(Last Updated On: )
صورت تیری دکھا کے کہوں گا میں حشر کے روذ
آنکھوں کا کچھ گناہ _____ نہ دل کا قصور تھا
کومل, شہریار آفندی کی کولیگ اور رانیہ کی دوست تھی۔ اس نے انسٹا گرام پر میلاد کی کچھ تصویریں اپلوڈ کی تھیں جسے شہریار آفریدی دیکھ چکا تھا۔۔ سرخ حجاب میں اپنا گندمی چہرہ چھپاۓ رانیہ نہایت پروقار لگ رہی تھی۔ اس کی جھکی ہوئ بڑی بڑی گول آنکھیں اسے کتنا خاص بنا رہی تھیں۔ شہریار آفریدی کی نظریں اسی چہرے کے گرد طواف کرنے لگ گئیں۔
“میرے دل کی دھرتی پر آپ ہی کے نام سے چراغ جل رہے ہیں رانیہ۔۔ ان چراغوں کی جلتی لَو ہر طرف آپ کے ہونے کا پیغام دے رہی ہے۔۔۔ وہ دن دور نہیں جب آپ اس سفر پر میرا ہاتھ تھامے چل رہی ہوں گی۔”
ہر طرف ساز سے بجنے لگے۔۔ پریوں کے اس نگر میں بے صبری سے شہزادی کا انتظار ہو رہا تھا۔۔۔
*—————————*
“ہم لوگ کل آفندی کی طرف ڈنر کریں گے۔۔۔ تیار رہنا۔۔۔” دردانہ بیگم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے بال سنوار رہی تھیں جب فرمان نواذ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ بتایا۔
“کیوں کوئ خاص بات ہے کیا۔۔۔؟” دردانہ بیگم نے وہیں بیٹھے بیٹھے پوچھا۔
“خاص نہیں بہت خاص بات ہے۔۔ رمشا کے سلسلے میں بات کرنی ہے آفندی سے۔۔” فرمان نواذ الماری میں سے فائلیں نکالتے ہوۓ بولے۔
“آپ اتنا احمقانہ فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں فرمان صاحب۔۔ بہت اچھی اچھی لڑکیاں ہیں میری نظر میں۔۔” دردانہ بیگم کو رمشا کے نام سے کوفت سی ہونے لگی۔۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ رمشا کا نام و نشان ختم کر ڈالیں۔۔
“آپ کی نظر اپنی بہن کے گھر سے دور جانا گوارہ ہی کیسے کر سکتی ہے۔ سب جانتا ہوں میں۔۔” فرمان نواذ نے کاٹ دار لہجے میں بولا۔۔۔
“ہاں تو اس میں غلط ہی کیا ہے۔۔ بہت نیک, بہت سلجھی ہوئ بچی ہے پارسا۔۔۔ آج تک بے وجہ گھر سے باہر نہیں نکلی۔۔۔ ہے بھی گھر کی دیکھی بھالی۔۔ اس رمشا سے تو سو درجے بہتر ہے۔۔۔” دردانہ بیگم اپنی بھانجھی کی تعریف میں ذمین آسمان کے قلابے ملانے لگیں۔
“رمشا سے مت مقابلہ کریں اپنی اس بھانجھی کا۔۔ نام کی ہی پارسا ہے صرف۔۔ آپ کے پورے خاندان میں اس کے کرتوتوں کی واہ واہ ہے۔۔” اب تک فرمان نواذ سب برداشت کر رہے تھے مگر اب غصے سے بولے ۔
“وہ سب تو لوگوں کی باتیں ہیں۔۔ لوگوں کا کام ہے باتیں بنانا۔۔۔ سچائ کیا ہے میں اچھے سے جانتی ہوں۔۔۔ آپ کو جانا ہے جائیں میں نہیں جاؤں گی آفندی ہاؤس۔۔۔” دردانہ بیگم اپنا فیصلہ سنا کر واش رام میں گھس گئیں۔۔۔۔
*———————–
“یار رانیہ تمہاری میڈم کتنی مِسٹیریس ہیں۔۔ مجھے تو لگ رہا تھا جیسے وہ کوئ ایلین ہوں۔۔” رانیہ اور رمشا لان میں کافی پی رہی تھیں جب رمشا بولی۔۔۔
“نہیں تو کہاں سے مسٹیریس ہیں وہ۔۔۔ تم تو پتا نہیں کیا کیا سوچ لیتی ہو رمشا۔۔”
“کیا سچ میں وہ پہلے سنگر ہوتی تھی۔۔۔؟” رمشا نے متجسس ہو کر پوچھا۔۔
