“آج مجھے میم سے اتنی ڈانٹ سنی پڑی”مہرماہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا
“سوری”عباد کب سے کہی بار اس کی یہ بات سنتا اور سوری کہتا اور وہ پھر سے اس پر شروع ہو جاتی
“سوری پتہ بھی ہے اتنی بےعزتی ہوئی لیکن آپ نے ٹائم پر یونی نا چھوڑنے کی قسم کھائی ہوئی ہے”وہ پھر غصے سے نام سٹاپ بولنا شروع ہو گئی وہ دونوں اس وقت گراؤنڈ میں تھے
“بس بھی کرو مہرماہ کتنا بولتی ہو کہہ تو دیا سوری اور کتنی باتیں سناؤ گی”عباد نے بیزاری سے کہا
“پہلے غلطی کرتے ہیں_______!!اور مسٹر عباد کو کسی کی باتیں بھی سننا نہیں پسند”مہرماہ نے طنزیہ کہا
“اس بیچاری کو تھوڑا آرام دے دیا کرو یہ بھی سوچتی ہوگی کونسے ناکردہ گناہوں کی سزا ملی ہے_______!! پورے دن چلتے چلتے تھک جاتی ہوگی”عباد نے شرارت سے کہا
مہرماہ غصے سے دوبارہ کہنا شروع کرتی اس سے پہلے وہ سامنے سے آتے شاہ زین سے ٹکرا گئی جو فون پر بات کرتا ہوا آرہا تھا مہرماہ کے ہاتھ میں موجود کولڈ ڈرنک شاہ زین کی شرٹ پر گر گئی شاہ زین نے حیرت سے اپنی شرٹ کو دیکھا جو پوری گیلی ہوگئی تھی اور پھر سامنے کھڑی معصوم حسینہ کو
“سوری کرو انہیں”مہرماہ نے ساتھ کھڑے عباد کے کان میں کہا
“خود ہی کرلو”عماد نے فرصت سے انکار کیا
“یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے بلاوجہ مجھ سے لڑے جارہے تھے”مہرماہ نے سارا ملبہ عباد پر ڈال دیا
“غلطی خود کرو اور سوری مجھ سے کرواتی ہو واااہ”عباد نے طنزیہ کہا
“دیکھو کرلو اچھے بھائی نہیں ہو”مہرماہ نے بےدھیانی میں کہا
“ﷲ کو مانو مہرماہ کیوں مجھے ہارٹ اٹیک دلوانا چاہتی ہو________!! میں کوئی بھائی وائی نہیں ہوں تمہارا”عباد نے غصے سے کہا
“بھول گئی تھی”مہرماہ نے اپنے سر پر آئستہ سے چپت لگاتے ہوئے کہا
“تمہاری اکلوتی منگیتر ہوں مانگ لو معافی”مہرماہ نے مکھن لگاتے ہوئے کہا
“نہیں”عباد بھی اپنی بات پر بضد تھا
“نہیں؟_____!!نہیں ہوں میں تمہاری اکلوتی منگیتر؟”مہرماہ نے آبرو اچکاتے ہوئے کہا
“میرا مطلب تھا کہ میں معافی نہیں مانگ رہا”عباد نے وضاحت دی
“سوری ہم نے آپ کو دیکھا نہیں تھا”عباد نے بالآخر معذرت کی
“انہوں نے آپ کو کیا پیغام دینے کے لئے رکھا ہوا ہے”شاہ زین نے مہرماہ کو دیکھتے ہوئے عباد سے کہا
“ہاں____!!”
“نہیں___!!”
ہاں عباد نے اور نہیں مہرماہ نے بیک وقت کہا جس پر شاہ زین کا قہقہہ بلند ہوا تو مہرماہ نے خونخوار نظروں سے عباد کو گھورا
پھر وہ دونوں الوداعی کلمات کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
“بابا ہم دونوں میں سے آپ کو زیادہ محبت کا سے ہے”مہرماہ نے تجسس سے پوچھا
“مہرماہ سے”انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
“بابا یہ غلط بات ہے میں چھوٹی ہوں اس لئے آپ کو مجھ سے زیادہ محبت ہونی چاہئے تھی”حمنہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا
“تم تینوں سے ہی مجھے محبت ہے”انہوں نے حمنہ کو پیار کرتے ہوئے کہا
“لیکن مہرماہ میں میری جان بستی ہے”انہوں نے حمنہ کو دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا
“بابا آئی لو یو”مہرماہ نے ان کے گلے لگتے ہوئے کہا اور منہ پر بارہ بجائے حمنہ کو دیکھ اسے منہ چڑا کر بھاگ گئی
“یہ لڑکی پتہ نہیں کب سدھرے گی”فائزہ بیگم نے پیشانی پر بل لاتے ہوئے کہا
“بچی ہے ابھی آئستہ آئستہ سمجھ جائے گی”انہوں نے مہرماہ اور حمنہ کو دیکھتے ہوئے کہا جو ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہی تھی
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
کچھ ہی دنوں میں شاہ زین کی عباد سے دوستی ہوگئی تھی شاہ زین کا عباد سے دوستی کرنے کے پیچھے مہرماہ تھی
کیونکہ جہاں عباد ہوتا وہاں ہی مہرماہ ہوتی اس لیے مہرماہ کو اپنی نظروں کے سامنے رکھنے کے لیے شاہ زین نے عباد سے دوستی کرلی
