آج سوزین کے گھر ان کا ڈنر تھا، وہ جانا نہیں چاہ رہی تھی لیکن جب سے اس نے رابرٹ سے کیتھرین کی خفیہ سرگرمیوں کا دبے لفظوں میں ذکر کیا تھا، انہوں نے سائے کی طرح ہر جگہ اس کے ساتھ رہنے کی ہدایت کی تھی۔
سوزین کا گھر پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ جوں ہی انہوں نے میں روڈ سے ایونیو روڈ کا ٹرن لیا ریڈ فراری کے ٹائر ان کے عقب میں چڑچڑائے۔ دونوں اچھل گئیں مڑ کر دیکھا مانیک تھا اس نے لب بھینچ لیے تھے جبکہ وہ دوستانہ مسکراہٹ لبوں پر سجائے کیتھرین سے حال احوال پوچھنے میں مگن تھا۔
’’کیسی ہو کیتھی۔‘‘
’’اے ون! تم کہاں جا رہے ہو۔‘‘ کیتھرین کی خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی کہ مانیک جیسا خوبرو اور ڈیشنگ لڑکا اس کے راستے میں گاڑی روکے کھڑا تھا۔
’’سوزین کے گھر … انکل سے کچھ کام تھا۔‘‘ وہ متانت سے بولا۔ جس پر بیلا نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے مشکوک انداز میں گھورا تھا۔
’’اوہئیلی؟ ہم بھی وہیں جا رہے ہیں۔‘‘ کیتھرین نے ہنستے ہوئے بتایا۔
’’جب منزل ایک ہے تو کیوں نہ پھر ساتھ چلا جائے ؟‘‘ وہ بات کیتھرین سے کر رہا تھا لیکن اس کا سارا دھیان بیلا کی سمت تھا۔
’’ویلوٹ کی بلیک میکسی میں ملبوس وہ کوئی پری لگ رہی تھی سیدھے ریشمی بال سمیٹ کر ایک شانے پر ڈال رکھے تھے۔ کانوں میں آویزاں بڑی بڑی بالیاں صراحی دار اٹھی ہوئی گردن کی ہر جنبش پر ہلکورے لیتی تھیں۔
گہری سرمئی آنکھوں میں کاجل بھرا تھا۔
’’تمہارا لفٹ دینے کا انداز مجھے پسند آیا۔‘‘ وہ شاہانہ انداز میں کہتی بیلا کا ہاتھ تھام کر اس کی مزاحمت کے باوجود گاڑی میں سوار ہو چکی تھی مانیک نے راستہ بھر بیک ویو مرر کا رخ اس کی طرف کیا ہوا تھا۔
پورچ میں گاڑی رکتے ہی وہ اتر کر تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھ گئی پورا لاؤنج خالی تھا گول زینہ سیدھا فرسٹ فلور تک جاتا تھا اوپر سے نفری قہقہوں کی ملی جلی آوازیں نیچے راہداری تک آ رہی تھیں اس نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پہلے کمرے میں جھانکا۔
انجلین جولیا اور سوزین تینوں نیچے قالین پر رکھے فلور کشن پر بیٹھی گپیں لڑا رہی تھیں۔
’’اتنا لیٹ؟ کب سے تمہارا اور کیتھی کا ویٹ کر رہے تھے۔‘‘ سوزین اسے دیکھتے ہی اٹھ گئی کیتھرین سیڑھیاں چڑھتے مانیک سے باتیں کرتے ہوئے آ رہی تھی۔
’’مانیک! ڈیڈ اسٹڈی روم میں ہیں۔‘‘ سوزین نے دروازے سے جھانکتے ہوئے مانیک کو اطلاع دی اور کیتھرین کے ساتھ واپس اندر آ گئی۔
بیلا کو آج پتا چلا تھا کہ مانیک اور سوزین کزن تھے۔
