۔۔۔۔میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اشارہ دیا تھا کہ اگر امریکہ کی طرف سے من مانی کاروائیوں کا سلسلہ جاری رہا تو اقوام متحدہ کے ٹوٹنے کا خطرہ موجود ہے۔اسی طرح اگر دنیا کے مختلف علاقوں میں بالواسطہ یا بلا واسطہ امریکی مظالم کا سلسلہ بند نہ ہوا تو وہ دن دور نہیں جب امریکہ کے شہروں میں دھماکے ہونا شروع ہو جائیں گے۔اس سلسلے میں اسی ہفتہ کے دوران مستقبل کے چند اہم واقعات کی جھلکیاں سی سامنے آنے لگی ہیں۔نیٹو ،جس کا قیام سوویت یونین روس کے خلاف عمل میں لایا گیا تھااور اب روس جس کا ممبر بن چکا ہے،اس نیٹو کے امریکہ سے شدید اختلاف پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں۔”جنگی جرائم کی عالمی عدالت“کے سمجھوتے پر امریکی حکام کا دستخط کرنے سے انکارنہ صرف امریکہ کو اپنے ہی حلیفوں سے دور کرنے کا باعث بنے گا بلکہ اس انکار سے امریکی صدر جونیئر بُش نے دراصل بالواسطہ طور پراپنی”بہادر“ افواج کے عالمی سطح پر جنگی جرائم کا اعتراف کر لیا ہے۔اُدھر فلسطین کے مسئلہ پر امریکہ کے سب سے قریبی حلیف برطانیہ کے اختلافات مزید کھل کر سامنے آرہے ہیں۔امریکی صدر پر ”اسرائیل کا سپوکس مین“ کی پھبتی کسی جا رہی ہے۔اب ایک طرف ان مغربی ممالک میں تبدیلیوں کی ایک کلبلاہٹ سی محسوس ہونے لگی ہے دوسری طرف پاکستان سے علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال کی طرف سے ”مسلم اقوام متحدہ“کی تجویز سامنے آئی ہے اور اس پر بجا طور پر بعض دانشوروں نے ایسی نئی اقوام متحدہ کو مسلم دائرے تک محدود رکھنے کے بجائے اس میں چین اور بعض دیگر اہم ممالک کی شمولیت کا مشورہ دیا ہے۔گویا دنیا اب ایک نئی اقوام متحدہ کے بارے میں سوچنے لگی ہے۔ایسی اقوام متحدہ جو امریکی ”انصاف“سے پاک ہو۔
۔۔۔۔میں ان سارے حوالوں سے اس بار اطمینان سے اور تفصیل سے اظہار خیال کرنا چاہتا تھا لیکن پاکستان سے ایک ایسے سانحہ کی خبر آئی ہے کہ میری روح لرز اٹھی ہے۔مجھے یہ ساراعالمی منظر بے معنی لگنے لگا ہے۔خبر یہ ہے کہ پاکستان کے ضلع مظفر گڑھ کے شہر جتوئی کے ایک نواحی گاؤں موضع میر والا میں ایک ظلمِ عظیم ہو گیا ہے۔اس ظلم،اس سفاکی اور جنسی بربریت کی روداد یہ ہے کہ موضع میر والا میں مستوئی قبیلہ کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ عبدالشکور نامی ایک گیارہ سالہ لڑکے نے مستوئی قبیلے کی بڑی عمر کی سلمیٰ نامی ایک عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔ گیارہ سالہ بچے نے کسی عورت کے ساتھ کیا زیادتی کرنا تھی۔اگر اس الزام میں کوئی صداقت ہے تو پھر بھی حقیقت اتنی ہی ہے کہ اس عورت نے اس بچے کو بہلا پھسلا کر اپنی خواہش پوری کرنا چاہی ہوگی۔اس سے زیادہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ جبکہ وقوعہ صرف اتنا تھا کہ مستوئی قبیلے کی بڑی عمر کی عورت اس بچے کو ساتھ لے کر جا رہی تھی۔اس کے نتیجہ میں گاؤں میں پنچایت بلائی گئی اور عبدالشکور کے والد کو کہا گیا کہ وہ اپنی اٹھارہ سالہ بیٹی کو بھی ساتھ لے کر آئے۔پنچایت کے وقت گاؤں کے ایک ہزار کے لگ بھگ افراد جمع تھے۔