دو سیاہ آنکھوں نے مجھ پر ایک کہانی لکھنے کا دباؤ ڈالا ہے۔ میں ٹیب ہاتھ میں لیے لکھنے بیٹھی ہوں اور ان کالی سیاہ آنکھوں کی تحریر کے پیچھے خیالات کا ایک سیل رواں ہے کہ بند توڑ کر بہتا چلا آ رہا ہے۔ کئی بار کہانی خود کو لکھواتی ہے جیسے بارش خود بخود برسنے لگ جاتی ہے مگر کئی بار کہانی لکھنے سے قبل یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا لکھیں ؟ ہمارے ارد گرد ہر انسان ایک ماسٹر پیس کہانی ہے اور ہر چہرہ ایک شاہکار پینٹینگ۔ ہاں مگر چہرے صرف مصوری کے نمونے ہی نہیں بلکہ سبھی چہرے ایک راز ہیں اور آنکھیں وہ روزن جن سے کئی بار اندر کی جھلک نظر آ جاتی ہے۔ ہر انسان اپنے اوپر کئی خول چڑھائے پھرتا یے۔ کیا ضروری ہے کہ ان خولوں کو منافقت یا الگ الگ چہروں کے خول سمجھا جائے۔ بس کچھ ایسا ہر ذی روح کے اندر موجود ہے جو وہ پبلک نہیں کرنا چاہتا بلکہ شاید کسی کو بھی وہ سب دکھانا نہیں چاہتا۔
مصنف بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ادھر ادھر کی باتیں لکھیں گے، نظریات کے خول میں چھپیں گے۔ علامتوں استعاروں میں ملفوف ہونے کی کوشش کریں گے۔ مگر کئی بار شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے اندرون کی ایک ہلکی سی درز کھول کر محض چند کرنوں کو باہر کی راہ دکھا دیتے ہیں۔
پھر بہت واہ واہ ہوتی ہے۔ ہاں یہ آپ سب کے ساتھ ہوا ہو گا کہ آپ کی توقع کے برعکس کسی سادہ سی اور عام سی تحریر کو بڑی پذیرائی مل جائے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم اپنے خول کے اندر جو سنبھالے بیٹھے ہیں کیا دیگر سب لوگوں کے اندر بھی کچھ ویسا ہی ہے ؟ لوگ اس تحریر کو پسند کرتے ہیں وہ وہ خود لکھنا چاہتے تھے مگر بوجوہ لکھ نہیں پاتے۔ جب کوئی اور وہی سب لکھ دیتا ہے تو کیسی طمانیت ملتی ہے۔ شاید وہ طمانیت اپنے اندر کا خول برقرار رہ جانے کی بھی ہوتی ہے۔
سننے اور پڑھنے والا کس طرح دل سے نکلی آواز اور تحریر کو پہچان جاتا ہے ؟ پھر وہی سوال کیا کہ اتنے تنوع میں جہاں انگلیوں کی پوریں تک نہیں ملتی آنکھوں کے نمونے نہیں ملتے پھر بھی ہم سب کے اندر اگر کچھ مشترک سا ہے تو وہ کیا ہے ؟
وہ بہت دلیر اور بڑے ادیب ہوتے ہیں یا بہت عام سے لوگ بھی جو اس اپنے اس فطری خول میں سے ایک کھڑکی کھول سکتے ہیں۔ اور اس کھڑکی سے نکل کر ہزاروں لوگوں کے دلوں میں نہاں خانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان عام سے لوگوں کی خاص سی آنکھیں وہ روزن ہیں جو من کے اندر چھپے راز آشکار کرتی ہیں اور محسوسات کی ترسیل بھی۔
میں ایک فاسٹ فوڈ ریسٹوران میں کھانے کا آرڈر دینے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی کہ اپنے قریب کھڑی ایک لڑکی جس کی عمر پندرہ سولہ سال ہو گی کے چہرے نے مجھے کسی مقناطیس کی مانند اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
اتنا سیاہ چہرہ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے تقریباً ہر افریقی نسل کے لوگ دیکھے ہیں۔ میانہ قد چپٹی ناک والوں سے لے کر طویل قامت اور حی الجثہ سیاہ فام جن کی رنگت کے شیڈ براؤن کافی، کاکاؤ سے لے کر سیاہی مائل تک ہوتے ہیں۔ مگر اتنی چمکیلی سیاہ رنگت کبھی نہیں دیکھی تھی۔ شاید اس کی جلد میں میلانن کے سب سے زیادہ پگمنٹ ہوں گے۔ مجھے کالے چہروں سے بے زاری نہیں ہوتی مگر مجھے یہ تسلیم کر لینے دیجیے کہ ایسا ہمیشہ سے نہ تھا۔ امی جی نے مجھے ایک بار کہا تھا کہ کسی بھی چہرے پر حقارت کی نگاہ نہیں کرتے، کسی کے چہرے کا تصور کر کے کبھی تھوکتے نہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بچوں کو ابتدائی آداب سکھائے جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا امی جی کیوں بھلا؟
امی نے جواب دیا کہ اس لیے کہ ہر انسان کے چہرے پر رب کا ہاتھ پھرا ہوتا ہے۔
آخر دنیا میں اتنے زیادہ انسان ہیں ہر انسان کے چہرے پر اللہ تعالی اپنا ہاتھ کس طرح پھیر سکتا ہے ؟
“ھوالذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء”
جواباً امی یہ کہتیں۔ ہاں مجھے کبھی بھی انہوں نے اس آیت کی اردو نہیں بتائی تھی نہ میں نے پوچھی یہاں تک کہ خود ترجمہ پڑھا اور اس آیت کا مفہوم نظر سے گزرا۔
اس کے باوجود مجھے چہروں میں چھپے اسرار کی پوری سمجھ کبھی نہیں آئی۔ ایک بار کسی چھوٹی سی افریقی بچی نے مجھ سے پوچھا تھا “کیا مجھ سے ہاتھ ملاؤ گی؟ ” ہاں کیوں نہیں ” میں نے اس کا ننھا سا ہاتھ تھام لیا تھا۔ اور شاید تب اس کے ہاتھ میں کالے چہروں کی محرومی کے ہزاروں بھید بھی تھے جو وہ چُپکے سے میری ہتھیلی کے ساتھ چِپکے چھوڑ گئی تھی۔
ریسٹورانٹ میں ملی اس پندرہ سولہ سال کی لڑکی جس کی جلد چمکدار میلانن پر مشتمل تھی موٹے بھرے بھرے ہونٹ اداس آنکھیں جھکی پلکیں، اس عمر میں ہر لڑکی بہت حسین ہوتی ہے پس وہ بھی تھی مگر اس کی گہری اداس آنکھوں میں کوئی پیغام تھا۔ کوئی کوڈ ورڈ جسے ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت تھی۔ مجھے وہ نک سک سی سجی ایک عورت کی خادمہ لگ رہی تھی جس کی بھنوؤں کو اکھاڑ کر نئی شیپ سے ہمکنار کرنے کی کوشش تیز رنگ کی آئی برو پینسل سے کی گئی تھی۔ گہرے آئی میک اپ کے باوجود وہ مادام کوئی بڑا تاثر نہیں چھوڑ رہی تھی۔ مگر اس کم سن لڑکی کی سیاہ آنکھیں کوئی ایسا مقناطیس تھیں جو اپنی طرف کھینچتا تو تھا لیکن ان میں کوئی نظر بھر کر دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔
کچھ آنکھیں اور کچھ کہانیاں دنیا کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل ہی رہ جاتی ہیں۔ افغان مہاجر کیمپ میں شربت گل کی آنکھوں کے شرارے اگر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ نہ کر لیے ہوتے تو عسرت خودی اور درد میں چھپے راز کیا دنیا تک پہنچچ پاتے جو آج بھی راز ہی ہیں۔
درد اور دھتکارے جانے کا کرب کیسے کیسے شاہ پارے ترتیب دے جاتا ہے۔ اگر شربت گل مہاجر کیمپ میں سرخ رنگ کی پھٹی چادر کی بجائے کسی حکمران کے محل میں مراعات پا رہی ہوتی تو کیا اس کی آنکھوں میں وہ شرارے ہوتے ؟
شربت گل کی طرح اس کالی سیاہ لڑکی کا چہرہ بھی ایک راز تھا۔ مجھے ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے چاہے جانے کی ایک نظر محبت کی فریاد نظر آئی تھی کہ مجھے دیکھو! میرے چہرے پر بھی تو رب کا ہاتھ پھرا ہوا ہے۔
کسی احساس تلے اس نے نظریں اٹھا کر میری طرف دیکھا، آنکھیں چار ہوئیں تو میں نرمی اور محبت سے مسکرا دی۔ وہ حیران ہوئی پھر نظریں چرا گئی اس کی جلد کے کالے کاغذ پر تشکر کی ایک اجلی تحریر ابھری مگر جب دوبارہ اس نے نظریں قصداً میری طرف کیں شاید وہ جواباً مسکرانا چاہتی تھی تو اس بار اُن آنکھوں میں ایک پریشانی سی تھی کہ کہیں اس کے اندر کا خول میرے سامنے ٹوٹ نہ گیا ہو۔
اس کے خول کا بھرم رکھتے ہوئے میں نے نظریں ہٹائیں اور آگے بڑھ کر کھانے کا آرڈر دینے لگی۔
٭٭٭