آج سب کی دشمن جاں ہے گلوبل وارمنگ
روز و شب آتش بداماں ہے گلوبل وارمنگ
زد میں ہیں اسکی ہمیشہ آب و آتش خاک و باد
آتش سیال و سوزاں ہے گلوبل وارمنگ
لوگ قبل وقت مرگ فاجعہ کے ہیں شکار
داستان غم کا عنواں ہے گلوبل وارمنگ
آئی پی سی سی نے کر دی یہ حقیقت بے نقاب
سب کی بربادی کا ساماں ہے گلوبل وارمنگ
گرین ہاؤس گیس کا اخراج ہے سوہان روح
انقلاب نظم دوراں ہے گلوبل وارمنگ
برف کے تودے پگھلتے جا رہے ہیں مستقل
اک ہلاکت خیز طوفاں ہے گلوبل وارمنگ
ایک طوفان حوادث آ رہا ہے بار بار
شامت اعمال انساں ہے گلوبل وارمنگ
ہے پریشاں حال ہر ذی روح اس سے مستقل
دشمن انسان و حیواں ہے گلوبل وارمنگ
ہے دگرگوں آج کل ہر وقت موسم کا مزاج
ہر گھڑی اک خطرۂ جان ہے گلوبل وارمنگ
ہے خزاں دیدہ گلستاں مضمحل ہیں برگ و گل
غارت فصل بہاراں ہے گلوبل وارمنگ
ہر کوئی جس کے اثر سے کھا رہا ہے پیچ و تاب
ایک ایسی آفت جاں ہے گلوبل وارمنگ
جس کا ’’پیمان کیوٹو‘‘ سے ہی ہو گا سد باب
اجتماعی ایسا نقصاں ہے گلوبل وارمنگ
ہے ضرورت عالمی تحریک کی اس کے لئے
سوزو ساز باد و باراں ہے گلوبل وارمنگ
ہے عناصر میں توازن باعث نظم جہاں
ساز فطرت پر غزل خواں ہے گلوبل وارمنگ
جائے تو جائے کہاں انسان برقی اعظمی
جس طرف دیکھو نمایاں ہے گلوبل وارمنگ
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...