“ہاں میں نے سنے تھے ان کے ایک دو گانے۔۔” رانیہ نے چاۓ کے مگ کو اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہوۓ بتایا۔
“مجھے بھی سنوا دو۔۔ میں بھی تو دیکھوں وہ کس طرح سے سر بکھیرتی تھیں۔۔۔” رمشا نے ایک قہقہہ لگایا۔۔۔
“اب تو یہ امپاسیبل ہے کیونکہ انھوں نے سب کچھ ڈیلیٹ کر دیا تھا۔۔۔۔ اچھا تم نے کوئ ضروری بات کرنی تھی۔۔۔” رانیہ کو اچانک وہ بات یاد آئی جس کے لیۓ رمشا نے اسے بلایا تھا۔
“ہاں وہ آج فرمان انکل آج آ رہے ہیں۔۔ میں سوچ رہی تھی کہ کس طرح سے انھیں اس رشتے سے منع کروں۔۔ تم ہی کوئ آئیڈیا دو۔۔۔” رمشا ایک دم سے افسردہ سی ہو گئ۔۔۔
“جو ہو رہا ہے اسے ہونے دو رمشا۔۔ اللہ کے فیصلوں میں مصلحت ہوتی ہے۔۔۔۔” رانیہ نے پیار سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
“میں اپنے فیصلے خود کرنا جانتی ہوں۔۔ تم نہ ہر وقت یہ باتیں لے کر بیٹھ جایا کرو۔۔ کوئ آئیڈیا ہے تو بتاؤ۔۔۔”رانیہ کی ان باتوں سے رمشا کو اب غصہ آ گیا تھا۔۔
“یار میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔۔ انکل آنٹی تمہارا بھلا ہی سوچ رہے ہوں گے۔۔۔”
“تم ماما پاپا کے ساتھ ہو یا میرے۔۔۔؟” رمشا نے غصے سے کافی کا مگ میز پر پٹخا۔۔۔
“آف کورس تمہارے ساتھ ہوں۔۔ لیکن فی الحال تم ریلیکس رہو پلیز۔۔۔ ان فضول سوچوں کو دماغ میں مت جگہ دو۔۔۔”
“میں خود ہی کچھ کر لوں گی۔۔ تمہارے مشورے کا بہت شکریہ۔۔۔” رمشا غصے سے پیر پٹختی وہاں سے چلی گئ۔۔
*———————-
آفندی ہاؤس ڈنر پر فرمان نواز نے رامش کے لیۓ رمشا کا ہاتھ مانگا تھا۔ مشال آفندی کے پاؤں تو یہ خبر سننے کے بعد ذمین پر ٹکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے مگر علی احمد آفندی بہت کچھ سوچ رہے تھے۔ اتنی جلدی شادی تو نہیں مگر منگنی کے لیۓ انھوں نے ہاں کر دی۔۔ سب نےمل کر اگلے ہفتے منگنی کی ڈیٹ رکھی تھی۔۔
رمشا نے ریڈ شرٹ اور ساتھ بلیک جینز پہنی ہوئ تھی۔ وہ اپنے بالوں کو ڈرائی کر رہی تھی جب مشال آفندی اُس کے کمرے میں آئیں۔۔
“مشی بیٹا آج میں بہت خوش ہوں۔۔ آپ بھی میری خوشی میں یہ مٹھائی کھا لیں۔۔۔۔” مشال آفندی نے مٹھائی کا ٹوکرا رمشا کے سامنے کیا جسے اس نے ایک نظر بھی دیکھنا گوارہ نہ کیا۔۔۔
“ماما سب جانتی ہوں میں یہ مٹھائی کہاں سے آئی ہے اور کیوں آئی ہے۔ اتنی بھولی نہیں ہوں میں۔۔۔” رمشا کا موڈ بہت خراب تھا۔۔
“آپ بہت بھولی ہیں مشی۔۔ ہم آپ کے لیۓ کتنا کچھ سوچ کر بیٹھے ہیں اور ایک آپ ہیں کہ اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار رہی ہیں۔” مشال بیگم ٹوکرے کو سائیڈ پر رکھ کر رمشا کو سمجھانے کے انداذ میں بولیں۔
“میں کوئ بچی نہیں ہوں ماما جسے آپ اس طرح سے سمجھا رہی ہیں۔۔ اپنے فیصلے کرنا جانتی ہوں۔۔۔ آپ سب میری لائف کو اس طرح سے خراب مت کریں پلیز۔۔۔۔” رمشا نے اپنا موبائیل اٹھایا اور غصے سے باہر کی طرف جانے لگی۔۔۔