’’آج کچھ ڈفرنٹ ٹیسٹ کریں گے۔‘‘ سوزین گلاس میں نشہ آور مشروب انڈیل رہی تھی۔
’’بیلا! تم بھی لے لو۔‘‘ سوزین نے گلاس اس کی کی سمت بڑھایا۔
’’سوری! میں یہ سب نہیں پیتی۔‘‘ اس نے ناگواری سے ناک چڑھائی۔ کیتھرین نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ باقی تینوں کے لبوں پر بھی استہزائیہ مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’کیتھی یار! تم میں اور تمہاری کزن میں کچھ بھی کامن نہیں ہے۔‘‘
’’منی اسکرٹ، بوائے فرینڈ ڈسکو کلب، مے نوشی، فحاشی اور عریانیت کو ہم نے اپنا کلچر بنایا، جبکہ ہمارے مذہب میں اس کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ یہ سب یسوع کی تعلیم کا حصہ نہیں ہیں۔‘‘ کیتھرین کی خفگی کے باوجود اس نے دو ٹوک جواب دیا تھا۔
ایک لمحے کے لیے تینوں کی رنگت متغیر ہوئی۔ پھر سوزین نے کچھ سنبھل کر کہا۔
’’یہ ایک لاحاصل بحث ہے۔ کیتھی! تم اس روز مارک سے ملی تھیں ؟‘‘ اس نے بات کا رخ موڑ دیا۔ کیتھرین کا چہرہ اتر گیا۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی وہ سوزین جتنی بولڈ نہیں ہو سکتی تھی۔
بیلا وہاں سے اٹھ کر بالکونی میں آن کھڑی ہوئی۔
سامنے ستاروں بھرا آسمان روشن تھا اور نیچے اسٹریٹ لیمپ کی روشنی میں سارا منظر دمک رہا تھا۔ گلاب کی منہ بند کلیاں ہوا کی سرسراہٹوں سے جھوم رہی تھیں۔
مگر اس کی نظریں ان سب سے بے نیاز خلاؤں میں بھٹک رہی تھیں۔
’’کیا مجھے روشنی مل جائے گی؟‘‘ اس نے خود سے سوال کیا اور پھر الزبتھ کی یاد آ گئی۔ وہ ایک نن تھی۔ جسے احمد کمال کی محبت گرجا گھر سے نکال کر خار زار وادیوں میں لے آئی تھی۔ اس نے مرنے سے قبل کہا تھا۔
’’اچھا بیج بونے والا ابن آدم ہے اور کھیت دنیا ہے۔ اچھا بیج بادشاہی کے بندے اور کڑوے دانے شیطان کے فرزند ہیں۔ کٹائی، دنیا کا آخر ہے اور کاٹنے والے فرشتے ہیں۔ بس جیسے کڑوے دانے جمع کیے جاتے ہیں اور آگ میں جلائے جاتے ہیں، ایسے ہی دنیا کے آخر میں ہو گا۔‘‘
٭٭٭
بے ہنگم میوزک کی تیز آواز سے بچنے کے لیے مہک نے دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی تھیں۔ مگر سب بے سود اور لاحاصل۔
آواز تھی کہ سماعتوں کے پردے پھاڑنے پر مصر تھی۔
در نایاب نے لاؤنج میں قدم رکھا اور چکرا کر رہ گئی۔ آج دونوں گھر میں تھے اور لاؤنج کا سارا نقشہ ہی بگاڑ رکھا تھا۔
انجو اس سارے ہنگامے سے بے نیاز دور باغیچے کے اس جانب تعمیر شدہ سرونٹ کوارٹر میں جا کر سوچکی تھی۔
