طاؤس کی غمناک موسیقی چند لمحوں کے بعد رک جاتی ہے۔
’’سبحان اللہ۔۔۔ جہاں پناہ۔۔۔ سبحان اللہ۔‘‘
’’بیگم‘‘ (بھاری اور رنجور آواز میں)
’’جہاں پناہ۔۔۔ اگر ہندوستان کے شہنشاہ نہ ہوتے تو ایک عظیم مصنف، عظیم شاعر، عظیم مصور اور عظیم موسیقار ہوتے۔‘‘
’’یہ تعریف ہے یا غمگساری۔۔۔ بہرحال جو بھی ہے ما بدولت کے بے قرار دل کو قرار عطا کرنے کی جسارت کرتی ہے۔‘‘
’’جہاں پناہ کی آنکھوں نے آج پھر نیند کو باریابی سے محروم رکھا؟‘‘
’’بیگم‘‘
’’نصیب دشمناں۔۔۔ کیا مزاج عالم پناہی۔‘‘
’’ہندوستان کے تخت پر جلوس کرنا آسان ہے لیکن سچ بولنا دشوار ہے۔ دشوار تر۔‘‘
’’نور جہاں بیگم کے سامنے بھی عالم پناہ!‘‘
’’بیگم‘‘
’’ظل الٰہی کو جو ارشاد فرمانا ہے وہ ارشاد فرما دیا جائے۔۔۔ پھر جلاد کو حکم دیا جائے کہ ہمارے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال کر الفاظ پر مہریں لگا دے۔‘‘
’’خوب۔۔۔ جوانی آنکھیں قبول کر چکی۔۔۔ بڑھاپا سماعت کو سولی چڑھا دے۔‘‘
’’کنیز کچھ سمجھنے سے قاصر ہے۔‘‘
’’آپ کے نام کا سکہ روئے زمین کی سب سے شاندار سلطنت کے بازار کا چلن ہے۔ ہندوستان کی مہر حکومت آپ کی انگشت مبارک کی زینت ہے۔ زمانہ جانتا ہے کہ جہانگیر ایک جام کے عوض تاج ہندوستان آپ کو عطا کر چکا۔۔۔ لیکن یہ کون جانتا ہے کہ جہانگیر آج بھی اپنی محبت کی تکمیل کا محتاج ہے۔‘‘
’’ظل اللہ۔‘‘
’’پوری کائنات کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ لینے والی محبت اس ایک چھوٹے سے لمحے کی محتاج ہوتی ہے جب عاشق اپنے سینے کا آخری راز محبوب کے سینے میں منتقل کر دیتا ہے۔۔۔ آج کون سی رات ہے بیگم۔‘‘
’’شوال کی چودھویں عالم پناہ۔‘‘
’’بہت خوب۔۔۔ آج کی رات آسمان سے اس لیے اتاری گئی کہ ما بدولت آپ کے سر پر تکمیل کی محبت کا تاج رکھ دیں۔‘‘
’’ظل الٰہی۔۔۔ کیا روئے زمین پر کوئی عورت ہے جس کے ہاتھ میں خاتم سلیمانی ہو اور سرپر محبت کا تاج؟‘‘
’’نور جہاں بیگم۔۔۔ رام رنگی کا ایک جام بنائیے اور اس طرح ہونٹوں سے لگا دیجیے کہ جام ما بدولت کی آنکھوں سے دور رہے۔۔۔ ایک عمر ہونے کو آئی کہ جام میں آنکھیں نظر آ رہی ہیں۔۔۔ وہی آنکھیں۔۔۔۔ وہ بے پناہ آنکھیں۔‘‘
’’جہاں پناہ طبیب شاہی کی مقرر کی ہوئی مقدار شراب۔۔۔‘‘
’’نوش فرما چکے! یہ کیسی شہنشاہی ہے کہ ایک ایک جام کو ترستی ہے۔۔۔؟‘‘
’’بیگم۔۔۔ ہماری محبت کے جشن تاجپوشی کے تصدق میں ایک جام عطا کر دیجیے۔‘‘
’’اتنی عزت نہ دیجیے جہاں پناہ کہ نور جہاں اس بار عظیم کی متحمل نہ ہو سکے۔‘‘
