یہ کہنے کی ضرورت بھی نہیں کہ آنکھ ایک عجوبہ ہے۔ دماغ کے سریبرل کورٹیکس کے ایک تہائی حصے کا تعلق بصارت سے ہے۔
لیکن آنکھ کا ڈیزائن کچھ الٹ ہے۔ روشنی ڈیٹکٹ کرنے والی روڈ اور کون پیچھے ہیں جبکہ آکسیجن پہنچانے والی خون کی رگیں ان کے آگے۔ آنکھ کو ان رگوں اور اعصاب کے ریشوں سے پار دیکھنا پڑتا۔ عام طور پر دماغ اس سب مداخلت کو حذف کر دیتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں۔ کسی صاف اور روشن دن میں اگر آسمان دیکھتے وقت آنکھ کے سامنے ننھی اور سفید سی چیزیں سجھائی دیں جو مختصر سے وقت کے لئے آتی اور جاتی رہیں تو حیرت انگیز طور پر یہ آپ کے اپنے خون کے سفید خلیے ہیں جو آنکھ کے آگے کی رگ میں سے گزر رہے ہیں۔ چونکہ یہ سرخ خلیات سے بڑے سائز کے ہیں تو اس تنگ سے راستے میں کئی بارے کچھ دیر کو پھنس جاتے ہیں اور دکھائی دے جاتے ہیں۔ ان کا ٹیکنیکل نام Scheerrs blue field entoptic phenomena ہے۔ یہ روشن نیلے آسمان میں نمایاں اس لئے ہوتا ہے کیونکہ آنکھ مختلف ویولینتھ کو مختلف طرح سے جذب کرتی ہے۔
اسی طرح کا ایک اور فینامینا floaters ہیں۔ یہ آنکھ میں پائے جانے والے جیلی کی طرح کے سیال میں پائے جانے والے خوردبینی ریشے ہیں۔ عمر کے ساتھ یہ دکھائی دینے میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ عام طور پر بے ضرر ہیں۔ ان کا ٹیکنیکل نام muscae volitantes ہے (اگر آپ کسی کو اپنی معلومات سے متاثر کرنا چاہ رہے ہوں تو اس نام کا استعمال کر سکتے ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ انسانی آنکھ کو اپنے ہاتھ میں اٹھائیں تو اس کا سائز آپ کے لئے غیرمتوقع ہو گا۔ کیونکہ جب یہ اپنے ساکٹ میں ہوتی ہے تو ہم اس کا صرف چھٹا حصہ دیکھتے ہیں۔ یہ ایک جیل سے بھری تھیلی کی طرح ہے۔ یہ اس میں بھرا vitreous humor ہے۔ کسی بھی پیچیدہ آلے کی طرح اس کے کئی حصے ہیں۔ کچھ کے نام عام طور پر جانے جاتے ہیں۔ جیسا کہ iris، cornea، retina۔ جبکہ کچھ کم معروف ہیں، جیسا کہ fovea، choroid، sclera۔ اس کا کام کیمرے سے مشابہہ ہے۔ اگلا حصہ ۔۔ لینز اور کورنیا ۔۔ تصویر پکڑتے ہیں اور آنکھ کے پچھلے حصے ۔۔ ریٹینا ۔۔ پر اس کا عکس بناتے ہیں۔ یہاں پر پائے جانے والے فوٹوریسپٹر اس کو برقی سگنل میں تبدیل کرتے ہیں اور یہ بصری اعصاب کے ذریعے دماغ تک بھجوایا جاتا ہے۔
بصری اناٹومی کا ایک زبردست حصہ کورنیا ہے۔ یہ گنبد کی شکل کا goggle ہے جو آنکھ کی دنیا سے حفاظت کرتا ہے اور اس کے فوکس کا دو تہائی کام بھی کرتا ہے۔ آنکھ کا لینز ۔۔ جس کو اکثر زیادہ کریڈٹ ملتا ہے ۔۔ فوکس کا صرف ایک تہائی کام کرتا ہے۔ کورنیا نمایاں نہیں۔ اگر اس کو باہر نکالیں تو انگلی کی نوک پر ٹک جائے گا۔ لیکن جب قریب سے دیکھیں تو بدن کے تقریباً ہر حصے کی طرح ہی یہ پیچیدگی کا عجوبہ ہے۔ اس کی پانچ تہیں ہیں۔
epithelium
Bowmans membrane
stroma
Descemets membrane
endothelium
یہ تہیں صرف آدھ ملی میٹر موٹائی پر ہیں۔ انہیں شفاف رہنا ہے اس لئے ان تک خون کی سپلائی بھی بڑی محدود ہے۔
آنکھ کا وہ حصہ جہاں پر سب سے زیادہ فوٹوریسپٹر ہیں، اور دیکھنے کا سب سے زیادہ کام کرتا ہے، فوویا ہے۔ یہ معمولی سی گہرائی میں ہے۔ اور یہ وہ اہم ترین حصہ ہے جس کے بارے میں ہم میں سے اکثر واقف نہیں ہوتے۔