(مطبوعہ روزنامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد)
آہ! زبیرؔ رضوی
(ایڈیٹر ’’ذہنِ جدید‘‘ زبیرؔ رضوی کی رحلت پر ایک تحریر)
زندگی کے معصوم مناظر سے معنی خیز بوقلموں، نثری پیکر تراشنے والا ایک اور شاعر فنا کے پردۂ خفا میں چلا گیا۔ زبیرؔ رضوی کا انتقال میرے لیے اس لیے ذاتی نقصان ہے کہ ان دنوں ان کی شاعری اور ان کے رسالے ’’ذہنِ جدید‘‘ سے مجھے عجیب سی رغبت ہو گئی تھی۔ زبیرؔ کے کلام اور ہر نئے شمارہ کا مجھے انتظار رہتا۔ کالج کے دنوں میں مَیں نے جب ان کا مجموعۂ کلام ’’خشتِ دیوار‘‘ حاصل کیا تھا تو ان کی شاعری کے تناظر میں سادگی اور پُر کاری، عمق اور دو بینی پر مبنی سخن کی ایک اور جہت سے میرا تعارف ہوا۔ ان کے اشعار کو گنگنانے میں عجیب سا سکون ملتا تھا۔ اس کلام میں کلاسیک کا توازن بھی تھا اور نئے پن کی جدت بھی اشعار اور اسٹانزے دل میں جاگزیں ہونے لگے۔
ان کا انتقال مجھے اچانک صدمے کی طرح ہے۔ ابھی ابھی ’’ذہنِ جدید‘‘ کا ۷۱ واں شمارہ موصول ہوا تھا، اخترؔالایمان پر خوبصورت گوشہ اس شمارہ میں امتیازی خصوصیت رکھتا ہے۔ اب تک ذہن جدید کے کئی خاص نمبر شائع ہوئے لیکن اس گوشہ نے مجھے مجبور کیا کہ ان سے بات کی جائے۔
مجھے ان کا موبائل نمبر بھی درکار تھا، فون اُنھوں نے ہی اُٹھایا، غالباً ۱۴ فروری ۲۰۱۴ء کی بات ہے۔ بہت خلوص سے بات کی، کہنے لگے میں اُس قسم کا آدمی نہیں کہ موبائل رکھوں۔ آپ ہمیشہ ’’ذہن جدید‘‘ کا خیال رکھتے ہیں، میں نے ایک گذشتہ اداریہ میں آپ کا ذکر بھی کیا ہے۔ میں نے ان کی شاعری اور تحریروں کا تذکرہ کیا اور سنگ صدا (اُن کے نئے کلیہ) حاصل کرنے کی تمنّا کا اظہار کیا۔ کہنے لگے آپ Email میں ایسی کتابیں لکھ دیں، روانہ کر دی جائیں گی۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ ادب ہی اُن کا سب کچھ نہیں اُنھوں نے آرٹ اور کئی دوسرے موضوعات پر بھی لکھا ہے۔
یہ سچ بات ہے کہ زبیر رضوی نے شعر و سخن پر بڑا قیمتی سرمایہ چھوڑا ہے، وہ جدید شعر و ادب کے رہنما شاعروں میں سے تھے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے فلم، فن، آرٹ، پینٹنگ، صنعت اور شخصیات پر خوب لکھا ہے۔ ان کے رسالے ذہنِ جدید کی نوے فیصد تحریریں ان کی ذاتی تحریریں ہوتیں۔ شاعروں، افسانہ نگاروں، ناقدوں، فن کاروں اور اداکاروں کے تعارف اور تذکرے ان کی تحریروں کے دائرہ میں آئے تھے۔ اپنے اداریوں میں کھل کر سامنے آتے تھے دانشوروں اور پُر خلوص ادیبوں کے احساسات کے ترجمان ہو جاتے تھے، اُردو کے اداروں اور محفلوں کی بے اعتدالیوں کے شاکی تھے۔ اردو کے اداروں میں ناقص لوگوں کے تعین پر غم زدہ بھی۔ ابن الوقت قسم کے اربابِ حل و عقد سے متنفر بھی۔
