” آنکھوں سے ٹپ ٹپ اشک رواں تھے۔ آیت کے جیسے آنسوؤں پہ اختیار ناممکن ہوگیا تھا۔ اپنی سالوں کی محبت آج اٌسے ہارتی ہوئی نظر آرہی تھی۔۔۔ وہ خود کو بےبس محسوس کر رہی تھی۔۔۔”
” زندگی بھر کیلئے وہ کیسے یہ درد سہہ سکتی تھی۔ کہ جس کو وہ کسی کیساتھ اک لمحہ بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔ آج اٌسکا نام کسی اور کی زندگی کا مستحق ہونے جارہا تھا۔۔۔۔۔ وہ یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی۔۔”
” مگر آیت اس وقت کس قدر تکلیف میں مبتلا تھی۔۔”
وہ عائشہ کہاں جانتی تھی۔؟
” ایک تو تم روتی بہت ہو۔ عائشہ ، آیت کو ڈانٹ ہوئی اٌسکے پاس بیڈ پہ بیٹھ گئ ۔۔۔ کیونکہ رو رو کے آیت کی خوبصورت آنکھیں سوجھ چکی تھیں۔۔۔۔ ”
” بس اب چپ بھی ہوجاؤ ۔۔۔۔ جو ہو رہا ہے، جیسے ہو رہا ہے اُسے ہونے دو۔۔۔ بے اختیار عائشہ کے منہ سے نکالا ۔۔۔۔”
” آیت قدرے چونک کر اس کیطرف دیکھنے لگی۔۔۔”
” آپکو ابھی تک کسی سے محبت نہیں ہوئی۔ کبھی آپ اس احساس سے واقف ہونگی ۔۔۔ تو تب میں آپ سے پوچھوں گی۔۔۔ کہ ایسا کہنا کتنا آسان ہوتا ہے۔۔۔”
” غصے سے آیت نے تقریباً اونچی آواز میں لاپروائی سے کہا۔۔۔ ”
” میں تمہارا درد سمجھ سکتی ہوں۔۔۔ عائشہ نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔۔ اور اسکے خوبصورت چہرے پہ جھولتی ہوئی زلفوں کو پیچھے کیا۔۔”
” وہ نرمی سے اسے سمجھانے چاہتی تھی ۔ عائشہ خود بھی بہت فکر مند تھی۔۔۔ کیونکہ وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ آیت کی شادی جیک کے ساتھ ہی ہو۔۔”
” آیت سنجیدہ ہی بیٹھی رہی، اسے عائشہ کی کسی بات کا جواب دینا مناسب نہ لگا۔۔۔ لیکن وہ الجھی نظروں سے عائشہ کو دیکھ رہی تھی۔”
” جب عائشہ کو آیت کیطرف سے کوئی خاص درِ عمل نظر نہ آیا تو وہ
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پھر بولی۔۔”
” شام کو منگنی کی رسم ہے۔
اور تم یہاں رو رہی ہو۔ بچی ہو؟ عائشہ دھیمی آواز میں بولی۔ تاکہ آیت کو برا بھی نہ لگے۔۔”
” تمہیں نہیں پتا ایسے خوشی کے موقع پر روتے نہیں۔۔۔۔ عائشہ نے بڑے پیار سے اسکا منہ اپنی طرف کیا۔۔۔”
” ہاں رو رہی ہوں۔ میں اپنے نصیب پر۔۔۔ آیت نے سرخ آنکھوں سے عائشہ کیطرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔ دلِ تسکین اور ان آنسوؤں کو ضرورت تھی تو صرف اس وقت جیک کے لوٹ آنے کی تھی۔۔”
” اس وقت میرا دل تو یہ چاہ رہا ہے کہ میں پھوٹ پھوٹ کر روں۔۔ مگر رو نہیں سکتی۔ آیت کی سانسیں اکھڑ رہیں تھیں۔۔”
” وہ بار بار سسک رہی تھی۔
جیک کی وجہ سے وہ اس بند کمرے میں تڑپ رہی تھی۔۔۔”
” اور مجھے کچھ نہیں پتا کیا خوشی ہے اور کیا غم؟ گھٹنوں میں سر دیے وہ رو رہی تھی۔۔۔”
” عائشہ سے آیت کی یہ حالت بلکل برداشت نہیں ہورہی تھی۔۔۔ عائشہ کی آنکھیں بھی نم تھیں۔۔۔
آیت کی حالت دیکھ کر عائشہ نے زیادہ اصرار نہ کیا۔۔۔”
” اچھا اب چپ ہوجاؤ خدا کے واسطے۔۔
عائشہ نے نحیف انداز میں آیت کو بوسا دے کر کہا۔۔۔”
” میرے ساتھ ہی کیوں ایسا ہوتا ہے؟؟؟
بے دردی سے اس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے گال پہ گرتے ہوئے آنسوؤں کو صاف کیا۔۔۔ ”
” بڑی بڑی پلکیں بھیگی پڑی تھی ۔ آج اٌس کا ہر پل تکلیف دے تھا۔۔ آج کی شام شاید اس کے سر پر کالی گھٹاوں کیطرح چھانے والی تھی ۔۔۔۔”
” دیکھو جیک نے کافی کوشش کی ہے مگر خالہ مان ہی نہیں رہیں ہیں۔۔۔”
” عائشہ کا اشارہ شفق بیگم کیطرف تھا۔۔۔ عائشہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔ کہ آیت کے دل میں جیک کیلئے نفرت پیدا نہ ہو۔۔۔ ”
” اس میں اب جیک کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔۔۔۔ عائشہ اٌسے سمجھا رہی تھی۔۔۔ مگر آیت تو اس وقت کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھی۔۔”
” اس نے آیت کا دھیان بٹانے کیلئے التجائی انداز میں کہا۔۔۔
چھوڑو یار ! جلدی سے یہ آنسو صاف کرو۔
اور میرے ساتھ باہر چلو۔۔۔ تمہارا دھیان بھی بٹ جائے گا ۔ اور تم مہمانوں سے بھی مل لینا۔”
” عائشہ نے اسکا ہاتھ پکڑا اور آگے بڑھی۔ جبکہ آیت وہیں بت بنی بیٹھی تھی۔۔۔۔ اٌس کا جسم سرد تھا۔۔۔۔”
” مجھے کہیں نہیں جانا ۔ آپکو جہاں جانا ہےجاؤ آپ۔۔۔۔ آیت نے عائشہ کا جھٹکتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ”
