ادبی انعامات ہماری اردو دنیا کے ہوں یا عالمی نوعیت کے ہوں،یہ کبھی بھی میرا مسئلہ یا موضوع نہیں رہے۔مقامی،قومی اور بین الاقوامی، ہر سطح پر یہ پبلک ریلشننگ اور مضبوط لابنگ کا کھیل ہےں۔جو تعلقاتِ عامہ اور طاقت ور لابی کا بندہ ہوتا ہے وہ انعام جیت جاتا ہے۔یہ کوئی چوہا دوڑ نہیں بلکہ ہاتھی دوڑ ہوتی ہے۔قومی سطح پر نذیر ناجی،منشا یاد اور ڈاکٹر ظہور اعوان کے تحریر کردہ ذاتی تجربات پڑھنے کے بعداس کھیل کی ساری حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔عالمی سطح کے انعامات میں بھی یہی منظر بڑی سطح پر ہوتا ہے۔میں مقامی نوعیت سے لے کر بین الاقوامی سطح تک کی اس انعامی گیم سے تھوڑا بہت با خبر تو رہتا ہوں لیکن اسے میں نے کبھی موضوع نہیں بنایا۔
اس برس” دی مین بکر پرائز ۲۰۱۳ء“ کا اعلان ہوا اور اردو کے بعض لکھنے والوںکااس پر ردِ عمل سامنے آیاتو اس بکر پرائز کا سارا منظر نامہ میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ لگ بھگ پانچ ماہ پہلے مسعود اشعرکے کالم میں یہ نوید دی گئی کہ اس بار اس انعام کے ٹاپ ٹین میں اردو کے انتظار حسین بھی شامل ہیں۔کچھ اور کالم نگار ادیبوں نے بھی اس کا چرچا کیااور بی بی سی کی اردو ویب سائٹ تک سے کام لے کر لابنگ کا عمل جاری رکھا گیا۔ٹھیک ہے یہ سب اپنی لابی کو مستحکم کرنے کا طریق تھا،اچھا کیا گیا۔لیکن اب مئی ۲۰۱۳ءمیں جب بکر پرائز کا نتیجہ سامنے آیا تو امریکی افسانچہ نگار Lydia Davisکے افسانچوں نے بڑے بڑے ناولوں کو ڈھیر کردیا۔ Lydia Davisاس سال کا انعام جیت گئیں۔اندازہ ہوا کہ ان کی لابی زیادہ مضبوط اور موثر تھی۔اگر انتظار حسین کی لابنگ زیادہ مضبوط ہوتی تو یقینی طور پر وہ یہ انعام جیت جاتے،ایسا نہیں ہوا تو اس میں کوئی حرج نہیں،یہی بہت ہے کہ وہ اس انعام کے ٹاپ ٹین میں شامل رہے۔اس نتیجہ کے اعلان کے بعد مسعود اشعر نے پھر جو کالم لکھا اس میں انعام جیتنے والی خاتون کی نگارشات کو بہت کمتر جتاتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا گیا۔ان کی بات درست ہو سکتی ہے لیکن کیا پاکستان میں بلکہ پوری اردو دنیا میں ایک طویل عرصہ سے بے شمار کم تر اور بعض اوقات نا اہل قسم کے لکھنے والوں کو بڑے بڑے انعامات سے نوازتے ہوئے کئی اہم اور زیادہ اچھا لکھنے والے شاعروں اور ادیبوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا؟جن لوگوں کو ادیب کہلانے پر جرمانہ یا کوئی اور بڑی سزا ہونا چاہیے تھی انہیں بڑے ایوارڈز سے نوازا گیاہے۔جب آپ خود اپنے گھر میں بددیانت ہیں تو دوسروں کو کس دیانت داری کا درس دینا چاہتے ہیں۔اور اپنے لیے کون سا حق یاانصاف مانگتے ہیں۔
بُکر پرائز سے مجھے اردو ادب اور نوبل پرائز کا قصہ یاد آگیا ہے۔ادب کانوبل پرائز اپنی اہمیت کے لحاظ سے بکر پرائز سے بڑا انعام ہے۔اس انعام کے لیے اردو دنیا سے تعلق رکھنے والے صرف دو ادیبوں کو نامزد کیا گیا جو ٹاپ تھری تک پہنچے۔ انڈیا سے قرةالعین حیدر اور پاکستان سے ڈاکٹروزیر آغا۔انڈیا سے قرةلعین حیدر ایک بار ٹاپ تھری میں شامل رہیں،لیکن انہیں یہ انعام نہ مل سکا۔پاکستان سے ڈاکٹر وزیر آغا کا نام تین سال تک ہر بار ٹاپ تھری میں شامل رہالیکن انہیں بھی انعام نہیں دیا گیا۔البتہ سویڈش رائٹرز یونین کی جانب سے ڈاکٹر وزیر آغا کو باقاعدہ طور پر سویڈن میںمدعو کیا گیا اور اس تنظیم کی جانب سے وزیرآغاکا شاندار استقبال کیا گیا،تقریبات میںان کی ادبی خدمات پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا گیا ۔”سویڈش اکیڈمی“کی جانب سے بھی ان کے اعزاز میں شایانِ شان تقریب برپا کی گئی۔ساری تقریبات کا سویڈن کے اخبارات میں بڑے پیمانے پر تذکرہ کیا گیا۔یہ بھی بڑا اعزاز تھا۔اس پرانی تقریب کی تفصیل کے سلسلہ میں جب میں نے ڈنمارک میں اردو کے معروف شاعر اور ادیب نصر ملک سے استفسار کیا تو انہوںنے اپنی یکم جون ۳۱۰۲ءکی ای میل میںجو تفصیل فراہم کی وہ انہیں کے الفاظ میں یہاں درج کیے دیتا ہوں۔
