(۱۲ مارچ ۳۵ء)
آج رسمیات شروع ہوئیں۔ براتی لوگ مسٹر جے گارڈنر اور ملکہ ممانی بیگم اور ان کے بھائی شریک ہیں۔ یہاں سے چار میل پر خیموں میں فروکش ہوئے اور ہم سب دلہن کی جانب والے یہاں کاس گنج میں ہیں۔ نواب کھمبے کے علاوہ مسٹر وی گارڈنر اور بہت سے اصحاب انگریز بھی دیوان خانے میں ٹھہرے پڑے ہیں۔ آج تین بجے سہ پہر کے، ملکہ بیگم بڑے جلوس کے ساتھ دلہن کی پوشاک لے کر آئیں۔ اس جلوس میں ہاتھی، رتھ، پالکیاں اور گھوڑے تھے اور ایک سو (۱۰۰) کشتیاں مٹھائی کی تھیں۔ علاوہ اس کے دلہن کو نہلانے کے لیے اوبٹنا اور بیسن ایک طشت میں تھا۔ (کم حیثیت عورتیں یہاں کی رسم کے مطابق جب کسی محل سرا میں جاتی ہیں تو مالک خانہ کو بجائے سلام کرنے کے رسم قدم بوسی بجا لاتی ہیں۔ دائیں ہاتھ سے پیر کو ہاتھ لگا دیتی ہیں اور پھر ہاتھ کو چومتی ہیں۔ عموماً مہمان نواز اور خلیق بیگمات ذرہ نوازی فرما کر ہاتھ لگانے نہیں دیتیں اور یہ دعا دے کر بیٹھنے کا اشارہ کر دیتی ہیں ’’خدا تمہارا سوہاگ قائم رکھے‘‘۔)
یہ لوگ پردے کے اس قدر پابند ہیں کہ سوائے قریبی رشتہ داروں کے اور کوئی رشتہ دار محل سرا میں جا نہیں سکتا۔ صرف باپ اور دادا بغیر روک ٹوک کے جا سکتے ہیں ؛ چچا، تاؤ اور بھائی صرف خاص موقعوں پر۔ دلہن کو ایک دفعہ دولہا کے بھائیوں نے دیکھا تھا۔ دولہا نے اب کہلا بھیجا کہ سوائے کرنل صاحب اور مسٹر جیمس کے اب ہر ایک سے پردہ کرنا لازم ہے۔ کشتیاں لونڈیاں باندیاں اپنے سروں پر اٹھا کر محل سرا میں لے گئیں اور وہاں بڑی بیگم اور شاہزادی ملکہ بیگم کے سامنے انہوں نے قرینے سے سب کو لگا دیا۔ دلہن دو شالہ سر سے پاؤں تک لپیٹے ایک چھپر کھٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں اور رو رہی تھیں۔ میں نے یہ خیال کیا کہ شاید یہ شادی اس کی مرضی کے خلاف ہوئی ہے، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ رونا بھی رسمیات میں داخل ہے۔ ملکہ بیگم نے ایک چاندی کا کٹورہ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس میں چندن کا بُورا اور تیل ملایا اور بیگم نے اور شہزادی نے دونوں طرف کے نام اور خطاب احتیاط سے دوہرانے شروع کیے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ اگر کوئی نام یا خطاب سہو سے رہ جائے تو بڑی بد شگونی ہوتی ہے۔ اس کے بعد دلہن کے اوبٹنا ملا گیا۔ اس سے جسم بہت ملائم ہو جاتا ہے۔ پھر استعمال شدہ اوبٹنا اتار کر ایک پیالے میں رکھ کر دولہا کے بدن پر ملنے کے لیے باہر بھیجا۔ اس کے بعد شادی کا لباس دلہن کو پہنایا گیا۔ یہ زرد گاچ کا تھا اور روپہری گوٹا اس پر لگا ہوا تھا۔ پاجامہ سرخ ساٹین کا تھا۔ اس کے بعد ملکہ بیگم خیمے کو واپس چلی گئیں۔
اب سے دس روز تک دلہن کو چارپائی سے اٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کو مائیوں بٹھانا کہتے ہیں۔ دن میں دو بار روز اوبٹنا اور صابن اس کے بدن پر ملا جاتا ہے لیکن غسل نہیں کرایا جاتا۔ سوائے مٹھائی کے اور کوئی چیز حتیٰ کہ پان بھی نہیں کھلایا جاتا۔ ملکہ بیگم کے جانے کے بعد کرنل صاحب نے مجھے کہا کہ اب تم الیڈا کے ساتھ دولہا کا جوڑا لے کر اس کے خیمے پر جاؤ۔ اسی تکلف سے ہم گئے۔ ملکہ بیگم نے خیمے کے دروازے تک پیشوائی کی۔ دولہا چاندی کی چوکی پر بیٹھا ہوا تھا، ملکہ نے اوبٹنا لگایا اور پھر دولہا کو پوشاک پہنائی۔ زرد اور نارنجی رنگ کی ململ کا جامہ تھا اور گلابی ریشم کا پاجامہ اور سرخ مندیل تھی۔ دولہا کے سامنے ڈومنیاں گا اور ناچ رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم واپس چلے آئے۔ (موسم بسنت میں ہولی بڑی دھوم سے منائی جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے منہ پر گُلال ملتے ہیں اور رنگ ڈالتے ہیں اور طرح طرح کے مذاق اور دل لگیاں کرتے ہیں۔ عبیر اڑاتے ہیں اور رنگ پچکاریوں میں بھر کر اور قمقموں میں ڈال کر پھینکتے ہیں اور ڈومنیاں شادی اور منگنی کے موقعوں پر نہایت فحش اور بیہودہ گیت گاتی ہیں۔)
رنڈیاں اُمرا و شرفا کے زنان خانوں میں نہیں جانے پاتی ہیں۔ لیکن بڑے گھرانوں میں مثلاً کرنل صاحب اور ان کے بیٹے کے ہاں لونڈیاں گانا بجانا عمدہ طرح پر جانتی ہیں۔ کیونکہ ان کو بیگمات کی تفریح کے لیے گانے ناچنے کی تعلیم دلوائی گئی ہے۔ کرنل صاحب کہتے ہیں کہ رنڈیاں جو گیت گاتی ہیں وہ ہرگز خلافِ تہذیب یا فحش نہیں کہے جا سکتے۔ سوائے ان موقعوں کے کہ ان سے فحش گیت گانے کی فرمائش خاص طور پر کی جائے (مثلاً کہروا)۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...