” دیکھو کتنے مہمان آئے ہوئے ہیں۔۔ وہ کیا سوچیں گے؟ سوالیہ انداز سے عائشہ نے پوچھا۔۔۔”
” مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں۔۔۔ غیر محتاط انداز میں آیت نے غصے سے کہا۔۔۔”
” کب تک تم اس کمرے میں یوں بیٹھی رہو گی؟ تھوڑا صبر کرو یار! شکستہ لہجے میں عائشہ نے اس سے پوچھا۔۔۔_
” مجھے صبر کی سولی پہ اب تک قرار نہیں آیا اور نہ کبھی آئے گا۔۔۔
آپی میرا دم گھٹ رہا ہے۔۔۔”
” کیونکہ پیچھلے کئ گھنٹوں سے وہ اسی کمرے میں بیٹھی آنسوؤں بہا رہی تھی۔۔۔۔”
” میں مر جاؤں گی جیک کے بنا ۔۔ مجھے بہت گھٹن ہورہی ہے۔۔۔ وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔۔۔ اسکی سانسیں اکھڑ رہیں تھیں۔۔۔ ”
” اتنے میں دوازدے پہ کسی کی دستک ہوتی ہے۔۔۔۔”
” ہیلو؛ دروازے میں جھانک کر یومائلہ نے خوشگوار انداز میں کہا۔۔۔ ”
” یومائلہ کو فون کر کہ عائشہ نے جلدی بولا لیا تھا۔ جب کے یومائلہ نے رات کو منگنی کی رسم کیلئے شامل ہونا ہی تھا۔۔۔”
” یومائلہ کو دیکھ کر آیت کو تھوڑا اطمینان ہوا۔۔۔ کیونکہ یومائلہ آیت کی بیسٹ فرینڈ جو تھی۔۔۔ اس کے دل کو تھوڑا قرار ملا ۔۔
آیت روتی ہوئی یومائلہ کے گلے لگ گئ۔۔۔”
” چپ۔۔۔ میں آگئ ہوں نہ۔۔ اب بلکل بھی رونا نہیں ہے تم نے۔۔ یومائلہ نے آیت کے آنسوؤں صاف کیے اور پھر اسکی پیشانی پہ بوسا دیا۔۔”
” یومائلہ بھی آیت سے چھوٹی بہنوں کی طرح پیار کرتی تھی۔۔ کیونکہ بہت ہی چھوٹے دل کی تھی ہر بات کو دل پہ لگا لیتی تھی۔۔۔”
” عائشہ۔۔ تمہیں حیات باہر بلا رہی ہے۔۔۔ یومائلہ نے کہا۔
یومائلہ کا لہجہ بے حد بجھا بجھا سا تھا۔۔۔
اپنی دوست کی آنکھوں میں آنسو تو یومائلہ کو بھی پسند نہیں تھے۔۔”
” اچھا ٹھیک ہے میں جاتی ہوں۔۔ عائشہ اٹھ کر دروازے کیطرف بڑھی۔۔۔”
یومائلہ تم ایک کام کرو، تم اس کے پاس ہی بیٹھ جاؤ۔ عائشہ نے مڑ کر یومائلہ سے مخصوص انداز میں کہا۔۔۔”
” چلو ٹھیک ہے جاؤ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یومائلہ نے دھیمی آواز میں اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔”
” یومائلہ میں نے تمہیں اپنا والٹ دیا تھا۔
کہاں ہے وہ؟ اس میں سجل کی رینگ ہے۔۔۔”
” حیات کمرے میں آئی، جہاں آیت اور یومائلہ بیٹھیں تھیں۔۔۔۔ حیات کی پریشانی بھانپ چکی تھی۔۔۔ وہ بے حد گھبرائی ہوئی تھی۔۔۔”
” او سوری ! وہ تو میں نے ڈائنگ ٹیبل پہ رکھی تھی ۔۔۔ پانی کی بہت پیاس لگی تھی مجھے،،، تو میں نے وہاں رکھ دی۔”
” میں اٹھانا بھول گئ۔۔۔۔ سوری۔۔۔
یومائلہ نے دانتوں تلے زبان دے کر ناسمجھی میں کہا۔۔۔”
” روکیں میں دیکھتی ہوں۔۔ یومائلہ فکر مندی سے کھڑی ہوگئی۔۔”
” نہیں تم آیت کے پاس ہی رہو۔ حیات نے ہاتھ بڑھا کر کہا۔
میں خود دیکھ لوں گی۔۔۔۔ اپنے بال سیٹ کرتے ہوئے وہ واپس باہر ہال کیطرف ہڑبڑاتی ہوئی چلی گئی۔۔۔”
” یار! ایک تو تم میں صبر بلکل بھی نہیں ہے۔۔ یومائلہ نے گہری سانس بحال کر کہ کہا۔۔۔”
” اگر جیک اپنی زندگی میں آگے بڑھ رہا ہے تو اُسے پڑھنے دو۔ آیت نے چونک کر یومائلہ کیطرف دیکھا۔”
"مجھے نہیں لگتا ہے کہ اس کی اتنی کوشش کے باوجود تمہیں اس کی رہ میں کوئی رکاوٹ پیدا کرنی چاہیے۔۔۔۔
یومائلہ نے آیت کی گال پہ بہتے ہوئے آنسو، بڑی اپنائیت سے صاف کر کہ کہا۔۔۔”
” ٹھیک ہے اگر میں جیک کی رہ میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہوں۔ تو میں اب کبھی بھی اس کی خوشیوں کے بیچ نہیں آؤنگی۔۔۔معصومانہ انداز میں آیت نے دونوں ہاتھوں سے اپنے آنسو صاف کیے۔۔ وہ اس وقت بلکل بچی لگ رہی تھی۔۔۔”
” پرومس؟ یومائلہ نے اپنا دائیں ہاتھ آیت کیطرف بڑھایا۔۔۔”
” ہاں پرومس! درد بھرے انداز میں آیت نے یومائلہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ اس نے شاید قسمت سے سمجھوتہ کرنے کا سوچ لیا تھا…”
” یومائلہ بات سنو! وہ والٹ نہیں مل رہا۔
پریشان چہرہ لے کر وہ یومائلہ کے پاس واپس آئی۔۔
پیلز دو منٹ کیلئے تم میرے ساتھ باہر آنا۔
کپکپاتی آواز سے حیات نے یومائلہ کو اپنے ساتھ آنے کا کہا۔۔”
” ایک منٹ میں آتی ہوں۔ رونا نہیں پیلز۔۔۔۔
یومائلہ نے بڑی اپنائیت سے آیت کے رخسار پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔
پانچ گھنٹے مسلسل رونے کی وجہ سے اب آیت کی آنکھیں پتھر کی ہوگئی تھیں….”
