ددھیال سے ہمارا تعلق کم ہی تھا۔ کبھی کبھی کوئی رشتے دار ملنے آجاتے تھے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ دادا دادی کا انتقال ہوچکا تھا اور ابا اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے، کوئی بہن، بھائی بھی نہیں تھے۔
ابا کے تایا زاد بھائی کے اکلوتے بیٹے کی شادی تھی، تایا ابو نے بہت تاکید سے سب کو بلایا تھا۔ امی نے مجھے بھی حکم صادر کر دیا تھا چلنے کے لیے۔ جب میں نے اپنی پڑھائی کا بہانہ بنایا، جانے سے بچنے کے لیے تو امی نے بڑے اطمینان سے کہا:
’’آنے کے بعد cover کر لینا۔‘‘
اکثر ایسے موقعوں پر میں ہی ہدف بنتا تھا۔ بھائی کو تو سو خون معاف تھے اور چھوٹا بھائی بقول امی کے’’وہ چھوٹا ہے۔‘‘
ابا، امی، میں اور میرا چھوٹا بھائی ہم سب شادی میں شرکت کے لیے پہنچے۔ نومبر کا مہینہ تھا، خوش گوار سردی تھی، ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ میں پہلی بار دہلی دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں بہت خوش تھا۔
تایا ابو، ناصر بھائی اور دوسرے رشتے دار ہمیں اسٹیشن لینے آئے تھے۔ راستے بھر میں اس شہر کو اشتیاق سے دیکھتا رہا۔ یہ وہ شہر تھا جو میرؔ، دردؔ، غالبؔ، مومنؔ جیسے صاحبِ طرز اور عظیم شعرا کا مسکن تھا۔ مجھے احساس بھی نہیں ہوا، کب گھر آگیا۔
شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ ہر روز کوئی نہ کوئی فنکشن، کوئی نہ کوئی رسمیں، ہنسی، مذاق، لطیفے، آدھی آدھی رات تک جاگنا۔ دنیا ہی دوسری تھی۔ کہاں ہمارے گھر کا پُرسکون ماحول اور کہاں یہ سب کچھ۔
شادی ہوگئی۔ لبنیٰ بھابھی رخصت ہو کر ’پالکی‘ میں، جس کو ’کہاروں‘ نے اٹھایا ہوا تھا، اپنی سسرال پہنچیں۔ سسرال پہنچنے پر ان کا زبردست استقبال ہوا، بہت سی رسمیں ہوئیں پھر بھابھی کو اوپر ان کے کمرے میں پہنچایا گیا مگر ناصر بھائی کو ’بہنوں‘ نے دروازے پر ہی روک لیا، اپنا ’نیگ‘ لینے کے لیے۔ کافی بحث مباحثے کے بعد بہنیں کافی بڑی رقم لینے میں کامیاب ہوگئیں اور ناصر بھائی کو کمرے میں جانے کی اجازت مل گئی۔
دوسرے دن ناصر بھائی کی بڑی بہن انھیں ناشتے کے لیے بلانے گئیں۔ لبنیٰ بھابھی کے گھر والے ناشتا لے کر آئے تھے۔ فرحین باجی دوڑتی ہوئی نیچے آئیں اور انھوں نے ہانپتے ہوئے بتایا، ’’بھائی باہر برآمدے میں صوفے پر لیٹے ہوئے ہیں، ان سے اٹھا بھی نہیں جارہا ہے۔‘‘
یہ سن کر سب اوپر بھاگے، لبنیٰ بھابھی کے گھر والے بھی۔
بھائی نے بتایا، ’’میں جیسے ہی کمرے کے اندر گیا اور میں نے کنڈی بند کی، لبنیٰ تیزی سے اٹھی اور مجھے ایک لحظے میں کمرے سے باہر پھینک دیا اور کنڈی بند کر لی۔ بڑی مشکل سے میں اٹھ کر صوفے پر لیٹا۔‘‘
سب حیران تھے لبنیٰ جیسی دبلی پتلی لڑکی، ناصر بھائی جیسے اونچے چوڑے تگڑے آدمی کو کس طرح اٹھا کر باہر پھینک سکتی ہے۔ کمرے میں جاکر دیکھا تو لبنیٰ بھابھی، بالکل اسی طرح دلھن کی حالت میں جیسا انھیں کمرے میں لایا گیا تھا، سو رہی تھیں۔ کپڑے، زیور وغیرہ کچھ نہیں اتارے تھے۔
