معتبر کہانی کار، شاعر، اور مبصر۔ طاہر احمد مغل (لاہور)
محترم امین جالندھری صاحب میں تو سطحی نوعیت کا پاپو لر فکشن لکھنے والا ایک عام سا لکھاری ہوں۔ آپ جیسے قلم کار کے کام پر لکھنا میرے لئے بہت مشکل اور آپ کیلئے بیکار ہی ہوگا۔ ہم رائی کا پہاڑ بناتے ہیں اور آپ جیسے قلمکار دریا کو کوزے میں بند کرتے ہیں۔میں نے حرف حرف کہانی میں آپ کے جو افسانے پڑھے وہ اپنے اندر بہت گہرائی اور معنویت لئے ہوئے ہیں۔ آپ کے افسانے کے کردار بعین وہی زبان بولتے ہیں جو ان کے کردار کا تقاضا ہوتا ہے۔ بیانیہ تحریر بھی افسانے کے ماحول اور ابلاغ کو تقویت دیتی ہے۔ ان افسانوں کی پنچ لائنز متاثر کن ہیں اور قاری کا دل ان لائنز کے انتظار میں شدت سے دھڑکنا شروع کر دیتا ہے۔ مثلاً مستی کی آخری سطور میں سے یہ سطر ۔۔ سائیں آپ کا کرایہ ایک آدمی دے کر چلا گیا ہے۔ افسانہ بلند پروازی کی یہ سطر۔ استاد ببن تم تو نرے گائودی ہو یہ اس قرقی کیا اہمیت۔ اور ہنی مون کی یہ لائن۔۔ میں نے ہمیشہ ایسے عقل مندوں کو دل سے چاہا ہے جو اپنی رائے کا اظہار مون سے ہنی کہہ کرکرتے ہیں۔ افسانہ گھوڑا کی یہ پنچ لائن بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ۔۔ اوہ مائی گاڈ پاکیز ۔ اس دور میں آپ کے افسانچے کا پرچم بلند کیے کھڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور مزید کامرانیاں دے۔ اس برق رفتار دور میں ادب و فکشن کا قاری دو طبقوں میں منقسم ہے۔ ایک طبقہ تو محترم امین جالندھری جیسے قلم کاروں کی مختصرو مؤثر تحریری پڑھنا چاہتا ہے لیکن ایک بڑا طبقہ وقت کی کمی کے با وجود طول طویل داستانوں اور کہانیوں کا شیدائی ہے۔ مثلاً مغرب میں ہیری پوٹر، لارڈ آف دی رنگ، وہیل آف ٹائم اور ڈریگن کیپرز جیسے طویل سلسلے نہ صرف شوق سے پڑھے بلکہ دیکھے جا رہے ہیں۔ موجودہ ماحول میںمختصر افسانے اور کہانی کو زندہ رکھنے کیلئے نہایت توانا قلم اور طاقتور تخیل کی ضرورت ہے۔ اور وہی دریا کو کوزے میں بند کرنے والی بات۔ بے شک محترم امین جالندھری صاحب میں یہ خوبی موجود ہے۔ وہ افسانے کے تجسس کو بر قرار رکھتے ہوئے بڑے مدلل انداز میں قاری کو کہانی کے اختتام تک لاتے ہیں اور وہ مقصد حاصل کر لیتے ہیں جو کرنا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے کئی افسانے ایسے ہیں جن پر وہ چاہتے تو ایک ضخیم ناول تعمیر کر سکتے تھے۔ ایسی ہی ایک مثال افسانہ رہائی کی صورت میں ہے۔ کتاب کے چار ساڑھے چار صفحات کے افسانے میں امین جالندھری صاحب نے دیہی معاشرے کی بے شمار بگڑی شکلیں دکھا دی ہیں۔ سائیں اور اس کا کارندہ عرض محمد مکالمہ کر رہے ہیں۔ کہنے کو تو یہ ایک مکالمہ ہے مگر اپنے اندر دیہی ماحول کی ایک طویل المناک داستان کے اسرارو رموز سموئے ہوئے ہے۔ مالیا نے کی ہیرا پھیری سے شروع ہونیو الا مکالمہ پولیس والوں کی مستی سود خوروں کے ہتھکنڈے ہاریوں کی مجبوریوں اور ان کی عزتوں کی پامالیوں کی جھلک دکھا تا ہوا دیہات میں شعبہ تعلیم کی حالت زار اور منشیات کے دور دورے کے بیان تک پہنچا ہے۔ افسانے کے آخر میں پھر وہی پنچ لائن جو ایک زوردار گھونسے کی طرح قاری کے عین دل پر لگتی ہے اور اس ساری کی ساری تصویر کو کچھ اور بھیانک بناتی ہے۔ تو پھر عرض محمد کل تم یوں کرنا کہ حسن زادی کو حویلی میں بھجوا دینا۔
حرف حرف کہانی کے افسانے اپنے اندر چونکا دینے والی گہرائی اور معنویت لئے ہوئے ہیں اس کے با وجود اور وضاحتی بیانیہ کے نہ ہوتے ہوئے بھی یہ عام فہم اور سہل ہیں ۔ میرے خیال میں یہ ان افسانوں کی نہایت قابل قدر خوبی ہے۔ یقینا امین جالندھری صاحب کے افسانوں کے پہلے مجموعہ کی طرح یہ مجموعہ بھی عام و خاص سے ضرور داد پائے گا۔
افسانہ زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ ان میں وہی ہوتا ہے جو ہم روز مرہ زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہلکے پھلکے اور شیریں انداز میں تلخ حقائق کو پیش کر کے آدمی کو ایک بار سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ امین صاحب کے ہاں تحریر میں شگفتگی اور روانی پائی جاتی ہے۔ ان کے افسانوں میں خاص خوبی یہی ہے کہ ان میں بلا وجہ کی دانشوری اور بقراطیت کا شائبہ بھی نہیں۔ امین جالندھری صاحب کے افسانے دلچسپ بھی ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کا طرزِ بیان بہت ہی خوبصورت ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
ارمغانِ اشرف
(ڈاکٹر محمد خاں اشرف)
ترتیب و تنظیم: ڈاکٹر عظمت رباب
بہ تعاون شعبہ اردو، لاہور گیریژن یونیورسٹی لاہور۔
ملنے کا پتہ: علمی کتاب خانہ اردو بازار لاہور۔ سنگ میل پبلی کیشنز ، لوئر مال لاہور
مکتبہ : تعمیر انسانیت غزنی اسٹریٹ اردو بازار، لاہور
توصیف پبلی کیشنز پہلی منزل کمرہ نمبر ۱ مکہ سینٹر لوئر مال لاہور
ناشر: مرکز زبان و ثقافت لاہور قیمت:400/-روپے
(ماہنامہ الحمرہ لاہور کے قارئین کو حسب خواہش مفت حاصل کر سکتے ہیں)۔