سُمن کی موت کو دس دن گذر گئے تھے، آہستہ آہستہ زندگی معمول پر آ رہی تھی، غم کی شدّت میں کمی آنے لگی تھی کہ اچانک ایک تحریر کی دستیابی نے سُمن کی موت کے حادثہ کو تازہ کر دیا۔ گھر کا ہر فرد بلک بلک کر رونے لگا، ماں چھاتی پیٹ پیٹ کر سُمن کو یاد کر رہی تھی، باپ کی تاریک آنکھوں کی تاریکی اور زیادہ بڑھ گئی تھی، اکلوتے بھائی کی آنکھیں بہن کے غم میں دریا بنی ہوئی تھیں۔ تینوں بہنیں دیدی کو یاد کر کے اس طرح روہی تھیں جیسے سُمن کی لاش ان کے سامنے موجود ہو، سب کے دل میں ایک بار پھر سُمن کے لئے پیار امڈ آیا تھا۔ سسکیوں کی آوازیں بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھیں۔ ایک بار پھر اڑوس پڑوس کے لوگوں سے گھر بھر گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ دس دن پہلے نہیں بلکہ آج ہی سُمن کی موت ہوئی ہو۔ ہر ایک آنکھ اشکبار تھی۔ ہر شخص حیران و پریشان اور غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ کفِ افسوس مل رہا تھا۔۔۔ ۔۔ ۔
سُمن رویندر کی سب سے بڑی بیٹی تھی۔ پہلی اولاد بیٹی ہو یا بیٹا سب کو عزیز ہوتی ہے۔ اس لئے کہ پہلی اولاد ہی عورت کو ماں کا درجہ دلاتی ہے، اور مرد کو نہ صرف سماج میں سرخرو ہونے کا موقع دیتی ہے بلکہ اپنی توتلی زبان سے بابا کہہ کر کانوں میں رس گھولتی ہے اور عجیب سے احساسِ پدری کو بیدار کرتی ہے۔ رویندر سُمن کی ولادت کے وقت بہت خوش تھا، اور اس خوشی کے اظہار کے لئے اس نے اپنے عزیز و اقارب میں شیرینی تقسیم کی تھی اور سمن کے نام کرن کے وقت ایک اچھے خاصے پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ جانتا تھا کہ اس کے ماتا پیتا لڑکی کی پیدائش پر خوش نہیں تھے۔ اس کی ماں اپنی بہو کو کسی نہ کسی بہانے لڑکی پیدا کرنے پر طعنے دینے سے گریز نہیں کرتی تھی۔ اس کا باپ بھی مٹھائی کی تقسیم کو فضول خرچی کا نام دے کر کہا کرتا تھا:
’’توُ تو ایسے خوش ہو رہا ہے جیسے بیٹا پیدا کیا ہو‘‘
لیکن رویندر اپنے باپ کی بات کو سماج کے روایتی باپ کی گھسی پٹی بات سمجھ کر نظر انداز کر جاتا تھا اور اپنی بیوی سے کہ جس کے چہرے پر سُمن کی پیدائش نے ممتا کی سرخی بکھیر دی تھی کہتا تھا ’’تم کسی کی بات کو دل پر نہ لگانا، ماں باؤ جی تو پوتا چاہتے تھے، لیکن ہمارے لئے تو یہ بیٹے کے برابر ہے۔ تھوڑے دن میں وہ بھی پوتی کو پیار کرنے لگیں گے۔‘‘
لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ اس لئے کہ سُمن کے بعد کویتا نے ایک اور بیٹی کو جنم دیا۔ پھر ایک اور۔ ایک اور۔ اور اس طرح وہ بیٹے کی چاہ میں چار بیٹیوں کا باپ بن گیا۔ چوتھی بیٹی کی ولادت کے بعد وہ بالکل ٹوٹ ہی گیا اور کویتا تو اس طرح شرمندہ رہتی تھی جیسے اس نے کوئی بڑا گناہ کیا ہو۔ رویندر جانتا تھا کہ اس میں کویتا کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن جب لوگ کویتا کو موردِ الزام ٹھہراتے تھے تو وہ اس کا دفاع نہیں کرپاتا تھا۔ لوگ بھی عجیب ہیں، بظاہر کہتے ہیں کہ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں اور گاڑی دو پہیوں کے بغیر نہیں چل سکتی۔ لیکن نہ جانے کیوں گاڑی کے اس پہیے کو برداشت نہیں کر پاتے۔ جس کا نام عورت ہے اور جو بیٹی کی شکل میں دنیا میں آئی ہے۔