لبنیٰ بھابھی کو ناشتے کے بعد ان کے گھر والے اپنے ساتھ لے گئے۔ ناصر بھائی کو چپ لگ گئی تھی۔ سب گھر والے بھی اپنے اپنے طور پر گم سم تھے۔ تایا ابو، ابا اور کچھ لوگ مل کر لبنیٰ بھابھی کے گھر گئے اور ان کے والدین سے بات کی اور کہا:
’’آپ نے ہمیں لبنیٰ کی اس حالت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ ہم نہیں جانتے کیا معاملہ ہے۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘ تایا ابو نے تھوڑی خفگی اور تھوڑے شکایت آمیز لہجے میں کہا۔
لبنیٰ بھابھی کے والد بہت سمجھ دار آدمی تھے۔ موقع کی نزاکت کو سمجھ رہے تھے۔ انھوں نے سب کو یقین دلایا کہ ہم کچھ نہیں جانتے۔ لبنیٰ ہمیشہ سے یاک سیدھی سادی بے حد باادب لڑکی ہے۔ شوخ اور شریر بھی نہیں ہے۔‘‘ اور یہ حقیقت بھی تھی۔ اس سے پہلے کبھی کسی کو لبنیٰ بھابھی سے شکایت نہیں ہوئی تھی۔
ولیمہ مؤخر کر دیا گیا۔ ناصر بھائی، بھابھی کے ہاں جانے یا ان کو اپنے گھر لانے پر قطعی تیار نہیں تھے۔ دو دن کے بعد ہم لوگ حیدرآباد اپنے گھر لوٹ گئے۔ گھر آنے کے بعد کچھ دنوں تک یہ باتیں چلتی رہیںپھر آہستہ آہستہ سب بھول گئے۔ تقریباً ایک سال کے بعد تایا ابو کا خط آیا کہ ناصر بھائی اپنے سسر اور لبنیٰ کے ساتھ آرہے ہیں۔
امی نے ان کے رہنے سہنے کے سارے انتظامات کیے۔ یہ لوگ پہلی مرتبہ ہمارے گھر آرہے تھے، اس لیے امی نے خصوصی طور پر خیال رکھا تھا۔ ان کے آنے کے بعد معلوم ہوا کہ حیدرآباد میں کوئی عامل صاحب ہیں جو جادو، سحر، جن وغیرہ کے علاج میں ماہر ہیں۔ بہت شہرت ہے ان کی۔ ان سے علاج کروانے کے لیے آئے ہیں۔ ناصر بھائی نے امی سے کہا:
’’چچی! آپ میرے رہنے کا انتظام انکل کے کمرے میں کر دیں، میں لبنیٰ کے ساتھ نہیں رہوں گا۔ میں تو آبھی نہیں رہا تھا، ابو نے مجھے زبردستی بھیجا ہے۔‘‘
لبنیٰ بھابھی کے متعلق سب کو معلوم ہی تھا۔ ہر کوئی ان سے دور دور رہتا۔ سب ان سے خوف کھاتے۔ مشہور ہوچکا تھا، ان پر آسیب ہے یا شاید کوئی جن ہے۔ لبنیٰ بھابھی خوب صورت تو تھیں ہی لیکن ان کی آنکھیں:
وحشت کرنا شیوہ ہے ان کالی آنکھوں والوں کا
سب کہتے تھے ’’جن ان کی آنکھوں پر مرمٹا ہوگا۔‘‘ لیکن میں نے دیکھا، ’جن‘ یا جو کوئی بھی ہوگا وہ لبنیٰ بھابھی کو مارے دے رہا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے گھلتی جا رہی تھیں۔ ان کی سرخ و سفید رنگت کی جگہ زردی چھاگئی تھی۔ لوگ ان کے قریب نہیں جاتے تھے۔ جب ان پر دورہ پڑتا تو وہ مردوں کی آواز میں بولتیں اور جب کوئی ان سے بولتا تو ان کا جسم اکڑ جاتا اور ہاتھ اور ہاتھوں کی انگلیاں ایسی ہو جاتیں کہ جیسے وہ مخاطب کی آنکھیں نوچنے والی ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ جن ان کی روزمرہ زندگی کے معاملات میں حارج نہیں ہوتا تھا۔