وہ تینوں اس وقت گراؤنڈ میں تھے کالج میں میچ تھا جس میں شاہ زین اور عباد نے حصہ لیا تھا عباد شاہ زین کی مخالف ٹیم میں تھا
ان کی پریکٹس ختم ہوتے ہی وہ مہرماہ کی جانب آئے مہرماہ وہی بیٹھی ان کا انتظار کررہی تھی
“عباد آپ کو پروفیسر نے آفس میں بلایا ہے”ایک لڑکے نے عباد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
”میں ابھی آتا ہوں”عباد کہتا ہوا اس لڑکے کے پیچھے چل دیا
مہرماہ اور شاہ زین ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے چل رہے تھے اچانک مہرماہ کا پاؤں مڑا اور وہ اپنا توازن برقرار نے رکھتے ہوئے گر گئی
“آ٥٥٥٥”مہرماہ کی چیخ نکلی
“آپ ٹھیک تو ہیں”شاہ زین نے اسے ہاتھ کے سارے سے اٹھاتے ہوئے کہا مہرماہ کا پاؤں مڑنے کی وجہ سے اس سے چلا نہیں جارہا تھا شاہ زین اسے سہارا دیتا ہوا بینج تک لے آیا دور کھڑی صبا یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی
“تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے اور شاہ زین کے بیچ میں آنے کی______!! تمہیں تو میں نہیں بخشوگی”صبا نے مہرماہ کو اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے غصے سے کہا
“کیا ہوا تمہیں؟”عباد نے مہرماہ سے پوچھا
“میرے پیر میں موچ آگئی ہے”مہرماہ نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا
“لاؤ دیکھاؤ مجھے”عباد نے کہا اور اس کے پاؤں کو دیکھنے لگا عباد اپنے ہاتھ سے دھیرے دھیرے مہرماہ کا پاؤں دبا رہا تھا شاہ زین کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا اور وہ غصے میں بناء کچھ کہے وہاں سے چلا گیا
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
“کون تھی وہ لڑکی؟”صبا نے شاہ زین کے پاس آکر پوچھا
“کونسی لڑکی؟”شاہ زین نے ناسمجھی سے کہا
“وہی جس سے خود چلا نہیں جارہا تھا تو تم اسے چلنا سکھارہے تھے”صبا نے طنزیہ کہا
“یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے”شاہ زین نے اسے نظرانداز کرتے ہوئے کہا
“تم سے جوڑا ہر شخص میرا مسئلہ ہے”صبا نے کہا
“تم ہوتی کون ہو میرے معاملے میں بولنے والی”شاہ زین نے سوالیہ انداز میں کہا
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
“آج اتنی دیر ہوگئی یونیورسٹی سے آنے میں”عباد گھر میں داخل ہوا تو تحمینہ بیگم نے پوچھا
“مہرماہ کے پاؤں میں موچ آگئی تھی پہلے اسے ہاسپٹل لے کر گیا پھر گھر چھوڑا تو دیر ہوگئی”عباد نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا
“پتہ نہیں اس لڑکی کو سکون کیوں نہیں ہے”انہوں نے طنزیہ کہا
“حد ہے امی اب اس کے پاؤں میں موچ آگئی اس میں بھی اس کی غلطی ہے کیا؟”عباد نے بےیقینی سے کہا
“پڑھنے گئی تھی یا ریس کرنے جو پاؤں میں موچ آگئی”انہوں نے اپنا لہجہ برقرار رکھتے ہوئے کہا
“ہر وقت پیچھے پڑی رہتی ہیں آپ مہرماہ کے”عباد نے منہ بسورتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
سردی کا موسم تھا رات کا پہلا پہر چل رہا تھا ہر جانب سناٹا تھا وہ بالکنی میں کھڑی اپنی سوچوں میں گم تھی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے کو چھو کے گزر رہی تھی
دروازے پر دستک ہوئی!!!
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کی والدہ دروازے پر کھڑی تھی سرسری سی نظر ان پر ڈال کر وہ دوبارہ باہر دیکھنے میں مصروف ہو گئی
“بیا!!!! “انہوں نے اسے پکارا
“جی امی!! “وہ ان کی طرف متوجہ ہوئی
“تمہارے بابا کہہ رہے ہیں میں کل تمہیں مارکیٹ سے تمہاری پسند کا سوٹ دلا لاؤں شادی کے لیے”انہوں نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا
“جب شادی ہی پسند کی نہیں ہو رہی تو سوٹ پسند کا لے کر کیا کروں گی”اس نے افسردگی سے کہا
“آپ اپنی پسند سے لے آئیے گا”بیا نے ان کے چہرے پر بےبسی دیکھ کر کہا وہ جانتی تھی اس کے بابا کے سامنے کسی کی نہیں چلتی!!