لاؤنج میں کشن بکھرے ہوئے تھے۔ نمکو، چپس اور کوکیز کے ریپر ہر کونے میں اڑ رہے تھے۔ فرش پے شاید کولڈ ڈرنک گری تھی۔ وہاں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔
’’دیکھ لیں پھوپھو! کل میرا ٹیسٹ ہے اور زریاب کے بچے نے جان بوجھ کر اسپیکر پھاڑ رکھے ہیں۔‘‘ مہک کھڑی دانت پیس رہی تھی۔
’’تم دونوں کے جھگڑے میری سمجھ میں تو نہیں آتے۔ وہ تپ اٹھی۔
’’جھگڑا پہلے وہ شروع کرتا ہے۔‘‘ اس نے تنک کر کہا۔
’’ہاں … اور تم تو بہت معصوم ہو جیسے۔‘‘ اسی وقت وہ بھی اپنے کمرے سے برآمد ہوا تھا۔ لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ ٹکائے بولا۔
’’میں نے تم سے کچھ کہا ہے ؟‘‘ وہ بل کھا کر پلٹی۔
’’کل تم نے میری شرٹ جلائی تھی۔‘‘ وہ باقاعدہ جرح پر اتر آیا۔
’’اور تم نے پرسوں مجھے گندم کے سٹے سے ڈرایا تھا۔‘‘ وہ دوبدو بولی۔
’’ہاں ! تو تم نے مجھے اپنے نوٹس کیوں نہیں دیے تھے ؟‘‘
’’تم تو بس اس بات سے جلتے ہو کہ میرے مارکس تم سے زیادہ کیوں آتے ہیں۔‘‘ اس نے بھنویں اچکائیں۔
’’دو نمبر زیادہ۔‘‘ وہ استہزائیہ ہنسا۔
’’اگر آگے پیچھے بیٹھی چڑیلوں کو گھورنا بند کر دو نا تو …‘‘،
’’بس …‘‘ در نایاب نے ہاتھ اٹھا کر دونوں کو خاموش کروایا۔ ورنہ یہ کھاتہ تو شیطان کی آنت کی طرح بڑھ رہا تھا۔
’’کہیں سے لگتا ہے کہ تم دونوں کسی مہذب گھرانے کے چشم و چراغ اور شہر کے مہنگے ترین اور بہترین ادارے کے اسٹوڈنٹس ہو؟ نہ بات کرنے کی تمیز، نہ شرم، نہ کوئی لحاظ … یہ مستقبل کے ڈاکٹروں کا حال ہے۔ اگر ایک آپریشن تھیٹر میں کبھی تم دونوں کو آپریٹ کرنا پڑا تو آپس کی بحث میں ہی مریض مر جائے گا۔ تم دونوں مجھے اب ایک دوسرے سے بات کرتے نظر نہ آؤ۔ ورنہ اس بار میں لالہ سے شکایت کروں گی۔‘‘ در نایاب نے انہیں تنبیہ کی۔
’’نہیں۔‘‘ دونوں احتجاجاً چلائے۔
ان کا یہی مسئلہ تھا کہ ایک دوسرے سے چونچ لڑائے بغیر رہ بھی نہیں سکتے تھے۔
’’پھوپھو پلیز! اب نہیں کریں گے لڑائی۔‘‘ زریاب کا انداز ملتجیانہ تھا۔
مہک نے بھی چہرے پر زمانے بھر کی مسکینیت طاری کر لی۔ کیونکہ وہ ایک بار لالہ سے ان کی شکایت کر چکی تھی۔ تب لالہ نے حتمی اندازہ میں کہا تھا کہ اب کوئی شکایت ملی تو دونوں کو ہاسٹل بھجوا دوں گا۔ ایک تو ہاسٹل کا مخصوص کھانا اور محدود ڈسپلن لائف سوچ کر ہی دم گھٹتا تھا۔
’’اوکے ! آج شام کا کھانا تم دونوں بناؤ گے اور اگر اس دوران کوئی جھگڑا کیا تو …‘‘ وہ کہہ کر رکی نہیں۔ پیچھے دونوں ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے۔
٭٭٭