رویندر نے خاندان کے افراد اور ماں باؤجی کے طعنوں سے بچنے کے لئے سب سے علاحدگی اختیار کر لی تھی۔ وہ اپنی چاروں لڑکیوں اور کویتا کے ساتھ خوش تھا یا خوشی ظاہر کرتا تھا۔ اُسے قدرت سے شکایت تھی لیکن نا امیدی نہیں تھی۔ اور اسی نا امیدی میں امید کی کرن اس وقت روشن ہوئی جب کویتا نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ بیٹے کی پیدائش سے دونوں ہی بہت خوش ہوئے۔ اسے لگ رہا تھا جیسے کویتا پر لگا ہوا کلنک اب دھل جائے گا۔ کویتا بھی بہت خوش تھی۔ چاروں بیٹیاں آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جا رہی تھیں۔ سُمن جو سب سے بڑی تھی۔ ماں کا سہارا بن رہی تھی۔ اسے یہ احساس تھا کہ اس کے باپ کے اوپر کتنی ذمہ داریاں ہیں۔ اور اس کی آمدنی محدود ہے۔ وہ کبھی اپنے باپ سے بے جا فرمائش نہیں کرتی تھی اور وہ ہر وقت اپنی چھوٹی بہنوں کو بھی سمجھاتی رہتی تھی۔ وہ اتنی بڑی ہو گئی تھی کہ اسے یہ احساس بھی ہونے لگا کہ اس کے ماں باپ کو چار لڑکیوں کا باپ ہونے کے سبب مطعون بھی کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کو سماج کے دیئے ہوئے اس احساس سے نکالنا چاہتی تھی کہ وہ لڑکیوں کا باپ ہے جسے سر اٹھا کر جینے کا حق نہیں ہے۔ وہ گاڑی کا ایسا پہیہ بننے کی خواہش رکھتی تھی کہ جس کے بغیر گاڑی آگے نہ بڑھ سکے۔ وہ تعلیم بھی حاصل کر رہی تھی اور بڑی حد تک گھر کا کام بھی سنبھال رکھا تھا۔ رویندر اور کویتا اسے دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور فخر سے کہتے تھے:
’’کون کہتا ہے کہ بیٹیاں بیٹوں سے کمتر ہوتی ہیں۔‘‘
وقت گزرتا گیا۔ بچّے بڑے ہوتے گئے۔ سُمن کی عمر پچیس کو پہنچ گئی لیکن ہاتھ پیلے کرنے کے لئے کہیں سے ابھی تک اُبٹن نہیں آیا۔ لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی عمریں رویندر اور کویتا کی فکریں بھی بڑھ رہی تھیں۔ اور ان فکروں سے نجات حاصل کرنے کے لئے رویندر نے زیادہ محنت شروع کر دی تھی۔ لیکن قدرت نہ جانے کیا چاہتی تھی، کیوں اس کا امتحان لے رہی تھی۔ ہوا یوں کہ اچانک ایک دن فیکٹری میں کام کرتے کرتے ویلڈنگ کے وقت ایسی چمک پڑی کہ اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے تاریک ہو گئیں اور اس دن ایسا لگا جیسے دنیا ہی تاریک ہو گئی۔ گھر کا ہر فرد اندھیرے غار میں چلا گیا۔ رویندر کی معذوری کا الزام ایک بار پھر کویتا کے سر پر آ گیا۔ عورت بھی دنیا کی عجیب مخلوق ہے، اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے کا گھر بساتی ہے، ان کامیابیوں کا سہرا مرد کے سر بندھتا ہے جس میں وہ برابر کی شریک ہوتی ہے لیکن ناکامیوں میں صرف وہی منحوس کہلاتی ہے۔ رویندر کی نابینا ئی نے سُمن کو اچانک بڑا کر دیا تھا، پورے گھر کا بوجھ اُس کے کاندھوں پر آ پڑا تھا۔ بھائی جو سب سے چھوٹا تھا ابھی اس لائق نہیں تھا کہ ماں باپ کا سہارا بن سکے۔ بہنوں کی ذمہ داریاں اٹھا سکے اور پھر یوں بھی ہوا کہ وہ بیٹا جس کی چاہ میں رویندر اور کویتا کی آنکھیں پتھرا گئیں تھیں۔ اچانک بیمار ہوا اور بیماری اس حد تک پہنچی کہ اس کے دونوں گردوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ رویندر کو لگا جیسے حال کے ساتھ ساتھ اس کا مستقبل بھی تاریک ہو گیا۔ وہ قدرت کی منشا سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ کیوں اس کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے۔ اس نے تو ہر حال میں صبر و شکر ادا کیا تھا۔ اسی بے بسی کے عالم میں وہ رو پڑا۔ کویتا جسے حالات نے ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دیا تھا اسے دلاسا دے رہی تھی:
