کتاب: آنکھ اور چراغ
رئیس فروغؔ بہت نرم مزاج آدمی تھے۔ ان کے لب و لہجہ میں ان کے انداز گفتگو میں اور ان کے فقروں کی ادائیگی میں ایک میٹھے پن کا احساس ہوتا تھا۔ وہ کبھی کوئی اختلافی بات نہیں کہتے اور اگر انہیں کوئی اختلاف ہوتا بھی تو وہ اس کی بابت سادگی اور نرمی سے کوئی اشارہ کر دیتے جس سے ان کا اختلاف ظاہر ہو جاتا۔ مخالف نقطہ نظر اختیار کرنے کے بجائے وہ زیادہ تر تائیدی نقطہ نظر اختیار کرتے اور بات کرنے میں کوئی نہ کوئی اتفاق کا پہلو ڈھونڈ لیتے۔ مجموعی طور پر زندگی کے بارے میں ان کا انداز فکر مثبت تھا اور اس لئے وہ اپنے تمام رشتوں میں ایک مثبت آدمی تھے۔ غصہ، طنز، حسد اور لالچ میں سے کوئی ایک چیز بھی ان کی شخصیت میں موجود نہ تھی۔ رئیس فروغؔ کبھی کسی کی برائی نہیں کرتے۔ کسی کی غیبت میں حصہ نہیں لیتے۔ زندگی کی سختیوں کو برداشت کرنے کے باوجود انہوں نے نہ تو کبھی انسانوں کی شکایت کی، نہ زمانے کی اور نہ ہی خدا کی کوئی شکایت ان سے سنی گئی۔ ان کی زندگی کے یہی رویے ان کی شاعری کی اساس ہیں۔
رئیس فروغ نے قومی نغمے بھی لکھے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں رہے تو وہاں کے ادبی مجلے کی ادارت بھی کی۔ ریڈیو میں آئے تو یہاں کئی خوبصورت فیچر تخلیق کئے۔ اور اس کے علاوہ بچوں کے واسطے جو نظمیں انہوں نے لکھی ہیں وہ ان کی اہمیت کا شدت سے احساس دلاتی ہیں۔ ان کی کتاب ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ بچوں کے ادب میں ایک خوبصورت اور اہم اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ رئیس فروغ نے بچوں کے لئے جو کچھ لکھا ہے اس کے حوالے سے وہ نہ صرف پورے پاکستان کے بلکہ ایک طرح سے عالمی بچوں کے شاعر بن گئے ہیں۔ ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کی شاعری اتنی خوبصورت، اتنی دل کش، اتنی بامعنی، اتنی معصومانہ اور اتنی تر و تازہ ہے کہ اس عہد کا کوئی دوسرا لکھنے والا ان جیسا لکھتا ہوا نظر نہیں آتا۔ بچوں کی اس شاعری کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے مرزا ادیب نے لکھا ہے کہ
’’رئیس فروغ اپنی نظموں میں جا بجا تخاطب اور تکلم سے کام لیتے ہیں اور اس سے ان کی آواز بچوں کو کہیں باہر سے آتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ یوں لگتا ہے کوئی ان کا ساتھی ان کے ساتھ اور ان کے درمیان کھڑا ہے۔ اور بڑی بے تکلفی سے باتیں کر رہا ہے۔ اس طرح رئیس فروغ اپنی آواز کو بچوں ہی کی آواز بنا دیتے ہیں۔‘‘
رئیس فروغ کی شخصیت میں جو ذہین معصومیت اور جو سچا بھولپن تھا وہ بچوں کی شاعری کی صورت میں اپنے اظہار کو پہنچا ہے۔ اس شاعری کی لفظیات، امیجری اور اس کے تجربے بچوں کی نفسیات سے بہت ہم کناری رکھتے ہیں۔ کام القادری نے ٹھیک ہی لکھا ہے کہ:
’’رئیس فروغ نے فرہنگ کے انتخاب میں بچوں کی عمر، نفسیات، شوق اور استطاعت کو مدِ نظر رکھا ہے۔ انہوں نے ایک لفظ بھی ایسا نہیں لکھا جسے بچے روز مرہ استعمال نہ کرتے ہوں۔ نہ صرف فرہنگ میں بلکہ در و بست اور طرز ادا میں بھی سحر انگیز سادگی ہے، نغمگی ہے، معنویت کی آب و تاب ہے، بھرپور ابلاغ ہے، تخلیقی امیج ہے، نیا پن ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ نظمیں بچوں کی زبانوں پر چڑھ جاتی ہیں۔ حافظے میں اتر جاتی ہیں اور معنوی سطح پر اعلیٰ اقدارِ حیات سے غیر محسوس طور پر لگاؤ پیدا کر دیتی ہیں۔‘‘
رئیس فروغ کی بچوں کی شاعری اپنی مقبولیت اور اپنی اہمیت کے اس کنارے تک پہنچ رہی تھی جہاں لوگوں کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ رئیس فروغ شاید اب بچوں ہی کے شاعر رہ جائیں گے۔ لکھنے پڑھنے والے لوگوں میں یہ خیال جب شدت اختیار کرنے لگا تو انہوں نے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ
’’میرے بارے میں یہ تاثر ٹھیک نہیں ہے کہ میں اب سنجیدہ شاعری نہیں کر رہا ہوں۔ بلکہ میں تو اب بھی سنجیدہ شاعری کر رہا ہوں۔ البتہ عام طور پر اب بچوں کے لئے زیادہ لکھتا ہوں۔ ویسے بچوں کی شاعری بھی سنجیدہ شاعری ہوتی ہے۔ اسے غیر سنجیدہ نہیں کہا جا سکتا۔ میں نے ۱۹۷۸ء سے بچوں کے لئے باقاعدہ شاعری شروع کی اور میں نے یہ محسوس کیا کہ بچوں میں شاعری کی پسندیدگی کا جذبہ بڑوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ مجھے اس کا اندازہ ریڈیو اور ٹیلی وژن دونوں کے ذریعہ اس شاعری سے ہوا ہے اور مجھ پر یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ میں بچوں کے لئے بہت خوبصورت نظمیں لکھ سکتا ہوں۔ اور قدرت نے مجھ میں اس کی بہترین صلاحیتیں رکھی ہیں۔ مگر میں پھر یہ کہتا ہوں کہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں بڑوں کے لئے شاعری نہیں کرتا وہ تو میں اب بھی کرتا ہوں۔‘‘
رئیس فروغ شاعری کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی نثر بھی لکھتے تھے۔ ان کی کچھ نثری تحریریں میری نظر سے بھی گزری ہیں جنھیں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی نثری تحریروں میں کچھ ذاتی خیالات کو اور اپنی بعض ادبی الجھنوں کو اظہار میں لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا ایک مضمون ’’جدید حسیت اور معاشرہ‘‘ ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ
’’جو حسّیت جدید کے نام سے تعبیر کی جاتی ہے وہ سولہویں صدی کے سائنسی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ سائنسی انقلاب نے ایک طرف تو مجموعی تصورِ حقیقت کو متاثر کیا اور دوسری طرف معاشی و معاشرتی ڈھانچہ کو تبدیل کیا۔ ادب و فن میں جدید حسّیت کا نمایاں احساس ۱۸۰۰ء سے شروع ہوتا ہے۔ اس احساس کے بنیادی ادیبوں اور مفکروں میں دوستووسکی اور کے کیرکے گار کے نام خاص ہیں۔ اس حسّیت کا جب فلسفیانہ اظہار ہوتا ہے تو اسے وجودیت کہتے ہیں۔ پاکستان میں جدید حسیت کا سراغ روحِ افکار کی پیداوار نہیں ہے۔ چند انتہا پسندوں سے قطع نظر ہمارے ہاں جدید حسیت کا اظہار جس طرح ادب میں ہوتا ہے اس سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ادیب اور شاعر اپنی تاریخی اور اپنی ثقافتی قدروں کو برقرار رکھتے ہوئے نئے عہد کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ادب میں جدید حسّیت فلسفے کی وجودیت کے متوازی رویہ کا نام ہے۔‘‘
رئیس فروغ کے اس اقتباس سے پڑھنے والوں کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس حد تک وجودی فلسفے یا وجودیت کے ماننے والے تھے اور ان کے وجودی ہونے کی نوعیت کیا تھی۔ ایک اور جگہ انہوں نے اپنی تخلیقی کشمکش کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے اور لکھا ہے کہ
’’ایک صاحب مجھ سے کہتے ہیں تمہاری تخلیق تم ہی سے چلتی ہے اور تم ہر پر ختم ہو جاتی ہے۔ کوئی تمہاری نظمیں نہیں سمجھتا۔ تمہیں تنہائی کے جزیرے میں اُتار دیا گیا ہے۔ یہ بڑی حد تک درست ہے۔ ہم سب ہی اپنے اپنے سینوں میں قید ہیں اور ممکن ہے کہ یہ قید ابدی ہو۔ لیکن شعر لکھنا ہمارا مقدر ہے۔ ہم شعر لکھتے ہیں اس یقین کے ساتھ کہ ہم شاعر ہیں۔ پھر کوئی مخالفت، کوئی نا امیدی ہمیں شعر لکھنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ یہ ضد نہیں مجبوری ہے۔‘‘
رئیس فروغ کی اس تحریر میں وہ ایک سچے شاعر کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہمیں اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ ان کے لئے شعر لکھنا مادّی مفادات حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ روحانی اور انسانی اقدار تک پہنچنے کا تخلیقی عمل تھا۔ وہ اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ
’’میں ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ کا چہرہ لگا لیتا ہوں۔ بازار میں شریف آدمی کا نقاب اوڑھ لیتا ہوں۔ گھر میں نیک چلن شوہر کی ایکٹنگ کرتا ہوں۔ مگر شاعری کے اسٹوڈیوز میں یہ نقاب میرے چہرے پر نہیں ہوتے۔ میری شاعری کا بڑا حصہ ذات کی برہنگی میں تخلیق ہوا ہے۔‘‘
’’ایک طرف ہم لمحہ لمحہ ختم ہوتے رہتے ہیں تو دوسری طرف اپنی شاعری اور اپنی اولاد میں منتقل بھی ہوتے جاتے ہیں۔ پھر جب ہم نہیں ہوتے تو ہم اپنی اولاد میں ہوتے ہیں یا اپنی شاعری میں ہوتے ہیں۔ ہماری اولاد ہمیں موقع ملنے پر دفن کر دیتی ہے اور اپنے پسند کے کپڑے پہن لیتی ہے۔ لیکن شاعری میں ہم اپنی خالص حالت میں زندہ رہتے ہیں۔‘‘