لبنیٰ بھابھی ہر وقت اپنے کمرے کا دروازہ بند کیے اور اندر سے کنڈی لگائے رکھتیں۔ ان کو کھانا وغیرہ دینا، ان کے کمرے کی صفائی یہ سب کون کرے گا؟ ہر ایک ان کے نزدیک جانے سے خوف کھاتا تھا۔
امی نے بوا کی طرف دیکھا۔
’’نہ بابا! مجھے تو باورچی خانے سے ہی فرصت نہیں۔‘‘
انھوں نے جان چھڑانے کے انداز میں فوراً کہا۔
امی نے خالہ سے کہا، خالہ نے صاف منع کر دیا۔ اس کے بعد امی کو میں ہی نظر آیا۔ اور یہ میری ذمہ داری بنائی گئی۔ خوف تو مجھے بھی ہوا۔ کیوں نہ ہوتا لیکن میرے اندر کا تجسس خوف پر غالب آگیا۔ یوں بھی مجھے جنوں، بھوتوں وغیرہ سے دو دو ہاتھ کرنے کا شوق تھا۔ کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے دوستوں سے ایک شرط جیتی تھی۔ شرط یہ تھی، رات ٹھیک بارہ بجے نزدیک کی پہاڑی کے دامن میں کھڑے ہوئے ایک کھجور کے پیڑ پر چڑھوں جس پر کسی جن کا بسیرا تھا۔ میں نے ٹھیک بارہ بجے یہ کارنامہ انجام دیا۔ میرے دوست خاصے فاصلے پر ایک برگد کے پیڑ کے نیچے کھڑے ہو کر میراانتظار کر رہے تھے۔ جب میں وہاں سے زندہ سلامت لوٹا تو دوستوں میں سے ایک نے میری جامہ تلاشی لی۔ سب کا خیال تھا میرے پاس سے ضرور کوئی تعویذ برآمد ہوگا۔ جس کے بل پر میں نے یہ شرط جیتی ہے اور کھجور کے پیڑ کے مشہور و معروف جن سے ٹکر لینے کی کوشش کی ہے۔
امی کا حکم بھی ماننا تھا۔ دل مضبوط کرکے، دوپہر کا کھانا لے کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلا، سامنے لبنیٰ بھابھی کھڑی تھیں۔ انھوں نے مجھے دیکھا، میں نے ان کی آنکھیں دیکھیں، ان آنکھوں کو شاید عمر بھر بھول نہ سکوں گا۔ وہ آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ میں کھانے کی کشتی لے کر اندر ہوگیا۔ انھوں نے کھانے کی کشتی میز پر رکھی، دروازے کی کنڈی بند کی۔ ایک لمحے کے لیے مجھے خوف محسوس ہوا لیکن دوسرے ہی لمحے بھابھی نے ایک ڈبا نکالا جس میں خوب صورت رنگ برنگے کنچے تھے، میرا ہاتھ پکڑ کر بولیں، ’’آئو کنچے کھیلتے ہیں۔‘‘ اب میرا ڈر کم ہوگیا تھا پھر تو روز کا یہی دستور تھا۔ جب بھی ان کے کمرے میں کام کے لیے جاتا تو وہ کام میں بھی میرا ہاتھ بٹاتیں اور پھر ہم دونوں کنچے کھیلتے۔ گھر میں سب حیران تھے کہ انھوں نے مجھے کیسے برداشت کیا ہوا ہے۔ میں نے کنچوں کا معاملہ سب سے چھپایا ہوا تھا۔
قریباً ایک یا سوا مہینہ وہ ہمارے گھر رہیں۔ عامل صاحب نے ان کے لیے پانچ جمعرات ’’نہاون‘‘ کا علاج تجویز کیا تھا۔ ہر جمعرات کو ایک عامل صاحب کے آستانے لے جایا جاتا رہا۔ جہاں نہاون کرانے والی خواتین عمل عملیات والے پانی سے ان کو نہلاتیں۔ اس کے بعد پڑھے ہوئے دانوں سے ان کے بدن کی دھونی دی جاتی۔ علاج مکمل ہونے پر عامل صاحب نے ناصر بھائی سے کہا تھا، ’’آپ کی بیگم اب بالکل ٹھیک ہیں۔ ان پر جن یا جو بھی آسیب وغیرہ ہوگا، وہ جاچکا ہے۔‘‘
