خداوند تو ہمیں اس آگ سے ہمیشہ محفوظ رکھ۔
کیوں؟
یہ انسانوں اور ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔
آ گ تو انسان جلاتے ہیں ، لگاتے ہیں ، بجھاتے ہیں۔
اچھا یہ بھی انسان ہیں؟
سنو! سب سے اچھا انسان وہ تھا جس نے آگ کا مثبت انداز میں استعمال کیا تھا ۔ صرف وقت ضرورت خوراک پکانے کے لیے۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آگ انسان کی اشد ضرورت ہے ۔ مثبت بھی اور منفی بھی۔
تم کچھ بھی کہہ لو … میں آج بھی اللہ سے ، آگ سے پناہ مانگتا ہوں۔
تمھاری کیا بات ہے ۔ آگ کی دھونی رمائے بیٹھے ہو اور آگ سے پناہ مانگتے ہو۔
تمھیں تو آگ پوجنے والے اچھے لگتے ہیں… پنڈت اوم پرکاش
نہیں شیخ خضر حیات… ہم تو نار اور ناری دونوں سے بس شکتی چاہتے ہیں۔
پنڈت جی … جل کر…
نہیں شیخ خضر حیات… مل کر… شکتی بڑا وشواش ہے… اور میاں جی تم تو نرک کی آگ سے ڈرا وادیتے ہو…
ہاں پنڈت جی … نرک میں آگ ہی آگ ہے ۔ گناہ گاروں کے لیے …
شیخ صاحب تمھاری باتیں تم جانو بس ہمیں تو اتنا پتہ ہے۔
جانے کن سازشوں میں ہیں مصروف
آگ پانی ہوا کئی دن سے
پنڈت جی … جی چاہتا ہے کہ تمھارے ذوق جمال کی داد دوں یا نہ دوں ! تمھارے یہاں تو پانی بھی ’’ بٹا‘‘ ہوا ہے … اور ہوا…
شیخ جی… تمھاری باتیں سن کر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ پنڈت ہمیشہ سے کم عقل ہی رہے۔
ارے نہیں پنڈت جی … پنڈت تو گیتی کا سرمایہ ہیں ۔ بھگوان کے سر سے پیدا ہونے والی مخلوق کیسے کم عقل ہو گی … ناں بھئی ناں… عقل بھی پنڈتوں کو ہی وافر ملتی ہے۔
میاں شیخ جی ۔ پنڈت عقل مند کہاں … یہ تو اپنی ’’ جاتی‘‘ کو بھی پھیلنے نہیں دیتے ۔ تم ہی کہو ارض ہندوستان میں پنڈت زیادہ کہ شودر!
پنڈت جی … یہ بات تم نے کیسے کہہ دی ۔ اقلیت ہمیشہ خوش رہتی ہے ۔ کم نفری کم مسائل۔
شیخ جی… نفری بڑھ جائے تو ’’ نفرت‘‘ پیدا ہوتی ہے ۔ یوں ’’ نفرت‘‘ کا کاروبار شروع ہو جاتا ہے ۔ اکثریت ہمیشہ اقلیت کو کم تر جانتی ہے ،یہی نفرت ہے۔
پنڈت جی ، ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے ۔ اکثریت اقلیت کا خاص خیال رکھتی ہے ۔ اس کے جملہ عمرانی و معاشی حقوق کی حفاظت کرتی ہے ۔ عبادت گاہوں کا خاص خیال رکھتی ہے ۔ ہر ایک کو ’’ انسان‘‘ جانتی ہے۔
شیخ صاحب! جھوٹی تاریخ میں یہی لکھا ہے ۔ اس لیے کہ تاریخ کو ہمیشہ اکثریت کی ’’ خاموش‘‘ حمایت حاصل ہوتی ہے۔
پنڈت جی… تاریخ سراسر جھوٹ نہیں ہوتی ، تاریخ کو بھی انسان لکھتے ہیں ۔ انسان میں بشری خرابیاں موجود ہوتی ہیں ، ہم نے ہمیشہ سچی تاریخ رقم کی ہے۔
شیخ جی… اس پر ’’ سومناتھ‘‘ بھی فتح کرتے ہو۔ پھر گیروے کپڑے بھی پہنتے ہو ۔ ماتھے پر ’’قشقہ‘‘ بھی کھینچتے ہو… ہماری ’’ ناریوں‘‘ کو داخل حرم بھی کرتے ہو…