رئیس فروغ کی ان تحریروں سے ان کی کئی ذاتی الجھنوں کا اور کئی ادبی صداقتوں کا علم ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ رئیس فروغ کی شاعری کی طرح ان کی نثر بھی ایک تازہ اسلوب کی نثر ہے۔ رئیس فروغ کی ذات میں اور ان کی شاعری میں بھر پور غنائیت اور خوش گوئی کا تاثر موجود ہے اور یہ تاثر ہمارے عہد میں ایک بڑے اہم سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے کہ ہمارے عہد سے لطافتیں اور نزاکتیں غبار بن کر اُڑتی چلی جا رہی ہیں۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین نے رئیس فروغ کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’رئیس فروغ اپنی وضع کے ایک ہی شاعر تھے۔ نہ جاگے ہوئے نہ سوئے ہوئے۔ اندھیرے اجالے کے درمیان چلتے ہوئے۔ یہی ان کی شاعری ہے۔ اندھیرے اجالے کے رنگ سے بنی وہبی شاعری۔ نرم شائستہ اور تازہ لفظوں کو سمجھ کر لکھنا آسان نہیں ہے۔ وہ لفظوں کو اس طرح برتتے تھے کہ بیک وقت پیکر اور جان دونوں میں تازگی اور ندرت پیدا ہو جاتی تھی۔‘‘
مجتبیٰ حسین صاحب کی رائے کے خلاف میں رئیس فروغ کو سوتا ہوا شاعر نہیں سمجھتا۔ میں اسے لمحہ لمحہ مضطرب اور زینہ زینہ کرب میں الجھتا ہوا دیکھتا ہوں۔ رئیس فروغ کے سو جانے کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اپنے عہد کی تلخ اور سنگین حقیقتوں سے کنارہ کش ہو گیا ہو۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ رئیس فروغ اپنے ماضی اور اپنی روایات سے جس طرح آگاہی رکھتے تھے اور اپنے حال اور اپنے عہد کو جس طرح جذب کر رہے تھے اور اپنے مستقبل کی سمت جس طرح بڑھنا چاہتے تھے، وہ ساری سچائیاں انہیں ایک زندہ شاعر اور ایک بے چین انسان ثابت کرنے کے لئے بہت ہیں۔ سعید الدین نے لکھا ہے کہ:
’’رئیس فروغ اپنے عہد اور اس کی علامتوں کے ساتھ چلنے والا شاعر ہے۔ اپنے گرد و پیش سے، اپنے جغرافیے سے باخبر اور اپنے لوگوں سے وابستہ۔ اس کی شاعری کسی روایتی اسلوب کو نہیں دہراتی بلکہ اس کی اپنی ذات اور خود اس سے وابستہ اس کا عہد رئیس فروغ کی شاعری کی اساس ہیں۔ رئیس فروغ کی شاعری حسیاتی روابط سے شروع ہو کر انسان اور اشیا کی صفاتی مماثلت تلاش کرتی ہوئی علامتی استعارے تک پہنچتی ہے اور یہاں سے لمس اور مصوری کے حساس پہلوؤں کو چھو کر ایک تغیر پیدا کرتی ہے، لیکن اس پورے عمل میں شاعر کا اپنا لب و لہجہ ہی اس کی شاعری کو متوازن رکھتا ہے۔‘‘
شاعری میں توازن کی معنویت شخصیت کی اہمیت کے بغیر نہیں بن سکتی۔ رئیس فروغ کی شخصیت میں سچائیوں کو مان لینے کی، تلخیوں کو قبول کر لینے کی اور جرات مندانہ اظہار کی جو مثالی صلاحیت موجود تھی، اس نے ان کی شاعری کو متحرک اور روشن کر دیا ہے۔ ذاتی تجربوں کے حوالے سے ہم رئیس فروغ کے کچھ شعر دیکھتے ہیں:
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لئے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
راتوں کو دن سپنے دیکھوں دن کو بِتاؤں سونے میں
میرے لئے کچھ فرق نہیں ہے ہونے اور نہ ہونے میں
دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر
میں تو صرف ہوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں
بہت اُداس ہو دیوار و در کے جلنے سے
مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو جلا تو میں بھی ہوں
زمیں پہ شور جو اِتنا ہے صرف شور نہیں
کہ درمیاں میں کہیں بولتا تو میں بھی ہوں
اب کی رُت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے
میرے بدن کی مٹی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا
آج دھنک میں رنگ نہ ہوں گے ویسے جی بہلانے کو
شام ہوئے پر نیلے پیلے کچھ بیلون اُڑا دینا
پاگل کوئی کہتا تھا کہ سورج سے لڑوں گا
وہ اب تری دیوار کے سائے میں پڑا ہے
دلوں پہ سنگِ حوادث بھی روک لیتے ہیں
اگرچہ شیشہ گروں میں شمار ہے اپنا
کبھی ملیں گے تو کیا کیا شکایتیں ہوں گی
بہت دنوں سے ہمیں انتظار ہے اپنا
بستیوں میں ہم بھی رہتے ہیں مگر
