عبدالاحد ساز
حشر بپا ہے
دور تلک پھیلے میداں میں
گرمی،شور،تذبذب،وحشت،ہنگامہ سا جاری ہے
ہر اک دور کے لوگوں کے
لاکھوں گروہ استادہ ہیں
اپنے چہروں پر لئے
اپنے اپنے دور کے ان گنت نقوش
سہمی،سہمی آنکھوں میں
ایک تجسس؍سانسیں تیز
دل میں اندیشوں کا ہر دم پیچ و تاب
ہر جنبش میں اضطراب
بے چینی اور انتشار کا عالم ہے
دور مگر
حشر کے دور تلک پھیلے میداں کی آخری صف میں
حال عجب ہے؍کوئی شور،نہ کچھ ہیجان
کوئی کشاکش ہے نہ ہراس؍نفسا نفسی، نہ بے چینی
رُکی ہوئی مشینوں کی سی خاموشی ہے!
انسانوں کے گروہ کھڑے ہیں
ایسے،گویا دھرے ہوئے ہیں
بے حس،ساکت اور جامد؍چہرے بے اظہار،سپاٹ
آہنی پیکر،میکانیکی حلئیے
بند کھلی پلکیں۔۔آف اور آن سوئچ
کان کے پردے۔۔مقناطیسی ڈرم
نتھنے گیسوں کے دو پائپ
جن سے آکسیجن اندر جایا کرتی تھی
ہونٹ کہ جیسے ٹیپ ریکارڈر کے اسپیکر
چکنی زبانیں جیسے فوم ربر
تہہ لعاب کے گریس کی جن پر چڑھی ہوئی ہے
بال کہ جیسے وائر کے گچھے
ہاتھوں کی دس انگلیاں،بجلی کے کنڈکٹر
دل کی جگہ پاور کنٹرول
سُرخ تیل کی سپلائی کے مرکز
اور دماغی خلئیے؍کمپیوٹر کے خانوں جیسے
جن میں اعصاب کی برقی حرکت سے
مبہم نقش منقّش ہو رہتے تھے!
ہر اک کے ہاتھوں کے انگوٹھوں کے ناخن کی پِن میں
پھنسا ہوا ہے اک سادہ سا کاغذ
اعمال کا کورا صفحہ؍دونوں کالم خالی
کوئی گنہ نہ کوئی ثواب!
نیچے کراماَ کاتبین نے بس اتنا سا لکھا ہے:
(کوئی عمل تحریر کے قابل تھا ہی نہیں
لکھنے کا کچھ کام نہیں ہوتا تھا
ہم اِن لوہے کے کاندھوں پر بیٹھے اُکتایا کرتے تھے
ہم اِن لوہے کے کاندھوں پر بیٹھے اُکتایا کرتے تھے)