پنجابیونیورسٹی چنڈی گڑھ میں دو اڑھائی دہائیوں کے قیام کے دوران مجھے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر بیرون ملک کییونیورسٹیوں میں قیام، مطالعے، مشاہدے اور درس و تدریس کے جو مواقع میسر ہوئے، ان سے میرا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ اگر اردو کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے دوش بدوش کہیں بھی کھڑا ہونا ہے تو اسے اس صنف کو ایسے ہی تلانجلی دینا ہو گی، جیسے انگریزی شاعری نے سانیٹ، اوڈ، ہیرائک کپلٹ , Sonnet, Ode, Heroic Couplet, Stanza format وغیرہ اصناف سخن یا شعری اسالیب کو دی ہے۔ سانیٹ اور اوڈ کے موضوعات بھی اسی طرح سکہ بند تھے، جیسے غزل کی کلاسیکی تعریف و تفسیر ہے۔ ’’بازی کردن محبوب و حکایت کردن از جوانی و حدیث محبّت و عشق زنان‘‘۔
سانیٹ میں صرف دو اقسام تھیں، ’’پیٹر آرکن‘‘ اور ’’ شیکسپیرین‘‘۔ دونوں کی سطور کی تعداد بھی مخصوص تھی۔ قوافی کا چلن بھی ایسا تھا جس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ موضوعات بھی سانیٹ اور اوڈ دونوں کے لیے مخصوص تھے۔ انہیں تعریف، توصیف، القاب نوازی، ممنونیت، عرضداشت، دعا یا پھر آفاقی قدروں کے اظہار و اشتہار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، پھر کیا وجہ تھی کہ انیسویں صدی کے نصف آخر کے بعد اور بیسویں صدی کی پہلی ربع صدی کے آنے تک یہ اصناف سخن نا پید ہو گئیں۔ اب ان کو درسی کورسوں میں تو شامل کیا جاتا ہے، لیکن شاعری کے ان جریدوں میں جو سینکڑوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور شعری مجموعوں میں جو ہر برس ہزاروں کی تعداد میں منظر عام پر آتے ہیں، یہ اصناف سخن نظر نہیں آتیں۔