جیسے آوارہ ہوا صحراؤں میں
ہم نے اپنایا درختوں کا چلن
خود کبھی بیٹھے نہ اپنی چھاؤں میں
چہروں کی تھکن سے کچھ نہ پوچھو
کس پاؤں میں کتنے فاصلے ہیں
آنکھوں میں بہت آوارہ ہیں
کھوئی ہوئی نیندیں راتوں کی
جس طرف کوئی دریچہ نظر آ جاتا ہے
اس طرف ہم کوئی دیوار اُٹھا لیتے ہیں
آنکھیں جو بے حال ہوئی ہیں
دیکھ لیا تھا خواب پرایا
ٹھنڈی چائے کی پیالی پی کر
رات کی پیاس بجھائی ہے
مرے کارزارِ حیات میں رہے عمر بھر یہ مقابلے
کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے کبھی دھوپ دب گئی سائے سے
رنج کا اپنا ایک جہاں ہے اور تو اس میں کچھ بھی نہیں
یا گہراؤ سمندر کا ہے یا پھیلاؤ بیاباں کا
دستِ دعا میں شعلۂ نایاب دیکھنا
ہر شب ہمیں چمکتے ہوئے خواب دیکھنا
میں تو جلتا رہا پر مری آگ میں
ایک شعلہ ترے نام کا بھی رہا
رئیس فروغ اپنی رائے پر مضبوطی سے قائم بھی رہتے۔ ان میں بڑی خود اعتمادی تھی۔ جب انہوں نے نثری نظمیں لکھنی شرو ع کیں اور کئی دوسرے تجربات کئے تو لوگوں نے ان کا بہت مذاق اڑایا۔ کئی دیرینہ دوستوں نے فقرے بازی کی۔ احمد ہمدانی جیسے لوگوں نے سمجھانے کی کوشش کی، مگر رئیس فروغ پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنے راستے پر چلتے رہے۔ بحث کئے بغیر، دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کئے بغیر اور اپنا دفاع کئے بغیر۔ وہ وہی کچھ کرتے رہے جو اُن کی نظر میں درست تھا۔ رئیس فروغ نثری نظم کے ابتدائی شاعروں میں سے ہیں۔ انہوں نے بہت اچھی نثری نظمیں لکھی ہیں۔ میں نثری نظم کو شاعری سمجھتا ہوں اور اس کے بہتر امکانات پر یقین بھی رکھتا ہوں۔ رئیس فروغ کی نثری نظموں پر الگ کوئی بات ضروری نہیں۔ وہ تو ان کی شاعری ہی کا حصہ ہیں اور اچھی شاعری کی تمثیلیں ہیں۔ رئیس فروغ اچھی شاعری سے عشق کرتے تھے۔ اچھا شعر سن کر وہ بے تاب ہو جاتے اور اپنے پورے وجود کے ساتھ اس شعر کی تعریف کرتے۔ ان کا مطالعہ زندگی بھر جاری رہا۔ وہ زندگی کو برتنے کی کوششوں اور زندگی کو سمجھنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ آپ ان کی نظموں کو دیکھیں تو وہ اتنی ہی سچی، پر خلوص اور نرم ہیں جتنی خود ان کی غزلیں ہیں۔ رئیس فروغ کی نظموں میں اظہار کی جدید تر صورت اور موجودہ عہد کی پیچیدگیاں اپنے پورے سادہ پن اور اپنی پوری معنویت کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ وہ نظموں میں غزلوں سے زیادہ علامت نگاری سے کام لیتے ہیں۔ مگر ان کے گہرے اثر کی لہریں پڑھنے والوں کے وجود میں اُڑتی چلی جاتی ہیں۔ ان کی نظمیں حقیقتوں اور خوابوں کے درمیان احساس اور تجربے کی رنگ برنگ خوشبوؤں میں تجسیم ہو کر اپنا ایک حرکی وجود بنا لیتی ہیں۔
کمرا
مجھے نہ کھولو
مرے اندھیرے میں
ایک لڑکی
لباس تبدیل کر رہی ہے
ائرپورٹ
اگر تو نہ جاتی
تو اے جانِ جاں
مرا پیار
جاڑے کی بارش میں
سی آف کرنے کی لذت سے
محروم رہتا
ایک رومانی قصے کا عنوان
قبرستان کی بوڑھی چیل
ہنسی
نیلی آندھی کا آنچل تھامے
وہ۔ اک مردہ عورت کے سرہانے
پھول چڑھانے آیا تھا
پھر موسم کی پہلی بارش ٹوٹ پڑی
ٹوٹی پھوٹی لاشیں
کٹی پھٹی قبروں سے نکلیں
میں تیری محبوبہ ہوں
میں تیری محبوبہ ہوں
نئے پرندے
جہاں درختوں میں آگ لگنے سے
اژدہے جل کے راکھ ہوتے ہیں
ان پہاڑوں کی گھاٹیوں میں
ہمارے بیٹے
نئے پرندے تلاش کرنے
چلے گئے ہیں
قاتل
آج بھی اس کے دونوں ہاتھ
لرز رہے تھے
اور
ہر انگلی کے سرے پر
ایک ستارہ چمک رہا تھا
جنریشن گیپ
فلیٹوں کے پیچھے
گئے سال کی بارشیں
دھوپ شانوں پر لٹکائے بیٹھی ہیں
خاکروبوں سے کہہ دو
کہیں ڈسٹ بن سے
کسی زندہ لمحے کے رونے کی آواز
آئے تو۔ ہم کو بتانا
تِکّا کارنر
چٹکتے ہوئے کوئلوں پر
کباب اور تکے سے رِستے عرق کی مہک
انگیٹھی سے میزوں تلک
پھڑکتی ہوئی بوٹیاں
کڑکتی ہوئی ہڈیاں
مگر آج
کونے کے صوفے پہ اس نے
دوپٹے کا آنچل اُڑاتی ہوئی
اک ہری شاخ دیکھی
ریت کا شہر
مجھے اپنے شہر سے پیار ہے
نہ سہی اگر مرے شہر میں
کوئی کوہِ سر بہ فلک نہیں
کہیں برف پوش بلندیوں کی جھلک نہیں
یہ عظیم بحر
جو میرے شہر کے ساتھ ہے
مری ذات ہے
