ایمان یہ جنید جارہا تھا نا
فائزہ ایمان کے پاس آتے ہوئے بولی
ہاں وہی بدتمیز تھا
کیا کہہ رہا تھا ؟
دھمکی دینے آیا تھا ایمان غصے سے بولی کیسی دھمکی ؟
یار فائزہ میں نے تمہیں بتایا تھا ناں میں نے رشتے سے انکار کر دیا –
اب یہ جنید یہی کہنے آیا تھا کہ رشتے سے انکار کیوں کیا اور ہاں کر دؤ ورنہ اور بھی بہت سے طریقے ہیں –
ایمان یار یہ جنید تو تمہارے پیچھے پڑ گیا -وہ ایمان کے ساتھ چلتے ہوئے بولی –
ہاں فائزہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو پتہ نہیں کیا کرےگا اب وہ پریشان سے لہجے میں بولی –
ایمان میری مانو تو زوہیب بھائی یا اپنے بابا کو بتا دؤ وہ اس سے یا ان کے والدین سے بات کریں گے کیا پتا پھر اپنی حرکتوں وہ باز آ جائے –
ہاں فائزہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو اب اس جنید کا کچھ کرنا پڑے گا –
****************
ایمان بیٹا رات بہت ہو گی آپ یہاں لان میں بیٹھی کیا کر رہے ہیں -ایمان اس وقت لان میں بیٹھی جنید کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس کا کیا کرے –
بابا آپ یہاں وہ شانوں پر موجود دوپٹے کو سر پر لیتے ہوئے بولی –
ہاں بیٹا آپ کو یہاں دیکھا تو میں چلا آیا وہ پاس ہی چیئر پر بیٹھتے ہوئے بولے –
بس بابا نیند نہیں آرہی تھی تو ایسے ہی لان میں بیٹھی تھی وہ وضاحت دیتے ہوئے بولی –
بھئی نیند کیوں نہیں آرہی ہے میری پیاری بیٹی کو آج وہ پیار سے اسے دیکھتے ہوئے بولے -کوئی پریشانی تو نہیں ہے –
بابا سے بات کرؤں یا نہیں جنید کے بارے میں –
نہیں بابا کوئی پریشانی نہیں ہے بس ایسے ہی نیند نہیں آرہی ہے -وہ کچھ دیر بعد سوچتے ہوئے بولی –
اچھا بیٹا ” جی بابا ”
اور یونیورسٹی کیسی جا رہی ہے آپ کی بیٹا –
بابا ٹھیک جارہی ہے –
چلو بیٹا پھر رات بہت ہو گی ہے میں بھی سونے جارہا ہوں آپ بھی سو جاؤ -وہ وہاں سے اٹھتے ہوئے بولے –
جی بابا میں بھی سو رہی ہوں بس وہ ان کو دیکھتے ہوئے بولی –
*************
ایمان تمہارے لیے کیا لے کر آؤں یار فائزہ میرے لیے بھی وہی کوک اور برگر لے کر آ جاؤ -ٹھیک ہے
ایمان اور فائزہ اس وقت کینٹین میں بیٹھی ہوئی تھیں -یہ لو ایمان پکڑو -فائزہ ٹیبل پر رکھ دو اور خود بھی بیٹھ جاؤ-
اچھا ایمان پھر زوہیب بھائی یا انکل سے بات کی تم نے جنید کے بارے میں دو دن تو گزار گئے ” نہیں فائزہ ”
اچھی بات ہے وہ پھر آرہا ہو گا فائزہ طنز کرتے ہوئے بولی –
فائزہ میں کیا بات کرتی اب
ہوں کیا بات کرتی پاگل ہو ایمان سیدھی سے بات تو کرنی تھی کہ جنید مجھے یونیورسٹی میں آکر تنگ کرتا ہے اور بس پھر وہ خود ہی اس کو دیکھ لیتے –
مجھے بس سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیسے بات کرؤں –
ایمان زوہیب یا انکل سے بات کرتے ہوئے تمہیں زیادہ شرم آتی تھی تو آنٹی سے ہی کر لیتی -جنید کو تم اتنا جانتی نہیں یہ کچھ بھی کر سکتا ہے –
فائزہ ڈرا رہی ہو ؟ایمان پریشان سے لہجے میں بولی –
نہیں ایمان حقیقت بتا رہی ہوں –
**************
منیجر صاحب یہ فائل پاپا کو بھی دکھا دیں ایک بار وہ بھی دیکھ لیں گے اور میرے بارے میں پوچھیں تو آپ بتا دینا میں لانچ کرنے جارہا ہوں -اوکے سر
جنید اس وقت آفس میں موجود منیجر سے بات کرنے میں مصروف تھا –
ٹھیک ہے اب آپ جا سکتے ہیں –
“اوکے سر ”
ہوں ابھی یونیورسٹی میں ہی موجود ہو گی وہ کلائی میں موجود گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا –
پھر وہ گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے آفس سے باہر نکل آیا اس وقت وہ بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس بہت خوبصورت لگ رہا تھا –
ہوں یہ لڑکی لگتا ہے ایسے نہیں ماننے والی بہت ہو گئی نرم اس کے ساتھ اپنے آپ کو آخر سمجھتی کیا ہے -وہ گاڑی چلاتے ہوئے اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا –
***************
ایمان تمہاری اسائنمنٹ مکمل ہو گی ہے
ہاں فائزہ میری تو ہو گئی ہے تمہاری ابھی نہیں ہوئی کیا –
نہیں ایمان یار بس تھوڑی بہت رہتی ہے اچھا اپنی اسائنمنٹ دینا مجھے کچھ دیکھنا ہے یہ لو پکڑو –
آپ دونوں یہاں ہیں شکر ہے کینٹین میں مل گئی ہیں –
ورنہ میں تو پوری یونیورسٹی میں آپ کو ڈھونڈ رہا تھا وہ کرسی کھنیچ کر ان دونوں کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا-
آپ یہاں آج پھر آگئے ایمان غصے سے اسے دیکھتے ہوئے بولی –
جی بالکل آج بھی آپ نے ہی مجبور کیا وہ مسکراتے ہوئے بولا –
ایمان کو اس کی مسکراہٹ اس وقت زہر لگ رہی تھی –
کیسی دوست ہیں آپ ہی اس کو سمجھا دیں مجھے سے شادی کے لیے ہاں کہہ دے آخر مجھ میں کمی کیا ہے -وہ فائزہ کو دیکھتے ہوئے بولا –
جنید بات یہ ہے کہ ہر کسی کی اپنی مرضی ہوتی ہے جب وہ آپ کو پسند نہیں کرتی نہ ہی آپ سے شادی کرنا چاہتی ہے تو آپ اس کو کیوں مجبور کر رہے ہیں -وہ اسے سمجھتے ہوئے بولی –
یہ پسند نہیں کرتی ہیں میں تو کرتا ہوں لازم تو نہیں ہوتا دونوں ایک دوسرے کو پسند کریں اب نہیں کرتیں تو شادی کے بعد کرنے لگ جائیں گئی وہ ایمان کو دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولا –
“اپنی بکواس بند کریں آپ وہ غصے سے بولی آپ کو میری بات سمجھ نہیں آتی میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو پھر آپ مجھے بار بار تنگ کرنے کیوں آجاتے ہیں ”
آپ میرے سے شادی کرنے پر راضی ہو جائیں میں آپ کو تنگ نہیں کرؤں گا –
دو دن تو گزر گئے آپ نے میری بات نہیں ماننی آپ کو اب آخری وارننگ دے رہا ہوں یہ لیں میرا نمبر وہ جیب سے اپنا کارڈ نکالتے ہوئے اس کے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا -اس پر کال کر کہ رات تک بتا دیں نہیں تو میں خود آپ کے گھر اپنے رشتے کی بات کرنے آؤں گا -اب تک تو میں شرافت سے پیش آرہا ہوں -وہ غصے سے بولا -لیکن اس کے بعد میں کچھ بھی کر سکتا ہوں –
جائیں آپ کو جو کرنا ہے کر لیں میں مر تو جاؤں گی لیکن آپ سے تو ہر گز شادی نہیں کرنے والی اور نہ ہی آپ کی ان دھمکیوں سے ڈرنے والی ہوں وہ سخت لہجے میں بولی –
ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی اب تو آپ کے گھر میں ہی ملاقات ہو گی پھر چلیں میں چلتا ہوں وہ وہاں سے اٹھتے ہوئے بولا –
اف اس لڑکے کا میں کیا کرؤں فائزہ یہ تو کوئی بات نہیں سن رہا وہ پریشان سے لہجے میں بولی –
ہاں ایمان ٹھیک کہہ رہی ہو یہ تو بہت ضدی ہے -اور تمہارے ساتھ شادی کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے –
ہاں فائزہ اب تو گھر میں کسی سے بات کرنی پڑے گئی –
چلو ایمان اب لیکچر میں جاتے ہیں اور تم ضرور آج گھر میں جنید کے بارے میں کسی سے بات کرنا –
“ہاں فائزہ ”
***************
امی جان آنٹی اور بھابی نظر نہیں آرہی ہیں -ہاں وہ شاپنگ کرنے گئی ہیں -وہ لاؤنج میں اپنی ماں کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی –
وہ مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی
جی ایمان بیٹا کرؤ –
میں آپ سے جنید کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں-
وہ مجھے سے یونیورسٹی میں دو بار ملنے آچکا ہے اور دھمکی دینے آیا تھا کہ مجھے سے شادی سے انکار کیوں کیا ہاں کہہ دو ورنہ میں کچھ بھی کر سکتا ہوں اور آج تو یہ بھی کہہ رہا تھا کہ کل میں خود آپ کے گھر آؤں گا -ایمان پریشان سے لہجے میں بولی –
مجھے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اتنا بدتمیز ہو گا ایک انکار کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لے گا -بیٹا تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں آج ہی تمہارے بابا سے بات کرتی ہوں وہ ان کے والدین سے بات کریں گے –
ٹھیک ہے امی جان –
***************
جنید روکو کہاں سے آرہے ہو اتنی رات کو ؟
پاپا آج آپ ابھی تک سوئے نہیں ہیں
وہ لاؤنج میں داخل ہوا تو اسے پاپا کی آواز سنائی دی –
میں نے جو پوچھا ہے اس کا جواب دؤ وہ سختی سے بولے –
پاپا وہ رضا کے ساتھ ڈنر پر گیا تھا
ڈنر پر یا کلب میں ؟
وہ اسے دیکھتے ہوئے بولے مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش مت کرنا رضا سے میری بات ہو چکی ہے وہ سختی سے بولے –
پاپا وہ ویسے کلب میں آج چلا گیا دل کر رہا تو وہ شکست خور لہجے میں بولا –
دل کر رہا تھا ہوں یعنی تم اپنی حرکتوں سے باز آنے والے نہیں ہو اس کا مطلب وہ اسے دیکھتے ہوئے بولے اس وقت وہ ان کے سامنے کھڑا ہوا تھا –
نہیں پاپا میں ویسے گیا تھا کچھ پی کر تو نہیں آیا آپ کے سامنے ہوں وہ وضاحت دیتے ہوئے بولا –
اچھا چھوڑو یہ ایک اور بات بتاؤ
” جی پاپا ” تم یوسف آفندی کی بیٹی سے ملنے گئے تھے یونیورسٹی میں ؟
یعنی اس لڑکی نے اپنے گھر والوں کو میرے بارے میں بتا دیا –
کیا سوچ رہے ہو میرے سوال کا جواب دؤ وہ سختی سے بولے –
پاپا وہ تو میں ویسے گیا تھا وہ مجھے نظر آگئی تو اسے بھی بات ہو گئی –
“ہوں باپ سے جھوٹ بولنے کی کوشش کر رہے ہو تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے یوسف آفندی ساری بات مجھے بتا چکے ہیں تم ان کی بیٹی کو یونیورسٹی میں جاکر دھمکیاں دیتے رہے ہو کہ مجھے سے شادی کر لو ورنہ میں کچھ بھی کر سکتا ہوں ”
تم نے ایک انکار کو اپنی انا کا مسئلہ کیوں بنا لیا ہے جب وہ بچی تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو تم اسے کیوں تنگ کرتے ہو اپنی ان حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ مجھے سے برا کوئی نہیں ہو گا وہ اسے غصے سے دیکھتے ہوئے بولے –
پتہ نہیں یوسف آفندی میرے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے تمہیں اپنی عزت کی کوئی پرواہ نہیں ہے پر مجھے تو اپنی عزت کی پرواہ ہے میری عزت بھی خراب کرنا پر لگے ہو جنید کچھ تو شرم کرؤ وہ سخت لہجے میں بولے –
پاپا جب اب کو یہ بات پتہ چل گئی ہے تو میری بات بھی سن لیں شادی تو میں اسی لڑکی سے کرؤں گا وہ میری ضد ہے اسے حاصل کرنے کے لیے میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں اور کچھ بھی کر سکتا ہوں ان کو آپ بھی پھر میری یہ بات بتا دیں وہ بدتمیزی سے کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا –
جنید ۰۰۰ بات سنو لیکن وہ ان سننی کرتے ہوئے چلا گیا
ہوں یہ سارا اس کی ماں کا قصور ہے اسے نے آج تک سر پر چڑھیا ہوا ہے –
******************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...