’’اس کتاب میں بہت سی ایسی باتیں لکھی ہیں، جنہیں پڑھ کر تم جیسی کم سن لڑکی بھٹک سکتی ہے۔‘‘ پروفیسر انکل نے آج کے ترجمہ کیے ہوئے صفحات اسے نہیں دیے تھے۔ وہ پچھلے دو ماہ سے قصص الانبیاء کا مطالعہ کر رہی تھی۔ حضرت آدمؑ کی پیدائش سے لے کر حضرت سلیمانؑ تک کا سفر کرتے ہوئے اس کی معلومات میں حیرت انگیز اضافہ ہوا تھا۔ پروفیسر انکل بھی اب تک بہت انجوائے کر رہے تھے۔ کہیں بھی کسی بھی مقام پر ایسا محسوس نہیں ہوا تھا کہ اس کتاب میں لکھا کوئی قصہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔
’’کیسی باتیں ؟‘‘ اس نے وضاحت طلب نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقدس کنواری مریم علیہ السلام کی گود میں گواہی دینا کہ میں اللہ کا نبی ہوں۔‘‘
’’تو کیا شک ہے اس میں ؟‘‘ اس بار حیران ہونے کی باری پروفیسر ولیم کی تھی۔
’’کیا تمہیں نہیں پتا یسوع اللہ کا …‘‘
’’پلیز! اس سے آگے کچھ مت کہئے گا۔ کہیں آپ کا شمار گناہ گاروں میں نہ ہو جائے۔‘‘ بیلا نے ہاتھ اٹھا کر ٹوک دیا۔
’’کیسی باتیں کر رہی ہو تم۔‘‘ وہ بے چینی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا نبی مانتی ہوں اور کچھ نہیں اور یسوع کا بھی یہی پیغام تھا کہ اللہ ایک ہے اور اس کی عبادت کرو …
حضرت آدمؑ جو بغیر ماں اور باپ کے پیدا ہوئے تھے تو کیا وہ بھی خدا ہیں ؟ نہیں نا … تو پھر حضرت عیسیٰؑ کو بھی اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں۔ ان کی ولادت ایک معجزہ تھی بس۔‘‘ آخری جملہ اس نے اتنی برہمی سے کہا تھا کہ رخساروں پر سرخی چھلکنے لگی۔ یہی وہ بات تھی، جسے بتیس انجیلوں میں پڑھ کر بھی اس نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک نبی اللہ کا بیٹا کیسے ہو سکتا تھا۔ عقل تسلیم ہی نہیں کرتی تھی اور اتنے انبیاء علیہ السلام کا احوال پڑھنے کے بعد تو اس کے فہم میں مزید پختگی آ چکی تھی۔
’’بس! اسی بات کا ڈر تھا مجھے۔ تم سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ باتیں ہمیں گمراہ کرنے کے لیے ہی تو لکھی گئی ہیں۔ تم اس اسلامی تنظیم کے پروپیگنڈوں کو نہیں سمجھ سکتیں۔ میری مانو، اس کتاب کو مت پڑھو۔ تمہارا ذہن بھٹک جائے گا تم ڈبل مائنڈڈ ہو جاؤ گی۔‘‘
ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کس طرح اسے اس کتاب سے دور رکھیں۔
’’آپ کو پتا ہے نا! میری ماں کیتھولک تھی اور میرے ڈیڈ مسلم … میں تو پیدائشی ڈبل مائنڈڈ ہوں۔‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں کہتی صفحات اٹھا کر چلی آئی۔
٭٭٭
’’بیلا! ناشتا کر لو۔‘‘ کیتھرین نے اس کے سر سے چادر اتاری۔ یونیورسٹی جانے کا ٹائم ہو چکا تھا اور وہ ابھی تک سو رہی تھی۔
