وہ ابھی کچھ دور ہی پہنچی تھی جب اسے اپنے پیچھے سجاول کی آوازیں سنائی دیں اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ دونوں اس کے پیچھے آرہے تھے اس نے اپنے قدم مزید تیز کر دئیے وہ جلد از جلد اس پہاڑی علاقے سے نکل جانا چاہتی تھی فائل کو سینے سے لگائے وہ اندھا دھند بھاگ رہی تھی
“میں کہتا ہوں رک جاؤ ماہا “سجاول کی آواز پر ایک لمحے کو اس کے قدم ڈگمگاۓ سنبھلنے کی کوشش میں اس کا پاؤں ایک بڑے سے پتھر سے ٹکرایا اور وہ زمین بوس ہو گئی تکلیف کے مارے اس کی چیخ نکل گئی اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر بے سود قدموں کی آواز مزید قریب ہو گئی تھی
“واہ ماہا رانی واہ کہاں بھاگ رہی تھی بس یہ تھی تمہاری محبت ”
سجاول اس کے نزدیک آکر طنزیہ بولا اس نے سر اٹھا کر نفرت سے اس کی طرف دیکھا اور چیخ کر بولی
“محبت کونسی محبت ؟؟؟؟جسے تم نے اپنے ہاتھوں سے لالچ کی بھینت چڑھا دیا کیوں سجاول کیوں کیا تم نے ایسا ؟ ” آخر میں اسکی آواز بھرّا گئی اُس کے دل کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھیں بھی رو رہی تھیں مگر مقابل پر کوئی اثر نہ ہوا وہ قہقہ لگا کر ہنسا اور تمسخر سے بولا
“ہاہاہاہا اچھا تو تمہیں سب پتا لگ گیا چلو اچھا ہی ہوا تمہیں یہیں پتہ لگ گیا کہاں تمہارا بوجھ اٹھا کر پھرتا میں “یہ کہتے ہی اس نے جیب سے پسٹل نکال کر رخ ماہا کی جانب کر دیا
” یہ فائل مجھے دے دو جلدی “اس نے ماہا کی بے یقین آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
“نہ نہیں میں نہیں دوں گی ” اسنے مزہد فائل کو بھینچ لیا
“دیر مت کرو فائل دو ورنہ گولی چلا دوں گا ” سجاول نے دھمکی دی
“نہ نہیں “وہ بھاگنے کے لیے اٹھی جونہی پلٹی مقابل کو دیکھ کر ساکت رہ گئی اسکے لب ہولے سے تھرتھراۓ “رانی ”
* * * * * * * * *
وہ گاڑی پر کافی فاصلے سے اس کا پیچھا کر رہا تھا رانی کو رکتے دیکھ کر وہ بھی باہر نکل آیا فاصلہ ذیادہ ہونے کے باعث وہ دیکھ نہیں پایا کہ رانی کے ساتھ اور کون لوگ ہیں گاڑی سے نکل کر بخشو کے ساتھ وہ ان کی طرف بڑھنے لگا جب رانی کی چیخ نما آواز اس کے کانوں میں پڑی
“بھاگ جاؤ ماہا جلدی یہ فائل راجہ کو دے دینا ”
“لیکن رانی تم “ماہا منمنائی
“تم میری فکر چھوڑو بس جاو یہاں سے ”
“نہیں تم یوں نہیں جا سکتی “سجاول بھی جواباً چیخا
“ورنہ گولی چلا دوں گا تم دونوں کو یہیں مار دوں گا کسی کو لاش بھی نہ مل سکے گی تمہاری “سجاول کی بات پر ماہا کا رنگ سفید پڑ گیا جب کہ رانی اسی اطمنیان سے کھڑی انہے گھورتی رہی سجی نے معاملہ بڑھتا دیکھ کر پسٹل سجاول سے چھینا اور رخ ماہا کی جانب کر دیا اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتا رانی نے چادر کے نیچے سے پسٹل نکال کر سجی پر تان لی اسکی حرکت نے ان تینوں کے ساتھ ساتھ راجہ کو بھی ساکت کر دیا سجی کی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں
“تم تم مجھے مارو گی رانی؟؟” وہ بے یقین تھا
” ہاں میں تمہیں ماروں گی مارنے ہی تو آئی تھی یہاں اس ندی کنارے جہاں سے ہماری محبت کا آغاز ہوا تھا آج یہیں آختتام کرنے آﺉ ہوں “رانی انگلی ٹریگر پر رکھ کر دھاڑی
” پسٹل چھوڑ دو رانی ورنہ اس کے ساتھ ساتھ تمہیں بھی مار دوں گا ” سجی بھی فورا سنبھل کر بولا
