صابر علی تھکے ماندے گھر میں داخل ہوئے تو گرمی کی سخت جان دھوپ اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ ان کی بیوی سلائی مشین پر بیٹھی کپڑے سی رہی تھی۔ اس کے قریب ہی پلنگ پر ان کے دونوں بچے گڈو اور ببلو ہوم ورک کر رہے تھے۔ انہیں دیکھ کران کی بیوی کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم ابھرا اور وہ مشین سے اٹھتی ہوئی بولی۔‘‘آ گئے آپ! ‘‘
دونوں بچے پلنگ سے اتر کران کی طرف لپکے۔ انہوں نے ان کے سروں پر شفقت آمیز ہاتھ پھیرا اور پھر پتلون کی جیب سے دو ٹافیاں نکال کران کے ہاتھوں پر رکھ دیں۔ ان کی بیوی اسٹو میں آگ روشن کرتی ہوئی بولی۔
’’آپ منھ ہاتھ دھو لیجئے۔ میں چائے بناتی ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد آرام کرسی پر لد کر چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے انہوں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو ایک بارپھر مشین پر بیٹھ چکی تھی۔ مشین کے پائدان پر اس کے پاؤں مسلسل حرکت کر رہے تھے اور اس کے متحرک ہاتھ سلتے جا رہے کپڑے کو سنبھالنے میں مصروف تھے۔ کپڑے کا آخری سرا مشین کے چانپ سے نکلا اور اس کے پاؤں رک گئے۔ دھاگے کو قینچی سے کاٹتے ہوئے وہ ان کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’آج مناظر مستری کو لے کر آیا تھا۔ سب ناپ واپ کر گیا ہے۔‘‘
انہوں نے دکھ سے سوچا۔ تو آخر وہ جانکاہ لمحہ آ ہی پہنچا۔ کرسی سے آگے کی طرف جھک کر انہوں نے دروازے کے باہر دیکھا۔ کھلے کچے آنگن میں جھاڑو لگا کر پانی کا چھڑکاؤ کر دیا گیا تھا۔ کچی مٹی سے ایک مانوس لیکن پر اسرار سی سوندھی سوندھی خوشبو اٹھ رہی تھی جس سے ان کی مدتوں کی آشنائی تھی لیکن جس نے آج تک ان پر اپنے سارے بھید نہیں کھولے تھے۔ انہوں نے گہری سانس لے کر اس خوشبو کو اپنی روح کی گہرائیوں میں اتارا۔ یہ خوشبو ان کا ہاتھ پکڑ کے اپنے ساتھ جانے کہاں کہاں اڑا لے جاتی۔ جہاں سے لوٹ کر کبھی وہ بالکل ہشاش بشاش ہو جاتے اور کبھی بے حد ملول اور دل گرفتہ۔ سامنے ہی آنگن کی پچھلی دیوارسے لگا امرود کا درخت خاموش گم صم سا کھڑا تھا۔ اس کے بڑھتے سائے آنگن کے زیادہ سے زیادہ حصے کو اپنے نرم بازوؤں میں بھرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ دور آسمان پر سورج اپنی اشک آلود سرخ آنکھوں سے مڑ مڑ کر چھوٹتے جا رہے مناظر کو دیکھتا ہوا وداع ہو رہا تھا۔ حالانکہ اس کا پھر صبح آنے کا وعدہ تھا لیکن اس بے ثبات زندگی میں وعدے کا کیا اعتبار؟ کیا پتہ کل وہ آ ہی نہ سکے یا جس کی خاطر آئے اسی کو گم پائے۔ یہاں حاصل ہو جانے والا لمحہ ہی حاصل زندگی ہے۔