—————————– ————————–
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” سب مہمان آچکے تھے۔ شام کو منگنی کی رسم تھی۔ ہر طرف مہمانوں کی چہل پہل تھی۔ لیکن وہ اپنے کمرے میں اداس بیٹھا تھا۔۔۔”
” جیک کے ہاتھ میں کچھ فائلز تھیں جنہیں وہ الماری میں رکھنے کیلئے ۔ الماری کیطرف بڑھ رہا تھا۔”
” کیا میں آسکتی ہوں؟ حیات نے خوشگوار انداز میں پوچھا۔۔”
” جیک نے جیسے ہی حیات کو دیکھا اس نے فائل کو اپنے پیچھے چھپا لیا تھا۔۔۔۔”
” ہاں آجاؤ۔ الجھی الجھی آواز میں اس نے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔”
” جیک، نے جلدی سے الماری کھولی۔ وہ فائل اٌس میں رکھ دیں۔۔”
” کھڑی کیوں ہو؟ بیٹھو ۔ جیک نے مڑ کر اٌسے بیڈ کیطرف بیٹھنے کا اشارہ کیا۔”
” حیات جیک کیلئے کھانا لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔۔ کیونکہ پیچھلے دو دن سے جیک نے کچھ نہیں کھایا تھا۔۔”
” یہ لو کھانا، مجھے پتا ہے تم نے کچھ بھی نہیں کھایا۔۔
اور زرا یہ تو بتاؤ تم مجھ سے کیا چھپا رہے ہو؟ مشکوک نظروں سے وہ جیک دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔”
” کچھ بھی نہیں۔۔۔ جیک نے اٹکتے اٹکتے جواب دیا۔۔۔۔ وہ سوالیہ نظروں سے جیک کو دیکھ رہی تھی۔”
” نہیں کچھ تو ضرور چھپا رہے ہو تم مجھ سے۔۔۔ حیات الماری کیطرف بڑے تجسس سے دیکھنے لگی۔”
” دیکھاؤ کیا تھا تمہارے ہاتھ میں؟ جو تم نے جلدی جلدی سے الماری میں رکھ دیا ہے۔۔۔ وہ جیک پر نظریں گاڑتے ہوئے بڑے سوالیہ انداز سے بولی۔”
” جیک گھبراتا ہوا اس کے پاس بیٹھ گیا۔
وہ تو میرے سارے اہم ڈاکیومنٹ ہیں”
” حیات کو تھوڑی تسلی ہوئی۔۔۔ مگر وہ ابھی بھی الجھن سے بھرپور نظروں سے حیات کو دیکھ رہا تھا۔”
” کیا دیکھ رہے ہو؟ کھانا شروع بھی کرو گے یا مجھے اور کھانے کو گھورتے رہو گے؟ پیشانی پہ بل ڈالتے ہوئے اس نے استفسار کیا۔۔۔”
"جیک نے ایک نوالا زبردستی کھایا۔ کیونکہ حیات اتنا اصرار جو کر رہی تھی۔۔۔
بس مجھ سے اب اور نہیں کھایا جائے گا۔۔۔ جیک نے بڑی بیزاری سے پلیٹ کو واپس حیات کے کیطرف کھسکا دیا ۔۔”
"صرف ایک نوالا لگایا ہے تم۔۔۔ اس سے کیا ہوگا؟ وہ منہ بسورتی بولی۔”
” کھانا پینا مت چھوڑو جیک۔۔۔۔ نحیف انداز میں حیات نے کہا۔۔۔ اس کے چہرے پہ فکر مندی کے آثار نمایاں تھے۔۔۔
جیک کی آنکھوں میں مایوسی صاف دکھائی دے رہی تھی۔۔”
” I know very well !
” یہ سب تمہاری مرضی کے خلاف ہو رہا ہے۔۔
اس میں تم ذرا بھی خوش نہیں ہو۔۔۔”
” وہ اسکے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی۔۔ وہ بڑی ہمدردی سے جیک کو دیکھ رہی تھی۔۔”
” سنو میرا ایک کام کرو گی؟ جیک نے سرد آہ بھری۔۔۔ اور التجائی نظروں سے حیات کو دیکھنے لگا ۔۔۔”
” ہاں بولو۔ ایک کیا ۔۔۔۔ ہزار کام کرونگی میں اپنے بھائی کے۔۔۔۔ پٌر جوش انداز میں اس نے کہا، وہ اس کے اور قریب ہوکر بیٹھ گئ۔۔۔۔۔۔۔”
” کیا بات ہے؟ تم اتنی مہربان کب سے ہوگئی؟ جیک نے زخمی مسکراہٹ سے اس کیطرف دیکھ کر استفسار کیا۔۔”
” جب سے تم ایک اچھے بھائی بنے ہو۔۔۔۔ تب سے۔۔۔۔۔
اس نے جیک کے کندھے پر بڑی اپنائیت سے ہاتھ رکھا ۔۔۔ اور وہ ہلکا سا مسکرائی۔۔۔۔”
” اچھا اب بتاؤ کیا کہنا ہے تمہیں؟؟؟ حیات فوراً مٌدے پہ آئی۔۔۔ اور الجھی نظروں سے جیک کو دیکھنے لگی۔”
” یہ کھانا تم آیت کے پاس لے جاؤ۔۔ کیونکہ اٌس نے بھی نہیں کھایا ہوگا ۔۔۔۔ جیک نے فکر مند لہجے سے کہا۔۔۔”
” تم تو کھاؤ لو پہلے۔ اٌسے بھی کھلا دوں گی۔ تم اٌسکی فکر نہ کرو۔۔۔ حیات نے مطمئن کرنے والے انداز میں ، جیک کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔”
” ہیلو! کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔
دروازے کو نوک کیے بنا سجل کمرے میں داخل ہوئی۔ یہ بات جیک کو اچھی نہ لگی۔۔۔”
” ڈانس۔ جیک نے ہلکی آواز سے منہ بٌرا بنا کر کہا ۔
حیات اس بات پہ کھلکھلا کر ہنسی.”