“مشی بیٹا دیکھ لینا ایک دن آپ کو ہمارے فیصلے پر فخر ہو گا۔۔”
“امپاسیبل۔۔۔ وہ دن کبھی نہیں آۓ گا۔۔۔”رمشا دروازے میں سے بولی اور باہر نکل گئ۔۔۔
*————————-*
جب سے فرمان نواز آفندی کی طرف گۓ تھے, دردانہ کے سینے میں آگ سی لگ گئ تھی۔۔ اس نے خود کو ٹھنڈا مرنے کے لیۓ اپنی بہن کو فون ملایا۔۔۔
“آپا یہاں تو غضب ہو گیا ہے۔۔ آج فرمان صاحب اس دو ٹکے کی رمشا کا رشتہ مانگنے گۓ ہیں۔۔۔ میری تو کوئ سنتا ہی نہیں ہے یہاں۔۔۔ کس سے فریاد کروں۔۔۔” دردانہ بیگم فون کرتے ہی رو دیں۔۔
“ارے دردانہ تجھ سے ایک کام بھی نہیں ہوا۔ میری بیٹی کے ایک سے ایک رشتے آ چکے ہیں لیکن میں نے اسے رامش کے لیۓ بٹھایا ہوا ہے کہ تجھے کچھ سکھ ہو جاۓ گا۔۔۔ میری بچی تیرے کام آ جاۓ گی۔” دردانہ کی بات سنتے ہی سلطانہ بیگم کو اپنے خوابوں کے محل ٹوٹتے ہوۓ دکھائ دیۓ تو وہ آگ بگولہ ہو گئیں۔۔۔
“میں کیا کروں آپا۔۔۔ ایک ہی بیٹا دیا اللہ نے وہ بھی اپنے باپ کا ہمدرد۔۔۔ آپ ہی بتاؤ کس طرح اس فساد سے پیچھا چھڑواؤں۔۔۔” ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی دردانہ بیگم نے اپنی فسادی بہن سےمشورہ مانگا۔۔
“تو فکر نہ کر۔۔ تیری بہن ذندہ ہے ابھی۔۔ اس رمشا کا کانٹا نہ صاف کیا میرا نام بدل دینا۔۔۔” سلطانہ بیگم اپنے لہجے کو کافی حد تک پرسکون کرتے کوۓ بولیں۔
“آپا آپ بہت اچھی ہیں۔۔ ہمیشہ ہی میرے کام آتی ہیں لیکن میں آپ کے لیۓ کچھ بھی نہیں کر سکتی۔۔۔”
“بس دردانہ تو پریشان نہ ہوا کر۔۔ مجھے تیرے سے کچھ بھی نہیں چاہیۓ۔۔۔ ہاں یاد آیا پارسا کی ایک سہیلی کی شادی آ گئ ہے۔۔۔ کپڑوں کا کہہ رہی تھی تو میں نے منع کر دیا۔۔ مشکل سے تو گھر کا خرچہ نکالتی ہوں۔۔۔”
“آپا ایسے تو نہ کریں۔۔ میں کل ڈرائیور کے ہاتھ کچھ رقم بھجوا دوں گی, پارسا کی خوشی ہے تو لے دینا اسے کپڑے۔۔ کسی اور چیز کی بھی ضرورت ہوئی تو بتانا وہ لا دے گا۔۔” دردانہ بیگم نے اپنی عادت سے مجبور ہوتے ہوۓ بہن کو رقم بھجوانے کا وعدہ کیا۔۔
“نہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں۔۔۔ تم بس ڈرائیور کو ذرا سویرے بھجوا دینا۔۔ ٹھیک ہے خدا حافظ۔” دوسری طرف سلطانہ بیگم نے فون کا کریڈل رکھا۔۔ وہ اب پارسا کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اسے کچھ دنوں کے لیۓ رامش کی طرف بھجوا دیں تا کہ وہ اس کے دل میں اپنی جگہ بنا لے۔
*————————–*
“اُس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے, ان گھروں میں پاۓ جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے۔ اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔” (النور ٣٦)