’’میری مانئے تو کچھ لکھا پڑھی کرا لیجیے۔ ایسا نہ ہو کہ جب ہم جوڑ کر دیوار اٹھانے لگیں تو وہ اعتراض کر بیٹھے۔‘‘
اس کی بیوی کی آواز ابھری تو وہ کچھ تلخی اور اداسی سے مسکرائے۔ وہ دلوں کے ٹوٹنے کے باوجود دیواروں کو جوڑنے کے لیے فکر مند تھی۔ سونے آنگن کو تکتے ہوئے ان کے تخیل نے ان کی آنکھوں کے کینوس پر ایک شبیہ ابھار دی۔ نرم و نازک جسم اور بھولی بھالی صورت والی ایک عورت کی شبیہ جو ہاتھ میں جھاڑو لیے کمر سے جھکی جھکی آنگن کو صاف کر رہی تھی۔ جانے کیوں جب کبھی انہیں اپنی ماں کا خیال آتا تو ان کے تصور میں سب سے پہلا منظر یہی ابھرتا۔ شاید اس لیے کہ ان کے معصوم بچپن کی ہر صبح اسی منظر سے شروع ہوتی تھی۔ ان دنوں وہ نیند سے جاگتے تو پاتے کہ ان کی ماں وسیع و کشادہ آنگن کو صاف کرنے میں مصروف ہے۔ امرود کا کوئی نہ کوئی درخت تو ہمیشہ سے اس آنگن میں رہا تھا لیکن اس وقت لت دار سبزیوں کے پودے بھی ہوتے تھے جن کے بوروں اور پتوں سے زمین پٹ جاتی تھی۔ انہیں ایک جگہ جمع کر کے وہ ٹوکری میں بھر دیتی تھی اور وہ کچھ جھنجھلاتے اور ناک بھوں چڑھاتے ہوئے اس ٹوکری کو کچھ دوری پر موجود کوڑے کے ٹب میں خالی کر آتے تھے۔
انہیں یاد آیا کہ ایک مرتبہ ابا نے آنگن کے دوسرے سرے پر دو کمرے تعمیر کروانے کی تجویز رکھی تھی۔ اس تجویز کو سن کر ماں اشتعال میں آ گئی تھی اور بے حد خفگی سے بولی تھی۔
’’کیا؟ اتنے بڑے اور خوبصورت آنگن کا ستیا ناس کر دوں۔ چار چار کمرے ہم چار افراد کے لیے کافی نہیں ہیں کیا؟‘‘
’’اری نیک بخت!‘‘ ابا نے اپنے لیجے میں شیرینی گھول لی تھی۔ ’’میں تو تمہارے بھلے کے لیے ہی کہہ رہا ہوں۔ اتنے بڑے آنگن کو صاف کرتے کرتے تمہاری کمر دوہری ہو جاتی ہے۔ اس سے کچھ تو نجات ملے گی۔ اور پھر اگر کرایہ داروں کو رکھ لیں گے تو کچھ مالی فائدہ بھی ہو جائے گا۔‘‘
’’کمر دوہری ہوتی ہے تو میری۔ میں کسی سے شکایت کرنے نہیں جاتی۔ اور مجھے ایسے کسی فائدے کی ضرورت نہیں جو اس آنگن کی قیمت پر ہو۔‘‘
ماں مستحکم اور فیصلہ کن لہجے میں بولی تھی اور پھر قدرے ٹھہر کر ان کی خواب ناک آواز ابھری تھی۔
’’آنگن تو گھر کی گود ہوتا ہے۔ جتنا بڑا اور کشادہ ہو اتنا اچھا۔ ہم سب کو سمیٹ کر تو رکھے گا۔‘‘
اس نے دونوں بچوں کو اپنی گود میں کھینچ لیا تھا۔ مناظر علی کی پیشانی کو ممتا بھرے ہونٹوں سے چومتی ہوئی وہ نہ جانے کس جہاں میں کھو گئی تھی۔
’’ہمارے بچے اسی گود میں پروان چڑھیں گے۔ ان کی شادی ہو گی، بچے ہوں گے۔ آنگن کشادہ رہا تو سبھی اس میں سمٹے رہیں گے۔‘‘