(شراب ڈھالتی ہے۔۔۔ ایک ہی سانس میں جام خالی ہو جاتا ہے)
’’بیگم!‘‘
’’کنیز ہمہ تن گوش ہے عالم پناہ۔‘‘
’’ایک مدت ہوئی کہ ما بدولت زندہ تھے۔‘‘
’’ظل اللہ۔‘‘
’’جی ہاں بیگم۔۔۔ زندگی کا صرف ایک نام ہے۔ جوانی۔۔۔ اور سلیم کی جوانی دولت مغلیہ کے اولین صاحب عالم کی جوانی۔۔۔ فردوس مکانی بابر بارہ برس کی عمر میں بادشاہ ہو گئے۔ جنت مکانی ہمایوں میدان جنگ میں تلوار چلاتے ہوئے جوان ہوئے۔ عرش آشیانی (اکبر) اپنے دادا جان کی طرح بارہ برس کی عمر میں تخت نشین ہوئے اور اکبر اعظم کی ولی عہدی سلیم کا مقدر ہوئی۔۔۔ عرش آشیانی نے جب شراب پر پہرے بٹھا دیے تو ما بدولت کے جاں نثار اپنی بندوقوں کی نالیوں میں شراب بھر کر لاتے اور پیمانے لبریز کر دیتے اور نظام ہضم بارود سے سینچی ہوئی شراب اس طرح ہضم کر لیتا جس طرح آج دوا کا پیالہ ہضم نہیں ہوتا۔ اس بے پناہ جوانی اور بے محابہ شہزادگی کا اثر تاجداری پر طاری رہا۔۔۔ بیگم۔‘‘
’’عالم پناہ۔‘‘
’’یہ پردہ ہٹا دیجیے۔۔۔ سنگ مرمر کی زیبائی چاندنی سے ہوتی ہے۔ آج کی رات کی چاندنی میں اگر ما بدولت جوان ہوتے تو ساری رات آپ کے ہاتھوں سے پیمانے قبول کرتے رہتے۔‘‘
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’ہاں بیگم۔۔۔ دوسرا سال جلوس تھا۔ ما بدولت مینا بازار میں جلوہ افروز تھے کہ ایک لڑکی نے پان پیش کیے۔ گلوریوں کی نزاکت اور نفاست پسند خاطر ہوئی۔ ہاتھوں پر نظر پڑی تو اور ہی عالم نظر آیا جیسے نو رکے سانچے میں ڈھال دے گئے ہوں۔ نگاہ بلند ہوئی۔ معصوم وحشی آنکھوں میں ڈوب گئی اور محسوس ہوا جیسے اندر کہیں کوئی چیز ٹوٹ گئی۔ جب ہوش آیا تو وہ نگاہ نیچے کئے لرز رہی تھی اور دونوں ہاتھوں میں طشت کانپ رہا تھا۔ ما بدولت گردن سے ہار اتار رہے تھے کہ اس کی آواز طلوع ہوئی جیسے کشمیر کے برف پوش پہاڑوں پر سورج کی کرن تڑپتی ہے۔‘‘
’’تحفہ درویش کی قیمت کیا عالم پناہ۔‘‘
’’بے شک تحفہ درویش قیمت سے بلند ہوتا ہے۔ یہ موتی اس نفاست اور نزاکت کی داد ہیں جو ان گلوریوں میں مجسم کر دی گئی۔ ہم آگے بڑھے تو عرفان ہوا کہ ہم پیچھے رہ گئے۔ پہلی بار معلی ویران معلوم ہوا۔۔۔ اکبر اعظم کے جانشین کی بارگاہ خالی محسوس ہوئی۔ پہلی بار ما بدولت کو غربت کا تجربہ ہوا۔ ایسی غربت جو دل کو مٹھی میں دبوچ کر ایک ایک قطرہ لہو نچوڑ لیتی ہے اور جب ہم نے چاہا کہ دل کی ویرانی کو شراب سے شاداب کر لیں تو پہلی بار انکشاف ہوا کہ شراب نشے سے عاری ہو چکی۔ دیر تک شیشے خالی ہوتے رہے لیکن دل کا خلا پر نہ ہو سکا۔‘‘