“آج ہم دیکھیں گے کہ اللہ کے نور کی طرف کون لوگ ہدایت پاتے ہیں۔ اس آیت میں غور کرنے پر بعض مفسرین نے ان گھروں سے مراد مساجد لی ہیں اور ان کو بلند کرنے کا مطلب ان کو تعمیر کرنا اور ان کی تعظیم کرنا ہے۔ جبکہ بعض مفسرین کے مطابق ان گھروں سے مراد ایمان والوں کے گھر ہیں اور ان کو بلند کرنے کا مطلب انھیں اخلاقی لحاظ سے بلند کرنا ہے۔ایسے گھروں میں اللہ نے اپنی یاد کا اذن دیا ہے۔ مسجد کی طرح گھر بھی عبادت گاہ ہے اور وہاں بھی اللہ کا ذکر کرتے رہنا چاہیۓ۔ ایسے لوگ ہی اللہ کے نور کو حاصل کر لیتے ہیں۔۔۔ مفسرین کے اختلاف کو دیکھا جاۓ تو کیا پتا ان سے مراد مومنوں کے گھر اور مساجد دونوں ہی ہوں۔۔
اس آیت میں ان لوگوں کی صفات کا ذکر ہے جو لوگ اللہ کے نور کے متلاشی ہوتے ہیں کہ انھیں صبح یا شام سے سروکار نہیں ہوتا بلکہ وہ تو ہر وقت اٹھتے بیٹھتے اللہ کا ذکر کرتے ہیں, اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ایسے لوگ چاہے کتنے بھی مصروف ہوں ان کے دلوں میں ہر وقت اللہ کی یاد بستی رہتی ہے۔ اللہ بھی ایسے لوگوں کو اپنے نور سے فیض کرتا ہے۔”
میڈم جویریہ نے بہت پرسکون لہجے میں بورڈ پر لکھی آیت کی تفسیر سمجھائی۔
“اب ہم اس سے آگے دیکھیں گے کہ اللہ اپنا نور جن لوگوں کو دیتا یے ان میں مزید کیا صفات ہونی چاہئیں کیونکہ یہ کوئ ایسی چیز تو نہیں جو ہر ایک کو مل جاۓ۔ اس کے لیۓ تو بہت محنت درکار ہے۔ اسی محنت کی وجہ سے پھر اللہ اتنا نوازتا ہے کہ انسان کا دامن تنگ پڑ جاتا ہے۔” میڈم جویریہ اس کے بعد بورڈ پر اگلی آیت لکھنے لگیں۔
“جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامتِ نماز و اداۓ زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دید سے پتھرا جانے کی نوبت آ جاۓ گی۔” (النور ٣٧)
“اللہ اپنا نور اسے ہی دیتا ہے جس کے دل میں اس کی محبت, اس کا خوف, اس کے انعام کی طلب اور اس کے غضب سے بچنے کی خواہش موجود ہو۔ ایسے لوگ دنیا کی رونقوں میں گم ہو کر اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے اور نہ ہی پستیوں میں پڑے رہنا چاہتے ہیں بلکہ یہ لوگ تو تمام تر مصروفیات کے باوجود اللہ کی یاد میں مگن رہتے ہیں, اس کے لیۓ نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ان لوگوں کو دنیا کے فائدوں سے سروکار نہیں, یہ تو صرف آخرت کا فائدہ دیکھتے ہیں اور ان بلندیوں کی طرف گامزن رہتے ہیں جن کی طرف اللہ کا حکم ہو۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ دنیا کی چند روزہ ذندگی دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔”
*—————————*
جانتے ہو __ بد نصیب شخص کون ہوتا ہے۔۔۔؟
جسے اپنے رب سے مانگنے کا بھی وقت نہ ملے
رات بہت ہو چکی تھی۔۔ اسلام آباد کے سید پور ویلج میں موجود دو کمروں کے گھر میں ابھی تک بتی جل رہی تھی۔۔۔ رانیہ آج کا سبق دہرا رہی تھی۔۔ مہرین کافی دیر سے اپنے بستر میں گھسی تھی مگر اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔۔ وہ رانیہ کے پاس آ کر بیٹھ گئ۔۔
“آپی مجھے تو رمشا آپی کو میلاد پر دیکھ کر بہت حیرت ہو رہی تھی۔۔ ان کی نیچر میں یہ سب اٹینڈ کرنا نہیں ہے پھر کیسے۔۔۔” رمشا کبھی بھی رانیہ کے کہنے پر میلاد یا قران خوانی کے لیۓ نہیں آئ تھی اسی لیۓ مہرین کو حیرت ہوئی تو اس نے سوال کیا۔۔۔