بہ ہر حال بہت سی باتیں ہیں جو گفتنی ہیں۔ اب تو زبیر رضوی کی زندگی کا ادبی فنی اور قلمی فکر کا یہ سفر ۲۰ فروری ۲۰۱۴ء کو تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔
ان کی شاعری بے حد دلآویز تھی، سقم اور لسانی خامیوں سے بالکل پاک، با وقار لب و لہجہ اور خود شناخت ڈکشن سے سجی ہوئی بھی تھی۔ گہر سفتنی کی طرح۔ اس شاعری کا ماحول زندگی کے قریب تر تجربوں کی آئینہ داری کرتا ہے، یہ کلام اس کرب کا بیانیہ بھی تھا جو ایک دردمند فن کار کے داخلی احساسات سے متعلق تھا۔ اُن کی نظم ’’علی بن متقی رویا‘‘ اُردو کی اہم نظموں میں گنی جاتی ہے۔ جب شاعر بے حد افسردہ ہو کر رکھتا ہے:
’’پرانی بات ہے
لیکن۔۔۔
یہ پہلا دن تھا مسجد میں کوئی عابد نہیں آیا
علی بن متقی رویا۔۔۔‘‘
تو قاری کے دل میں ایک گہرا زخم ابھر آتا ہے۔
زبیر رضوی کی خوبصورت غزلوں اور نظموں کے چند اقتباسات آپ کی آنکھیں نم اور روح تازہ کرنے کے لیے کافی ہیں:
…
پرندے
فضاؤں کی لہروں پہ
ننھے سفینے کی مانند بہتے ہوئے
وسعتیں ناپتے ہیں (موسم کا المیہ)
…
تم کس سوچ میں ڈوب گئی ہو؟
ہاتھ کا پتھر
پانی کے سینے پر مارو
میں پانی ہوں (تم کس سوچ میں)
…
زندگی تجھ سے مل کر زمانہ ہوا
آ تجھے آج ہم میکدے لے چلیں
رات کے نام ہونٹوں کے ساغر لکھیں (ایک نظم)
…
دونوں ہم پیشہ تھے، دونوں میں ہی یارانہ تھا
قاتلِ شہر سے پر ربط رقیبانہ تھا
…
وہ کھلے جسم پھرا شہر کے بازاروں میں
لوگ کہتے ہیں یہ اقدام دلیرانہ تھا
…
وضع اربابِ جنوں کھنچ کے ملے ہے ہم سے
پھول ٹانکے ہیں نئے ہم نے گریبانوں میں
…
چمکتی دھوپ تم اپنے ہی دامن میں نہ بھر لینا
میں ساری رات پیڑوں کی طرح بارش میں بھیگا ہوں
بہت ساری نظمیں اور غزلیں اور سب ہی اپنی قدر و قیمت میں بیش بہا۔ اے کاش! اُردو کے چاہنے والے ان کی صحیح قدردانی کریں۔ زبیرؔ نے اپنے موقر رسالے ’’ذہنِ جدید‘‘ میں میری شاعری اور میرے شکیبؔ جلالی کی شاعری پر مضمون کو مناسب وقار سے شائع کیا۔ یہ اُن کی محبتیں تھیں۔ اُنھوں نے نثر میں بھی ایک وقیع سرمایہ چھوڑا ہے، اُن کی کتابیں اور مضامین ذہن و دل کے دروازے وا کرتے ہیں۔ ایم ایف حسین، زہرہ سہگل، محمد رفیع، ستیش گجرال، مناڈے، وارث علوی، خوشونت سنگھ، وحیدہ رحمن اور نہ جانے اور کئی ہستیاں ان کے مضامین کا موضوع بنیں۔ زبیرؔ رضوی اُردو کے ایک اہم ادیب و شاعر تھے، اللہ ان کو فردوسِ بریں میں مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل دے۔۔۔
٭٭٭