پنڈت جی … ایسا بھی ہوا ہے مگر پس پردہ وہی خاموش حمایت بھی تو تھی … ہم نے تو ہمیشہ رواداری برتی ہے۔ سماجی میل میلاپ محبت کاپہلا سنگ میل ہے ۔ انسانیت سب سے اعلیٰ و ارفع چیز ہے ۔ انصاف ہر ایک کے لیے… محبتوں کے نئے در واکرتا ہے ۔ ہمارا بے مثال نظام عدل انسان دوستی اور بلا امتیاز سب سے محبت… بس یہی ہمارا سرمایہ ہے … بس یہی ہماری تہذیب ہے … محبت … محبت… محبت…
شیخ جی … تم اپنی محبت کا ذکر ہی کرتے ہو … ہمارے یہاں کیا محبت کا کال ہے … ہمارے یہاں ’’ جیو ستھیا‘‘ پاپ ہے … ہم تو جانوروں تک سے محبت کرتے ہیں…
پنڈت جی … رات سمے جھوٹ مت بولو۔
شیخ جی… اپنے آپ کو ’’ پاک دامنی‘‘ میں مت تولو، آہستہ بول … دھیرے دھیرے رات دریا کی طرح بہے جا رہی ہے ۔ لاؤ آگ کو اور ذرا تیز کریں… تپش سے بھی تو ’’ شکتی‘‘ ملتی ہے…
پنڈت جی … اس آگ کو گلزار بناؤ تو جانیں…
میاں جی… کہو تو یہ چمتکار بھی دکھلا دوں۔
پنڈت جی … اپنی سی کر گزرو…
میاں جی … آگ اور تیز کرو…
پنڈت جی …سوکھی لکڑیاں بہت کم ہیں۔
میاں جی …تیزآگ کو بجھانے کا مزہ ہی علیحدہ ہے۔
پنڈت جی … بس یہ آگ بجھانی ہے … سرکش چیزیں بھی ٹھنڈی ہو سکتی ہیں۔
میاں جی …اس آگ کو تو میری گڑوی کا پانی ہی بجھا دے گا۔
پنڈت جی …گڑوی کے پانی سے آگ تو ہر کوئی بجھا سکتا ہے … پھر تمھارا چمتکار؟
میاں جی … میرا چمتکار ’’ پانی ‘‘ ہے۔
پنڈت جی …کون سا پانی … سادہ ، ہلکا ، بھاری ، منرل…
شیخ صاحب… آگ پانی ہی بجھاتا ہے ۔ اس کا تمھیں بخوبی اندازہ ہے۔
پنڈت جی … یہ برسوں پرانی بات ہے ۔ سنو…
پرانی بات ہے دل اور دیا جلانے کی
جدید دور ہے اب گھر جلائے جاتے ہیں
شیخ صاحب ! ایک باریک نکتہ آپ کے ذہن میں نہیں آیا ہے ۔ پانی آگ کی ’’ گرمی ‘‘ کو ختم کرتا ہے۔ بس آگ میں خطرناک چیز یہی گرمی ہے … جس سے ہر چیز جھلس جاتی ہے۔
واہ پنڈت جی … آگ سے ’ جاتی‘‘ جھلس جاتی ہے ۔ واہ کیا خیال افروز بات کی ہے آپ نے ۔
سنو ہر گرم چیز آخر ٹھنڈی ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ ہر ٹھنڈی چیز گرم ہو جاتی ہے۔
شیخ جی ! ابتدا گرمی ، انتہا سردی… دن ہو یا رات وہی گرمی سردی کسی کا نام سورج، کسی کا نام چاند…
پنڈت جی… یہی تو جنتر منتر ہے … نقطے پہ نقطہ ، دانے پہ دانا ، ڈبیا میں ڈبہ، ڈبے میں دھاگہ۔
شیخ جی… ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں … جس کا ہاتھی اس کا ناؤں۔
پنڈت جی…انسانی علم سراسر مغالطہ ہے …
شیخ جی…راہ عشق میں ایسے سخت مقامات ہی تو آتے ہیں ۔
پنڈت جی… قدیم روایات ہی تہذیب کا قیمتی’’ جزو‘‘ بنتی ہیں۔
شیخ جی… ہر تہذیب اپنے ’’ عصر‘‘ کی گواہ ہوتی ہے … یہ آگ ہمارے ابتدا کی ساتھی ہے۔
پنڈت جی… یہ بہت سوں کی ابدی رفیق بھی تو ہے ۔ یہ بتلاؤ اس آگ کااصل ٹھکانہ کہاں ہے؟
شیخ جی…منش کے اپنے من میں…
پنڈت جی… من کی آگ بہت بیاکل کرتی ہے۔
شیخ جی… یہی آگ آتما کی دشمن ہے … کہیں یہ ہجر ہے … کہیں وصال ہے… کہیں جذبات اور کہیں جنوں ہے … کہیں یہ پاگل پن کی آخری نشانی…
پنڈت جی…دنیا میں جنگ بھی آگ ہے ، لاکھوں کا روڑا کر دیتی ہے…