“تم حیرت ذدہ ہونا چھوڑو مہرین۔۔۔ مجھے تو بہت اچھا لگا اسے ایسے دیکھ کر۔۔ شکر ہے اس نے میری بات کا مان رکھ لیا۔۔۔” رانیہ اپنے نوٹس پر کچھ لکھتے ہوۓ بولنے لگی۔۔۔۔
“ویسے ایک بتائیں آپی یہ رمشا آپی ایسے کیوں رہتی ہیں ہمیشہ۔۔۔ دین سے اتنی بیزار۔۔۔” مہرین اپنے دل میں آیا سوال ذبان پر لے آئی۔۔
“وہ جس سرکل کا حصہ ہے اُس میں سب ایسے ہی ہیں۔۔۔ اس میں حیرت کی بات نہیں۔۔۔”
“پتا نہیں یہ بڑے لوگ ایسے کیوں ہوتے ہیں آپی۔۔۔ پتا ہے میں ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے ہمیں ان بڑے لوگوں کے گھروں میں پیدا نہیں کیا ورنہ ہم بھی دین سے اس قدر دور ہوتے۔۔۔” مہرین نے آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا۔۔
“ہمیں کسی کو اس طرح جج نہیں کرنا چاہیۓ مہرین۔۔ اللہ کی نظر میں کون کیسا ہے ہم نہیں جان سکتے۔۔ دلوں کے حال تو وہی جانتا ہے۔۔ کیا پتا وہ لوگ ہم سے ذیادہ اللہ کے قریب ہوں۔” رانیہ کو مہرین کی کہی بات پسند نہیں آئی۔۔ وہ کسی کی ذاتیات کے بارے میں بات کرنے کے قائل نہیں تھی اسی لیۓ اس ٹاپک پر بحث نہیں کرتی تھی۔
“آپی ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ لیکن میں بھی غلط۔۔۔” مہرین نے اپنا نقطہ سمجھانا چایا لیکن رانیہ نے اس کی بات کو نوٹس میں نہیں لایا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ بحث بہت لمبی ہو جاۓ گی۔۔۔
“اچھا اب سو جاؤ۔۔ صبح پھر آنکھ نہیں کھلے گی۔۔۔” اس نے مہرین کو اپنے قریب کر کے اس کی پیشانی کو چوما۔۔ وہ ہمیشہ ہی اسی طرح سے سونے سے پہلے اپنے پیار کا اظہار کرتی تھی۔۔۔
“شب بخیر آپی۔۔۔۔” مہرین اپنے بیڈ پر دوبارہ لیٹ گئ۔۔
*——————-
شہریار آفریدی کو تانیہ والے کیس میں کوئ خاص پیش رفت حاصل نہیں ہوئ تھی۔ چوہدری دلاور جہانگیر کی دھمکیوں کا سلسلہ ابھی تک ویسے ہی جاری تھا۔ اس نے کئ مرتبہ کوشش بھی کی کہ شہریار آفریدی کو خریدا جا سکے لیکن سب بے سود۔ شہریار آفریدی نے طے کر لیا تھا کہ وہ آخری دم کر لڑے گا چاہے اسے اپنی جان سے کیوں نہ جانا پڑے۔
“شہریار صاحب مجھے انصاف تو مل جاۓ گا ناں۔۔۔؟” شہریار آفریدی اپنی فائلوں میں الجھا ہوا تھا جب تانیہ نے اس سے سوال کیا۔
“اگر آپ ہمت ہار جائیں گی تو شاید کبھی بھی نہیں۔۔”
“ناں جی میں ہمت نہیں ہاروں گی وہ تو بس ایسے ہی۔۔۔۔ میں بھی کیا کروں جی سب پتا ہے مجھے ہمارے ملک کا قانون بڑا ظالم ہے۔۔ اس کو مظلوم کی تکلیف نظر نہیں آتی۔۔ یہ تو صرف امیروں کے آگے دم ہلاتا ہے۔” تانیہ اب قانون سے کافی نا امید سی ہو گئ تھی۔۔ اسے لگتا تھا کہ پیسے سے قانون کو خریدا جا سکتا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے لیکن شہریار آفریدی جیسے قابل وکیلوں کی وجہ سے ابھی تک انصاف مل رہا تھا۔۔