رئیس فروغؔ شاعری کے کلاسیکی اسلوب سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔ ان کی مشق بھی اتنی تھی کہ بہت کم لوگ ایسے ملیں گے۔ ہمارے نئے لکھنے والوں میں تو کوئی ایسا آدمی ملنا ہی دشوار ہے۔ ابتداء میں رئیس فروغ کی غزلیں کلاسیکی اسلوب سے زیادہ قریب تھیں، لیکن وہ نئی زندگی کو لکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ ہمیشہ پرانے سے نئے کی طرف ہجرت کرتے رہے۔ انہوں نے بہت سے انداز اختیار کئے۔ زندگی کے نئے نئے تجربوں کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ غزلیں، نظمیں، نثری نظمیں، نغمے اور بچوں کی نظمیں لکھ کر انہوں نے اپنے آپ کو آزمایا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ہر جگہ اپنے تازہ نقش ثبت کئے۔ رئیس فروغ کی شاعری کا ایک اہم موضوع جنس کی جمالیات بھی ہے۔ لیکن انہوں نے کبھی کسی لذتیت کو، کسی گھٹیا پن کو یا کسی بازاری تجربے کو اہمیت دے کر نہیں لکھا۔ وہ جنس کی مثبت قوت اظہار کو، جسم و جان کی سچی ضرورتوں کو اور مرد و عورت کے درمیان خوبصورت خواہشوں کو اس طرح لکھتے کہ بدن اور روح یا ذہن اور جذبہ اپنی سطح سے اوپر اٹھ کر ایک ہو جاتے۔ فاصلوں میں تقسیم شدہ زندگی وحدت کی شکل اختیار کر لیتی۔ رئیس فروغ درمیانی دوریوں کو اس طرح اپنے اظہار میں سمیٹ لیتے کہ بِنتِ ہجر اور شہزادۂ وصال ایک ہی دائرے میں گردش کرتے ہوئے کسی تازہ جزیرے میں اُتر جاتے ہیں۔
مہکار سے گھائل ہم بھی ہیں
موسم تو اور کسی کا ہے
سادہ مٹی پہ اُبھری ہے تصویر سی
چہرہ مہتاب سا زلف زنجیر سی
میں تو ہر لمحہ بدلتے ہوئے موسم میں رہوں
کوئی تصویر نہیں جو ترے البم میں رہوں
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ بُرے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر
ایک حرف ایک مختصر بوسہ
میرے ہونٹوں پہ جل رہا ہے ابھی
کون اس ندرتِ احساس کو سمجھے کہ مجھے
تیری آواز میں خوشبو نظر آئے جیسے
آنکھیں موندے بیٹھی تھی
خوشبو کورے باسن میں
روپ جھروکا بند نہ کر
دیر لگے گی درشن میں
پاگل پنچھی بعد میں چہکے پہلے میں نے دیکھا تھا
اس جمپر کی شکنوں میں ہلکا رنگ بہاراں کا
سونے دے انہیں رنگ جو سوئے ہیں بدن میں
آوارہ ہواؤں کو نہ محسوس کیا کر
ہم کوئی اچھے چور نہیں پر ایک دفعہ تو ہم نے بھی
سارا گہنا لوٹ لیا تھا آدھی رات کے مہماں کا
بانہوں میں سمٹ کر حسن ترا
کچھ دیر نڈھال بھی رہے گا
مجھ کو تری نازکی کا احساس
دورانِ وصال بھی رہے گا
ایسا سچا ایسا جھوٹا اور ملے گا کون تجھے
تو مٹی کا ایک بدن ہے میں تجھ کو گلفام کہوں
دیکھا اُسے تو ایک اندھیرا سا چھا گیا
پھر دُور تک چراغ سے جلتے چلے گئے
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت برا نہیں اتنا برا تو میں بھی ہوں
میرے آوارہ خیالات کے شہزادوں کو
تیرے خوابوں کے جزیرے میں بسا دے کوئی
اے نو بہارِ ناز مبارک تجھے یہ رنگ
زلفِ دراز و جسمِ گداز و قبائے تنگ
لڑکیاں روشنیاں کاریں دکانیں شامیں
انہی چیزوں میں کہیں میرا بدن ہے لوگو
اک شور ہے بدن میں کہ اب وصل بھی کرو
کیسی یہ میرے عشق کے پیچھے بلا لگی
اپنی قمیصیں سلوائیں
میں نے ایک زلیخا سے
مسکراہٹ سے کوئی شمع جلا کر دیکھو
روشنی کو کبھی بستر میں لٹا کر دیکھو
مجھ سے محبتوں کے سمندر طلب نہ کر
میری بھی کچھ حدود ہیں میں بے کراں نہیں
یہ تو سوچا بھی نہ تھا ہم نے کہ سب کچھ سن کر
کوئی کچھ بھی نہیں کہتا ہے تو کیا کہتے ہیں
رئیس فروغ خوبصورتیوں کے ساتھ ہمیشہ آگے بڑھتے رہنے والے شاعر تھے۔ انہوں نے اپنی نظموں میں اور اپنی غزلوں میں جس طرح نئی زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے خارج کو اور اپنے گرد و پیش کو بہت توجہ سے دیکھتے تھے اور ان اکائیوں کو زندگی کی کلّی صداقت بنا کر بڑی اہمیتوں سے لکھ رہے تھے۔ زمین اور آسمان کے درمیان تمام عذاب، تمام دکھ اور تمام حوصلے انسانی مقدر کے کشکول ہی میں پناہ لیتے ہیں۔ سارے موسم، ساری تبدیلیاں اسی مٹی کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ خارج اور باطن کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی ہر جھنکار احساس کی گداختگی کا سبب بنتی ہے۔ صبح سے شام تک نہ جانے کتنی غم زدہ خبریں اور نہ جانے کتنے حادثے انسانی زندگی کو پار کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ اور ہمارا اپنا وجود بھی اپنا نہیں رہ پاتا۔ بڑی قوت کے لوگ وقت کی گھوڑا گاڑی پر بیٹھ کر چھوٹے اور کچے راستوں کو روندتے چلے جاتے ہیں، مگر بلاؤں کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ رئیس فروغ بھی اسی شب و روز کا شکار تھے اور ان حالات کے اظہار میں اپنی جراتوں کو ملاتے جاتے تھے۔