بھابھی کی طبیعت میں بھی خاصی تبدیلی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سب خوشی خوشی دہلی واپس چلے گئے۔ لبنیٰ بھابھی، لبنیٰ بھابھی کی آنکھیں، لبنیٰ بھابھی کا جادوئی ڈبا اور اس میں بھرے ہوئے شیشے کے خوب صورت کنچے۔ حیدرآباد دکن میرے ذہن اور دل کے کسی نہ کسی گوشے میں رہ گئے تھے۔
تایا ابو کی طرف سے کبھی کبھی کوئی خبر آجاتی تھی۔ پھر یہ خبر آئی کہ وہ لوگ سب پاکستان چلے گئے ہیں اور ان سے رابطہ بالکل ہی منقطع ہوگیا۔
بھائی جان کی شادی ہوگئی اور وہ شادی کے بعد پاکستان چلے گئے۔ چھوٹے بھائی نے گریجویشن کرکے فوج میں کمیشن لے لیا۔ اور میں نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں ملازمت کر لی اور جلد ہی رجسٹرار کے عہدے پر فائز ہوگیا۔ ناصر بھائی کے بارے میں آخری اطلاع یہ ملی تھی کہ انھوں نے لبنیٰ بھابھی کے بہنوئی سے اشتراک میں وطن ٹرانسپورٹ کے نام سے ایک کمپنی قائم کر رکھی ہے اور قریباً دو درجن بسوں کا ایک fleet کراچی میں چل رہا ہے۔
بھائی جان کی لڑکی کی شادی میں ہم کراچی پہنچے۔ شادی میں ناصر بھائی بھی آئے تھے لیکن لبنیٰ بھابھی نہیں آسکی تھیں۔ جب میں نے ناصر بھائی سے لبنیٰ بھابھی کے بارے میں پوچھا تو ناصر بھائی نے صرف یہ کہا، ’’آپ لوگ ہمارے گھر آرہے ہیں نا— مل لینا۔‘‘
جب ہم سب ناصر بھائی کے ہاں گئے تو میری آنکھیں لبنیٰ بھابھی کو تلاش کر رہی تھیں۔ میرا ذہن وہ ڈبا اور اس میں بھرے ہوئے خوب صورت رنگ برنگے کنچوں کو دور دراز ماضی سے حال میں کھینچ لایا تھا۔ جس بڑے سے حال کے ایک گوشے میں ہمیں بٹھایا گیا تھا، اس میں کچھ لڑکے او رلڑکیاں ادھر اُدھر دوڑ بھاگ رہے تھے۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر بجوں کی جانب گیا، بچے میرے لیے بڑی کشش رکھتے ہیں۔ میں جب بچوں کے نزدیک پہنچا تو وہ میری جانب متوجہ ہوئے لیکن فوراً ہی کسی کھیل میں لگ گئے، البتہ ایک لڑکی میری طرف بڑھ آئی اور ادب سے ’’ہائی انکل‘‘ کہا۔ میں نے اسے ’سلام بیٹا— خوش رہو‘کہا۔ لڑکی نے اپنی آنکھیں اوپر اٹھائیں، وہ آنکھیں بالکل لبنیٰ بھابھی کی آنکھیں تھیں۔
’’یہ ہماری بیٹی علینا ہے۔‘‘ ناصر بھائی جو میرے عقب میں وہاں پہنچ گئے تھے، اپنی بیٹی کا تعارف کرا رہے تھے۔ میں نے بچی کے سر پر ہاتھ رکھا اور ایک بار پھر دعائیں دیں۔ ناصر بھائی کے ساتھ بات کرتے ہوئے میں اس جگہ لوٹ گیا جہاں سب بیٹھے تھے۔ کچھ دیر بعد ایک خادمہ لبنیٰ بھابھی کا ہاتھ تھامے آئی۔ لبنیٰ بھابھی اپنے بڑھاپے میں بھی حسن کا نمونہ لگ رہی تھیں۔ لیکن ان کی آنکھیں—؟
ان کی آنکھوں کو میری نظر لگ گئی تھی— یا پھر جن نے ان کا پیچھا چھوڑنے کی قیمت وصول کی تھی۔ میں ہمت جٹا رہا تھا، لبنیٰ بھابھی سے ملنے او ران کی خدمت میں آداب پیش کرنے کے لیے۔ لبنیٰ بھابھی کو ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا، سب کو سلام کروا کے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...