” کیا کہا آپ نے؟ جیک کیطرف بڑھتے ہوئے سنجیدگی سے اس نے استفسار کیا۔”
” کچھ نہیں کہا۔۔ جیک غصے سے بولا۔”
” نہیں مجھے لگا آپ نے کچھ کہا ہے۔۔۔ سامنے پڑا ٹیبل کھینچ کر اس نے بیڈ کے قریب کیا اور ٹرے اس پہ رکھ کر خود بھی ان کے پاس بیڈ کی سائیڈ پہ بیٹھ گئ۔۔۔۔”
” میں نےکچھُ نہیں کہا ۔۔۔ جیک نے اب بیزاری سے کہا۔۔۔”
” میں آپ کے لیئے کھانا لے کر آئی ہُوں۔ کیوں کہ آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا نہیں تھا۔۔۔ وہ فکر مندی سے بولی ۔۔۔ جیک حیرانگی سے اسے دیکھنے لگا۔”
” میں نے کھانا کھا لیا ہے۔۔۔۔ تمہیں میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ جیک نے سادہ انداز سے کہا۔۔”
” کیوں نہیں ضرورت؟ سجل نے ایک نظر جیک کو دیکھا پھر مایوسی سے کہا۔”
” یہ کیسی بات کی ہے آپ نے؟ میں آپ کی ہونے والی بیوی ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی سے اپنا حق جتانے لگی تھی۔۔ اور یہ سب جیک بلکل بھی نہیں چاہتا تھا۔”
” ہممم بلکل ٹھیک کہا تم نے۔ جیک نے سرسری نظر سے اسے دیکھا۔ وہ متاثر ہوئے بغیر بولا۔۔۔”
” ہونے والی ہو۔ لیکن ابھی ہے تو نہیں ہو نہ؟
شکستہ لہجے سے سجل کے چہرے پہ نظریں گاڑتے ہوئے بولا۔۔
پیشانی پہ بل ڈالے وہ جیک کو دیکھے جارہی تھی۔۔۔”
” سجل نے گہری سانس لے کر بولنا شروع کیا۔۔
آپ نے باہر بھی مجھ سے اسی طرح بات کی ہے اور یہاں بھی آپ ایسا ہی کر رہے ہو۔۔۔ بات اتنی ہے نہیں ہے جیک۔۔”
” جتنا آپ غصہ کر رہے ہو۔۔۔۔۔ سجل کا چہرہ سخت ہوگیا تھا۔ اس نے خفگی سے کہا۔۔۔”
” مجھے آپکی فکر ہو رہی تھی۔ کیونکہ میں نے صبح بھی آپکو دیکھا تھا۔۔ آپ نے صبح بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔ اور نہ دوپہر کو۔۔۔ معصومانہ انداز میں اس نے دھیمی آواز میں کہا۔۔”
” جیک نے آنکھیں اس کی طرف گھمائیں۔
وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس کے چہرے پہ فکر مندی کے آثار نمایاں تھے۔۔۔”
” کیونکہ جیک کی آنکھوں میں ابھی بھی آیت کیلئے پیار جھلک رہا تھا، سجل کیلئے نہیں۔۔۔”
” دونوں کی آنکھوں میں خون اترا تھا۔۔
جیک اپنی محبت کیلئے لڑ رہا تھا اور سجل اپنی محبت کیلئے۔۔۔۔”
” اوہ! تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ابھی سے ایک اچھی بیوی بننے کی کوشش کر رہی ہو؟ جو تم کبھی بن نہیں سکتی۔۔۔۔۔ وہ سوالیہ نظروں میں سختی سے بولا۔”
” آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں؟ سجل نے خفگی سے سے کہا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔”
” کچھ لمحے سوچنے کے بعد وہ پھر بولی۔۔
میں جانتی ہوں آپ اس رشتے سے خوش نہیں ہیں۔۔۔ اس نے روندے لہجے میں کہا۔”
” میں اپنے حق کیلئے احتجاج نہیں کروں گی۔ اس نے کپکپاتی آواز میں کہا۔”
” میرے اندر فقط خاموشی اور سناٹا ہے۔۔ میں نے کبھی آپ سے کوئی شکوہ نہیں کیا ۔۔ یہ بات آپ بھی جانتے ہیں۔۔”
” جیک سر نیچے جھکائے ضبط پاتے ہوئے اس کی ہر بات سن رہا تھا۔۔۔”
” جانتی ہوں آپ کے دل میں میرے لیے نفرت اور بےشمار بدگمانیاں ہیں۔۔۔ وہ اضطرابی میں بولی۔۔۔”
” نفرت نہیں کرتا۔۔۔ جیک نے کچھ سوچتے ہوئے دوستانہ انداز میں کہا۔۔۔
ایسا ہی ہے جیک۔ وہ جیک کی طرف اپنا رُخ کر کے بولی۔”
” تو پھر تم اس زبردستی کے رشتے میں کیوں بندھ رہی ہو؟ جیک نے اونچی آواز میں پوچھا۔ سجل قدرے چونک کر جیک کے اس رویے پہ اسے دیکھنے لگی ۔۔۔”
” کیونکہ اس میں بڑوں کی رضا مندی ہے اس لیے۔۔۔۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر آپ بچپن جیسے نہیں رہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔”
” آپ مجھے نظر انداز کرنا چاہتے ہیں۔ تو میں کیا کرو؟ میرے حواسوں میں تو آپ ہی چھائے ہوئے ہیں۔۔۔ وہ تیزی سے بنا سانس لیے بول رہی تھی۔۔۔”
” دیکھو تم کوشش تو کر سکتی ہو نہ؟؟؟ وہ سجل کا ہاتھ تھام کر بڑی اپنائیت سے بولا۔۔۔”
” وہ سوچوں میں گم تھی۔۔۔ کہ جیک کی ایک دم نظر اس پہ پڑی تو وہ رو رہی تھی۔۔۔”
” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ بولی۔
آپ یہ کیوں بھول رہے ہو۔ کہ یہ رشتہ میں نے نہیں کروایا۔۔ آپکی ماما اور میری مما کی خواہش سے ہی یہ رشتہ
ہوا ہے۔۔۔”
” وہ گھبرائی ہوئی تھی اس کی پیشانی پہ پسینے کے قطرے نمایاں تھے۔۔۔ وہ جیک کو چھوڑنے پہ آمادہ نہ تھی۔۔”
” پیلز میرے سامنے رونا مت۔۔ میں نہیں پگھلنے والا تمہارے ان آنسوؤں سے۔۔۔۔ جیک کو کوفت ہونے لگی۔۔۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔”
” آپکو میرے آنسوں فضول لگ رہے ہیں؟ جانتی ہوں آپکو ان آنسوؤں کی کوئی قدر نہیں ہے۔۔ اس نے مصنوعی خفگی سے جیک کیطرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔”
” جیک میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔
آپ کیوں نہیں سمجھ رہے۔۔۔ اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں اپنی خدشات کا اظہار کیا۔۔”
” آپ جیسے بھی ہو! مجھے ویسے ہی قبول ہو۔۔۔ وہ ملتجی انداز میں بولی۔”
” میں کچھ نہیں سمجھنا چاہتا۔۔ کیونکہ میں تم سے محبت نہیں کرتا۔۔۔۔ جیک نے جھٹ سے بےاختیاری سے کہا۔”
” پیلز بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔
جیک نے ہاتھ جھوڑ کر التجائی انداز میں کہا۔۔۔”
” تم ابھی تک ایسے ہی بیٹھے ہو؟ پیشانی پہ بل ڈالے وہ مشکوک نظروں سے جیک کو دیکھتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئیں۔۔۔”
” سارے مہمان آچکے ہیں بیٹا۔۔۔
اس نے بڑی حیرت سے ماں کیطرف دیکھا اور جھٹ سے وہ پیچھے ہٹا۔۔۔”
” سجل نے اپنی آنکھوں کی نمی کو چھپایا کیونکہ اس کی آنکھیں نم تھیں۔ وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی ۔”
” لگتا ہے آج آپکو یاد آگیا کہ ایک بیٹا بھی ہے جیک زخمی مسکراہٹ سے بولا….”