’’مجھے ناشتا نہیں کرنا۔ میرا فاسٹ ہے۔‘‘ کسل مندی سے کہتے ہوئے اس نے کشن منہ پر رکھ لیا۔ کیتھرین نے دیوار گیر کیلنڈر پر نگاہ ڈالی۔ ان کے روزے شروع ہو چکے تھے۔ لیکن اتنا طویل روزہ وہ تو نہیں رکھ سکتی تھی۔ جبکہ بیلا نے روزے کا پورا اہتمام کیا تھا۔
’’عجیب بات ہے۔ تم یسوع کو نہیں مانتیں اور ان کی ساری باتیں مانتی ہو۔ روزہ رکھتی ہو، چرچ جاتی ہو، عبادت کرتی ہو، اپنے ہمسایوں کا خیال رکھتی ہو، ممی اور ڈیڈی کی اتنی عزت کرتی ہو، حرام کام نہیں کرتیں، ناپاک چیزیں نہیں کھاتیں، چوری نہیں کرتیں، جھوٹ نہیں بولتیں، مکمل لباس پہنتی ہو۔ کاش! تم میری جگہ ہوتیں تو ایک اچھی نن بیتیں۔ ڈیڈ کی خواہش تو پوری ہو جاتی۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آج کے اس ماڈرن دور میں اس عجیب خاندانی روایت کی پاسداری کرنا کیوں ضروری ہے۔‘‘
’’تمہیں اگر کوئی پسند ہے تم شادی کر لو۔ میں انکل سے بات کر لوں گی۔‘‘ بیلا نے اس کے گال پہ چٹکی بھری۔
’’کیا؟ ابھی سے شادی کر لوں ؟ یہ انجوائے کرنے کی عمر ہے یار! میں یونیورسٹی جا رہی ہوں۔ اوکے ! بائے۔‘‘ تیز تیز بولتے ہوئے اس نے شوز پہنے اور چلی گئی۔
بیلا نے پھر سے کشن منہ پر رکھ لیا۔ ترجمہ کیے ہوئے وہ صفحات ابھی تک ویسے ہی دراز میں رکھے تھے۔ وہ پروفیسر انکل کے خدشات تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔
’’وہ اس کتاب کو اسلامی تنظیم کا پروپیگنڈہ کہہ رہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ کتاب ہمیں گمراہ کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ لیکن یہ کتاب تو ڈیڈ اپنے ساتھ پاکستان سے لائے تھے اور پھر یہ اُردو اور عربی زبان میں تھی۔
قاری محمد یٰسین جو اس کتاب کے مترجم تھے۔ کیا انہیں خواب آیا تھا کہ ڈین ہیگ(Den Haag) شہر کی ایک لڑکی بہتر سال بعد اس کتاب کو انگلش میں کنورٹ کروا کر اس کا مطالعہ کرے گی تو میں اسے گمراہ کرنے کے لیے کچھ تبدیلیاں کر دوں ؟‘‘
وہ کتنی ہی دیر لیٹے لیٹے خود سے الجھتی رہی اور پھر اٹھ کر ابھی دراز کھولی ہی تھی کہ جنیفر آنٹی اسے بلانے چلی آئیں۔
’’بیلا! تم سے ملنے کوئی لڑکا آیا ہے۔‘‘
’’لڑکا؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں ! اس کا نام مانیک ہے۔ وہ سوزین کا کزن ہے اور بتا رہا تھا کہ تمہارے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے۔‘‘
’’اوہ!‘‘ اس نے ہونٹ سکیڑے اور سر کھجاتے ہوئے بولی۔
