آج شفا کی بارات تھی.وه دلھن بن کر اتنی حسین لگ رھی تھی کے سب کی نظریں اسی کی طرف اٹھ رھی تھیں.وه آسمان سے اتری کوئ حور لگ رھی تھی.
دعا میرا دل بھت گھبرا رھا ھے.مجھے لگ رھا ھے جیسے کچھ غلط ھونے والا ھے.
شفا نے پاس بیٹھی دعا سے کھا.
پاگل ھو گئ شفا.اسیے موقع پر تم فضول بات کر رھی ھو.یه صرف تمھارا وھم ھے.دعا نے اسے ڈانٹے ھوۓ کھا.
اتنے میں باھر بارات کے آنے کا شور مچ گیا.
مولوی صاحب نے نکاح شروع کیا.شفا کو کوئ آواز نھیں آرھی تھی.اسکو صرف آزر کیے گۓ وعدے یاد آرھے تھے.
شفا.مولوی صاحب کچھ پوچھ رھے ھیں.نور نے شفا کا کندھا ھلایا.
شفا نے خالی آنکھوں سے نور کو دیکھا.
کیا آپ کو یه نکاح قبول ھے.جواب نا آنے پر مولوی صاحب نے دوباره پوچھا.
ج جی.شفا نے اٹک جواب دیا.
سائن کرتے وقت شفا کے ھاتھ بری طرح کپکپا رھے تھے.
نکاح ھو گیا تھا سب ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے.
دعا کو شفا کے کۓ بھت دکھ ھوا اسے اس وقت آزر پر اتنا غصه آرھا تھا کے اگر وه اسکے سامنے ھوتا تو وه اسکا سر پھاڑ چکی ھوتی.لیکن وه شفا کے لۓ کچھ نھیں کر سکتی تھی.
شفا کو آفتاب کے ساتھ اسٹیج پر بٹھایا گیا.آفتاب نے ایک نظر بھی شفا پر نھیں ڈالی تھی.
شفا کا دل ھر احساس سے عاری تھا.اب تو اسکے آنسوں بھی خشک ھو چکے تھے.وه کسی بے جان بت کی طرح وھاں بیٹھی ھوئ تھی.
رخصتی کا وقت آگیا.وه کسی بے جان وجود کی طرح گاڑی میں بیٹھ گئ.
ساری رسموں کے بعد اسکی نند ابھی اسےکمرے میں بیٹھا کر گئ تھی.آفتاب باھر اپنے دوستوں میں تھا.اسکا دل چاه رھا تھا کے پهوٹ پهوٹ کر اپنی قسمت پر رو دے.لیکن جو اسکی قسمت میں لکھا تھا وه اسکو بدل نھیں سکتی تھی.
کمرے میں دروازه کھلنے کی آواز آئ.
کمرے میں دروازه کھلنے کی آواز آئ.
شفا نے فورا آنسوں صاف کیۓ.
تم ابھی تک ایسے ھی بیٹھی ھو.اٹھو جاؤ چینج کر کے آؤ.
آفتاب کی گرج دار آوازگونجی.
شفا کو بھت حیرت ھوئ لیکن وه ایک بھی لفظ ادا کۓ بغیر واشروم میں چلی گئ.
شفا جب چینج کر کےآئ تو آفتاب اسے کھی نھی نظر آیا.
وه چپ چاپ بیڈ پر آکر بیٹھ گئ اور آفتاب کے رویے کے بارے میں سوچنے لگی.
آفتاب چینجگ روم سے باھر نکلا تو شفا کو بیڈ پر بیٹھا دیکھ کر غصےمیں لمبے لمبے دگ بھرتا ھوا اس تک پهنچا اور اس کا بازو زور سے پکڑ کر ایک جھٹکے میں اسے کھڑا کیا.شفا جیسے ھی کھڑی ھوئ.
چٹاخ.اگلے ھی لمحے پڑنے والے تھپڑ سے وه زمین پر گڑنے ھی والی تھی کے اس کے بال آفتاب کی مٹھی میں آ گۓ.اتنے زور سے تھپڑ کی وجه سے شفا کے ھونٹ کا کناره پھٹ گیا.
اتنی تیز گرفت سے شفا کی آنکھوں سے آنسوں بھنے لگے.
ھمت کیسے ھوئ تمھاری میرے بیڈ پر بیٹھنےکی.
آفتاب نے ایک ھاتھ سے شفا کے بال پکڑے ھوۓ تھے اور دوسرے ھاتھ سے شفا کا جبڑا دبوچا ھوا تھا.
شفا کو اپنا جبڑا ٹوٹتا ھوا محسوس ھوا.
اگر تم نا ھوتی توآج تمھاری جگه یھاں میری مھبت مریم ھوتی. نفرت ھے مجھے تم سے شدید نفرت.اتنی تکلیف دوں گا تمھیں کے تم موت مانگو گی.اور تمھاری جگه میرے بیڈ پر نھیں بلکه یھاں پر ھے.
آفتاب نے شفا کو زور سے زمین پر دھکا دیا.
آئنده اپنی اوقات مت بھولنا.
یه کھ کے وه بیڈ پر لیٹ گیا.
زور سے زمین پر گرنے کی وجه سے شفا کا سر بری طرح زمین سے ٹکرایا.
تکلیف کی شدت کی وجه سے چیخ اسکے لبوں سے نکلی لیکن آفتاب کے ڈر کی وجه سے اسنےاسی وقت اپنے منه پر زور سے ھاتھ رکھ دیا.
اتنی تکلیف اور اپنی اتنی توھین پر شفا کے آنسوں رکنے کا نام نھیں لے رھے تھے.اسے سمجھ نھیں آرھا تھا کے کس گناه کی سزا اسے مل رھی ھے.سر میں لگنے والی چوٹ کی وجه سے شفا کو اپنا سر بھاری ھوتا ھوا محسوس ھوا اور اس پر غنودگی طاری ھو گئ.
دور کھی سے فجر کی آزان کی آواز آرھی تھی.
بھت مشکل سے شفا نے اپنی آنکھیں کھولی.ٹھنڈی زمین پر سونے کی وجه سے اسکی کمر درد سے ٹوٹ رھی تھی اور سر بھی بری طرح دکھ رھا تھا.اسنے اٹھنے کیلۓ صوفے کا سھارا لیا.
بھت همت کرکے وه واشروم تک پهنچی.پانی کا چھینٹا مار کراسنے اپنا چھرا شیشے میں دیکها.سیدھا گال اور سر سوجا ھوا تھا.شفا کو دل چاھا اپنی اس قسمت پرپهوٹ پهوٹ کر روۓ.
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...