اسکول سے لوٹنے کے بعد وہ اور مناظر علی محلے کے دوسرے بچوں کے ساتھ اسی آنگن میں طرح طرح کے کھیل کھیلتے۔ گرمی کی تاروں بھری رات میں ان کی ماں آنگن کے بیچوں بیچ چار پائی بچھا دیتی، دونوں بچوں کو اپنے جسم سے لپٹا کر لیٹ جاتی اور ننھے منے ٹمٹماتے تاروں کو تکتے تکتے جانے کہاں پہنچ جاتی۔ مناظر علی کی ضد پر وہ انہیں رام لکشمن، علی بابا اور چالیس چور جیسی سبق آموز کہانیاں سناتی۔ جنہیں سنتے سنتے وہ دونوں خوابوں کی معصوم اور حسین دنیا میں گم ہو جاتے۔
خوابوں کا تعاقب کرتے کرتے ابھی وہ عمر کی اٹھارویں منزل پر ہی پہنچے تھے کہ اسی آنگن کی سوگوار فضا میں ان کے والد کی میت اٹھی تھی جنہوں نے اچانک نہایت خاموشی سے آنکھیں موند لی تھیں۔ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر وہ باپ کی جگہ ملازم ہو گئے تھے۔ مناظر علی نے اسی سال اچھے نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ انہوں نے دل میں عہد کیا تھا کہ اسے اعلیٰ تعلیم دلائیں گے۔ قبل از وقت کاندھے پر پڑنے والی ذمے داریوں کو انہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا تھا لیکن بے طرح کوشش اور خواہش کے باوجود وہ اپنی ماں کے چہرے پر وہ تازگی، وہ خوشی نہ لا سکے تھے جو شوہر کی زندگی میں ہمیشہ روشنی بکھیرتی رہتی تھی۔
کچھ دنوں بعد ماں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے شادی کر لی تھی۔ ان کی بیوی زبیدہ کی ڈولی اسی آنگن میں اتری تھی اور اسی آنگن میں بڑی فراغت سے دعوتِ ولیمہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مناظر علی گریجویشن کر چکا تو انہوں نے ایک بڑی رقم دے کر اسے اپنے ہی محکمے میں کلرک کی ملازمت دلا دی تھی۔ اور پھر اسی آنگن میں اس کی دلہن نے بھی پاؤں رکھے تھے۔ جلد ہی وہ آنگن بچوں کی معصوم کلکاریوں سے کھلکھلا اٹھا تھا۔ ان کی ماں کے چہرے پر برسوں بعد وہ خوشی جھلکی تھی جس کے وہ کب سے متلاشی تھے۔ ان کے دو بچے ہوئے اور مناظر علی بھی ایک لڑکی اور ایک لڑکے کا باپ بنا تھا۔
ایک دن ماں حسب معمول آنگن میں جھاڑو دے رہی تھی کہ اچانک اسے دل کا دورہ پڑا تھا اور اس نے آنگن میں ہی آخری ہچکی لے لی تھی۔ تجہیز و تکفین کے بعد وہ ننگے پیروں رات بھر آنگن میں ٹہلتے رہے تھے۔ کبھی کبھی وہ دو زانو بیٹھ کر مٹی کی نرم سطح کو اپنے مضطرب کانپتے ہاتھوں سے سہلانے لگتے تھے۔ انہیں آنگن کے ذرے ذرے میں ماں کے محبت آمیز لمس کا احساس ہوتا رہا تھا۔
اور اب اسی آنگن کو مناظر علی تقسیم کرنے کے درپے تھا۔ جب پہلی بار اس نے آنگن میں دیوار اٹھانے کی تجویز رکھی تھی تو وہ انتہائی حیرت سے اس کے سنجیدہ چہرے کو تکتے رہے تھے۔
’’دیکھئے بھائی جان! یہ تقسیم تو ناگزیر ہے۔ ہمیں اپنے اپنے طور پر آزادانہ زندگی گذارنی ہے اور اس کھلے آنگن کے رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ چاروں کمرے ایک ہی سیدھ میں بنے ہوئے ہیں صرف آنگن میں ہی دیوار اٹھانی ہو گی۔‘‘
