں باہر نظر آتی خالی سڑک پر جمائی
“کیا میں نے گھر پر جھوٹ بول کر اکیلے آنے میں غلطی تو نہیں کی۔ مجھے زوہیب پر اتنا اندھا یقین نہیں کرنا چاہیے تھا آخر میں اسے جانتی ہی کتنا ہوں” اس نے اضطراب میں سوچا۔
شہر سے کچھ فاصلے پر زوہیب نے ایک وسیع و عریض resthouse (ڈاک بنگلہ) نما ریسٹورانٹ کے سامنے کار روکی۔
وہ عمارت کو چاروں طرف سے دیکھتے ہوئے کار سے اتری اور قدم قدم چلتی زوہیب کی طرف آئی۔
دونوں ساتھ چلتے اندر داخل ہوئے ریسٹورنٹ خالی پڑا تھا۔ اکے دکے ویٹرز کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
مسکان:” یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔ ” اس نے ایک کرسی پر بیٹھ کر کہا۔
زوہیب:” ہاں شہر سے دور ہے اس لئے کوئی آتا جاتا نہیں۔ پر ہمیں لوگوں سے کیا کام۔ ہمیں تو صرف اپنا انجوائے کرنا ہے نا” اس نے جتاتے ہوئے کہا اور ویٹر کو اشارہ کر کے بلایا۔ “کیا کھاو گی۔” زوہیب نے مینو کارڈ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
مسکان:” کچھ بھی جو آپ کہو ” ناشتہ نا کرنے کے باوجود بھی اسے بلکل بھوک نہیں لگ رہی تھی۔
زوہیب نے 2 چائنیز رائس ایٹالین پیزہ اور افغانی روش کا آرڈر دیا۔ ویٹر کے وہاں سے جانے کے بعد وہ دونوں پورے ڈائننگ ایریا میں اکیلے رہ گئے۔
زوہیب:” ویسے میں تو یہ کہنا بھول گیا۔۔۔ تم آج بہت خوبصورت لگ رہی ہو” اس نے توجہ مسکان پر مرکوز کر لی۔
مسکان:” thank you” اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ اس کی چھٹی حس بار بار اسے خبردار کر رہی تھی۔
” میں بیکار سوچ رہی ہوں زوہیب ایسا لڑکا نہیں ہے یہ صرف میرا وہم ہے۔” مسکان بار بار خود کو دلاسہ دے کر دل سے منفی خیال جھٹک دیتی۔
کھانا آچکا تھا دونوں نے کسی کسی موضوع پر تبادلہ خیال کرتے کھانا کھایا۔ زوہیب کچھ میٹھا آرڈر کرنے لگا تھا کہ مسکان نے روک دیا۔
“ابھی نہیں پیٹ فل ہوگیا ہے میٹھا کسی اور دن کھا لیں گے آج کے لیے اتنا کافی ہے” اس نے رومال سے منہ پونچھتے ہوئے کہا۔ زوہیب ویٹر کو واپس جانے کا کہہ کر کھڑا ہو گیا۔
زوہیب:” چلو walk کرتے ہیں۔” وہ مسکان کی سیٹ کی طرف آیا۔
مسکان:” walk کہاں کریں گے” اس نے سیٹ سے اٹھتے ہوئے حیرانگی سے زوہیب کو دیکھا۔
زوہیب:” یہی ہوٹل میں ہی۔۔۔ پیچھے اچھا خاصہ لان ہے۔۔۔ تم چلو تو۔۔” اس نے آگے ہو کر ہاتھ بڑھایا۔ مسکان پر سوچ انداز میں اس کے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی کہ زوہیب نے اس کا ہاتھ خود ہی تھام لیا اور اسے اپنے ساتھ لیئے باہر کی جانب چلنے لگا۔ مسکان کو اس کا ہاتھ تھامے ہچکچاہٹ محسوس ہوئی لیکن زوہیب کے ہاتھ کے گرم لمس نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔
قدم قدم چلتے وہ ایک لمبے کوریڈور کے سرے تک آئے جہاں کچھ کمرے بنے نظر آئے۔ مسکان کی چھٹی حس اسے پھر چھبنے لگی۔ کوریڈور بلکل خالی تھا وہ کچھ قدم آگے آکر رک گئی۔
مسکان:” ہم کہاں جا رہے ہیں زوہیب۔” اس نے لڑکھڑاتی زبان سے لفظ ادا کئے۔
زوہیب:” کمرے میں” اس نے سپاٹ انداز میں نظریں مسکان پر جمائے ہوئے کہا۔
مسکان کا دل ڈوبنے لگا۔ اسے اپنا وہم حقیقت میں تبدیل ہوتا نظر آیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں میں لرزش ہونے لگی۔
مسکان:” کمرے میں کیوں” وہ اپنا ہاتھ چھڑانا چاہتی تھی لیکن زوہیب کی گرفت بہت مضبوط تھی وہ ناکام رہی۔
زوہیب:”ارے کچھ بات کرنی ہے تم سے۔۔۔ بس تھوڑی دیر صرف ایک گھنٹہ ” اس نے مسکان کے ہاتھ پر اپنی گرفت اور مضبوط کرلی۔ مسکان کے خوف و حراس میں اضافہ ہوا۔ اس کا وہاں سے بھاگ جانے کا دل کیا۔ اسے اپنے گلے میں آنسوؤں کا پھندہ اٹکا لگا۔ مسکان کو زوہیب کے اس روئیے سے بہت دکھ ہوا اسے بلکل امید نہیں تھی کہ زوہیب ایسے کسی حرکت کا سوچے گا ۔
مسکان:” زوہیب باہر بات کرتے ہیں” اس نے بھرائی آواز میں کہا اور پیچھے قدم اٹھانے لگی۔
زوہیب:” اچھا۔۔۔۔ اچھا۔۔۔ سنو۔۔۔” اس نے مسکان کو کھینچ کر دیوار سے لگایا۔ مسکان کی چیخ نکلنے والی تھی کہ زوہیب نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
زوہیب:”شششش۔۔۔۔۔۔” وہ مسکان کے بلکل قریب آگیا۔
مسکان نے آنکھیں میچھ لی۔اس کی سانسوں کی رفتار تیز ہوگئی۔ دل اتنا زور سے دھڑک رہا تھا جیسے باہر ہی آجائے گا۔
زوہیب نے مسکان کے منہ پر سے ہاتھ ہٹایا اور اس کی چہرے پر آتی لٹیں پیچھے کر کے اپنا چہرہ اس کے قریب کیا۔۔
مسکان آنکھیں بند کیئے اپنی جگہ پر ساکت کھڑی رہی۔ اسے اپنے وہاں آنے پر پچھتاوا ہوا وہ دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی۔ زوہیب کے ہونٹ اپنے کان کی لوہ پر محسوس کر کے اس نے مٹھیاں میچھ لی۔
*******************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...