” یہ کیا بات ہوئی بھلا؟؟؟ شفق بیگم نے کہا۔”
” ماما پیلز آپ اپنے بیٹے کیلئے اتنا نہیں کر سکتیں جیک نے ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے، اور ان کو بیڈ پہ بیٹھا کر خود نیچے،ان کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گیا۔۔”
” ماما میں نے ہیمشہ آپکی فرمابرداری کی،
میں نے آپکو کبھی بھی رسوا نہیں کیا۔۔۔ رندھے لہجے میں گویا ہوا..۔۔”
” اب اگر آج آپکو میری ایک بات میری ماننی پڑ رہی ہے تو اب ایسا کر رہیں ہیں۔۔۔ جیک سر نیچے جھکائے مایوسی سے بول رہا تھا۔۔۔”
” شفق بیگم پگھل رہیں تھیں وہ جیک سے بے حد محبت کرتیں تھیں۔۔۔ وہ بھی جیک کو کبھی رسوا کرنا نہیں چاہتیں تھیں۔۔۔۔”
” ماما میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔۔۔”
” شفق بیگم حیرانگی سے جیک کو دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔”
” ہاں پوچھو بیٹا۔ شفق بیگم نے جیک کا سر اوپر اٹھایا۔۔”
” ماما آپکو آیت کیوں نہیں پسند؟؟؟ جیک نے سرد آہ بھری اور سوالیہ نظروں سے اپنی ماں کو دیکھنے لگا۔۔”
” بات پسند یا نا پسند کی نہیں۔۔ شفق بیگم نے جیک کے سر پہ بڑے پیار سے ہاتھ پھیرا۔۔۔ جیک کو تھوڑا اطمینان ہوا”
” وہ انہیں دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا۔۔۔۔”
” آیت بھی ایک اچھی لڑکی ہے اس میں کوئی شک نہیں۔۔۔ شفق بیگم نے اثبات میں سر ہلا کر کہا۔ اس پہ جیک بے حد خوش ہوا۔ اس کے دل کو قرار آیا۔۔۔”
” مگر تمہارا راشتہ تو بچپن میں ہوچکا ہے بیٹا۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولیں۔۔۔”
” ماما آج کل کوئی بھی ان سب رسم و رواج کو ترجیح نہیں دیتا۔ جیک اکتاہٹ بھرے انداز میں بولا۔۔”
” جیک اٹھ کر ان کے پاس بیڈ پہ بیٹھ گیا۔ آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں، مجھے جھوٹ کے رشتوں سے کتنی نفرت ہے۔ اور یہ سب میں نے آپ ہی سے سیکھا ہے۔۔۔”
” میں نے آج تک خود کو جھوٹے رشتوں سے دور رکھا ہے۔۔۔ اور نہ ہی کبھی ایسے رشتوں کو پروان چڑھانے دیا ہے۔ تاکہ زندگی میں کبھی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔۔۔
جیک نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔”
” وہ بنا سانس لیے بول رہا تھا۔۔
میں اب بھی آپ سے یہی کہوں گا، کہ میں سجل کو وہ پیار کبھی نہیں دے سکتا۔…ماما میں نے حیات کو اپنی جان سے بڑھ کر چاہا ہے تب سے جب مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ محبت کیا ہے…”
” جیک سے بولنا مشکل ہوا تھا.حلق میں جیسے کچھ اٹک گیا ہو… جیک نے اپنے لہجے کو نرم کرنے کی کوشش کی۔ وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ وہ اپنی ماں کو منا لے۔۔۔”
"شفق بیگم کو اپنی اولاد عزیز تھی لیکن وہ سجل کا دل بھی نہیں دکھا سکتیں تھیں وہ زبان دے چکیں تھیں۔”
” پیلز پیلز۔۔ جیک روہانسہ ہوا تھا…ماما میرا دماغ دل سب کچھ بند ہورہا ہے میں ایسے مر جاؤں گا آیت کے بغیر میں نہیں جی سکتا… اب جیک شفق بیگم کی گود میں سر دیے بے اختیار رو پڑا…۔۔”
” شفق بیگم سے اپنے بیٹے کی یہ کیفیت برداشت نہ ہو پارہی تھی…وہ تزبزب کا شکار تھیں…”
"مگر میں اب تمہاری ممانی کو کیا جواب دوں گی؟ وہ سجل کو کیا کہیں گی؟ میں اسکا دل دکھانے سے ڈرتی ہوں..”
” شفق بیگم نے سادہ انداز میں کہا۔ جیک نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔۔۔ اور وہ کسی سوچ میں گم ہوگیا۔۔۔ جیک کو جیسے چپ کی مہر لگ گئی تھی۔”
” اک لمبی خاموشی توڑتے ہوئے شفق بیگم بولیں۔۔۔
مجھے پہلے بتا دیتے میں خود آیت کو اپنا بنالیتی… میں نے تو تمہاری ممانی کو بڑے فخر سے کہا تھا کہ میرا جیک ایسا نہیں ہے….۔ شفق بیگم نے پریشان انداز میں کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔۔۔۔”
” توماما آپ اٌن کو بلکل آسانی سے بتا سکتی ہیں۔۔ اگر انہوں نے آپ سے کہا تھا۔۔۔
وہ دوستانہ انداز میں بولا۔”
” اگر آپ کہتی ہیں تو میں خود ممانی سے بات کروں؟ جیک نے فوراً بات کا حل نکالا۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کی لہر تھی۔۔”
” نہیں، تم کوئی بات نہیں کرو گے، اچھا نہیں لگتا۔۔ شفق بیگم نے اپنا لہجہ یکساں رکھا۔۔۔ وہ پیشانی پہ بل ڈالتے ہوئے انہیں دیکھنے لگا۔۔۔”
” پھوپو جیک کی منگنی آج ہی ہوگی مگر مجھ سے نہیں آیت سے۔۔۔ کمرے کے باہر کھڑی سجل سب سن رہی تھی۔۔۔۔”
” وہ یہ الفاظ کہتے ہوئے ایک دم کمرے میں داخل ہوئی۔ کہ جیک اور شفق بیگم نے قدرے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔”
” یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ شفق بیگم کھڑی ہوگئیں۔ سجل کی آنکھوں میں مایوسی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔”
” جیک مجھے پہلے بتا دیتے. میں کبھی بھی تمہاری خوشیوں میں دخل نہیں دے سکتی… میں نے سب سن لیا ہے۔ خود کو نارمل دیکھاتے ہوئے سجل نے مسکرانا چاہا…”
” شفق بیگم اور جیک حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔”
” پھوپو اس میں اتنا حیران ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔ سجل نے شفق بیگم کو پیشان دیکھ کر مطمئن کرنے والے انداز میں کہا.. اسکا لہجا رندھا سا تھا…”
” آپ پیلز جیک کی شادی آیت سے کروائیں۔۔ سجل نے آنکھوں میں آئی نمی کو فوراً چھپایا۔….وہ التجائی نظروں سے شفق بیگم کو دیکھ رہی تھی۔”
"جیک بےہقینی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ اسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ یہ سب سجل خود کہہ رہی ہے۔۔۔”
"وہ حیرانگی سے سجل کی ہر بات کو سے سن رہا تھا۔۔۔ لیکن سجل دل سے خوش نہیں تھی۔۔ اس کی آنکھوں میں درد تھا ۔۔۔ بچپن سے لے کر،اب تک کہ سارے خواب سجل کے ٹوٹ گئے تھے۔۔”
” وہ اندر ہی اندر ٹوٹ چکی تھی۔ وہ خود کو جیک کے سامنے مضبوط ثابت کرنا چاہتی تھی۔۔۔”
” اور رہی بات ماما کی۔ ان کو میں خود دیکھ لوونگی ۔ آپ اسکی فکر نہ کریں۔۔۔ زخمی مسکراہٹ سے اس نے کہا۔۔”
” اچھا رکو میں آتی ہوں۔۔۔ شفق بیگم کو کچھ کام یاد آگیا تھا وہ کمرے سے چلیں گئی۔۔”
” سجل پیلز ! اگر ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔ جیک نے ہاتھ جوڑ کر مایوسی سے کہا۔۔۔وہ دل سے سجل کو رسوا کرنا نہیں چاہتا تھا ۔”
” سجل کی خالی خالی آنکھیں دیکھ کر جیک کو اس پہ ترس آرہا تھا۔۔۔ لیکن جیک خود دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔۔”
” نہیں آپ ایسا مت بولیں۔۔ سجل نے جیک کے ہاتھ پکڑ کر اسے ایسا کرنے سے روکا۔۔ کہ وہ معافی نہ مانگے۔۔ وہ اپنی محبت کو خود کے سامنے گھڑگھڑاتا دیکھ کر فوراً بولی۔۔”
” میں واقعی آپ کو پیار نہیں دے سکتی…. جو آیت دے سکتی ہے۔۔ سجل نے اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کی.. اور یک دم دروازے سے باہر نکل گئی…”
” اندر کچھ ٹوٹ سا گیا تھا جسے بچپن سے دل کے اونچے مقام پر بیٹھایا تھا آج وہ دیوتا جھٹ سے نیچے گر گیا تھا…دل کی زمین زخمی ہو چکی تھی….مگر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی سوائے ضبط کے کچھ نہ تھا…. کچھ بھی تو نہ تھا…”
—————————– —————————–
” آیت کہاں ہے۔؟ جیک ہڑبڑاتا ہوا کچن میں حیات کے پاس گیا۔ وہ جلدی میں تھا۔ وہ اپنی اس خوشی کا اظہار سب سے پہلے آیت سے کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ ”
” اس کی نظریں آیت کی منتظر تھیں۔۔
وہ اپنے کمرے میں ہے۔ حیات فروٹ کاٹتے ہوئے بولی ۔۔ جیک نے فوراً اپنے قدم پیچھے کیطرف بڑھائے۔۔ کہ اب یہ، اسے کوئی کام نہ بول دے۔۔۔”
” اچھا میرا ایک کام تو کرو۔۔ جیک کے ساتھ وہی ہوا جو اس نے سوچا تھا۔۔۔”
” حیات نے جیک کو آواز دی۔۔۔
رکو بعد میں کر دوں گا۔ جیک بڑے بڑے قدم بڑھاتے ہوئے سیڑھیوں کیطرف بڑھ رہا تھا۔۔ وہ بال سنواتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔۔۔ جیک کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ہو۔۔۔”
” ایک تو یہ، دوسرے ان کے لوگوں کے کام ۔ وہ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ اس نے حیات کی بات ان سنی کردی۔۔”
” ارے! کہاں جارہے ہو؟ حیات کچن سے باہر اس کے پیچھے تک گئ ۔۔۔”
” آرہا ہوں۔ جیک نے دوسرے فلور پہ پہنچ کر حیات کو آواز دے کر کہا۔۔۔۔”
” جب جیک نے کوئی خاص درد عمل ظاہر نہ کیا تو وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے کچن میں واپس لوٹ گئی۔۔”
——————————– ————————–
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” بہت خوش ہو نہ آپ؟ آیت نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں استفسار کیا۔۔”
” ہممم میں واقعی میںِ بہت خوش ہوں۔
وہ ہونٹوں تلے مسکراہٹ چھپائے بولا۔۔
میرے چہرے سے تمہیں نظر تو آ ہی رہا ہے۔۔۔۔ جیک نے بلکل سنجیدگی سے کہا۔۔”
” آیت جیک کو تیکھی نظروں سے گھور رہی تھی۔۔۔
آیت اپنے انگلی سے انگھوٹھی اتار رہی تھی جو جیک نے اسے پہنائی تھیں۔۔”
” اگر آپ کا رشتہ بچپن سے سجل کیساتھ تہہ تھا، تو آپ نے مجھ سے آج تک اس بات کا ذکر کیوں نہیں کیا۔۔
آیت نے دھیمی آواز میں پوچھا.”
” اچھا بیٹھ کر بات کرو۔۔۔
آیت کی اس بات پہ جیک نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اسے بیڈ پر بیٹھایا ،اور خود کرسی پر اس کے مدمقابل بیٹھ گیا۔۔۔”
” اب بولو۔۔ جیک تھوڑی تلے ہاتھ دےکر، بڑی حسرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس وقت جیک کو اس کا مصوم چہرہ دیکھ کر اس پر بےحد پیار آرہا تھا۔۔”
” اگر آپ کا ارادہ سجل سے شادی کا ہی تھا۔۔ تو میری زندگی کو عذاب میں کیوں ڈالا آپ نے؟
” آیت نے تقریباً چیخ کر کہا۔۔۔ جبکہ جیک اپنی مسکراہٹ پر قابو پاتے انہماک سےاسے دیکھ رہا تھا..”
” وہ آج آیت کی ہر بات سننا چاہتا تھا… اسکی ساری بد گمانیاں ختم کرنا چاہتا تھا..”
” آپ کی بےرخی مجھے اندر ہی اندر کھائے جارہی ہے۔۔۔ زندگی برباد کرنے کیلئے میں ہی آپ کو نظر آئی تھی؟
” آنسو آنکھوں کے پیالوں میں بھر چکے تھے… وہ خود کو بہت کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔”
” وہ آج جیک کے سامنے رو کر بزدل نہیں بننا چاہتی تھی۔۔۔ وہ خود کو اب مضبوط دیکھانا چاہتی تھی۔۔۔ اب اسے صرف یہی لگتا تھا، کہ اس کے آنسو جیک کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتے.”
” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد جیک نے اپنی بات کا آغاز کیا۔۔”
” کیونکہ تم بہت خوبصورت تھی نہ اس لیے۔۔۔ جیک نے مخمور انداز میں آنکھ جھپکا کر کہا۔”
” اور اس بات سے آیت کو اور رونا آرہا تھا۔ کہ جیک شاید واقعی اس سے ٹائم پاس کر رہا تھا۔۔۔”
” آپ نے ایک مرتبہ بھی نہیں سوچا کہ آپ کے اس فریب سے کسی کی زندگی دکھوں اور تکلیفوں سے بھر سکتی ہے۔۔۔ آیت نے تیز و تند آواز میں کہا۔۔۔۔”
” میں بھی تو ہر وقت تمہارے خیالوں میں کھویا رہتا تھا۔۔ میرا دل بھی تم سے کہاں بھرتا تھا۔۔ ہر وقت تمہاری طلب ہی رہتی تھی۔۔۔”
” اور جیک حسرت بھری نگاہوں سے آیت کو دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ آج ان کا خواب پورا ہونے جارہا تھا۔۔۔”
” لیکن یہ سب اتنی جلدی آیت کو نہیں بتانا چاہتا تھا۔ وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔۔”
” جو سوچتی ہو سوچ لو۔ میں پھر بھی کچھ نہیں کہوں گا۔۔ جیک جو خاموش بیٹھا آیت کی باتیں سن رہا تھا۔ آیت کی اس بات پہ جیک کو بولنے پر مجبور کیا۔۔”
” تمہیں بولنے کا پورا حق ہے۔
آج جتنا مرضی سنا لو ۔۔ مارنا چاہتی ہو ۔۔۔ تو مار لو۔۔ جیک واقعی سچ بول رہا تھا۔ مگر آیت کو لگ رہا تھا کہ سجل کے ملنے سے جیک نے اسے چھوڑ دیا ہے۔”
” آپ کچھ نہیں کہو گے؟
وہ سوالیہ لہجے میں حیرت سے بولی۔”
” نہیں۔ میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔۔۔
وہ جیک کو مایوس اور شکوے سے بھرپور نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ ”
” وہ اب ضبط پانے کی بھرپور کوشش کرنے لگی۔ یہ سوچ کر کہ جیک کو تو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔۔۔”
” جیک نے سر اٹھا کر آیت کو دیکھا تو اس کی آنکھیں شکوے سے بھری پڑی تھیں۔۔۔ ایک لمبی خاموشی توڑتے ہوئے جیک نے کہا۔۔”
” اگر میں کچھ کہوں، تو تم نے کون سا اس پہ عمل کرنا ہے ۔۔۔ جیک نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا۔۔ آیت نے حیرانگی سے جیک کیطرف دیکھا کہ پتا نہیں کونسی بات جیک اس سے منوائے گا۔۔۔”
” آپ جانتے ہیں نہ میں آپکو کسی اور کیساتھ نہیں دیکھ سکتی ؟
کیوں کیا میرے ساتھ آپ نے ایسا؟ اس کے لہجے میں اضطرابی تھی۔۔ وہ کس قدر جھنجھلا کر بولی۔۔”
"آیت یقین کرو میں بہت بےبس ہوں۔۔۔
جیک نے سادہ انداز میں کہا۔۔
اور تم سے جدا ہونے کی وجہ بھی تم ہی ہو۔۔۔۔۔”
"آیت نے بائیں کندھے پر لٹکے بال ایک جھٹکے سے پیچھے کیے۔۔ جیک کا دل الجھ کر رہ گیا۔ ”
” اس سے پہلے وہ کچھ کرتا۔ آیت غصے سے کھڑی ہوئی۔”
” واہ کیا بات ہے مسڑ جیک آپ کی۔۔۔ اب تو یہی سننا باقی رہ گیا تھا۔۔۔۔ آیت تین مرتبہ تالی بجاتی ہوئی جیک کے پاس آکھڑی ہوئی۔۔۔”
” سنو! ہمیشہ خوش رہنا۔….بامشکل ہنسی کنٹرول کرتے وہ گویا ہوا…”
” مجھے آپ کے کسی بھی مشورے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ آیت نے نفی میں سر ہلایا۔۔”
” جیک انہماک سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
آیت نے نفی میں سر ہلایا۔۔”
” اور میں اب خوش رہوں یا اداس۔
اس کا فیصلہ اب آپ نہیں کریں گے۔۔
یہ اب آپ کا سر درد نہیں ہے ۔ کہ میں کیسے جیوں؟ وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولتی ہوئی بیڈ پہ ایک دم سے بیٹھ گئ۔۔۔ وہ جیک سے مزید شکوے نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔”
” آپ نے مجھے جس راستے میں چھوڑ دیا ہے نہ وہ راستہ کبھی بھی اپنی منزل کو نہیں پہنچے گا۔۔۔ الجھی الجھی آواز میں اس نے مایوسی سے جیک کو دیکھا۔۔”
” میری محبت آپ تھے۔۔ اور آپ ہی رہو گے۔۔ آگر آپ نے اپنا جیون ساتھی کسی اور کو چنا ہے۔۔۔۔ تو آپ کو، آپ کی آنے والی زندگی بہت بہت مبارک ہو۔۔۔۔۔”
” آیت کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ وہ رونا تو چاہتی تھی مگر جیک کے سامنے نہیں۔۔”
” کیا کرو گی میرا؟ جیک نے پیشانی پہ بل ڈالتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔۔”
” جب تمہاری زندگی میں ہی کوئی اور آنے والا ہے جو تم سے ہی محبت کرے گا….دیکھو میں نے تمہارے لیے کچھ سوچ رکھا ہے.. ”
” جیک نے اس کے ملائم ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے۔۔ وہ بلکل ٹھنڈی پڑ رہی تھی۔۔ اس کے ہاتھ پیر نیلے پڑ گئے تھے۔۔۔ وہ بے ہوش ہونے کے قریب تھی… آیت نے جلدی سے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے آزاد کیے۔۔۔”
” یہ کیا کہہ رہیں ہیں؟ اس بات سے اچھا آپ میرا گلا گھونٹ دیں…
صاف صاف بولو کیا بولنا چاہتے ہو۔۔ پہلیاں بجھانا بند کرو۔۔ میرا سر پھٹ رہا ہے… ”
"جیک کی محبت بھری نگاہوں کا انداز فوراً بدلہ۔
اب سمجھ نہیں آ رہا تو کیا ہوا؟ وہ اسے گم سم دیکھ کر شراتی انداز میں بولا۔۔”
"اپنے دماغ پہ اتنا زور نہ دو۔۔ جب وقت آئے گا تو ہر پہلی کا جواب تمہیں خود ملتا جائے گا۔۔ جیک نے ہونٹوں پہ آئی ہنسی کو چھپایا۔۔۔”
” اس کی آنکھوں میں جیک کیلئے نفرت ٹپک رہی تھی۔ شدید نفرت۔۔۔وہ روہانسی ہوگئی تھی…”
اتنے میں جیک کا موبائل بجا…
فون ڈاکٹر تہمینہ کا تھا ۔۔
اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا تھا۔۔”
” Thanks a million .
” ڈاکٹر میں نے ابھی ساری ریپوٹس دیکھیں ہیں۔ وہ تو سب کی سب کلیئر ہیں۔ جیک نے مسکراتے ہوئے خوشگوار انداز میں ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا۔۔”
” ہاں میں نے بھی ابھی کمپیوٹر میں دیکھا۔
ڈاکٹر تہمینہ نے جیک کی بات پہ اتفاق کرتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا۔۔”
” وہ کنسر والی رپوٹ کسی اور جیک کی تھی۔۔۔ آپ کی نہیں۔۔۔”
” ریپوٹس "مس پلیس” ہونے کی وجہ سے آپکو اتنی پیشانی دیکھنی پڑی۔”
” نرس کیطرف سے میں سوری کہتی ہوں۔ التجائی انداز میں ڈاکٹر تہمینہ نے کہا۔۔”
” ارے ڈاکٹر کوئی بات نہیں۔
” Again thank you so much.