” تم مجھے مت دھمکاؤسجی میں وہ کمزور رانی نہیں ہوں میرے جزبات سے کھیلے ہو تم ہاتھ نیچے کرو اور چلے جاؤ یہاں سے ورنہ گولی مار دوں گی تمہیں” اسکا انداز بے لچک تھا
“ایسے کیسے جاؤں تمہاری شادی راجہ سے ہونے دی اور ہاتھ کیا آیا میرے صرف چند نوٹ نہیں رانی نہیں یہ فائل لیے بغیر نہیں جاؤں گا میں ” وہ کھل کر سامنے آیا رانی کا چہرہ سرخ ہوگیا
” ہونہہ تم جیسے لالچی لوگوں کی اصلیت اب ہی تو کھلی ہے مجھ پر تمہاری موت میرے ہی ہاتھوں لکھی تھی محبتِ وفا کے نام پر دھبہ ہو تم ”
وہ سختی سے بولی اور آنکھیں بند کے کے ٹریگر دبا دیا گولی پسٹل سے نکلی اور سجی کے جسم کو چیر کر نکلتی چلی گئی نشانہ سیدھا دل پر لگا تھا وہ زمین پر گر کر ترپنے لگا پسٹل اس کے ہاتھ سے دور جا گرا پیچھے سے آتا راجہ یہ منظر دیکھ کر گنگ ہو گیا
“یہ کیا کیا تم نے رانی “راجہ فوراً اس تک پہنچا اور پسٹل اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا
“اپنی وفا ثابت کرنے کے لیے میں اس سے بھی ذیادہ کچھ کر سکتی ہوں راجہ “سجی کی لاش پر نظریں جماۓ وہ مضبوط لہجے میں بولی
“چلو جلدی چلو گاڑی میں بیٹھو “وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر مڑا ابھی وہ کچھ قدم ہی چلے تھے کہ پیچھے سے گولی چلنے کی آواز پر پلٹے سجاول کے ہاتھ میں پسٹل دیکھ کر تینوں کے اوسان خطا ہو گئے
“میرے بھائی کا بدلہ دئیے بغیر نہیں جا سکتے تم لوگ ”
یہ کہتے ہی اس نے اندھا دھند گولیاں چلانی شروع کردی ایک کے بعد دوسری گولی راجہ کے جسم کو خون میں نہلا گئی رانی اور ماہا کی چیخیں پہاڑوں میں گونجنے
لگیں بخشو فورا سجاول تک پہنچا اور اسے قابو کر لیا مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی
*************
راجہ کو تین گولیاں لگی تھیں شہر پہنچنے تک بہت خون ضائع ہو چکا تھا کندھے پر لگنے والا زخم تو چند دنوں میں بھر سکتا تھا لیکن ٹانگ پر لگنے والی دو گولیوں کا زخم شدید تھا خون ذیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ چلنے سے معزور تھا ڈاکڑز کے مطابق اچھی خوراک اور مناسب ورزش سے وہ کچھ مہینوں تک چلنے پھرنے کے قابل ہو سکتا ہے مگر یہ بات صرف رانی جانتی تھی پورے گاؤں
میں یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ راجہ معذور ہو گیا ہے
رانی دروازہ کھول کر اندر آئی تو وہ آنکھیں موندے لیٹا تھا راجہ نے بازو ہٹا کر آنے والے کو دیکھا رانی کو دیکھ کر اس کے چہرے پر آسودہ سی مسکراہٹ آ گئی
“آئیے رانی آئیے بیٹھے “راجہ نے اپنے پہلو میں اشارہ کرتے ہوئے کہا رانی دھیرے دھیرے چلتے ہوئے بیڈ کے کنارے ٹک گئی
“طبعیت کیسی ہے اب آپ کی ؟؟” اسنے راجہ کے زردی مائل چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا
“طبعیت کی کیا پوچھتی ہیں آپ بے کار ہو گۓ ہیں ہم تو “وہ تلخی سے مسکرایا
“نہیں ایسا مت کہیں “رانی کا دل تڑپ گیا “آپ اب بھی راجہ ہیں ”
“لیکن نا کام راجہ وہ راجہ جس نے دوسروں پر حکومت کرنا سیکھی دوسروں کو ہرانا سیکھا گرانا سیکھا کبھی ہارنا نہیں سیکھا جیت کی تمنا کی ہے مگر دیکھو ہم ہار گۓ رانی ” اسکا لہجہ ٹوٹا ہوا تھا
“ہم بہت ظالم سہی مگر ہم نے کبھی کسے بےگناہ کا خون نہیں کیا کبھی کسی بے گناہ کو دکھ نہیں پہنچایا ”
“راجہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے “رانی نے تسلی دی
“پتہ نہیں “وہ نا امید تھا پھر سر جھٹک کر سیدھا ہو بیٹھا اور رانی کا ہاتھ پکڑ سہلاتے ہوئے بولا
“ہم نہ جانے کب تک بستر پر پڑے رہیں شاید ساری عمر ـ ـ ـ ” وہ کچھ لمحے کو رکا رانی بغیر پلکیں جھپکاۓ اسے دیکھتی رہی وہ نہ جانے اسے ایسا کیا کہنے چلا تھا جس کے لیے وہ اپنے اندر ہمت جمع کر رہا تھا اسے یوں ٹکٹکی باندھے دیکھ کر وہ ہلکے سے مسکرایا اور اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے کر بولا
“ہم چاہتے ہیں آپ ہماری جگہ پر آجائیں آپ اس علاقے کی رانی بن جائیں ورنہ ـ ـ ـ سب ختم ہو جائے گا یہ مطلبی خودپرست رشتہ دار ہمیں گھونٹ گھونٹ پانی کے لیے ترسا دیں گے ہمارا وجود یا تو کسے زندان میں قید ہو جائے گا یا اس محل کے کسی کونے میں سسکتا رہے گا….اور ہم ایسا نہیں چاہتے رانی ہمیں آپ پر بھروسہ ہے ہم آپ کو اپنی امانت سونپنا چاہتے ہیں آپ سمجھ رہی ہیں نا ”
رانی حیرت سے آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی اسے کیا کرنا ہو گا مگر اسے کرنا تھا راجہ کے لیے ، اپنے لیے ، اپنے مسقبل کے لیے اس محل کے لیے اس مان و عزت کے لیے جو راجہ نے اسے دیا تھا اس نے دھیرے سے سر اثبات میں ہلا دیا راجہ کو اس کا اقرار اندر تک شانت کر گیا اور پھر چند ہی دنوں میں راجہ کی پر زور حمایت اور آملہ بیگم کی مخالفت کے باوجود رانی کو راجہ کی امانت کا امین بنا دیا گیا تھا وہ راجہ پور کی رانی بن گئی تھی آملہ بیگم نے بہت واویلا کیا وہ عروسہ بیگم کو راجہ کی جگہ لانا چاہتی تھیں مگر اب شاید انکا زوال شروع ہو گیا تھا
* * * * * * * * *
زمانہ دیتا ہے مجھ کو زوال کی دھمکی
نہ جانے کونسا مجھ میں کمال رکھا ہے
“نہیں کسی صورت نہیں ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے ”
رانی کی گرجدار آواز پر چاروں طرف سناٹا چھا گیا لوگ سر جھکاۓ بیٹھے رہے اماں نے حیرت سے رانی کے تاثرات دیکھے نقاب سے جھانکتی آنکھوں میں غیض وغضب کی سرخی تھی آملہ بیگم کی مخالفت کے باوجود وہ راجہ کی جگہ پر براجمان تھی اور بہت انصاف سے فیصلے کرتی تھی
“ہم راجہ کے مجرم کو کسی صورت آذاد نہیں کریں گے اماں آج تو آپ نے یہ بات کر لی مگر دوبارہ مت کیجئے راجہ کے جسم سے بہنے والا ایک خون کا قطرہ ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے ” وہ دو ٹوک انکار کر گئی تھی
اماں نے بے بسی سے سجی کے ماں باپ کو دیکھا جن کے مجبور کرنے پر وہ یہاں رانی سے سجاول کی زندگی کی بھیک مانگنے آئی تھیں
“سجاول کی سزا ہم خود تجویز کریں گے وہ ہمارا مجرم ہے اس معاملے میں بولنے کا حق کسی کو نہیں
اب آپ لوگ جا سکتے ہیں “یہ کہتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی سب لوگ احتراماً کھڑے ہو گۓ چار ملازمہ اور دو گارڈز اس کے ہمراہ تھے
**********
جب وہ محل میں داخل ہوئی رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا گاڑی سے اتر کر وہ لاوٴنج میں پہنچی تو اس کا پہلا ٹکراؤ ماہا سے ہوا جو بے صبری سے اسکا انتظار کر رہی تھی
“بھابھی” اسے دیکھتے ہی وہ اسکی طرف لپکی
“ہاں کہو بھئی کیا بات ہے” رانی کے پوچھنے پر وہ اسکے ہاتھ پکڑ کر التجائیہ بولی
“بھابھی میں بھیا سے معافی مانگنا چاہتی ہوں لیکن ہمت نہیں ہو رہی مجھے ڈر لگ رہا ہے ”