’’اتنا کیوں گھبراتے ہو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’مجھے تو نہیں لگتا۔ شاید میری آنکھوں کی روشنی اسی لئے چلی گئی کہ اپنے گھر کی بربادی نہ دیکھ سکوں۔‘‘
’’ایسا کیوں کہتے ہو، تمہاری آنکھوں کی روشنی بھی آئے گی اور ہمارا بیٹا بھی ضرور ٹھیک ہو گا۔‘‘ کویتا رویندر کی ہمت بڑھا رہی تھی۔
’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
’’آجکل سب ممکن ہے …… آنکھ بھی دوسرے آدمی کی لگا دی جاتی ہے اور گردے بھی…… تمہاری روشنی ضرور واپس آئے گی اور تم پھر سے کام پر جاؤ گے اور بیٹیوں کے ہاتھ بھی پیلے کرو گے۔ تمہارا بیٹا بھی تمہاری مدد کرے گا۔‘‘
کویتا رویندر کو اس طرح سمجھا رہی تھی جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو دلار رہی ہو۔ برابر کے کمرے میں بیٹھی چاروں بیٹیاں ان کی باتیں سن کر آبدیدہ ہو رہی تھیں۔
’’دیدی kidney transplant میں تو بہت پیسے لگتے ہیں اور پھر kidney، donate کرنے والا بھی تو پیسے لیتا ہے۔ اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے؟‘‘ سمن کی ایک بہن اپنی بات کہہ کر سوال کرتی:
’’دیدی ایک kidney پر بھی تو آدمی زندہ رہ سکتا ہے۔ اگر میں اپنا ایک کڈنی بھائی کو دے دوں تو بھائی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ دوسری بہن اپنی رائے پیش کرتی۔
’’اور دیدی مرنے سے پہلے لوگ اپنی آنکھیں بھی دان کرتے ہیں۔ شاید ہمیں کسی Eye Bank میں پاپا کے لئے آنکھیں مل جائیں۔‘‘
ایسا لگتا تھا جیسے چاروں بہنوں کے نازک کاندھوں پر گھر کی ذمہ داریاں آن پڑی ہیں۔ سُمن گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ باتیں کرتے کرتے تینوں بہنیں نیند کی آغوش میں چلی گئیں لیکن سُمن اُس رات سو نہیں سکی۔ ماں باپ کی بے بسی نے اُس کی آنکھوں سے نیند اڑا دی تھی۔ وہ بار بار سوچتی کہ پاپا کی آنکھوں کی روشنی اور بھائی کی زندگی ہم لوگوں کے لئے کتنی ضروری ہے۔ ابھی تو بہت کچھ، بلکہ سبھی کچھ باقی ہے۔ اسی بے چینی کے عالم میں اس نے بستر سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع کر دیا۔ وہ کبھی کھڑکی سے چمکتا ہوا چاند دیکھتی لیکن کمرے کے اندھیرے کو دیکھ کر ڈر جاتی۔ اس کی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی۔ رویندر اور کویتا کی باتیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ اور پھر رات بیت گئی۔ سورج کی کرنیں کھڑکی سے کمرے میں داخل ہوئیں۔ پہلے کویتا بیدار ہوئی پھر لڑکیوں کو آواز دی۔ ایک ایک کر کے سب اٹھتی چلی گئیں۔ لیکن اُن میں سُمن نہیں تھی۔۔۔ ۔۔ ۔
اچانک گھر کے سبھی افراد چیخنے چلانے لگے۔ سُمن کا جسم برآمدے میں لگے پنکھے میں جھول رہا تھا۔ موت کے دس دن بعد جب غم ہلکا ہونے لگا تھا، اچانک پھر غم تازہ ہو گیا۔ سب چیخنے چلانے لگے۔ سمن کا ماں باپ کے نام آخری خط ملا تھا۔۔۔ ۔
’’ماں مجھ سے آپ لوگوں کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی۔ پاپا کی آنکھیں اور بھائی کی زندگی ہم سب کے لئے ابھی بہت ضروری ہے۔ اسی لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی آنکھیں اور کڈنی پاپا اور بھائی کو دے دوں۔ پلیز آپ میری موت کے فوراً بعد میری آنکھیں پاپا کو اور کڈنی بھائی کو لگوا دیجئے۔ آپ کی سُمن‘‘
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...