شہروں کے چہر ہ گر جنھیں مرنا تھا مر گئے
پیڑوں کے کاٹنے کی وبا عام کر گئے
لب تک آنے بھی نہ پایا میرے
ساغرِ رنگ رسیدہ میرا
غصے میں دوڑتے ہیں ٹرک بھی لدے ہوئے
میں بھی بھرا ہوا ہوں بہت انتقام سے
ہوا نے بادل سے کیا کہا ہے
کہ شہر جنگل بنا ہوا ہے
جہاں مری کشتیاں نہیں تھیں
وہاں بھی سیلاب آ گیا ہے
آسماں سورج کے بیٹے کو جگا
سو گیا کیسے یہ لڑکا دھوپ میں
یہ مرا ہمزاد ہاکر تو نہیں
بیچتا پھرتا ہے سایا دھوپ میں
سب سے اونچی کھڑکیوں پر عکس تھا
کل مرا شیشہ جو چمکا دھوپ میں
ساغر و لب کے درمیاں بھی کئی
مرحلے صبر آزما گزرے
کہہ رہے تھے لوگ صحرا جل گیا
پھر خبر آئی کہ دریا جل گیا
شارٹ سرکٹ سے اُڑیں چنگاریاں
صدر میں اک پھول والا جل گیا
دیکھ لو میں بھی ہوں میرا جسم بھی
بس ہوا یہ ہے کہ چہرہ جل گیا
انسانی المیہ کے حوالے سے موت کا خیال رئیس فروغ کے وجود کا بڑا حصہ بنا ہوا تھا۔ انہوں نے احساسِ مرگ کو مختلف چہروں میں دیکھا اور طرح طرح کے سایوں میں پیش کیا۔ موت کے شدید احساس نے ان میں ایک اعلیٰ تخلیقی شیفتگی پیدا کر دی تھی۔ وہ موت کی پرچھائیوں کو زندگی کے گرد و پیش میں رقص کرتے دیکھتے۔ انہیں موت کا ڈر تو نہیں تھا لیکن وہ موت کو انسان کے لئے اچھا نہیں جانتے تھے۔ ان کے اندر زندہ رہنے کی خواہش اور خود کو روشن رکھنے کا خیال ہمیشہ تازہ رہتا۔ دل کی بیماری کی صورت میں موت ان کے سامنے کھڑی تھی۔ لیکن وہ سمٹ کر کبھی نہیں بیٹھے۔ وہ جانتے تھے کہ داخلیت ابدی فن کی تخلیق کرتی ہے لیکن خود فانی ہے۔ انسانی داخلیت خود اس کے فانی وجود کا حصہ ہے لیکن اس میں تاریخی طور پر زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انسان تاریخ میں پناہ لے یا تاریخ ابدیت میں، موت ایک آخری مطلق امکان کے طور پر ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ فن ابدیت کا فانی سایہ ہے۔ اس سائے میں ہم ٹھہر تو سکتے ہیں لیکن ابدی نہیں ہو سکتے۔ ہیڈیگر نے کہا تھا انسان موت کا شعور حاصل کرنے پر مجبور ہے کہ وہ خود اس مرتی ہوئی کائنات میں مرنے پر مجبور ہے۔ رئیس فروغ کو معلوم تھا کہ وقت کے ویرانوں میں عمریں کٹ جاتی ہیں۔ پھر بھی کوئی دیوار ایسی تعمیر نہیں ہو پاتی جو انسان کو ہمیشگی دے سکے۔ لمحہ صدی بن کر گزرتا ہے، لیکن مسیحائی نہیں ملتی۔ وہ چراغ بن کر سایوں میں گم ہوتے جا رہے تھے۔ مگر انہوں نے جلنا ترک نہیں کیا تھا۔ رئیس فروغ حقیقت پسند شاعر تھے۔ اس لئے ان دیکھی چیزیں بھی ان کے لئے حرکی اور متشکل ہو جاتی تھیں۔ وہ ارب کھرب تک گن سکتے تھے لیکن چھپن سال سے زیادہ جینا ان کے اختیار میں نہ تھا اور وہ وہیں پہنچ گئے تھے جہاں پہنچ کر ان کا اچھا سا باپ مرگیا تھا۔
میرا بھی ایک باپ تھا اچھا سا ایک باپ
وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا وہیں ہوں میں
لاکھوں ہی بار بجھ کے جلا درد کا دیا
سو ایک بار اور بجھا پھر جلا نہیں
تو کہیں آس پاس تھا وہ ترا التباس تھا
میں اُسے دیکھتا رہا پھر مجھے نیند آ گئی
ایک عجب فراق سے ایک عجب وصال تک
اپنے خیال میں چلا پھر مجھے نیند آ گئی
رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے
میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اُتر جاتے ہیں
اِک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
مرتے ہیں تو کیسا لگتا ہے
اک سوچ ہے اور سناٹا ہے
دئیے کے جلنے اور بجھنے کا بھید سمجھ میں آئے تو کیا
اسی ہوا سے جل بھی رہا تھا اسی ہوا سے بجھا بھی ہے
بات سڑک پر رہ جاتی ہے
ساتھی دور نکل جاتے ہیں
جو سائے کی سمت جا رہے ہیں
