(Last Updated On: )
آندھی چلی تو پیڑ جڑوں سے اکھڑ گئے
ساتھی بنائے تھے جو، وہ مجھ سے بچھڑ گئے
دل سے لگا لیا انھیں، تھے آپ ہی کے دین
کچھ ایسے حادثے جو میرے پیچھے پڑ گئے
کرتا زمیں کو جھک کے نہ کیوں آسماں سلام
میری غزل کے شعروں میں تارے سے جڑ گئے
دھو لوں انھیں ذرا عرق انفعال سے
دھبے لہو کے جو مرے دامن پہ پڑ گئے
جن کے وجود کا کوئی مصرف نہ فائدہ
کچھ ایسے بھی ثمر تھے جو شاخوں پہ سڑ گئے
شاید ادھر سے گزرا ہے پھر کوئی زلزلہ
آباد تھے جو صدیوں سے وہ شہر اجڑ گئے
اب کیا گلہ خرابیِ صحت کا اے ضیا
کہتا تھا جن کو اپنا وہی مجھ سے لڑ گئے
٭٭٭