’’جہاں پناہ! کنیز نے اپنی کم فہمی کی بنا پر قیاس کیا تھا کہ ظل الٰہی کا راز شاہزادہ خرم اور شاہزادہ شہریار کی آویزش سے متعلق ہو گا لیکن۔‘‘
’’خرم اور شہریار کی آویزش مغل تاجداروں کی روایت ہے۔ مغل سلطنت اس کا مقدر ہوتی ہے جس کی تقدیر کامگار اور شمشیر آبدار ہوتی ہے۔ جب خسرو نے ما بدولت کے منہ پر تلوار کھینچ لی تو خرم اور شہریار بہرحال۔‘‘
’’پھر جہاں پناہ۔‘‘
’’پھر ما بدولت کے ہاتھ نے گھنٹہ بجا دیا۔ چوبدار کے بجائے محرم خاں کورنش ادا کر رہا تھا۔ ابھی اس کی بے ادب حاضری پر غور فرما تھے کہ معروض ہوا، ’’پان پیش کرنے والی صاحبزادی کا نام صائمہ خاتون ہے جو بخارا کے شیخ الاسلام کی پوتی اور جلوہ دار شیخ عرب کی بیٹی ہیں۔ ان کا مکان عرب کی سرائے ہے۔‘‘
’’محرم خان۔‘‘
’’ظل الٰہی‘‘
’’یہ قیمتی معلومات کس کے حکم سے فراہم کی گئیں۔‘‘
’’زبان مبارک سے نازل ہونے والے احکامات کی تکمیل ہر بندہ درگاہ کا فرض ہے۔ لیکن محرم خاں جیسے مقرب بارگاہ کے منصب حق ہے کہ وہ عالم پناہ کے چشم و ابرو زبان سمجھنے کی قدرت رکھتا ہو۔‘‘
’’جہانگیری چشم و ابرو کی زبان سمجھنا ایک نادر علم ہے لیکن اس کا اظہار اس سے زیادہ نادر ہنر اور اس ہنر کا غلط استعمال بیداد کا مستوجب۔‘‘
’’خداوند۔‘‘
’’ما بدولت نے تمہارا قصور معاف کیا اور حکم دیا کہ خلعت ہفت پارچہ مع زرد جواہر کے ساتھ نواب صائمہ بیگم کی خدمت میں حاضر ہو اور پیام دو کہ جشن سالگرہ میں شریک ہونے کی سعادت حاصل کریں۔‘‘
’’ہرچند کہ ابھی رات کی زلف کہیں تک بھی نہ پہنچی تھی تاہم بے طرح انتظار فرما ہو چکے تھے۔‘‘
’’کتنی خوش نصیب تھی صائمہ بیگم کہ عالم پناہ اس کے منتظر تھے۔ کتنی بدنصیب تھی صائمہ بیگم کہ جہاں پناہ کی حضوری سے محروم تھی۔‘‘
’’تمام رات وہ آنکھیں ہماری آنکھوں کے سامنے مجریٰ کرتی رہیں جن کی سیاہی میں ابد الآباد تک کے تمام مہجور عاشقوں کی سیہ بختی کا جوہر کھینچ کر انڈیل دیا گیا تھا۔ جن کی تاب کے سامنے تمام سمندروں کے تمام موتیوں کی آب پانی پانی تھی۔‘‘
’’سبحان اللہ۔۔۔ اگر ملک الشعراء اس تشبیہ کو سن لیتا تو خجالت سے ڈوب ڈوب جاتا۔‘‘
’’وہ رات زندگانی کی سب سے بھاری رات تھی۔‘‘
’’کیا اس رات سے بھی بھاری جہاں پناہ۔۔۔ جس کی صبح اکبر اعظم کی تلوار طلوع ہونے والی تھی۔‘‘
’’ہاں بیگم۔۔۔ اس رات کی دلداری کے لیے پچاس ہزار تلواریں سلیم کی رکاب میں تڑپ رہی تھیں اور صاحب عالم کے منہ سے نکلا ہوا ایک فقرہ اکبری تلوار کو غلاف کر سکتا تھا لیکن اس رات کی غمگساری کے لیے نورالدین محمد جہانگیر کے پاس ایک دامن و آستین کے سوا کچھ نہ تھا۔‘‘