اس بھری پنچایت نے فیصلہ سنایا کہ گیارہ سالہ عبدالشکور نے مستوئی قبیلے کی عزت تاراج کی ہے اس کے بدلہ میں اس کی بہن مختاراں بی بی جو حافظ قرآن بھی ہے،اس کے ساتھ مستوئی قبیلہ کے چار افراد جنسی فعل کریں گے۔چنانچہ چار خبیث فطرت افرادعبدالخالق،اﷲ دتہ،فیاض اور غلام فرید نے نہ صرف اس معصوم اور بے قصور بچی کے ساتھ جنسی ظلم کیا بلکہ اس کے بعد اسے کہا گیا کہ وہ اپنے گھر تک بالکل برہنہ حالت میں پیدل چل کر جائے اورا یسا ہی کرایا گیا۔ فیصلہ کرنے والی پنچایت کا ایک رکن خود بھی جنسی ظلم کرنے والے چار افراد میں شامل ہوا۔ اس ”کھلی حرامزدگی“کے ارتکاب کے وقت گاؤں کا ایک ہزار کا مجمع موجود تھا اور ان میں سے کسی نے غیرت کا مظاہرہ تو کیا اتنی اخلاقی جرات کا مظاہرہ بھی نہیں کیا کہ اس فیصلے کو غلط قرار دے دیتا یا کسی رنگ میں غیر موثر مزاحمت ہی کردیتا۔
۔۔۔۔اس ظلم کے ساتھ مزید ظلم یہ ہوا کہ عبدالشکور کے ساتھ بھی بدفعلی کی گئی،اسے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ہماری مستعد اور فرض شناس پولیس نے گیارہ سالہ بچے کو حوالات میں بند کردیا۔بچے کے ورثاءسے مطالبہ کیا گیا کہ گیارہ ہزار روپے رشوت دے کر لڑکا چھڑا لے جاؤ
۔۔۔۔یہ سانحہ ۲۲جون۲۰۰۲ءکو ہوا اور ۳۰جون تک کسی قانونی کاروائی کی کوئی صورت نہیں بنی۔یونین کونسل کے ناظم سے لے کر پولیس تک سب چَین ہی چَین لکھ رہے تھے اور پورے گاؤں کے سامنے ہونے والا اتنا سفاک جنسی جرم ہوجانے کے باجود مظلوموں کی حق رسی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
۔۔۔۔۳۰جون کو اس سانحہ کی خبر میڈیا تک پہنچی،اس میں جتوئی شہر اور ارد گرد کے بعض وکلاءنے موثر کردار ادا کیا۔جیسے ہی خبر اخبارات اور ٹی وی تک پہنچی سرکاری ادارے حرکت میں آگئے۔محمد اسلم،اﷲ دتہ،خلیل احمد،محمد قاسم،غلام حسین،حضور بخش ،رسول بخش،نذر حسین آٹھ افراد کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا جن کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کے اصرار پر ایسا خبیث فیصلہ سنایا گیا اور اس پر عمل کرایا گیا۔بعد میں اس ظلم اور حرامزدگی کا ارتکاب کرنے والے چاروں خبیث افرادعبدالخالق،اﷲ دتہ،فیاض اور غلام فرید کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔حکومت نے موثرطور پر کاروائی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔جبکہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے از خود اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے اس علاقہ کے پولیس حکام کو عدالت میں طلب کرلیا ہے۔
۔۔۔۔یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے جو پاکستان میں ہوا ہے۔خواتین کو ننگا کرکے سربازار چلنے پر مجبور کرنے کے واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں۔خاص طور پر ہماری سرائیکی بیلٹ ملتان،ڈیرہ غازی خان اور بھاولپورکے علاقوں میں اور سندھ کے دیہی علاقوں میں ظلم اور بربریت کے ایسے شرمناک سانحے وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں اور اتنی مہارت کے ساتھ ہوتے ہیں کہ ان کی خبر تک باہر نہیں جانے دی جاتی۔