وہ میں ہوں اور ایک اژدھا ہے
کیا سوچ کر ہوا ہے سمندر سے پنجہ کش
بوڑھے کو ایک روز تہِ آب دیکھنا
جنگل سے آگے نکل گیا
وہ دریا کتنا بدل گیا
اِک پیڑ ہوا کے ساتھ چلا
پھر گرتے گرتے سنبھل گیا
اک سانولی چھت کے گرنے سے
اک پاگل سایہ کچل گیا
دیا بنو اور جلتے جاؤ
پھر سایوں میں ڈھلتے جاؤ
سیاروں کی راکھ بچھی ہے
دھیرے دھیرے چلتے جاؤ
ہاتھوں میں جو لہو بھرا ہے
چہرے پر بھی ملتے جاؤ
سائے میں سایہ ملا نہیں
دائرہ پورا ہوا نہیں
دن بھر جگنو بنا رہا
شام ہوئی تو جلا نہیں
گن لیتا تھا ارب کھرب
ستر سال جیا نہیں
کئی دن سے کوئی آوارہ خیال
راستہ بھول رہا ہے مجھ میں
کوئی عالم نہیں بنتا میرا
رنگ خوشبو سے جدا ہے مجھ میں
ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی
آئینہ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
آنکھوں کے کشکول شکستہ ہو جائیں گے شام کو
دن بھر چہرے جمع کئے ہیں کھو جائیں گے شام کو
زندگی اور موت کے درمیانی دشت کی دھوپ میں چلتے ہوئے بے سائباں جسم و جاں کو رئیس فروغ سہارا دینے کے لئے آگے بڑھتے تو تھکن کی گیلی مٹی اُن کے پاؤں پکڑ لیتی۔ یوں ان کے ذہن کی حقیقت پسندی، ان کی روح کا نازک پن اور ان کے وجدان کی نرماہٹیں دکھوں کا خراج ادا کرتی رہیں۔ وہ نئی زندگی کی کرختگی کو نئی زندگی کے شدید آشوب کو اور نئی زندگی کے حسن دشمن کردار کو بیان کرنے کی کوشش کرتے تو ان کی قوت اظہار ساتھ دیتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ رئیس فروغ کلی کے چٹکنے کے منظر کو بے مثالی صورت میں پیش کر سکتے تھے لیکن کوئی خارجی معاشرتی دھماکا ان کی گرفت سے باہر تھا۔ انہوں نے جب بھی کسی ایسی صورت کو لکھنا چاہا ہے تو وہ اپنی شعری اثر پذیری میں نامانوس میکانکی اور غیر تخلیقی ہونے کے خطرے سے جا ملے ہیں۔ یقیناً ان کے یہاں اس قوت کی کمی تھی جس کا احساس خود انہیں بھی تھا۔
چرس نوش
کیا خبر ہے
کہ کسی روٹ سے بھاگی ہوئی بس
آخرِ شب
مرے بیڈ روم میں گھس آئے کبھی
اور پیٹرول کے نشے مین
کسی اونگھتے صوفے سے کہے
آؤ ٹوئسٹ کریں
رائفل
پولیس مین کہتا ہے
یہ راستہ بند ہے
اُدھر نیگرو ماسٹر سے
سفید عورتیں
اپنے سینوں کی اور اپنے کولھوں کی
گردش کے اسرار
معلوم کرنے میں مشغول ہیں
پڑھے لکھے لوگ
آپ پھر آ گئے
اگر اب خیالی ٹرینوں کے نیچے سے گزریں
تو بیوی کا ہاتھ
اور اولاد کا ساتھ بھی
چھوڑ دیں
سائن آپریٹر
کسی رات کو
آخری شو کے بعد
سیلولائیڈ کی گہرائیوں سے اچھل کر
وہ سب
ہال میں بھر نہ جائیں کہیں
کس کس کا میک اپ
اتاروں گا میں
سلیم احمد نے رئیس فروغ کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’وارث علوی کہتے ہیں کہ جب نئے شاعر اور نئے ادیبوں کے یہاں اجتماعی حوالہ نہیں ملتا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انہیں حوالوں سے سروکار نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ شاعر یا ادیب برا ہِ راست انہیں چھونا نہیں چاہتا اور ان کی تخلیقات میں یہ مسائل بڑی حد تک نمایاں ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ بات صحیح ہو لیکن اس صورت میں ضروری ہے کہ مسائل کا ذکر براہِ راست نہ ہونے کے باوجود ان کا اثر کسی نہ کسی طرح موجود ہو۔ رئیس فروغ کی شاعری میں مجھے ’’یہ اثر‘‘ کہیں نظر نہیں آیا۔‘‘
شاعری کی تفہیم میں سلیم احمد سے زیادہ معتبر نام اور کوئی نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ انہیں رئیس فروغ کے یہاں کوئی اجتماعی حوالہ یا اس کا کوئی اثر نہیں ملا جب کہ رئیس فروغ کی ساری شاعری ’’صبح سے شام تک‘‘ کے چھوٹے بڑے انسانی عملی تجربوں سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کی شاعری سے کوئی سیاسی، سماجی، مذہبی یا اخلاقی نظریہ اخذ نہیں کیا جا سکتا، لیکن شاعری سے کسی نظریے کا ثابت ہونا بھی شاعری کی شرط نہیں ہے۔ ویسے ہر اچھی شاعری انسانی رویے کو پیدا کرتی ہے۔ اور کیا انسانی رویہ رئیس فروغ کی شاعری میں موجود نہیں ہے؟
احساس کی شاعری کرنے والوں میں رئیس فروغ کے پیش روؤں سے ان کے ہم عصروں تک ناصر کاظمی، منیر نیازی، فرید جاوید، رسا چغتائی وغیرہ ایسے شاعر ہیں جن کو پڑھنے والوں میں شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ہے لیکن رئیس فروغ کی شاعری میں احساس کے علاوہ کچھ اور بھی موجود ہے۔ اس بات کے معنی یہ ہیں کہ رئیس فروغ میں اپنے تجربات کو ایک ساتھ دیکھنے اور کئی تجربات پر ایک ہی وقت میں غور کرنے کی صلاحیت موجود تھی اور یہ ایسی چیز ہے جو ناصر کاظمی تک میں نہیں ملے گی۔ ناصر کاظمی احساس کی نزاکتوں اور جذبوں کی خوبصورتیوں کو ایک بھرپور شعر میں لکھ سکتے تھے، لیکن وہ اپنے تجربات کو ایک دوسرے کے تقابل میں رکھ کر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ منیر نیازی کے یہاں انسانی عشق کی وہ بے لوث سطح نہیں ہے جو رئیس فروغ کے یہاں محسوس ہوتی ہے۔ فرید جاوید بہت نازک احساس کے شاعر تھے، لیکن ان کی لفظی پیکر تراشی کا ہنر اتنا تازہ اور اتنا متنوع نہیں ہے جیسا ہم رئیس فروغ کے یہاں دیکھتے ہیں۔ رسا چغتائی میں احساس بھی ہے، اور جدت بھی ہے، لیکن رئیس فروغ کی شاعر میں جو نفاست اور تازگی ملتی ہے وہ رسا چغتائی کی شاعری میں کمتر پائی جاتی ہے۔ یہ تو اپنے اپنے ہنر کی بات ہے۔ اس سے میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں رئیس فروغ کو ان کی صداقتوں سے زیادہ لکھنا چاہتا ہوں۔ رئیس فروغ کی غزل کو حرفِ تازہ کی چمک نے، نئی محاکات اور جدید امیجری نے ہمارے عہد کا ایک ایسا روشن تر آئینہ بنا دیا ہے جس میں ہم اپنے محسوساتی خال و خد کو زیادہ سچائیوں کے ساتھ اور زیادہ رضاعتوں کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ رئیس فروغ شاعری کی کلاسیکی روایت سے چلے تھے اور جدید تر اسلوب تک آئے ہیں۔ ان کی لفظیات تازہ ہیں۔ ان کے بیان میں خوبصورتی بھی ہے۔ اثر پذیری بھی۔ ان کے قومی نغمے ہوں، بچوں کی نظمیں ہوں، غزل ہو، آزاد نظم ہو یا نثری نظم ہو، سب کی سب ان کی تازہ کاری کی پہچا ن ہیں۔ ان کی زبان کی اضافت سے اور عربی و فارسی کے غیر مانوس بوجھ سے باہر ہے۔ انہوں نے اپنی غزل میں بہت سے انگریزی کے لفظ اس طرح لکھے ہیں کہ وہ غزل کے مزاج میں تحلیل ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ایسے لفظوں میں شارٹ سرکٹ، الوژن، البم، بیلون، بس، ٹرک، فلیٹ، سائیکل وغیرہ شامل ہیں۔ رئیس فروغ نے ان انگریزی لفظوں کو غزل میں اس ہنر مندی کے ساتھ لکھا ہے کہ مذکورہ لفظ غزل کے مزاج میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ ہمارے عہد کا کوئی دوسرا شاعری ایسی مثال پیش نہیں کر سکتا۔
ان تمام شاعروں کے لئے جو نیا لکھنا چاہتے ہیں، نئی زندگی کو لکھنا چاہتے ہیں اور زندگی کے بدلتے ہوئے پس منظر وں میں شاعرانہ زندگی کا نیا امیج تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔ ان سب کے لئے رئیس فروغ کی زندگی اور ان کی شاعری رہنما ستارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے ہمارے عہد میں اس طرح لکھ کر اور اس طرح جی کر دکھایا ہے جس کے بغیر کرتب تو بہت دکھائے جا سکتے ہیں، اچھی زندگی اور زندہ شاعری نہیں کی جا سکتی۔ یہ زمانہ تیز ہواؤں کا زمانہ ہے۔ رات ہمارے سروں پر ہے۔ قریب و دور سناٹوں کی دیواریں کھڑی ہیں اور ہمیں کچھ کہنا ہے، کچھ سننا ہے۔ رئیس فروغ اپنی زندگی میں اور اپنی شاعری میں کچھ کہنے اور کچھ سننے کی کوشش ہی تو کر رہے تھے، لیکن کون جانتا ہے کہ تیز ہوا کا کوئی نیا جھونکا آئے گا تو ہم میں سے کتنوں کو جاگتا پائے گا اور کتنوں کو گہری نیند اپنی چادر میں لپیٹ کر وہاں لے جا چکا ہو گا جہاں انسان یا تو ابدیت میں بولتا ہے یا پھر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جاتا ہے۔
پھول زمین پر گرا پھر مجھے نیند آ گئی
دور کسی نے کچھ کہا پھر مجھے نیند آ گئی
رئیس فروغ کو نیند آ چکی ہے لیکن وہ اپنی شاعری میں خالص زندہ ہیں۔ ان کی آواز سنائی دے رہی ہے اور میں آذر حفیظ کی اس پانچ مصرعوں کی خوبصورت نظم کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں:
اک مٹی کیسے گلاب بنی
پھر خاک کوئی
پھر خواب بنی
اس خوشبو کو آواز نہ دو
اب اس کی یاد کے جنگل میں آباد رہو
٭٭٭