’’کاش۔۔۔ اس رات کی خدمت گزاری کنیز کا مقدر ہوئی ہوتی۔‘‘
’’پھر سورج کی کرنیں سلام کو پیش ہوئیں۔۔۔ ما بدولت درشن کے پرنزول اجلال کے اہتمام میں مصروف تھے کہ فریادی نے زنجیر ہلا دی۔‘‘
’’صائمہ بیگم اس طرح باریاب ہوئی گویا وہ کشور ہندوستان کی قلعہ معلیٰ میں نہیں کسی غریب عزیز کے گھر میں قدم رنجہ فرما رہی۔ نقاب کے اٹھتے ہی محسوس ہوا جیسے داروغۂ چاندنی خانہ نے قلعہ معلیٰ کی تمام روشنیاں ایک شاہ برج میں انڈیل دی ہوں۔ استفسار پر اس طرح مخاطب ہوئی جیسے وہ جہانگیر سے نہیں اپنی ڈیوڑھی پر کھڑے ہوئے سوالی سے مخاطب ہے۔۔۔ اس کی خطابت نے یقین دلا دیا کہ ما بدولت نے محرم خاں کو سفیر بنا کر غلطی کا ارتکاب نہیں جرم سرزد فرمایا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ بھری دوپہر پر رات غالب آ گئی ہے۔ وہ جا چکی تھی۔۔۔ اس کے غروب ہوتے ہی محرم خاں باریاب ہوا۔۔۔ عرض کیا گیا کہ خلعت نا مقبول اور دعوت نا منظور ہوئی۔‘‘
نجابت اور شرافت پر اتنا غرور۔۔۔ ایسا تبحّر۔۔۔ معاذ اللہ۔۔۔ معاذ اللہ۔۔۔ ایک جام اور عنایت کہ زبان خشک ہونے لگی ہے۔ (شراب ڈھالتی ہے۔۔۔ اور ایک ہی سانس میں آبگینہ ختم ہو جاتا ہے)
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’گوش گزار کیا گیا کہ ارم آشیانی علیہ حضرت مریم زمانی ورود مسعود فرما رہی ہیں۔۔۔ سلام کے جواب میں ارشاد ہوا کہ شیخو بابا کو اس مغرور لڑکی میں کیا نظر آ گیا کہ مغل جبروت و جلال کی بازی لگا دی گئی۔۔۔ ما بدولت سکوت فرما رہے۔۔۔ جب سکوت حد ادب سے گزرنے لگا تو علیہ حضرت نے سنا کہ صائمہ بیگم سر سے پاؤں تک کرشمہ الٰہی ہے لیکن آنکھوں کی بے پناہی زمین و آسمان کے درمیان اپنی مثال نہیں رکھتی۔۔۔ سورج شاہ برج سے رخصت ہو کر اجازت مانگ رہا تھا کہ علیہا حضرت ثانی کا غلغلہ بلند ہوا۔ خوش خبری سنائی گئی کہ سفارش خاص پر نواب صائمہ بیگم رات کے کسی پہر قلعہ مبارک میں جلوس فرمائیں گی۔‘‘
’’ظل الٰہی نے اس خبر کو کس طرح قبول فرمایا۔‘‘
’’ما بدولت نے غسل فرمایا۔۔۔ نیا لباس زیب تن کیا۔۔۔ نئے جواہر سے آراستہ ہوئے۔۔۔ اور خاصہ تناول فرمایا۔۔۔ داروغۂ چاندنی خانہ کو حکم ہوا کہ ارک معلیٰ کا چپہ چپہ روشنی میں غرق کر دے۔‘‘
’’داروغۂ بیوتات کو فرمان ملا کہ ذرہ ذرہ مشک و عنبر سے معطر کر دے اور داروغۂ جواہر خانہ کو پروانہ پہنچا کہ شاہ برج کے طاق جواہرات سے لبریز کر دے۔ قلعہ دار کو مطلع کیا گیا کہ نواب صائمہ بہادر کی سواری کو نوبت خانے کی سیڑھیوں تک آنے کی اجازت عطا ہو۔ احکامات کی تعمیل ہو چکی تھی اور ما بدولت انتظار کے تخت پر جلوہ افروز تھے۔‘‘