“ایسی بات نہیں ہے۔۔ قانون تو سب کے لیۓ برابر ہے۔۔ہر چیز میں ٹائم لگتا یے۔” شہریار آفریدی کو تانیہ سے ان سب باتوں کی توقع نہیں تھی۔ اسے تو تانیہ میں وہی پہلے دن والا حوصلہ چاہیۓ تھا جب وہ اس سے مدد مانگنے آئ تھی۔
“ایک آپ ہی ہیں جو میرا ساتھ دے رہے ہیں ورنہ کون کسی کے لیۓ اتنا کچھ کرتا ہے۔۔ میری دعا یے جی اللہ سائیں آپ کی دلی مراد پوری کرے۔۔ بہت سوہنی لڑکی دے وہ آپ کو۔”
شہریار کے تخیل میں رانیہ کا چہرہ ابھرا اور اس نے دل سے آمین کہا۔۔
“جنہوں نے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشتِ بے آب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوا تھا, مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا, بلکہ وہاں اس نے اللہ کو موجود پایا جس نے اس کا پورا پورا حساب چکا دیا, اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔” (النور ٣۹)
“کل کے سبق میں ہم نے دیکھا تھا کہ اللہ کے نور کے مستحق کون کون ہوتے ہیں اور ان کو اللہ کس طرح سے نوازتا ہے۔ آج ہم دیکھیں گے کہ منکروں کے بارے میں اللہ اپنی کتاب میں کیا فرماتا ہے۔ جو لوگ اللہ کے نور کو پانے کا واحد ذریعہ یعنی رسول کو قبول کرنے اور اس کا اتباع کرنے سے انکار کرتے ہیں, چاہے دل سے انکار اور زبان سے اقرار کریں یا دل اور زبان دونوں سے انکار کریں, ان لوگوں کی مثال اس آیت میں بیان ہے۔
جو لوگ کفر کے باوجود ظاہری طور پر نیک اعمال کرتے ہوں اور زبان سے آخرت کے بھی قائل ہوں, اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ایمانِ صادق اور اطاعتِ رسول کے بغیر ان کے اعمال آخرت میں انھیں کام دیں گے تو ان کی حقیقت دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایک پیاسا ریگستان میں چمکتی ہوئ ریت کو دور سے دیکھ کر پانی کا گمان کرتا ہے اور اپنی پیاس بجھانے کی خاطر اس طرف دوڑا چلا جاتا ہے مگر وہاں پہنچنے پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ پانی تو کہیں بھی نہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کا حال بھی ہے۔ یہ لوگ اپنے اعمال کے جھوٹے بھروسے پر موت کا سفر طے کرتے جاتے ہیں اور جب موت کی منزل میں داخل ہوں گے تو انھیں پتا چل جاۓ گا کہ وہاں تو ایسی کوئ چیز نہیں جو انھیں فائدہ دے سکے۔ اس کے بر عکس اللہ ان لوگوں کو کفر اور بد اعمالیوں کا پورا پورا حساب دے گا۔ بے شک اللہ پورا حساب دینے والا ہے ۔”
“میڈم یہ دنیا تو سراب کے سوا کچھ نہیں, پھر کیوں انسان اس کے لیۓ اتنی مشقت کرتا ہے۔؟؟” دوسری رَو میں بیٹھی پریزے نے سوال کیا۔
“بیٹا ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ایک سراب ہے لیکن اس سراب میں کچھ انسانوں کو ایسی لزت محسوس ہوتی ہے کہ وہ اس میں سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ اپنی ساری زندگی اسی لزت میں گزار دیتے ہیں۔۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔ آمین۔” میڈم جویریہ نے جواب دیا۔
*————————-*