ڈیرہ غازی خاں ڈوےژن کے ضلع مظفر گڑھ میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہوا۔شاید اسی لئے ہمارے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراﷲ خان سے لے کر سابق صدر سردار فاروق لغاری تک ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو قوم کے درد سے اور جمہوریت کی فکر سے فرصت ہی نہیں مل سکی۔اگر میں یہ کہوں کہ ملک کی تقدیر بدلنے پر تلے ہوئے دونوں سیاست دانوں نے اگر اپنے علاقے کے لوگوں کو انسانیت کا تھوڑا سا درس بھی دے دیا ہوتا تو انسانیت کے منہ پر اتنی کالک سر عام نہ ملی جاتی۔
۔۔۔۔میں اس سانحہ کے بارے میں جاننے کے بعد خون کے آنسورویا ہوں۔ یہ ظلم ایک ایسی مسلمان اور حافظ قرآن بچی کے ساتھ ہوا ہے جو بالکل بے قصور اور معصوم تھی۔کسی بھی جھوٹے سچے الزام سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔اور یہ حرکت کرنے والے نہ ہندوستان کے جنونی اور انتہا پسند ہندو تھے اور نہ ہی جنگی جرائم کے مرتکب کوئی امریکی یا اسرائیلی فوجی تھے۔یہ ظلم کرنے والے ،یہ قیامت ڈھانے والے اسی گاؤں کے مسلمان تھے۔
۔۔۔۔ اگر ہم اپنے محدود عدالتی (پنچایت)دائرے میں اتنے ظالم اور بے انصاف ہیں،اگر ہماری پولیس کا کردار اتنا گھناؤنا ہے،اگرہماری لوکل حکومت یعنی یونین کونسل کے ممبران اور اس کے ناظم کی بے حسی ا س حد تک چلی جاتی ہے جہاں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ملتی،اور اگر ایک ہزار کے مجمع میں ایک آواز،نحیف سی آواز بھی احتجاج کے لئے نہیں اٹھتی (جس سے ہماری اجتماعی بے حسّی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے)،تو پھروہ اقوام جو ہماری دشمن بنی ہوئی ہیں ان سب کو حق حاصل ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ کررہی ہیں ٹھیک کر رہی ہیں۔جب ہم خود اپنے دائروں میں ہر طرح کا ظلم اور بد معاشی کرنا جائز سمجھتے ہیں اور اسے اپنا انصاف قرار دیتے ہیں تو پھر غیر اقوام اپنے نکتۂنظر سے ہمارے ساتھ جو کچھ کر رہی ہیں وہ اپنے تمام اقدامات میں حق بجانب ہیں۔
۔۔۔۔میں اس وقت پریشان ہوں کہ فلسطین ،کشمیر ، عراق اور افغانستان کے مظلوموں کے لئے کچھ لکھوں یا پاکستان کی بیٹی، مختاراں بی بی کے ساتھ ہونے والے ظلم کا ماتم کروں۔یقین کیجئے اس ایک لمحے میں میرے سامنے وہ سارے مظالم چھوٹے ہو گئے ہیں جو فلسطین،کشمیر،عراق اور افغانستان پرایک منظم سازش کے تحت ڈھائے جا رہے ہیں کیونکہ ان مظالم کو ڈھانے والے دشمن ہیں اوران سب کے مقابلہ میں مختاراں بی بی کے ساتھ اپنے ہی مسلمانوں کے ہاتھوں روا رکھے جانے والا ظلم بہت بڑا ہو گیا ہے۔
۔۔۔۔مجھے ایسے لگا ہے جیسے مختاراں بی بی ہی فلسطین اور عراق ہے،اورمختاراں بی بی ہی کشمیر اور افغانستان ہے۔۔۔۔امریکہ اور اس کے سارے حلیفوںنے ،اسرائیل اورہندوستان نے۔۔۔ سب نے مل کر چاروں اطراف سے مختاراں بی بی پر حملہ کر دیا ہے۔ فلسطین،عراق،کشمیر،افغانستان سب لٹ گئے ہیں۔ ۔۔۔ مختاراں بی بی لٹ گئی ہے۔
آئیے ہم سب مل کر مختاراں بی بی کے لئے روئیں!
٭٭٭