’’آپ اس سے کہہ دیں کہ میں سو رہی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے ! تم آرام کرو۔‘‘ وہ سر ہلا کر چلی گئیں۔ اس کی جگہ اگر کیتھرین ہوتی تو اس سے اچھی خاصی باز پرس کی جاتی۔ لیکن یہ بیلا تھی، جس پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے جنیفر نے مزید کوئی تفصیل طلب نہیں کی تھی۔ جبکہ یہ سوچ کر کہ وہ اس کے گھر تک چلا آیا ہے۔ وہ بے حد پریشان ہو گئی تھی۔
٭٭٭
اگلے روز لائبریری کی سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ اس سے ٹکرا گیا۔
’’ہیلو! آئی ایم مانیک۔‘‘ اس نے رک کر اپنا تعارف کروایا۔ بیلا نے محض ابرو اچکانے پر اکتفا کیا تھا۔
’’کیتھرین بتا رہی تھی کہ آپ کی طبیعت اچھی نہیں ہے۔ میں کل آپ کے گھر آیا تھا۔‘‘ اس کے سرد و سپاٹ تاثرات کے باوجود مانیک نے اپنا بیان جاری رکھا۔
’’آپ ہمارے گھر کیوں آئے تھے ؟‘‘ مروت سے عاری اکھڑ لہجے میں پوچھا۔
’’آپ کو اچھا نہیں لگا میرا آپ کے گھر آنا؟‘‘ اس نے الٹا سوال پوچھا۔
’’جی بالکل! مجھے آپ کا اپنے گھر آنا ذرا بھی اچھا نہیں لگا۔ میں نے آپ کو انوائیٹ کیا تھا یا میری آپ کے ساتھ کوئی اپائنمنٹ تھی؟‘‘ سر مئی آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ لہجے کا تیکھا پن بدستور برقرار تھا۔
مانیک کو زندگی میں کبھی اتنی ہتک محسوس نہیں ہوئی تھی۔
’’میں شاپنگ کے لیے نکلا تھا۔ سوچا آپ کی خیریت دریافت کرتا جاؤں۔‘‘
’’آپ شاپنگ کرنے آئے تھے تو اپنا کام کرتے۔ آپ کے لیے میری خیریت پوچھنا اتنا ضروری بھی نہیں تھا کہ آپ اس کے لیے میرے گھر آتے۔‘‘ وہ کہہ کر آگے بڑھ گئی۔ جبکہ وہ ایک سکتے کی سی کیفیت میں کتنے ہی پل وہاں کھڑا رہا۔ ہاتھ میں پکڑا للی کے پھولوں کا گل دستہ اسے دینے کی ہمت ہی نہیں ہوئی تھی۔
٭٭٭
’’کریلے بنائیں ؟‘‘ مہک نے اسے چڑانے کو کہا۔
’’اپنی شکل جیسی ہی بات کرنا۔‘‘ وہ واقعی تپ گیا۔
’’تم سے تو اچھی ہے۔‘‘ وہ اترائی۔
’’خوش فہمی۔‘‘ وہ استہزائیہ ہنسا۔
’’خوش فہمی نہیں … خود شناسی ہے۔‘‘ اس نے تصحیح کرنا ضروری سمجھا۔
’’بکواس نہ کرو اور کوئی آسان سی ڈش منتخب کرو جلدی سے۔ پھر مجھے جم جانا ہے۔‘‘ دونوں لان کی سوکھی گھاس پر گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے تھے۔ مہک کے ہاتھ میں چاکلیٹ تھی اور زریاب بے زار شکل بنائے تنکے نوچ رہا تھا۔
’’رہنے دو یہ مشقت۔ جم وم جانے سے کوئی ہینڈ سم نہیں بنتا۔‘‘ وہ تپانے سے بار نہیں آئی۔
’’یہ جو تمہاری سہیلیاں ہیں نا۔ یہ سب میرے چکر میں تمہارے اردگرد منڈلاتی ہیں۔ سمجھا لینا ان کو میں ایسی ویسی لڑکیوں کو گھاس نہیں ڈالتا۔‘‘ کالر کھڑے کرتے ہوئے اس نے کہا تو مہک سلگ اٹھی۔