” آغا جی ( اللہ اُن کے درجات بلند کرے) پانچ نومبر سنہ انیس سو چورانوے میں سویڈن آئے تھے۔انہیں سویڈش رائٹرز یونین اور اسی یونین کی انٹرنیشنل شاخ نے مشترکہ طور پر مدعو کیا تھا اور اپنے قیام کے دوران انہوں نے مختلف ادبی اجتماعات میں پاکستان، ہندوستان اور بحیثیت مجموعی پورے جنوب ایشیا میں ادیبوں کے مسائل ان کے طرز عمل اور لکھاریوں کے لیے اظہار خیال کی آزادی کی اہمیت اور اسی طرح کے دیگر موضوعات پر لیکچر دیئے تھے۔ ان کا سب سے بڑا اور اہم لیکچر ”سویڈن کی قدیم ترین یونیورسٹی ” اُپسالا “ کے بڑے ہال میں ہوا تھا۔یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ آغا جی سویڈش رائٹرز یونین کی جانب سے ‘’بطور ” پاکستانی مندوب “ مدعو کیے گئے تھے اور اس حیثیت میں انہوں نے کئی تقریبات میں خطاب کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی اسی یونین کی انٹرنیشنل شاخ(سویڈش اکیڈمی۔ناقل) نے آغا جی کو ” پورے جنوب ایشیا کے مندوب “ کے طور پر نمائندگی کرنے کو بلایا تھا اور یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو برصغیر کے کسی ایک ” فر د“ کو حاصل ہوا تھا اور وہ تھے، ہم سب کے آغا جی ۔وزیر آغا جی‘ ‘
( ای میل نصر ملک بنام حیدر قریشی۔01.06.2013)
اردو دنیا سے اور پاکستان سے پہلی بار کسی ادیب اور دانشور کو اتنی عزت اور احترام دیا گیا تھا۔لیکن نوّے کی دَہائی میں جب ڈاکٹر وزیر آغاکا نام تین بار نوبل پرائز کے لیے آرہا تھاتو پاکستان کے اردو کے بعض حلقوں کو سانپ سونگھ گیا تھا۔یہ تین سال ان حلقوں نے کس عالمِ کرب میں گزارے وہی جانتے ہیں یا ان کا خدا۔اور جب تین سال بیت گئے تو سب نے سُکھ کا سانس لیا۔سب کی جان میں جان آئی۔جب انعام نہیں ملاتو بعض لوگوں نے طنزیہ جملوں سے کیسے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے،وہ سب ریکارڈ پر موجود ہے۔اگر ہماری اردو دنیا بہ استثنائے چندکسی ادبی تہذیب سے آشنا ہوتی تو اُس وقت بھی یہ کہا جاتا کہ دنیا میں ادب کے سب سے بڑے ایوارڈ کے لیے تین سال تک بار بار ٹاپ تھری میں شامل ہوناوزیر آغا ہی کا نہیں،پاکستان کا بھی اعزاز ہے اور اردو دنیا کے لیے بھی باعثِ عزت ہے۔سویڈش رائٹرز یونین کی باضابطہ دعوت اور شاندار پذیرائی تو بذاتِ خود ایسا اعزاز ہے جووزیر آغا کے بعد ابھی تک کسی اردو والے کو نصیب نہیں ہو سکا۔
بے شک انتظار حسین کابکر پرائزبرائے سال ۲۰۱۳ءکے ٹاپ ٹین میں شمار ہونا بھی اعزاز ہے،لیکن ڈاکٹر وزیر آغا کا ادب کے نوبل پرائز کے ٹاپ تھری میں شمار ہونا اور پھر تین سال تک شمار ہوتے جانا اس سے کہیں بڑا اعزاز تھا۔میں پہلے اعزاز کے نتیجہ پر اردو دنیا کی منافقت اورحالیہ اعزازکے نتیجہ پر رونا دھونا دیکھ کر شرمندہ ہوا ہوں۔یہ اقربا پروری،یہ پارٹی بازی،ادبی زندگی کے دہرے معیاروالے ہمارے عمومی کردارکو اجاگر کرتے ہیں۔ایسے رویوں والی ادبی برادریوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے جو ہوا ہے۔ پھر گلہ کس بات کا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ادب نامہ“۔روزنامہ صبح ایبٹ آباد۔۶جون ۲۰۱۳ء
”ادب نامہ“روزنامہ دنیا لاہور۔۲۱جون ۲۰۱۳ء