سجاد ظہیر
آج رات تم آئی ہوتیں
جاڑا اور اندھیرا ہم نے،
چھوٹے سے کمرے سے اپنے
بالکل باہر پھینک دیا تھا
ویسے جیسے روز صبح کو
جھاڑو دے کر،
مٹی، گرد اور ایش ٹرے کی
راکھ نکالی جاتی ہے
دوستوں کی سانسوں کی گرمی
باتوں کی رو
پگھل رہی تھی
سگریٹ کے خاموش دھوئیں میں
ذہن ہمارے جھمک رہے تھے
اپنے کو ہم بھول گئے تھے
کب آخر کب
دیس ہمارا اونچا ہوگا؟
ہندی،اردو،پنجابی کب
دودھ میں شکر ہوجائیں گی؟
بھارت ماں کی ممتا
کب پروان چڑھے گی؟
کب انمول انوپ رتن
ساہت کے ہم
چرنوں میں اس کے بھینٹ کریں گے؟
اس یگ کے کب
کالی داسؔ،کبیرؔ،میرؔ
میراؔ،تلسیؔ
وارثؔ،غالبؔ
چمکیں گے آکاش پہ اپنے؟
گھونگھٹ کاڑھے، آنکھ چرائے، چھم چھم کرتی
سب کے دل کی رانی، کوتیا،
کب آئے گی؟
نوجیون کی اوشا کی لالی
برکھابن کر
برسے گی کب
دھرتی پر؟
دور بہت ہی دور سہی تم،
بس ایک رات کو،
تھوڑی دیر کو،
دوستوں سے ہم پھر یہ کہتے
’’ان سے ملئے
یہ آشا ہیں،
آج ہمارے پاس رہیں گی،
کل بھارت کے ہر آنگن میں
ان کے گیت کارس ٹپکے گا
اور ان کے گھنگھرو کی چھن چھن
سب کے من میں سنائی دے گی!
اور ان کی بانی کا امرت
ہم سب کو پینے کو ملے گا
اور یہ دکھ کی ماری دھرتی
کروٹ لے کر جاگ پڑے گی
دیس ہمارا اونچا ہوگا!‘‘
آج رات تم آئی ہوتیں
دور بہت ہی دور سہی تم
آجاتیں، بس ایک رات کو
تھوڑی دیر کو!