” جیک نے خوشگوار انداز میں کہا۔۔
اچھا میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں۔ جیک نے جلدی سے فون بند کیا۔۔”
” وہ دونوں ہاتھ باندھے خفگی سے ایک کونے میں کھڑی تھی۔۔”
” ایک وعدہ کرو گی؟ جیک نے مخمور آنکھیں اس کیطرف گھمائیں۔ اور استحقاق سے اسے پوچھا۔۔۔”
” نہیں۔ میں کوئی وعدہ نہیں کرنا چاہتی۔۔۔
آیت نے جھٹ سے جواب دیا۔۔۔”
” تم شادی ضرور کرو گی۔۔ اور اٌس شخص سے محبت بھی کرو گی۔۔ جس سے بھی تمہارا نام جڑے گا۔۔ جیک کی نظریں ابھی بھی اس کی زلفوں پر اٹکی ہوئیں تھیں۔۔۔ اس کا سارا دھیان ابھی بھی اس کی زلفوں میں تھا۔۔”
” آپ مجھ پہ زبردستی نہیں کر سکتے۔۔ میں آپ کی ملکیت نہیں ہوں۔ آیت اب واقعی غصے میں آگئ تھی اس نے جیک کو انگلی دیکھاتے ہوئے درشت آواز میں کہا۔۔”
” اوہ ہو! بڑی بڑی باتیں آگئ ہیں میڈم کو۔
جیک نے طنزایہ انداز میں کہا۔۔”
” جیک نے اٹھ کر دروازہ بند کیا۔۔۔
اب بہت جلد تم میری ہوؤگی۔”
” جیک نے آنکھوں میں بےپناہ محبت لیے کہا۔۔ اس نے بڑی اپنائیت سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔۔۔”
” کتنے اچھے لگے گے نہ تمہارے یہ مہندی والے ہاتھ جس پہ میرے نام لکھا ہوگا۔ افف۔
جیک نے آیت کو اپنے قریب کیا۔۔”
” آیت اسکی باتوں پر حیران تھی.
جیک اس کے مدمقابل کھڑا ہوا۔۔۔۔”
” میری ایک خواہش تو پوری کرو گی نہ؟ جیک نے آنکھ جھپکتے ہوئے بڑی اپنائیت سے کہا۔۔”
” جیک نے اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔۔۔ جیک کی پٌر شوق نظریں اس کے سراپے لپٹ رہیں تھیں۔۔”
” جیک پیلز چھوڑ دیں۔۔ آیت کو کوفت ہونے لگی تھی۔۔.. کیا کہی جا رہے ہیں.”
” اگر نہ چھوڑو تو؟ جیک نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مستانہ انداز میں اس سے پوچھا۔۔۔”
” تو میں شور مچا دوں گی..
آیت نے بھی جیک کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔”
” اچھا اب چپ ہوجاؤ اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔۔۔۔ جیک نے اس کے ہونٹوں پہ انگلی رکھ دی۔۔..
جیک صرف آیت کا ہے صرف آیت کا… آیت نے رونا شروع کر دیا…”
” اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا…۔ وہ اب اور برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔۔ اس کے سارے وعدے ٹوٹ چکے تھے۔۔”
” وہ پھر سے وہی تکلیف محسوس کرنے لگی تھی۔۔.۔ جیک نے فوراً اسے اپنی طرف کھینچا آیت کی دھڑکنیں تیزی سے دھڑکنیں لگیں۔”
” ادھر دیکھو میری طرف.. میں سجل سے شادی نہیں کررہا… جیک آیت کا ہے…
اس نے ڈر سے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔
جیک کے عنابی ہونٹوں کی تراش میں مسکراہٹ پھوٹ نکلی۔۔۔۔”
” اس نے جلدی سے اس کی پیشانی پہ بوسا دیا۔۔ اتنے میں دوازدے پہ کسی کی دستک ہوئی۔۔….”
” آیت دروازہ کھولو۔ دروازے پہ فردوس بیگم کھڑی تھی۔۔ وہ مسلسل دروازہ کھٹکھٹا رہیں تھیں۔۔”
” اوہ نو! جیک نے پریشان لہجے سے کہا۔ وہ ادھر اٌدھر نظر دوڑانے لگا جلدی سے ٹیرس کی طرف بڑھا…”
” فردوس بیگم اندر داخل ہوئیں…
بیٹا تیار ہوجاؤ مہمان آنے والے ہیں… آیت کی پیشانی پہ بوسہ دیتے اسے تلقین کی..”
” جبکہ یہ سب آیت کے لیے حیران کن تھا… سب بدل گیا تھا اسکے آنسو رنگ لے آئے تھے محبت جیت گئی تھی…”
” ﻋﺎﺋﺸﮧ بھی ﻭﮨﺎﮞ ﺁﮔﺊ۔۔۔
ﻣﺎﻣﺎ ﺧﺎﻟﮧ ﺁﭘﮑﻮ ﺑﻮﻻ ﺭﮨﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔۔”
” ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﮯ آیت کو والحانہ انداز میں دیکھا اور گویا ہوئی آیت اچھے سے تیار ہونا.. آیت مسکرا دی.”
” ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﻮ ﻣﯿﮟ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔
ﻓﺮﺩﻭﺱ ﺑﯿﮕﻢ نے ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ۔۔”
” ﻧﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ
ﻣﻠﻮﺍﻧﺎ ﮨﮯ، ﺧﺎﻟﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﺟﻠﺪﯼ
ﺁﺋﯿﮟ۔…”
” ﭼﻠﻮ۔ ﻓﺮﺩﻭﺱ ﺑﯿﮕﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯽ
ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ۔۔”
” ﺷﮑﺮ ادا کرتے دروازہ بند کرتے پلٹی تو جیک سے ٹکرا گئی.. وہ اسکے بے حد قریب تھا آیت اسکی سانسیں سن سکتی تھی…”
” ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﺱ ﻧﮯ منہ بسورتے پوچھا…
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﭧ۔ ﺟﯿﮏ ﻧﮯ ﻣﻠﺘﺠﯽ
ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ۔”
” ﯾﺎﺭ ﻣﻞ ﺟﺎ۔ ﺟﯿﮏ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﯿﺐ
ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ڈﺍﻝ ﮐﺮ ﺯﯾﺮ ﻟﺐ ﮐﮩﺎ۔ ﺍﺱ
ﻧﮯ ﺁﯾﺖ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﯿﻨﭧ ﮐﯽ
ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﮭﻮﭨﮭﯽ ڈﺍﻟﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﺗﮭﯽ۔ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺳﮯ ﻣﻞ ﻧﮩﯿﮟ
ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔”
” ﻣﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﺟﯿﮏ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﻟﮩﺮ ﺗﮭﯽ۔۔۔”
” ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻭ ﮔﯽ؟
ﺍﻧﮕﮭﻮﭨﮭﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮯ ﮔﮭﭩﻨﻮﮞ
ﮐﮯ ﺑﻞ ﻭﮦ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔”
” آیت اسے تیکھی نظروں سے گھور رہی تھی…منہ بسورتے انگوٹھی پکڑی اور پہن لی…”
” چلیں مجھے تیار ہونا ہے… جیک کو پیچھے کرتے آگے بڑھی، کہ جیک نے اسے کھینچ کر سینے سے لگا لیا… اب کہاں جانا ہے اب تو یہی رہنا ہے… تمام بکھرے لمحوں کو سمیٹنا ہے…
” جبکہ آیت اسکی دھڑکن سن رہی تھی ۔
سارے خواب پورے ہوگئے۔ دل کو قرار آگیا تھا۔
زندگی پرسکون ہوگئی تھی مسکراتی ہوئی پیاری سی…
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