شیخ جی… میںنے تو یہ بھی سنا ہے کہ آگ تو ایٹم بھی ہوتی ہے۔
پنڈت جی… آگ کے معاملے میں منش خود ایٹم بم ہے ۔ خود ہی بناتا ہے خود ہی جلاتا ہے۔
شیخ جی…یوں کہو کہ ہر آگ کو بڑھاوا منش ہی دیتا ہے۔
پنڈت جی… اس آگ سے ڈر کر منش اسے ’’ سجدہ‘‘ کرلیتا ہے…
شیخ جی… کچھ آپ ہی کہو … آگ تو بوتل میں بھی بھری ہوتی ہے۔
پنڈت جی… ساری آگ تو ذہنوں میں بھری ہوتی ہے۔
شیخ جی… پہلے آگ دلوں میں لگائی جاتی ہے پھر دیگر دلوں میں بھڑکائی جاتی ہے ۔ تم ہی کہو شیخ جی تعزیے کے جلوس پر رنگ کون پھنکواتا ہے ۔ مندر کے سامنے ڈھول کون بجاتا ہے۔ لڑکی ہندو کی بھاگے … الزام مسلمان پر آتا ہے…
پنڈت جی… یہ کھیل سب وہ کھلاتا ہے کہ جو خود آگ سے پیدا ہوا ۔ دنیا بھر میں آگ ہی آگ ہی بھڑکاتا ہے … ہر شریر میں آگ وہی بھرتا ہے… جسے منش روز اگلتا ہے…
شیخ جی… اس لیے آگ ہماری دشمن ہے۔
پنڈت جی… ہم آگ کے دشمن ہیں ، سنو باتیں کرتے بہت رات بیت گئی ہے ۔ اس سمے آؤ کھل کر ایک دوسرے کو جانیں … آج کی رات کیسی باتوں میں بیت رہی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اب ہمیں اپنے نقاب الٹ دینا چاہیے۔
شیخ جی… میرا بھی یہی خیال ہے کہ اب ہمیں کچھ چھپانے سے فائدہ نہیں ہو گا … اس وقت ہم دونوں ڈیوٹی دے رہے ہیں ۔ ہمارا روپ بہروپ سب سامنے آنے کو ہے ۔ جلد بازی کی ضرورت نہیں ۔ سکون اور شانتی سے ہم دونوں کو ایک ہی فیصلہ کرنا ہے۔
فیصلہ بعد میں ہوگاپہلے آپ پنڈت اوم پرکاش اپنا حال سنائیں۔
میں … مسلمان ہوں اور ادھر سے آیا ہوں ۔ میرا نام ثروت اقبال ہے۔
میں اصلی پنڈت ہوں دیا شنکر… یہاں مسلمانوں میں کام کرتا ہوں۔
اس حقیقت پسندانہ رویے کے بعد یہ طے کر لیں کہ اب زندہ کسے رہنا ہے۔
پنڈت دیا شنکر ہمارا شعبہ ہی ایسا ہے ، یہاں صرف روپ بہروپ ہے ۔ سنگ دلی ، مفاد پرستی اور مشن پورا کرنے کی آرزو…
ہاں ثروت اقبال… اس کے علاوہ حب وطن بھی ہے … مقدس دھرتی کی سیوا بھی ہے اور ناپاک عزائم کی تکمیل… اپنے اپنے پستول نکالنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم آج اس جگہ بیٹھے ہوئے ہیں کہ جہاں سے یکساں فاصلے پر ادھر ادھر کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں۔
پنڈت دیا شنکر… گولی کسی کی دوست نہیں ہوتی …
ثروت اقبال… تم بھی سمجھ لو طاقت کا نام ’’ گولی‘‘ ہے کڑوی گولی۔
پنڈت دیا شنکر… اسی لیے بہتر ہے کہ ہم گولی کی زبان میں بات نہ کریں تو یہی بہتر راستہ ہے۔
ہاں ثروت اقبال… اپنے گھر وں کو لوٹتے ہوئے بدمعاشی اچھی نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنے من کی آگ کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھنا ہو گا۔ ایک دوسرے سے پھر ملیں گے اگر موقع ملا … تو …
اپنی اپنی اور بڑھتے ہوئے … جب دونوں چلنے لگے تو اپنے ہیرو کا استقبال آگ اگلتی بندوقیں کر رہی تھیں۔
_______________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...