’’ظل اللہ کے دہن مبارک سے انتظار کا لفظ عطا ہو کر کنیز کی سماعت پر اس طرح گرتا ہے جیسے طاؤس پر عقاب۔‘‘
’’مقربین بارگاہ نے تہنیت دی کہ حضرت نواب صائمہ بیگم بہادر کی سواری نوبت خانے کی سیڑھیوں پر لگا دی گئی۔۔۔ چوبداروں کی آوازوں پر ملاحظہ فرمایا کہ وہ سیاہ سوتی برقعہ پر بھاری نقاب ڈالے، دونوں بازوؤں پر عورتوں کا سہارا لیے ہاتھوں میں ایک سرخ پیالہ سنبھالے آہستہ آہستہ آ رہی ہے۔ نقیب خاص کی آواز پر عورتوں نے اس کے بازو چھوڑ دیے اور وہ کورنش ادا کرنے کے بجائے گھٹنوں پر گر پڑی، کانپتے ہاتھوں سے دراز ہو کر پیالہ تخت کی طرف بڑھا دیا۔۔۔ ما بدولت تخت سے اتر پڑے دستگیری عطا کرنے کے بجائے اس کی نذر قبول کی۔۔۔ پیالہ ہاتھ میں آیا تو بیگم۔۔۔ جیسے آنکھوں سے بصارت چلی گئی۔‘‘
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’پیالے میں اس کی آنکھیں تڑپ رہی تھیں۔‘‘
’’ظل الٰہی۔‘‘
’’ہاں بیگم اس کی آنکھوں کے دیدے پیالے میں رکھے تھے۔۔۔ شہنشاہ کی پوری عمر میں آداب شہنشاہی کبھی اتنے بھاری نہ معلوم ہوئے۔۔۔ تاہم انہوں نے اس کا نقاب اٹھا دیا۔۔۔ آنکھوں کی جگہ دو سوراخ تھے جن سے خون رس رہا تھا۔ زرد سنگ مرمر سے تراشا ہوا چہرہ ساکت تھا۔ پائے مبارک میں جیسے کسی نے زنجیریں ڈال دیں۔‘‘
’’نصیب دشمناں۔‘‘
’’صرف اس قدر ادا ہو سکا کہ نواب صائمہ بیگم بہادر نے یہ کیا کر لیا۔‘‘
آواز آئی
’’شہنشاہوں کی پسند غریبوں کو زیب نہیں دیتی۔ ناچیز کی آنکھیں جہاں پناہ کو پسند آ گئیں۔۔۔ نذر میں گزار دی گئیں۔۔۔ کل کی گلوریوں کی طرح قبول فرما لیجیے۔‘‘ سر سے پاؤں تک آنسوؤں میں پروٹی ہوئی ہماری اجنبی آواز ایک ایک طبیب کا دامن سماعت پکڑ کر فریادی ہوئی۔۔۔۔ لیکن بیگم۔‘‘
’’ظل الٰہی۔‘‘
’’جب بھی تنہائی باریاب ہوتی ہے۔۔۔ جہانگیر کی پیٹھ پر اس آواز کے تازیانے برسنے لگتے ہیں۔۔۔ آنکھوں میں وہ زندہ دیدے انگاروں کی طرح دہکنے لگتے ہیں۔۔۔ کاش وہ زندہ رہتی تو جہانگیری محل اس کو تفویض کر دیا جاتا، اس کی دلداری اور دلآسائی کی جاتی تو شاید اس چوٹ کی تڑپ کم ہو جاتی بیگم۔‘‘
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’ایک جام اور عطا کر دیجیے کہ سماعت جلنے لگی ہے اور بصارت دمکنے لگی ہے۔‘‘
٭٭٭
ماخذ:
https://salamurdu.com/category/urdu-writings/urdu-afsanay/qazi-abdulsattar
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید