(Last Updated On: )
آنکھیں پتھر کی، زباں خاک کی، دل ہیرے کا
مہرباں جو بھی مِلا، چاند کا سایہ نکلا
چہرہ شاداب سہی اس کا دروں زخمی تھا
ہونٹ کھولے تو لہو لفظ کی صورت ٹپکا
ہم اُٹھے چونک کے، کیوں صبح ہوئی رات کے بیچ
جب دریچہ پر پڑا خواب کا تیرے سایہ
مخمصے میں ہوں، کسے مانوں کے جھوٹ کہوں
لوگ کہتے ہیں ترے ہاتھ میں بھی خنجر تھا
دوست دیکھا کئے، دشمن کے ستم ہوتے رہے
دل مرا، خوابوں کا بیروت کہ لُٹتا ہی رہا
دید غازہ صفت اور دن کی تمازت عارض
زخم کا پھول ہے اور رات کا گیسو دریا
اپنی کھڑکی سے ذرا جھانک کے دیکھو تو سہی
کون ہے درد کی اس رات میں ہنسنے والا
پھول کی طرح کہ ہو خار کی صورت اسلمؔ
غم مجھے یہ ہے کہ میں شاخِ دکن ۱؎ سے ٹوٹا
۔۔۔۔
۱؎حیدر آباد: کہ اک نخل تناور۔ شاداب
٭٭٭