اس کے لہجے کی سر کشی اور پختگی کو محسوس کر کے انہیں لگا کہ آنگن میں دیوار اٹھنے سے قبل ہی ان کے دل میں کوئی بوسیدہ دیوار بیٹھ گئی ہے۔ شام کے اندھیرے میں لپٹتے جا رہے سونے آنگن کو تکتے ہوئے ان کے ذہن میں ایک عجیب سا سوال ابھرا۔ آنگن تقسیم ہو جانے کے بعد ماں کی روح جو اس مٹی کے ذرے ذرے میں پیوست ہے، کسی ایک حصے میں رہے گی یا وہ بھی آنگن کی طرح دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی۔
صبح وہ کام پر جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے تبھی راج مزدور آ گئے اور مناظر علی کی ہدایت پر کام میں لگ گئے۔ وہ کچھ جلدی ہی گھر سے نکل پڑے اور شام ڈھلنے پر ہی واپس آئے۔ دیوار ان کی کمر سے کچھ اونچی اٹھ چکی تھی۔ وہ رات انہوں نے بے حد کرب میں گذاری۔ دوسرے دن شام کو لوٹے تو دیوار ان کے قد سے بھی بلند ہو چکی تھی۔ اب دوسرا حصہ اس حصے سے بالکل کٹ چکا تھا، لا تعلق ہو چکا تھا۔ یکایک انہیں محسوس ہوا کہ وہ بے حد تنہا اور کمزور ہو گئے ہیں۔ وہ مضمحل قدموں سے اپنے کمرے میں جانے لگے کہ معاً چونک اٹھے۔ دیوار اونچی کرنے کے لیے بانسوں پر مچان باندھا گیا تھا۔ مچان کھل جانے کے بعد بانسوں کی جگہوں پر دیوار میں سوراخ رہ گئے تھے۔ ان کا بڑا بیٹا گڈو ایک سوراخ کے پاس پنجوں کے بل کھڑا دوسری جانب دیکھ رہا تھا۔ وہ آہستگی سے اس کے قریب چلے آئے اور انہوں نے کچھ جھک کر سوراخ میں جھانکا۔ دوسری جانب مناظر علی کی بیٹی پمّی کھڑی تھی۔ انہیں دیکھ کر وہ تیزی سے بھاگ اٹھی۔ گڈو بھی چونک کر مڑا اور انہیں اپنے قریب پا کر خجل سا ہو گیا۔
صابر علی الٹے پیروں باہر نکل آئے۔ زندگی میں پہلی بار گلی سے ہو کر وہ مناظر علی کے گھر تک پہنچے۔ دستک دینے پر مناظر علی نے ہی دروازہ کھولا۔ انہیں دروازے پر کھڑا دیکھ کر وہ قدرے چونکا اور پھر تعجب سے بولا۔
’’آپ بھائی جان!‘‘
’’دیوار اٹھانے کے لیے جو مچان بنایا گیا تھا اس کی وجہ سے دیوار میں چند روزن بن گئے ہیں۔‘‘
مناظر علی نے عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھا اور پھر سمجھانے والے انداز میں بولا۔
’’بھائی جان! ابھی تو کام لگا ہوا ہے۔ پلسٹر کے وقت ان روزنوں کو بند کر دیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے جیسے مناظر علی کی باتوں پر دھیان ہی نہیں دیا۔ اسی طرح نرمی سے بولے۔
’’یہ روزن تو ہمارے لیے بالکل بیکار ہیں کہ ان سے جھانکنے کے لیے ہمیں کچھ جھکنا پڑے گا لیکن ہمارے بچے اگر ایڑیاں اٹھا لیں تو ان کی آنکھیں ان روزنوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس لیے میری گذارش ہے کہ انہیں بند نہ کرو۔‘‘
٭٭٭