“ارے ڈر کیوں بھائی ہیں وہ تمہارے کچھ بھی نیں کہیں گے دیکھنا “رانی نے مسکرا کر تسلی دی ماہا کے ساتھ اسکی اچھی دوستی ہو گئی تھی
” نہیں آپ میرے ساتھ چلیں پلیز”
اسکے منت بھرے لہجے پر وہ سوچ میں پڑ گئی
” آں ایسا کرو امو جان کو لے جاؤ انہیں تو کچھ نہیں کہیں گے میں گئی تو ہو سکتا ہے دونوں کو ہی باہر نکال دیں” وہ شرارت سے بولی
“ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں میں امو جان کو لے جاتی ہوں” وہ کہہ کر تیزی سے بھاگ گئی
“پاگل “وہ بڑبڑاتے ہوئےپلٹی تو اسکے پیچھے اریکہ کھڑی تھی اسے دیکھ کر رانی مسکرائی اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا
“کتنا بار کہا یے اریکہ ایسا مت کیا کرو کتنے ملازم ہیں حویلی میں “وہ رسان سے بولی
” کوئی بات نہیں مجھے اچھا لگتا ہے ” وہ پانی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی
“اچھا یہ میں پی لیتی ہوں تم جا کے چاد لے آؤ تمہیں تمہارے بھائی کی طرف چھوڑ آتی ہوں ”
“سچ ـ ـ میرا بھائی آذاد ہو گیا “اریکہ کی خوشی دیدنی تھی
“ہاں ہم نے اسے آذاد کر دیا ”
“کس کی اجازت سے کیا تم نے ایسا ” چھپ کر ان کی باتیں سنتی آملہ بیگم رانی کے سامنے آکر بولیں ساتھ میں عروسہ بیگم بھی تھیں
“ہمیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں آملہ بیگم “وہ حواباً اطمینان سے بولی اور اسکا یہی اطمینان انہیں آگ لگا گیا
“پاگل ہے راجہ بالکل پاگل خاندانی بیوی کو چھوڑ کر ایک دو ٹکے کی عورت کو اپنی جگہ بٹھادیا ہونہہ ہم نہیں مانتے تمہیں کچھ بھی “اب کے عروسہ بیگم نے اپنی بھڑاس نکالی رانی نے بغور اسکی بات سنی آرام سے پانی پی کر گلاس رکھا اور اسکے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے سکون سے بولی
“جانتی ہو عروسہ بیگم کیوں کیا انہوں نے ایسا ؟؟؟ کیوں کہ یہ دو ٹکے کی عورت ان کے ہونے والے وارث کی ماں ہے اس محل کے وارث کی ماں مستقبل کے راجہ کی ماں …….” وہ ایک،لمحے کو رکی
” اور خاندانی بیوی بانجھ ہے “رانی کا وار شدید تھا عروسہ تو عروسہ آملہ بیگم کی زبان کو بھی قفل لگ گیا رانی اریکہ کو اشارہ کرتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی آملہ بیگم نے عروسہ کی زرد پڑتی رنگت کو دیکھ کر ہنکارا بھرا
“ٹھیک ہی کہہ کر گئی ہے وہ ” عروسہ نے بے یقینی سے انہیں دیکھا
“یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ؟؟”
“وارث…. جانتی ہو یہ وارث آگیا تو کیا ہو گا تمہاری اوقات کیا ہو گی… دو کوڑی کی…. رانی کے قدموں کی دھول ہو گی تم….” آملہ بہگم اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کر رہی تھیں وہ آئینہ جو وہ خود دیکھنا نہیں چاہتی تھیں
“اب مزید میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتی اپنی جنگ تم خود لڑو تم مانو یا نہ مانو تم ہار گئی ہو ”
آملہ بیگم کی دغا بازی پر وہ آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھنے لگی وہ یہ کہہ کر جا چکی تھیں عروسہ بیگم سر پکڑے وہیں بیٹھ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اس آہ و زاری میں عنقریب آملہ بیگم کو بھی اس کے ساتھ شامل ہو جانا تھا
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...