’’میں تو تمہیں ان سے متعارف کروا کر پچھتا رہی ہو۔ ایسے گھورتے ہو میری سہیلیوں کو جیسے وہ کوئی چاکلیٹ یا آئس کریم ہوں۔‘‘
’’یہ دونوں چیزیں تمہاری فیورٹ ہیں۔ مجھے پزا اور بریانی پسند ہے۔‘‘
’’ماش کی دال بنا لیں۔‘‘ وہ واپس موضوع پر آئی۔
’’نہیں وہ بہت چھوٹی ہوتی ہے۔‘‘ اس نے منہ بنایا۔
’’تمہیں اس کے چھوٹا ہونے پر کیا اعتراض ہے ؟‘‘ مہک نے آنکھیں نکالیں۔
’’مجھے تو تمہارے چھوٹا ہونے پر بھی بہت اعتراض ہے۔ بمشکل میرے کندھوں تک آتی ہو۔ تمہیں کم از کم ایک فٹ اور لمبا ہونا پڑے گا۔‘‘
’’بکو مت! اور بتاؤ کون سی دال؟‘‘
’’الف سے انا ہوتی ہے۔ دال میں سے الف نکال دو اور صرف دل کی بات کرو۔‘‘ اب اس کی باری تھی۔
’’بھاڑ میں جاؤ۔‘‘ وہ ریپر پھینک کر اٹھنے والی تھی۔ جب زریاب نے ہاتھ پکڑ کر واپس بٹھایا۔
’’سنو! مٹن قورمہ بناتے ہیں۔ پھوپھو کی ناپسندیدہ ترین ڈش … آخر کچھ سزا تو انہیں بھی ملنی چاہیے۔‘‘
’’ہاں ! یہ ٹھیک ہے۔‘‘ وہ فوراً متفق ہو گئی۔
’’لیکن پیاز تم کاٹو گے۔ میری آنکھیں جلتی ہیں۔‘‘
’’تو کیا میں نے آنکھوں میں بٹن فٹ کروا رکھے ہیں۔‘‘ وہ تنک کر بولا۔
’’لہسن تو چھیلو گے نا؟‘‘ اس نے اپنا دوسرا ناپسندیدہ کام اسے دینا چاہا۔ مگر اس نے فوراً عذر تراش لیا۔
’’میرے ناخن چھوٹے ہیں۔‘‘
’’تو تم کرو گے کیا؟‘‘ وہ بل کھا کر پلٹی۔
’’میں بس تمہیں ہدایات دوں گا۔‘‘ وہ مزے سے بولا۔
’’تمک مرچوں والے ڈبے کہاں ہیں۔ یہ انجو کو تو بلا کر لاؤ۔‘‘ کیبنٹ کے دراز کھولتے ہوئے وہ بے زاری سے بولی۔ کچن میں آتے ہی اس پر کوفت سوار ہونے لگی تھی۔
’’اس پر بھی بین لگ چکا ہے۔‘‘ زریاب نے یاد دلایا۔
’’یہ پھوپھو بھی نا۔‘‘ اس نے دو تین برتن پٹخے۔
’’فضول جلنے کڑھنے سے کیا فائدہ؟ آج ہم کونگ شو کریں گے۔‘‘ شرٹ کے کف موڑتا، وہ اس کے ساتھ آن کھڑا ہوا۔
در نایاب نے جب کچن میں جھانکا تو آدھے سے زیادہ برتن ان کے کوکنگ شو کی نذر ہو چکے تھے۔ مسالا جات کو مختلف کٹوریوں میں سجایا گیا تھا۔ کیبنٹ کھلے اور فرش پر آئل گرنے سے چکنے ماربل کا ناس ہو چکا تھا۔
’’یہ سب کون سمیٹے گا؟‘‘ اس نے دونوں کو گھورا۔
’’کم از کم ہم تو نہیں۔‘‘ مہک نے صاف انکار کر دیا۔
’’ہمارا کام محض اتنا ہی تھا۔‘‘ زریاب نے فوراً اس کی تائید کرتے ہوئے امن کا جھنڈا لہرایا۔ وہ دونوں آگے پیچھے کچن سے باہر نکل گئے۔ جس پر وہ بھنا کر رہ گئی۔ رہی سہی کسر مٹن قورمہ نے پوری کر دی تھی۔
’’انجو۔‘‘ وہ کچن کے دروازے میں کھڑی چلا رہی تھی۔ وہ لاؤنج سے باہر نکلتے ہی خوب قہقہہ لگا کر ہنسے تھے۔
٭٭٭